• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

سیرت النبی یا میلاد النبیﷺ

شمولیت
مئی 05، 2014
پیغامات
202
ری ایکشن اسکور
40
پوائنٹ
81
سیرت النبی یا میلاد النبیﷺ
(خطبہ جمعۃ المبارک)
محمد عطاء اللہ بندیالوی

نحمدہ نصلی ونسلم علیٰ رسولہ الکریم الامین وعلیٰ آلٰہ واصحابہ اجمعین اما بعد
فاعوذ باللہ من الشیطان الرجیم بسم اللہ الرحمن الرحیم​

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَأُولِي الْأَمْرِ مِنكُمْ ۖ فَإِن تَنَازَعْتُمْ فِي شَيْءٍ فَرُدُّوهُ إِلَى اللَّـهِ وَالرَّسُولِ إِن كُنتُمْ تُؤْمِنُونَ بِاللَّـهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ ۚ ذَٰلِكَ خَيْرٌ وَأَحْسَنُ تَأْوِيلًا
﴿٥٩﴾

سامعین گرامی قدر! اسلامی ہجری سال کا تیسرا مہینہ ربیع الاول کا مقدس محترم اور مبارک مہینہ ہے۔ اس مہینہ کو یہ انفرادی خصوصیت اور امتیازی عظمت حاصل ہے کہ اس میں امام الانبیاء، خاتم النبیین حضرت سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی ولادت باسعادت ہوئی۔
اور یہ بھی عجیب اتفاق ہے کہ آپ اپنی زندگی کی تریسٹھ بہاریں گزار کر جب دنیا فانی سے عالم بقا کی طرف گئے تو اس وقت بھی ربیع الاول ہی کا مہینہ تھا۔
ولادت و وفات کی اس مناسبت سے اس مہینہ میں آپ کا تذکرہ پورے جوبن پر ہوتا ہے۔ اس مہینہ میں ہر مکتب فکر کے علماء اور عوام اپنے اپنے انداز، اپنے اپنے ذوق، اپنے اپنے شوق اور اپنے اپنے ظرف کے مطابق کائنات کی اس عظیم ہستی کو خراج عقیدت اور خراج تحسین پیش کرتے ہیں۔ تقریروں میں اور تحریروں میں ان کا ہی ذکر ہوتا ہے۔ بڑی بڑی کانفرنسیں ہوتی ہیں۔ عظیم سیمینار ہوتے ہیں، فقید المثال اجتماعات ہوتے ہیں غرضیکہ پورے جوش و جذبہ اور زورو شور سے ربیع الاول میں میرے نبیﷺ کا چہار سو تذکرہ ہوتا ہے۔
اُن کا تذکرہ ہر لمحہ
ورنہ تو میرا ایمان ہے کہ اس دنیا میں سال کا کوئی مہینہ اور مہینے کا کوئی ہفتہ اور ہفتے کا کوئی دن اور دن کی کوئی ساعت اور گھڑی اور گھڑی کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں میرے آقاﷺ کا تذکرہ نہ ہوتا ہو۔ کہتے ہیں کہ جب سے دنیا بنی ہے اس وقت سے لے کر آج تک بارش کے برسنے کا سلسلہ جاری و ساری ہے آج یہاں بارش برس رہی ہے تو کل دوسرے شہر میں، آج اس ملک میں تو کل دوسرے ملک میں، آج شہر میں تو کل جنگل میں غرضیکہ بارش کے برسنے کا سلسلہ ہر وقت جاری و ساری ہے۔ جس طرح بارش کے برسنے کا سلسلہ کبھی نہیں رکتا اسی طرح میرے پیارے نبی کا تذکرہ اور ذکر خیر بھی کبھی ختم نہیں ہوتا۔
مسجدوں میں، مدارس میں، خانقاہوں میں، زمین کی پستیوں میں، آسمان کی بلندیوں میں، منبر و محراب سے، مسجد کے بلند و بالا میناروں سے کائنات کی اس عظیم ہستی کا تذکرہ ہر لمحہ بلند ہو رہا ہے۔
مؤذن کی اذان میں، مکبّر کی تکبیر میں، نمازیوں کی نماز میں، جنازہ کی نماز میں، کلمۂ اسلام میں، قرآن کی آیات میں اور قبر کے سوال و جواب میں اللہ رب العزت کے ذکر کے ساتھ ان کا تذکرہ بھی برابر ہو رہا ہے۔۔۔۔ غالباً یہی مفہوم ہے ورفعنا لک ذکرک کاکہ ہم آپ کے ذکر کو ایسے بلند کردیں گے کہ جہاں جہاں میرا ذکر ہو گا وہاں تیرا ذکر بھی ہو گا۔
اُن کا ذکر ولادت سے پہلے بھی
جب میرے نبیﷺ دنیا میں تشریف لے آئے تب تو آپ کے اوصاف و کمالات کے تذکرے ہونے ہی ہونے تھے، جن لوگوں نے آپ کے بے مثال حسن و جمال کو دیکھا انہوں نے تو تعریف و توصیف کرنی ہی تھی، خوبصورت چیز کی تو ہر کوئی تعریف کرتا ہے پھر میرے آقاﷺ کا حسن و جمال سبحان اللہ!
ایک شاعر کہتا ہے:

کائناتِ حسن جب پھیلی تو لامحدود تھی اورجب سمٹی تو تیرا نام ہو کر رہ گئی

ایک دوسرے شاعر نے میرے نبیﷺ کے حسن کو یوں بیان کیا:

نازاں ہے جس پہ حسن وہ حسن رسول ہے یہ کہکشاں تو آپ کے قدموں کی دھول ہے

ایک اور شاعر نے تو میرے پیغمبرﷺ کے بے مثال اور لاجواب حسن و جمال کو بیان کرتے ہوئے حد کر دی۔۔۔۔ کہتا ہے:
رنگ، خوشبو، صبا، چاند تارے کرن پھول، شبنم، شفق، آبجو، چاندنی
تیرے معصوم پیکر کی تخلیق میں حسنِ فطرت کی ہر چیز کام آگئی

پھر حسن و جمال کے ساتھ ساتھ اوصاف و کمال کا مجموعہ بھی تو میرے نبیﷺ کی ذات گرامی ہی ہے۔ ختم نبوت کا عظیم منصب آپ کو عطا ہوا، امام الانبیاء کے رتبے پر آپ فائز ہوئے، رحمۃ للعالمین کا درجہ آپ کے حصے میں آیا، شفیع المذنبین بننے کی عظمت آپ ہی کو عطا ہوگی، حوض کوثر کے ساقی آپ ہوں گے، لواء الحمد کے حامل آپ ہوں گے، مقام وسیلہ کے مکین آپ ہی ہوں گے، صاحب قرآن بھی آپ ہی ہیں اور صاحب معراج ہونے کا منصب بھی آپ کو نصیب ہوا۔
جب آپ دنیا میں تشریف لے آئے تو آپ کے حسن و جمال کو دیکھ کر، آپ کے اوصاف و کمالات کو دیکھ کر، آپ کے اخلاق و عادات کو دیکھ کر اور آپ کی شرافت، صداقت، دیانت و امانت کو دیکھ کر ہر کسی نے تعریف و تذکرے کرنے تھے۔
مگر میرا نبیﷺ تو اتنا عظیم و اعلیٰ ہے کہ آپ کے تذکرے اس وقت بھی ہوتے تھے جب آپ ابھی دنیا میں تشریف نہیں لائے تھے۔۔۔۔ کبھی سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی دعائوں میں
ربنا وابعث فیہم رسولا منہم یتلوا علیہم آیاتک​
۔۔۔۔ اے ہمارے پالنہار! بھیج ان میں ایک عظیم المرتبہ رسول ان ہی میں سے جو ان کے سامنے تیری آیتیں پڑھ پڑھ کر سنائے۔
ابھی میرا نبی دنیا میں نہیں آیا مگر ان کا تذکرہ ہو رہا تھا سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کی بشارتوں میں
ومبشرا برسول یأتی من بعدی اسمہ احمد​
میں خوشخبری دینے والا ہوں ایک رفیع الشان پیغمبر کی جو میرے بعد آئے گا اس کا نام احمد ہو گا۔
میرے محبوب پیغمبرﷺ دعاء ابراہیم کا مصداق بن کر آئے اور بشارت عیسیٰ کا ثمر بن کر دنیا میں تشریف لائے۔
کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے ؎

ہوئی پہلوئے آمنہ سے ہویدا دعائے خلیل و نوید مسیحا

ربیع الاول میں تذکرۂ محمدﷺ پورے شباب پر
سامعین گرامی قدر! میں عرض یہ کر رہا ہوں کہ ویسے تو سال کا کوئی لمحہ ایسا نہیں گزرتا جس میں میرے آقاﷺ کا تذکرہ نہ ہوتا ہو مگر ربیع الاول کے مہینہ میں آپ کا تذکرہ اور ذکر خیر اپنے جوبن پر ہوتا ہے۔
ربیع الاول میں ہونے والے اجتماعات اور کانفرنسوں کے موضوع اور عنوان دو طرح کے ہوتے ہیں ایک سیرت النبیﷺ اور دوسرا عنوان ہے میلاد النبیﷺ۔
ہمارے معاشرہ کے ایک مذہبی عنصر نے میلاد النبیﷺ کے عنوان کو پسند اور اختیار کیا ہے، ان کے ہر جلسے اور ہر کانفرنس کا عنوان میلاد النبیﷺ ہوتا ہے۔ کانفرنس میں ہر نعت خوان یہی گا رہا ہے کہ ہمارے نبیﷺ پیدا ہوئے تھے۔ کانفرنس میں اسٹیج پر آنے والا ہر مقرر اور خطیب یہی بیان کر رہا ہے کہ آپ کی پیدائش ہوئی فلاں جگہ پر ہوئی اور فلاں تاریخ کو ہوئی۔
ان حضرات سے میرا دست بستہ سوال ہے کہ کیا امام الانبیاءﷺ کی ولادت باسعادت کوئی اختلافی مسئلہ ہے جس کے ثابت کرنے اور منوانے پر تم اپنے پھیپھڑوں کا پورا زور صرف کر رہے ہو اور میلاد کے معاملے میں اتنے غلو کے مرتکب ہو رہے ہو۔
امام الانبیاءﷺ کی بعثت سے لے کر آج تک پوری دنیا میں کوئی ایک شخص بھی ایسا آیا ہے جس نے آپ کے میلاد اور پیدائش کا انکار کیا ہو؟ کوئی مشرک، کوئی کافر، کوئی منافق، کوئی یہودی، کوئی عیسائی، کوئی مجوسی، کوئی ہندو اور سکھ۔۔۔۔ جس نے آپ کی ولادت کا انکار کیا ہو؟
کیا امام الانبیاءﷺ کے دور کے مشرکین و منافقین اور یہود نصاریٰ آپ کی ولادت اور آپ کی پیدائش کے قائل نہیں تھے؟
کیا ابو جہل نہیں جانتا اور مانتا تھا کہ آپ پیدا ہوئے ہیں۔ کیا ابو لہب نہیں مانتا تھا کہ آپ کے والد محترم کا نام عبد اللہ اورآپ کی والدہ محترمہ کا نام آمنہ تھا۔ کیا کفار مکہ نہیں جانتے تھے کہ آپ کے دادا کا نام عبد المطلب ہے اور آپ مکہ کے فلاں مکان میں پیدا ہوئے۔ کیا وہ اس حقیقت سے بے خبر تھے کہ آپ نے حلیمہ سعدیہ کا دودھ پیا ہے۔ کیا وہ نہیں مانتے تھے کہ آپ بنو ہاشم قبیلے سے تعلق رکھتے ہیں؟
جب آپ کی ولادت و پیدائش متفق علیہ مسئلہ ہے اور کفار و مشرکین تک اور دوسرے تمام دشمنان اسلام تک آپ کی ولادت، جائے ولادت اور خاندان کے قائل ہیں اور کوئی ایک شخص بھی ولادت کا منکر نہیں ہے۔۔۔۔۔ تو پھر ہر جلسے کا عنوان میلاد النبیﷺ کیوں؟ ہر اجتماع کا موضوع میلاد النبیﷺ کس لیے؟ ہر مقرر کی تقریر میں میلاد و ولادت کے واقعات کا بیان کس لیے؟ آپ کے میلاد اور پیدائش پر اتنا زور کس مقصد کے لیے؟
کیا آپ اپنا میلاد منوانا چاہتے تھے؟
سامعین گرامی قدر! انصاف سے فیصلہ فرمائیے کہ امام الانبیاءﷺ کی بعثت کی غرض و غایت اور مقصد کیا تھا؟ آپ نے مکہ میں تیرہ سال ظلم و ستم برداشت کیے، شعب بن ہاشم میں تین سال سوشل بائیکاٹ کاسامنا فرمایا، آپ مشرکین مکہ سے کیا منوانا چاہتے تھے؟ اپنا میلاد۔۔۔۔۔ اپنی ولادت پر خوشی و مسرت کا اظہار۔۔۔۔۔ اپنی پیدائش کے دن کو عید؟ اہل عقل و خرد سے میرا سوال ہے کیا آپ نے ہجرت کا سفر اس لیے اختیار فرمایا کہ آپ کا مطالبہ یہ تھا کہ مانو میں مکہ میں پیدا ہوا ہوں؟ کیا طائف میں دکھ اس لیے اٹھائے تھے کہ کفار سے منوانا چاہتے تھے کہ میری ولادت کے دن خوشی و مسرت کا اظہار کرو؟ کیا بدر و احد میں اپنے ساتھیوں کو اپنے میلاد منوانے کے لیے شہید کروایا تھا؟ کیا خندق کی جنگ اسی مقصد کے لیے لڑی گئی تھی؟ سچ سچ بتائیے کیا اصحاب پیغمبر مختلف جنگوں میں۔۔۔۔۔ بدر و احد، خندق وحنین، خیبرو تبوک میں اپنے پیغمبرﷺ کا میلاد منوانے کے لیے آئے تھے؟
اگر یہ سب کچھ صحیح ہے اور درست ہے تو پھر آپ بھی بھر پور طور پر میلاد منائیے، جلوس نکالیے، بازاروں کو جھنڈیوں اور قمقموں سے سجائیے، گلے میں پھولوں اور نوٹوں کے ہار ڈلوائیے، جگہ جگہ اسٹیج لگائیے، میلاد کے لیے اپنی کوششیں اور کاوشیں خرچ کیجیے اور میلاد کے لیے پوری زندگی تگ و دو فرمائیے۔
اور اگر اصحاب رسول کی قربانیاں اور محنتیں میلاد النبیﷺ کے لیے نہیں تھیں اور تاریخ گواہ ہے کہ یقینا نہیں تھیں۔۔۔۔ بلکہ کسی اور مقصد کے لیے تھیں تو وہ مقصد یقینا سیرت النبیﷺ ہے۔۔۔۔ امام الانبیاءﷺ کی پوری زندگی اسی تگ و دو میں گذری اور اصحاب رسول کی تمام تر توانائیاں اس مقصد کے لیے خرچ ہوئیں کہ وہ لوگوں سے منوانا چاہتے تھے کہ جو کچھ آمنہ کے لال کہتے ہیں اسے مانو بھی اور اس پر عمل بھی کرو۔
ہماری عملی زندگی کا تعلق؟
سامعین محترم! اب میرے ایک سوال کا جواب دے دیجیے، کیا میری اور آپ تمام حضرات کی عملی زندگی کا تعلق آپ کے میلاد سے ہے؟ عملی زندگی سے میری مراد ہے۔۔۔۔ ہمارا رہنا سہنا۔۔۔۔ جینا مرنا۔۔۔۔۔ نکاح طلاق۔۔۔۔۔ تجارت و سیاست۔۔۔۔ عدالت وحکومت۔۔۔ معاملات واخلاقیات۔۔۔۔ لین دین۔۔۔۔ حقوق و آداب۔۔۔۔۔ کیا ہمارے ان سب معاملات کا تعلق آپ کی ولادت باسعادت سے ہے؟ میری آپ کی عملی زندگی کا تعلق آپ کے میلاد سے نہیں ہے بلکہ ہماری عملی زندگی کا تمام تر تعلق آپ کی اس زندگی سے وابستہ ہے جو آپ کی ولادت کے چالیس سال بعد شروع ہوئی، جب آپ نے اپنی نبوت و رسالت کا اعلان فرمایا۔۔۔۔ اپنی زندگی اور سیرت کو امت کے لیے بطور نمونہ پیش فرمایا۔
نقصانات
ایک بات ذہن میں رکھیے کہ ایک مومن کے لیے آپ کے پیدائش کا صحیح واقعات کی روشنی میں بیان کرنا یقینا باعثِ رحمت اور وجۂ سعادت ہے۔ہر وہ مجلس اور ہر وہ اجتماع بہترین اجتماع اور مجلس ہے جس میں آپ کی ولادت، سیرت کا تذکرہ ہو۔ ایک مومن کو معلوم ہونا چاہیے کہ جس نبیﷺ کا ہم کلمہ پڑھتے ہیں وہ کہاں پیدا ہوئے؟ اور کس کے ہاں پیدا ہوئے؟ آپ کے آباء و اجداد کون تھے؟ ان کے اسماء گرامی کیا تھے؟ آپ کس خاندان سے تعلق رکھتے تھے؟
مگر ہمارے مہربانوں نے ربیع الاول کے مہینہ میں اور باقی مہینوں میں بھی میلاد النبیﷺ کے نام پر جو غلو کیا ہے جس سے یہ تأثر پھیل رہا ہے بلکہ پھیل چکا ہے کہ پورے دین کا دار ومدار اور اللہ کی رضا کا حصول اورا ٓخرت میں بخشش کا سبب صرف یہی ہے کہ میلاد کے نام پر کچھ رقم خرچ کر لی جائے، کچھ رقم خرچ کر کے گھر اور دکان کو سجا لیا جائے، میلاد کے جلوس میں شامل ہو کر نعرے لگالیے جائیں یا اس موقع پر کچھ دیگیں پکا لی جائیں۔ اس تأثر کا پہلا نقصان یہ ہے کہ سادہ لوح عوام امام الانبیاءﷺ کی ولادت کے مقصد اور آپ کی بعثت کی غرض و غایت سے غافل اور بے خبر ہو رہے ہیں۔۔۔۔ آپ کی تشریف آوری کا مقصد اور بعثت کی غرض میلاد کا منوانا تو ہرگز نہیں تھا بلکہ سیرت کا اپنانا تھا۔۔۔۔۔ کہ تم نے تجارت میرے حکم کے مطابق کرنی ہے۔۔۔۔ زندگی کا رہن سہن میری سیرت کے آئینے میں گذارنا ہے۔۔۔۔ خوشی و غمی کی رسومات میری لائی ہوئی شریعت کے ماتحت کرنی ہیں۔۔۔۔ حکومت و عدالت میرے اسوہ کے مطابق ہونی چاہیے۔
دوسرا نقصان یہ دیکھنے میں آیا ہے کہ میلاد کے جلوسوں میں غیر شرعی حرکات، بینڈ باجے، گتگے بازی، راگ رنگ، ڈھولک کی تھاپ پر رقص، بازاروں میں نعتوں پر ڈانس، طبلہ سرنگی، چمٹہ اور ڈھول۔۔۔۔ راتوں کو چراغاں میں اسراف و تبذیر، بازاروں اور دکانوں کو سجانا اور دیکھنے والوں میں مرد و زن کا اختلاط اور غیر اخلاقی حرکات، عورتوں اور نوجوان لڑکیوں کا زرق برق لباس میں نیم عریاں انداز میں ٹہلنا۔
اس کا نقصان یہ ہو رہا ہے کہ دین سے ناواقف اور شریعت سے بے خبر طبقہ اور لادین عناصر یہ سوچنے اور سمجھنے لگے ہیں کہ یہ تمام افعال اور اعمال خلاف شریعت ہوتے اور اگر یہ سب کام ناجائز اور غلط ہوتے۔۔۔۔ ان کاموں کی اگر دین میں اجازت نہ ہوتی تو اتنے بڑے بڑے علماء اور مشائخ ،مسجدوں کے خطیب اور امام اور منبر و محراب کے وارث یہ لوگ میلاد کے جلوسوں میں یہ کام کیوں کرتے؟ اگر ڈھول باجہ اور طبلہ سرنگی اور ناچنا تھرکنا، ڈانس اور نغمے شادی بیاہ کے موقع پر ناجائز ہیں تو 12ربیع الاول کے جلوسِ میلاد میں کیوں جائز ہیں؟ وہاں تو یہ سب کچھ جبہ و دستار کے حامل لوگوں کی موجودگی میں ہوتا ہے۔
تیسرا نقصان یہ ہے کہ میلاد کو اس شدو مد کے ساتھ منانے اور اسے ہی دین کاسب سے اہم حصہ سمجھنے کا ایک عظیم نقصان یہ ہو رہا ہے بلکہ بڑی بھاری خرابی بلکہ ظلم یہ ہو رہا ہے کہ کائنات کی عظیم ترین اور حسین ترین ہستی اور بے مثال و بے مثل شخصیت کو صرف ایک دن میں محدود کر دیا گیاہے۔
لوگوں نے 12ربیع الاول کو دکانیں سجالیں۔۔۔۔ گھروں میں جھنڈیاں لگالیں ۔۔۔۔اور چراغاں کر لیا۔۔۔۔ اس دن جلوس نکال لیا۔۔۔۔ مولانا جلوس کی قیادت فرماتے ہوئے آئے اور ارشاد فرمایا:
’’آج 12ربیع الاول کا دن بڑا مبارک دن ہے کیونکہ اس دن ہمارے آقاﷺ دنیا میں تشریف لائے تھے،
اس دن ہمارے پیغمبر کی ولادت باسعادت ہوئی تھی۔‘‘
مولانا سے کوئی پوچھے کہ حضرت ایک دن تو ہر مولود کے والدین کے لیے۔۔۔۔ اس کے گھر والوں کے لیے۔۔۔۔ اس کے عزیز و اقارب کے لیے مبارک اور خوشی و مسرت کا باعث ہوتا ہے۔
کیا تم نے کبھی دیکھا اور سنا نہیں ہے کہ ہمارے یہاں کچھ مسلمان عیسائیوں کی نقالی کرتے ہوئے ہر سال اپنے بچے کی سالگرہ مناتے ہیں۔
سالگرہ کے دن گھر کو سجاتے ہیں۔۔۔۔ کمروں میں جھنڈیاں لگاتے ہیں۔۔۔۔ موم بتیاں روشن کرتے ہیں۔۔۔۔ دعوتیں دیتے ہیں۔۔۔۔رشتے داروں اور دوست و احباب کو بلاتے ہیں۔۔۔۔گھر کے لوگ زرق برق لباس زیب تن کرتے ہیں۔۔۔۔ کیک کاٹے جاتے ہیں۔۔۔۔ دعوتیں اڑائی جاتی ہیں۔۔۔۔ تالیاں بجائی جاتی ہیں۔۔۔۔ اور گیت گائے جاتے ہیں۔۔۔۔ لوگ خوشی سے جھومتے ہیں۔
میرے بھائی! کسی کی پیدائش پر ایک دن کی خوشی اور ایک دن کو مبارک سمجھنا اور ایک دن منانا یہ تو ہر بچے کی ولادت کے دن کو منایا جاتا ہے اور خوشی و مسرت کا اظہار کیا جاتا ہے۔
افسوس اور تعجب بلکہ حیرت تو اس بات پر ہے کہ تم نے بھی کائنات کی عظیم ترین شخصیت کو اور رب کی تمام مخلوق سے اعلیٰ و افضل۔۔۔۔ برتر وبالا قدر۔۔۔۔ اولیٰ۔۔۔۔ اجمل۔۔۔ اکمل۔۔۔ اشرف۔۔۔ اجدر۔۔۔ احسن۔۔۔ اکرم ہستی کو بھی ایک دن میں محدود کر دیا۔
کبھی ہم غریبوں سے بھی پوچھا ہوتا جنہیں تم نے بے ادب و گستاخ اور منکر کے طعنے دیئے ہیں۔۔۔۔ ہم تجھے بتاتے کہ میرے آقاﷺ جس دن پیدا ہوئے وہ دن بھی مبارک ہے۔۔۔۔ وہ دن جس ہفتے میں آیا وہ ہفتہ بھی مبارک ہو گیا۔۔۔۔ وہ ہفتہ جس مہینے میں آیا وہ مہینہ بھی مبارک ہو گیا۔۔۔۔ وہ مہینہ جس سال میں آیا وہ سال بھی مبارک ہو گیا۔۔۔۔ وہ سال جس صدی میں آیا وہ صدی بھی مبارک ہو گئی۔۔۔۔ وہ صدی جس زمانے میں آئی وہ سارا زمانہ ہی مبارک ہو گیا۔۔۔۔ خیر القرون قرنی (سب زمانوں میں سے بہترین زمانہ میرا زمانہ ہے۔ )کی آواز اور صدا تم نے کبھی نہیں سنی۔
ہائے جس ہستی اور جس شخصیت کو نادانو!۔۔۔۔۔ تم نے ایک دن میں محدود کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔ وہ اتنا عظیم المرتبت ہے کہ جس زمین پر وہ قدم رکھتا ہے کائنات کا خالق اس زمین کی قسمیں اٹھانے لگ جاتا ہے۔
لااقسم بہذا البلد وانت حل بہذا لبلد​
(البلد: 1.2)۔۔۔۔ کی صدا تمہارے کانوں تک کبھی نہیں پہنچی؟
وہ اتنا عالی شان ہے کہ چہرہ آسمان کی طرف اٹھائے تو رب قبلہ تبدیل کر دیتا ہے:
قد نریٰ تقلب وجھک فی السماء فلنو ینک قبلۃ ترضہا​
(البقرہ: 144)
یقینا ہم دیکھ رہے ہیں بار بار اٹھنا چہرے کا آسمان کی طرف پس ہم پھیر دیں گے آپ کو اس قبلہ کی طرف جس پر آپ راضی ہیں۔
(مولانا حسین علی رحمۃ اللہ علیہ عام مفسرین کے معنی و مفہوم سے اختلاف کرتے ہیں اور
ترضھا​
کو مستقبل کے نہیں حال کے معنی میں لیتے ہیں)
جس شخصیت کو میلادی دوستوں نے ایک دن میں محدود کرنے کی کوشش کی۔۔۔۔ وہ اتنا اعلیٰ۔۔۔۔ا ولیٰ اور بلند مرتبہ ہے کہ جس قبرستان میں کھڑے ہو کر دعا کے لیے ہاتھ اٹھادے رب اس پورے قبرستان کو جنت البقیع بنا دے۔۔۔۔ وہ راستوں سے گذرے تو پتھر اسے سلام کرنے لگیں۔۔۔۔ وادی میں پہنچے تو جانور اس سے کلام کرنے لگیں۔۔۔۔ جس کی انگلیوں سے پانی کے چشمے جاری ہوں۔
جو اتنا عظیم ہے کہ اپنے حجرے سے نکل کر مسجد کے محراب کی جانب بڑھے تو اس ساری جگہ کو ریاض الجنۃ بنا کر رکھ دے۔۔ ۔۔
ما بین بیتی و منبری روضۃ من ریاض الجنۃ​
ہاں وہ اتنا بلند شان ہے کہ جو شخص ایمان کی حالت میں ان کے چہرۂ پُر انوار کو دیکھ لے رب اس شخص پر دوزخ کی آگ کو حرام قرار دے دیتا ہے۔
لا یمس النار من رأنی او رأ من رأنی​
اس پر شاہد اور دلیل ہے۔
اس کے بلند مرتبے کے کیا کہنے جو صاحب معراج ہے۔۔۔۔ جو سدرۃ المنتیٰ سے آگے نکل گیا۔۔۔۔ جس پر نبوت و رسالت کا اختتام ہوا۔۔۔۔ جسے خاتم الانبیاء کے شرف سے نوازا گیا۔۔۔۔ جسے سب نبیوں کا امام بنا کے امام الانبیاء کا منصب عطا ہوا۔۔۔ جسے رحمۃ للعالمین کی عظمتوں سے مالا مال کیا گیا۔۔۔۔ جسے صاحب قرآن ہونے کے شرف سے مالا مال کیا گیا۔
ہاں وہ اتنا عظیم ہے کہ پورے قرآن میں اسے نام لے کر کہیں نہیں بلایا گیا بلکہ اسے اس کی ادائوں کے ساتھ پکارا گیا:
یا ایھا المدثر، یا ایھا المزمل​
۔۔۔۔ جسے پوری انسانیت اور پوری کائنات کے لیے نبی بنا کر بھیجا گیا:
وما ارسلنٰک الا کافۃ للناس بشیرا ونذیرا​
ہاں جس شخصیت کو میرے نادان دوست نے ایک دن میں محدود کرنے کی کوشش کی ہے وہ اتنا عظیم ہے کہ کل میدانِ محشر میں وہ حوضِ کوثر کے ساقی ہوں گے: انا اعطیناک الکوثر۔۔۔۔ وہی حامل لواء الحمد ہوں گے۔۔۔۔ وہی مقام محمود کے دولہاہوں گے: عسیٰ ان یبعثک ربک مقاما محمودا۔۔۔۔وہی شفاعت کبریٰ کریں گے اور پھر شفاعت صغریٰ فرمائیں گے۔۔۔۔ وہی سب سے پہلے جنت کے دروازے پر دستک دیں گے اور جنت میں سب سے اعلیٰ اور بلند مقام ’’وسیلہ ‘‘کے مکین بھی وہی ہوں گے۔
ذکرِ رسول اور میلادِ رسول
ایک بات بڑی سمجھنے کی ہے اس لیے اسے غور سے سنیں! عید میلاد۔۔۔۔۔ اور جشن میلاد ایک الگ چیز ہے اور نبی کریمﷺ کی ولادت کا تذکرہ اور آپ کی سیرت و مقام کا تذکرہ بالکل الگ شئی ہے۔
آپ کی ولادت باسعادت کا صحیح روایات کے آئینے میں تذکرہ اور آپ کی سیرت و مقام کا ذکر پسندیدہ اور محبوب امر ہے۔۔۔ جب تک کسی شخص کے دل میں دنیا کی ہر محبوب سے محبوب چیز سے بڑھ کر نبی اکرمﷺ کی محبت نہیں ہو گی وہ دل مومن کا دل نہیں ہو سکتا۔
ہمارا ایمان ہے کہ آپ کی ولادت باسعادت سے لے کر وفات تک آپ کی پاکیزہ اور معصوم زندگی کے ہر گوشے اور ایک ایک حصے کے صحیح واقعات اور آپ کی سیرت و کردار اور مقام و شان کے تذکرے عام ہونے چاہیں۔
سیرت النبیﷺ کے بیان کے لیے اور آپ کی عظمتوں کے تذکرے کے لیے محفلوں اور اجتماعات کا انعقاد بھی ضروری ہے۔۔۔۔ ایسی محفلوں سے ایمان کو تازگی۔۔۔۔ روح کو فرحت۔۔۔۔ دل کو تسکین۔۔۔۔ دماغ کو سرور ملتا ہے۔۔۔۔ اور دلوں میں اطاعتِ رسول کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔
سامعین گرامی قدر! گفتگو ذکرِ ولادتِ رسول یا تذکرۂ اوصاف ِ نبی یا سیرت النبیﷺ کے بیان میں نہیں ہے بلکہ گفتگو مروجہ عید میلاد۔۔۔۔ جشن میلاد۔۔۔۔ جلوسِ میلاد میں ہے جس کے بارے میں صداقت و عظمت کی دستاویز، نور ہدایت و نصیحت سے مالا مال اور رحمتِ الٰہی سے بھر پور کتاب قرآن مکمل طور پر خاموش ہے۔
قرآن مجید نے اللہ رب العزت کے بعد جس عظیم و حسین ہستی اور بے مثل و لاجواب شخصیت کی اتباع، پیروی اور اطاعت کا حکم دیا ہے وہ ذاتِ گرامی ہے سیدنا محمد رسول اللہﷺ کی، آپ احادیث کی تمام کتابیں اٹھالیں ، ان کا ایک ایک ورق کھول لیں اور ایک ایک صفحہ کو پڑھ لیں آپ کو عید میلاد یا جلوس میلاد کے بارے میں ایک لفظ بھی نہیں ملے گا۔
آپ نے اپنے صحابہ رضی اللہ عنہم کے راستے پر امت کو چلنے کی تلقین فرمائی، خلفائے راشدین کی سنت پر عمل پیرا ہونے کا حکم دیا۔۔۔۔ مگر ایک لاکھ سے زائد اصحاب رسول میں سے کسی ایک صحابی کا قول یا عمل عید میلاد کے بارے میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔
اصحاب رسول کے بعد تابعین اور تبع تابعین کا مقدس دور گذرا۔۔۔۔۔ پھر ائمہ کرام ہوئے۔۔۔۔ محدثین اور مفسرین گذرے۔۔۔۔ بزرگان دین اپنے اپنے وقتوں میںدین کی شمع روشن کرتے رہے مگر ان میں سے کسی ایک نے بھی اس کی داغ بیل نہیں ڈالی۔
آپ سوچ رہے ہوں گے جس عمل کا تذکرہ قرآن و حدیث میں نہیں۔۔۔۔ اصحاب رسول کی زندگیاں اس سے خالی نظر آتی ہیں۔۔۔۔ خیر القرون میں اس کا رواج نہیں تھا۔۔۔۔ فقہ کی کتب میں اس کے لیے کوئی باب نہیں باندھا گیا۔۔۔۔ اولیاء کرام۔۔۔۔۔ اور بزرگان دین سے بھی اس کا کوئی ثبوت نہیں ہے۔۔۔۔۔ تو پھر اس کا موجد کون ہے؟ پھر اس کی ابتداء کب ہوئی؟
آپ سن کر حیران ہوں گے کہ اس کی ابتداء چھٹی صدی کے آخر میں یا ساتویں صدی کی ابتداء میں ہوئی۔ اس کی بنیاد ایک مسرف اور بد کردار بادشاہ ابو سعید مظفر شاہ اربل نے رکھی جو اپنی عیاشیانہ زندگی کی وجہ سے عوام میں غیر مقبول ہو رہا تھا چنانچہ اس نے عوام کی نظروں میں سستی مقبولیت حاصل کرنے کے لیے محفل میلاد کا انعقاد کروایا۔۔۔۔ یہ صرف محفل میلاد کرواتا اور اس پر لاکھوں روپے خرچ کرتا۔
اس وقت کے ایک مولوی ابو الخطاب عمر بن حسن دحیہ الکلبی نے دنیوی لالچ میں آکر محفل میلاد کے جواز پر ایک کتاب مرتب کی جس کا نام رکھا ’’التنویر فی مولد البشیر والنذیر‘‘ یہ مولوی علماء سلف پر طعن کرتا اور ان کے متعلق بری زبان استعمال کرتا اور جھوٹ بولنے کا عادی تھا۔(تفصیل کے لیے دیکھیے لسان المیزان، ج: 4ص: 296، احسن المقصد فی عمل المولد سیوطی، ابن خلکان، مرأۃ الزمان ابن جوزی)
اسی محفل میلاد نے بعد میں عید میلاد پھر جشن عید میلاد اور جلوسوں کی موجودہ شکل اختیار کر لی۔ مولوی عبد السمیع رام پوری جو عید میلاد کے قائل ہیں وہ تحریر کرتے ہیں:
یہ سامان فرحت و سرور کرنا۔۔۔۔ اور اس کو بھی مخصوص شَہر ربیع الاول کے ساتھ۔۔۔۔ اور اس میں بھی وہی
بارہواں دن میلاد شریف کا معین کرنا بعد میں چھٹی صدی کے آخر میں۔۔ ۔ اول یہ عمل ربیع الاول میں تخصیص
اور تعیین کے ساتھ موصل شہر میں ہوا۔ (انوار ساطعہ ص: 131)
وما علینا الا البلاغ المبین
 
شمولیت
ستمبر 05، 2014
پیغامات
161
ری ایکشن اسکور
59
پوائنٹ
75
اس خطبہ جمعۃ المبارک کی کوئی آڈیو، یا ویڈیو موجود ہے تو اس کا لنک سینڈ کر دیں ۔ جزاک اللہ خیرا
 
Top