• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

خودکشی

عمر السلفی۔

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 22، 2020
پیغامات
1,608
ری ایکشن اسکور
41
پوائنٹ
110
کچھ سنجیدہ باتیں
.
کل خودکشی کے عنوان پر کچھ مضامین پڑھ رہا تھا. بعض علماء کا موقف ہے کہ خودکشی نہ صرف حرام ہے بلکہ ناقابل معافی گناہ ہے. خودکشی کے مرتکب فرد کا ٹھکانہ ابداً آباد دوزخ ہے.
کچھ کا عقیدہ ہے کہ توحید و رسالت کے ماننے والے کے لیے کچھ سزا کے بعد جنت ضرور ہے. چونکہ شرک واحد ناقابل معافی گناہ ہے. اس کے علاوہ کسی جرم پر اتنی سخت وعید نہیں.
.
دوران تحقیق جتنی روایات نظر سے گزری ہیں ان میں ایک چیز مشترک ہے
جس خودکشی کو ناقابل معافی گناہ قرار دیا گیا ہے وہ فطرت کی طرف سے ہونے والے مسائل سے اکتا کر خود کشی کرنا ہے.
جیسے ایک حدیث میں ہے کہ ایک شخص کو دوران جنگ اتنے زخم لگے کہ برداشت مشکل ہو گیا. اس نے خود کو تیر مار کر اپنی جان لے لی.
یہاں اس بندے نے خود سے یہ بات سمجھ لی کہ اب میرا بچنا مشکل اور لڑنا ناممکن ہے. لہٰذا میں خود کو ختم کر لوں.
یہ تو ہوا فطرت کو چیلنج. اب آتے ہیں دوسری طرف
.
گو کہ ہر طرح کی خودکشی حرام ہے. اور یہ کبیرہ گناہ کا عمل ہے.
مگر مگر مگر....
.
ہمارے ہاں کثرت ان لوگوں کی ہے جو قدرت کی طرف سے آئے مسائل سے اکتا کر خودکشی نہیں کرتے.
.
بلاشبہ اپنی جان پر ظلم حرام ہے.
مگر کسی فرد کا مذاق بنانے پر بھی تو یہی حکم ہے.
اگر کوئی فرد بشری تقاضوں کے تحت غلطی کر بیٹھے تو اسے شریعت کی سزا سے کوئی مسئلہ نہیں. مگر جو سزا اسے معاشرہ دے رہا ہے وہ ناقابل برداشت ہے.
معاشرے کا اسے سپائل کرنا، اسے حقیر جاننا کیا یہ حرام نہیں؟
.
پیٹ پیچھے غیبت کرنا بھی تو حرام ہے.
.
راہ چلتے جملے کسنا بھی تو حرام ہے.
یہاں مجھے وہ واقعہ یاد آیا جب ایک زانیہ سزا پا چکی اور اس کے خون کے قطرے ایک صحابی کے لباس پر لگے. انھوں نے اسے نجس کہا تو ان کو منع کیا گیا.
جانتے ہیں کیوں..
کیونکہ طے کردہ سزا برداشت کرنا اتنی تکلیف نہیں دیتا. جتنی تکلیف ناکردہ جرم کی سزا میں ملتی ہے.
.
چور کی سزا شریعت میں ہاتھ کاٹنا ہے. مگر ہمارے معاشرے میں اس سزا کا نفاز ہو جائے تو کیا وہ چور جو اپنی غلطی کی سزا کاٹ چکا ہے دوبارہ زندہ رہ سکتا ہے؟
.
نہیں جی بالکل نہیں. اس کی ایک خطا جو شاید رب معاف کر چکا میرا معاشرہ معاف نہیں کرے گا.
.
کسی لمحے کی غلطی سے پیدا ہونے والا معصوم اس معاشرے میں نطفہ حرام ہی کہا جائے گا. حالانکہ اس میں اس کی کوئی غلطی نہیں.
نہ ہی شریعت نے اسے مجرم کہا ہے. ایسے طعنوں سے تنگ آ کر وہ مجرم بنے گا یا خودکشی کرے گا.
.
اس معاشرے میں کوئی فرد اگر غلطی کر لے یا اس کے نام پر کوئی بندہ دھبہ لگا دے تو اس کے پاس اس کے علاوہ راستہ ہی نہیں بچتا کہ خودکشی کرے.
.
یہ حالات فطرت نے نہیں بنائے مگر یہ حالات ہمارا معاشرہ بنا رہا ہے.
.
میں یہ بات تسلیم کرتا ہوں کہ ان تمام حالات سے گھبرا کر خود کی جان لینا حرام ہے.
.
مگر اس حرام کام کا موجب بنے والے تمام افراد یقیناً اس شخص سے زیادہ بڑے مجرم ہیں جس نے خودکشی کی.
.
یقین جانیے ہمارے معاشرے میں خودکشی کو کنڈیم تو کیا جاتا ہے مگر ان محرکات پر اس طرح سے بات نہیں کی جاتی.
.
کتے کی موت مرا
حرام کی موت مرا
اپنے آپ سے ظلم کر گیا
جی اس کے لیے کیا دعا کرنی مرا تو حرام موت ہی
.
یہ تمام جملے کسنے والے کبھی اپنے گریبان میں نہیں جھانکتے کہ وہ خود کیا کرتے رہے. ان میں سے اکثریت انہی کی ہوتی ہے جنہوں نے اسے اس حرام کے لیے مجبور کیا ہوتا ہے.
.
یقین کیجیے
خودکشی کرنے والا فقط اتنا سوچتا ہے کہ خودکشی کے بعد میں اس جرم کی طے شدہ سزا پاؤں گا. زمانے کی سزا سے جان چھوٹ جائے گی.
ویسے بھی جذبات اور احساس کا قتل روح کے قتل سے مشکل کام ہے.
جب معاشرے نے اس کے جذبات اور روح کا قتل کر دیا تو اس کے لیے اپنے جسم کا خاتمہ کوئی بڑی بات نہیں تھی.
.
واللہ اس معاشرے کو اپنے افکار و اعمال پر غور کرنا ہوگا. ورنہ ہر ہونے والا قتل خودکشی کہہ بھلا دیا جائے گا.
.
عجیب لوگ ہیں کیا خوب منصفی کی ہے
ہمارے قتل کو کہتے ہیں خودکشی کی ہے.
.
والسلام
نعمان علی ہاشم کی فیسبک وال سے
#نعمانیات
(نوٹ: تحریر خودکشی کے مرتکب چند افراد کے لواحقین سے نشست کا نتیجہ ہے)
 
Top