• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

دنیامیں نیکیوں کے دس فوائد وثمرات

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
35
بسم اللہ الرحمن الرحیم

دنیامیں نیکیوں کے دس فوائد وثمرات​

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی​

الحمدللہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،اما بعد:

محترم قارئین!

اکثرو بیشتر ہم یہ سنتے رہتے ہیں کہ نیکیوں کا اجروثواب ایک انسان کو آخرت کے دن ملے گایہ بات تو بالکل ہی صحیح ہے مگر اس بات سے ہم نےیہ سمجھ لیا کہ نیکیوں کا بدلہ صرف آخرت میں ہی ملے گا یہی وجہ ہے کہ بہت سارے لوگ یہ کہتے بھی نظر آتے ہیں کہ نماز و روزہ کرکے ہمیں اس دنیا میں کیا ملے گا؟فلاں آدمی نماز پڑھ کر کیا کرلیا،فلاں نے بہت پیسے خرچ کرکے حج کیا مگر اسے کچھ فائدہ نہیں ہوا وغیرہ وغیرہ حالانکہ نیکیوں کا ثمر وبدلہ دنیا میں بھی دی جاتی ہے اور آخرت میں تو ضروربالضرور دی جائے گی،اس بات میں کوئی شک ہی نہیں کہ نیکیوں کے انجام دینے سے دنیا میں ایک انسان کے اوپر اللہ کی رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہےاورہمہ وقت دنیا میں اللہ کی مدد اور نصرت حاصل ہوتی رہتی ہے،ہرطرح کی آفتوں اور مصیبتوں سے بھی ایسے لوگوں کی حفاظت کی جاتی ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:’’ لِلَّذِينَ أَحْسَنُوا فِي هذِهِ الدُّنْيا حَسَنَةٌ ‘‘ یعنی کہ جن لوگوں نے نیکی وبھلائی کی تو ان کے لیے اس دنیا میں بھی بھلائی ہے۔(النحل:30)نیکیوں کو انجام دینے سے صرف اتنا ہی فائدہ حاصل نہیں ہوتا ہے بلکہ نیکیوں کو انجام دینےسے جسمانی اور روحانی طاقت وقوت،رزق میں برکت وغیرہ بھی حاصل ہوتی ہے جیسا کہ ابن عباسؓ کہتے ہیں کہ ’’ إنَّ لِلْحَسَنَةِ لَنُورًا فِي الْقَلْبِ وَضِيَاءً فِي الْوَجْهِ وَقُوَّةً فِي الْبَدَنِ وَسَعَةً فِي الرِّزْقِ وَمَحَبَّةً فِي قُلُوبِ الْخَلْقِ وَإِنَّ لِلسَّيِّئَةِ لَظُلْمَةً فِي الْقَلْبِ وَسَوَادًا فِي الْوَجْهِ وَوَهَنًا فِي الْبَدَنِ وَضِيقًا فِي الرِّزْقِ وَبَغْضَةً فِي قُلُوبِ الْخَلْقِ ‘‘ بے شک کہ نیکی کی وجہ سے دل منور ہوجاتاہے اور چہرے پر رونق آجاتی ہے،جسمانی طاقت وقوت حاصل ہوتی ہے،رزق میں اضافہ ہوجاتاہے اور برکت آجاتی ہے،اور لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت پیداکردی جاتی ہے،اور اسی کے برعکس برائی کی وجہ سے دل تاریک اور سیاہ ہوجاتاہے،چہرے بے رونق ہوجاتاہے،جسم وبدن اندروباہرکمزور پڑجاتاہے،رزق میں کمی آجاتی ہے اور لوگوں کے دلوں میں بھی اس سے نفرت پیدا ہوجاتی ہے۔(الوابل الصیب:1/30،مجموع الفتاوی لابن تیمیۃؒ:10/630)یقینا ابن عباس ؓ کے اس قول میں صد فیصد سچائی ہے کہ نیکیوں اور برائیوں کا اثر ایک انسان کے اوپر ضرور بالضرور ہوتا ہے یہ اور بات ہے کہ انسان کو اس بات کا احساس ہو یا پھر نہ ہو،ویسےاب سائنسدانوں نے بھی اس بات کا اعتراف کرلیا ہے کہ نیکیوں اور بھلائیوں کا اثر انسان کے اوپر ضرور پڑتا ہے جیسا کہ 2015 کے اندر امریکہ کے سائنسدانوں نے یہ انکشاف کیا تھا کہ نیک عمل اور اچھے کاموں سے خود انجام دینے والوں کو جسمانی صحت وعافیت ملتی ہے ،اس خبرکے اندر یہ بات مذکور تھی کہ تحقیق سے یہ پتہ چلا ہے کہ جب ہم کسی کی مدد کے لیے آگے بڑھتے ہیں تو اس کا گہرا اثرسیدھے ہمارے جینز پر پڑتا ہےاور ہمارے اندر جراثیم سے لڑنے والے اینٹی باڈیز جینزبہت ہی زیادہ مضبوط ہوجاتے ہیں،اورجولوگ دوسروں کے لیے جیتے ہیں ان کے اندر قوت مدافعت (ایمیونیٹی سسٹم)ان لوگوں کے بنسبت بہت زیادہ مضبوط ہوجاتی ہے جو صرف اپنے لیے جیتے ہیں ۔سبحان اللہ۔(خبررساں مہر:7ستمبر/2015)

محترم قارئین!!

آپ کے دلوں میں نیکیوں کا شوق پیداکرنے کے لیے مندرجہ ذیل میں ناچیزنے نیکیوں کے دس ایسے فوائد وثمرات کو بیان کیا ہے جس کا تعلق دنیا سے ہے اور یقینا ان فوائد وثمرات کو پڑھنے کے بعد آپ کے دلوں میں اعمال صالحہ سے محبت پیداہوگی۔ان شاء اللہ۔

(1) پرسکون لائف:

نیکیوں کے فوائد وثمرات میں سے ایک عظیم دنیوی فائدہ یہ ہے کہ نیک اعمال کو انجام دینے سے دنیا میں پاکیزہ زندگی یعنی کہ پرسکون لائف ملتی ہےجیسا کہ فرمان باری تعالی ہے ’’ مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّن ذَكَرٍ أَوْ أُنثَيٰ وَهُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْيِيَنَّهُ حَيَاةً طَيِّبَةً وَلَنَجْزِيَنَّهُمْ أَجْرَهُم بِأَحْسَنِ مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ‘‘یعنی کہ جو بھی شخص ایمان لانے کے بعد نیک اعمال کرے چاہے وہ مردہو یا عورت تو ہم اسے یقینا نہایت ہی بہتر زندگی عطا فرمائیں گے،اور ان کے نیک اعمال کا بہتر بدلہ بھی انہیں ضرور بالضرور دین گے۔

(النحل:97)مذکورہ آیت کے اندر ’’ حَيَاةً طَيِّبَةً ‘‘ سے مراد دنیا کی زندگی ہے یعنی کہ رب العالمین نیک اعمال انجام دینے کے طفیل میں ایک انسان کو حلال روزی،سکون واطمینان، سکھ وچین،آرام وراحت، قناعت وتونگری وغیرہ عطا کرتا ہے۔

(2) برکت وخوشحالی:

نیک اعمال کے انجام دینے کا دوسرا دنیوی فائدہ یہ ہوتا ہے کہ ایک انسان کی زندگی ،مال واولاد،روزی روٹی وغیرہ میں برکت رکھ دی جاتی ہے،رزق میں برکت ملتی ہےاورایسے انسان کے اوپر رب کی رحمتوں کا نزول ہوتا رہتا ہےجیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:’’ وَ لَوْ أَنَّ أَهْلَ الْقُرى‏ آمَنُوا وَ اتَّقَوْا لَفَتَحْنا عَلَيْهِمْ بَرَكاتٍ مِنَ السَّماءِ وَ الْأَرْضِ وَ لكِنْ كَذَّبُوا فَأَخَذْناهُمْ بِما كانُوا يَكْسِبُونَ ‘‘یعنی کہ اگر اب بستیوں کے رہنےوالے ایمان لے آتے اور تقوی وپرہیزگاری کو اختیار کرتے تو ہم ان پر آسمان اور زمین کی برکتیں کھول دیتے لیکن انہوں نے جھٹلایا تو ہم نے ان کے اعمال کی وجہ سے ان کو پکڑلیا۔(الاعراف:96) یعنی کہ ایمان وتقوی ایک ایسی چیز ہے کی جس جگہ کے اور جہاں کہیں کے بھی لوگ اس کو اپنا لیں گے ان پر رب العالمین آسمان وزمین کی برکتوں اور رحمتوں کے دروازے کو کھول دے گا۔

(3) معاملات میں آسانیاں:

نیک اعمال کا تیسرا دنیوی ایک عظیم فائدہ وثمرہ ایک انسان کو یہ حاصل ہوتا ہے کہ نیک اعمال کے صدقۂ طفیل میں رب العالمین تمام معاملات میں آسانی پیدا فرمادیتا ہے،پیچیدہ سے پیچیدہ مسائل کو رب العالمین چٹکیوں میں حل کردیتا ہے،جیساکہ فرمان باری تعالی ہے: ’’ وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْرًا ‘‘ اور جو شخص اللہ سے ڈرے گا اللہ اس کے ہر کام میں آسانی کردے گا۔(الطلاق:4) یعنی کہ جو متقی بندہ ہوتا ہے رب اس کے تمام معاملات میں آسانیاں پیداکردیتاہے اسی چیز کو آپﷺ نے کچھ اس طرح سے بیان کیا کہ :’’ مَنْ كَانَتِ الدُّنْيَا هَمَّهُ فَرَّقَ اللَّهُ عَلَيْهِ أَمْرَهُ وَجَعَلَ فَقْرَهُ بَيْنَ عَيْنَيْهِ وَلَمْ يَأْتِهِ مِنَ الدُّنْيَا إِلَّا مَا كُتِبَ لَهُ ‘‘ جو شخص دنیا کے لیے جیتا ہے تو اللہ اس کے معاملات کو بکھیر دیتا ہے او راس کی محتاجگی کو اس کی دونوں آنکھوں کے سامنے میں اس طرح سے رکھ دیتا ہے کہ وہ ہروقت اپنی غریبی کا رونا روتا رہتا ہے اور ایسے دنیا پرست کو تو دنیا اتنی ہی ملتی ہے جتنی کہ اللہ نے اس کے مقدر میں لکھا ہےاور اسی کے برعکس ’’ وَمَنْ كَانَتِ الْآخِرَةُ نِيَّتَهُ جَمَعَ اللَّهُ لَهُ أَمْرَهُ وَجَعَلَ غِنَاهُ فِي قَلْبِهِ وَأَتَتْهُ الدُّنْيَا وَهِيَ رَاغِمَةٌ ‘‘ جو شخص اس دنیا میں رہ کر آخرت کے لیے جیتا ہے تو اللہ اس کے معاملات کی شیرازہ بندی کردیتا ہے اور ایسے انسان کے دل کو غنی کردیتا ہے اور دنیا بھی ذلیل وخوار ہوکر ایسے لوگوں کے قدموں میں گرجاتی ہے۔(الصحیحۃ:950،ابن ماجہ:4105،ترمذی عن انس:2465)

(4) دشمنوں کے مکروفریب سے حفاظت:

نیک اعمال کو انجام دینے سےچوتھا فائدہ جو ایک انسان کو ملتا ہے وہ یہ ہے کہ نیک اعمال کی وجہ سے رب العالمین اس کی دشمنوں کے خلاف مدد کرتا رہتا ہے،دشمن کے مکروفریب سے اس کی حفاظت کرتا رہتا ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:’’ وَإِنْ تَصْبِرُوا وَتَتَّقُوا لَا يَضُرُّكُمْ كَيْدُهُمْ شَيْئًا إِنَّ اللَّهَ بِمَا يَعْمَلُونَ مُحِيطٌ ‘‘ تم اگر صبرسے کام لو اور تقوی وپرہیزگاری کو اپناؤ تو ان(کفارومشرکین اور منافقین واعدائے اسلام ومسلمین) کا مکر وفریب تمہیں کچھ نقصان نہ دے گا۔(آل عمران:120)

(5) نیک اعمال سے غریبی ومحتاجگی کا خاتمہ ہوتا ہے:

نیک اعمال کا دنیا ہی میں پانچواں فائدہ یہ حاصل ہوتا ہے کہ نیک اعمال کے کرنے سے ایک انسان کی غریبی ومحتاجگی بھی دورہوتی ہے جیسا کہ ابن مسعودؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایاکہ:’’ تَابِعُوا بَيْنَ الحَجِّ وَالعُمْرَةِ فَإِنَّهُمَا يَنْفِيَانِ الفَقْرَ وَالذُّنُوبَ كَمَا يَنْفِي الكِيرُ خَبَثَ الحَدِيدِ وَالذَّهَبِ وَالفِضَّةِ۔۔۔۔۔۔۔‘‘ تم حج وعمرہ پے درپے کرتے رہا کرو کیونکہ حج وعمرہ غریبی وفقیری اور گناہوں کو ایسے ہی ختم کردیتے ہیں جیسے کہ آگ کی بھٹی لوہے ،سونے اور چاندی کے میل وکچیل کو دورکردیتی ہے۔ (ترمذی:810،نسائی:2630اسنادہ صحیح)

(6) رزق میں برکت اور عمر میں اضافہ:

نیکیوں میں سے کچھ ایسی نیکیاں بھی ہیں جس کو انجام دینے سے ایک انسان کے رزق اور اس کے عمر میں اضافہ کردیا جاتا ہے جیساکہ انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا :

’’ مَنْ سَرَّهُ أَنْ يُمَدَّ لَهُ فِي عُمْرِهِ وَيُزَادَ فِي رِزْقِهِ فَلْيَبَرَّ وَالِدَيْهِ وَلْيَصِلْ رَحِمَهُ ‘‘ کہ جس آدمی کو یہ بات اچھی لگتی ہو کہ اس کی عمر لمبی کردی جائے اور اس کے رزق میں اضافہ کردیا جائے تو وہ والدین کے ساتھ اچھا سلوک کرے اور اپنے رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔(احمد:13401،صحیح الترغیب والترھیب للألبانیؒ:2488)عمر میں کیسے اضافہ ہوتا ہےاس کےتین مفہوم اہل علم نے بیان کیے ہیں :

پہلا یہ کہ عمر میں برکت اس طور پر ہوتی ہے کہ انسان کو نیک اعمال کو انجام دینے کی توفیق ملتی ہےاور ایسا انسان دنیا میں رہ کر وقتوں کو ضیاع وبرباد نہ کرتے ہوئے ہرآن اور ہرلمحہ اپنی آخرت کو بنانے اور سنوارنے کی فکرمیں مگن رہتا ہے۔

دوسرا: معنی یہ ہےکہ ایسے انسان کی عمر کو حقیقی معنوں میں بڑھادیا جاتا ہے وہ اس طرح سے کہ لوح محفوظ کے اندر یہ بات تحریر ہوتی ہے کہ اس انسان کی عمر اتنی ہے اور اگر اس نے صلہ رحمی کیا ،والدین کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آیا تو اس کی عمر بڑھا کر اتنی اور اتنی کردی جائے گی کیونکہ ’’ يَمْحُو اللهُ مَا يَشَاءُ وَيُثْبِتُ وَعِندَهُ أُمُّ الْكِتَابِ ‘‘ اللہ جو چاہے مٹادے اور جوچاہے ثابت رکھے،لوح محفوظ اسی کے پاس ہے۔(الرعد:39)

تیسرا: معنی یہ ہے کہ ایسے انسان کےمرنے کے بعد بھی لوگوں میں ان کا ذکر خیراورذکر جمیل باقی رہتا ہے۔

(شرح النووی علی مسلم:16/114)

(7) موت کو مؤخر کردیا جاتا ہے:

نیکیوں کا ساتواں عظیم فائدہ اس دنیا میں یہ ملتا ہے کہ نیکیوں کو انجام دینے سے رب العالمین ایک انسان کے موت کو بھی مؤخر کردیتا ہے جیسا کہ انس بن مالکؓ بیان کرتے ہیں کہ آپﷺ نے فرمایا:’’ مَنْ أَحَبَّ أَنْ يُبْسَطَ لَهُ فِي رِزْقِهِ وَيُنْسَأَ لَهُ فِي أَثَرِهِ فَلْيَصِلْ رَحِمَهُ ‘‘ یعنی کہ جس آدمی کو یہ پسند ہو کہ اس کے رزق میں اضافہ کردیا جائے اور اس کی موت کو مؤخرکردیا جائے تو وہ صلہ رحمی کرے۔ (بخاري:5985،مسلم:2557) نیکیوں کی وجہ سے صرف موت کو ہی مؤخر نہیں کیا جاتا ہے بلکہ رب العالمین نیکیوں کی وجہ سے دنیوی آفتوں و مصیبتوں کو بھی مؤخر کردیتاہے کہ جیسا سورہ ہود کے اندر مذکور ہے فرمان باری تعالی ہے:’’ وَأَنِ اسْتَغْفِرُوا رَبَّكُمْ ثُمَّ تُوبُوا إِلَيْهِ يُمَتِّعْكُمْ مَتَاعًا حَسَنًا إِلَى أَجَلٍ مُسَمًّى ‘‘ یعنی کہ ہودعلیہ الصلاۃ والسلام نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ تم لوگ اپنے گناہ اپنے رب سے معاف کراؤ پھر اسی کی طرف متوجہ ہو،وہ تم کو وقت مقررتک اچھا سامان زندگی دے گا۔

(8) دنیوی مصائب ومشکلات اورآفتیں و بلائیں ٹل جاتی ہیں:

نیکوں کا آٹھواں عظیم فائدہ یہ ہوتا ہے کہ نیکیوں کے ذریعے دنیوی آفتوں اور مصیبتوں ،بلاؤں اور عذابوں کو بھی دوربھگایاجاسکتا ہے،یہی وجہ ہے کہ جب آپﷺ کے سامنے میں کوئی پریشان کن معاملہ آجاتا تو آپﷺ فورا نماز کا سہارا لیتے تھےجیساکہ سیدنا حذیفہؓ بیان کرتے ہیں کہ ’’ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِذَا حَزَبَهُ أَمْرٌ صَلَّى ‘‘جب کبھی بھی کوئی پریشانی والامعاملہ آجاتاتو آپﷺ نماز کے لیے کھڑے ہوجاتے تھے۔( احمد:23299،ابوداؤد:1319)صرف یہی نہیں بلکہاگر کوئی انسان نیکیوں کا حوالہ دے کرکے اللہ سے کوئی فریاد لگائے گایا پھر کسی مصیبت وپریشانی سے نجات وخلاصی چاہے گا تو اس کی مدد وفریادرسی ضروربالضرور کی جائے گی جیسا کہ فرمان مصطفیﷺ ہےکہ بنی اسرائیل کے تین آدمی کہیں سفر میں جارہے تھے بارش سے بچنے کے لیے یا پھر رات گذارنے کے لیے انہوں نے ایک غار میں پناہ لی اتنے میں پہاڑ سے ایک چٹان لڑھکی اور اس نے غار کا منہ بند کردیا،سب نے کہا کہ اس غار سے تمہیں تمہاری نیکیاں ہی نکال سکتی ہیں لہذا تم سب اپنی اپنی نیکیوں کا حوالہ دے کرکے رب سے دعاکرو اس پر ان میں سے ایک شخص نے کہا کہ اے اللہ ! میرے والدین بہت بوڑھے تھے میں اپنے بیوی بچوں اور غلاموں کو چھوڑکرروزانہ سب سے پہلےان کو ہی دودھ پلایا کرتاتھا ایک دن مجھے گھرلوٹنے میں تاخیر ہوگئی ،جب میں دودھ لے کر حاضرہواتومیرے والدین سوچکے تھے ،میں نے انہیں جگانا بھی گوارا نہ کیااور نہ ہی میں نے یہ گواراکیاکہ ان سے پہلے اپنے بیوی بچوں اور غلاموں کو دودھ پلادوں لہذا میں ساری رات دودھ کا پیالہ لے اپنے والدین کے سرہانے لے کر کھڑارہا حالانکہ میرے قدموں میں بیوی بچے بھوک کی وجہ سے تڑپ رہے تھے مگر پھر بھی میں نے اپنے والدین سے پہلے ان کو دودھ نہ پلایا یہاں تک کہ صبح ہوگئی جب میرے والدین بیدارہوئے اور تب انہوں نے شام کا دودھ پیا،اے اللہ!’’ اللَّهُمَّ إِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَفَرِّجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ مِنْ هَذِهِ الصَّخْرَةِ ‘‘ اگر میں نے یہ کام محض تیری رضاحاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو اس چٹان کی آفت ومصیبت کو ہم سے ہٹادے،آپﷺ نے فرمایاکہ اس شخص کی دعا سے چٹان تھوڑا سا ہٹا یہاں تک کہ آسمان نظر آنے لگا مگرابھی نکلنا ممکن نہ تھا ،اب دوسرا شخص دعاگوہوتا ہے کہ اے اللہ! تو جانتا ہے کہ میری ایک چچازاد تھی جس سے مجھے شدید محبت بھی تھی میں نے اسے کئی بار بدکاری کی دعوت دی مگر ہربار اس نے انکار کیا آخر ایک وقت ایسا آیا کہ ہمارے علاقے میں قحط سالی ہوگئی تب وہ میرے پاس مدد کے لیے ،میں نے اسے ایک سو بیس دینار اس شرط پر دیے کہ وہ میرے ساتھ بدکاری کرے ،وہ راضی ہوگی اور میں اس سے بدکاری ہی کرنے والا تھا کہ اس نے مجھ سے کہا کہ ’’ يَا عَبْدَ اللَّهِ اتَّقِ اللَّهَ!! وَلاَ تَفْتَحِ الخَاتَمَ إِلَّا بِحَقِّهِ ‘‘ اے اللہ کے بندے اللہ سے ڈراور اس کی مہر کی حق کے بغیر نہ توڑ،اے اللہ یہ سنتے ہیں میں سیدھے کھڑاہوگیا’’ فَإِنْ كُنْتَ تَعْلَمُ أَنِّي فَعَلْتُهُ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ فَافْرُجْ عَنَّا فَرْجَةً ‘‘ اے اللہ تو جانتا ہے میں نے یہ کام صرف تیری رضا ہی کے لیے کیا تھا اے اللہ اس غار کے پتھر کو ہٹا دے ،اس انسان کی دعا سے بھی چٹان اور تھوڑا سرک گئی مگر نکلنا اب بھی ممکن نہ تھا اب تیسرا آدمی دعاگوہوتا ہے اور کہتا ہے کہ اے اللہ ایک مرتبہ کی بات ہے کہ میں چندلوگوں کو مزدوری پر رکھا تھا سب نے اپنی اپنی مزدوری لے لی تھی مگر اس میں سے ایک مزدور ایسا تھا کہ اس نے اپنی مزدوری نہیں لی تھی اب میں نے اس کی مزدوری کو اپنے کاروبار سے ملا لیا جس سے بہت کچھ منافع حاصل ہوگیا،پھر ایک زمانے کے بعد وہی مزدور واپس آگیا اور اپنی مزدوری کا مجھ سے مطالبہ کیا ،میں نے اس سے کہا کہ یہ جو کچھ دیکھ رہا ہے اونٹ،گائے ،بکری اور غلام یہ سب تمہارے ہیں،وہ کہنے لگا کہ اے اللہ کے بندے تو مجھ مذاق نہ کر ،میں نے کہا کہ میں سچ کہہ رہاہوں یہ ساری چیزیں تمہاری ہی مزدوری سے حاصل ہوئی ہیں چنانچہ اس شخص نے سب کچھ لیا اور اپنے ساتھ لے گیا،ایک چیز بھی اس میں سے باقی نہیں چھوڑی،اے اللہ!!’’ اللَّهُمَّ فَإِنْ كُنْتُ فَعَلْتُ ذَلِكَ ابْتِغَاءَ وَجْهِكَ، فَافْرُجْ عَنَّا مَا نَحْنُ فِيهِ ‘‘ اگر میں نے یہ سب کچھ تیری رضا مندی حاصل کرنے کے لیے کیا تھا تو ہماری اس مصیبت کو دور کردے،آپﷺ نے فرمایا کہ ان تینوں کی دعاؤں سے ’’ فَانْفَرَجَتِ الصَّخْرَةُ، فَخَرَجُوا يَمْشُونَ ‘‘ وہ چٹان ہٹ گئی اور وہ سب باہر نکل کر چلے گیے۔سبحان اللہ۔(بخاری:2272،2333،2215)

محترم قارئین!نیکیوں کی وجہ سے شدید سے شدید آفتوں اور مصیبتوں کا زائل ہوجانا قرآن سے بھی ثابت ہے اب دیکھیے کہ سیدنا یونس علیہ الصلاۃ والسلام مچھلی کی پیٹ میں چلے گیے ،باہر آنے کا کوئی راستہ نہیں ہے ،تین تین اندھیروں میں پھنس گیے انہیں رب العالمین نے اتنی بڑی مصیبت سے کیوں نجات دی اس کا بیان کرتے ہوئے فرمایا کہ ’’ فَالْتَقَمَهُ الْحُوتُ وَهُوَ مُلِيمٌ ، فَلَوْلَا أَنَّهُ كَانَ مِنَ الْمُسَبِّحِينَ ، لَلَبِثَ فِي بَطْنِهِ إِلَى يَوْمِ يُبْعَثُونَ ‘‘ یونس کو مچھلی نے نگل لیا اوروہ خود اپنے آپ کو ملامت کرنے لگ گیے،پس اگریہ یونس اللہ کی پاکی بیان کرنے والوں میں سے نہ ہوتے تو قیامت کے دن تک اسی مچھلی کے پیٹ میں ہی رہتے۔(الصفات:142-144) سبحان اللہ تسبیح وتہلیل ،تحمید وتقدیس کا اثر دیکھیے کہ رب العالمین نے سیدنا یونس علیہ الصلاۃ والسلام کو اتنی بڑی مصیبت سے نجات دے دی اور اس کی اتنی زیادہ تاثیر ہی کی وجہ سےرب العالمین نے جناب محمدعربیﷺ کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ اے اللہ کے نبیﷺ آپ کفارومشرکین اور منافقین واعدائے اسلام کی باتوں اور ان کے مسخرہ پن سے رنج وغم میں مبتلا ہوکرافسردہ وکبیدہ خاطرہوجاتے ہیں اور اگر آپ ان کی باتوں سے نجات پانا چاہتے ہیں اور اپنے رنج وغم کی کیفیت کو سرور وخوشی میں بدلنا چاہتے ہیں تو اللہ کی عبادت وبندگی کوتادم حیات لازم پکڑیں اور اللہ کی تسبیح وتحمید بیان کرتے رہیں اس سے آپ قلبی سکون بھی ملے گا ،اللہ کی مدد بھی حاصل ہوگی اور ان سب کے طرف سے رب آپ کے لیے کافی ہوجائے گاجیسا کہ فرمان باری تعالی ہےکہ :’’ وَلَقَدْ نَعْلَمُ أَنَّكَ يَضِيقُ صَدْرُكَ بِمَا يَقُولُونَ ، فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّكَ وَكُنْ مِنَ السَّاجِدِينَ ، وَاعْبُدْ رَبَّكَ حَتَّى يَأْتِيَكَ الْيَقِينُ ‘‘ ہمیں خوب معلوم ہے کہ ان کی باتوں سے آپ کا دل تنگ ہوجاتا ہے ،اسی لیے آپ اپنے پروردگار کی تسبیح اور حمد بیان کرتے رہیں اور سجدہ کرنے والوں میں شامل ہوجائیں اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہیں یہاں تک کہ آپ کی موت آجائے۔(الحجر:97-99)

(9) مال و اولاد اور اہل وعیال کی حفاظت کی جاتی ہے:

نیکیوں کو انجام دینے سے ایک انسان کی اولاد اور اس کی مال کی بھی حفاظت کی جاتی ہےاوراس بات کی دلیل اللہ کے کلام میں موجود ہے کہ جب حصول علم کی خاطر سیدنا موسی علیہ الصلاۃ والسلام نے خضر علیہ السلام کےساتھ سفر کیا تو دوران سفر ایک بستی والوں نے دونوں کی مہمان نوازی کرنے سے انکار کردیا ،پھر بھی خضرعلیہ السلام نے نے اس گاؤں کے اندر ایک مکان کی گرتی ہوئی دیوار کی تصحیح ومرمت کردی پھر بعد میں خود خضرعلیہ السلام نے اس بات کی وضاحت کی کہ میں نے ایسا کیوں کیا؟انہوں نے کہاکہ دراصل وہ گرتی ہوئی دیوارایک ایسے صالح انسان کی تھی جس کے دو یتیم بچے تھے اور اس صالح شخص نے اپنے بچوں کے لیے اس دیوار کے نیچے خزانوں کو چھپارکھاتھا،اب اگر وہ دیوارگرجاتی تو خزانہ باہرنکل آتا جس کی حفاظت وصیانت ابھی یہ معصوم بچے نہیں کرسکتے تھے اسی لیے میں نے اس گرتی ہوئی یوار کی مرمت کردی تاکہ ابھی وہ خزانہ محفوظ رہے اور جب یہ دونوں بچے جوان ہوجائے تو پھر اس خزانے کو نکال لیں جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے:’’ وَأَمَّا الْجِدَارُ فَكَانَ لِغُلَامَيْنِ يَتِيمَيْنِ فِي الْمَدِينَةِ وَكَانَ تَحْتَهُ كَنْزٌ لَهُمَا وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا فَأَرَادَ رَبُّكَ أَنْ يَبْلُغَا أَشُدَّهُمَا وَيَسْتَخْرِجَا كَنْزَهُمَا رَحْمَةً مِنْ رَبِّكَ ‘‘ اور دیوار کا قصہ یہ ہے کہ اس شہر میں دو یتیم بچے ہیں جن کا خزانہ ان کی اس دیوار کے نیچے دفن ہے،ان کا باپ بڑا نیک شخص تھا تو تیرے رب کی چاہت تھی کہ یہ دونوں یتیم اپنی جوانی کی عمر میں آکر اپنا یہ خزانہ تیرے رب کی مہربانی اور رحمت سے نکال لیں۔(الکہف:82)مذکورہ آیت کے الفاظ ’’ وَكَانَ أَبُوهُمَا صَالِحًا ‘‘ اور ان کا باپ نیک تھا کی تفسیر میں عبداللہ بن عباسؓ فرماتے ہیں کہ ان کی حفاظت ان کے باپ کی نیکی کی وجہ سے کی گئی اور ان بچوں کی نیکی کا کوئی ذکر نہیں کیا گیا ،معلوم ہوا کہ نیک انسان کے مال واولاد کی حفاظت اس کی وفات کے بعد بھی کی جاتی ہے،مزید اس بات پر رب کا یہ فرمان بھی شاہد ہے ’’ إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ الَّذِي نَزَّلَ الْكِتابَ وَهُوَ يَتَوَلَّى الصَّالِحِينَ ‘ ‘ یقینا میرا کارساز اللہ ہے جس نے یہ کتاب نازل فرمائی اور وہ نیک بندوں کی کارسازی کرتا ہے۔(الاعراف:196)

(10) لوگوں کے دلوں میں محبت ڈال دی جاتی ہے:

نیک اعمال کو انجام دینے کا ایک فائدہ دنیا میں ایک انسان کو یہ بھی حاصل ہوتا ہے کہ لوگوں کے دلوں میں اس کی محبت اور قبولیت ڈال دی جاتی ہے جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے :’’ إِنَّ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ سَيَجْعَلُ لَهُمُ الرَّحْمَنُ وُدًّا ‘‘ بے شک کہ جولوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے شائستہ اعمال کیے ہیں ان کے لیے اللہ رحمن محبت پیداکردے گا۔(مریم:96) کیسی اور کس طرح کی محبت ؟تو اس محبت کی وضاحت کے لیے پیارے رسولﷺ کی یہ پیاری سی حدیث پڑھ لیں سيدنا ابوهريرہؓ بیان کرتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا:’’ إِذَا أَحَبَّ اللَّهُ عَبْدًا نَادَى جِبْرِيلَ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحِبَّهُ فَيُحِبُّهُ جِبْرِيلُ فَيُنَادِي جِبْرِيلُ فِي أَهْلِ السَّمَاءِ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ فُلاَنًا فَأَحِبُّوهُ فَيُحِبُّهُ أَهْلُ السَّمَاءِ ثُمَّ يُوضَعُ لَهُ القَبُولُ فِي أَهْلِ الأَرْضِ ‘‘ یعنی کہ جب اللہ تعالی کسی بندے سے محبت کرتا ہے تو جبرئیل علیہ السلام سے کہتا ہے کہ بیشک اللہ تعالی فلاں بندے سے محبت کرتا ہے لہذا تم بھی اس بندے سے محبت کرو،چنانچہ جرئیل علیہ السلام بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں پھر جبرئیل علیہ السلام آسمان کے فرشتوں کے درمیان یہ ندالگاتے ہیں کہ اے فرشتوں کی جماعت بیشک کہ اللہ تعالی فلاں بندے سے محبت کرتے ہیں لہذا تم سب فرشتے بھی اس بندے سے محبت کرو،یہ اعلان سن کر کے تمام آسمانی فرشتوں اس بندے سے محبت کرنے لگ جاتے پھراس بندے کی مقبولیت روئے زمین پر اس طرح نازل کی جاتی ہے کہ زمین کے باشندے بھی اس سے محبت کرنے لگ جاتے ہیں ۔(بخاری:6040)

آخر میں رب العالمین سے دعاگوہوں کہ الہ العالمین ہم سب کو زیادہ سے زیادہ نیک اعمال کرنے کی توفیق عطافرمائےاور ہم سب کو اعمال صالحہ سے محبت کرنے والا اور سدا نیکیوں کی راہ پر چلنے والا بنائے۔آمین یا رب العالمین



کتبہ

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

 
Top