• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شوال کے چھ روزوں سے متعلق احادیث اور بعض اشکالات کا ازالہ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
شوال کے چھ روزوں سے متعلق احادیث اور کچھ اشکالات کی وضاحت

شوال کے چھ روزوں کی احادیث میں بہت فضیلت بیان ہوئی ہے، ذیل میں اس سے متعلق احادیث پیش خدمت ہیں، اور ساتھ اس متعلق کیے جانے والے بعض اشکالات کی وضاحت بھی موجود ہے۔
حدیث ابو أیوب الأنصاری رضی اللہ
عن أبي أيوب الأنصاري رضي الله عنه أنه حدَّثه أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "من صام رمضان ثم أَتبعَه ستًّا من شوال كان كصيام الدهر". (صحیح مسلم (1164)
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے رمضان کے روزے رکھنے کے بعد شوال کے بھی چھ روزے رکھے، اس نے گویا پوری زندگی روزے رکھے۔
اعتراض:
اس حدیث پر اعتراض کیا گیا ہے کہ اس کی سند میں سعد بن سعید انصاری راوی ضعیف ہے، جس کا جواب یہ ہے کہ سعد بن سعید مختلف فیہ راوی ہے، شعبہ وغیرہ اجل ناقدین نے اس کی توثیق کی ہے، جبکہ احمد و ابو حاتم وغیرہ نے اس کی تضعیف کی ہے، لیکن یہ تضعیف شدید نہیں، ان کے متعلق تضعیف شدید کے جو اقوال ہیں وہ ثابت نہیں ہیں۔ لہذا اس راوی میں اگر ضعیف خفیف مان بھی لیا جائے، تو اس کی یہ روایت کئی ایک وجوہات سے درست ہے، مثلا اس روایت کو اس سے روایت کرنے والے شعبہ اور ابن مبارک جیسے اجل محدثین وعلما ہیں، بلکہ ابن مبارک نے تو اس کی ’تحسین‘ کی ہے۔ اگر یہ روایت ضعیف ہوتی تو یہ ائمہ کرام اس کی وضاحت کردیتے۔ دوسری بات سعد بن سعید یہ روایت بیان کرنے میں اکیلا نہیں بلکہ عبد ربہ بن سعید (السنن الکبری للنسائی(2878) اور یحی بن سعید(مسند الحمیدی(382) وغیرہما نے اس کی متابعت کی ہے۔ لہذا یہ روایت حسن درجے سے کم نہیں، جیسا کہ ابن مبارک اور ترمذی(رقم759) نے فرمایا، بلکہ امام مسلم نے اسے صحیح میں نقل کیا، اور صحیحین کے متعلق یہ بات معروف ہے کہ وہ ضعیف راوی سے بھی کوئی روایت لیں، تو اس میں وہی روایت اختیار کرتے ہیں، جس کا قرائن سے صحیح ہونا ثابت ہو۔
حدیث ثوبان رضی اللہ عنہ
عن ثوبان أن رسول الله - صلى الله عليه وسلم - قال: "صيام شهرٍ بعشرة أشهرٍ، وستةُ أيام بعدهن بشهرين، فذلك تمام سنة" يعني شهر رمضان وستة أيام بعده۔ (مسند الدارمی(1762)(صحیح ابن خزیمۃ (2115)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (رمضان کے) مہینے کے روزے دس مہینوں کے برابر ہیں، جبکہ بعد والے (شوال کے) چھ دن دو مہینوں کے برابر ہیں، یوں سال مکمل ہوجاتا ہے۔
یہ روایت بالکل صحیح ہے، جیساکہ ابن خزیمۃ وغیرہ نے اس کی تصحیح کی ہے۔
حدیث ابو ہریرۃ رضی اللہ عنہ
عن أبي هريرة عن النبي - صلى الله عليه وسلم - قال: "من صام رمضان وأتبعَه بستٍّ من شوال فكأنما صام الدهر".(مسند البزار (8334)
جس نے رمضان کے بعد شوال کے بھی چھے روزے رکھے، اس نے گویا پورے زندگی روزے رکھے۔
یہ حدیث بھی مختلف طرق سے مروی ہے، اور صحیح یا حسن درجے سے کم نہیں، امام منذری (الترغیب والترہیب (1459) نے اس کی تصحیح کی ہے۔
حدیث جابر رضی اللہ عنہ
عن جابر بن عبد اللہ قال سمعتُ رسول الله - صلى الله عليه وسلم - يقول: "من صام رمضان وستًّا من شوال فكأنما صام السنة كلَّها". (مسند احمد(14302، 14477، 14710)
رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد گرامی ہے: جس نے رمضان کے مہینے، اور شوال کے چھ روزے رکھے، گویا پورے سال کے روزے رکھے۔
اس کی سند میں عمرو بن جابر راوی متکلم فیہ ہے، لیکن یہ حدیث دیگر شواہد کی بنا پر حسن لغیرہ کے درجہ میں ہے، امام احمد نے شوال کے روزوں سے متعلق اس حدیث جابر اور دیگر احادیث سے احتجاج کیا ہے۔ (المغنی لابن قدامہ (4/ 439)
شوال کے چھ روزوں سے متعلق امام دمیاطی کی مستقل تصنیف بھی ہے، جس میں انہوں نے اس متعلق احادیث کو متابعات وشواہد سمیت جمع کیا ہے۔
خلاصہ:
خلاصہ یہ کہ شوال کے چھ روزوں سے متعلق احادیث بالکل واضح ہیں، ابو ایوب انصاری رضی اللہ عنہ عید الفطر کے موقعہ پر ان روزوں کی ترغیب بھی دلایا کرتے تھے۔(مشكل الآثار(6/ 123، 124) اسی طرح حسن بصری کے سامنے جب ان کا ذکر ہوتا، تو فرماتے کہ ان سے تو اللہ تعالی پورے سال کا ثواب عنایت فرمادیتے ہیں۔( سنن الترمذی، مصنف ابن ابی شیبۃ)
امام ابو حنیفہ اور امام مالک سے ان روزوں کی کراہت منقول ہے، لیکن واضح احادیث کی موجودگی میں ان ائمہ کرام کی رائے کو اہمیت نہیں دی گئی، مالک کے شاگرد شافعی ان کے شاگرد احمد اور دیگر کئی محدثین و فقہا کے نزدیک یہ روزے مستحب ہیں، بلکہ خود احناف اور مالکی فقہا و علما بھی اپنے ائمہ کرام کی آرا پر اصرار کی بجائے ان روزوں کی سنیت و استحباب کے قائل رہے ہیں۔ اللہ تعالی سب کو یہ فضیلت والے روزے رکھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
(نوٹ: یہ تحریر علامہ معلمی رحمہ اللہ کے موضوع سے متعلق ایک رسالے کا خلاصہ ہے، جو کہ آثار المعلمی کی جلد نمبر اٹھارہ میں ص نمبر 219 تا 273 موجود ہے۔ ڈاکٹر فراز الحق صاحب کا شکریہ جن کے واٹس ایپ پیغام کی وجہ سے اس طرف توجہ ہوئی، فجزاہ اللہ خیرا۔ )
 
Top