• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سکندر بن فیلپس اور ذوالقرنین

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
پھر خواہ کوئی شخص زہد، عبادت اور علم میں خواہ کتنی ہی بلندی پر کیوں نہ پہنچ جائے لیکن جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ساری شریعت پر ایمان نہ لائے، وہ مومن نہیں ہوسکتا اور نہ اللہ تعالیٰ کا ولی ہوسکتا ہے جیسا کہ علماء یہود و نصاریٰ میں احبار و رہبان (علماء و درویش) اور عبادت گزار ہیں، اسی طرح مشرکوں میں سے علم و عبادت میں شغف رکھنے والے لوگ ہیں یعنی عرب، ترک اور ہندوستان کے مشرکین وغیرہ۔
تو ہند اور ترک کے حکماء و فلاسفہ میں سے جو بھی ایسا ہو کہ علم و زہد سے حظ وافر رکھتا ہو اور اپنے کیش اور مذہب کے مطابق عبادت گزار بھی ہو لیکن جو کتاب و سنت اور دین و شریعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اس سب کچھ پر ایمان نہ لائے تو وہ کافر، اللہ کا دشمن ہے خواہ اسے کچھ لوگ اللہ کا ولی سمجھتے ہوں۔
جس طرح فارس کے حکماء کفار مجوس تھے۔ یونان کے حکماء ارسطو وغیرہ مشرک اور بتوں اور ستاروں کے پوجنے والے تھے۔
ارسطو مسیح علیہ السلام سے تین سو سال پہلے ہو گزرا ہے اور سکندر بن فیلپس مقدونی کا وزیر تھا۔ رومیوں اور یونانیوں کے اسی کے زمانہ سے تاریخ لکھی جاتی ہے۔ یہود و نصاریٰ بھی اسی کے حساب سے تاریخ لکھتے ہیں: یہ وہ ذوالقرنین نہیں ہے، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے جیسا کہ بعض لوگوں کو گمان ہوا کہ ارسطو ذوالقرنین کا وزیر تھا۔ چونکہ ذوالقرنین کو بھی کبھی کبھی سکندر کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس لیے ان لوگوں کو دھوکا لگا کہ سکندر مقدونی ہی ذوالقرنین ہے۔ چنانچہ ابن سینا اور اس کے ساتھ ایک جماعت اسی رائے پر ہے۔ یہ رائے غلط ہے، یہ سکندر جس کا وزیر ارسطو تھا، مشرک تھا اور ذوالقرنین سے بعد کے زمانے کا ہے۔ اس نے نہ دیوار دیکھی اور نہ یاجوج و ماجوج کے ملک میں پہنچا، یہ وہ اسکندر ہے کہ ارسطو اس کے وزراء میں سے تھا، رومیوں کے ہاں رائج تاریخ اسی سے شروع ہوتی ہے۔ (بعد ازاں یہ تاریخ بدل دی گئی اور متروک ہو گئی (ازہر)۔
حوالہ
 

مدثر الیاس

مبتدی
شمولیت
مئی 06، 2013
پیغامات
10
ری ایکشن اسکور
21
پوائنٹ
3
کچھ لوگوں کا خیال تھا اور ہے کہ اتنا بڑا فاتح جو قرآن پاک میں بیان ہوا ہے صرف سکندر ہی ہو سکتا ہے لیکن سکندر ایک مشرک تھا جو یونانی خداؤں کو مانتا تھا جب کہ قرآن پاک میں ذولقرنین ایک مواحد ہے، ایک قدیم ایرانی بادشاہ جس کے شواہد حال ہے میں ملیں ہیں سمجھا جاتا ہے کہ یہ وہی ذولقرنین ہے جو قرآن پاک میں بیان ہوا ہے. اس کے جو مجسمے دریافت ھوۓ ہیں اس میں اس نے ایسا تاج پہن رکھا جس میں دو سینگھ ہیں، اور بائبل کے مطابق بھی وہ دو سینگوں والا بادشاہ ایران سے تھا. اسکی تفصیل اس لنک میں دیکھی جا سکتی ہے،

http://en.wikipedia.org/wiki/Cyrus_the_Great_in_the_Quran
الله بہتر جانتا ہے.

پھر خواہ کوئی شخص زہد، عبادت اور علم میں خواہ کتنی ہی بلندی پر کیوں نہ پہنچ جائے لیکن جب تک محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی ساری شریعت پر ایمان نہ لائے، وہ مومن نہیں ہوسکتا اور نہ اللہ تعالیٰ کا ولی ہوسکتا ہے جیسا کہ علماء یہود و نصاریٰ میں احبار و رہبان (علماء و درویش) اور عبادت گزار ہیں، اسی طرح مشرکوں میں سے علم و عبادت میں شغف رکھنے والے لوگ ہیں یعنی عرب، ترک اور ہندوستان کے مشرکین وغیرہ۔
تو ہند اور ترک کے حکماء و فلاسفہ میں سے جو بھی ایسا ہو کہ علم و زہد سے حظ وافر رکھتا ہو اور اپنے کیش اور مذہب کے مطابق عبادت گزار بھی ہو لیکن جو کتاب و سنت اور دین و شریعت محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم لائے ہیں اس سب کچھ پر ایمان نہ لائے تو وہ کافر، اللہ کا دشمن ہے خواہ اسے کچھ لوگ اللہ کا ولی سمجھتے ہوں۔
جس طرح فارس کے حکماء کفار مجوس تھے۔ یونان کے حکماء ارسطو وغیرہ مشرک اور بتوں اور ستاروں کے پوجنے والے تھے۔
ارسطو مسیح علیہ السلام سے تین سو سال پہلے ہو گزرا ہے اور سکندر بن فیلپس مقدونی کا وزیر تھا۔ رومیوں اور یونانیوں کے اسی کے زمانہ سے تاریخ لکھی جاتی ہے۔ یہود و نصاریٰ بھی اسی کے حساب سے تاریخ لکھتے ہیں: یہ وہ ذوالقرنین نہیں ہے، جس کا ذکر اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں فرمایا ہے جیسا کہ بعض لوگوں کو گمان ہوا کہ ارسطو ذوالقرنین کا وزیر تھا۔ چونکہ ذوالقرنین کو بھی کبھی کبھی سکندر کے نام سے پکارا جاتا تھا۔ اس لیے ان لوگوں کو دھوکا لگا کہ سکندر مقدونی ہی ذوالقرنین ہے۔ چنانچہ ابن سینا اور اس کے ساتھ ایک جماعت اسی رائے پر ہے۔ یہ رائے غلط ہے، یہ سکندر جس کا وزیر ارسطو تھا، مشرک تھا اور ذوالقرنین سے بعد کے زمانے کا ہے۔ اس نے نہ دیوار دیکھی اور نہ یاجوج و ماجوج کے ملک میں پہنچا، یہ وہ اسکندر ہے کہ ارسطو اس کے وزراء میں سے تھا، رومیوں کے ہاں رائج تاریخ اسی سے شروع ہوتی ہے۔ (بعد ازاں یہ تاریخ بدل دی گئی اور متروک ہو گئی (ازہر)۔
حوالہ
 
Top