• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دمشق! روئے زمین پر جہاد کا مرکز ہے از قلم: حسین بن محمود حفظہ اللہ

شمولیت
فروری 07، 2013
پیغامات
453
ری ایکشن اسکور
924
پوائنٹ
26
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
دمشق! روئے زمین پر جہاد کا مرکز ہے
از قلم: حسین بن محمود حفظہ اللہ
ترجمہ: انصار اللہ اردو


شام کے حوالے سے گفتگو ایک افسردہ گفتگو ہوتی ہے جوغموں سے بھری ہوئی ہے ۔۔۔


اس گفتگو میں تاریخ، انسان، جنگ، واقعات، منصوبوں، سیاست، علوم، تحریض، بہادری، خوبصورتی، ذہانت، چالاکی، ایجادات، تخلیق اور تجدید پرگفتگو شامل ہوتی ہیں۔

شام۔۔۔۔ اور آپ کیا جانیں کہ شام کیا ہے!!

روئے زمین کے بہترین سپاہی

حضرت عبداللہ بن حوالۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم لوگ عنقریب کچھ فوجی دستے ترتیب دو گے؛ شام کی فوج، عراق کی فوج، اور یمن کی فوج۔‘‘ تو عبداللہ ؓ نے کہا:’’اے اللہ کے رسولﷺ میرے لئے ایک دستہ چن لیں!‘‘ تو آپﷺ نے فرمایا: ’’شام جاؤ، اور جو بھی ایسا نہیں کر سکے وہ یمن جائے، جیسے کہ اللّٰہ سبحانہ و تعالیٰ نے میرے لئے شام اور اس کے لوگوں کو پسند کیا ہے۔‘‘
(احمد، ابو داؤد اور حاکم نے اسے صحیح کہا ہے اور اس پر امام الذھبی بھی متفق ہیں، اور البانی نے بھی فضائل الشام میں اسے صحیح قرار دیا ہے، اور انہوں نے کہا کہ یہ بالکل صحیح ہے۔فائدہ:ربیعہ نے کہا :میں نے ابو ادریس سے یہ حدیث سنی ہے اور وہ کہہ رہے تھے: ’’جس کو بھی اللہ پسند کر لے اسے کوئی بھی بھٹکا نہیں سکتا۔‘‘)

شام۔۔۔ ایمان اور علوم کی سرزمین
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: ’’میں نے دیکھا کہ میرے تکیے کے نیچے سے کتاب کا ایک بنیادی حصہ مجھ سے واپس لیا جا رہا ہے۔میری نظروں نے اس کا تعاقب کیا ، ادھر سے بہت نورپھوٹ رہا تھا۔ میں نے دیکھا کہ وہ شام میں رکھ دی گئی ہے۔پس جب فتنے رونما ہوں تو ایمان شام میں ہوگا‘‘۔ (اس حدیث کو ابو نعیم نے الحلیۃ میں، ابن عساکر نے، الطبرانی نے الکبیر میں اور الاوسط اور الحاکم نے صحیح قرار دیا ہےاور امام ذہبی نے حاکم کی تصحیح کی موافقت کی ہے اور اس کو البانی نے فضائل الشام میں صحیح کہا ہے)

سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ (ﷺ) نے فرمایا: ’’میں نے کتاب کا ایک بنیادی حصہ دیکھا، جو کہ میرے تکیے سے نکالا گیا تھا اور میرے سامنے بہت نور تھا حتیٰ کہ وہ شام میں مقیم ہوا ‘‘۔ (البیھقی نے اس کو دلائل النبوۃ میں ذکر کیا ہے، اور اس کو البانی نے صحیح الجامع میں صحیح قرار دیا ہے)

اسی زمین پر محشر اور منشر واقع ہوگا
سیدنا ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: ’’شام وہ زمین ہے جہاں آخری بار جمع کیا جائے گا اور جہاں محشر سجے گا ‘‘۔ (احمد ، ابن عساکر اور حاکم اور انہوں نے اسے صحیح کہا اور امام ذہبی نے حاکم کی تصحیح کی موافقت کی ہے اور اس کو البانی نے فضائل الشام میں اور صحیح الترغیب میں صحیح کہا)

معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: ’’لوگوں کو وہاں جمع کیا جائے گا اور(تم پیدل اور سواری پراور اپنےمونہوں کے بل چلتے ہوئے جمع کیے جاؤگے) (آپ "ﷺ") نے اپنی انگلی سے شام کی طرف اشارہ کیا‘‘ (احمد، ترمذی اور حاکم- البانی نے اسے صحیح الجامع میں صحیح قرار دیا)

سالم بن عبداللہ نے اپنے والد ابن عمر رضی اللہ عنہ سے سنا کہ آپ (ﷺ)نے فرمایا: ’’آخری وقتوں میں حضرموت سے آگ بھڑکے گی، اور وہ لوگوں کو جمع کرے گی۔‘‘ صحابہ اکرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) نے پوچھا:’’اے اللہ کے رسولﷺ! تو آپﷺہمیں اس وقت کیا کرنے کا حکم دیتے ہیں؟‘‘۔ آپﷺنے کہا:’’شام چلے جاؤ‘‘ (احمد، ابن حبان اورترمذی نے اس کو صحیح قرار دیا، اور اس کو البانی نے بھی فضائل الشام میں صحیح قرار دیا)

ہجرت کے لئے بہترین جگہ
سیدنا عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے رسول اللہﷺ سے سنا، آپ ﷺ فرما رہے تھے: ’’ایک وقت آئے گا جب ہجرت پر ہجرت ہونگی، اور بہترین لوگ وہ ہونگے جو ابراہیم علیہ السلام کے (شام کی طرف) ہجرت کریں گے اور زمین پر بدترین لوگ وہ ہونگے، جن کوان کی اپنی زمینیں نکال باہر کریں گیں اور اللہ ان سے بری ہوگا (یعنی اللہ کو انکا ہجرت کرنا پسند نہیں ہوگا اس لئے ان کو یہ توفیق ہی نہیں ملے گی- ابن کثیر)، اور آگ ان کو بندروں اور خنزیروں کے ساتھ جمع کرے گی‘‘ (ابو داؤد، حاکم، احمد، احمد شاکر:اس کی سند صحیح ہے اور البانی نے اس کو صحیح ترغیب اور ترہیب میں صحیح لغیرہ قرار دیا)

ہمارے اندر کوئی خیر نہیں جب اہل شام بگڑ جائے
سیدنا قرۃ بن ایاس المزنی سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’اگر شام کے لوگ مفسد بن جائیں تو (جان لو کہ) تم میں کوئی خیر نہیں ہے‘‘۔ (احمد، ابن ماجہ، ابن حبان، الطیالسی اور ترمذی میں مذکور ہے اور انھوں نے کہا کہ یہ حدیث حسن صحیح ہے، البانی نے اس کی سند کو فضائل الشام میں صحیح کہا ہے اور ترمذی میں بھی)۔

اہل حق
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث منقول ہے، کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’ مغرب کے لوگ ہمیشہ حق پر ہی رہیں گے یہاں تک قیامت قائم ہوجائے گی‘‘۔ (مسلم، وغیرہ)۔۔۔ البانی نے کہا کہ’’مغرب کے لوگوں سے مراد شام کے لوگ ہیں‘‘، جیسا کہ امام احمد نے کہا تھا اور اس کی تائید شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے فضل الشام واھلہ میں کی ہے اور اس میں انھوں نے اس کی دو وجوہات بیان کیں ہیں:

اول: یہ کچھ احادیث میں واضح طور پر موجود ہے۔

دوم: آپﷺ کی زبان کے مطابق،جس شہر کے لوگ اہل مغرب تھے؛ وہی اہل شام تھے (دیکھئے البانی کی فضائل الشام و دمشق)

سیدنا ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے ایک حدیث مروی ہے کہ نبی ﷺنے فرمایا: ’’میری امت کا ایک گروہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ کے حکم سے قتال کرتا رہے گا، ان کو کسی کی ملامت سے کوئی نقصان نہیں ہوگا، وہ اپنے دشمنوں سے لڑتے رہیں گے، اللہ لوگوں کے دلوں کو ان سے متنفر کر دے گا تاکہ وہ خود ان پر اپنی رحمتیں برسائے، حتیٰ کہ آخری وقت آجائے گا، جیسے کہ سیاہ تاریک رات، وہ لوگ اس سے ڈریں گے تو ان کو ڈھال دے دی جائے گی‘‘، اور نبیﷺ نے کہا: ’’وہ اہل شام ہونگے‘‘ پھر نبیﷺ نے اپنی انگلی سے شام کی طرف اشارہ کیا، یہاں تک کہ وہ تھک گئے۔ (صحیح : سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ)

مبارک زمین
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ سے مذکور ہے کہ رسول اللہ ﷺ فجر کی نماز پڑھنے کے بعد لوگوں کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’اے اللہ ہمارے مدینہ میں ہمیں برکتیں نصیب کر اور ہمیں ہمارے رائی رائی میں برکتیں نصیب کر! ہمارے مکہ میں ہمیں برکتیں نصیب کر! ہمارے شام میں ہمیں برکتیں نصیب کر!‘‘ ایک آدمی اٹھا اور کہا کہ ’’اے اللہ کے رسول ، اور ہمارے عراق؟!‘‘ نبی ﷺخاموش رہے، آدمی نے دوبارہ اٹھ کر کہا: ’’اور ہمارا عراق‘‘، آپ ﷺخاموش رہے اور پھر کہا :-’’اے اللہ! ہمیں ہمارے مدینہ میں برکتیں نصیب کر اور ہمارے ہر ہر ذرے میں برکتیں نصیب کر! ہم پر شام میں برکتیں نازل کر، اے اللہ ہمیں برکتیں ہی برکتیں نصیب کر۔۔۔‘‘ (شیخ البانی نے اس کو فضائل الشام ودمشق میں صحیح کہا )۔

ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’اے اللہ ہمارے شام اور یمن پربرکتیں نازل کر!‘‘، لوگوں نے کہا:’’اے اللہ کے رسول! اور ہمارا نجد!‘‘، آپ ﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا اور دوبارہ کہا:’’اے اللہ ہمارے شام اور یمن پربرکتیں نازل کر!‘‘، پھر لوگوں نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! اور ہمارا نجد!‘‘، آپﷺ نے کوئی جواب نہیں دیا اور دوبارہ کہا: ’’اے اللہ ہمارے شام اور یمن پر برکتیں نازل کر!‘‘، پھر لوگوں نے کہا: ’’اے اللہ کے رسول! اور ہمارا نجد!‘‘، آپﷺؐ نے پھر فرمایا: ’’ایک وقت آئے گا کہ جب وہاں بہت زلزلے اور فتنے آئیں گے۔۔ اور پھر کہا کہ۔۔پھر وہیں سے سب سے بڑا شیطان بھی نمودار ہوگا‘‘ (اس کو امام ترمذی نے منقول کیا اور کہا کہ یہ حسن غریب ہے، اور اس کو البانی نے صحیح الترغیب و الترھیب میں صحیح کہا اور نجد ادھر عراق ہے، بقول البانی اور دیگر محدثین )

بہترین زمین اور بہترین بندے
حضرت عبداللہ بن حوالۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انہوں نے آپﷺ سے کہا: ’’اے اللہ کے رسولﷺ!آپ مجھے بتائیں کہ میں کس علاقے میں رہوں، اگر مجھے پتا ہو کہ آپﷺہمارے ساتھ لمبے عرصے تک رہیں گے، تو میں آپﷺ کی رفاقت کے علاوہ کہیں اور رہنے کو ہرگز ترجیح نہیں دوں‘‘۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا : ’’شام کی طرف جاؤ، شام کی طرف جاؤ ، شام کی طرف جاؤ۔‘‘ پس جب آپﷺ نے دیکھا کہ مجھے شام پسند نہیں ہے تو آپﷺ نے کہا: ’’کیا تم جانتے ہو کہ اللہ سبحانہ وتعالیٰ(اس کے بارے میں) کیا فرماتا ہے؟‘‘ پھر آپﷺنے کہا: ’’شام میری زمینوں میں سےوہ منتخب کردہ زمین ہے جہاں میں اپنے بہترین عابدوں کو داخل کرتا ہوں۔‘‘ (بحوالہ ابو داؤد اور احمد؛ اس کی سند صحیح ہے)

اور واثلۃ بن الاسقع رضی اللہ عنہ سے مروی ہےکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’شام کی طرف جاؤ، کہ وہ اللہ کی زمینوں میں سے بہترین زمین ہے، اور وہ اُدھر اپنے بہترین غلاموں کو لے آتا ہے‘‘ (الطبرانی، اور اس کو البانی نے صحیح الجامع میں صحیح قرار دیا ہے)

مومنین کا گھروجائے مسکن
سلمۃ بن نفیل الکندی رضی اللہ عنہ نے کہا کہ جب میں نبیﷺ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا تو ایک آدمی آپﷺ کے پاس آیا اور کہا، ’’اے اللہ کے رسولﷺ! گھوڑوں کی لگام کو چھوڑ دیا گیا ہے، اور ہتھیار ڈال دئیے گئے ہیں اور لوگ کہہ رہے ہیں کہ اب جہاد باقی نہیں رہااور قتال ختم ہوگیا ہے‘‘، آپﷺ نے فرمایا : ’’وہ جھوٹ بول رہے ہیں!قتال تو ابھی شروع ہوا ہے! میری امت میں ایک گروہ حق کے ساتھ قتال کرتا رہے گا اور اللہ کچھ لوگوں کے دلوں کو پھیر دے گا اور ان کے ذریعے ان (مجاہدین) کو فائدہ پہنچائے گا حتیٰ کہ آخری لمحات آجائیں اور اللہ کا وعدہ پورا ہو جائے اور گھوڑوں کی پیشانیوں پر قیامت تک کے لئے خیر ہے۔ اور مجھے وحی کی جا رہی ہے کہ میں جلد ہی تم لوگوں سے جدا ہو جاؤں گا اور تم لوگ میرے بعد آپس میں لڑو گے اور ایمان والوں کا گھر شام ہے‘‘ (اس کو نسائی نے ذکر کیا اور البانی نے اس کو صحیح کہا)

دجالوں کی ہلاکت کی زمین
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے فرمایا: ’’ایمان دائیں جانب ہے اور کفر مشرق (نجد) کی جانب ہے۔ گھوڑوں اور اونٹوں والے لوگوں (عرب کے دیہاتیوں) میں غرور و تکبر پایا جاتا ہے، اور مسیح الدجال مشرق سے آئے گا، اور وہ مدینہ کی جانب پیش قدمی کرے گا، یہاں تک کہ وہ احد پہاڑوں کے پیچھے تک پہنچ جائے گا، پھر فرشتے اسے شام کی طرف بھگا دیں گے، اور پھر ادھر اسے ہلاک کر دیا جائے گا‘‘ (ترمذی؛ اور اس کو البانی نے صحیح الجامع میں صحیح قرار دیا ہے)

غنائم اور رزق کی سرزمین
ابو امامۃ الباھلی سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے کہا: ’’اللہ نے میرا رخ شام کی طرف کیا ہے اور میری پیٹھ یمن کی طرف اور مجھے کہا ہے : اے محمدﷺ! میں نے تمہارے سامنے غنیمتوں اور رزق کو رکھا ہے اور تمھارے پیچھے مدد رکھی ہے‘‘ (ترمذی اور اس کو البانی نے صحیح الجامع میں صحیح کہا ہے)

أما دمشق ، وما أدراك ما دمشق !!
جہاں تک دمشق کا تعلق ہے، تو آپ کو کیا پتا ہے کہ دمشق کیا ہے!!

مسلمانوں کے لئے جہاد کا مرکز اور بہترین زمین
سیدنا ابو الدرداء رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپﷺ نے کہا: ’’عظیم جنگ (یوم ملحمۃ) والے دن مسلمانوں کا شہر دمشق کے ساتھ زرخیز نخلستان میں ہوگا، اور وہ شام کے بہترین شہروں میں سے ہے۔‘‘ ایک اور روایت میں آتا ہے کہ ’’عظیم جنگ (یوم ملحمۃ) والے دن، مسلمانوں کا شہر زرخیز نخلستان میں ایک شہر دمشق ہوگا۔ وہ مسلمانوں کے لئے اس دن سب سے زیادہ مناسب جگہ ہوگی۔‘‘ (ابو داؤد، احمد، حاکم اور اس کی سند کو صحیح کہا گیا ہے اور امام ذہبی نے امام حاکم کی موافقت کی ہےاور البانی نے اسے فضائل الشام میں صحیح قرار دیا ہے)

سیدنا عوف بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: ’’میں غزوہ تبوک کے دوران نبیﷺ کے پاس تشریف لے گیا، جب وہ چمڑے کے خیمے میں مقیم تھے اورآپﷺ کو سلام کیا، (اس کے بعد) آپﷺ نے کہا: ’’عوف!‘‘، میں نے کہا: ’’جی رسول اللہﷺ‘‘، آپﷺنے کہا :’’اندر آ جاؤ‘‘، پھر آپﷺ نے فرمایاقیامت سے پہلے چھ چیزیں گننا:۔۔۔۔ اور چھٹی چیز:تمہارے اور اہل مغرب (بنو اصفر-رومیوں) کے درمیان ایک معاہدہ ہوگا، مگر وہ تمہیں دھوکہ دیں گے اور تمہارے خلاف اسّی (۸۰) جھنڈوں تلے جمع ہونگے اور ہر جھنڈے کے تحت بارہ ہزار (۱۲۰۰۰) سپاہی ہونگے، مسلمانوں کا شہر زرخیز نخلستان میں ایک شہر دمشق ہوگا۔‘‘ (احمد، حاکم اور اس کو صحیح قرار دیا گیا ہے اور اس کو فضائل الشام و دمشق میں البانی نے بھی صحیح قرار دیا ہے)

ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺنے فرمایا: ’’قیامت اس وقت تک برپا نہیں ہوگی جب تک رومی الاعماق یا دابق میں نہ اتریں۔ اس وقت زمین پر بہترین لوگ مدینہ سے (ان کا مقابلہ کرنے) آئیں گے۔ جب وہ اپنی صفوں کو درست کر رہے ہونگے تو رومی کہیں گے: ہمارے اوران مسلمانوں کے درمیان سے ہٹ جاؤ، جنہوں نے ہم میں سے قیدی بنا لئے ہیں۔ ہمیں ان سے لڑنے دو؛ اور مسلمان ان سے کہیں گے: نہیں، اللہ کی قسم، ہم کبھی تمہارے اور اپنے بھائیوں کے درمیان سے نہیں ہٹیں گےکہ تم ان سے لڑ سکو۔ پھر وہ ان سے لڑیں گے اور ایک تہائی مسلم لشکر پیٹھ پھیر کر بھاگ نکلے گا، ان کو اللہ کبھی نہیں بخشے گا۔ اسی لشکر میں سے ایک تہائی مارے جائیں گے، اور وہ اللہ کی نظروں میں بہترین شہداء ہونگے اور آخری تہائی لشکر فتح یاب ہوگا اور اسے پھر کبھی نہیں آزمایا جائے گا اور وہی قسطنطنیہ کو فتح کریں گے۔ اور پھر وہ، اپنی تلواریں زیتون کے درختوں پر لٹکا کر، آپس میں مال غنیمت کی تقسیم میں مصرف ہونگے کہ شیطان چیخے گا: دجال نے تمہارے علاقے پر تمہارے گھرانوں پر قبضہ کر لیا ہے۔ وہ باہر نکلیں گے، مگریہ جھوٹ ہوگا۔ اور جب وہ شام تک پہنچیں گے، تو وہ (دجال) نمو دار ہو چکا ہوگا۔ اس وقت وہ (مسلمان) جنگ کی تیاریوں میں مصروف ہونگے اور اپنی صفیں بنا رہے ہونگے۔ پھر نماز کا وقت آئے گا اور عیسیٰؑ بن مریم ؑ اتریں گےاور نماز پڑھائی جائے گی۔ جب اللہ کا دشمن (دجال )، ان کو دیکھے گا توپانی میں نمک کی طرح پگھلنا شروع ہو جائے گا گویا وہ ان (حضرت عیسیٰ ؑ) کا سامنا ہی نہیں کر سکتا ہو، اور وہ مکمل طور پر پگھل جائے گا مگراللہ اس کو ان (حضرت عیسیٰ ؑ ) کے ہاتھوں ہی قتل کر وائے گا اور وہ(حضرت عیسیٰ ؑ) ان(لوگوں) کو اپنے نیزے پر اس کا خون دکھائیں گے۔‘‘ (مسلم، کتاب ۴۱، نمبر ۶۹۲۴)

دمشق؛ وہ زمین جہاں پر عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام اتریں گے
نواس بن سمعان نے کہا: میں نے اللہ کے رسولﷺ سے سنا، وہ کہہ رہے تھے: ’’عیسیٰ دمشق میں مشرق کی طرف سفید مینار پر اتریں گے‘‘ (مسلم، ابوداؤد، ابن ماجہ، ترمذی، احمد اور حاکم نے اسے صحیح قرار دیا اور اس کی سند کو صحیح کہا) اور اوس بن اوس الثقفی نے روایت کی ہے کہ انہوں نے سنا کہ رسول اللہﷺ نے کہا: ’’عیسیٰ ؑ دمشق کے مشرقی جانب سفید مینار پر ، دو زعفران میں تر کپڑے پہنے ہوئے اور فرشتوں کے پروں پر سہارا لئے ہوئےاتریں گے اور ان کے سر سے پانی ٹپک رہا ہوگا‘‘ (فضائل الشام، النھایۃ سے نقل کی گئی ہے)

اللہ اپنے دین کی خدمت شام کے معزز لوگوں سے کرواتا ہے
ابو ھریرۃ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ انھوں نے نبی اکرمﷺ کو فرماتے سنا: ’’اگر جنگ ہوئی، تو اللہ دمشق سے مدد کے لئے عرب کے بہترین گھڑسواروں اور بہترین تیراندازوں کو اٹھائے گا، اللہ اپنے دین کی خدمت ان سے لے گا۔‘‘ (ابن ماجہ، الفسوی، ابن عساکر، حاکم، البانی نے اسے حسن کہا)

شام کے لئے خوشخبری
امام احمد اور امام ترمذی اپنی کتب میں زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے مروی ایک حدیث نقل کرتے ہیں کہ آپ ﷺنے فرمایا: ’’شام کتنی مبارک جگہ ہے!‘‘، صحابہ رضوان اللہ اجمعین نے پوچھا: ’’اے اللہ کے رسول، ایسا کیوں ہے؟‘‘، رسول اللہ ﷺ نے جواب دیا: ’’میں اللہ کے فرشتوں کو دیکھتا ہوں کہ انھوں نے شام کے اوپر اپنے پَر پھیلائے ہوئے ہیں۔‘‘

کوئی یہ سوال کر سکتا ہے، اگر شام اور دمشق کی اتنی اہمیت ہے ، تو پچھلی دہائیوں میں سرزمین شام کہاں تھی اور اس کے لوگ کیوں سو رہے تھے؟ انہوں نے جہاد فی سبیل اللہ کیوں ترک کیا ہوا تھا اور اپنا مسئلہ کیوں بھلایا ہوا تھا اور امت مسلمہ کو الگ کیوں چھوڑ دیا تھا؟

اس سوال کا جواب مشکل نہیں ہے، نہ ہی یہ نامعلوم ہے، بلکہ اس کا جواب واضح ہے اور اس کتاب میں مذکور ہے کہ جس میں جھوٹ کا کوئی تصور ہی نہیں کیا جا سکتا، اُس حکیم و حمید رب کی جانب سے نازل کی گئی کتاب، اللہ رب العزت اپنی کتاب میں فرماتا ہے:

{أَوَلَمَّا أَصَابَتْكُمْ مُصِيبَةٌ قَدْ أَصَبْتُمْ مِثْلَيْهَا قُلْتُمْ أَنَّى هَذَا قُلْ هُوَ مِنْ عِنْدِ أَنْفُسِكُمْ إِنَّ اللهَ عَلَى كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ} (آل عمران: 165)
(بھلا یہ) کیا (بات ہے کہ) جب (اُحد کے دن کافروں کے ہاتھ سے) تم پر مصیبت واقع ہوئی حالانکہ (جنگ بدر میں) اس سے دوچند مصیبت تمہارے ہاتھ سے ان پر پڑچکی ہے توتم چلا اٹھے کہ (ہائے) آفت (ہم پر) کہاں سے آپڑی کہہ دو کہ یہ تمہاری ہی شامت اعمال ہے (کہ تم نے پیغمبر کے حکم کے خلاف کیا) بےشک اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔

شام مسلمانوں کے معاملات سے غافل اس لئے ہے کہ گزشتہ چند عشروں سے وہاں کے لوگوں نے اپناشعائر کواسلام سے تبدیل کرکے، قومی و قبائلی نعروں کی صورت میں، گمراہ کن اور کفریہ بنالیا ہے۔ تاہم اللہ کی سزا ان کے لئے یہ تھی کہ اس نے اس نسل سے خیر کونکال لیا اور ان پر، یہودیوں، ماسونیوں اور نُصیریوں جیسی، بدترین مخلوقات کو مسلط کیا ، اور اس (شام) کی فضیلت اس وقت تک واپس برقرار نہیں ہو گی جب تک خالصتاً اسلامی شعائر اپنانہیں لیا جاتا۔

{ذَلِكَ بِأَنَّ اللهَ لَمْ يَكُ مُغَيِّرًا نِعْمَةً أَنْعَمَهَا عَلَى قَوْمٍ حَتَّى يُغَيِّرُوا مَا بِأَنْفُسِهِمْ وَأَنَّ اللهَ سَمِيعٌ عَلِيمٌ} (الأنفال: 53)
یہ اس لیے کہ جو نعمت اللہ کسی قوم کو دیا کرتا ہے، جب تک وہ خود اپنے نفسوں کی حالت نہ بدل ڈالیں اللہ انہیں بدلا نہیں کرتا۔ اور اس لیے کہ اللہ سنتا اور جانتا ہے

تاہم یہ احادیث جو کہ شام کے لوگوں کی فضیلت بیان کرتیں ہیں، وہ وطن پرستوں، قبائل پرستوں، قوم پرستوں اور کمیونسٹوں کے علاوہ رافضیوں، ماسونیوں، نُصیریوں، دروزیوں اور نصرانیوں کے لئے نہیں ہیں، بلکہ وہ خالص ایمان والوں کے لئے ہیں، ان مجاہدین کے لئے جو کہ حق کا ساتھ دیتے ہیں اور اس کے لئے ڈٹے رہتے ہیں، جو اللہ کے برحق اولیاء کی حیثیت سے دین کی حفاظت کرتے ہیں، جو اللہ کے علاوہ کسی اور سے عزت نہیں مانگتے، جو اللہ کے علاوہ کسی دوسرے کوخدا ماننے کے لئے تیار نہیں، اور جو اس رب کو دوسری مخلوقات کے ساتھ شریک نہیں ٹہراتے ہیں ۔۔۔

شام کے لوگوں نے جو کچھ کیا ہے، اسےہی پایا ہے، جیسا کہ انہوں نے اسلام کے جھنڈے کو چھوڑ کر قومی جد و جہد کے جھنڈےکو تھاما، اور اسلام کی شناخت کو چھوڑ کر وطنیت و قومیت کی شناخت اپنا لی، اور اسلام کے عقیدے کو چھوڑ کر کمیونسٹ بعثیوں کے عقیدے پرکاربندہوئے ، تو اللہ نے ان کو وہ کچھ دیا جس کا انہوں نے خود انتخاب کیا تھا، اور انہوں نے جو چنا وہ ان کے لئے مصیبت بن گیا، انہوں نے جس چیز سے عزت کی توقع کی ، اس نے انھیں ذلت اوررسوائی دی، اور یہ سب کچھ نبی اکرم ﷺ کی اس حدیث مبارکہ کے مصداق آتا ہے کہ: ’’اگر لوگ درہم و دینار جمع کرنا شروع کر دیں اور عینہ (ایسا کاروبار کہ جس میں سود بھی ہو) پر مبنی تجارت شروع کردیں اور وہ بیلوں کی دمیں پکڑ لیں، جہاد فی سبیل اللہ ترک کر دیں، تو اللہ ان پر ذلالت مسلط کر دیتا ہے جو کہ اس وقت تک نہیں ہٹتی جب تک وہ اپنے دین کی طرف واپس نہ لوٹ آئیں‘‘ (احمد، طبرانی، البانی نے اسے صحیح الجامع ، ۶۷۵، میں صحیح کہا)

سیدنا ابو بکر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبیﷺ نے فرمایا: ’’جس قوم نے بھی جہاد ترک کیا تواللہ نے ان لوگوں پر اپنا عذاب مسلط کردیا‘‘ (طبرانی نے اس کو اوسط میں نقل کیا اور اسے ابن النحاس الدمیاطی نے مصارع العشاق میں حسن کہا(۱۰۷/۱) اور یہ سلسلہ الصحیحۃ (۲۶۶۳) میں بھی مذکور ہے)

آپﷺ نے فرمایا: ’’جس گھر کے لوگوں نے بھی صبح اس حال میں کی کہ انہوں نے حقیرپن کو اختیارکررکھاہے تو وہ ذلیل اور رسواء کر دئیے گئے۔‘‘

نبیﷺنے ہمیں بتایا کہ ہم ان کی پیروی کریں گے جو ہم سے پہلے تھے، اور یہود و نصاریٰ کے پیچھے قدم بہ قدم چلیں گے۔ اللہ نے یہودیوں کو مصر کے فرعون سے نجات دلوائی اور پھر انھوں نے بچھڑے کی عبادت شروع کر دی اور مقدس زمین میں داخل ہونے میں تاخیر کی اور بزدلی اور خوف کی وجہ سے جہاد بھی کرنے سے کتراتے رہے،

{قَالُوا يَا مُوسَى إِنَّ فِيهَا قَوْمًا جَبَّارِينَ وَإِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا حَتَّى يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنْ يَخْرُجُوا مِنْهَا فَإِنَّا دَاخِلُونَ} (المائدة : 22)
وہ کہنے لگے کہ موسیٰ! وہاں تو بڑے طاقتور لوگ (رہتے) ہیں اور جب تک وہ اس سرزمین سے نکل نہ جائیں ہم وہاں نہیں جا سکتے ہاں اگر وہ وہاں سے نکل جائیں تو ہم وہاں داخل ہوجائیں گے۔

پھر انھوں نے ایمان نہ لانے اورتوکل نہ کرنے کا اعلان کر دیا اوراپنے رب کے منہج سے بہت بدتمیزی سے پلٹتے ہوئے اپنے ذہنوں کی نجاست اور اپنی کم ظرفی کا مظاہرہ کیا،
{قَالُوا يَا مُوسَى إِنَّا لَنْ نَدْخُلَهَا أَبَدًا مَا دَامُوا فِيهَا فَاذْهَبْ أَنْتَ وَرَبُّكَ فَقَاتِلاَ إِنَّا هَاهُنَا قَاعِدُونَ} (المائدة : 24) !!
وہ بولے کہ موسیٰ!جب تک وہ لوگ وہاں ہیں ہم کبھی وہاں نہیں جا سکتے (اگر لڑنا ہی ضرور ہے) تو تم اور تمہارا رب جائے اور لڑے ہم یہیں بیٹھے رہیں گے!

ایسا ہی کچھ کسی عرب قوم پرست شاعر نے کہا:

میں قوم کی خدائی پر، بغیر کسی شریک کے، ایمان لایا
اور میرا مذہب بھی عربی ہے جس کا کوئی دوسرا نہیں
(نعوذ باللہ)​

تو اللہ قوم پرستوں کو قوم کا ذمہ دے کر ،ان سے بری ہو گیا جیسے اس نے یہودیوں کو بچھڑے کے ساتھ اور بزدلی اور کفر کے ساتھ چھوڑدیا تھا۔۔۔ اور ان میں سے کتنے اہل ایمان لوگوں نے اعلان کر دیا تھا کہ بعث کفر ہے، اور نصیریہ کفر ہے، اور اشتراکیت کفر ہے، اور قوم پرستی کفر ہے، اور وطنیت کفر ہے، اور جمہوریت کفر ہے، اور اللہ کا دین صرف اسلام ہے اور کچھ نہیں،

{وَمَنْ يَبْتَغِ غَيْرَ الإِسْلاَمِ دِينًا فَلَنْ يُقْبَلَ مِنْهُ وَهُوَ فِي الآخِرَةِ مِنَ الْخَاسِرِينَ} (آل عمران: 85)
اور جو شخص اسلام کے سوا کسی اور دین کا طالب ہوگا وہ اس سے ہرگز قبول نہیں کیا جائے گا اور ایسا شخص آخرت میں نقصان اٹھانے والوں میں ہوگا۔

ویسے ہی جیسے حضرت موسیٰ کی قوم سے دو اہل ایمان افراد نے کہا:
{قَالَ رَجُلاَنِ مِنَ الَّذِينَ يَخَافُونَ أَنْعَمَ اللهُ عَلَيْهِمَا ادْخُلُوا عَلَيْهِمُ الْبَابَ فَإِذَا دَخَلْتُمُوهُ فَإِنَّكُمْ غَالِبُونَ وَعَلَى اللهِ فَتَوَكَّلُوا إِنْ كُنْتُمْ مُؤْمِنِينَ} (المائدة : 23)
”جو لوگ (اللہ سے) ڈرتے تھے ان میں سے دو شخص جن پر اللہ کی عنایت تھی کہنے لگے کہ ان لوگوں پر دروازے کے رستے سے حملہ کردو جب تم دروازے میں داخل ہو گئے تو فتح تمہاری ہے اور اللہ ہی پر بھروسہ رکھو اگر تم مومن ہو۔“

پھر جب اہل ایمان کو یقین ہو گیا کہ کلمہ معروف ہو گیا ہے اور اللہ نے اس حمیت سے عاری نسل کو ہلاک کرنے کا فیصلہ کر لیا ہے، مگر عقلمندوں نے اسلام کے علاوہ دوسرےنعروں سے برأت کی اور ہر وہ بندہ جس نے اسلام کے خلاف شعائر کفرکاارتکاب کیا۔یہاں تک کہ حضرت موسیٰ نے بھی یہ کہہ دیا:
{قَالَ رَبِّ إِنِّي لاَ أَمْلِكُ إِلاَّ نَفْسِي وَأَخِي فَافْرُقْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ} (المائدة : 25)
موسیٰؑ نے (اللہ سے)التجا کی کہ پروردگار میں اپنے اور اپنے بھائی کے سوا اور کسی پر اختیار نہیں رکھتا تو ہم میں اور ان نافرمان لوگوں میں جدائی کردے

تو اللہ کی حکمت آ پہنچی اور اس نسل کو بیداری نصیب ہوئی، جو کہ خود سےگناہوں کے کٹھرے میں جا گری تھی،

{قَالَ فَإِنَّهَا مُحَرَّمَةٌ عَلَيْهِمْ أَرْبَعِينَ سَنَةً يَتِيهُونَ فِي الأَرْضِ فَلاَ تَأْسَ عَلَى الْقَوْمِ الْفَاسِقِينَ} (المائدة : 26)
اللہ نے فرمایا کہ وہ علاقہ ان پر چالیس برس تک کے لیے حرام کر دی گئی زمین میں سرگرداں پھرتے رہیں گے تم ان نافرمان لوگوں کے حال پر افسوس نہ کرو

تو شام کے لوگ اپنی زمین پر،قومیت، بعثیت، وطنیت اور اشترکیت کے درمیان، چالیس سال تک مارے مارے پھرتے رہے اور ان کو نُصیری پیٹتے رہے جیسے بنی اسرائیل کو سیناء کی سخت ہواؤں نے مصیبت میں گھیرے رکھا تھا۔

چند کفار اور گمراہ لوگ اہل شام پر مسلط رہے ، جبکہ اہل شام لاپرواہی اور سستی میں مبتلا تھے۔۔۔ ۲۰۱۰ میں سیریا کی آبادی دوکروڑ پچیس لاکھ ، اور اس میں سے ۸۰فیصد سے زائد اہل سنۃ والجماعۃ کی ہے (یعنی ایک کروڑ اسی لاکھ سے زائد)، اورتقریباً ۸ فیصد نصیری ہیں (اور غالباً یہاں بھی مبالغہ آرائی سے کام لیا گیا ہے)، اورنصرانی ۴فیصد ہیں اور باقی ۸فیصد رافضی اور یہودی وغیرہ ہیں۔

تو یہ ایک چھوٹا دھوکے باز اور ذلیل طبقہ دنیا کے بہترین جنگجوؤں پر کیسے مسلط ہوگیا؟ اس کی وجہ بہت سادہ ہے: اہل شام سے خیر اس لئے اٹھا لیا گیا کیونکہ وہ اپنے اصلی اقدار کو بھلا بیٹھے ہیں، تو اب کیا کیا جائے۔۔۔۔

نُصیری کون ہیں؟
یہ ایک گمراہ فرقہ ہےجس کا ظہور تیسری ہجری (۲۷۰ھ) میں ہوا، جب ابو شعیب محمد بن نصیر البصری النمیری نے نبوت کا دعویٰ کیا، اور خلیفہ الراشد حضرت علی رضی اللہ عنہ کو خدائی کے درجےپر لے گیا اور اس نے یہ بھی دعویٰ کیا کہ وہ امام حسن العسکری کا دروازہ (باب) ہے،اور یہ کہ وہ علم کا وارث ہے اور شیعہ اس کے وارث اور رکھوالے ہونگے، اور امام مہدی کے غائب ہونے کے بعد تمام اختیارات اس کے پاس ہیں۔ اس نے صالح آئمہ اور سلف صالحین کو خدائی کا درجہ دے دیا، اور نصیری کہتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ کی روح (نعوذ باللہ) انسان کی شکل میں ظاہر ہوتی رہتی ہے جیسے جبریل کی ہوتی ہے۔ اور ساتھ ساتھ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کا ظہور مخلوق اور غلاموں کی صورت میں ہی ہوتا ہے۔ اور ان کو عبدالرحمٰن بن ملجم، جو کہ امام علی کا قاتل ہے، سے محبت ہے، اور وہ اللہ سے دعا کرتے ہیں کہ اللہ اس سے خوش ہو جائے، کیونکہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ اس نے لاھوت (علی) کو ناسوت (جسم) سے آزادی دلوائی اور وہ ان لوگوں کی مذمت کرتے ہیں جو عبدالرحمٰن بن ملجم کے لئے بددعا کرتے، اور کچھ تو ان میں سے یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ علی بادلوں میں رہتے ہیں، جب سے ان کو جسم سے نجات ملی جس میں وہ قید تھے اور جب کوئی بادل اوپر سے گزرتا ہے تو کہتے ہیں: سلامتی ہو آپ پر، اے ابو الحسن، اور وہ کہتے ہیں کہ گرج ان کی آواز ہے اور چمک ان کا رونا، اور وہ سمجھتے ہیں کہ علی رضی اللہ عنہ نے محمدﷺکو بنایا اور محمدﷺنے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بنایا اور سلمان فارسی نے پانچ یتیم بنائے، جن کے نام یہ ہیں:

مقداد بن الاسود: اور وہ ان کو لوگوں کا خدا اور ان کا خالق اور طوفان کی قدرت رکھنے والا سمجھتے ہیں۔ (نعوذ باللہ)

ابو ذر غفاری: ہ جن کو سیاروں اور ستاروں کی گردش کی ذمہ داری دی گئی ہے۔(نعوذ باللہ)

عبداللہ بن رواحہ: وہ جن کو ہواؤں کو چلانے اور انسانوں کے جسموں سے روحوں کو نکالنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔(نعوذ باللہ)

عثمان بن مظعون: وہ جس کو پیٹ کی ، انسان کے جسم کی گرمائش کی اور بیماریوں کی ذمہ داری دی گئی ہے۔(نعوذ باللہ)

قنبر بن کادان: وہ جس کو جسم کے اندر روح پھونکنے کی ذمہ داری دی گئی ہے۔(نعوذ باللہ)

ان فجار لوگوں کے پاس تو ایک ایسی رات کا بھی انعقاد ہوتا ہے جس میں مردوں اور عورتوں کا اختلاط ہوتا ہے۔ اور وہ شراب پیتے ہیں اور اسے اچھا سمجھتے ہیں، اور انگور کے درخت کی تعظیم و تکریم کرتے ہیں اور اسے کاٹنے سے منع کرتے ہیں کیونکہ وہ ہی شراب کی جڑ ہے اور وہ اسے ’روشنی ‘سے تعبیر کرتے ہیں۔ اور وہ نماز بھی پڑھتے ہیں مگر ان کی نماز کئی لحاظ سے مختلف ہوتی ہے؛ ان کی رکعتوں کی مقدار مختلف ہوتی ہیں اور ان کی نماز میں سجدے نہیں ہوتے (پہلا آدمی جس نے نماز میں سجدے کرنے سے روکا تھا وہ مسیلمہ کذاب تھا)، شاید وہ کسی اور قسم کے کبھی کبھی رکوع کرتے ہیں اور وہ جمعہ بھی نہیں ادا کرتے، اور نماز سے پہلے وضو کے ذریعے صفائی کو اور غسل کے ذریعے ناپاکی کو ضروری نہیں سمجھتےاور انھوں نے اپنی کوئی مسجد بھی نہیں بنائی ہوئی بلکہ اپنے گھروں میں ہی نماز پڑھتے ہیں اور ان کی نمازیں خرافات سے بھری ہوتی ہیں۔

ان کے پاس ویسی ہی تقریب رکھی جاتی ہیں جیسی نصرانیوں کے پاس رکھی جاتی ہیں، مثلاً اپنے ’پیارے بھائی کی بہتری کے لئے ‘تقریب ، ’خوشی اور سکون کے موقعوں پر اپنی روح کی گرمائش‘کے لئے تقریب، اور اذان کے لئے بھی کوئی تقریب ہوتی ہے۔۔۔ ہم اللہ سے مدد مانگتے ہیں!!

ان کے ہاں حج مقبول نہیں ہے، اور ان کا کہنا ہے کہ مکہ جا کر حج کرنا کفرہے اور بتوں کی پوجاکرنے کے مساوی ہے۔ اور وہ زکوٰۃ کا شرعی طریقہ نہیں مانتے بلکہ اپنے شیخوں کو اپنے مال میں سے پانچواں حصہ ٹیکس دینے کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اور ان کے لئے روزے یہ ہیں کہ پورے رمضان کے دوران عورتوں سے بچا جائے ۔ اور ان کو صحابہ کرام (رضوان اللہ علیہم اجمعین) سے بہت سخت نفرت ہے،اور وہ حضرت ابو بکر، حضرت عمر، حضرت عثمان (رضوان اللہ علیہم اجمعین) کے لئے بہت غلط الفاظ استعمال کرتے ہیں۔ ان کا دعویٰ ہے کہ عقیدے کے دو حصے ہیں؛ ایک مخفی اور ایک عام اور یہ کہ انہی کو صرف مخفی حصےکا علم ہے، اور اس کے مطابق:

ناپاکی: یہ باطنی علوم کی مخالفت اور بے پرواہی برتنے والوں کی حمایت کو کہا جاتا ہے ۔

طہارت: یہ باطنی علوم کو جاننے والوں اور اس کی مخالفت کرنے والوں کا مقابلہ کرنے کو کہا جاتا ہے۔

روزہ: یہ ۳۰ مردوں اور ۳۰ عورتوں کے رازوں کو چھپانے کا نام ہے۔

زکوٰۃ: یہ سلمان کی شخصیت کا نمونہ ہے۔

جہاد: یہ دشمنوں اوررازوں کو عیاں کرنے والوں پر لعنت بھیجنے کا نام ہے۔

دوستی (الولاء): یہ نصیریۃ کا وفادار رہنے اور اس کے دشمنوں سے نفرت کرنے کا نام ہے۔

شہادت: وہ اس قاعدے کی طرف اشارہ کرتے ہیں’’ع ۔ م۔س‘‘ (یعنی علیؓ، پھر محمدﷺ ،پھر سلمانؓ)

قرآن:یہ علی تک رسائی کا طریقہ ہے ، اور اس کو سلمان (جو کہ ان کی نظر میں جبریل علیہ السلام تھے)نے محمدﷺ کو پڑھایا۔

نماز:یہ پانچ نام ہیں؛ علی، حسن، حسین، محسن، فاطمہ۔ اور محسن ایک چھپا راز ہے اور وہ کہتے ہیں کہ فاطمہ رضی اللہ عنہما نے ان کو چھپایا ہوا ہے، اور یہ نام لینا ناپاکی سے صاف ستھرا کرنے کے لئے کافی ہےاور اس کے کہنے سے غسل کی ضرورت نہیں رہتی۔

ان کے کئی تہوار ہوتے ہیں جن سے ان کے عقائد کی تصویر کشی ہوتی ہے اور ان میں سے چند یہ ہیں:

عید النَّیروز: یہ اپریل کی ۴ تاریخ کو ہوتا ہے۔ یہ فارس کے سال کا پہلا دن ہوتا ہے اور یہ مجوسیوں کا تہوار ہے۔

عید الغدیر اور عید الفراش اور ۱۰ محرم، یوم عاشوراء کو حسین کی شہادت کی یاد میں کربلا کی زیارت کرنا۔

یوم المباھلۃ یا یوم الکساء: یہ ۹ ربیع الاول کو نبیﷺکی نجران کے نصرانیوں کا تختہ الٹنے کے اعلان کی یاد میں منایا جاتا ہے۔

عید الاضحیٰ: یہ وہ ذی الحجۃ کے بارویں دن مناتے ہیں۔

یہ لوگ نصرانیوں کے تہوار بھی مناتے ہیں، جیسے عید الغطاس،عید العنصرۃ، عید القدیسۃ بربارۃ، سالگرہیں اور عید الصلیب ، جس کو وہ تجارتی تعلقات ، معاہدوں اور خرید و فروخت کی بنیاد ڈالنے اور فروغ دینے کی تاریخی تقریب سے تعبیر کرتے ہیں۔ یہ ’دلام‘کے دن بھی خوشیاں مناتے ہیں، یہ ۹ ربیع الاول کے دن ہوتا ہے اور اس سے وہ حضرت عمر ؓ کی شہادت پر خوشیاں مناتے ہیں اور ان کا مذاق اڑاتے ہیں۔

تو کیا ان ساری جہالتوں کے بعد بھی کوئی جہالت رہتی ہے، اور کیا اس حماقت کے بعد اور بھی کوئی حماقت رہتی ہے، اور کیا اس کفر کے بعد اور بھی کوئی کفر رہتا ہے؟ نُصیریوں نے اپنے عقائد ماضی کے بت پرستوں سے اخذ کئے ہیں، جدید فاطمیوں اور جادوگروں کے فلسفوں سے بھی یہ بہت اثرانداز ہوئے ہیں۔ انہوں نے اپنے اقدار نصرانیوں سے بھی لئے، جب انہوں نے تثلیث(تین خداؤں کے تصور) اور میموریل تقریبات کو فروغ دیا، اور شراب کو حلال قرار دیا۔ اور انہوں نے تناسخ اور حلول کے افکار کو ہندؤں اور بدھ مت کے ادیان سے نقل کیا اور یہ باطنی رافضیوں کے گمراہ فرقے سے تعلق رکھتے ہیں۔

نُصیری ، آج کل لاذقیہ میں نصیری علاقے کے پہاڑی علاقوں میں مقیم ہوتے ہیں، اور انہوں نے گزشتہ عرصے میں قرب و جوار کے سیریا کے شہروں میں بھی سکونت اختیار کر لی ہے، اور وہ اناطولیہ کے مغربی علاقوں میں بڑی تعداد میں موجود ہیں اور ان کو ’تختجیہ: الحطابون‘ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ مشرقی اناطولیہ میں ان کو ’القزل باشیہ‘ کہا جاتا ہے۔ ان کو ترکی اور البانیہ کے دیگر علاقوں میں ’پکتاشیہ‘ کے نام سے بھی پہچانا جاتا ہے۔ اور یہ ایران اور ترکستان میں بھی قلیل تعداد میں موجود ہیں، اور ادھروہ ’العلی الھیۃ‘ کے نام سے معروف ہیں اور کچھ ایسے بھی ہیں جنہوں نے لبنان اور فلسطین کو اپنا گھر بنایا ہوا ہے۔

اور ان کے نام، ’العلی الھیۃ‘ سے ایک اور نام ’العلویہ‘نکلا اور یہ لقب نصیری فرقے کو فرانسیسیوں نے شام کو فتح کرنے کے بعد نوازا تھا۔ اس کے ذریعہ انہوں نے مسلمانوں کو بیوقوف بنایا، اور ان کویہ دکھا کر نصیریہ کے قریب لایا گیا کہ وہ ایک ’شیعہ‘ فرقہ ہے۔نصیری غاصب فرانسیسیوں کے سب سے زیادہ وفادار لوگ تھے، اور ان کی بہترین کارکردگی کے سبب فرانس نے انہیں دمشق پر قابض ہونے میں مدد دی، اور ان کو مسلمانوں پر مسلط کیا۔

جہاں تک ان کے حکم کی بات ہے۔۔۔۔۔۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ ؒ سے ’درزیہ‘اور ’نُصیریہ‘ فرقوں کی بابت پوچھا گیا (الفتاویٰ ج35)، کہ ان کا کیا حکم ہے؟ تو انہوں نے جواب دیا:
’’یہ درزیہ اور نُصیریہ امت کے اجماع کے مطابق کافر ہیں، ان کا ذبیح کھانا جائز نہیں، ان کی عورتوں سے شادی کرنا جائز نہیں، ان کو تو جزیے دے کر رہنے کا بھی حق نہیں، کیونکہ وہ اسلام سے مرتد ہیں، وہ مسلمان نہیں ہیں، نہ ہی وہ یہودی ہیں نہ ہی نصرانی۔ وہ دن میں پانچ نمازوں، رمضان کے روزوں اور حج کی فرضیت کو نہیں مانتے، نہ ہی وہ اللہ کی طرف سے اپنے پیغمبرﷺ کی حرام کردہ چیزوں سے پرہیز کرتے ہیں ، جیسے مردار کا گوشت اور شراب وغیرہ، اور اگر وہ دو (صحیح برحق) کلمے بھی پڑھ لیں تو وہ امت کے اجماع کے مطابق کافر ہیں۔ ‘‘
انہوں نے کہا:
”یہ نُصیریہ کہلائے جانے والے اور ایسے تمام چھپے ہوئے لوگوں کا کفر، یہودیوں، نصرانیوں اور زیادہ تر مشرکین سے بھی بڑا ہے اور انہوں نے امت محمدیہ کو جو نقصان پہنچایا ہے وہ کفار، جیسے تاتاریوں اور فرانسیسیوں وغیرہ ، سے لڑائی کے دوران پہنچائے گئے نقصان سے بہت زیادہ ہے، کیونکہ یہ اپنے آپ کو ان پڑھ مسلمانوں کے سامنے شیعہ کہلواتے ہیں، اور اہل بیت کے ساتھ ہمدردی کا اظہار کرتے ہیں، مگر حقیقتاً یہ اللہ، اس کے رسولﷺ، اس کی کتاب اس کے احکامات اور حدود، اس کےعہد کردہ انعامات اور سزاؤں اور جنت و دوزخ پر بالکل ایمان نہیں رکھتے۔ نہ ہی وہ محمدﷺسے پہلے کے انبیاء اکرام کو مانتے ہیں، نہ ہی وہ کسی سابقہ دین کی پیروی کرتے ہیں، بلکہ اللہ اور اس کے رسولﷺ (کے دین) کی اصطلاحات کو لے کر، جو کہ مسلمان علماء کے درمیان معروف ہیں، اپنے مفاد میں وہ ان کی تشریحات کرتے ہیں، اور وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ وہ غیب کے علم میں سے ہے۔۔۔۔“ (فتاویٰ ابن تیمیہ ج35)
اور انھوں ؒ نے کہا :
(فتاویٰ ابن تیمیہ ج 28) ”نصیریہ ان لوگوں میں سے ہیں جو عظیم کفر کے مرتکب ہوئے ہیں۔۔۔ اور وہ اپنے معاملات چھپاتے نہیں ہیں، بلکہ وہ تو مسلمانوں میں مشہور ہیں، وہ دن میں پانچ وقت نماز نہیں پڑھتے، نہ ہی وہ رمضان کے روزے رکھتے ہیں، نہ ہی وہ حج کرتے ہیں، نہ ہی وہ زکوٰۃ دیتے ہیں، نہ ہی اس کو فرض سمجھتے ہیں، انہوں نے حرام کردہ چیزوں کو اپنے لئے حلال کر لیا جیسے شراب ہے، اور وہ سمجھتے ہیں کہ خدا علی بن ابی طالب ہیں (نعوذباللہ)، اور وہ کہتے ہیں‘‘

”ہم گواہی دیتے ہیں کہ کوئی خدا نہیں ہےسوائے ۔۔۔حیدرۃ الانزع البطین (حضرت علیؓ کی طرف اشارہ ہے)
ان (علیؓ) پر کوئی حجاب نہیں سوائے ۔۔۔۔۔محمدؐ ، صادق و امین کے
ان تک رسائی کا کوئی طریقہ نہیں ہے سوائے ۔۔۔۔ سلمانؓ، قوت والے کے“
شیخ حمود بن عقلا الشعبی ؒ فرماتے ہیں:
”نُصیریوں کے بنیادی معاملات میں سے ایک یہ بھی ہے کہ وہ اسلام اور مسلمانوں سے شدید دشمنی رکھتے ہیں، اور ان کی اسلام دشمنی کی یہ حد ہے کہ وہ فاروق ، امیر المومنین، حضرت عمر بن الخطاب کو سب سے بڑا ابلیس کہتے ہیں، اور ابو بکر اور عثمان کو ان سے چھوٹا۔ اور وہ نبی ﷺ کی قبر کی زیارت سے منع کرتے ہیں کیونکہ آپﷺ کی قبر کے ساتھ عمر اور ابو بکر کی قبریں بھی موجود ہیں!!اور یہ فرقہ شام کی ایک جگہ تک محدود تھا اور اسے، امام ابن تیمیہ﷫ کے فتوے کی وجہ سے، نوکریاں اور تعلیم بھی نہیں ملا کرتی تھیں،مگر جب فرانسیسیوں نے سرزمین شام پر قبضہ کیا تو انہوں نے نُصیریوں کوذلالت سے نکال کر معاشرے میں ایک اونچا مقام دے دیا اور ان کو ملک کے اہم مناصب پر فائز کردیا۔ جہاں تک ان کے بارے میں علماء اسلام کی آراء کا تعلق ہے ، تو وہ یہ ہے کہ وہ اسلام سے خارج ہو چکے ہیں کیونکہ ان کے طور طریقے شرک، روح کی تناسخ کے عقیدے، آخرت کے انکار اور وجودِ جنت و دوزخ کے انکار پر مبنی ہیں۔“
تو یہ مرتد و کافر نُصیریہ ہیں، جن کو اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے اہل شام پر مسلط کر دیا ہے، جب اہل شام نے حق کو چھوڑ کر قومیت، وطنیت، بعثیت، اشتراکیت کو تھام لیا اور سچے راستے کو چھوڑ دیا۔۔۔ اور اب ان کو عزت دوبارہ نہیں ملے گی، اور نہ ان کو نبی اکرمﷺ کی زبانِ مبارک سے نکلے ہوئے الفاظ کے ثمرات ملیں گے، جب تک وہ دین کی طرف واپس نہیں لوٹ آتے۔۔۔

شام کے سامریوں نے ایک سےزائد بچھڑے بنائے تاکہ شام کے لوگ اللہ کو چھوڑ کر ان کی عبادت کریں۔ اور ہر بچھڑے کے مالک کے مطابق، اس کا بچھڑا ہی اصلی خدا تھا۔ ان کی اطاعت شام کے لوگوں میں سے جو کرنا چاہتا وہ کرتا اور انھوں نے اشتراکیت، بعثیت، قومیت اور وطنیت اور دیگر بچھڑوں کی عبادت شروع کر دی، اور اب وقت آگیا ہے کہ اہل شام، اور خصوصاً سیریا کے لوگ ان بچھڑوں کے مالکان کو کہہ دیں:

{۔۔۔۔ فَاذْهَبْ فَإِنَّ لَكَ فِي الْحَيَاةِ أَنْ تَقُولَ لاَ مِسَاسَ وَإِنَّ لَكَ مَوْعِدًا لَنْ تُخْلَفَهُ وَانْظُرْ إِلَى إِلَهِكَ الَّذِي ظَلْتَ عَلَيْهِ عَاكِفًا لَنُحَرِّقَنَّهُ ثُمَّ لَنَنْسِفَنَّهُ فِي الْيَمِّ نَسْفًا} (طه : 97)
۔۔۔۔۔۔جا تجھ کو دنیا کی زندگی میں یہ (سزا) ہے کہ کہتا رہے کہ مجھ کو ہاتھ نہ لگانا اور تیرے لئے ایک اور وعدہ ہے (یعنی عذاب کا) جو تجھ سے ٹل نہ سکے گا اور جس معبود (کی پوجا) پر تو (قائم و) معتکف تھا اس کو دیکھ۔ ہم اسے جلادیں گے پھر اس (کی راکھ) کو اُڑا کر دریا میں بکھیر دیں گے

اس طرح جھوٹے خداؤں سے جان چھڑائی جاتی ہے۔ حضرت موسیٰ کے لئے اتنا ہی کافی تھا کہ سونے کی بنے ہوئے اس بچھڑے کو پگھلا کر بنی اسرائیل کے مصائب کو حل کیا جائے، مگر بچھڑے کو جلانے اور اس کو تتر بتر کرنا بہت مؤثر رہا؛ حضرت موسیٰ اپنی قوم اور غیر اللہ کے درمیان تمام رشتے ناتے توڑنا چاہتے تھے، اس کا مقصد یہ تھا کہ شرک کا ذرہ ذرہ ختم کیا جائے تاکہ لوگوں کو اللہ کے علاوہ کسی اور کی خدائی کا تصور بھی باقی نہ رہے اور ان کے دل اللہ کے علاوہ کسی اور کے ساتھ وابستہ ہی نہ ہوں، اور یہ کہ وہ اپنے لوگوں کو اللہ پر یقین کے مقابلے میں سونے کی وقعت کا اندازہ و احساس دلا سکیں، اسی لئے اس عظیم کام کے بعد حضرت موسیٰ نے اپنی قوم کو خطاب کرتے ہوئے کہا:

{إِنَّمَا إِلَهُكُمُ اللهُ الَّذِي لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ وَسِعَ كُلَّ شَيْءٍ عِلْمًا} (طه:98)
تمہارا معبود اللہ ہی ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں۔ اس کا علم ہر چیز پر محیط ہے

علامہ اقبال ؒ نے کیا خوب کہا:

شان آنکھوں میں نہ جچتی تھی جہاں داروں کی
کلمہ پڑھتے تھے ہم چھاؤں میں تلواروں کی

ہم جو جیتے تھے تو جنگوں کے مصیبت کے لیے
اور مرتے تھے ترے نام کی عظمت کے لیے

تھی نہ کچھ تیغ زنی اپنی حکومت کے لیے
سربکف پھرتے تھے کیا دہر میں دولت کے لیے؟

قوم اپنی جو زر و مال جہاں پر مرتی
بت فروشی کے عوض بت شکنی کیوں کرتی!​

وہ بچھڑا جس کی بنی اسرائیل عبادت کرتے تھے وہ سونے کا بنا ہوا تھا،مگر آج لوگ جس کی عبادت کرتے ہیں وہ بھی اس بچھڑے کے فتنے سے کم نہیں ہے۔ حکمران اب بچھڑے بن گئے ہیں اوراللہ کے بجائے اس (حکمران) کی عبادت کی جانے لگی ہے۔ اب تو مال و دولت بھی وہ بچھڑا ہے۔ نفسانی خواہشات بھی بچھڑے کی طرح ہوتی ہیں۔ وہ خیالات، تجزیئے اور اللہ کے دین کی مخالفت میں استوار عقائد بھی بچھڑے کی طرح ہیں۔ اور اللہ کے علاوہ دوسروں سے ڈرنا بھی بچھڑے کی بندگی کی طرح ہے۔ ان سارے بچھڑوں کو جلا کر تاریخ کے سمندر میں ضائع کرنے کی ضرورت ہے تاکہ لوگوں کو اپنے اصلی رب کی توحید سے روکنے والے عناصر سے نجات حاصل کی جائے۔

سب سے پہلا بچھڑا جس سے نجات حاصل کرنے کی ضرورت ہے، وہ خوف ہے، اور اس کے بعدنفسانی خواہشات، اور اس کے بعدجو بھی بچھڑا آئے گا وہ ان سے منسلک ہوگا۔ ہم اب سرزمین شام سے خوف کے بچھڑے کو ختم کرنے کی شروعات کا مشاہدہ کر رہے ہیں۔ اس کے بعد انشاءاللہ نفسانی خواہشات کے بچھڑے کی باری ہے، پھر شام ، ساری رکاوٹوں سے نمٹتے ہوئے،واپس اپنا مرتبہ حاصل کر لے گا ،جواس کا پہلے تھا، ایمان کی سرزمین۔اور اس کے لشکر دوبارہ سے بہترین لشکروں کا مقام پائیں گے۔ اور اہل شام نُصیری بچھڑے کو، جلانے اور اس سے آزادی حاصل کرنے کے بعد، گڑھے کے نچھلے درجے میں پھینکیں گے۔۔

اگر اہل شام راہ حق کے راہی بن جائیں، اور گولیوں (اسلحہ) کو تھام لیں، اور اس سرزمین پر، نوجوانوں کے ذریعہ، ”اللہ اکبر“کے نعرے گونج اٹھیں، اور مینار سے”حیّ علی الجہاد (جہاد کے لئے نکلو)“ کی پکار آنے لگ جائے: تو میں غرب و شرق میں تمام مسلمانوں کو کفر و تاریکی کو نیست و نابود کردینے والے طوفان کی خوشخبری دیتا ہوں ۔۔۔ اگر اہل شام اٹھ جائیں اور اسلام ان کا شعائر رہے تو کفر کے لئے اور شام کی موجودہ افواج کے لئے بربادی ہے، تو بربادی ہے کفر کی اور شام کی موجودہ فوج کی!

والله أعلم .. وصلى الله على نبينا محمد وعلى آله وصحبه وسلّم

مؤلف: حسین بن محمود
۲۰ ربیع الثانی ۱۴۳۲ھ

ڈاؤن لوڈ کریں
پی ڈی ایف،یونی کوڈ
Urdu Translation -- Damascus - The Base of Jihad on Earth.rar

------------------
اخوانکم فی الاسلام

انصار اللہ اردو
 
Top