• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرح العقیدۃ الواسطیہ

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
شرح العقیدۃ الواسطیہ

پہلا درس: مقدمہ

بسم الله الرحمن الرحيم

الحمد لله وحدہ لا شریک له والصلاة والسلام على رسول الله محمد خاتم الأنبياء والرسل و على آله و صحبه ومن والاه.

أما بعد:

طویل مدت سے یہی تمنا تھی کہ عوام الناس تک قرآن وسنت کا صاف اور شفاف عقیدہ پہنچ جائے، جو کہ ہر قسم کے فرقہ پرستی اور صوفیت، ارجائیت، جہمیت اور اس طرح دوسری غلاظتوں سے پاک عقیدہ ہو، بوجہ سستی اور ضعف بشریت کے یہ کام مسلسل تاخیر کا شکار ہوتا رہا، حلانکہ آج کل اردو دان دنیا میں اس موضوع پر کام کرنے کی بہت قلت محسوس بھی کی جا رہی ہے، اور دوسری جانب فتنوں کا دور دورا ہے، علماء سوء اپنے طواغیت کی خوشنودی کیلئے دعاۃ علی ابواب جہنم بنے بیٹھے ہیں، اور لوگوں کو طاغوتی نظام کی مضبوطی کیلئے گمراہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، جس میں گمراہی کا سب سے بڑا دروازہ عقیدہ (نظریہ) کی بگاڑ ہے، کیونکہ عقیدہ (نظریہ) ہی وہ اساس ہے جس کے ذریعے انسان اپنی کوشش اور محنت پوری اخلاص کے ساتھ جاری رکھ سکتا ہے، اور اسی بنیاد پر ہر قسم کی قربانی دینے کیلئے تیار ہو جاتا ہے۔

جب دیکھا کہ امت کے نوجوانوں کو طاغوتی اور عالمی دجالی نظام کی مضبوطی کیلئے استعمال کئے جا رہے ہیں، اور ان کو اپنے اسلامی عقیدے سے دور رکھ کر ارجائیت، صوفیت، اور دوسرے شرکی عقائد سے ان کو گمراہ کئے جا رہے ہیں، تو بہت افسوس ہوا، اور دل میں ایک قسم کا درد محسوس کرلیا، اور لازم سمجھا کہ عقیدے کے موضوع پر کام کرنا ضروری بلکہ واجب ہے، تو اس کیلئے اپنے اوپر لازم کردیا کہ وسائل میسر نہ ہونے کے باوجود بھی کچھ کر ہی جاؤں گا ان شاءاللہ۔

اسی مقصد کو مد نظر رکھتے ہوئے ارادہ کیا کہ کسی ایسی کتاب کا انتخاب کیا جائے جس میں لوگوں کیلئے زیادہ منفعت اور فائدہ ہو، اور سلف صالحین کے عقیدے کی صحیح ترجمانی بھی کر سکے، جس کیلئے اپنے دوسرے موحدین بھائیوں سے مشورہ بھی کرلیا، بالآخر شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کی مشہور کتاب (العقيدة الواسطية) کو چن لیا، جوکہ ایک مختصر اور جامع کتاب بھی ہے، اور اہل سنت والجماعت کے ایک مشہور اور بڑے امام کی تصنیف کردہ بھی ہے، وہ امام جن کا نام اور علمی کارنامے سات صدیاں گزرنے کے باوجود لوگوں کی زبان پر موجود ہے، جس نے اپنے وقت کے تمام فرقہ پرستوں اور گمراہ عقائد کے پرچاریوں کی حقیقت بیان کرکے قرآن وسنت کی روشنی میں اہل سنت والجماعت کے صاف اور شفاف عقیدے پر ہر قسم کے اعتراضات کی مدلل رد پیش کردیا۔

(العقیدۃ الواسطیہ) کی تالیف کا سبب واسط شہر کے ایک قاضی بنا، جس نے تاتاری مرتدین، متکلمین اور دیگر گمراہ فرقوں کے گمراہ کن عقائد پھیلنے کی شکایت کرتے ہوئے شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ سے عقیدہ کی باب میں ایک مختصر رسالے کا مطالبہ کیا، اور شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے اس قاضی کے مطالبے کو لبیک کہتے ہوئے ایک مختصر سے وقت میں یہ رسالہ تصنیف فرمایا، جو بعد میں اس کے مختلف نسخے مختلف ممالک اور شہروں میں جا پھیلے۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ کا پورا نام تقی الدین ابو العباس احمد ابن عبد الحلیم ابن تیمیہ ہے، ان کی پیدائش سنہ 661 ھ میں ہوئی اور قلعہ دمشق میں بحالت قید سنہ 728 ھ میں وفات پائی، شیخ الاسلام نے مخلتف کتابیں تصنیف کرکے اس امت اسلامیہ کیلئے گراں قدر میراث چھوڑ کر گئے ہیں، جس میں سے بعض کے نام یہ ہے:
• فتاوی ٰابن تیمیہ
• الصارم المسلول
• منہاج السنہ
• اقتضاء الصراط المستقیم وغیرہ شامل ہیں۔

شیخ الاسلام ابن تیمیہ رحمہ اللہ نے چونکہ یہ رسالہ فرقہ ناجیہ یعنی اہل سنت والجماعت کے عقیدے کو بیان کرنے کیلئے تالیف فرمایا ہے اس لئے اس میں جابجا آپ کو ملاحدہ، جہمیہ، معتزلہ، مرجئہ اور دوسرے گمراہ فرقوں کے غلط عقائد پر رد کرتے بھی نظر آئے گا، اہل سنت والجماعت کا عقیدہ چھ چیزوں پر ایمان لانا ہے: اللہ تعالیٰ پر، اللہ کے رسولوں پر، ملائکہ پر، آسمانی کتابوں پر، یوم آخرت پر اور تقدیر پر۔

ایمان باللہ میں کچھ تفصیل سے بات کی ہے کیونکہ معتزلہ، جہمیہ اور دوسرے گمراہ فرقوں نے صفات الہٰی کا انکار یا تاویل کی تھی اسی لئے آپ نے قرآنی آیات و احادیث صحیحہ کو بکثرت ذکر کیا ہے، جو صفات الہٰی پر دلالت کرتے ہیں، خاص طور پر صفت علو، استواء علی العرش، صفت کلامی کی تشریح کی ہے، پھر ایمان بالیوم الآخر کی تشریح میں عذاب ونعیم قبر، احوال محشر اور جنت و جہنم کا بیان کیا ہے، تقدیر کے مبحث کو کسی قدر بیان کردیا ہے، آسمانی کتابوں کی حقیقت بیان کرکے صفت کلامی کو کچھ تفصیل سے ذکر کیا ہے، اور چونکہ ایمان بالرسل و الملائکہ میں زیادہ انحراف واقع نہیں ہوا تھا اس لئے ان کے سرسری ذکر پر اکتفاء کیا۔

روافض مشرکین کی وجہ سے سَبِّ صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کی خطرناک بدعت اور کفر ظاہر ہوا تھا، اس لئے اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم اور ان کے سیاسی اختلافات کے متعلق اہل سنت والجماعت کے مسلک کو واضح کیا، اور گمراہ متصوفین کی تردید کرتے ہوئے افعال نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر عمل کرنے کو مسلک اہل سنت قرار دیا، خلاصہ کلام یہ ہے کہ اس رسالے میں اہل سنت والجماعت کے مسلک کے اہم امور کو مدلل طور پر واضح اور بیان کردیا گیا ہے۔

اللہ تعالیٰ سے بدست دعاء ہوں کہ اللہ ہم سے یہ عمل قبول فرمائے، اور عوام المسلمین کی ہدایت اور رشد کا سبب بنائے، اور ہمارے لئے سامان آخرت کا ذریعہ بنائے، اور ہمیں اپنے دین کی خدمت کیلئے استعمال فرمائے، اور صحیح عقیدہ پر ثابت قدمی نصیب فرمائے آمین۔
 
Last edited:
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
دوسرا درس: خطبہ کا ترجمہ اور تشریح

بسم الله الرحمن الرحيم

الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَى وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ وَكَفَى بِاللَّهِ شَهِيدًا، وَأَشْهَدُ أَلَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ إِقْرَارًا بِهِ وَتَوْحِيدًا ، وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ، صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَعَلٰى آلِهِ وَصَحْبِهِ وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا مَزيدًا.

(بسم اللہ الرحمٰن الرحیم)

ترجمہ: ہر قسم کی تعریفیں اللہ ہی کیلئے ہیں، وہ ذات جس نے اپنے رسول کو ہدایت اور دین حق دے کر بھیجا تاکہ اس کو تمام ادیان پر غالب کر دے اور اللہ عز و جل گواہ کافی ہے، میں گواہی دیتا ہوں کہ اکیلے اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اسکا کوئی شریک نہیں ہے، میں اس بات کا زبان سے اقرار کرتا ہوں اور اخلاص کے ساتھ اس کو یکتا ذات مانتا ہوں اور میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بندے اور رسول ہیں، اللہ آپ پر اور آپ کے اہل اور اصحاب پر بے بہا رحمت و سلامتی نازل فرمائے۔

تشریح: مصنف رحمہ اللہ نے کتاب اللہ اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرتے ہوئے اپنے اس رسالے کی ابتداء بسم اللہ سے کردی، قرآن کریم کی ہر سورت کی ابتداء میں بسم اللہ لکھی ہوئی ہے سوائے سورہ براءۃ کے، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی اپنے خطوط کی ابتداء بسم اللہ سے فرماتے تھے۔

•اسم: وہ لفظ ہے جو کسی متعین معنی پر دلالت کرے یا کسی معنی کو دوسرے معنی سے ممیز (جدا) بنانے کیلئے وضع کیا جائے۔

• اللہ: ذات مقدسہ کا نام ہے، اور اس کا معنی ہے: وہ ذات جس کی عبادت کی جاتی ہے۔

•الرحمن الرحیم: یہ دونوں اللہ تعالیٰ کے اسماء میں سے دو خوبصورت نام ہیں، جوکہ رحمت سے مشتق ہے، اور اللہ تعالیٰ کی شان کے لائق اس ذات کا رحمت سے متصف ہونے پر دلالت کرتے ہیں، پھر (الرحمن) کا مطلب ہے: وہ ذات جو اپنے تمام مخلوق پر رحمت کرنے والا ہے، اور (الرحیم) کا مطلب ہے: وہ ذات جو اپنے خاص بندوں یعنی مؤمنین پر رحمت کرنے والا ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ﴿وَكَانَ بِالْمُؤْمِنِينَ رَحِيمًا﴾ (الأحزاب: 43)
ترجمہ: اور (اللہ تعالیٰ) مومنین پر رحم کرنے والا ہے۔

بسم اللہ کا خلاصہ کلام یہ ہوا کہ: اس رسالے کو اللہ تعالیٰ کے نام سے شروع کرتا ہوں، جوکہ رحمن اور رحیم ذات ہے، جوکہ تمام مخلوقات پر عام رحمت کرنے والا اور مومنین پر خاص رحمت کرنے والا ہے۔

• (الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي أَرْسَلَ۔۔۔) شیخ الاسلام رحمہ اللہ نے سنت نبوی کی اتباع کرتے ہوئے اپنے رسالے کو حمد و ثناء اور شہادتین پر مشتمل خطبے سے شروع کردیا، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بھی یہی سنت تھی، اور اسی طرح سنن ابی داؤد کی ایک حدیث میں آتا ہے: (كل أمر ذي بال لم يبدأ فيه بالحمد لله فهو أقطع) [سنن ابی داؤد: کتاب الأدب: 4840]
یعنی جو بھی اہم فعل یا قول الحمد للّہ سے شروع نہ کی جائے وہ برکت والا نہیں رہتا۔

• الحمد للہ: کا مطلب ہے کہ ہر قسم کے محامد، تعریفیں اور اچھی صفات اللہ تعالیٰ کیلئے ثابت ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ منعم (نعمت عطاء کرنے والا) ذات ہے.

• الذي أرسل رسوله: اللہ تعالیٰ کی نعمتوں میں سے ایک بڑی نعمت یہ ہے کہ اس نے انسانوں کی ہدایت کیلئے پیارے نبی محمد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجا۔

• الرسول: رسول کا معنی ہے پیغام لانے والا، اور شرع میں رسول اس عظیم شخص کو کہا جاتا ہے جس کی طرف اللہ تعالیٰ کسی امر کی وحی کرے اور پھر اس وحی کو انسانوں تک پہنچانے کا امر دے۔

• بالهدى: یہاں ہدی سے مراد علم نافع ہے، یعنی ہر وہ امر جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارے پاس پہنچایا ہے، چاہئے وہ سچی خبروں (قصص، اور آخری زمانے کی نشانیاں) کی صورت میں ہو یا اوامر (واجبات، سنن، نوافل) کی صورت میں ہو یا نواہی (حرام، مکروہات) کی صورت میں ہو یا شرائع نافعہ (نظام، قانون) کی صورت میں ہو۔

پھر ہدایت کے دو مطلب ہو سکتے ہیں:
1: ہدایت کا مطلب ہے کہ کسی کو کسی ہدف تک پہنچنے کا راستہ دکھایا جائے، اور یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا تھا، یعنی وہ ہمیں صحیح راستہ بتلاتے تھے، تاکہ ہم اس پر چل کر دنیا و آخرت کی کامیابی حاصل کر سکیں، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ﴿وَإِنَّكَ لَتَهْدِي إِلَىٰ صِرَاطٍ مُّسْتَقِيمٍ﴾ الشوری: 52
ترجمہ: اور بے شک (اے محمدﷺ) تم سیدھا راستہ دکھاتے ہو۔

2: ہدایت کا دوسرا مطلب ہے کسی کام کا الہمام اور توفیق دینا، اور یہ کام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا نہیں بلکہ اللہ تعالیٰ کا کام ہے، جیسے باری تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿اِنَّكَ لَا تَهْدِىْ مَنْ اَحْبَبْتَ وَلٰكِنَّ اللّـٰهَ يَـهْدِىْ مَنْ يَّشَآءُ ۚ ﴾ القصص: 56
ترجمہ: بے شک آپ ہدایت نہیں دے سکتے جسے آپ چاہئے لیکن اللہ ہدایت دیتا ہے جسے چاہئے۔

• و دين الحق: کا مطلب عمل صالح ہے، عمل صالح کے ساتھ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بھیجے گئے ہیں، یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ کو جس دین کے ساتھ بھیجے گئے ہیں وہ حق دین ہے، اور جو بھی شخص اس دین پر عمل کرے گا اس کا عمل صالح اور مقبول ہوگا ان شاءاللہ۔

• ليظهره على الدين كله: یعنی اللہ تعالیٰ اس محمدی دین کو تمام ادیان اور شرائع پر غالب کر رہے گا، چاہئے وہ تلوار اور جہاد سے ہو یا قلم اور بیان، حجت اور دلیل سے ہو، یہاں تک کہ تمام اہل ارض عرب وعجم پر اس دین کی حقیقت واضح ہو جائے، اور یہ امر واقع ہوگیا، اور مسلمانوں نے جہاد اور تبلیغ کے ذریعے مشرق سے لیکر مغرب تک سب لوگوں پر اسلام کی حقیقت واضح کردی، اور اسلامی حکومت چین سے لیکر اندلس تک جا پھیلی، الحمد للّہ۔

• و كفى بالله شهيدا: یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی رسالت اور حقانیت پر گواہی دینے کیلئے اللہ تعالیٰ ہی کافی ہے، اور وہی ذات ہی ان کی مدد ونصرت فرمائے گا اور ان کے ہر ہر فعل سے باخبر ہے، اور یہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت پر ایک قطعی اور یقینی دلیل ہے کیونکہ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جھوٹے ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کو ہلاک کردیتا جیسے دوسرے جھوٹے مدعیان نبوت کو ہلاک کردیا، اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ﴿وَلَوْ تَقَوَّلَ عَلَيْنَا بَعْضَ الْاَقَاوِيْلِ° لَاَخَذْنَا مِنْهُ بِالْيَمِيْنِ°ثُـمَّ لَقَطَعْنَا مِنْهُ الْوَتِيْنَ﴾ الحاقۃ: 44-46
ترجمہ: اور اگر وہ کوئی بناوٹی بات ہمارے ذمہ لگاتا۔ تو ہم اس کا داہنا ہاتھ پکڑ لیتے۔ پھر ہم اس کی رگِ گردن کاٹ ڈالتے۔

خلاصہ: یہ ہوا کہ ہر قسم کی تعریفیں اور حمد اللہ تعالیٰ کیلئے ہے، اس ذات نے ہم انسانوں پر بڑی نعمت کرکے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو رسول بناکر ہدایت اور دین حق سے بھیجا، تاکہ حق راستے کی طرف انسانوں کی راہنمائی کرکے دین حق کو جہاد اور بیان و حجت سے سب ادیان پر غالب کردیں، اور اللہ تعالیٰ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقانیت اور ان کی سچی نبوت پر گواہ ہے۔

• وَأَشْهَدُ أَلَّا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ: یہاں پر کلمہ توحید کی گواہی کا ذکر ہے، یعنی میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں ہے، صرف اللہ تعالیٰ ہی وہ ذات ہے جو عبادت کے مستحق ہے، باقی سب آلہہ باطلہ ہیں۔

• وَحْدَهُ لَا شَرِيكَ لَهُ: یہ جملہ ماقبل جملے (لا الہ الا اللہ) کی تاکید ہے، "وحدہ" ٫٫إلا اللہ،، کی تاکید ہے جوکہ اثبات پر دلالت کرتا ہے، اور "لا شریک لہ" ٫٫لا إله،، کی تاکید ہے، جوکہ نفی پر دلالت کرتا ہے۔

• إِقْرَارًا بِهِ وَتَوْحِيدًا: یہ جملہ سابقہ جملے کیلئے تاکید معنوی ہے، یعنی میں اپنی زبان سے اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور اخلاص کے ساتھ اس بات کو قولی، عملی اور دلی طور پر مانتا ہوں۔

فائدہ: یہاں پر مصنف رحمہ اللہ نے ایک بہت اہمیت والے امر کی طرف اشارہ کردیا ہے وہ یہ کہ ایمان صرف زبانی اقرار کو نہیں کہا جاتا کہ بس صرف زبان سے کلمہ پڑھ کر مسلمان ہو جائے بلکہ ایمان کیلئے ضروری ہے کہ زبان سے کلمہ توحید کا اقرار کرے، اور دل سے اس بات کو مان لیں، منافقین کی طرح نہیں کہ صرف زبان سے اقرار کرے اور دل سے انکار کرے، اور اسی طرح اپنی عملی زندگی میں بھی کلمہ توحید کے تقاضوں پر عمل کرے، کیونکہ عمل کے بغیر ایمان ایمان نہیں ہوتا، جیسے کہ بعض گمراہ فرقوں (مرجئہ) کا یہ عقیدہ ہے کہ عمل سے ایمان کو کوئی نقصان نہیں پہنچتا، ضمنی طور پر ان گمراہ فرقوں پر مصنف رحمہ اللہ نے اس عبارت میں رد کردیا۔

• وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ: میں گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالیٰ کا بندہ اور اس کی طرف سے بھیجے گئے رسول ہے، جیسے کہ ایمان کیلئے کلمہ توحید کی گواہی دینا اور زبان سے اس کا اقرار کرنا ضروری ہے، اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کی گواہی دینا اور زبان سے اس کا اقرار کرنا لازمی ہے، یہ دونوں شہادتیں لازم ملزوم ہے، آج کل کے زنادقہ کی طرح نہیں جو یہ عقیدہ رکھتے ہیں کہ صرف توحید کا اقرار کرنا لازمی ہے، پھر چاہئے یہودی بنے یا عیسائی، جبکہ دین اسلام میں جیسے کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت کی گواہی دینا ضروری ہے اس کے بغیر اس کا اسلام قبول نہیں ہوتا ٹھیک اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت اور اس کی رسالت پر ایمان لانا ضروری ہے، اور جو دین رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ لیکر آیا ہے اس پر عمل کرنا واجب ہے، باقی سب ادیان کے بطلان کا عقیدہ رکھنا ضروری ہے۔

اور اس جملے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے حق میں افراط اور تفریط سے کام لینے والوں پر بھی رد ہے، اہل افراط نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بشر سے اونچا سمجھ کر عبودیت کے درجے پر پہنچا دیا، ان کیلئے علم غیب ثابت کرنا ، اور ان سے بشریت کا نفی کرنا وغیرہ جیسی شرکیات کے مرتکب ہوگئے، اور اہل تفریط نے تو بلکل ان کے رسول ہونے سے انکار کرکے بیزاری کا اظہار کردیا، اب اس بات کی گواہی دینا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا بندہ ہے افراط والوں پر رد ہے، اور ان کی شان میں غلو کرنے سے نفی ہے، اور اس بات کی گواہی دینا کہ وہ اللہ تعالیٰ کا رسول ہے تفریط والوں پر رد ہے، اور اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ ان پر ایمان لانا ضروری ہے، اور جس چیز کا امر دیا ہے اس میں ان کی اطاعت لازمی ہے، اور جس چیز سے منع کیا ہے اس سے اجتناب کرنا ضروری ہے، اور جن چیزوں کی خبر دی ہے اس میں ان کی تصدیق کرنا لازمی ہے، اور جو طریقہ کار اختیار کیا ہے اس میں ان کی اتباع کرنا ضروری ہے۔

• صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ: ان پر اللہ تعالیٰ کی رحمت ہو، صلاۃ کا لغوی معنی ہے دعاء، امام بخاری رحمہ اللہ نے اپنی صحیح بخاری میں ذکر کیا ہے: (صلاة الله على رسوله ثناؤه عليه عند الملائكة) یعنی اللہ تعالیٰ کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلاۃ پڑھنے کا مطلب ملائکہ کی مجلس میں ان کی تعریف بیان کرنا ہوتا ہے۔

• وعلى آله و صحبه: آل سے مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ دار مراد ہے، اور جامع اور اسلم قول یہ ہے کہ ہر وہ شخص مراد ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع کرے، اور (صَحْبه) صاحب کی جمع ہے، جن سے مراد صحابی ہیں، ہر اس شخص کو صحابی کہا جاتا ہے جس نے مسلمان ہوکر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ اپنی زندگی میں ملاقات کی ہو اور اس کی موت بھی اسلام پر ہوئی ہو۔

• وَسَلَّمَ تَسْلِيمًا مَزيدًا: کثیر تعداد میں سلامتی ہو، اور ہر قسم کے نقائص اور رذائل سے سلامت ہو۔

خلاصہ: یہ ہوا کہ میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، جوکہ یکتا ذات ہے اور اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اور اس بات کی گواہی دیتا ہوں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہے، اور یہ بات قولا، عملا اور اعتقادا میں مانتا ہوں۔
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
تیسرا درس: اہل سنت والجماعت کی وجہ تسمیہ اور ایمان کی تعریف۔

أَمَّا بَعْدُ: اعْتِقَادُ الْفِرْقَةِ النَّاجِيَةِ الْمَنْصُورَةِ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ أهْلِ السُّنَّةِ وَالْجَمَاعَةِ هُوَ الْإِيمَانُ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْإِيمَانُ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ.

ترجمہ: نجات پانے والی اور قیامت کے قائم ہونے تک اللہ کی طرف سے مدد یافتہ جماعت (یعنی اہل السنۃ و الجماعۃ) کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ پر ایمان لایا جائے اور اس کے ملائکہ پر، اور اس کی کتابوں پر، اور اس کے رسولوں پر اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر، اور اچھی اور بری تقدیر پر۔

تشریح:

• أَمَّا بَعْدُ
: یہ کلمہ عربی زبان میں عام طور پر ایک اسلوب سے دوسرے اسلوب کو منتقل ہونے کے لئے استعمال ہوتا ہے، جیسے کہ اردو زبان میں جب بات کرتے کرتے درمیان میں کوئی قصہ یا بات آ جائے اور پھر جب وہ ختم ہو کر اپنے موضوع کی طرف لوٹ آئے تو کوئی یہ کہے: بہر حال۔۔۔

٫٫اما بعد،، لفظ کو استعمال کرنا مستحب ہے، کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے خطبات اور خطوط میں یہی اسلوب استعمال فرماتے تھے۔

• اعْتِقَادُ الْفِرْقَةِ النَّاجِيَةِ الْمَنْصُورَةِ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ: مصنف رحمہ اللہ فرماتے ہیں: کہ یہ رسالہ فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ کے عقیدے پر مشتمل رسالہ ہے، جوکہ اہل سنت والجماعت سے موسوم ہے۔

• اعتقاد: یہ عربی زبان کا ایک مصدر ہے، جس کا معنی ہے نظریہ اور عقیدہ، اصل میں عقیدے کا مطلب ہے: وہ بات جس پر دل جم جائے، اور اس کو قبول کرکے سختی سے اپنا لیں۔

• الفرقة: فرقہ کا مطلب ایک جماعت یا طائفہ ہے، جو ایک نظریے اور عقیدے پر جمع ہوگیا ہو۔

• الناجية:
یہ فرقے کی صفت ہے، یعنی وہ فرقہ جو دنیا میں ہر قسم کی ہلاکت اور شر سے اور آخرت میں جہنم کی آگ سے محفوظ ہو، اور کامیابی اس کی نصیب میں لکھی ہو، مصنف رحمہ اللہ نے یہ صفت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک حدیث سے مستنبط کی ہے، جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

"افترقتِ اليَهودُ علَى إحدَى وسبعينَ فرقةً فواحدةٌ في الجنَّةِ وسبعونَ في النَّارِ وافترقتِ النَّصارى علَى ثِنتينِ وسبعينَ فرقةً فإحدَى وسبعونَ في النَّارِ وواحدةٌ في الجنَّةِ والَّذي نفسُ محمَّدٍ بيدِهِ لتفترِقَنَّ أمَّتي علَى ثلاثٍ وسبعينَ فرقةً واحدةٌ في الجنَّةِ وثِنتانِ وسبعونَ في النَّار قيلَ يا رسولَ اللَّهِ مَن هم قالَ: الجماعَةُ" (سنن ابن ماجة، حديث صحيح)

ترجمہ: یہود 71 فرقوں میں تقسیم ہوگئے، ان میں سے صرف ایک فرقہ جنت میں باقی ستر فرقے جہنم میں ہوں گے، اور نصاری 72 فرقوں میں تقسیم ہوگئے، جن میں سے 71 فرقے جہنم میں اور ایک فرقہ جنت میں جائے گا، اور میں اس ذات کی قسم اٹھاتا ہوں جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، میری امت 73 فرقوں میں تقسیم ہوگی، ایک فرقہ جنت میں جائے گا، جبکہ باقی 72 فرقے سب جہنم میں جائیں گے، کہا گیا کہ وہ ایک فرقہ کون ہے (جو جنت میں جائے گا) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جماعت ہے
، اور ایک اور روایت میں ہے: (ما أنا عليه و أصحابي) یعنی وہی فرقہ جو میرے اور میرے صحابہ رضوان اللہ علیہم اجمعین کے طریقے اور سنت کو اپنائے گا۔

دوسری حدیث میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرقے کا کچھ اس طرح ذکر فرمایا ہے: "لا تَزالُ طائِفَةٌ مِن أُمَّتي ظاهِرِينَ علَى الحَقِّ، لا يَضُرُّهُمْ مَن خَذَلَهُمْ، حتَّى يَأْتِيَ أمْرُ اللهِ وهُمْ كَذلكَ".
ترجمہ: ہمیشہ میری امت کا ایک گروہ حق پر قائم رہے گا کوئی ان کو نقصان نہ پہنچا سکے گا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ کا حکم آئے (یعنی قیامت) اور وہ اسی حال میں ہوں گے (یعنی قیامت تک حق کا دفاع کرتے ہوں گے)۔

• الْمَنْصُورَةِ إِلَى قِيَامِ السَّاعَةِ:
یعنی یہ فرقہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے تائید شدہ ہوگا، اللہ تعالیٰ اس فرقے والوں کی مدد فرماتا رہے گا یہاں تک کہ ان کی موت آ جائے، اور یہی موت ہر مومن کے حق میں قیامت شمار ہوتی ہے، کیونکہ وہ قیامت جس کے آنے سے تمام دنیا ختم ہو جاتی ہے وہ یہاں مراد نہیں کیونکہ وہ قیامت جب آئے گی تو اس وقت کوئی مومن بندہ نہیں ہوگا، سب اشرار لوگ ہوں گے جیسے کہ صحیح مسلم میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: ( لا تقوم الساعة حتى لا يقال في الأرض الله الله)
ترجمہ: قیامت اس وقت تک نہیں آئے گی جب تک زمین میں اللہ اللہ کہنے والا کوئی نہیں رہے گا۔

اور ایک اور حدیث میں بڑی قیامت کے کچھ اس طرح احوال ذکر ہوئے ہیں یہ بھی صحیح مسلم کی حدیث ہے:

(يَبْعَثُ اللَّهُ رِيحًا كَرِيحِ المِسْكِ مَسُّهَا مَسُّ الحَرِيرِ، فلا تَتْرُكُ نَفْسًا في قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنَ الإيمَانِ إلَّا قَبَضَتْهُ، ثُمَّ يَبْقَى شِرَارُ النَّاسِ عليهم تَقُومُ السَّاعَةُ
ترجمہ: اللہ تعالیٰ (آخری زمانے میں) مشک کی طرح ایک خوشبو والی ہوا بھیج دے گا، جو ریشم جیسی نرم ہوگی، یہ ہوا ہر اس شخص کی روح قبض کر لے گی جس کے دل میں ذرا برابر بھی ایمان ہو، اور پھر سب شریر لوگ باقی رہیں گے، اور انہی شریر لوگوں پر قیامت قائم ہوگی۔

• أهل السنة والجماعة:
یعنی فرقہ ناجیہ اور طائفہ منصورہ اہل سنت والجماعت ہی ہے۔

• السنة: طریقہ اور عادت کو کہا جاتا ہے، یہاں پر مراد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا وہ طریقہ ہے جو رسول اللہ ﷺ نے قولی یا عملی یا تقریری طور پر اپنایا ہو، اہل السنہ کو اہل السنہ اس لئے کہا جاتا ہے کیونکہ وہ اپنے آپ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی طرف منسوب کرتے ہیں، اور ان کا طریقہ اپناتے ہیں جبکہ اہل بدعت کبھی اپنے بدعات اور کفریات کی طرف منسوب ہوتے ہیں جیسے کہ مرجئہ اور قدریہ، اور کبھی اپنے گمراہ مؤسس کی طرف ان کی نسبت ہوتی ہے جیسے کہ جہمیہ اور اشاعرہ اور کبھی وہ اپنے قبیح افعال اور اعمال کی طرف منسوب ہوتے ہیں جیسے کہ رافضہ اور خوارج۔

• الجماعة: طائفہ اور فرقہ کو کہا جاتا ہے، جیسے اوپر حدیث میں مذکور ہوا (قيلَ يا رسولَ اللَّهِ مَن هم قالَ: الجماعَةُ) اور یہاں پر مراد صحابہ اور ان کے اتباع کرنے والے ہیں جو حق پر قائم ہوکر قرآن وسنت کے بتائے ہوئے راستے پر چلتے ہیں، اگرچہ وہ قلیل تعداد میں ہی کیوں نہ ہوں، جیسے کہ عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کا قول ہے: (الجماعة ما وافق الحق و إن كنت وحدك فإنك أنت الجماعة حينئذ).
ترجمہ: جماعت وہی ہے جو حق کی اتباع کرے، اگرچہ آپ (اس حق کے اتباع میں) اکیلے ہی کیوں نہ ہوں کیونکہ پھر آپ اکیلے ہی پوری جماعت شمار ہوں گے۔

• هُوَ الْإِيمَانُ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْبَعْثِ بَعْدَ الْمَوْتِ، وَالْإِيمَانُ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ:
یعنی طائفہ منصورہ جوکہ اہل سنت والجماعت ہے اس کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ پر اور اس کے ملائکہ پر اور اس کی کتابوں پر، اور اس کے رسولوں پر، اور موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر، اور اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لایا جائے، ان چھ امور پر ایمان لانا ایمان کے اصول میں سے شمار ہوتا ہے، ان چھ امور میں سے بعض پر ایمان لانا اور بعض سے انکار کرنا یا ان میں سے کسی ایک امر سے انکار کرنا یا قرآن وسنت کے بتائے ہوئے طریقے کے بغیر کسی دوسرے طریقے سے ایمان لانا بھی انسان کو اسلام سے خارج کردیتا ہے، اور وہ کافر ہو جاتا ہے۔

یہ چھ امور جبریل علیہ السلام کے اس مشہور واقعے سے لئے گئے ہیں جس میں جبریل علیہ السلام ایک اعرابی کی شکل میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور اسلام، ایمان اور احسان کے متعلق سوالات پوچھے، جن میں سے ایک سوال یہ تھا کہ ایمان کیا ہے؟ جس کے جواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: الإيمان أن تؤمن بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، واليوم الآخر، وتؤمن بالقدر خيره وشره".
ترجمہ: ایمان یہ ہے کہ تو یقین کرے (دل سے) اللہ پر، ملائکہ پر (کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاک بندے ہیں اور اس کا حکم بجا لاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی طاقت دی ہے) اور اس کے پیغمبروں پر (جن کو اس نے بھیجا مخلوق کو راہ بتلانے کے لئے) اور پچھلے دن پر (یعنی قیامت کے دن پر جس روز حساب کتاب ہو گا اور اچھے اور برے اعمال کی جانچ پڑتال ہو گی) اور یقین کرے تو تقدیر پر کہ برا اور اچھا سب اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے۔

• الإيمان
: ایمان کا لغوی معنی ہے یقین اور تصدیق کرنا، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ﴿وَمَا أَنتَ بِمُؤْمِنٍ لَّنَا وَلَوْ كُنَّا صَادِقِينَ﴾ يوسف: 17
ترجمہ: آپ ہمارے کہنے پر یقین نہیں کریں گے اگرچہ ہم سچے ہی ہوں۔

شرع میں ایمان: زبان سے اقرار کرنا، دل سے ماننا، اور اعضاء سے اس پر عمل کرنے کو کہا جاتا ہے، یعنی ایمان کے تین ارکان ہیں :

1: دل سے ان چھ امور کو تسلیم کرنا ہے۔
2: اور زبان سے ان کو ماننے کا اقرار کرنا ہے۔
3: اور اپنے اعضاء سے ان امور پر عمل کرنا ہے، ایمان کے لئے صرف زبان سے اقرار کرنا یا دل سے تسلیم کرنا کافی نہیں بلکہ اپنی عملی زندگی میں بھی ثابت کرنا ہوگا کہ واقعی ہم مسلمان ہیں۔
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
چوتھا درس: ایمان کے چھ ارکان

اہل سنت والجماعت کے یہاں ایمان کے چھ ارکان ہیں، یعنی جن امور پر ایمان لانا فرض ہے وہ چھ ہیں:

1:- الإيمان بالله: ایمان باللہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے وجود پر ایمان لایا جائے، اور اس کی وحدانیت پر ایمان لایا جائے، کہ صرف وہی ایک ذات ہے، وحدہ لا شریک لہ ہے، اور وہی عبادت کا مستحق ہے، اس کے سوا کوئی عبادت کا مستحق نہیں، اس کے نازل کردہ سب احکام پر عمل کیا جائے اور اس کی اطاعت مطلق کی جائے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ﴿إِنِ الْحُكْمُ إِلَّا لِلَّهِ ۚ أَمَرَ أَلَّا تَعْبُدُوا إِلَّا إِيَّاهُ ۚ ذَٰلِكَ الدِّينُ الْقَيِّمُ وَلَٰكِنَّ أَكْثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ﴾ یوسف:40
ترجمہ: حکم سوائے اللہ کے کسی کا نہیں چلتا ہے، اس نے حکم دیا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو، یہی سیدھا راستہ ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔

یہی وہ عظیم اصل ہے جوکہ عقل سے پہلے فطری طور پر انسان جان جاتا ہے، اور یہی دین اسلام کی اصل بنیاد ہے، جس کو اصل الدین سے بھی پہچانا جاتا ہے۔

اسی طرح اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کا مطلب یہ بھی ہے کہ وہ جہان پیدا کرنے والا ہے، اور سب کائنات کا مالک ہے، اور وہ اپنے افعال، اور صفات میں یکتا ذات ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے، اور ہر قسم کے نقائص اور عیوب سے پاک ذات ہے، اس کے لئے اسماء جلیلہ اور صفات کمالیہ ثابت ہیں، جن کی کوئی نظیر نہیں۔

2:- الإيمان بالملائكة: ملائکہ ملک کی جمع ہے، جس کی اصل ألوكة ہے، جس کا معنی ہے پیغام، شرع میں ملائکہ کی اس طرح تعریف آئی ہے: "هم أجسام لطيفة، عباد الله المخلوقون، أعطيت قدرة على التشكل بأشكال مختلفة، ومسكنها السموات، "۔
ترجمہ: ملائکہ ایسے اجسام ہیں جو نظر نہیں آتے،اللہ تعالیٰ کی تخلیق کردہ بندے ہیں، مختلف شکلیں اختیار کرنے کی قدرت ان کو دی گئی ہے، اور ان کا ٹھکانہ آسمان ہے۔

الایمان بالملائکہ یہ ہے کہ ملائکہ کے وجود پر اور ان کی معصومیت پر ایمان رکھا جائے جیسے اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿بَلْ عِبَادٌ مُّكْـرَمُوْنَ° لا يَسْبِقُوْنَهٝ بِالْقَوْلِ وَهُـمْ بِاَمْرِهٖ يَعْمَلُوْنَ﴾ الانبیاء: 26-27
ترجمہ: لیکن وہ معزز بندے ہیں۔ بات کرنے میں اس سے پیش قدمی نہیں کرتے اور وہ اسی کے حکم پر کام کرتے ہیں۔

اور یہ ایمان رکھا جائے کہ ملائکہ اللہ تعالیٰ کے فرمانبردار مخلوق ہیں، اس کے امر سے روگردانی نہیں کرتے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ﴿لَّا يَعْصُوْنَ اللّـٰهَ مَآ اَمَرَهُـمْ وَيَفْعَلُوْنَ مَا يُؤْمَرُوْنَ﴾ الاخرين:6
ترجمہ: جس چیز کا اللہ تعالیٰ انہیں حکم دے وہ اللہ کی نافرمانی نہیں کرتے اور وہی کرتے ہیں جو انہیں حکم دیا جاتا ہے۔

ملائکہ کے مختلف درجے اور مختلف زمہ داریاں ہوتی ہیں، اور یہ کروڑوں کی تعداد میں ہیں، ان سب امور پر ایمان رکھنا ضروری ہے۔

3:- الإيمان بالكتب: آسمانی کتابوں پر ایمان رکھنا ضروری ہے، اور اس بات پر ایمان رکھنا ضروری ہے کہ یہ اللہ تعالیٰ کا اپنے رسولوں پر نازل کیا ہوا کلام ہے، پوری انسانیت کے لئے ہدایت اور روشنی ہے، اور جن کتابوں کا نام اللہ تعالیٰ نے ذکر کیا ہے جیسے زبور، تورات، انجیل اور قرآن ، ان پر بھی ایمان رکھنا ضروری ہے اور جن کا نام ذکر نہیں کیا ہے ان پر بھی ایمان رکھنا ضروری ہے۔

4:- الإيمان بالرسل: انبیاء کرام علیہم السلام پر ایمان رکھا جائے، کہ یہ اللہ تعالیٰ کے مقرب اور معصوم بندے ہیں، اللہ تعالیٰ نے اپنے بندوں کی ہدایت کے لئے ان کو بھیجا ہے، اور انہوں نے جو کچھ ہم انسانوں تک پہنچایا ہے وہ سب سچ اور یقینی باتیں ہیں، اور ان انبیاء کرام علیہم السلام نے اللہ تعالیٰ کا پیغام بغیر کسی ردوبدل کے ہم انسانوں تک مکمل طور پر پہنچا دیا ہے، اللہ تعالیٰ نے جن انبیاء کرام علیہم السلام کے نام لئے ہیں ان پر بھی ایمان رکھنا ضروری ہے اور جن کا نام ذکر نہیں کیا ہے ان پر بھی، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ﴿وَرُسُلًا قَدْ قَصَصْنَاهُـمْ عَلَيْكَ مِنْ قَبْلُ وَرُسُلًا لَّمْ نَقْصُصْهُـمْ عَلَيْكَ ۚ ﴾ النساء:164.
ترجمہ: اور (ہم نے بھیجے) ایسے رسول جن کا حال اس سے پہلے ہم تمہیں سنا چکے ہیں اور ایسے رسول جن کے متعلق ہم نے تمہیں نہیں بتایا۔

رسولوں میں بھی مختلف درجے ہوتے ہیں، ان میں سب سے افضل اولو العزم انبیاء کرام علیہم السلام ہیں، جن کے نام یہ ہیں : نوح، ابراہیم، موسیٰ، عیسیٰ، اور محمد صلی اللہ علیھم وسلم، اور ان میں افضل نبی ہمارے پیارے نبی خاتم الانبیاء محمد المصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں۔

5:- الإيمان بالبعث: بعث عربی زبان میں حرکت دینا اور اٹھانے کو کہتے ہیں، یہاں پر مراد یہ ہے کہ اس بات پر ایمان رکھا جائے کہ اللہ تعالیٰ مردوں کو قیامت کے دن دوبارہ زندہ کرکے ان کی قبروں سے اٹھائے گا، اور ہر شخص سے اس کے کئے کا ذرہ ذرہ حساب ہوگا جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ خَيْـرًا يَّرَهٝ° وَمَنْ يَّعْمَلْ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ شَرًّا يَّرَهٝ﴾ الزلزال: 7-8
ترجمہ: پھر جس نے ذرہ بھر نیکی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔ اور جس نے ذرہ بھر برائی کی ہے وہ اس کو دیکھ لے گا۔

اللہ تعالیٰ اپنی قدرت سے مردہ لاش میں دوبارہ روح ڈال کر زندگی دے گا، اس لاش کے جتنے اجزاء منحل ہوکر ختم ہوگئے ہوں گے، ان کو اپنی قدرت سے دوبارہ اکھٹا کرکے پورا جسد بنائے گا، اور اسی دن دنیا میں اس کے کئے کا حساب اس سے لے گا، اس دن کے متعلق قرآن وسنت میں جتنی تفصیل آئی ہے اس سب پر ایمان رکھنا واجب ہے۔

6:- الإيمان بالقدر خيره و شره: قدر کسی چیز کی مقدار معلوم کرنے کو کہتے ہیں، شرع میں قدر کا مطلب ہے کہ اللہ تعالیٰ کو ازل سے ہر چیز کی مقدار اور وقت کا علم ہے، اور انہی چیزوں کو پیدا کرنے سے پہلے ایک کتاب میں جس کو لوح محفوظ کہا جاتا ہے اس میں لکھ کر محفوظ رکھا ہے، اور پھر اپنی قدرت اور مشیت سے ہر چیز کو جس طرح اس کو علم ہے اسی کے مطابق پیدا کیا ہے، اور جو بھی چیز یا امر واقع ہوتا ہے اللہ تعالیٰ کو اس کا علم ہے، اور یہ سب کچھ اللہ تعالیٰ کی قدرت اور مشیت سے ہوتا ہے، کوئی بھی چیز اس کے علم اور قدرت سے باہر نہیں ہے، جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "إنَّ أولَ ما خلق اللهُ القلمُ، فقال لهُ : اكتبْ، قال : ربِّ وماذا أكتبُ ؟ قال : اكتُبْ مقاديرَ كلِّ شيءٍ حتى تقومَ الساعةُ". سنن أبي داود، حديث صحيح.
ترجمہ: اللہ تعالیٰ نے سب سے پہلے قلم پیدا کیا، (اور پھر قلم کو امر دیتے ہوئے) فرمایا کہ لکھو! تو قلم نے کہا کہ میں کیا لکھوں اے میرے رب؟ اللہ تعالیٰ نے (قلم کو) کہا کہ قیامت تک آنے والی ہر چیز کی تقدیر (مقدار اور وقت) لکھو۔

خلاصہ: مصنف رحمہ اللہ نے اجمالاً اہل سنت والجماعت کے ہاں ایمان کے چھ ارکان کا یہاں پر ذکر کیا ہے، وہ یہ ہیں کہ اللہ تعالیٰ پر، اور ملائکہ پر، اور اللہ تعالیٰ کے رسولوں پر، اور اس کی کتابوں پر، موت کے بعد دوبارہ زندہ ہونے پر، اور تقدیر پر ایمان لانا فرض ہے، ان شاءاللہ ان چھ امور پر آگے تفصیلی بحث آئے گی۔
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
پانچواں درس: توحیدِ اسماء و صفات

وَمِنَ الْإِيمَانِ بِاللَّهِ : الْإِيمَانُ بِمَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ فِي كِتَابِهِ، وَبِمَا وَصَفَهُ بِهِ رَسُولُهُ صلى الله عليه وسلم؛ مِنْ غَيْرِ تَحْرِيفِ وَلَا تَعْطِيلٍ، وَمِنْ غَيْرِ تَكْيِيفِ وَلَا تَمْثِيلٍ.

ترجمہ: اللہ پر ایمان لانے میں سے یہ بھی ہے: کہ ان صفات پر ایمان لایا جائے جن سے قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے اپنی ذات کو متصف کیا ہے اور ان صفات الہٰی پر بھی جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ تعالیٰ کو متصف کیا ہے، ان صفات میں نہ تحریف کی جائے گی، اور نہ ان صفات کی تعطیل (انکار) کی جائے گی، اور نہ ان صفات کی کیفیت بیان کی جائے گی اور نہ مخلوق سے مشابہت دی جائے گی۔


توحید اسماء وصفات:

مصنف رحمہ اللہ نے اہل سنت والجماعت کے یہاں ایمان کے چھ ارکان کو اجمالی طور پر ذکر کرنے کے بعد اب اس کو تفصیلی طور پر ذکر کرنا شروع کیا ہے ، سب سے پہلے ایمان باللہ کی تفصیل بیان کرتے ہوئے توحید اسماء وصفات کا ذکر کیا، اور اس میں اہل سنت والجماعت کا جو موقف اور عقیدہ ہے وہ واضح کیا ہے ، اور کہا کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی ایک قسم یہ ہے کہ اس کے اسماء وصفات پر ایمان لایا جائے، چونکہ اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات توقیفیہ ہوتی ہیں توقیفیہ کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کیلئے وہی اسماء وصفات ثابت کرنا ضروری ہے اور اس پر ایمان لانا ضروری ہے جس سے اللہ تعالیٰ نے خود اپنے آپ کو قرآن کریم میں متصف کیا ہو یا رسول اللہ ﷺ نے اپنی احادیث میں اللہ تعالی کیلئے ثابت کیا ہو، لیکن ان اسماء وصفات میں نہ تحریف کرنا جائز ہے اور نہ تعطیل کرنا اور نہ اس کی کیفیت بیان کرنا جائز ہے اور نہ اس کو کسی مخلوق سے تشبیہ دینا جائز ہے۔

التحريف: تحریف عربی زبان میں کسی چیز میں رد وبدل کرنا یا کسی لفظ کے اصلی معنی کو کسی دوسرے معنی سے تبدیل کرنے کو کہا جاتا ہے۔

پھر تحریف کی دو قسمیں ہیں:
1:- لفظی تحریف: کسی لفظ میں اس طور پر تحریف کی جائے کہ اس لفظ میں کوئی اور لفظ بڑھایا جائے یا کم کردیا جائے، خلاصہ کلام یہ ہے کہ لفظ کے اصلی معنی تبدیل کرنے کی خاطر لفظ میں رد وبدل کی جائے، جیسے کہ مبتدعین ﴿اَلرَّحْـمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ (طه : 5) میں تحریف کرتے ہیں۔

یہاں پر مبتدعہ لوگ لفظ (استویٰ) میں ٫٫ل،، بڑھا کر (استولی) میں تبدیل کرتے ہیں، جس کا معنیٰ ہے (غالب ہونا اور کنٹرول حاصل کرنا) اور اس تحریف کی وجہ سے لفظ استویٰ کا معنی بالکل تبدیل ہوکر دوسرا معنیٰ بن جاتا ہے۔

2:- معنوی تحریف:
کسی لفظ کے اصلی معنیٰ کو چھوڑ کر دوسرا معنیٰ لیا جائے، جیسے کہ مبتدعین ﴿يَدُ اللّـٰهِ فَوْقَ اَيْدِيْهِـمْ﴾ کے اصلی معنیٰ کے بجائے کچھ اس طرح معنیٰ کرتے ہیں کہ یہاں (ید اللہ) سے مراد (قوۃ اللہ) ہے، جبکہ ٫٫ید اللہ،، کا اصل معنیٰ (اللہ تعالیٰ کا ہاتھ) ہے، جوکہ (قوۃ اللہ) سے بلکل الگ معنی رکھتا ہے، اسی کو تحریف معنوی کہا جاتا ہے۔

التعطیل: تعطیل کا معنیٰ ہے خالی کرنا، یہاں پر تعطیل کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ سے صفات کو نفی کرنا، اس کے لئے صفات ثابت نہیں کرنا، اور یہ جائز نہیں ہے، بلکہ اللہ تعالیٰ سے صفات کی نفی کرنا کفر ہے، فرقہ معطلہ یہ بھی ایک کافر فرقہ ہے جو اللہ تعالیٰ سے صفات کی نفی کرتے ہیں، جوکہ صریح کفر ہے، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بے شمار صفات ، قرآن میں اپنے لئے ثابت کی ہیں ، آگے مصنف _رحمہ اللہ _ اللہ تعالیٰ کی یہ صفات تفصیل سے ذکر کریں گے ان شاءاللہ۔

اَلتَّكْيِيف: تکییف کا مطلب کیفیت اور حقیقت بیان کرنا ہے، شریعت میں اس کا مطلب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی کیفیت اور ہیئت بیان کرنا، اور یہ کام جائز نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کی صفات کی کیفیت اور حقیقت کوئی مخلوق نہیں جان سکتی ، کیونکہ جیسے کہ مخلوق کو اللہ تعالیٰ کے ذات کی حقیقت اور ہیئت معلوم نہیں اسی طرح اس کی صفات کی حقیقت اور کیفیت بھی معلوم نہیں ہے، یہ علم اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے خاص کیا ہوا ہے، اسی لئے جب ایک سائل نے امام مالک رحمہ اللہ سے ﴿اَلرَّحْـمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ کے بارے میں سوال کیا، تو امام مالک رحمہ اللہ نے جواب دیتے ہوئے فرمایا کہ: (الاستواء معلوم، والكيف مجهول، والإيمان به واجب، والسؤال عنه بدعة)
ترجمہ: "استواء" کا معنیٰ معلوم ہے، اور کیفیت (ہیئت اور حقیقت) مجہول ہے، اور (استواء کے معنی) پر ایمان لانا واجب ہے، اور (استواء کی ہیئت اور کیفیت) کے بارے میں سوال کرنا بدعت ہے۔

اور یہ طریقہ کار اللہ تعالٰی کی سب صفات میں اختیار کرنا چاہئے، اور یہی سلف صالحین اور اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے۔

اَلتَّمْثِيل: تمثیل کا مطلب تشبیہ دینا ہے، یعنی اللہ تعالیٰ کی صفات کی تشبیہ مخلوق کی صفات کے ساتھ دینا، جیسے کہ کوئی یہ کہے کہ -نعوذ باللہ- اللہ تعالیٰ کا ہاتھ ہمارے ہاتھ جیسا ہے وغیرہ، یہ تشبیہ دینا اسلام میں جائز نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ﴿لَيْسَ كَمِثْلِـهٖ شَيْءٌ ۖ وَّهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْـرُ﴾ شوری: 11
ترجمہ: کوئی چیز اس کی مثل نہیں، اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔

یہاں پر اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا کہ اللہ تعالیٰ کی مثل کوئی چیز نہیں ہے، اسلئے اللہ تعالیٰ کو مخلوق کے ساتھ تشبیہ دینا یا اس کی صفات کو مخلوق کی صفات کے ساتھ تشبیہ دینا کفر ہے، بلکہ مومن موحد کا عقیدہ یہ ہونا چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی مِثل نہیں ہے، اور اس کیلئے وہی اسماء اور صفات ثابت کرے گا جن کا قرآن وسنت میں ذکر ہوا ہے، لیکن اس میں نہ تحریف کرے گا، اور نہ اس کی تعطیل (انکار) کرے گا، اور نہ اس کی کیفیت بیان کرے گا، بلکہ یہ کہے گا کہ قرآن وسنت میں مذکور اللہ تعالیٰ کی صفات جیسے کہ اللہ تعالیٰ کے شان کے لائق ومناسب ہے وہ سب اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت ہیں، یہ صفات کسی مخلوق کی صفات جیسی نہیں ہیں ، لَيْسَ كَمِثْلِـهٖ شَيْءٌ۔
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
چھٹا درس: توحیدِ اسماء و صفات

بَلْ يُؤْمِنُونَ بِأَنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ وتعالى ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾، فَلَا يَنْفُونَ عَنْهُ مَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ، وَلَا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ، وَلَا يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَاءِ اللَّهِ وَآيَاتِهِ، وَلَا يُكَيِّفُونَ وَلَا يُمَثِّلُونَ صِفَاتِهِ بصِفَاتِ خَلْقِهِ؛ لِأَنَّهُ سُبْحَانَهُ لَا سَمِيَّ لَهُ، وَلَا كُفْءَ لَهُ، وَلَا نِدَّ لَهُ، وَلَا يُقَاسُ بِخَلْقِهِ؛ فَإِنَّهُ سُبْحَانَهُ أَعْلَمُ بنَفْسِهِ وَبَغَيْرِهِ، وَأَصْدَقُ قِيلاً، وَأَحْسَنُ حَدِيثًا مِنْ خَلْقِهِ۔

ترجمہ: اہل سنت و جماعت کا ایمان ہے ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيٍّ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ﴾ اللہ کے جیسا کوئی نہیں ہے اور وہ خوب سننے والا ہے، خوب دیکھنے والا ہے، اللہ نے جن صفات کی نسبت اپنی ذات کی طرف کی ہے اہل سنت ان کا انکار نہیں کرتے ہیں اور نہ کلمات کو ان جگہوں سے ہٹاتے ہیں (یعنی صفات باری تعالیٰ میں تحریف نہیں کرتے)، نہ اللہ کے نام اور صفات میں الحاد اختیار کرتے ہیں اور نہ ان صفات کو کیفیت دینے (صفات کی ہیئت بیان کرنے) کی کوشش کرتے ہیں اور نہ اس کی صفات کو اس کی مخلوق کی صفات کے جیسا قرار دیتے ہیں، کیونکہ وہ پاک ذات نہ اس کا کوئی ہمسر ہے اور نہ اس کے برابر اور نہ کوئی اس کے مقابل، اس پاک وبلند ذات کو اس کی مخلوق پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے، بے شک وہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو خوب جاننے والا ہے اور بیان کرنے میں مخلوق سے اچھا و سچا ہے۔


بَلْ يُؤْمِنُونَ بِأَنَّ اللَّهَ سُبْحَانَهُ وتعالى ﴿لَيْسَ كَمِثْلِهِ شَيْءٌ وَهُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ}

مصنف رحمہ اللہ نے اہل سنت والجماعت کا عقیدہ واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ پر ایمان لانے کی ایک قسم یہ بھی ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ان اسماء وصفات پر ایمان لایا جائے جو صفات قرآن وسنت میں مذکور ہیں، اس میں نہ تحریف (تاویل) کرنا جائز ہے اور نہ اس کی تعطیل (انکار) کرنا جائز ہے، اور نہ اس کی حقیقت اور کیفیت جاننا جائز ہے، اور نہ اس کا مخلوق کی صفات سے مشابہت دینا جائز ہے، اور یہی وہ معتدل راستہ ہے جس کو اللہ تعالیٰ نے سورۃ الشوری کی آیت نمبر ۱۱ میں بیان کیا ہے:﴿لَيْسَ كَمِثْلِـهٖ شَيْءٌ ۖ وَّهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْـرُ﴾۔
ترجمہ: کوئی چیز اس کی مثل نہیں، اور وہ سننے والا دیکھنے والا ہے۔

اللہ تعالیٰ کا یہ قول: ﴿لَيْسَ كَمِثْلِـهٖ شَيْءٌ﴾ تشبیہ دینے کی نفی پر اور فرقہ مجسمہ (کرامیہ وغیرہ) کے بطلان پر دلالت کرتا ہے، اور ﴿وَّهُوَ السَّمِيْعُ الْبَصِيْـرُ﴾ اللہ تعالیٰ کے لئے صفات ثابت کرنے پر اور معطلہ فرقے کے بطلان پر دلالت کرتا ہے۔ پس اسماء وصفات میں اعتدال کا راستہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت شدہ اسماء وصفات کو ثابت کیا جائے لیکن اس میں تحریف کرنا یا اس سے انکار کرنا یا تشبیہ دینا یا اس کی کیفیت اور حقیقت جاننا یہ سب ناجائز اور گمراہی ہے، اور یہی اہل سنت والجماعت کا منہج اور عقیدہ ہے، اس آیت کی آگے مزید تفصیل آئے گی ان شاء اللہ۔

فَلَا يَنْفُونَ عَنْهُ مَا وَصَفَ بِهِ نَفْسَهُ: یعنی اللہ تعالیٰ نے جن صفات سے اپنے آپ کو متصف کیا ہے اہل سنت والجماعت ان صفات کو اللہ تعالیٰ سے نفی نہیں کرتے، بلکہ انہیں اسی طرح ثابت کرتے ہیں جیسے اللہ تعالٰی کی شان کے لائق ہے ۔

"اللہ تعالیٰ کے لئے کوئی مثل نہیں" اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ذات سے صفات کی نفی کی جائے، کیونکہ خالق اور مخلوق کی صفات میں کسی بھی قسم کی تشبیہ نہیں پائی جاتی، جیسے کہ فرقہ معطلہ گمان کرتے ہیں، اور اسی شبہے (مماثلت اور تشبیہ) کی وجہ سے اللہ تعالیٰ سے صفات کو نفی کرنے کے مرتکب ہوکر گمراہ ہوگئے ہیں۔

وَلَا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ: یہ تحریف کی تفسیر ہے، یعنی اللہ تعالیٰ نے جو صفات اپنے آپ کے لئے ثابت کی ہیں، اہل سنت والجماعت ان صفات میں تحریف اور تاویل کئے بغیر اصلی معنوں کے ساتھ انہیں اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت کرتے ہیں، اہل تاویل (اشاعرہ، ماتریدیہ) جیسے نہیں کہ اللہ تعالیٰ کی صفات کی تاویل کرکے اس سے انکار کر جاتے ہیں، جیسے کہ ﴿اَلرَّحْـمٰنُ عَلَى الْعَرْشِ اسْتَوٰى﴾ کی غلط تاویل کرکے اللہ کی (استویٰ ) صفت سے منکر ہو جاتے ہیں، اور اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اس قول کی غلط تاویل کرکے اللہ تعالیٰ کی (مجیئت) صفت (مجیئت بمعنی آمد) سے منکر ہو جاتے ہیں: ﴿وَجَآءَ رَبُّكَ وَالْمَلَكُ صَفًّا صَفًّا﴾ الفجر: 22
ترجمہ: اور آپ کا رب تشریف لے آئے گا اور ملائک بھی صف بستہ چلے آئیں گے۔

اس آیت میں اہل بدع تحریف کرکے کچھ اس طرح تاویل کرتے ہیں (جب آپ کے رب کا امر آ جائے) اور بعض اس طرح تاویل کرتے ہیں (اور جب آپ کے رب کا تخت آ جائے)۔

وَلَا يُلْحِدُونَ فِي أَسْمَاءِ اللَّهِ وَآيَاتِهِ:
الحاد: کا مطلب ہے کسی چیز کو اپنی حقیقی معنی سے پھیر دیا جائے، اللہ تعالیٰ کے اسماء اور آیات میں الحاد کے متعدد مطلب ہوتے ہیں:

- اللہ تعالیٰ کو کسی ایسے نام سے بلانا جو اس کے شایان شان نہیں، جیسے کہ عیسائی (فادر، باپ) سے اللہ تعالیٰ کو بلاتے ہیں، تعالٰی اللہ عن ذلک۔

- اللہ تعالیٰ کو کسی ایسی صفت سے متصف کرنا جس میں عیب یا نقص کا معنی ہو، جیسے کہ یہودی کہتے تھے: ﴿لَّـقَدْ سَـمِعَ اللّـٰهُ قَوْلَ الَّـذِيْنَ قَالُوٓا اِنَّ اللّـٰهَ فَقِيْرٌ وَّّنَحْنُ اَغْنِيَآءُ﴾ آل عمران: 181
ترجمہ: بے شک اللہ نے ان کی بات سنی ہے جنہوں نے کہا کہ بے شک اللہ فقیر ہے اور ہم دولت مند ہیں.

- اللہ تعالیٰ کے اسماء اور آیات سے بالکلیہ انکار کرنا، جیسے کہ ملحدین کا یہ عقیدہ ہے۔

- اللہ تعالیٰ کے اسماء اور آیات میں غلط تاویل کرکے ان کے اصلی معنیٰ سے انکار کرنا، جیسے کہ اشاعرہ اور ماتریدیہ کا یہ عقیدہ ہے۔

- اللہ تعالیٰ کے اسماء اور آیات کی حقیقت اور معانی سے انکار کرنا، جیسے کہ جہمیہ کا قول ہے کہ: اللہ تعالیٰ کے لئے جتنے اسماء اور صفات ثابت ہے وہ کسی بھی معنیٰ پر دلالت نہیں کرتی جیسے ٫٫السمیع،، (سننے والا) سمع (سننے) پر دلالت نہیں کرتا، اور یہ واضح طور پر کفر ہے۔

- اسی طرح اللہ تعالیٰ کے اسماء اور آیات میں تفویض کا موقف اختیار کرنا جس کو مفوضہ کہتے ہیں، تفویض کا مطلب یہ ہے کہ: اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات سے نہ انکار کیا جائے اور نہ یہ صفات اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت کیا جائے، بلکہ ان صفات اور آیات کو اللہ تعالیٰ کے سپرد کیا جائے، یہ بھی حقیقت میں اللہ تعالیٰ کے اسماء وصفات سے واضح طور پر انکار ہے۔

- اللہ تعالیٰ کی صفات کو مخلوق کی صفات جیسی سمجھنا، جیسے کہ کوئی یہ کہے کہ -نعوذ باللہ- اللہ تعالیٰ کا ہاتھ میرے ہاتھ جیسا ہے، یہ بھی واضح کفر ہے، ان کو مجسمہ (کرامیہ) کہا جاتا ہے۔

جو لوگ اللہ تعالیٰ کے اسماء اور آیات میں الحاد کرتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ایسے ملحدین کیلئے شدید وعید سنائی ہے، جیسے کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿وَلِلّـٰهِ الْاَسْـمَآءُ الْحُسْنٰى فَادْعُوْهُ بِـهَا ۖ وَذَرُوا الَّـذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِىٓ اَسْـمَآئِهٖ ۚ سَيُجْزَوْنَ مَا كَانُـوْا يَعْمَلُوْنَ﴾ (180)
ترجمہ: اور سب اچھے نام اللہ ہی کے لیے ہیں سو اسے انہیں ناموں سے پکارو، اور چھوڑ دو ان کو جو اللہ کے ناموں میں کجروی (الحاد) اختیار کرتے ہیں، وہ اپنے کیے کی سزا پا کر رہیں گے۔

دوسری جگہ ارشاد مبارک ہے: ﴿اِنَّ الَّـذِيْنَ يُلْحِدُوْنَ فِىٓ اٰيَاتِنَا لَا يَخْفَوْنَ عَلَيْنَا ۗ اَفَمَنْ يُّلْقٰى فِى النَّارِ خَيْـرٌ اَمْ مَّنْ يَّاْتِـىٓ اٰمِنًا يَّوْمَ الْقِيَامَةِ ۚ اِعْمَلُوْا مَا شِئْتُـمْ ۖ اِنَّهٝ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِيْـرٌ﴾ فصلت:40
ترجمہ: بے شک جو لوگ ہماری آیتوں میں کجروی (الحاد) کرتے ہیں وہ ہم سے چھپے نہیں رہتے، کیا وہ شخص جو آگ میں ڈالا جائے گا بہتر ہے یا وہ جو قیامت کے دن امن سے آئے گا، جو چاہو کرو، جو کچھ تم کرتے ہو وہ (اللہ تعالیٰ) دیکھ رہا ہے۔

امام بخاری کے استاد نعیم بن حماد رحمہما اللہ نے فرمایا: "من شبه الله بخلقه كفر، و من جحد ما وصف الله به نفسه كفر، و ليس فيما وصف الله نفسه أو وصفه به رسوله تشبيه و لا تمثيل".
ترجمہ: جس نے اللہ تعالیٰ کو اپنی مخلوق کے ساتھ مشابہ سمجھا تو وہ کافر ہوگیا، اور جس نے اللہ تعالیٰ کی ان صفات سے انکار کیا جن سے اللہ تعالیٰ نے خود کو متصف کیا ہے وہ بھی کافر ہوگیا، اور جن صفات سے اللہ تعالیٰ نے خود کو یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو متصف کیا ہے ان صفات میں نہ کوئی تمثیل ہے اور نہ تشبیہ ہے۔

وَلَا يُكَيِّفُونَ وَلَا يُمَثِّلُونَ صِفَاتِهِ بصِفَاتِ خَلْقِهِ: یعنی اہل سنت والجماعت نہ ان صفات کی کیفیت (ہیئت) بیان کرتے ہیں، اور نہ ان صفات کو مخلوق کی صفات کے ساتھ تشبیہ دیتے ہیں۔

❐ خلاصہ کلام یہ ہوا کہ اللہ تعالیٰ کیلئے وہی اسماء وصفات ثابت ہیں جو قرآن وسنت میں مذکور ہیں، اس میں نہ تحریف (تاویل) کی جائے گی، نہ اس کی تعطیل (انکار) کی جائے گی اور نہ اس کی کیفیت بیان کی جائے گی، اور نہ مخلوق کی صفات سے تشبیہ دی جائے گی، اور یہی اہل سنت والجماعت کا عقیدہ ہے، باقی اس کے علاوہ کوئی دوسرا عقیدہ اختیار کرنا گمراہی اور ضلالت ہے۔
 
شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
ساتواں درس: توحیدِ اسماء و صفات

لِأَنَّهُ سُبْحَانَهُ لَا سَمِيَّ لَهُ، وَلَا كُفْءَ لَهُ، وَلَا نِدَّ لَهُ، وَلَا يُقَاسُ بِخَلْقِهِ؛ فَإِنَّهُ سُبْحَانَهُ أَعْلَمُ بنَفْسِهِ وَبَغَيْرِهِ، وَأَصْدَقُ قِيلاً، وَأَحْسَنُ حَدِيثًا مِنْ خَلْقِهِ۔

ثُمَّ رُسُلُهُ صَادِقُونَ مُصَدَّقُونَ، بِخِلَافِ الَّذِينَ يَقُولُونَ عَلَيْهِ مَا لا يَعْلَمُونَ، ولهذا قالَ سُبْحانَهُ وَتَعالى: ﴿سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ الْعِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ . وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ . وَالْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ العالمينَ﴾[الصافات : ١٨٠ - ١٨٢ ].

فَسَبَّحَ نَفْسَهُ عَمَّا وَصَفَهُ بِهِ الْمُخَالِفونَ للرُّسُلِ، وَسَلَّمَ على المُرْسَلِينَ لسلامة ما قالوه مِنَ النَّقْصِ وَالعَيْبِ۔


ترجمہ: کیونکہ وہ پاک ذات نہ اس کا کوئی ہمسر ہے اور نہ اس کے برابر اور نہ کوئی اس کے مقابل، اس پاک وبلند ذات کو اس کی مخلوق پر قیاس نہیں کیا جاسکتا ہے، بے شک وہ اپنے آپ کو اور دوسروں کو خوب جاننے والا ہے اور بیان کرنے میں مخلوق سے اچھا و سچا ہے۔


پھر اس کے سب رسول (علیھم السلام) ذات الٰہی کے تعارف میں سچے ہیں، (کیونکہ) اللہ تعالی نے ان کے (سچے ہونے کی) تصدیق کی ہے، ان (فلسفی، منطقی اور عقل کے مقلدین) لوگوں کے برخلاف جو اللہ کی طرف ایسی باتیں منسوب کرتے ہیں جنہیں ان کا علم نہیں ہے، اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا:

﴿سُبْحَانَ رَبِّكَ رَبِّ العِزَّةِ عَمَّا يَصِفُونَ°وَسَلَامٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ°وَالْحَمْدُ للهِ رَبِّ الْعَالِمِينَ﴾ (الصافات: 181 - 182)۔


ترجمہ: آپ کا رب جو کہ عزت کا مالک ہے ان باتوں سے پاک ہے جو وہ (مشرکین) بیان کرتے ہیں۔ اور رسولوں پر سلامتی ہو۔ اور سب تعریفیں اللہ کے لئے ہیں جو سارے جہان کا رب ہے۔

اللہ تعالیٰ نے رسولوں کے مخالفین کی قیاس آرائیوں سے اپنی ذات کو پاک قرار دیا اور رسولوں پر سلامتی بھیجی ہے کیونکہ ان (انبیاء کرام علیھم السلام) کی تعلیمات نقص و عیب سے پاک ہیں۔

لِأَنَّهُ سُبْحَانَهُ لَا سَمِيَّ لَهُ: یہاں سے مصنف رحمہ اللہ اوپر ذکر شدہ عقیدے کی علتیں اور وجوہات بیان کر رہے ہیں، فرما رہے ہیں : اللہ تعالیٰ اپنے اسماء وصفات میں یکتا ذات ہے، اس کے اسماء وصفات میں کسی بھی قسم کی تحریف و تعطیل کرنا، اور اس کی کیفیت بیان کرنا اور مخلوق کی صفات سے تشبیہ دینا اس لئے جائز نہیں ہے کیونکہ اللہ تعالیٰ کے مماثل اور مشابہ کوئی شے نہیں ہے، اللہ تعالیٰ قرآن کریم میں فرماتا ہے: ﴿هَلْ تَعْلَمُ لَـهٝ سَـمِيًّا﴾ (مريم:65)
ترجمہ: کیا تیرے علم میں اس جیسا کوئی اور ہم نام ہے (بالکل نہیں ہے، اللہ تعالیٰ یکتا ذات ہے)۔

سَمِيٌ:
سمی اس فرد کو کہا جاتا ہے جس کا نام دوسرے فرد جیسا ہو، یہاں پر مراد یہ ہے کہ مخلوق کی صفات اللہ تعالیٰ کی جیسی صفات نہیں ہیں۔

وَلَا كُفْءَ لَهُ: یہاں پر دوسری علت بیان کر رہے ہیں ، یعنی اللہ تعالیٰ کا (ذات وصفات میں) کوئی برابر نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ﴿وَلَمْ يَكُنْ لَّـهٝ كُفُوًا اَحَدٌ﴾ (الاخلاص:3)
ترجمہ: اور اس کے برابر کوئی نہیں ہے۔

وَلَا نِدَّ لَهُ: یعنی اللہ تعالیٰ کا کوئی شریک نہیں ہے، جیسے کہ عبادت میں اس کا کوئی شریک اور اس جیسا کوئی الہ نہیں ہے، اسی طرح اس کے اسماء وصفات میں بھی کوئی شریک اور نظیر نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ﴿فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّـٰهِ اَنْدَادًا وَّاَنْتُـمْ تَعْلَمُوْنَ﴾ (البقرۃ:22)
ترجمہ: سو کسی کو اللہ کا شریک نہ بناؤ حالانکہ تم جانتے بھی ہو۔

وَلَا يُقَاسُ بِخَلْقِهِ: یعنی اللہ تعالیٰ کو مخلوق پر قیاس نہیں کیا جا سکتا، اور اللہ تعالیٰ کو مخلوق پر قیاس کرنا جائز بھی نہیں ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ﴿فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّـٰهِ الْاَمْثَالَ ۚ اِنَّ اللّـٰهَ يَعْلَمُ وَاَنْتُـمْ لَا تَعْلَمُوْنَ﴾ (النحل:74)
ترجمہ: پس اللہ کے لیے مثالیں نہ گھڑو، بے شک اللہ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔

اللہ تعالیٰ کو مخلوق پر قیاس کرنا جائز نہیں ہے نہ ذات میں، اور نہ اسماء وصفات میں، کیونکہ اللہ تعالیٰ ہر لحاظ سے کامل ذات ہے جبکہ مخلوق ناقص ذات ہے، تعالی اللہ عن ذلک۔

فَإِنَّهُ سُبْحَانَهُ أَعْلَمُ بنَفْسِهِ وَبَغَيْرِهِ، وَأَصْدَقُ قِيلاً، وَأَحْسَنُ حَدِيثًا مِنْ خَلْقِهِ: یعنی اللہ تعالیٰ کے لئے یہ اسماء وصفات ثابت کرنا اس لئے ضروری ہے کیونکہ اللہ سبحانہ وتعالی اپنے بارے میں اور مخلوق کے بارے میں سب کچھ جانتا ہے، جب وہ ہر چیز اپنے بارے میں جانتا ہے تو ہم پر بھی واجب ہے کہ اللہ تعالیٰ کے امر کی اتباع کریں، اور اس کے لئے وہی اسماء وصفات ثابت کریں جو اس نے اپنے لئے ثابت کئے ہیں ، کیونکہ وہ اپنے بارے میں ہم سے زیادہ جانتا ہے، اور ہم مخلوق سے زیادہ سچا ہے، اور ہم مخلوق سے زیادہ اچھا کلام کرنے والا ہے، پس جب اس نے اپنے لئے احسن کلام اور مہذب الفاظ میں اسماء وصفات کو ثابت کیا ہے تو ہم پر بھی لازم ہے کہ اس سچے، اور أعلم ذات کی اتباع کریں، اور اس کے لئے قرآن وسنت میں مذکور اسماء وصفات ثابت کریں، نہ کہ اپنی عاجز عقل استعمال کرکے مختلف شکوک وشبہات میں پڑ جائیں ، اور اس میں تعطیل اور تحریف کریں، کیونکہ انسان عاجز شے ہے، اس کی عقل اور علم اتنا نہیں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے ذات اور صفات کا ادراک کرے ۔

خلاصہ: خلاصہ یہ ہوا کہ چونکہ اللہ تعالیٰ کا نہ کوئی ہمسر ہے، اور نہ کوئی شریک ہے، اور نہ کوئی اس جیسی صفات والی ذات ہے، اور چونکہ وہ ہم مخلوق سے زیادہ اپنے بارے میں جانتا ہے، وہ سچی ذات ہے، اور احسن طریقے سے کلام کرنے والی ذات ہے، جب اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اپنے لئے اسماء وصفات کو ثابت کیا ہے تو ہم عاجز مخلوق کو بھی چاہئے کہ اللہ تعالیٰ کی اطاعت کرتے ہوئے ان اسماء وصفات کو اسی طرح ثابت کریں جس طرح اللہ تعالیٰ نے اپنے لئے ثابت کیا ہے، نہ اس میں تحریف کی جائے، نہ اس کی تعطیل کی جائے، اور نہ اس کی کیفیت بیان کی جائے، اور نہ تشبیہ دی جائے، کیونکہ ہم عاجز مخلوق ہیں، ہماری عقلیں اور علم اس عظیم ذات کی حقیقت اور اس کی صفات کی حقیقت کا ادراک نہیں کر سکتے، پس ہمیں چاہئے کہ اس واحد لا شریک لہ ذات کے ہر ہر لفظ میں اتباع کریں، اور اس کے اسماء وصفات میں کجروی کا راستہ اختیار نہ کریں ورنہ ہم سخت سزا کے مستحق ٹھہریں گے۔

ثُمَّ رُسُلُهُ صَادِقُونَ مُصَدَّقُونَ: یعنی اللہ تعالیٰ کے بعد اس کے انبیاء کرام علیہم السلام اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے بارے میں زیادہ جانتے ہیں، اور انہوں نے جو اسماء وصفات اللہ تعالیٰ کے لئے ثابت کی ہیں ، وہ سب سچ اور یقینی باتیں ہیں، کیونکہ اللہ تعالیٰ نے ان رسولوں کی سچائی کی تصدیق کی ہے، اور اللہ تعالیٰ ہی نے وحی کے ذریعے اپنے بارے میں ان کو بتایا ہے، اللہ تعالیٰ کا ارشاد مبارک ہے: ﴿وَمَا يَنْطِقُ عَنِ الْـهَـوٰى°اِنْ هُوَ اِلَّا وَحْيٌ يُّوحٰى°عَلَّمَهٝ شَدِيْدُ الْقُوٰى﴾ (النجم: 3 - 5).
ترجمہ: اور نہ وہ اپنی خواہش سے کچھ کہتا ہے۔ یہ تو وحی ہی ہے جو اس پر آتی ہے. بڑے طاقتور نے اسے سکھایا ہے۔
 
Top