وَوَصَّيْنَا الْإِنسَانَ بِوَالِدَيْهِ إِحْسَانًا حَمَلَتْهُ أُمُّهُ كُرْهًا وَوَضَعَتْهُ كُرْهًا وَحَمْلُهُ وَفِصَالُهُ ثَلَاثُونَ شَهْرًا حَتَّى إِذَا بَلَغَ أَشُدَّهُ وَبَلَغَ أَرْبَعِينَ سَنَةً قَالَ رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَى وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی کہ اسے اس کی ماں نے تکلیف سے اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف سے جنا اور اس کا حمل اور دودھ کا چھڑانا تیس مہینے ہیں یہاں تک کہ جب وہ اپنی جوانی کو پہنچا اور چالیں سال کی عمر کو پہنچا تو اس نے کہا اے میرے رب مجھے توفیق دے کہ میں تیری نعمت کا شکر ادا کروں جو تو نے مجھ پر انعام کی اور میرے والدین پر اور میں نیک عمل کروں جسے تو پسند کرے اور میرے لیے میری اولاد میں اصلاح کر بے شک میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور بے شک میں فرمانبردار میں ہوں
٤٦:١٥
تیس ماہ: ڈھائی سال بنتے ہیں
ترجمہ پر کوئی اعتراض نہیں اگر ہو تو ان نمبر سے دوسرے ترجم سے چیک کر سکتے ہیں۔
والسلام
محترم بھائی! درج بالا آیت کریمہ سے آپ نے یہ ثابت کیا ہے کہ
دودھ چھڑانے کی مدت
اڑھائی سال ہے۔ دلیل کے طور پر اپنے دئیے گئے ترجمہ میں آپ نے
صرف دودھ چھڑانے کو ہائی لائٹ کیا ہے، حالانکہ وہاں
دودھ چھڑانے کے ساتھ ساتھ حمل کا ذکر بھی ہے: دیکھئے:
اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ نیکی کرنے کی تاکید کی کہ اسے اس کی ماں نے تکلیف سے اٹھائے رکھا اور اسے تکلیف سے جنا اور اس کا حمل اور دودھ کا چھڑانا تیس مہینے ہیں
تو اس آیت کریمہ میں صرف دودھ چھڑانے کی نہیں بلکہ حمل اور دودھ چھڑانے کی
مشترکہ مدت اڑھائی سال بیان کی گئی ہے، جس میں سے
دو سال دودھ چھڑانے کے ہیں اور
چھ مہینے حمل کی کم از کم مدت ہے۔ واللہ تعالیٰ اعلم!
تو درج بالا آیت کریمہ سے آپ کا مدّعا ثابت نہیں ہو رہا۔
ویسے بھی دیگر دو آیات جو آپ نے کوٹ کی ہیں ان سے بھی دودھ پلانے یا چھڑانے کی مدت دو سال ہی ثابت ہوتی ہے، دیکھئے:
﴿ وَالوٰلِدٰتُ يُرضِعنَ أَولـٰدَهُنَّ حَولَينِ كامِلَينِ ۖ لِمَن أَرادَ أَن يُتِمَّ الرَّضاعَةَ ۚ ۔۔۔ ٢٣٣ ﴾ ۔۔۔ البقرة
مائیں اپنی اولاد کو
دو سال کامل دودھ پلائیں جن کا اراده دودھ پلانے کی مدت بالکل پوری کرنے کا ہو
﴿ وَوَصَّينَا الإِنسـٰنَ بِوٰلِدَيهِ حَمَلَتهُ أُمُّهُ وَهنًا عَلىٰ وَهنٍ وَفِصـٰلُهُ فى عامَينِ أَنِ اشكُر لى وَلِوٰلِدَيكَ إِلَىَّ المَصيرُ ١٤ ﴾ ۔۔۔ لقمان
ہم نے انسان کو اس کے ماں باپ کے متعلق نصیحت کی ہے، اس کی ماں نے دکھ پر دکھ اٹھا کر اسے حمل میں رکھا اور
اس کی دودھ چھڑائی دو برس میں ہے کہ تو میری اور اپنے ماں باپ کی شکر گزاری کر، (تم سب کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے (
14)
قرآن کریم اللہ کی کلام ہے، جس میں اختلاف نہیں ہو سکتا۔