• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شرک کی وجوہات

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
514
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
شرک کی وجوہات

بسم اللہ الرحمن الرحیم


شیطان نے انسانوں میں شرک کو رائج کرنے کے لئے اور ان کے لئے اسے مزین کرنے کے لئے نت نئے رواج اور فلسفے اختراع کئے ہیں اور اس نے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم پر شرک کا وار کرنے کے لئے بنیادی طور پر اسی طریقے سے کام کیا ہے جس طریقے سے اس نے دیگر انبیاء کی اقوام کو شرک میں مبتلا کیا تھا اور وہ طریقہ ہے قوم و قبیلہ کے نام آور سربراہوں اور نیک لوگوں کی شان وعظمت میں غلو و زیادتی سے کام لے کر ان کو اللہ کی صفات سے متصف کر دینا تاکہ لوگ ان کو اللہ کے ساتھ شریک ٹھرائیں۔


امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں بھی شیطان نے اسی طریقہ سے شرک کو مزین کیا ہے اور ان کے اندر شرکیہ نظریات اور فلسفوں کو رائج کر دیا ہے جن پر چل کر آج امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کی کثیر تعداد شرک میں گمراہ ہوکر ایمان و توحید سے تہی دامن ہو چکی ہے۔ ان نظریات کی کچھ تفصیل درج ذیل ہے۔

  • اتباع راہنماء و سربراہ :
شیطان انسانوں کو شرک میں مبتلا کرنے کے لئے جس شرک کو سب سے پہلے مزین کرتا ہے وہ اللہ کی حاکمیت اور اطاعت و اتباع میں شرک ہے۔ اس نے حضرت نوح علیہ السلام اور بنی اسرائیل کی اقوام کو جس شرک کے راستے پر سب سے پہلے ڈالا وہ اللہ کی الوہیت و حاکمیت میں شرک تھا۔


نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا؛ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے :

بے شک میں نے اپنے تمام بندوں کو اپنی طرف یکسو پیدا کیا، پھر شیاطین آئے اور انہیں ان کے دین سے پھیر دیا اور جن چیزوں کو میں نے ان کے لئے حلال کیا تھا انہیں ان پر حرام کر دیا اور انہیں اس بات کا حکم دیا کہ وہ میرے ساتھ شرک کریں جس پر میں نے کوئی دلیل نہیں اتاری۔

(صحیح مسلم: ۲۸۶۵)



سابقہ اقوام اللہ کی الوہیت وعبادت کے جس شرک میں سب سے پہلے شکار ہوتی تھیں وہ یہ تھا کہ وہ وحی الٰہی اور اللہ کے احکام و قوانین ترک کرکے اپنی قوم کے نام آور سردادوں اور مذہبی راہنماؤں کے ٹھہرائے گئے رسوم وقوانین کو اپنی اخلاقی معاشرتی اور سیاسی زندگی میں اختیار کر لیتے تھے اور کہتے :


إِنَّا وَجَدْنَا آبَاءَنَا عَلَىٰ أُمَّةٍ وَإِنَّا عَلَىٰ آثَارِهِم مُّقْتَدُونَ ۔ (الزخرف: ۲۳)

بلاشبہ ہم نے اپنے باپ دادوں کو ایک طریقے پر پایا اور ہم تو انھی کے نقش قدم کی پیروی کرنے والے ہیں۔


یہود و نصاریٰ بھی اسی گمراہی کی وجہ سے شرک میں مبتلا ہوئے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے :

اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّهِ ۔ (التوبہ: ۳۱)

انہوں نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنالیا۔

اس آیت کے نزول پر حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ نے(جو عیسائی سے مسلمان ہوئے تھے) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ ہم نے اپنے علماء و رھبان کو کبھی رب نہیں بنایا۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : کیا تم ان کے حلال وحرام کو مانتے تھے؟ انہوں نے جواب دیا جی ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا یہی تو ان کی عبادت ہے۔


(ترمذی:۳۰۹۵)

یہود و نصاریٰ اپنے علماء و سرداروں پر رب اور معبود کے الفاظ نہ بولا کرتے تھے اور نہ ان کے آگے رکوع وسجود اور دوسری عبادات ادا کرتے تھے لیکن وہ اور ان کے علماء و سردار اللہ کی طرف سے نازل شدہ کتابوں میں موجود احکام و قوانین پر ایمان لانے کے باوجود اپنے دنیاوی مفادات و خواہشات کی خاطر ان کو چھوڑ کر اپنے علماء، پادریوں، سرداروں اور بادشاہوں کے ٹھرائے گئے قوانین کی اپنے معاشرتی اور سیاسی زندگی میں پیروی و اتباع کرتے تھے۔ اللہ کی حاکمیت واطاعت میں ہہی شرک ہے جس نے انہیں اوج ثریہ توحید سے اتار کر شرک کی تاریک اور اتھاہ گہرائی میں پھینک دیا تھا۔

امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم آج جس شرک میں سب سے زیادہ ملوث ہے وہ یہی شرک ہے۔ آج امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے ملک و معاشرے سے اللہ کی حاکمیت و شریعت کو ترک کر کے جمہوریت اور خود ساختہ پارلیمانوں کے وضع کردہ قوانین کی اطاعت وعبادت میں مصروف ہے۔

حاکمیت و قانون سازی کا حق اللہ کی بجائے پارلیمنٹ اور انسانوں کودے دیا گیا ہے۔ دین کو سیاست سے علیحدہ کر دیا گیا ہے۔ اللہ کی حاکمیت کو صرف عباداتی شعائر نماز، روزہ تک محدود سمجھ کر باقی تمام معاشرہ معاشی اور سیاسی حاکمیت وقانون سازی مکمل طور پر انسانوں اور اہل پارلیمان کی اکثریت کے ہاتھوں میں ہے اور ان کے وضع کردہ اللہ کے احکام کے مخالف قوانین کی ملک ومعاشرے میں مکمل پیروی واتباع لازم ہے۔ اس پر مستزاد یہ کہ امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم بھی دیگر مشرک اقوام اور یہود و نصاریٰ کی طرح اللہ تعالیٰ کی الوہیت و حاکمیت کے اس شرک کی حقیقت سے ناواقف ہے۔
  • فلسفہ اتحاد و حلول :
شرک میں مبتلا کرنے کے لئے شیطان کا دوسرا طریقہ واردات غلو ہے۔ شیطان جانتا ہے کہ لوگوں کو اللہ کے انکار اور غیراللہ کو معبود کہلوانے کی طرف مائل کرنا مشکل ہے، اس لئے وہ اللہ تعالیٰ کے مبعوث شدہ انبیاء اور ان کے علاوہ نیک وصالح اولیاء کی شان ومنزلت میں غلو اور زیادتی کرواتا ہے۔

اس کے لئے وہ لوگوں کے ذہنوں میں عبادت اور قرب الٰہی پانے کے لئے خودساختہ اور غیر شرعی طریقے، فلسفے اور نظرئیے رواج دیتا ہے جن کو اپناکر لوگ انبیاء اور اولیاء کو ان کے مقام بندگی سے بڑھاکر درجہ الوہیت پر پہنچا دیتے ہیں، اللہ کی ذات کے ساتھ شریک اور اوصاف الٰہیہ سے متصف مانتے ہیں۔

اس طرح شیطان اللہ کا قرب پانے اور اس کی عبادت کو انجام دینے کے لئے ان انبیاء و اولیاء کی عبادت کو وسیلہ بناکر پیش کرتا ہے۔ اس کے لئے شیطان ان سے متعلق غلو پر مبنی کرامات و تصرفات کے جھوٹے قصے کہانیاں گھڑتا اور مزین کرتا ہے تاکہ وہ لوگوں سے اللہ کی عبادت کے دھوکے میں غیراللہ کی بندگی کروا سکے۔

شیطان نے یہود و نصاریٰ میں حضرت عزیر علیہ السلام اور حضرت عیسٰی علیہ السلام کی شان میں غلو کرکے ان کو اللہ کی ذات کے ساتھ اتصال کا فلسفہ اور نظریہ تثلیث رواج دیا۔ مشرکین مکہ جو اپنے آپ کو حضرت ابراہیم علیہ السلام کا متبع مانتے تھے انہیں حضرت ابراہیم علیہ السلام اور حضرت اسماعیل علیہ السلام کی عقیدت میں غلو کرواتے ہوئے ان کی مورتیاں بنانے پر لگایا۔

اسی طرح مشرکین مکہ کے دلوں میں قوم نوح علیہ السلام کے نیک افراد کے متعلق اسی طرح بتدریج (غلوانہ) خیالات ڈالے جس طرح قوم نوح کو شرک کی راہ ڈالنے کے لیے ڈالے تھے۔

شیطان نے قوم نوح علیہ السلام کو شرک کی راہ پر ڈالنے کے لئے پہلے اللہ کے دین اور اس کی عبادت کی طرف رغبت کے لئے قوم نوح کے نیک صالح بندوں یعنی وَدّ، یغوث، یعوق اور نصر کی محبت کو پروان چڑھایا، پھر ان کی محبت و عقیدت اور شان و منزلت میں اضافہ کرکے انہیں اللہ کی صفات سے متصف اور وسیلہ و ذریعہ بتلایا۔ اور اسی عقیدت کی تڑپ میں آہستہ آہستہ ان کی تصویریں، مورتیاں اور بت بھی بنوا ڈالے۔

اسی طرح امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم کو شیطان نے شرک کی راہ پر ڈالنے کے لئے پہلے پہل حب الٰہی کی آڑ میں عبادت میں راھبانہ حد تک غلو اور غیر شرعی طور طریقوں کو مزین کیا۔ اسی حب الٰہی کی آڑ میں تیسری صدی ہجری میں متکلمین صوفیاء کا ایسا گروہ پیدا ہوا جنہیں شیطان حب الٰہی کی شدید تڑپ کے ساتھ خطرناک حد تک لے گیا۔

عبادات میں غلو سے پیدا ہونے والے دماغی سکر اور اس کے ساتھ یونانی و رومی اور ایرانی و ہندی، اخلاق و فلسفہ (کہ مجاہدہ، ریاضت اور نفس کشی سے باطنی و روحانی ترقی حاصل کرتے ہوئے خدا تک پہنچا جاسکتا ہے) کے مطالعہ نے ان کو ایسی حالت تک پہنچا دیا کہ انہوں نے اللہ کی ذات کے ساتھ اتصال اور اس کی صفات پر تصرفات، اور خدا سے بالواسطہ باطنی علم کے حصول کے دعوے کر دئیے، اور وحدت الوجود اور حلول و تصرف کے نظرئیے وضع کرکے امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم میں شرک کی ترویج کی راہ ہموار کی۔

پہلے پہل صوفیاء نے حب الٰہی کے جزبے میں توحید کی یہ تشریح کرنی شروع کی کہ اللہ تعالیٰ کے سوا ہرچیز فانی اور معدوم ہے جوکہ کسی حد تک ٹھیک ہے لیکن درجہ بدرجہ عبادات میں غلو اور حب الٰہی کی تڑپ میں اس کو لاموجود الا للہ بنا دیا یعنی اللہ کے سوا کسی غیر کا وجود ہی نہیں، جو وجود بھی نظر آتے ہیں ان میں اللہ کے ساتھ اتحاد ہے اور وہ بااعتبار باطن وجود الٰہی کی نمود ہیں۔


ذالنون مصری کا کہنا ہے کہ :

"اللہ تعالیٰ سے محبت کرتے ہوئے انسان پر ایسا وقت بھی آتا ہے جب وہ اس سے متحد ہوجاتا ہے۔

(تاریخ تصوف اسلام: ۱۶۰)


اس طرح متکلمین صوفیاء نے اللہ کے ساتھ اتحاد وحلول کا نظریہ وضع کرکے خود کو الوہیانہ صفات اور تصرفات کا حامل ٹھرایا اور اس کے ساتھ یہ نظریہ وضع کیا کہ ہر دور میں الوہیانہ صفات کے حامل قطب، غوث، ابدال اور اولیاء ہوتے ہیں جو آسمان، زمین اور انسانوں کے تمام معاملات سنبھالتے ہیں۔

متکلمین صوفیاء کے ان نظریات کے ساتھ ان کے تصرفات وکرامات کی ترویج واشاعت کی وجہ سے لوگوں کے اعتقاد ویقین، دعا، پکار،استغاثہ، نذر ونیاز ان کے مزارات و قبور سے مختص ہو کر رہ گئی ہے۔ متکلمین صوفیاء کے یہی نظریات کثیر لوگوں میں شرک کی گمراہی پھیلنے کا باعث بنے ہیں۔
  • فلسفہ عطائیہ :
ان متکلمین صوفیاء کے پیروکاروں نے فلسفہ اور عقل کی پیروی میں یہ نظریہ بھی ایجاد کیا کہ جس طرح دنیاوی بادشاہ اپنے دربار میں لوگوں کی التجا کے لئے اپنے کچھ مصاحبین کو اختیارات عطا کرتے ہیں جن کے ذریعے لوگ اس کے دربار میں سوال کرتے ہیں۔

بعینه اسی طرح خدا جو مستقل بزات الٰہ ہے اس نے اپنے مقرب بندوں اور صلحاء کو غیر مستقل بذات خدائی صفات عطا کی ہیں۔ خدا کی صفات تو ذاتی ہیں لیکن ان بندوں کی خدائی صفات عطائی ہیں۔ ان عطائی صفات کی بدولت یہ اولیاء لوگوں کی دعا، نذر اور عبادات خدا کے دربار میں پہنچاتے ہیں اور لوگ ان کو وسیلہ اور سفارشی ٹھراتے ہیں۔

اس نظریہ میں شیطان نے پہلے خدا کی صفات کو غیر اللہ میں تقسیم کرایا اور پھر لوگوں کی دعا، استغاثہ، نذر اور عبادات کو خالص اللہ کے دربار سے موڑ کر غیراللہ کی طرف پھیر دیا اور پھر مخلوقات کو غیر مستقل بذات عطائی الٰہ مقرر کر دیا۔

شیطان جانتا ہے کہ غیراللہ کو لوگوں سے مستقل بذات الٰہ ٹھرانا مشکل ہے۔اس لئے اس نے اولیاء و صلحاء کی شان و منزلت میں غلو کرکے انہیں خدا کی صفات میں شریک باور کرایا۔اور اس کے لئے عبادت کے دھوکے میں غیراللہ کی عبادت سر انجام دیں۔

یہودی ہوں یا عیسائی مشرکین مکہ ہوں یا آج کے مشرکین وہ حضرت عیسٰی علیہ السلام اور دیگر انبیاء و اولیاء کو عطائی شریک اور غیر مستقل بذات الٰہ اور وسیلہ مان کر استغاثہ، پکار، نذر اور دوسری عبادات کو ان کے سامنے رکھتے ہیں۔

جب ان لوگوں کو رسول خدا ایک اللہ کی عبادت اور ایک اللہ سے بغیر واسطہ اور وسیلہ کے دعا و التجا کی دعوت دیتے تھے تو یہ لوگ وہ جواب دیتے جو ارشاد باری تعالیٰ میں یوں مذکور ہے :

مَا نَعْبُدُهُمْ إِلَّا لِيُقَرِّبُونَا إِلَى اللَّهِ زُلْفَىٰ ۔ (الزمر: ۳)

ہم ان کی عبادت صرف اس لئے کرتے ہیں کہ وہ ہمیں اللہ کے زیادہ قریب کر دیں۔

نیز فرمان الہی ہے :

وَيَقُولُونَ هَٰؤُلَاءِ شُفَعَاؤُنَا عِندَ اللَّهِ ۔(یونس:۱۸)
کہتے ہیں؛ یہ خدا کے ہاں ہمارے سفارشی ہیں۔


انہی باطل فلسفوں اور نظریوں کی مزید تفصیل اور قرآن و حدیث سے ان کا رد ہم دوسری پوسٹ میں بیان کریں گے۔ ان شاء اللہ
 
Top