محمد عامر یونس
خاص رکن
- شمولیت
- اگست 11، 2013
- پیغامات
- 17,117
- ری ایکشن اسکور
- 6,783
- پوائنٹ
- 1,069
روایتیں ضعیف " اور موضوع " کیونکر ہوتی ہیں ؟
ابوبکر قدوسی
پہلا حصہ
.................
انسان کو زمین پر اتارا گیا، لیکن کچھ ہی دن میں حضرت انسان نے وہی من مانی شروع کر دی جو جنت میں کر کے نکلا تھا - اب کی بار مگر یہ بغاوت تھی اور عقائد کے باب میں تھی - انسان نے اپنے خالق کو بھول کے نت نیے معبود بنا لیے ..کمال یہ ہوا کہ ایسے تمام معبود وہ تھے جن پر اللہ نے انسان کو قدرت اور فوقیت دی تھی -پہلا حصہ
.................
دیکھیے نا شجر ، ہجر ، جانور ، پانی ، آگ اور ہوا ، اللہ نے انسان کی سہولت کے لیے پیدا کیں ...ظاہر سی بات ہے جو شے انسان کے استعمال کے لیے ہو گی وہ اس کے مطیع ہی ہو گی ..لیکن انسان نے ہمیشہ "کمال " کیا سو اس بار بھی ان اشیاء کو اپنا معبود بنا لیا ، ذرا مزاج میں تلون آیا اور جی چاہا کوئی تبدیلی ہو ، معبود بھی نیا ہو تو اپنے مردہ بزرگوں کو خدا ٹہرا لیا - اللہ کہ انسان سے بے پناہ محبت کرتا تھا سو اس نے ان کی ہدایت کے لیے جابجا اور مسلسل انبیاء معبوث کیے -
انبیاء آتے رہے ، انسان کبھی سنبھلتے رہے اور کبھی بگڑتے رہے - حتی کہ اللہ نے فیصلہ کر لیا کہ اب یہ سلسلہ موقوف کرنا ہے - اب کوئی نبی نہیں آئے گا - لیکن ضروری تھا کہ انسان پر اتمام حجت کر دیا جاتا - ایسا نہ ہو کہ روز قیامت کوئی انسان چہرے پر ہزار عذر سجائے کہہ اٹھے کہ ماضی کی امتوں کے لیے ہزاروں انبیاء آتے رہے ، لیکن ہم محروم رہے - جب محروم رہے تو سزاء کیونکر ہو ؟
سو اس سلسلے کو موقوف کرنے سے پہلے اللہ رب العزت نے آخری نبی بھیجے کہ جن کا نام نامی اسم گرامی محمد تھا -(صلی اللہ علیه وسلم )
اب جب نبی آخری تھا ، اور یہ فیصلہ کر لیا تھا کہ ان کے بعد کوئی نہیں آئے گا - اب آسمانوں سے جبرائیل کا آنا ختم ہوا تو لازمی تھا کہ پیغام ہدایت اور کتاب رشد بھی تمام تر اہتمام اور حفاظت کے ساتھ اترتی -
سو جب قران نازل ہوا تو اس کی حفاظت کا وعدہ بھی ساتھ شامل ہوا -اللہ نے فرمایا :
إِنَّا نَحْنُ نَزَّلْنَا الذِّكْرَ وَإِنَّا لَهُ لَحَافِظُونَ
ہم نے اس ذکر کو نازل کیا اور ہم ہی اس کی حفاظت کرنے والے ہیں -
یہ تو تھا حفاظت کا وعدہ اور اس کا سبب ہم نے بیان کر دیا کہ اب جبرائیل نے آسمانوں سے زمین کا سفر نہیں کرنا تھا - اس وعدے کے ساتھ انسانوں کو بھی کچھ ہدایات جاری کیں گئیں -
وَمَا آتَاكُمُ الرَّسُولُ فَخُذُوهُ وَمَا نَهَاكُمْ عَنْهُ فَانتَهُوا ۚ وَاتَّقُوا اللَّهَ ۖ إِنَّ اللَّهَ شَدِيدُ الْعِقَابِ
اپنے عذاب کی خبر دیتے ہووے ، اور محتاط رہنے کی ہدایت کرتے ہوئے اللہ نے انسان کو حکم دیا کہ رسول جو تم کو دیں لے لو ،اور جس شے سے منع کریں ان سے رک جاؤ -
"اتاکم" کے مفھوم میں جو جامعیت ہے اس نے نبی کریم صلی اللہ علیه وسلم کے افعال ، اقوال سب کو سمیٹ لیا ہے -
اس حکم کے ساتھ ساتھ نہایت محبت سے نصیحت بھی کر دی کہ
لَّـقَدْ كَانَ لَكُمْ فِىْ رَسُوْلِ اللّـٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ
دیکھئے ! اللہ کی انسان کے لیے کیسی کھلی محبت اس آیت میں جھلک رہی ہے -
اب جب تسلسل سے ان آیات کو دیکھتے ہیں تو سوال تو پیدا ہوتا ہے کہ جب اسوہ رسول ہمارے لیے کامل ترین نمونہ ہے تو اسے محفوظ تو رکھا ہو گا ؟
اور جب محفوظ رکھا ہو گا تب ہی ہم اسے لے سکیں گے ، اختیار کر سکیں گے ، اپنا سکیں گے -
یہ تو نہیں کہ عذاب کی وعید تو سنا دی کہ "جو نبی دے لے لو ...ورنہ عذاب شدید ہے " اور جب لینے نکلیں تو پھر آواز آئے کہ نبی کا اسوہ ہی لینا ، کہ بہترین ہے ..لیکن میدان تحقیق میں نکلیں تو خبر ملے کہ کچھ محفوظ ہی نہیں ، میاں کیا ڈھونڈتے ہو .....وہ جو ذکر نازل کیا ، جس کی حفاظت کا وعدہ کیا ، اس کی کوئی تشریح بھی محفوظ نہیں ....
انسان الجھ تو جائے گا -
دوستو ! نبی کے یہ افعال ، الفاظ ، ہی ہیں جن کو اللہ نے قران میں اپنا لینے کا حکم دیا ہے - جو ایک ایک پل ، ہر ہر صورت میں محفوظ ہے ...اس کو ہی حدیث کہتے ہیں
...........جاری ہے..
میں اقساط میں لکھنے کا قائل ہوں نہ فاعل ..اصل میں مکتبہ قدوسیہ شیخ البانی رحمہ اللہ کی کتاب سلسلہ ضعیفہ کا اردو ترجمہ شائع کر رہا ہے ، ارادہ تھا کہ اس کا مقدمہ خود لکھا جائے ، سوچا یہاں فیس بک پر ہی اقساط میں لکھ دوں ممکن ہے کسی دوست کا بھلا ہو جائے ، اگر اللہ چاہے