• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

رمضان کے عشرہ اخیرہ کی طاق راتوں میں وعظ وتقریر

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
رمضان کے عشرہ اخیرہ کی طاق راتوں میں وعظ وتقریر


تحریر : کفایت اللہ سنابلی

رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں کوکیسے گذارناچاہئے ، رمضان کے جاتے جاتے یہ چیزبھی بحث کاایک موضوع بن جاتی ہے۔بلکہ ہرچہارجانب فتوی بازی بھی شروع ہوجاتی ہے ۔
بات سیروتفریح ،کھیل کود اور تضییع اوقات کی نہیں بلکہ عبادات اور شرعی امور کولیکر اختلاف واتفاق کے ڈنکے بجتے ہیں۔
اصل میں ان ساری بحثوں کے پیچھے یہ مقدمہ فرض کرلیا گیاہے کہ طاق راتوں میں عبادات کی نوعیت توقیفی ہے یعنی ان راتوں میں صرف انہی عبادتوں کو انجام دے سکتے ہیں جنہیں ان راتوں میں انجام دینے کے لئے صریح دلیل موجود ہو۔
ہماری نظر میں یہ مقدمہ ہی درست نہیں جس سے ساری الجھنیں پیداہورہی ہیں ۔یعنی ان راتوں میں مطلوب، عبادات کی نوعیت توقیفی نہیں بلکہ اختیاری ہے۔
ہمیں قرآن وحدیث یا اقوال سلف میں ایسی کوئی بات نہیں ملی ، جس سے مستفاد ہوتا ہو کہ ان راتوں میں عام مشروع عبادات میں سے ازخود کوئی عبادت منتخب نہیں کی جاسکتی ،بلکہ ان راتوں میں کسی بھی عبادت کواختیارکرنے کے لئے دلیل درکارہوگی۔
قرآن وحدیث کے نصوص اس بارے میں دیکھیں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اوراس کے رسول ﷺ نے ان راتوں میں کسی بھی خاص عبادت کی پابندی نہ بتلا کرعمومی طوپرکوئی بھی مشروع عبادت انجام دینے کی ترغیب دلائی ہے۔
قرآن میں سورۃ القدر میں شب قدر کی عبادت کو ہزارمہینوں کی عبادت سے بہتربتایاگیا لیکن یہ تعیین نہیں کی گئی ہے کہ شب قدر میں کس نوعیت کی مشروع عبادت انجام دینی ہے۔
احادیث میں میں شب قدر اور طاق راتوں میں عبادات کی ترغیب ملتی ہے لیکن کوئی حدبندی یہاں بھی نظر نہیں آتی۔
لہٰذا ان راتوں میں ہروہ عام عبادات انجام دی جاسکتی ہیں جو کتاب وسنت سے عمومی اوقات کے لئے ثابت ہیں۔مثلا نفلی نمازیں،صدقہ و خیرات،تلاو ت قرآن،ذکرواذکار،دعاء واستغفار
تسبیح وتہلیل ، تکبیرو وتحمید،صلاۃ وسلام، احسان وہمدردی، دعوت وتذکیراور امربالمعروف اورنہی عن المنکروغیرہ۔
نیزچوں کہ ان راتوں میں دیگرشرعی امور کی اصلاممانعت بھی وارد نہیں ہے جیسے وعظ وتقریروغیرہ ۔لہٰذا ان چیزوں کومحض اس وجہ سے ناجائز کہنا غلط ہے کہ ان راتوں میں ان کے جواز کی صریح دلیل موجود نہیں ہے۔ کیونکہ ان راتوں میں اصل حرمت نہیں ،نہ مشروع عبادات میں نہ دیگر شرعی امورمیں ۔اس لئے ان راتوں میں ہرعام عبادت انجام دی جاسکتی ہے اور ہر وہ شرعی کام بھی کیاجاسکتا ہے جس کا دینی فائدہ محسوس ہو جیسے وعظ ونصیحت ،وتفسیرقرآن وغیرہ۔
اب ان امور کو انجام دینے والے کی ذمہ داری صرف اتنی ہے کہ وہ کتاب وسنت سے ان کاموں کوعبادت یا شرعی امر ثابت کردے ۔ باقی خاص ان راتوں میں ان امور کی انجام دہی کے لئے کسی خاص وصریح دلیل کی ضرورت نہیں بلکہ جو شخص ان امور کے خلاف بات کرے اس کی ذمہ داری ہے کہ ان راتوں میں ان کی ممانعت پردلائل پیش کرے۔واللہ اعلم۔
واضح رہے کہ طاق راتوں میں مساجد کے اندر پوری پوری رات یا رات کے اکثر حصوں کو وعظ و تقریر کی نذر کردینا جس سے نہ صرف یہ کہ عبادت کی غرض سے مساجد کا رخ کرنے والے حضرات پرسکون عبادت کے مواقع سے محروم ہوجائیں بلکہ مساجد میں موجود معتکفین کی عبادتیں بھی خلل انداز ہوں تو اس طرزعمل کو درست قرار نہیں دیا جاسکتا ۔لیکن مناسب وقت اور مناسب ترتیب کے ساتھ اگر طاق راتوں میں کچھ وعظ و نصیحت کا بھی اہتمام کرلیا جائے تو اسے بدعت و ناجائز اور حرام کہنے کی بھی کوئی وجہ معلوم نہیں ہوتی واللہ اعلم۔
 
Top