• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شاہکاررسالت ،ایک تعارف

حافظ محمد عمر

مشہور رکن
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
427
ری ایکشن اسکور
1,542
پوائنٹ
109
شاہکاررسالت ،ایک تعارف

یہ مقالہ ایم فل کا ہے جو پنجاب یونیورسٹی میں پیش کیا گیا ہے۔ مقالہ نگار: حافظ محمد ارشد
کتاب کانام
پرویز صاحب نے اس کتاب کانام ’’شاہکاررسالت ‘‘رکھاہے ۔اوراس کاموضوع سیرت عمر رضی اللہ عنہ ہے ۔گویاپرویز صاحب نے عہدفاروقی رضی اللہ عنہ کوعہدنبوی ﷺ کاشاہکارقراردیاہے یعنی جس نظام زندگی اورنظام حیات کوحضورﷺ نے پیش فرمایا تھا اسکی عملی شکل حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں سامنے آئی تھی ۔اسی وجہ سے پرویز صاحب نے کہاہے کہ میں نے اسلام کوبحیثیت دین سیرت فاروقی رضی اللہ عنہ سے سمجھاہے چنانچہ پرویز صاحب لکھتے ہیں کہ
’’میں نے اسلام کوبحیثیت دین(نظام حیات)سیرت فاروقی رضی اللہ عنہ سے سمجھاتھا۔اس لیے اس سیرت کواجلی اورنکھری صورت میں دنیا کےسامنے پیش کرنااپنے ذمہ فرض محسوس کرتاتھا۔للہ الحمدکہ میں آج اس قرض سے سبکدوش ہورہاہوں۔‘‘( شاہکار رسالت، ’گزہ گاہ خیال : ص 57 )
اس بات میں شک نہیں کہ عہدفاروقی رضی اللہ عنہ واقعتاً وہ دورتھا کہ جس کی مثال پیش نہیں کی جاسکتی اوربلاشبہ اس دورکوشاہکاررسالت کہاجاسکتاہے ۔اورغیرمسلم بھی عہدفاروقی رضی اللہ عنہ کو ایک مثالی عہد قراردینے پرمجبورہیں مگر
پرویز صاحب نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کوشاہکاررسالت کے لقب سے کیوں نوازااسکی وجہ صرف اورصرف یہی ہے کہ پرویز صاحب کواپنے مخصوص نظریات کی تائیدکے لیے سیرت عمر رضی اللہ عنہ سےکافی موادمیسرآسکتاتھا چنانچہ اسی بات کی وضاحت کرتے ہوئے مولاناعبدالرحمان کیلانی رحمہ اللہ رقمطرازہیں کہ
’’ان خلفائے راشدین کےایسے اقدامات میں سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کانام سرفہرست پیش کیاجاتاہے ۔بلکہ اگریوں کہاجائے کہ اس سلسلہ میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ ہی کانام پیش کیاجاتاہے توبھی بے جانہ ہوگا۔اسی طرح اگریہ کہاجائے کہ ادارہ طلوع اسلام کی نظرانتخاب حضرت عمررضی اللہ عنہ پربطور’’شاہکاررسالت‘‘محض اس لیے پڑی کہ ادارہ مذکور کے خیال کے مطابق تمام تر’’شرعی ترمیمات‘‘حضرت عمررضی اللہ عنہ نے فرمائی تھیں تویہ بات بھی بے جانہ ہوگی۔(آئینہ پرویزیت، کیلانی، عبد الرحمن، حافظ : ص 755)
گذرگاہ خیال۔دیباچہ کتاب
پرویزصاحب نے کتاب کے آغازمیں ’’گذرگاہ خیال‘‘کے نام سے ایک دیباچہ لکھاہے جوانتیس(29)صفحات پرمشتمل ہے۔اور’’گذرگاہ خیال‘‘کے صفحات سے قبل چھبیس(26)صفحات پرمشتمل کتاب کی فہرست ہے جوکہ کل پچپن صفحات بنتے ہیں اورکتاب کی فہرست سے قبل دوصفحات وہ ہیں جن میں کتاب کانام ،مصنف کانام ،ایڈیشن اورناشروغیرہ کانام ہے یہ کل ستاون 57صفحات وہ ہیں جنکی صفحہ بندی فہرست الگ ہے ۔اوراسکے بعدابواب کی صفحہ بندی الگ ہے گویااس کتاب کے شروع میں ستاون صفحات وہ ہیں جوکتاب کی فہرست اورگذرگاہ خیال وغیرہ پرمشتمل ہیں ۔
پرویز صاحب نے گذرگاہ خیال میں اپنی زندگی کےحالات قلم بندکیے ہیں اور’’شاہکاررسالت ‘‘وہ واحدکتاب ہے جس میں پرویز صاحب نے اپنے حالات زندگی ’’گذرگاہ خیال ‘‘کے نام درج کیے ہیں ۔پرویزصاحب چونکہ نہایت رنگین مزاج تھے جیساکہ ان کی سوانح حیات میں ذکرکیاجاچکاہے ۔’’گذرگاہ خیال‘‘اپنی رنگین مزاجیوں پرمشتمل ایک دیباچہ ہے جوپرویزصاحب کے حالات زندگی پرمشتمل ہے ۔
شاہکاررسالت کے ابواب
’’شاہکاررسالت ‘‘کے کل ابواب چودہ ہیں ۔جوکہ پانچ سواکتیس 531صفحات پرپھیلے ہوئے ہیں ۔ہرباب کاعنوان اورصفحات کی تعداددرج ذیل ہے۔
پہلا باب
اس باب کاعنوان ’’عشق نبردپیشہ طلبگارمردتھا‘‘ہے یہ باب حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ جاہلیت کے حالات پرمشتمل ہے ۔اس باب میں خصوصاًآپ رضی اللہ عنہ کی بچپن کی زندگی آپ رضی اللہ عنہ کےخاندان کے حالات ،آپ رضی اللہ عنہ کےباپ کی سنگدلی اورآپ ﷺ کا آپ رضی اللہ عنہ کے قبول اسلام کی دعاکرنا اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی عمرکتنی تھی وغیرہ ۔یہ باب 9صفحات پرمشتمل ہے گویا صفحہ نمبر1تا9 تک پہلاباب پھیلا ہواہے ۔
دوسرا باب
دوسرے باب کاعنوان’’خلیل عشق دیرم راحرم کرد‘‘ہے ۔یہ باب خصوصاً حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کے واقعہ پرمشتمل ہےاورپرویز صاحب نے صحیح روایات تک کواپنے انکارکی بھینٹ چڑھادیاہے ۔یہ باب اکیس 21صفحات پرمشتمل ہے گویا صفحہ دس 10تاتیس 30 یہ باب پھیلا ہواہے ۔
تیسرا باب
اس باب کاعنوان ’’خلافت حفظ ناموس الہیٰ است‘‘ہے ۔اس باب میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کےخلیفہ منتخب ہونے کےحالات ،انتخاب کے بعدخطبہ خلافت وغیرہ کابیان ہے ۔مگرخصوصی طورپرجس بات کوموضوع بحث بنایاگیاہے وہ حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کےخلیفہ منتخب ہونے کے وقت انصاراورمہاجرین کےمابین ثقیفہ بنوساعدہ میں جووقتی نزاع ہوگیاتھا اسکی قرآن کی روسے تردیداورپھر اس جھگڑے کاسہارالیکر ہراس روایت کوپیش کیاہے جس میں حدیث وتاریخ کی روسے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی سیرت داغدارہوتی ہے۔چاہے وہ روایت ڈھونڈنے سے بھی کہیں میسرنہ آسکے۔خواہ وہ روایت شیعہ کتب سے ہی کیوں نہ لی گئی ہے۔اسکا صحت وسقم جانے بغیر حدیث کے خلاف پرویز صاحب نے خوب قلم ازمائی کی ہے جوکہ ایک محقق کے قطعاً شایان شان نہیں ہوتامگرپرویز صاحب تحقیق سے کیاغرض وہ توہمہ وقت کسی بھی ایسی حدیث یاتاریخی روایت کوڈھونڈنے کے درپے ہوتے تھے جوبظاہرقرآن کے خلاف نظرآئے اورپھرقرآن کےخلاف کابہانہ بناکرخوب حدیث پرطعن کیاکرتے تھے۔العیاذباللہ
اس بات کے ثبوت کے لیے اتناہی کافی ہے کہ پرویز صاحب کوسیرت صدیقی رضی اللہ عنہ میں سے صرف ثقیفہ بنوساعدہ میں رونماہونے والا نزاع ہی نظرآیا باقی نہ انکوسیرت صدیقی رضی اللہ عنہ لکھنے کی توفیق میسرآسکی اورنہ ہی انکواس کے متعلق سوچنے کاموقعہ ملاکیونکہ اس واقعہ کےعلاوہ سیرت صدیقی رضی اللہ عنہ میں کوئی خاص بات ایسی نہ تھی جس کاسہارا لیکرحدیث رسول ﷺ کو طعن کانشانہ بنایا جاسکتا تھااورجومل سکی اسکوفورًا قبول کیااورپھریہ بھی نہ دیکھاکہ سیرت فاروقی رضی اللہ عنہ میں سیرت صدیقی رضی اللہ عنہ کاکیاعمل دخل فیاللعجب۔
یہ باب تیس صفحات پرمشتمل ہے گویا صفحہ نمبر اکتیس 31تاتریسٹھ 63یہ باب پھیلا ہواہے۔
چوتھاباب
اس باب کاعنوان’’حسبناکتاب اللہ ‘‘ہے ۔یہ باب محض حدیث دشمنی پرمشتمل ہے ۔اورقرآن مجیدہی سندوحجت ہے جیسے پرفریب نعرے کاسہارا لیاگیاہے ۔
حسبنا کتاب اللہ کی حقیقت کیاہے یہ بحث اپنے مقام پرآئیگی مگرسردست اتنا جان لیناضروری ہے کہ یہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاایک قول ہے ۔جسکاسہارالیکرپرویزصاحب نے خوب قلم ازمائی کی ہے اورپھرہراس حدیث کواپنے خبث باطن کانشانہ بنایا ہے جوبظاہرقرآن کے خلاف نظرآتی ہے ۔
یہ بات سمجھ سےبالاترہے کہ فقط ایک قول کاسہارا لیکرچالیس کے قریب صفحات کالے کرنے کی کیاضرورت تھی اوروہ بھی حدیث دشمنی کیلیے ۔
یہ بات اس لحاظ سے انتہائی زیادہ جاذب نظرہے کہ منکرین حدیث کے ہاں جودلائل ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھتے ہیں ان میں سے ایک دلیل قول فاروقی رضی اللہ عنہ ’’حسبنا کتاب اللہ ‘‘بھی ہے ۔
اس باب میں یہ بات نہایت توجہ کے قابل ہے کہ اس باب میں سیرت عمر رضی اللہ عنہ بہت کم ہے اورصرف اس بات پرزوردیاگیاہے کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ قرآن کےعلاوہ کسی چیز کوکچھ اہمیت نہ دیتے تھے۔
اگرحضرت عمر رضی اللہ عنہ کی سیرت لکھنے میں پرویز صاحب قلب خالص رکھتے ہوتے توپھرلازماً ایک باب ایسا بھی قائم کرتے جس میں ان روایات کوپیش کیاجاتاجن میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاآپ ﷺ کی حدیث سے محبت وپیارواضح ہوتاہے مگرجب پوری کتاب کا مقصدہی حدیث دشمنی ہوتو پھرایسے باب کاتصورکیسے کیاجاسکتاہے ۔یہ باب چونتیس 34صفحات پرمشتمل ہے ۔گویا یہ باب صفحہ نمبر چونسٹھ 6474تا97پھیلا ہواہے ۔
پانچواں باب
اس باب کاعنوان’’زندگی جہداست واستحقاق نیست‘‘ہے اس باب میں پرویز صاحب نے فلسفہ زندگی کوبیان کیاہے ۔چونکہ پرویز صاحب اقبال کوبہت اہمیت دیتے ہیں اس لیے جیسے انہوں نے زندگی کافلسفہ بیان کیاپرویز صاحب نے بھی ضروری جاناکہ زندگی کافلسفہ بیان کردیاجائے ۔اوردوسرا اہم موضوع جواس باب میں بیان کیاگیاہے وہ کسی مومن بندہ کی زندگی میدان جہادمیں کیسی گزرتی ہے اوراسکے ساتھ ساتھ مختصرساعہدفاروقی رضی اللہ عنہ میں رونماہونے والی ایک دوجنگوں کااحوال بیان کیاہے ۔یہ باب چھیالیس صفحات پرمشتمل ہے گویا یہ باب صفحہ نمبر 98تا143پھیلا ہواہے ۔
چھٹاباب
اس باب کاعنوان’’عالم ہے فقط مومن جانباز کی میراث‘‘ہے ۔اس باب میں پرویزصاحب نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دورمیں پیش آنے والی جنگوں کوبیان کیاہے ۔جن میں خصوصاً جنگ قادسیہ ،فتح بیت المقدس،فتح شام اورجنگ یرموک وغیرہ شامل ہیں ۔ان میں سے جنگ قادسیہ وہ جنگ ہے جس سے پرویز صاحب خودساختہ عجمی سازش کاسہارالیتےہیں ۔اگرچہ عجمی سازش پرپرویز صاحب نے آخری باب مختص کیاہے مگراسکی راہ ہموارکرنے کےلیے پرویز صاحب نے جگہ جگہ عجمی سازش کی خودساختہ اصطلاح استعمال کی ہے چنانچہ ایک دواقتباس چھٹے باب سے پیش کیے جاتے ہیں جن سے اندازہ لگاناآسان ہوجائے گاکہ پرویز صاحب نے کس طرح خودساختہ عجمی سازش کی راہ ہموارکی ہے۔
’’اس ایران کاجس کی عظیم سلطنت کاخاتمہ ابھی ابھی عربوں کے ہاتھوں ہواتھا،جس کے ہزاروں سال کی پرانی تہذیب،جس پرانہیں اسقدرفخرتھا،پامال ہوچکی تھی،جس کاشہنشاہ اپنی جان بچانے کے لیے دربدردھکے کھارہاتھا،سوچئے کہ اس ایران کےباشندوں کے دل پربالعموم اوران کے اس قدرصاحب عزت وسطوت ابناء قوم کے جگرپربالخصوص ،ان ذلت آمیز شکستوں کے زخم کس قدرگہرے ہوں گے اورعربوں کےخلاف انکی آتش انتقام کی حدّت کس قدرشدید!خودہرمزان ایک صوبہ کاگورنرتھا،اسکی ریاست چھن گئی،اسکی حکومت کاتختہ الٹ گیاتھا۔اسے پے درپے نہایت رسواکن شکستیں ہوئی تھیں ۔اوراب وہ ان عربوں کےسامنے پابجولاں کھڑاتھاجن کےساتھ یہ (ایرانی)جنگ کرنابھی اپنی کسرشان سمجھاکرتے تھے۔سوچئے کہ اسکے سینے میں غصے اورانتقام کے کیاکیاطوفان اٹھ رہے ہونگے۔‘‘(شاہکار رسالت: ص187 )
یہ اقتباس چھٹے باب سے تھااب ایک اقتباس چودھویں باب سے بھی پیش کیاجاتاہے جس سے بخوبی اندازہ لگایاجاسکتاہےکہ پرویزصاحب نے عجمی سازش کی راہ ہموارکرنے کےلیے کس طرح کتاب میں بارباراس لفظ کااستعمال کیاہے چنانچہ پرویز صاحب رقمطرازہیں کہ
’’ایرانی اس حقیقت کوپاگئے تھے کہ جب تک خدامومنین کے ساتھ ہے،ہم (یادنیا کی کوئی طاقت)ان پرغالب نہیں آسکتی۔لہذاان سے اپنی شکستوں کاانتقام کے لیے ضروری ہے کہ ان سے انکے خداکاساتھ چھڑادیاجائے۔اوراسکے بعدہماری ساری تاریخ اس اجمال کی تفصیل ہے کہ ہم سے ہماراخداکس طرح چھڑایاگیا۔‘‘(شاہکار رسالت: ص441 )
ایک دوسری جگہ پرلکھتےہیں کہ
’’اس مقصد کے لیے عجمی سازش کے دونمایا ں محاذسامنے آتے ہیں ۔ایک محاذکامقصداسلامی سلطنت کوکمزورکرکے اپناسیاسی غلبہ حاصل کرناتھااوردوسرے کامنتہی اسلام کوکسی نہ کسی طرح عجمی تصورات،نظریات ومعتقدات کے رنگ میں رنگ (بلکہ ڈبو)دینابلکہ (اگربہ نظرتعمق دیکھاجائے تو)سیاسی غلبہ بھی انکے لیے مقصودبالذات نہیں تھاوہ بھی اس دوسرے مقصدکےحصول کاذریعہ تھا‘‘
یہ باب چوراسی صفحات پرمشتمل ہے گویاکہ یہ باب صفحہ ایک سوچوالیس 144تا دوسو ستائیس227تک پھیلا ہواہے ۔
مذکورہ اقتباسات سے بخوبی واضح ہوگیاکہ پرویزصاحب نے سیرت لکھنے کے لیے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کاانتخاب کیوں کیافقط اس لیے کہ عجمی سازش کی راہ ہموارکی جاسکے۔یہ باب چوراسی صفحات پرمشتمل ہے گویا کہ یہ باب ایک سوچوالیس 144تادوسوستائیس 227تک پھیلا ہواہے۔
ساتواں باب
اس باب کاعنوان ’’آئین جہانداری‘‘ہے ۔اس میں پرویز صاحب نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی مملکت کانظم ونسق ،نظام عدل اورامورمملکت کیسے چلتے تھے بیان کیاہے ۔یہ باب چھبیس صفحات پرمشتمل ہے اورصفحہ دوسواٹھائیس228تادوسوتریپن 253پھیلا ہواہے۔
آٹھواں باب
اس باب کاعنوان’’حوادث آفاقی‘‘ہے اس میں پرویزصاحب نے جن چیزوں کوخصوصی طورپربیان کیاہے ان میں مسئلہ تقدیر ،طاعون کی وباء اورقحط ہے ۔جوکہ دورفاروقی میں رونماہوئےتھے۔یہ باب صرف آٹھ صفحات پرمشتمل ہے ۔اورصفحہ دوسوچوّن 254تادوسواکسٹھ261پھیلا ہواہے۔
نواں باب
اس باب کاعنوان’’سیاسی نظام‘‘ہے۔اس میں پرویزصاحب نے دورفاروقی کےسیاسی نظام پربحث کی ہے ۔اس باب میں خصوصی طورپرجن چیزوں کوزیربحث لایاگیاہے ان میں دورفاروقی کانظام مشاورت،قانون سازی کاطریق،اوّلیات عمر رضی اللہ عنہ اورنظام احتساب وغیرہ شامل ہیں۔اس باب میں پرویز صاحب نے اطیعو اللہ واطیعوالرسول کاجومفہوم بیان کیاہے وہ قطعی غلط ہے ۔جس کی تفصیل اپنے مقام پرآئیگی ۔اورپھرخصوصی طورپرجس موضوع کوزیربحث لایاگیاہے وہ ہے تغیرزمانہ کے ساتھ احکام اسلام کاتغیرپذیرہوجانا۔اس کی تفصیل بھی اپنے مقام پرآئیگی۔یہ باب چوالیس صفحات پرمشتمل ہے اورصفحہ دوسوباسٹھ 262تاتین سوپانچ 305تک پھیلا ہواہے۔
دسواں باب
اس باب کاعنوان’’معاشرتی زندگی‘‘ہے ۔اس باب میں پرویزصاحب نے حضرت عمررضی اللہ عنہ کی معاشرتی زندگی کوبیان کیاہے جس میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کامزاج ،کھانا ،لباس ،ظاہروباطن وغیرہ کیساتھا اورپھرلوگوں کومعاشرتی حوالے سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی نصیحتیں کیاکیاتھیں کاذکرہے۔یہ باب اکیس صفحات پرمشتمل ہے اورصفحہ تین سوچھ 306تاتین سوچھبیس 326پھیلا ہواہے ۔
گیارہواں باب
اس با ب کاعنوان’’معاشی نظام‘‘ہے۔اس باب میں پرویز صاحب نے اپنی خودساختہ اصطلاح نظام ربوبیت کو ثابت کرنے کے لیے ایڑھی چوٹی کازورلگایاہے۔اس باب میں صلوۃ وزکوۃ کے نئے مفاہیم بیان کیےگئےہیں۔قرآنی آیات کے تراجم غلط کئے گئے ہیں ۔آیات کوسیاق وسباق سے کاٹ کراشتراکیت کواسلام کامعاشی نظام ثابت کیاگیاہے۔اورپھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کواشتراکیت کاحامی قراردینے کےلیے ہرحربہ استعمال کیاگیاہے ۔اس باب کے آخرمیں حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں جومعاشی ڈھانچہ تھا اسے اشتراکیت کےتناظرمیں پیش کیاگیاہے ۔ان تمام باتوں کی وضاحت اپنے مقام پرآئیگی ۔ان شاء اللہ
یہ باب اناسی 79صفحات پرمشتمل ہے اورصفحہ تین سوستائیس 327تاچارسوپانچ 405پھیلا ہواہے ۔
بارہواں باب
اس باب کاعنوان’’سخنے نگفتہ راچہ قلندرانہ گفتم‘‘ہے ۔اس باب میں پرویز صاحب نے دعاء کامفہوم بیان کیاہے یہ باب آٹھ صفحات پرمشتمل ہے اورچارسوچھ406تاچارسوتیرہ413تک پھیلا ہواہے ۔
تیرھواں باب
اس باب کاعنوان’’خوش درخشیدولے شعلئہ مستعجل بود‘‘ہے ۔اس باب میں پرویز صاحب نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی زندگی کے آخری لمحات یعنی واقعہ وفات بیان کیاہے ۔اورحضرت عمر رضی اللہ عنہ کومختلف مؤرخین کی طرف سے جوخراج تحسین پیش کیا گیاہے ان کاذکرکیاہے ۔اوراس باب کے آخرمیں چھ صفحات پربزم انجم کے نام سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے اقوال کوجمع کردیاہے ۔اگرچہ ان کی حقیقت سے متعلق بہت کچھ کہاجاسکتاہے ۔یہ باب چھبیس صفحات پرمشتمل ہے اورچارسوچودہ414تاچارسوانتالیس439پھیلا ہواہے ۔
چودھواں باب
اس باب کاعنوان’’شعلئہ عشق سیاہ پوش ہُواتیرے بعد‘‘ہے ۔اس باب میں پرویزصاحب نے حدیث دشمنی میں سرتوڑکوشش کی ہے اورہراس تاریخی روایت کوجوبظاہرقرآن سے متصادم نظرآئی پیش کردیاہے اورپھرنتیجہ نکالتے وقت یہ کہہ دیاہےکہ اس جیسی روایات پرکیسے اعتمادکیاجاسکتاہے جوقرآن سے ٹکراتی ہو۔مگرحقیقت یہ ہے کہ پرویز صاحب کی خصوصاً اس باب میں اورعموماً ساری کتا ب میں یہ روش ہے کہ وہ شیعہ کتب کاسہارالیتے ہیں اوربغیرحوالہ کے بات کرتے ہیں ۔ٍیہی وجہ ہے کہ’’شاہکاررسالت‘‘کوایک تحقیقی کتاب کادرجہ نہیں دیاجاسکتا۔اس باب میں پرویز صاحب نے خودساختہ عجمی سازش کوثابت کرنےکی کوشش کی ہے ۔جہاں تک مجھ سے ہوسکاہے میں نے اس خودساختہ عجمی سازش کاجواب دیاہے مگراس باب کاخصوصی طورپرجواب حافظ پروفیسرڈاکٹرمحمددین قاسمی حفظہ اللہ نے دیاہے اورکتاب کانام ’’عجمی سازش پرایک نظر‘‘رکھاہے۔اس باب کامفصل جواب پڑھنےکے لیے اس کتاب کامطالعہ نہایت ضروری ہے۔پرویز صاحب نے چودھویں اورآخری باب میں خودساختہ عجمی سازش کوثابت کرنے کے لیے سرتوڑکوشش توکی مگرعلمائے حقہ نے انکے اس خالی غبارے کی ہوانکال دی (الحمدللہ)۔
یہ باب بانوے صفحات پرمشتمل ہے ۔اوریہ کتاب کاآخری باب ہونے کے ساتھ ساتھ سب سے بڑاباب بھی ہے اوریہ باب صفحہ چارسوچالیس 440 تاپانچ سواکتیس 531 پھیلا ہواہے۔
کتاب کے کل صفحات
’’شاہکاررسالت‘‘جوکہ پرویز صاحب کی کتاب ہے ۔اس کے کل صفحات کی تعداداگرفہرست ،گزرگاہ خیال اورابواب سب کوشمارکیاجائے تو588بنتی ہے ۔ہاں اگرفہرست اورگزرگاہ خیال کے صفحات کوالگ اورابواب کے صفحات کوالگ کردیاجائے توپھرتعداداسطرح ہوگی ۔فہرست اورگذرگاہ خیال کے صفحات 57جبکہ چودہ ابواب کے صفحات کی تعداد531ہے۔
شاہکاررسالت کااول ایڈیشن
شاہکاررسالت کااول ایڈیشن نومبر؁1973ء میں طبع ہوااورنومبر ؁1973ء میں ہی پرویز صاحب نے اس کتاب کی تکمیل کی تھی۔
شاہکاررسالت کانہم ایڈیشن
جس نسخہ کومیں نے اپنے سامنے رکھاہے وہ شاہکاررسالت کا نہم ایڈیشن ہے جوکہ اپریل ؁2007ء میں طبع ہوا تھا۔شاہکاررسالت کامختصرساتعارف جوپیش کردیاگیا۔
 
Top