• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

زنا بالجبر اور زنا بالرضا کی تقسیم : ٹی وی اینکر عائشہ بخش‘ اور صحافی سبوح سید کے نام کھلا خط

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
زنا بالجبر اور زنا بالرضا کی تقسیم : ٹی وی اینکر عائشہ بخش‘ اور صحافی سبوح سید کے نام کھلا خط
از قلم :ظفر اقبال ظفر
پاکستان ایک اسلامی جمہوریہ ریاست ہے جس کا مطلب یہ ہے کہ یہ ریاست اسلامی ریاست ہے اور اس میں اکثریت مسلمان ہیں اور جمہوریہ کا مطلب یہ ہوتا ہے(گورنمنٹ آف دا پیپل ‘ بائے دا پیپل ‘ فار دا پیپل )لوگوں کی مرضی کی منتخب کر دہ حکومت جو لوگوں کی فلاح اور بہبود پر کام کرے اور مفاد عامہ کی بنیاد پر ان کی ضروریات پوری کرے اور ہر وہ کام کرے جس پر کثرت سے لوگ رائے رکھتے ہو۔ اور عوام کے مفادات کو اس ریاست میں تحفظ فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داری ہے۔
ایک بات یہاں ذہن میں رکھیں !کہ کچھ سیکولر اور لبرل سوچ کے لوگ اس ملک کی جمہوریت کو مغربی جمہوریت کی طرح سمجھتے ہیں وہ اصل میں اس ملک کی نظریاتی فلاسفی سے بے خبر ہیں ‘ نہیں تو جمہوریت کا لفظ بول کر اس ملک میں مسلمانوں کے ساتھ دھوکہ کرنے کی کوشش کرتے ہیں ۔ اور میڈیا ‘ غیر ملکی ایجنسیز‘ غیر ملکی این جی اوز اس پر حکومت اور سیاستدان اور مذہب سے وابستہ لوگ جو درباری ملاّ اور منصب کے چکر میں اس ملک کی اساس اور بنیادوں کے خلاف فتویٰ دے کر سیکولر اور لبرل لوگوں کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں اور ان کو اغیار کی طرف سے نوازہ جاتا ہے ۔ سیکولر لوگ ان مفتیان کے فتوے کو لے کر اس ملک اور اس کی عوام کے فیصلے مغربی جمہوریت کے اصولوں پر کرتے ہوئے غیر اسلامی قوانین وضع کرنے کی کوشش کرتے ہیں اور اس پر قانون ساز اسمبلیوں کو مہنگے داموں خریدہ جاتا ہے ۔جب یہ ثابت ہو گیا کہ یہ مسلمانوں پر مشتمل اسلامی ریاست ہے تو جمہوریت کا مطلب بھی واضح ہونا چاہیے کہ جس بات پر مسلمان متحد ہونگے وہ اس ملک کا قانون ہو گا اور اس کے مطابق اس ملک میں مسلمانوں کے مفادات کے متعلق فیصلے ہونگے اور ان کے مطابق ہی قانون سازیاں ہونگی ۔ تو یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ مسلمان کی رائے کو قرآن و سنت کے رائے کے مقابلے میں رکھ کر قانون سازی کی جائے ؟ مسلمان کی رائے قرآن و سنت کی روشنی میں ہی ہوگی اور اس پر قانون سازی کی ضرورت نہیں کیونکہ مسلمان کا یہ ایمان ہوتا ہے کہ اللہ کا حکم قرآن و سنت کی روشنی میں موجود ہے اس کے ہوتے ہوئے کسی وضعی قانون کی ضرورت نہیں۔ کیونکہ اسلام مکمل دین ہے اور قیامت تک آنے والے تمام مسائل کا حل پیش کرتا ہے اور اگر اس میں کوئی ردّو بدل کی کوشش کرتا ہے تو اسلام کی عالمگیریت میں اور تکمیل میں نقص پیدا کرنے اور اضافہ کرنے کی کوشش کرتا اور اسے نا مکمل خیال کرتے ہوئے اپنی مرضی سے قوانین وضع کرتا ہے ۔اور جو یہ عقیدہ اور نظریہ رکھتا ہے وہ بالاتفاق مسلمان نہیں ہوتا اور اس کی رائے کی خاک برابر اہمیت نہیں ہوتی ۔اور یہ بھی واضح ہو ا کہ اسلامی ریاست میں قانون ساز اسمبلی ( مجلس شوریٰ)اسلامی قوانین کی روشنی میں اس ریاست کے تمام معاملات چلاتی ہے ۔ مسلمان کی ذاتی رائے اور خواہش پر کوئی قانون نہیں بنایا جائے گا ۔جیسا کہ آئین پاکستان کی دفعات سے واضح ہے کہ اس ملک میں کوئی بھی قانون ایسا نہیں بنایا جائے گا جو قرآن و سنت کے خلاف ہو گا ‘ اقتدار اعلیٰ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے اور اس ملک کا سرکاری مذہب اسلام ہے ۔ ہر مسئلے کا حل قرآن و سنت سے ہی تلاش کیا جائے گا یہ کام علماء حق کے کرنے کا ہے کہ حکومت نیک نیتی سے علماء حق پر ایک کمیٹی تشکیل دے اور ہر پیش آمدہ مسئلے کا حل قرآن و سنت سے تلاش کرکے وہ حکومت کو پیش کریں اور اس کے مطابق ہی فیصلے ہو۔ کسی قانون شرعی میں ترمیم و اضافہ کی کوئی گنجائش موجود نہیں۔ اگر کوئی کرے گا تو وہ اللہ کے حکم کو چیلنج کرے گا اور جو یہ جرت کرے کہ اللہ کے حکم کو چیلنج کرے تو اللہ تعالیٰ خود اس سے نمٹ لے گا علماء کا کام ہے راہ نمائی کرنا ۔ اس طرح سے ہی مدینہ کی ریاست قائم ہو گی اور قانون کی حکمرانی ہو گی اور لوگوں کو انصاف ملے گا ۔یہ حق ہے اور اس کے علاوہ سب اللہ کے حکم میں نقب زنی ہے اور بغاوت ہے یہی طاغوت ہے اور اللہ ایسی سازشوں کے مقابلے میں بہتر سے بہترین کار ساز اور تدبیر کرنے والی اللہ تعالیٰ کی ذات ہے ۔
آئیے! اس با ت کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں کہ جب قرآن و سنت کے خلاف قانون سازی کا جواز اس ملک میں نہیں ہے تو اس کا صاف مطلب یہ بنتا ہے کہ اس ملک کا قانون اور آئین اصل میں اور بنیادی طورپر قرآن و سنت ہے جو اللہ تعالیٰ کی طرف سے نازل شدہ ہے۔ اس میں تحریف ‘ تاویل کی گنجائش اصل میں قرآن و سنت کی مخالفت ہے ۔پھر دین اسلام مکمل ضابطہ حیات ہے اور عالمگیر مذہب ہے یعنی قیامت تک کے پیش آنے والے تمام معاملات و مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ تو پھر کس کی یہ جرت ہے کہ اس کے خلاف اور عوامی خواہش پر قانون سازی کرے ؟ کسی شخص کو پھر یہ حق حاصل نہیں ہےکہ وہ کوئی ایسا قانون وضع کرنے کی کوشش کرے جو قرآن و سنت کے خلاف ہو۔ اگر کوئی ایسا کرتا ہے تو یہ قرآن و سنت کی بھی مخالفت ہے اور آئین پاکستان کی بھی ۔
یہ بات بھی واضح ہونی چاہیے کہ اس ملک میں قانون میں ترمیم کی گنجائش باقی نہیں رہتی ۔ہاں اگر واقعتاَ کوئی ایسا مسئلہ پیش آتا ہے کہ جس کے بارے میں قرآن و سنت میں واضح الفاظ میں راہ نمائی موجود نہیں‘ اس کے بارے میں فیصلہ کرنا ریاست کے لیے مشکل ہو رہا ہے تو ایک اسلامی ریاست میں ( خلافت اور اس کے ماتحت مجلس شوریٰ) علماء حق کی کمیٹی بنائے اور اس کا ممبر چاہے کسی مسلک سے تعلق رکھنے والا ہو‘ جو قرآن کو اللہ کا کلام اور سنت رسول پر ایمان رکھتا ہو کہ یہ برحق ہیں اور ان میں کمی بیشی کی گنجائش نہیں وہ دلائل کی روشنی میں بیٹھیں اور اس مسئلے کا حل نیک نیتی سے قرآن و سنت کی روشنی میں تلاش کر کے ریاست کو اس سے آگاہ کریں اور ریاست کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ قرآ ن و سنت سے حل آ جانے کے بعد آپنی خواہش کو چھوڑ کر اس پر عمل درامد کر وائیں ۔
لاہور میں مفتی عزیز الرحمن کی بچے سے بدفعلی اور واقع کا پس منظر
لاہور کے علاقہ شمالی چھاؤنی صدر لاہور کے مقیم صابر شاہ ولد محمد رشید قوم پٹھان سکنہ غونڈ ڈاکخانہ ننگولئی تحصیل کبل ضلع سوات کا رہائشی ہے ۔ جس نے جامعہ منظور الاسلام میں 2013ء میں داخلہ لیا اور اس بچے نے مفتی عزیز الرحمن کے بارے میں پولیس کو بیان دیتے ہوئے کہا ہے کہ جب میں درجہ چہارم کا سٹوڈنٹ تھا وفاق المدارس العربیہ کے امتحان کے دوران مفتی عزیز الرحمن جو کہ مدرسہ منظور الاسلام کا مہتمم اور وفاق المدارس العربیہ لاہور کا نگران ہے‘ اس نے مجھ پر یہ الزام عائد کیا کہ میں نے امتحان میں اپنی چکہ کسی دوسرے لڑکے کو امتحان دینے کے لیے بیٹھایا ہے اور یہ کہہ کر 3 سال کے لیے میرے وفاق المدارس العربیہ کے تحت امتحان دینے پر پابندی عائد کر دی ۔ بہت منت سماجت کے بعد مفتی صاحب نے مجھے کہا میرے ساتھ بدکاری کرو اور مجھے خوش کر دو تو میں آپ سے یہ پابندی اٹھا دونگا ۔ میں مفتی صاحب کی باتوں میں آگیا اور ہر جمعے کے روز مجھے بولا کر مجھ سے بد فعلی کا ارتکاب کرتا اور کبھی مجھے ہاتھ سے فارغ کرنے کا بھی کہتا رہتا اور میں یہ سب مفتی صاحب کے ڈر سے کرتا گیا ۔ آخر کار تنگ آ کر مفتی صاحب کی اس حوالے سے فون کالز اور وڈیوز جو خفیہ طور پر میں نے بنانا شروع کر دیں اور وفاق المدارس العربیہ کے ناظم اعلیٰ مولانا حنیف جالندری کو پیش کیں جس پر مفتی عزیز الرحمن کو ان کے عہدے سے ہٹا دیا گیا اور جامعہ کی انتظامیہ نے بھی ان کو جامعہ سے فارغ کر دیا جو کہ ان ثبوتوں کی بنیاد پر تھا جو ثبوت میں نے تھانے کے رو برو پیش کیے ہیں ۔ اس واقعہ کے بعد مفتی عزیز الرحمن کی نازیبا وڈیوز سوشل میڈیا پر اپلوڈ کر دی گئیں۔ جس کی وجہ سے ان کے خلاف مقدمہ 17 جون 2021ء کو پاکستان پینل کوڈ کی دفعہ 377 (غیر فطری جرائم) اور دفعہ 506 (مجرمانہ دھمکی دینے کی سزا) کے تحت مقدمہ درج کرلیا گیا۔ ایف آئی آر درج ہونے کے بعد ان کی گرفتاری کے لیے چھاپے مارنے شروع کر دئیے ۔ جس کی اطلاع ملتے ہی مفتی عزیز الرحمن پہلے تو لاہور میں ہی مختلف مقامات پر چھپتا رہا ‘ بعد میں ضلع میانوالی فرار ہو گیا جس کو جلد ہی گرفتار کر لیا گیا ۔گرفتار کرنے کے بعد مفتی عزیز الرحمن کو لاہور کی مقامی عدالت میں سخت سکیورٹی احصار میں پیش کیا گیا جس پر مفتی عزیز نے اس واقع کو سازش قرار دیا اور کہا کہ یہ وڈیوں کئی سال پرانی ہے اور مجھ پر الزام لگایا گیا ہے ۔ حقیقت میں ان لوگوں نے کہا ہے کہ میں مدرسے پر قبضہ کرنا چاہتا ہو ں جس کی وجہ سے مجھ پر یہ الزام لگا دیا گیا ہے۔ حالانکہ 70 سال میری عمر ہے میں ایسا فعل کسی صورت نہیں کر سکتا ۔ جس پر مقامی عدالت نے ان کے بیان کے بعد ملزم کا 4 روزہ جسمانی ریمانڈ دیتے ہوئے پولیس کو ان کے ڈی این اے رپورٹ اور میڈیکل رپورٹ کے ساتھ آئندہ پیش کرنے کا حکم جاری کیا ۔
اس واقعہ کے بعد مفتی عزیز الرحمن کے خلاف سوشل میڈیا پر محاذ گرم ہو گیا اور اس کی گرفتاری اور سزا کے خلاف عوام میں شدید غم و غصہ دیکھنے کو ملا ۔ اس واقعے پر مذہبی دانشوروں اور لبرل تجزیہ نگاروں میں مدرسے میں ہونے والے اس واقع پر شوسل میڈیا میں تبصرے اور تجزیے اور مکالموں کا ایک سلسلہ شروع ہوا ۔ جس میں لبرل اور سیکولر تجزیہ نگار اور جنسی تعلیم کے ماہرین نے مذہبی شخصیات (علماء) اور مدارس کے خلاف گمراہ کن ٹی وی ٹاک شو ‘ اور کالم ‘ تبصروں اور تجزیوں کا طوفان بدتمیزی شروع ہوا ۔ جس پر ٹی وی اینکر کسی مذہبی شخصیت کو بولا کر کیمرے کے سامنے بیٹھ کر قرآن و سنت کے زنا کے بارے میں حکم کو زنا بالجبر اور زنا بالر ضا کی باطل تقسیم کر کے اور مذہبی شخصیت اور ادارے میں ہونے والے ایسے واقعات کو خاص فکر کے ساتھ نشانے پر لیتے اور علماء حق کو بدنام کرنے اور ان کے خلاف نفرت پیدا کرنے کے لیے سوشل میڈیا ‘ ٹی وی پروگرامز‘ پرنٹ میڈیا میں بیٹھے حواس باخطہ گمراہ سوچ اور فکر کے حامل تجزیہ نگار اور غیر ملکی این جی اوز اور میشنریز نے کوئی کسر باقی نہ چھو ڑی ۔ ایسے ہی ایک ٹی وی چینل پر (گورمہ ) پر ٹی وی اینکر عائشہ بخش ‘صحافی سبوح سید ‘بیرسٹر وقاص ابریز خان (ماہر قانون دان)‘مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب (ناظم وفاق المدارس پنجاب ) اور علامہ ابتسام الہی ظہیر کے درمیان ایک مکالمہ ہوا ۔ جس میں ٹی وی اینکر نے سوال کیا کہ مدارس جس پر والدین بھروسہ کرتے ہیں وہاں ہونے والے ایسے واقعات کا حل کیا ہے ؟جس کا جواب دیتے ہوئے علامہ ابتسام الہی ظہیر صاجب نے کہا کہ ایسے واقعات کا حل یہ ہے کہ کسی بچے ‘ بچی سے کوئی انجنئیر بدفعلی کرے ‘ ڈاکٹر کر ے‘ پروفیسر کرے ‘ مولوی اور قاری کرے ‘ صحافی کرے یا کوئی سیاست دان کرے بلا تفریق سب کو چوک میں پھانسی دینے کا قانون پاس کر کے اس کے مطابق سزا دی جائے ۔وہ واقع کالج میں ہو‘یونیورسٹی میں پیش آئے ‘سکول میں آئے ‘ ہسپتال میں آئے یا کسی مدرسے میں پیش آئے ‘ اس پر بھی بلا تفریق کاروائی ہونی چاہیے ۔اس کے بعد سبوح سید نے علامہ ابتسام الہی ظہیر صاحب کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ علامہ صاحب یہاں پر مجھے آپ کی کچھ فکر سے اختلاف ہے‘ کیونکہ یہاں مدارس میں بچوں کے ساتھ جو بدفعلی کے واقعات ہو رہے ہیں یہ جبراً ہو رہے ہیں ۔ رہی بات رضا کے ساتھ کمرے کے اندر بدفعلی اور زنا کرنے کی تو اس کا معاملہ اللہ تعالیٰ کے ساتھ ہے‘ وہ چاہے تو سزا دے‘چاہے تو معاف کر دے‘ یہ گناہ ہے ‘ برا کام ہے بائبل میں بھی یہی لکھاہے ‘ یہ جبر ہے۔ ریپ اور رضا مندی میں فرق ہے انہیں ایک مت سمجھیں ۔یہ جبر ہے یہ اللہ کی زمین پر فساد پھیلانے کی کوشش ہے اور اس کی سزا یورپ میں بھی سخت ہے ۔ ہمیں کرنا یہ پڑے گا کہ مدرسے میں قانون سازی کریں اور مدرسے میں کیمرے لگائیں ۔جس پر علامہ ابتسام الہی ظہیر صاحب نے فرمایا کہ مدرسے میں قانون سازی کا مطلب کیا ہے ؟ پورے ملک میں قانون سازی کریں ۔اس پر بات کرتے ہوئے ٹی وی اینکر عائشہ بخش نے کہاکہ یہ یہاں سب سے بڑا مسئلہ مدرسہ ہے‘ مدرسہ ہے ۔جہاں قرآن و حدیث کی تعلیم دی جار رہی ہے وہاں استاد اپنے طالب علم کے ساتھ جبراً کیسے ایسا کر سکتا ہے ‘وہاں بچہ پڑھنے گیا ہے ‘قرآن اور حدیث سیکھنے گیا ہے ۔عائشہ بخش کی اس بات پر مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب (ناظم وفاق المدارس پنجاب ) نے بات کرتے ہوئے کہا ہے کہ افسوس تب ہوتا ہے جب ایسے واقعے کو مذہب کے ساتھ جھوڑا جاتا ہے اور مذہب کو بدنام کیا جاتا ہے ۔جس پر عائشہ بخت اور سبوح سید نے فرمایا ہم مذہب کو نہیں ملا ّ کو رگڑا لگا رہے ہیں ‘جس پر علامہ ابتسام الہی ظہیر صاحب نے بات کرتے ہوئے فرمایا کہ کسی کالج ‘یونیورسٹی ‘ ہسپتال ‘ اکیڈمی ‘اسکول اور مدرسے کا استاد ایسا کرے اور کی بھی جگہ پر ایسا ہو جب کو سزا ملنی چاہیے کس نے اخلاف کیا ہے ؟ آپ اس وقت کہا ہوتے ہیں جب اس ملک میں سیکس ایجوکیشن ‘ میرا جسم میری مرضی کی بات ہوتی ہے ‘جس پر بچوں اور بچیوں کے جذبات کو ابھارا جاتا ہے زنا اور بدفعلی پر اس وقت آپ کیوں خاموش رہتے ہیں ؟جس پر سبوح سید نے بات کرتے ہوئے کہا کہ آپ مسئلے کے حل کی طرف یکوں نہیں آتے ‘ مدارس میں جب بھی کوئی ایسا واقعا ہوتا ہے تو مدرسے میں کمیٹی ہو اور اس کمیٹی تحت فیصلہ کیوں نہیں کیا جاتا ؟ اس کے جواب میں مولانا زبیر احمد صدیقی صاحب (ناظم وفاق المدارس پنجاب ) نے بات کرتے ہوئے فرمایا جناب کمیٹیاں موجود ہیں آپ کو علم نہیں پھر ‘ مسائل آتے ہیں اور ان کے انصاف پر مبنی فیصلے بھی کیے جاتے ہیں ۔
زنا کے بڑتے واقعات اور مغرب کی نقالی میں پیش پیش اور ہمارے اسلامی معاشرے کو برباد کرنے کےلیے یہاں غیر ملکی این جی اوز اور میڈیا پر بیٹھ کر تبصرے اور تجزیے کرنے والے لبر ل اور سیکولر سچ اور فکر کے حاملین جن کا بس ایک ہی ایجنڈہ ہے کہ کسی نہ کسی طرح اس معاشرے سے مذہب اور اسلامی تعلیمات کے خلاف لوگوں میں نفرت پیدا کی جائے اور مذہب پرستوں سے روحانی رشتہ اور تعلق عوام الناس کا ختم کر دیا جائے اور اسلام کے اجتماعی نظام زندگی کو ظلم ‘ زیادتی اور دہشت گردی سے تعبیر کیا جائے اور یوں لوگ مذہب پرست طبقے سے اعتماد کھو بیٹھیں گے اور با آسانی اس ملک اور وطن عزیز کو مغربی تہذیب کے رنگ میں رنگنا اور مغرب کو جو اسلام کے پھیلاؤ سے تشویش ہے وہ دور ہو جائے گی۔ یوں اغیار کے ٹکڑو ں پر پلنے والے اسلام کے اجتماعی نظام زندگی اور خاندانی نظام کو تباہ کرنے کے لیے مختلف ہتھکنڈے استعمال کرتے ہیں ۔ جس میں گندم کا استعمال ‘ مانع حمل ادویات ‘ ٹیسٹ ٹیوب بی بی ‘ خاندانی منصوبہ بندی کے لیے فری سروس اور میڈیا کے ذریعے یہ سب اوچھے ھتکنڈے جن میں فلم اور ڈراموں کی صورت میں برہنہ اور بے ہودہ پروگرام شامل ہیں ‘ یہ سب ان سیکولر اور لبر ل سوچ اور فکر کے عکاس ہیں ۔ ان کی وجہ سے معاشرے میں لو میرج‘ لڑکیوں کا گھروں سے بھاگنا‘ لواطت‘ اور عشقیہ شعری اور ٹک ٹاک ‘ پب جی گیم اور کارٹون پر مشتمل ‘ فیس بک ‘ ٹوئٹر ‘ انسٹا گرام جیسے سوفٹ وئیر اس دجالی اور شیطانی سوچ و فکر کو فروغ دینے میں پیش پیش ہیں ۔ اس کے بعد خواتین ایکٹ‘ میرا جسم میری مرضی ‘ گر ل فرینڈ اور بوائے فرینڈ جیسے نازیبا نعرے ہماری مشرقی اور اسلامی تہذیب کو دیمک کی طرح کھائے جا رے ہیں ۔ ان کے ساتھ ساتھ گیسٹ ہاؤس‘ سینما گھر ‘ منشیات کا بڑھتا رجحان ‘ سیکس کلب اور فائو سٹار ہوٹلز‘ قحبہ خانوں کی برمار نے مزید اس بے راہ روی کے اور بے حیائی کے واقعات میں اضافہ کر دیا ہے ۔سوشل میڈیا کی وجہ سے نوجوان نسل میں بے راہ روی پیدا کرنے میں تعلیمی ادارے بھی اس طوفان بد تمیزی سے محفوظ نہیں رہے ۔ ان تمام برائیوں کی بڑی وجہ خلوط اور قانون کی بالا دستی کا کمزور پڑنا ہے ۔ خلوط نشینی نے جو گر کھلائے ہیں اخبارات اور رسائل اس کے آئینی شاہد ہیں ۔بچوں سے بد فعلی ‘ زنا کاری ‘ اغواء‘ خود کشی اور غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں آئے روز ےاضافہ ہو رہا ہے ۔ آخر یہ تضاد ہمارے ذہنوں میں کیوں پیدا ہو جاتا ہے کہ جی رضا مندی سے اگر کوئی جرم کیا جائے تو وہ جائے ہو جاتا ہے اگر جبر میں یعنی مخالف کی مرضی کے بغیر اس کے ساتھ کوئی نازیبا کھیل کھیلا جائے تو جرم اور قابل سزا ہے ۔ آئیے زنا بالجبر اور زنا بالرضا کے فلسفے کو سمجھنے کی کوشش کرتے ہیں جو لبرل اور سیکولر طبقے کی طرف سے پیش کیا جاتا ہے۔
زنا بالرضا اور زنا بالجبر کی باطل تقسیم کا مطالعاتی و تجزیاتی پس منظر
جہاں تک با ت ہے زنا بالرضا اور زنا بالجبر کی تقسیم کی تو شریعت اسلامی میں اس کی کوئی حیثیت نہیں ہے ۔ سزا اور حد کے اعتبار سے ان میں کوئی فرق شریعت اسلامی میں نہیں ملتا ۔شریعت اسلامی میں شادی شدہ اور غیر شادی شدہ زانی کی تقسیم تو ہے مگر زنا کی کوئی تقسیم نہیں ہے ۔رضا کے ساتھ ہو یا جبراً ہر دونوں صورتو ں میں حد ہے اور سزا ایک ہی ہے اس میں فرق نہیں ہے ۔بلکہ زنا بالرضا میں تو دونوں فاعل اور مفعول پر حد نافذ ہو گی اور زنا بالجبر میں صرف فاعل پر حد نافذ ہو گی ۔ یوں زنا بالرذا زنا بالجبر سے زیادہ خطرناک بن جاتا ہے ۔ زنا بالرضا کو جواز بنا کر جو لبرل طبقہ زنا کی سزا کے بارے میں مظلومیت اور غیر انسانی سزا کی گردان کرتا نہیں تھا وہ یہ بھول جاتا ہے کہ زنا بالرضا اصل میں زنا بالجبر سے زیادہ خطر ناک ہے ۔ کیونکہ زنا بالجبر میں صرف فاعل ہی قابل سزا اور قابل گرفت ہوتا ہے مفعول (مظلوم ) پر کسی قسم کی سزا لاگو نہیں ہوتی‘ اگر وہ اس جرم کو ثابت کرنے میں واقعتاً ہی حق بجانب ہے بصورت دیگر تہمت کی سزا الزام لگانے والے کو ملے گی جس پر الزام لگایا جا رہا ہے وہ بری ہو جائے گا ۔ اور زنا بالرضا (فریقین‘ فاعل اور مفعول ) دونوں کی باہمی رضا مندی کو سیکولر اور لبر ل طبقہ زنا اور جرم خیال ہی نہیں کرتا ۔ وہ کہتے ہیں کہ یہ ان کی پرنسل لائف ہے اور یہ ان کا ذاتی معاملہ ہے جس میں انسان آزاد ہے وہ جب ‘ جس سے مرضی با خوشی تعقات قائم کر لے یہ اس کا ذاتی حق ہے‘ اس پر سزا کا نفاذ ظلم اور نا انصافی تصور ہو گا ۔
اب گر معاشرے میں بد فعلی اور زنا بالرضا اور بالجبر کے واقعات پہ نظر ڈالیں تو جو معاشرے میں تباہی اور بربادی ‘ اور فساد زنا بالرضا کی وجہ سے ہے وہ زنا بالجبر کی وجہ سے نہیں ہے ۔ یہ با ت یاد رکھی جائے ! اسلامی تعلیمات میں زنا کی بس ایک ہی قسم ہے اور اس کی سزا مقرر ہے ۔ اسلام میں بالرضا اور بالجبر کی تفریق کسی صورت نہیں پائی جاتی ۔ اسلام میں زنا اور ریپ(کی ایک ہی صورت ہے ) دونوں صورتوں میں زنا ہی تصور ہو گا وہ جبراً ہو یا رضا کے ساتھ ۔ اگر زنا کی تقسیم کوئی بیان ہوئی ہے تو وہ غیر شادی شدہ زانی اور شادی شدہ زانی کی تقسیم ہے اور تفریق ہے ۔ شادی شدہ زانی جو اپنا جائز حق (نکاح شرعی ) کی صورت میں رکھنے کے باوجود اگر زنا کرے گا تو اس کی سزا یہ ہے کہ اس کو زمین میں گھاڑ کر پتھر مار مار کر رجم کر دیا جائے ۔ کیونکہ اس نے جائز حق رکھتے ہوئے ایسا کام کیا ہے جو فساد اور فتنے کا دروازہ کھولتا ہے ۔ جب کہ زنا بالرضا میں تو سرے سے ہی فتنے اور فساد ہے ‘ (رضا ) کی اصطلاح کا دھوکا دے کر معاشرے میں بدکرداری اور بے حیائی کا دروازہ کھولنے کی اعلانیہ اور غیر مبہم انداز میں مسلم معاشروں میں ہماری نوجوان نسل کو برباد کرنے اور ہماری تہذیب اور اسلامی کلچر کو ختم کر کے مغربی کلچر کو ڈیولپ کرنے کی سعی ہے ۔ اب اگر ان معاشروں میں جہاں زنا بالرضا اور زنا بالجبر میں تفریق پائی جاتی ہے اور زنا بالرضا کی صورت میں سزا سے بچنے اور بے حیائی کو عام کرنے میں قانون کی سرپرستی حاصل ہے وہاں جرائم کی شرح زنا بالجبر کی شرح سے بہت زیادہ ہے ۔ اس کی وجہ سے اسقاط حمل کے واقعات کا کوئی شمار ہی نہیں ہے ۔لوگ سزا سے بچنے کے لیے اگر کسی کے ساتھ جنسی تعلق قائم کرنا چاہتے ہیں تو زنا بالرضا ( جو زنا کی فیس دے کر یا گرل فرینڈ اور عشق ) کی صورت میں ناجائز تعلقات کو قانونی حیثیت میں بغیر کسی خوف اور ڈر کے پورا کر لیتے ہیں۔ اس طرح زنا بالرضا کی سنگینی اور شدت جتنی خطرناک ہے اتنی زنا بالجبر کی شاید نہ ہو ۔کیونکہ زنا بالجبر میں ایک تو پکڑے جانے کا ڈر اور قید کی سزا کے ساتھ ساتھ مالی جرمانہ کی سزا بھی لاگو ہونے کا ڈر‘ پھر معاشرے میں بدنامی کا خوف اور زنا بالجبر کی صورت میں متاثرہ عورت یا مرد کے قتل جیسے قبیح فعل کے بعد قید با مشقت اور ذلت جیسی کئی رکاوٹیں انسان کو اس فعل بد اور فعل قبیح سے مانع رکھنے کا سبب بن سکتے ہیں‘ جن سے انسان کا اس ظلم سے بچنے کا امکان موجود ہوتا ہے ۔ پھر موقع کا میسر آنا بھی ایک طرح کی رکاوٹ ہوتا ہے کہ کہیں لوگوں کو پتا نا چل جائے ۔مگر زنا بالر ضا میں تو اس طرح کی کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی ۔وہ تو جب دل چاہے‘ مواقع میسر ہیں اور طوائفیں زنا کی اجرت کے بدلے با خوشی اس فعل قبیح کا موقع اور جگہ فراہم کر دیتی ہیں ۔ یوں اگر پوری بات کا جائزہ لیا جائے تو زنا بالجبر سے زنا بالرضا زیادہ خطر ناک جرم ہے زنا بالرضا کا عام ہونا اور پھر ایک عورت کسی دوسرے مرد کے ساتھ اپنی رضا سے ناجائز تعلقات قائم کرنا چاہتی ہے یا کرلیتی ہے تو اس کی وجہ سے جو خرابیاں مرد سے پیدا ہو سکتیں تھیں وہ خود عورت پیدا کر دیتی ہے اور اس طرح دونوں باہمی رضا سے ناجائز تعلقات میں حائل تمام رکاوٹوں کو مل کر دور کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں اور نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ لڑ کی باخوشی کسی لڑکے کے ساتھ بھاگ جاتی ہے اور یوں ورثا کی لوگوں پر ذاتی رنجش کی وجہ سے اغواں کا الزام لگا نا ‘باہمی دشمنی کی صورت میں نکلتا ہے اور پھر اس وجہ سے قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو جاتا ہے۔ یوں کئی لوگ اس جرم کی پاداش میں نا حق قتل ہو جاتے ہیں ۔ اس کے علاوہ دونوں خاندانوں کی عزت خاک میں مل جاتی ہے ۔یا پھر یہ ہوتا ہے لڑکے اور لڑکی کو غیرت کے نام پر قتل کر دیا جاتا ہے ۔یا پھر شادی شدہ عورت کسی دوسرے مرد سے باخوشی ناجائز تعلقات قائم کر کے اس آشنا کے ساتھ مل کر خاوند کو قتل کر دیتی ہے‘ یا پھر بچوں کو قتل کر کے درمیان میں حائل رکاوٹ کو دور کر دیتی ہے اور آپس میں شادی کر لیتے ہیں یا گھر سے بھاگ جاتے ہیں ۔ یوں یہ ایک جرم جسے لبرل طبقہ جرم اور قابل سزا تصور نہیں کرتا‘ کئی جرائم کا سبب بنتا جاتا ہے اور معاشرے میں امن تباہ ہو جاتا ہے اور بے حیائی کا طوفان بدتمیزی ہر دوسرے منٹ بعد یا ہر دوسری جگہ معاشرے کی بربادی کا سبب بنتا ہے ۔اور اس کی خرابیوں کی فہرست لا محدود ہوتی جاتی ہے جیسے زنا بالرضا جب عام ہوتا ہے تو نائٹ کلب ‘ سیکس کلب اور طوائف خانے ہر دوسری جگہ عام ہو جاتے ہیں۔ یوں یہ جرم معاشرے میں انجوائے اور تفریحی کے نام پر ناسور بن جاتا ہے ۔
ذیل میں ہم زنا بالجبر اور زنا بالرضا کے واقعات کا اور ان کے نقصانات کا جائزہ لیتے ہیں اس کے بعد ان واقعات کے اسباب پر غور کرتے ہیں اور پھر ان کے سد باب کی طرف جاتے ہوئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کریں گے کہ زنا بالرضا اور زنا بالجبر کی صورت میں فسا د کے حساب سے زیادہ سنگین اور خطر ناک زنا بالجبر ہے یا زنا بالرضا جیسا کہ مختصر ہم نے اوپر ذکر کیا ہے اس کا تفصیلی جائزہ لیتے ہوئے ہم زنا بالرضا کے اور پھر زنا بالجبر کے کچھ واقعات ذکر کرنے کی کوشش کریں گے۔ آئیے سب سے پہلے ہم زنا بالرضا کے واقعات کا جائزہ لیتے ہیں ۔اور اس کے نتائج کا جائزہ لینے کی کوشش کرتے ہیں ۔ جب تک زنا کی تعریف نہیں سمجھیں گے تب تک زنا بالجبر اور زنا بالرضا کا تصور عبث ہے کیونکہ شریعت اسلامی میں زنا کس کو کہا گیا ہے اور کونسی چیزیں زنا میں شامل ہیں جب تک ان کا فہم حاصل نہ کیا جائے تب تک لبر ل طبقے کی طرف سے زنا بالجبر اور بالرضا کی تقسیم کو سمجھنے میں دشواری ہو گی ۔اس کے بعد شریعت اسلامی میں زنا کی سزا اور حدود قیود کا تعین اور اس کے معاشرتی فساد پر غور و فکر کرنے کے بعد اس ناسور کا سد باب ممکن ہو سکے گا ۔
زنا بالرضا کے نقصانات کی کہانی واقعات کی زبانی
پہلا واقعہ:
ملتان کے تھانہ ممتاز آباد کو قاسم پور کالونی کے رہائشی محمد خالد نے مقدمہ درج کراتے ہوئے موقف اختیار کیا کہ اس کے بیٹے اعجاز الحسن سینئر انسٹرکٹر سول کی شادی 1999ء میں صنوبر بی بی سے ہوئی، جس سے تین بیٹیاں اور ایک بیٹا پیدا ہوا۔ بہو کے احسن نامی شخص کے ساتھ تعلقات تھے، جس پر بہو کے والدین کو کراچی سے بلا کر یہ بتایا تو 2014ء میں وہ ناراض ہو کر گھر سے چلی گئی۔بعدازاں میرے بیٹے نے صنوبر کو بچوں کے لئے اللہ کے واسطے معاف کر دیا اور گھر واپس لے آیا لیکن بہو صنوبر نے اپنی روش نہ بدلی اور فیس بک کے ذریعے رحیم یار خان کے ایک شخص ارسلان سے دوستی کی، جس کے بعد بہو کا ارسلان اور ایک اور شخص نعلین حیدر سے ملنا جلنا شروع ہو گیا۔اس صورت حال کے بارے میں میرے بیٹے نے بہو کے والدین کو بھی آگاہ کیا، یہاں تک کہ اس نے اپنے گھر سے کھانا کھانا چھوڑ دیا کیوں کہ اسے یہ شک تھا کہ بہو صنوبر کہیں کھانے میں زہر نہ ملا دے، پھر گزشتہ کچھ عرصے سے صنوبر نے خاوند سے طلاق کا مطالبہ بھی شروع کر رکھا تھا۔ 30 مئی کو بہو صنوبر بی بی نے ایک منصوبہ بندی کے تحت اپنے خاوند اعجاز الحسن بھٹی اور بیٹے وہاج الحسن اور بیٹیوں کو آئس کریم میں نیند کی گولیاں ملا کر کھلا دیں اور ارسلان اور نعلین حیدر شاہ سے مل کر بیٹے اعجاز الحسن بھٹی کا گلا دبا دیا۔بعدازاں بہو نے ہمیں یہ اطلاع دی کہ اس کی طبیعت شدید خراب ہے تو میں اپنی بیوی سلطانہ بی بی کے ہمراہ موقع پر پہنچا تو دیکھا کہ بیٹے کے ناک اور منہ سے خون بہ رہا تھا جبکہ اس کے چہرے پر بھی سوجن تھی۔ ہم نے بیٹے کی نعش کے ساتھ پڑے بچوں کو اٹھانے کی کوشش کی تو وہ نیند کی گولیوں کی وجہ سے نہ اٹھے، جس پر ہمیں بہو پر شک ہوا۔اگلی صبح بچوں نے ہمیں بتایا کہ امی نے ہمیں آئس کریم کھلائی تھی اور ہماری امی نے ہی ابو کا قتل کیا ہے۔ محمد خالد کے مطابق اس کی بہو صنوبر بی بی نے پانچ جون کو شام 4 بجے اپنے بیٹے اور دیگر اہل خانہ کی موجودگی میں یہ اقرار کیا کہ اس سے غلطی ہو گئی ہے، اس نے اپنے خاوند کو قتل کیا۔تھانہ ممتاز آباد نے قتل کی ایف آئی آر درج کرنے کے بعد ایس ایچ او طاہر اعجاز نے اپنی ٹیم کے ہمراہ محنت اور دلجمعی سے کام کرتے ہوئے صنوبر بی بی، ارسلان اور نعلین حیدر شاہ کو گرفتار کیا۔دوران تفتیش معلوم ہوا کہ صنوبر بی بی سے ارسلان اپنے دوست اور جعلی پیر نعلین شاہ کے ساتھ مل کر رقوم بھی بٹورتا رہا ہے۔ مزید یہ کہ صنوبر اور ارسلان اعجازالحسن کو قتل کرنے کے بعد خود شادی کرنے کا ارادہ رکھتے تھے۔(ایکسپریس نیوز: منگل 25 اگست 2020ء)
نتیجہ : یوں فیس بک سے شروع ہونے والی ایک دوستی نے ایک ہنستے بستے گھر کو اجاڑ ڈالا،اور چار بچوں کی ماں نے اپنے ہی سہاگ کو آشنا کے ساتھ مل کر قتل کر دیا۔
دوسرا واقعہ:
لکھنؤ (ڈیلی پاکستان آن لائن) بھارتی ریاست اتر پردیش میں خاتون نے رنگے ہاتھوں پکڑے جانے پر آشنا کے ساتھ مل کر شوہر کو قتل کردیا اور لاش گھر کے صحن میں دفنادی۔بھارتی میڈیا کے مطابق رئیس نامی شہری اپنی بیوی شاہدہ، چھ سالہ بیٹی اور ڈھائی سالہ بیٹے کے ساتھ ضلع گونڈا میں رہائش پذیر تھا۔ وہ کپڑے کی دکان پر کام کرتا تھا ۔جبکہ بیوی گھر پر ہی رہتی تھی۔ اسی دوران خاتونِ خانہ کا پڑوسی نوجوان انکیت عرف امیت مشرا سے معاشقہ ہوگیا۔ کچھ روز پہلے رئیس اچانک گھر آیا تو اس کی شاہدہ اور انکیت رنگ رلیوں میں مصروف تھے۔ رئیس نے برہمی کا اظہار کیا تو دونوں نے اسے قتل کردیا اور لاش کے چار ٹکڑے کرکے گھر کے صحن میں دفنا دیے۔کئی روز تک رئیس لاپتہ رہا تو اس کے دوستوں نے پولیس میں رپورٹ کردی۔ اس کا بھائی بھی گاؤں سے رئیس کی تلاش کیلئے آیا تو اس کی چھ سالہ بیٹی نے اپنی ماں کے سارے کرتوت کھول کر سامنے رکھ دیے۔ بچی نے بتایا کہ اس کی ماں نے دھمکی دی تھی کہ اگر کسی کو بتایا تو وہ مجھے بھی مار دے گی۔ بچی کی نشاندہی پر پولیس نے کھدائی کرکے مقتول نوجوان کی لاش گھر کے صحن سے برآمد کرلی۔(روز نامہ پاکستان :3 جون 2021ء)
نتیجہ : زنا بالرضا کی پاداش میں قتل و غارت گری کا بازار گرم ہو گیا اور خاندانی نظام کا شیرازہ بھر کر رہ گیا ۔ کوئی خاوند اگر اپنی بیوی کے ساتھ کسی کو دیکھتا تو اس کو یہ خطرہ لاحق ہو جاتا کہ اب میری زندگی کے دن گنے جا چکے ہیں کسی بھی وقت مجھے قتل کر دیا جائے گا پھر یہی ہوتا جس کا وہ گمان کرتا ۔
تیسرا واقعہ:
جلا پور جٹاں (مدار نیوز ٹی وی) جلا پور جٹاں میں شوہر نے بیوی کو اس کے آشنا کے ساتھ مل کر قتل کر ڈالا ۔
لڑائی جھگڑے تو ہر گھر میں ہوتے ہیں تاہم کبھی کبھی یہ لڑائی جھگڑے اس قدر شدت اختیار کر جاتے ہیں کہ بات قتل تک پہنچ جاتی ہے۔آئے روز کئی ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ اپنے دوست کے ساتھ مل کر بیوی نے شوہر کا قتل کر دیایا پھر شوہر نے بیوی کا قتل کر دیا ۔بلکہ خبریں تو ایسی بھی ملتی ہیں کہ بدبخت اولاد نے والدین کا قتل کر دیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ جلال پور جٹاں میں بھی پیش آیا۔ ایک انوکھی قتل کی واردات سامنے آئی ہے جہاں خاوند اور آشنا نے مل کر بیوی کو قتل کر دیا جس کے تین بچے بھی ہیں۔بتایا گیا ہے کہ نائلہ یاسمین نامی خاتون کی 8 سال قبل فیصل منیر سے شادی ہوئی تھی۔چند سال بعد نائلہ اپنے آشنا نقاش کے ساتھ بھاگ گئی تھی تاہم منت سماجت کے بعد دوبارہ گھر واپس آ گئی۔خاتون نے گھر واپس آنے کے بعد بھی آشنا سے روابط جاری رکھے جس پر اس کے شوہر سے اختلافات بڑھ گئے۔گذشتہ شب خاوند منیجر نے اسی آشنا نقاش کے ساتھ مل کر نائلہ کو قتل کر دیا۔مقتولہ کے والد اقبال حسین کی مدعیت میں فیصل ، منیر، نقاش اور الیاس سمیت دیگر ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے۔جب کہ وجہ عناد یہ ہے کہ خاوند اور آشنا کو رنج تھا کہ خاتون دونوں کو دھوکا دے رہی ہے۔پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔واردات کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔قبل ازیں ایک ایسا ہی لرزا خیز واقعہ پیش آیا تھا جہاں بیوی نے آشنا سے بات کرنے سے منع کرنے پر شوہر کو قتل کر دیا تھا۔بتایا گیا تھا کہ خاتون ٹیلفون پر کسی کے ساتھ رابطے میں تھی۔بیوی کا غیر مرد سے بات کرنا شوہر کو ناگوار گزرتا تھا۔نصیر نے اپنی بیوی سمیرا کو اپنے آشنا سے موبائل فون پر بات کرنے سے منع کیا جس پر دونوں میں ہاتھا پائی ہو گئی۔(مدار نیوز ٹی وی :5 نومبر 2020ء)
نتیجہ : خاندانی دشمنی ‘ بچوں کا والدہ کا سایہ شفقت سر سے اتر جانا اور خاوند کا قتل کے مقدمے میں سزا پانا یوں ہنستہ بستہ گھر اجڑ گیا ۔
چوتھا واقعہ:
منڈی بہائوالدین کے علاقہ چک جانو میں خاتون نے آشنا سے مل کر خاوند کو تشدد کر کے موت کے گھاٹ اتار دیا ، پولیس نے ملزمہ کو گرفتار کر لیا۔ منڈ ی بہاوالدین: تھانہ پاہڑیانوالی کے رہائشی محمد اسلم کی بیوی نجمہ نے منگووال کے رہائشی صداقت علی عرف کالو بٹ سے ناجائز تعلقات استوار کر رکھے تھے ۔ گزشتہ رات ملزم کالو بٹ چک جانو میں نجمہ کے ساتھ گھر پر موجود تھا کہ اسلم بھی آ گیا جس پر اسلم نے بیوی کے ساتھ جھگڑا کیا ۔ ملزمہ نجمہ نے آشنا کالو بٹ کے ساتھ مل کر اسلم کو ہتھوڑیوں کے پے در پے وار کر کے قتل کر دیا اور مشہور کر دیا کہ اسلم کو دل کی تکلیف ہوئی اور وہ فوت ہو گیا ۔ لیکن جب اسلم کو غسل دیا جانے لگا تو جسم پر تشدد کے واضح نشانات دیکھ کر اسلم کے رشتہ داروں نے شور مچا دیا اور پولیس کو طلب کر لیا پولیس نے لاش قبضہ میں لے کر پوسٹ مارٹم کیلئے پھالیہ ہسپتال بھیج دی جبکہ ملزمہ نجمہ نے جرم کا اعتراف کر لیا اور بتایا کہ اس نے اپنے آشنا صداقت علی عرف کالوبٹ سے مل کر شوہر کو ٹھکانے لگایا۔(سیل نیوز ٹی وی :7 اکتوبر 2015ء)
پانچواں واقعہ :
چنیوٹ (اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار-02مارچ2020ء) آشنا سے فون پر بات روکنےکی سزا،بیوی نے اپنے ہی شوہر کو موت کے گھاٹ اتار دیا۔تفصیلات کے مطابق لڑائی جھگڑے تو ہر گھر میں ہوتے ہیں تاہم کبھی کبھی یہ لڑائی جھگڑے اس قدر شدت اختیار کر جاتے ہیں کہ بات قتل تک پہنچ جاتی ہے۔آئے روز کئی ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ اپنے دوست کے ساتھ مل کر بیوی نے شوہر کا قتل کر دیایا پھر شوہر نے بیوی کا قتل کر دیا ۔بلکہ خبریں تو ایسی بھی ملتی ہیں کہ بدبخت اولاد نے والدین کا قتل کر دیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ چنیوٹ میں پیش آیا ہے جہاں بیوی ہی شوہر کی جان کی دشمن بن گئی۔بتایا گیا ہے کہ خاتون ٹیلفون پر کسی کے ساتھ رابطے میں تھی۔بیوی کا غیر مرد سے بات کرنا شوہر کو ناگوار گزرتا تھا۔نصیر نے اپنی بیوی سمیرا کو اپنے آشنا سے موبائل فون پر بات کرنے سے منع کیا جس پر دونوں میں ہاتھا پائی ہو گئی۔تلخ کلامی کے دوران ملزمہ سمیرا نے گھر میں پڑی ہوئی کلہاڑی کے پے درپے وار کر کے اپنے شوہر کو مار ڈالا،اور خود بھی زخمی ہو گئی۔جس کو الائیڈ اسپتال منتقل کر دیا گیا ہے،جب کہ پولیس نے قتل کا مقدمہ درج کرتے ہوئے تحقیقات شروع کر دی ہیں۔پولیس نے گھر سے آلہ قتل بھی برآمد کر لیا ہے۔( چنیوٹ (اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار-02مارچ2020ء)
چھٹا واقعہ :
واضح رہے اس سے قبل ایسا ہی ایک واقعہ گزشتہ دنوں پنجاب کے گاﺅں ہارون آباد میں پیش آیا جب ایک چار بچوں کی ماں نے اپنے شوہر کا قتل کروا دیا۔آغاز میں تو یہ ایک ڈکیتی کا واقعہ تھا کہ ملزمان نے گھر گھس کر ڈکیتی کی اور مزاحمت پر جاوید نامی شخص کو گولی مار دی مگر جب پولیس نے تفتیش کا دائرہ بڑھایا تو پتا چلا کہ جاوید کی بیوی جو کہ چار بچوں کی ماں ہے وہی اپنے شوہر کی قاتل تھی اور ڈکیتی ڈرامہ تھا۔پولیس ذرائع کے مطابق ملزمہ لبنیٰ نے اپنے آشنا اصغر کے ساتھ مل کر خاوند جاوید کو قتل کر دیا تھا اور واردات کو ڈکیتی کا رنگ دیا تھا۔تفتیش کے دوران معلوم ہوا کہ ملزمہ لبنیٰ کے مبینہ طور پر ملزم اصغر کے ساتھ ناجائز تعلقات تھے، مقتول جاوید نے اپنی بیوی کو ملزم اصغر کے ساتھ رنگ رلیاں مناتے دیکھ لیا تھا اور اپنی بیوی کو اس شخص سے تعلق رکھنے سے منع کیا تھا۔( چنیوٹ (اردوپوائنٹ تازہ ترین اخبار-02مارچ2020ء)
ساتوا ں واقعہ :
بیوی نے آشنا سے مل کر خاوند کو قتل کیا ،ایک ماہ بعد معمہ حل۔ گلے میں رسی ڈال کر مارا ، امروزیہ پولیس کو دوران تفتیش متضاد بیانات دیتی رہی۔ٹوبہ ٹیک سنگھ ، کمالیہ (نامہ نگار، نمائندہ دنیا )بیوی نے آشنا کے ساتھ مل کر خاوند کو قتل کیا ،ضلعی پولیس نے ایک ماہ بعد اندھے قتل کی گتھی سلجھا لی ،13اکتوبر کی درمیانی شب پولیس کوکال موصول ہوئی کہ ایک لاش کھیتوں میں پڑی ہے ، معلوم ہوا کہ اس شخص کو گلے میں رسی ڈال کرگلا دبا کر قتل کیا گیا ہے ،جبکہ مقتول کی شناخت علی حسن ولد منظور احمد سکنہ محلہ خورشید شاہ کمالیہ کے نام سے ہوئی،پولیس نے نامعلوم ملزموں کے خلاف قتل کا مقدمہ درج کرلیا ،جبکہ ڈی پی او وقار قریشی نے اندھے قتل کا سراغ لگانے اور ملزموں کی گرفتاری کیلئے پولیس کی سپیشل ٹیم تشکیل دے دی، معلوم ہوا کہ متوفی کیمرہ مین تھا جو کہ شادی بیاہ پر مووی(فلمیں ) بنانے کا کام کرتا تھا ، جس نے مسماۃ امروزیہ سے پسند کی شادی کی ہوئی تھی پولیس ٹیم نے حالات و واقعات اور شواہد کی بنیاد پر امروزیہ سے تفتیش کی جو کہ پولیس کے روبرو متضاد بیانات دیتی رہی جس کی بنیاد پر مزید انٹیروگیشن اور جدید ٹیکنالوجی کی مدد سے ملزم محمدعمران ،اﷲ رکھا ولد غلام کو شامل تفتیش کیا گیا ،جنہوں نے حسن کو قتل کرنا تسلیم کیا اور مزید انکشاف کیا کہ ہم نے زاہد نعمان ولد غلام محمد کیساتھ مل کر علی حسن کو قتل کیا،جبکہ ملزم عمران کے مقتول علی حسن کی بیوی امروزیہ کیساتھ شادی سے پہلے بھی تعلقات تھے انہوں نے باہم صلاح مشورہ ہو کر علی حسن کو راستے سے ہٹانے کیلئے قتل کر دیا۔(دنیا نیوز‘21 نومبر 2019ء)
آٹھواں واقعہ :
پنجاب کے معروف شہر میں ایک خاتون شوہر اور آشنا دونوں کیساتھ مل کر زندگی گزار رہی تھی ، دونوں نے ایک روز کیا کام کر ڈالا ؟
جلا پور جٹاں (مانیٹرنگ ڈیسک ) جلا پور جٹاں میں شوہر نے بیوی کو اس کے آشنا کے ساتھ مل کر قتل کر ڈالا۔
تفصیلات کے مطابق لڑائی جھگڑے تو ہر گھر میں ہوتے ہیں تاہم کبھی کبھی یہ لڑائی جھگڑے اس قدر شدت اختیار کر جاتے ہیں کہ بات قتل تک پہنچ جاتی ہے۔آئے روز کئی ایسی خبریں سننے کو ملتی ہیں کہ اپنے دوست کے ساتھ مل کر بیوی نے شوہر کا قتل کر دیایا پھر شوہر نے بیوی کا قتل کر دیا ۔بلکہ خبریں تو ایسی بھی ملتی ہیں کہ بدبخت اولاد نے والدین کا قتل کر دیا۔ ایسا ہی ایک واقعہ جلال پور جٹاں میں بھی پیش آیا۔بتایا گیا کہ ایک انوکھی قتل کی واردات سامنے آئی ہے جہاں خاوند اور آشنا نے مل کر بیوی کو قتل کر دیا جس کے تین بچے بھی ہیں۔بتایا گیا ہے کہ نائلہ یاسمین نامی خاتون کی 8 سال قبل فیصل منیر سے شادی ہوئی تھی۔ چند سال بعد نائلہ اپنے آشنا نقاش کے ساتھ بھاگ گئی تھی تاہم منت سماجت کے بعد دوبارہ گھر واپس آ گئی۔ خاتون نے گھر واپس آنے کے بعد بھی آشنا سے روابط جاری رکھے جس پر اس کے شوہر سے اختلافات بڑھ گئے۔گذشتہ شب خاوند منیجر نے اسی آشنا نقاش کے ساتھ مل کر نائلہ کو قتل کر دیا۔مقتولہ کے والد اقبال حسین کی مدعیت میں فیصل ، منیر، نقاش اور الیاس سمیت دیگر ملزمان کے خلاف مقدمہ درج کر لیا گیا ہے،جب کہ وجہ عناد یہ ہے کہ خاوند اور آشنا کو رنج تھا کہ خاتون دونوں کو دھوکا دے رہی ہے۔ پولیس کا کہنا ہے کہ اس واقعے کی تحقیقات کا آغاز کر دیا گیا ہے۔واردات کا مختلف پہلوؤں سے جائزہ لیا جا رہا ہے۔قبل ازیں ایک ایسا ہی لرزا خیز واقعہ پیش آیا تھا جہاں بیوی نے آشنا سے بات کرنے سے منع کرنے پر شوہر کو قتل کر دیا تھا۔بتایا گیا تھا کہ خاتون ٹیلفون پر کسی کے ساتھ رابطے میں تھی۔بیوی کا غیر مرد سے بات کرنا شوہر کو ناگوار گزرتا تھا۔نصیر نے اپنی بیوی سمیرا کو اپنے آشنا سے موبائل فون پر بات کرنے سے منع کیا جس پر دونوں میں ہاتھا پائی ہو گئی۔(روزنامہ اوصاف ‘ 7 نومبر 2020ء)
نواں واقعہ :
خیر پور: سیاہ کاری کا الزام ، شوہر نے بیوی اور آشنا کو قتل کر دیا۔ خیر پور: (دنیا نیوز) سیاہ کاری کے الزام میں شوہر نے بیوی اور اس کے آشنا کو قتل کر دیا اور تھانے میں گرفتاری پیش کر دی۔ تفصیلات کے مطابق سندھ کے ضلع خیر پور میں بی سیکشن تھانے کی حدود مل کالونی میں سیاہ کاری کے الزام میں دہرا قتل کا واقعہ پیش آیا، ملزم نصیر ناریجو نے بیوی لطیفاں ناریجو اور خان ناریجو کو فائرنگ کر کے قتل کر دیا۔ملزم نے اپنی بیوی اور خان ناریجو کو قتل کرنے کے بعد بی سیکشن تھانے پر گرفتاری پیش کردی، پولیس نے دونوں لاشوں کا پوسٹمارٹم کرنے کے بعد لاش ورثا کے حوالے کر دی۔
زنا اور بدفعلی کے واقعات کی روک تھام کا قرآن و سنت کی روشنی میں حل
ملک پاکستان کے اسلامی ملک ہونے اور آئین پاکستان کی روشنی میں یہ با ت کھل کر عیا ہو گئی ہے کہ قرآن و سنت ہی اصل میں اس ملک کا دستور اور آئین ہے اس ملک پاکستان میں پیش آنے والے زنا ‘ اغوا‘ قتل ‘ بدفعلی کے بڑھتے واقعات کی طرف آتے ہیں کہ اسلام اس کی روک تھام کے لیے کیا راہ نمائی کرتا ہے ؟ جہاں تک تعلق ہے قرآن کریم کا تو سب سے پہلے ہم قرآن کریم سے راہ نمائی لیتے ہیں ۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے :
وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰۤى اِنَّهٗ كَانَ فَاحِشَةً-وَ سَآءَ سَبِیْلًا.
ترجمہ: زنا کے قریب نہ جاؤ وہ بہت برا فعل ہے اور بہت ہی برا راستہ ہے ۔(سورۃ نبی اسرائیل :32)
ارشاد باری تعالیٰ ہے ۔
وَالّٰتِيْ يَاْتِيْنَ الْفَاحِشَةَ مِنْ نِّسَآئِکُمْ فَاسْتَشْهِدُوْا عَلَيْهِنَّ اَرْبَعَةً مِّنْکُمْ فَاِنْ شَهِدُوْا فَاَمْسِکُوْهُنَّ فِي الْبُيُوْتِ حَتّٰى يَتَوَفّٰهُنَّ الْمَوْتُ اَوْ يَجْعَلَ اللهُ لَهُنَّ سَبِيْلًا.(نساء4: 15)
ترجمہ : 'اور تمھاری جو عورتیں 'فاحشہ' کا ارتکاب کریں، ان پر اپنے اندر سے چار گواہ طلب کرو، اگر وہ گواہی دے دیں تو انھیں گھروں میں بند کردو، یہاں تک کہ انھیں موت آلے یا اللہ ان کے لیے کوئی سبیل نکال دے۔''
حدیث مبارکہ : کنواری لونڈی اگر زنا کرے
حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے نبی کریم ﷺ نے فرمایا: ’’اگر لونڈی زنا کرے اور اس کا زمانہ ظاہر ہوجائے تو اس کا مالک اسے کوڑے لگائے صرف ڈانٹ ڈپٹ پر اکتفا نہ کرے۔ اگر پھر زنا کرے تو پھر اسے کوڑے لگائے۔ زجروتنبیہ پر اکتفا نہ کرے۔ اگر تیسری مرتبہ زنا کرے تو اس کو فروخت کردے، خواہ بالوں کی رسی کے عوض ہی ہو۔‘‘(‌صحيح البخاري: كِتَابُ البُيُوعِ (بَابُ بَيْعِ العَبْدِ الزَّانِي)‘ ترجمة الباب: وَقَالَ شُرَيْحٌ: «إِنْ شَاءَ رَدَّ مِنَ الزِّنَا»‘ رقم الحدیث:2152‘دار السلام)
دوسری حدیث:
حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے غیر شادی شدہ زانی کے متعلق فیصلہ کیا تھا‘ اسے حد لگانے کے ساتھ ایک سال تک ملک بدر بھی کیا جائے۔( ‌صحيح البخاري: كِتَابُ المُحَارِبِينَ مِنْ أَهْلِ الكُفْرِ وَالرِّدَّةِ (بَابُ البِكْرَانِ يُجْلَدَانِ وَيُنْفَيَانِ)‘رقم الحدیث:6833‘دار السلام)
ترجمۃ الباب: کی وضاحت کرتے ہوئے ( مترجم: شیخ الحدیث حافظ عبد الستار حماد) فرماتے ہیں کہ (غیر شادی شدہ مرد و عورت ) دونوں کا دیس نکالا کردیا جائے جیسا کہ سورۃ نور میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا” زنا کرنے والی عورت اور زنا کرنے والا مرد پس تم ان میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور تم لوگوں کو ان دونوں پر اللہ کے معاملہ میں ذرا شفقت نہ آنے پائے، اگر تم اللہ تعالیٰ اور آخر کے دن پر ایمان رکھتے ہو اور چاہئے کہ دونوں کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت حاضر رہے۔ یاد رکھو زنا کار مرد نکاح بھی کسی سے نہیں کرتا سوائے زناکار عورت یا مشترکہ عورت کے اور زناکار عورت کے ساتھ بھی کوئی نکاح نہیں کرتا سوائے زانی یا مشرک مرد کے اور اہل ایمان پر یہ حرام کردیاگیا ہے۔ اور سفیان بن عیینہ نے آیر ولاتاخذکم بہما رافۃ فی دین اﷲکی تفسیر میں کہا کہ ان کو حد لگانے میں رحم مت کرو۔
زنا کی لغوی تعریف :
قرآن مجید میں لفظ( الزّنا)
زنا کا لغوی معنی ہے پہاڑ پر چڑنا ‘ سائے کا سکڑنا ‘پیشاب کو روک لینا ۔
حدیث مبارکہ میں ہے :
’’لا یصلی احدکم و ھو زناء‘‘ تم میں سے کوئی شخص پیشاب روکنے کی حالت میں نماز نہ پڑھے۔(مسند الربیع بن حبیب‘ ج:1‘ ص:60‘ مکتبہ الثقافۃ العربیہ۔بیروت)
زنا کے مختلف الفاظ:
قرآن کریم میں مختلف مقامات پر زنا کے مختلف الفاظ ذکر ہیں۔
1۔البغاءُ: یہ لونڈیوں اور پیشہ ور جسم فروش عورتوں کے لیے استعمال ہوتا ہے ۔(سورۃ مریم:20)
2۔السِّفَاحُ: جائز نکاح کے بغیر شہوت پوری کرنا کسی عورت سے اس کو السفاح کہا گیا ہے ۔(سورۃ النساء:....)
3۔العَنَتُ: جنسی تسکین کا غیر غرعی طریقے سے حصول العنت کہلاتا ہے ۔(سورۃ النساء:...)
4۔الفاحشۃ:یہ زنا کاری ( لواطت و فعل قوم لوط ) جیسے بے راہ روی والے افعال اور ایسی بد اخلاقی پر مبنی باتوں کےلئے اہل عرب استعمال کرتے ہیں جو بالآخر اس فعل بد پر منتج ہوں اور یہ لفظ قرآن مجید کے مختلف مقامات پر وارد ہوا ہے ۔
زنا کی اصطلاحی تعریف:
شرعی اور اخلاقی حدود کو توڑتے ہوئے مردو زن کا باہمی جنسی تعلقات کو قائم کرنا اور جنسی تسکین حاصل کرنے کو (الزّنا) کہا جاتا ہے ۔
علامہ راغب اصفحانی لکھتے ہیں :کہ زنا کا معنی ہے کسی عورت کے ساتھ بغیر شرعی نکاح کے وطی(مباشرت) کرنا ۔(مختار الصحاح :170‘ النہایہ‘ج:2 ‘ص: 284‘ المفردات‘ج:1‘ص:284)
قاضی عبد النبی بن عبد الرسول احمد نگری لکھتے ہیں :
الزّنا:اس اندام نہانی میں وطی (مباشر یا جماع) کرنا جو وطی کرنے والے کی ملکیت یا ملکیت کے شبہ سے خالی ہو۔(دستور العلماء‘ ج:2 ‘ص:113)
سید مرتضیٰ حسین زبیدی لکھتے ہیں :کہ لغت میں زنا کا معنیٰ ہے کسی چیز پر چڑنا اور اس کا شرعی معنیٰ ہے کسی ایسی شہوت انگیز اندام نہانی میں حشفہ (آلہ تناسل کی ٹوپی اور سر ) کو داخل کرنا جس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہ ہو ۔(تاج العروس‘ج:10‘ص:165)
علامہ ابن قدامہ حنبلی لکھتے ہیں :
اہل علم کا اس شخص کے زانی ہونے میں کوئی اختلاف نہیں ہے کہ جو کسی ایسی عورت کی قبل (اگلی شرمگاہ) میں وطی کرے جو حرام ہو اور وطی کسی شبہ سے نہ ہو اور دبر (پچھلی شرمگایعنی دبر) میں وطی کرنا بھی اس کی مثل زنا ہے کیونکہ یہ بھی اس کی شرمگا میں وطی کرنا ہے جو اس کی ملکیت میں نہیں ہے اور نہ ملکیت کا شبہ ہے ۔لہذا یہ قبل (اگلی شرمگاہ) میں وطی کی طرح ہے ۔ اور دبر میں وطی کرنا بھی بے حیائی کا م کرنا ہے ۔کیونکہ اللہ تعالیٰ نے سورہ الاعراف کی آیت نمبر :80 میں قوم لوط کۃے متعلق فرمایا ہے :کہ تم بے حیائی کا کام کرتے ہو ۔یعنی مرد مرد کی دبر میں وطی کرتے ہیں اور قول یہ ہے کہ پہلے قوم لوط کے لوگ عورتوں کی دبر میں وطی کرتے تھے پھر مردوں کی دبر میں وطی کرنے لگے ۔(المغنی لابن قدامہ ‘ ج:9‘ص: 55‘53)
علامہ یحییٰ بن شرف نووی شافعی لکھتے ہیں :
زنا سے مراد اپنی حشفہ (سپاری‘ ٹوپی‘ آلہ تناسل کا سر) کسی ایسی فرج (شرمگاہ) میں داخل کر دے جو طبعاً مشتہی ہو اور اس کے حرام ہونے میں کوئی شبہ نہ ہو تو اس وطی پر حد واجب ہو تی ہے ۔ اگر زانی محصن(شادی شدہ) ہو تو اس کی حد رجم ہے اور اس کے ساتھ اس کو کوڑے نہیں لگائیں جائیں گے اور اگر غیر محصن( غیر شادی شدہ ) ہو تو اس کی حد کوڑے اور شہر بدر کرنا ہے ‘ اس میں مرد و عورت برابر ہیں ۔(روضۃ الطالین و عمدۃ المفتین ‘ ج:10 ‘ ص:86)
علامہ ابو عبد اللہ شتانی مالکی لکھتے ہیں :
کہ ابن حاجب مالکی نے زنا کی یہ تعریف کی ہے ’’کسی ایسے فرد کی فرج میں عمداً وطی کرے جو اس کی ملک بالاتفاق نہ ہو ۔(اکمال اکمال العلم ‘ج :4‘ص:445)
علامہ کسانی حنفی لکھتے ہیں :
جو شخص دارالعدل میں احکام اسلام کا التزام کرنے کے بعد اپنے اختیار سے زندہ مشتہاۃ عورت( یعنی وہ عورت جس پر شہوت آتی ہو ) کی قبل میں وطی کرے داراں حالیکہ و قبل حقیقتاً ملکیت اور حقیقتا ً نکاح اور شبہ نکاح اور نکاح اور ملک کے موضع اشتباہ کے شبہ سے خالی ہو ۔(بدائع الصنائع‘ج:7‘ص:33) علامہ ابن ہمام نے بھی یہی تعریف کی ہے ۔(فتح القدیر ‘ج :7‘ ص:33)
ان تمام تعریفات سے یہ بات واضع ہوئی کے زانیہ کا با اختیار ہونا اور زانی کا با اختیار ہونا اور مکلف شریعت ہونا ضروری ہے ورنہ اکراہ اور جبر کی صورت میں حد کے نفاذ میں مانع ہے ۔مگر زانی گر بااختیار ہو اور باقی تمام شرائط بھی پوری ہوں تو اس پر زنا کی حد شادی شدہ یا غیر شادی شدہ ہو نے کی صورت میں لاگو ہوگی ۔اگر زانی شرعی اعتبار سے مجبور ہے اور وہ جبر اً کے ساتھ کسی سے زنا کرتا ہےتو اللہ تعالیٰ کے ہاں قابل سزا نہیں دونوں مرد و عورت ۔
حد زنا
قرآن وسنّت کی رُو سے زنا ایک سنگین جرم ہے ،لیکن ثبوتِ شرعی کے بغیر جرم ثابت نہیں ہوتا بلکہ یہ محض الزام کہلاتا ہے اور قانون کی زبان میں بھی اُسے ملزَم کہاجاتا ہے ۔اگر شرعی معیار (یعنی چار عینی گواہوں یا مجرم کے اقرار)سے مُجاز عدالت کے سامنے جرم ثابت ہوجائے تواسلامی ریاست میں یہ جرم ’’موجبِ حد‘‘ ہے اور اس پر حَدِّ شرعی نافذ کرنا صرف عدالت کا دائرۂ اختیار ہے ۔اگرارتکابِ جرم کے وقت وہ شخص عاقل وبالغ اور غیر شادی شدہ تھا، تو قرآن مجید میں اُس کی سزا سو کوڑے ہے ،
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :ترجمہ:’’(غیر شادی شدہ )زانیہ عورت اور زانی مرد ان میں سے ہر ایک کو تم سوکوڑے مارو اور ان پر شرعی حکم نافذ کرنے میں تم کو ان پر رحم نہ آئے اگرتم اللہ پر اورروزِ قیامت پر ایمان رکھتے ہو اوران کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت حاضر ہونی چاہیے، (النور:2)‘‘
اگر کسی پر زنا کا الزام لگایاجائے اور وہ شخص جرم سے انکاری ہو اور مُدَّعی عدالت میں چار گواہوں سے اپنے دعوے کو ثابت نہ کرسکے ،تو اُس الزام لگانے والے پر حَدِّقذف جاری ہوگی ،جو اَسّی کوڑے ہے ۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : ترجمہ:’’ اور وہ لوگ جو پاکدامن عورتوں پر زناکی تہمت لگائیں ، پھر(عدالتِ مُجاز کے سامنے) چار عینی گواہ پیش نہ کرسکیں،تواُنہیں (حَدِّقذف کے)اَسّی کوڑے لگاؤ اور (آئندہ) اُن کی شہادت کبھی بھی (عدالتِ مُجاز میں) قبول نہیں ہوگی (یعنی وہ مردودالشہادت ہوں گے) اور وہی لوگ فاسق ہیں ، (النور: 4) واللہ تعالیٰ اعلم .........از قلم :ظفر اقبال ظفر
 

ابن ادم

رکن
شمولیت
اپریل 17، 2017
پیغامات
13
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
46
قرآن نے صرف زنا بالرضا پر بحث کی ہے. اور زنا بالجبر پر نہیں. لہٰذا زنا بالجبر پر حکومت خود سے کوئی بھی قانون بنا سکتی ہے اور اس کے لئے چار گواہوں کی بھی ضرورت نہیں بلکہ سائنس کی بھی مدد لی جا سکتی ہے. آیت واضح ہے کہ بدکاری کرنے والا مرد بدکاری کرنے والی عورت یا مشرکہ سے بدکاری کرتا ہے یعنی دونوں باہمی رضامندی سے یہ کام سرانجام دے رہے ہیں نہ کہ کسی پر کوئی جبر یا زبردستی کی جا رہی ہے.
بہرحال یہ ایک لمبی بحث ہے لیکن اسلام کے قوانین کبھی مظلوم کے خلاف نہیں ہوں گے تو کیسے زنا بالجبر میں اگر کسی عورت کے ساتھ کوئی ظلم ہوتا ہے اس پر اسلام ٤ گواہ لانے کی بھی ذمہ داری ڈالے گا.
 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
جناب محترم اپنی معلومات درست کریں اور صحیح طرح قرآن و حدیث کا مطالعہ کریں ۔ قرآن میں زنا بالرضا اور جبر کی تقسیم نہیں بلکہ یہ دونوں صورتوں میں لازم ہے کہ دونوں انکاری ہوں اور ان پر چار گواہ پیش کر کے سزا ہو گی ۔نہیں تو ان دونوں پر الزام لگانے والے پر حد قذف ہو گی اور اس کی تفصیل حدیث میں موجود ہے ایسے واقعات کی روشنی میں قرآن اور حدیث کا صحیح فہم حاصل کریں اور جو آپ نے کہا کہ زنا بالجبر پر چار گواہوں کی موجودگی ضروری نہیں حکومت خود سزا مقرر کرے گی اس سے آپ یہ کہنا چاہے ہیں کہ قرآن میں اس بارے میں راہ نمائی موجود نہیں جو کہ آپ کی کم علمی اور کم فہمی ہے ۔
 

ظفر اقبال

مشہور رکن
شمولیت
جنوری 22، 2015
پیغامات
281
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
104
آپ قرآن سے یہ کیسے ثابت کریں گے کہ دونوں رضا سے زنا کریں اور دونوں انکاری ہوں کہ ہم نے کوئی ایسا کام نہیں کیا تو اس کی سزا قرآن کی اس آیت سے کیسے مقرر کر سکتے ہیں ؟جب کہ آپ کے بقول چار گواہوں کی رضا میں ضرورت نہیں ؟ قرآن کی اس آیت سے ثابت کر کے دیکھائیں؟
 
Top