• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

شوال کے چھ روزے اور رمضان کے روزوں کی قضاء

تابش

رکن
شمولیت
مارچ 03، 2017
پیغامات
8
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
47
شوال کے چھ روزے اور رمضان کے روزوں کی قضاء
(تحریر: تابش صدیقی)​
الحمدُ للهِ، والصلاةُ والسلامُ على رسولِ اللهِ، وعلى آلِهِ وصحبِهِ ومن والاهُ، أمَّا بعدُ:

اس فورم پر یہ میری پہلی پوسٹ ہے، جس کا تعلق ایک خاص مسئلے سے ہے کہ آیا اگر کسی شخص پر رمضان کے روزوں کی قضا ہو تو کیا وہ قضا سے پہلے شوال کے چھ روزے رکھ سکتا ہے؟ کیا اسے اجر ملے گا؟

شیخ کفایت اللہ سنابلی صاحب کے نزدیق شوال کے چھ روزے رمضان کی قضا سے پہلے رکھنا صحیح ہے اور اسے شوال کے روزوں کا اجر ملے گا۔اسی تعلق سے انہوں نے گزشتہ برس اپنے فیسبک پیج پر ایک تحقیق شائع کی تھی، آج کی اس پوسٹ میں ہم اسی تحقیق کا ایک جائزہ لیں گے۔

لیکن اس سے پہلے میں یہ بتاتا چلوں کہ اس پوسٹ کا مقصد کسی کی تنقیص کرنا نہیں ہے، بلکہ کفایت اللہ سنابلی صاحب میرے لیے بہت محترم اور عزیز ہیں، البتہ ان کی بعض اراء سے اختلاف ہے جسے دلائل کی روشنی میں بیان کرنا ضروری سمجھتا ہوں۔

کفایت اللہ صاحب کی فیسبک پوسٹ پر پچلے سال ہی کمنٹ بھی کیا تھے، اور مزید وضاحت طلب کی تھی، لیکن ان کا کوئی جواب موصول نہیں ہوا، شاید مصروف تھے۔ بہر حال اس پوسٹ میں میں اپنا وہ کمنٹ بھی نقل کر دیتا ہوں اور ساتھ میں حسب ضرورت بعض چیزوں کا اضافہ کروں گا۔

کفایت اللہ سنابلی صاحب کی پہلی پوسٹ ان کے فیسبک پیج پر 28 مئی 2020 میں ڈالی گئی، جس کا عنوان ہے:

”صحیح مسلم کی ایک حدیث میں بعض مدرج الفاظ اور شوال کے روزوں سے متعلق بعض اہل علم کا اس سے استدلال “

یہ پوسٹ اسی عنوان سے اس فورم پر بھی موجود ہے، اس پوسٹ میں محترم کفایت اللہ صاحب نے یہ بیان کیا ہے کہ صحیح مسلم کی حدیث میں جو الفاظ آئے ہیں: ”الشغل من رسول الله ﷺ، أو برسول الله ﷺ“ یہ الفاظ ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا کے نہیں ہیں بلکہ یہ الفاظ مدرج ہیں.

قلت: یہ بات صحیح ہے کہ روایت میں ”الشغل من رسول…“ اور اسی طرح ”وذلك لمكان رسول الله ﷺ“ کے الفاظ مدرج ہیں، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ایسی کسی وجہ کا ثبوت ام المومنین عائشہ رضی اللہ عنہا سے بالکل ہی نہیں ملتا؟ کفایت اللہ صاحب کی پوسٹ سے تو یہی محسوس ہوتا ہے، چنانچہ پوسٹ کے خلاصہ میں لکھتے ہیں:

”اس بات کا کوئی ثبوت نہیں ہے کہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا نبی ﷺ کی خدمت کے سبب رمضان کے قضاء روزوں کو مکمل نہیں کرپاتی تھی “

قلت: یہ بات اس قدر جزم کے ساتھ کہنا درست نہیں ہے، کیونکہ صحیح مسلم ہی کی ایک روایت میں اس سبب کی طرف اشارہ موجود ہے، روایت کے الفاظ ہیں:

”عَنْ عَائِشَةَ، – رضى الله عنها – أَنَّهَا قَالَتْ إِنْ كَانَتْ إِحْدَانَا لَتُفْطِرُ فِي زَمَانِ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فَمَا تَقْدِرُ عَلَى أَنْ تَقْضِيَهُ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم حَتَّى يَأْتِيَ شَعْبَانُ ‏.‏ “

عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا بیان کرتی ہیں کہ اگر ہم میں سے کوئی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں روزہ افطار کرتی تو وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی معیت میں شعبان کی آمد تک قضائی نہیں دے سکتی تھی۔ [صحيح مسلم: 1146(ترقيم فؤاد عبد الباقي)]

اس روایت میں ”مع رسول اللہ ﷺ “ کے الفاظ سے، مشغولیت کا معنی ملتا ہے، چنانچہ قاضی عیاض رحمہ اللہ نے ”الشغل من رسول…“ کے الفاظ کے متعلق علماء کے اقوال نقل کرنے کے بعد کہا:

” لكنه قد جاء فى حديث ابن أبى عمر ما يدل أن العلة من قولها، فقالت: ” إن كانت إحدانا لتفطر… الخ“

لیکن ابن ابی عمر کی حدیث سے اس بات کی دلیل ملتی ہے کہ یہ تعلیل (سبب) عائشہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہی الفاظ ہیں۔ اور آگے صحیح مسلم کی مذکورہ روایت کو نقل کیا۔ [إكمال المعلم 103/4]

مزید تفصیل کے لیے ملاحظہ ہو: [الألفاظ المدرجة في أحاديث الكتب الستة، ص398]

بہر حال ان الفاظ کے مدرج ہونے یا نہ ہونے سے شوال کے چھ روزوں والے مسئلے کے ساتھ براہ راست تعلق نہیں ہے اسی لیے اس کی تفصیل میں جائے بغیر میں نے اس وقت صرف اتنا کمٹ کیا تھا:

”رمضان کے روزوں کی قضا سے پہلے یا قضا کی نیت سے شوال کے روزے نہ رکھنے کی دلیل صحیح مسلم کی یہ اماں عائشہ رضی اللہ عنہا والی حدیث نہیں ہے، بلکہ صحیح مسلم کی دوسری حدیث ہے جس میں رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”من صام رمضان ثم اتبعه ستا من شوال “[صحيح مسلم: 1164]،

اس حدیث میں لفظ ”ثم اتبعه“ سے معلوم ہوتا ہے کہ شوال کے روزے رمضان کے روزوں کی تکمیل کے بعد ہی رکھے جائیں گے، چنانچہ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

”إذا كان على المرأة قضاء من رمضان فإنها لا تصوم الستة أيام من شوال إلا بعد القضاء ، ذلك لأن النبي صلى الله عليه وسلم يقول : ( من صام رمضان ثم أتبعه ستا من شوال ) ومن عليها قضاء من رمضان لم تكن صامت رمضان فلا يحصل لها ثواب الأيام الست إلا بعد أن تنتهي من القضاء “

اگر کسی شخص پر رمضان کی قضا ہو تو وہ رمضان کی قضا دیے بغیر شوال کے چھ روزے نہ رکھے، وہ اس لیے کہ نبی ﷺ نے فرمایا: (جس نے رمضان کے روزے رکھے پھر اس کے بعد شوال کے چھ روزے رکھے)، اور جس پر رمضان کی قضا باقی ہو تو اس نے رمضان کے روزے رکھے ہی نہیں، لہذا اسے شوال کے چھ روزوں کا ثواب نہیں ملے گا جب تک کہ وہ پہلے قضا روزے پورے نہ کر لے۔ [مجموع فتاوى ورسائل العثيمين 19/20]“ انتهى.

یہ کمنٹ کرنے کے دو تین دن بعد ہی 31 مئی 2020 کو کفایت اللہ سنابلی صاحب نے ایک اور لمبی چوڑی پوسٹ لکھ دی۔ جس کا عنوان ہے:

کیا شوال کہ چھ روزے سے پہلے رمضان کے قضاء روزے رکھنے ضروری ہیں؟“

عجیب بات ہے کہ یہ پوسٹ کفایت اللہ صاحب نے اپنے فیسبک پیج، پروفائل اور اپنی ویبسائٹ پر تو شائع کی ہے مگر اس فورم پر شائع نہیں کی۔ بہر حال اس پوسٹ کو دیکھ کر بہت افسوس ہوا۔ کیونکہ کسی بھی فقہی مسئلہ پر اپنی رائے قائم کرنے سے پہلے تین کام کرنے بے حد ضروری ہیں۔

1۔ اس مسئلے کے متعلق تمام نصوص کو جمع کرنا۔

2۔ ان نصوص کا صحیح فہم حاصل کرنا۔

3۔ سب سے اہم، فقہ کے اصول و ضوابط کی تطبیق کرنا۔

اگر ان میں سے کوئی چیز رہ جائے تو جو رائے قائم کی گئی ہے اس کے درست ہونے کے امکان بہت کم ہوں گے۔

کفایت اللہ صاحب کی پوسٹ میں ان میں سے خصوصاً آخری دو چیزوں کی شدید کمی تھی بلک عدم موجودگی کہنا زیادہ درست ہوگا۔ یہ پوسٹ آپ ان کے فیسبک پیج پر خود ملاحظہ کر سکتے ہیں، اگرچہ ان کی ویبسائٹ پر ڈھونڈنا زیادہ آسان ہوگا۔

اس پوسٹ پر نئے سرے سے تبصرہ کیا تو بہت طویل ہو جائے گا اسی لیے فی الحال میں اپنی پچھلی تحریر پر ہی اکتفا کرتا ہوں۔ اگر ضرورت پڑی تو بعد میں اضافہ کیا جائے گا۔ پچھلے سال یہ تحریر پوسٹ کے کمنٹ میں لکھی تھی:

"آپ کی اس پوسٹ پر ابھی نظر پڑی اس لیے جواب دیر سے دینے کے لیے معزرت، جہاں تک آپ کی پوسٹ میں جو پہلا اور تیسرا اعتراض ہے تو اس سے ہمارا کوئی تعلق نہیں۔ البتہ دوسرے اعتراض کا جو آپ نے جواب دیا ہے اس کے متعلق کچھ عرض ہے، لیکن پہلے ہم یہ واضح کر دیں کہ ہماری بحث خصوصاً قضا روزوں سے پہلے شوال کے چھ روزے رکھنے کے متعلق ہے، تو بہتر ہے کہ دلائل بھی خصوصاً اسی کے مطابق ہوں۔

اولاً:

آپ نے شیخ محمد بن محمد المختار الشنقيطي کی جو بات نقل کی ”لو قضى في شوال لم يصدُق عليه أنه صام رمضان حقيقةً؛ وإنما صام قضاءً ولم يصم أداءً“ تو اس بارے میں عرض ہے کہ حدیث میں یہ تو نہیں لکھا ”من صام رمضان أداءً“ يا ”من صام في رمضان“ بلکہ حدیث میں ہے ”من صام رمضان“ یعنی مقصود ”إتمام صيام رمضان“ ہے پھر چاہے قضاء کے ذریعہ ہو یا ادا کے ذریعہ۔

اور عرض ہے کہ جس شخص کے کچھ روزے چھوٹ گئے تو وہ شخص ”من صام رمضان“ میں شامل نہیں ہوتا جب تک کہ وہ روزے پورے نہ کر لے۔ چنانچہ الشیخ ابن عثيمين رحمه الله نے فرمایا:

”إن السنة أن يصومها بعد انتهاء قضاء رمضان لا قبله، فلو كان عليه قضاء ثم صام الستة قبل القضاء فإنه لا يحصل على ثوابها؛ لأن النبي صلّى الله عليه وسلّم قال: «من صام رمضان» ومن بقي عليه شيء منه فإنه لا يصح أن يقال إنه صام رمضان؛ بل صام بعضه، وليست هذه المسألة مبنيّة على الخلاف في صوم التطوع قبل القضاء؛ لأن هذا التطوع أعني صوم الست «قيده النبي صلّى الله عليه وسلّم بقيد» وهو أن يكون بعد رمضان“ انتهى شرح الممتع

سنت یہ ہے کہ شوال کے روزے رمضان کی قضا کے بعد رکھے جائیں نہ کہ پہلے، اور اگر کسی پر قضا باقی تھی پھر بھی اس نے قضا سے پہلے چھ روزے رکھے تو اسے اسکا اجر نہیں ملے گا؛ کیونکہ نبی ﷺ نے فرمایا: (جس نے رمضان کے روزے رکھے)، اور جس پر اس میں کچھ باقی ہوں تو اس کے لیے یہ کہنا صحیح نہیں ہوگا کہ اس نے رمضان کے روزے رکھے؛ بلکہ اس نے رمضان کے کچھ روزے رکھے، اور یہ مسئلہ رمضان کی قضا سے پہلے نفلی روزے رکھنے کے متعلق اختلافی مسئلے پر مبنی نہیں ہے؛ کیونکہ یہ والے جو نفلی روزے ہیں یعنی شوال کے چھ روزے، انہیں (خاص طور پر) نبی ﷺ نے ایک قید کے ساتھ مقید کیا ہے، اور وہ قید یہ ہے کہ یہ روزے رمضان کے بعد میں رکھے جائیں۔ [شرح الممتع]

”ومن عليها قضاء من رمضان لم تكن صامت رمضان فلا يحصل لها ثواب الأيام الست إلا بعد أن تنتهي من القضاء، فلو فرض أن القضاء استوعب جميع شوال، مثل أن تكون امرأة نفساء ولم تصم يوما من رمضان، ثم شرعت في قضاء الصوم في شوال ولم تنته إلا بعد دخول شهر ذي القعدة فإنها تصوم الأيام الستة، ويكون لها أجر من صامها في شوال، لأن تأخيرها هنا للضرورة وهو متعذر، فصار لها الأجر.“ انتهى مجموع الفتاوى ابن عثيمين

اور جس پر رمضان کی قضا باقی ہو اس نے رمضان کے روزے نہیں رکھے، لہذا اسے شوال کے چھ روزوں کا ثواب نہیں ملے گا جب تک کے وہ قضا روزے مکمل نہ کر لے، بالفرض اگر قضا روزے پورا شوال لے جائیں، مثلاً اگر ایک نفاس والی عورت ہو جس نے رمضان میں ایک دن بھی روزہ نہیں رکھا، پھر وہ شوال میں روزوں کی قضا دینے لگے، لیکن ذو القعدہ کا مہینہ شروع ہونے سے پہلے قضا مکمل نہ کر سکے، تو وہ (ذو القعدہ میں) چھ روزے رکھے گی، اور اس کو وہی اجر ملے گا جو شوال میں چھ روزے رکھنے کا ہوتا ہے۔ کیونکہ یہاں اس نے تاخیر ضرورت کے تحت کی ہے، اور وہ اس معاملے میں معذور ہے، لہذا اسے اجر ملے ہے۔ [مجموع الفتاوى ابن عثيمين]

ثانیاً:

آپ نے کہا کہ بعض احادیث میں ”بعد الفطر“ (اختتام رمضان کے بعد) کے الفاظ ہیں (”یہ اس بات کی دلیل ہے کہ اختتام رمضان کے بعد بغیر قضاء والے روزوں کی تکمیل کے ہی شوال کے چھ روزے رکھ سکتے ہیں“)؟؟!!! یہ اس بات کی دلیل کس طرح ہے؟ اس کی وضاحت ضرور کیجیے گا۔

جس حدیث میں ”بعد الفطر“ کے الفاظ ہیں اسی حدیث میں پہلے یہ الفاظ آئے ہیں ”من صام رمضان فشهر بعشرة أشهر“ جس نے رمضان کے روزے رکھے تو ایک مہینے کا ثواب دس مہینوں کے برابر ہے۔ یہاں پر بھی ”من صام رمضان“ کے الفاظ ہیں یعنی وہ رمضان کے روزوں کی تکمیل کر چکا۔ جبکہ جس شخص کے روزے چھوٹ گئے وہ اس میں شامل نہیں ہے جیسا کہ پہلے بیان ہو چکا ہے۔ مزید یہ کہ آگے حدیث میں یہ الفاظ ہیں”كان تمام السنة“ وفي رواية ”فذلك تمام صيام السنة“ یعنی شوال کہ یہ چھ روزے رکھنے کے بعد مکمل سال کے روزوں کا ثواب ملے گا، اور یہ تب ہی ممکن ہے جب رمضان کے روزے پہلے سے مکمل ہوں۔ لہذا ”بعد الفطر“ والی اس روایت میں آپ کے موقف کی قطعا ًکوئی دلیل نہیں ہے۔

ثالثاً:

آپ نے کہا: ”بعض روایات میں ترتیب کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے“ اور کہا کہ ”ان احادیث میں ترتیب کا ذکر نہیں جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ترتیب اصل مقصود نہیں بلکہ مجموعی تعداد مقصود ہے“ سبحان الله! یعنی مطلق احادیث کو مقید پر محمول کرنے کی بجائے مقید احادیث کو مطلق پر محمول کیا جائگا؟ پوچھ سکتا ہوں کیوں؟ جبکہ اصول ہے: ”حمل المطلق على المقيد“، اس اصول کہ رو سے ان مذکورہ مطلق احادیث کا بھی وہی مفہوم اور مقصود ہے جو مقید احادیث کا ہے۔ اور احادیث میں تو صراحتاً ترتیب کا ذکر موجود ہے۔ اور اصل مسئلہ ہے ہی ترتیب کا ورنہ تو یہ بحث ہی نہ ہوتی۔

چنانچہ صحیح مسلم کی روایت میں ہے، ”من صام رمضان «ثم أتبعه» ستاً من شوال كان كصيام الدهر“ (جس نے رمضان کے روزے رکھے «پھر اس کے بعد» شوال کے چھ روزے رکھے) اور بيهقي کی روایت ہے ”صيام شهر بعشرة أشهر «وستة أيام بعده» بشهرين فذلك تمام السنة“ (ایک مہینے کے روزوں کا ثواب دس مہینوں کے روزوں کے برابر ہے «اور اس کے بعد چھ روزوں »کا ثواب دو مہینوں کے برابر ہے) اور مسند دارمي کی روایت میں بھی یہی ہے ”صيام شهر بعشرة أشهر، «وستة أيام بعدهن» بشهرين فذلك تمام سنة“

ان روایات میں واضح طور پر شوال کے روزوے رمضان کے روزوں کی تکمیل کے بعد رکھنے کا ذکر موجود ہے، تو اصول کے مطابق جو کوئی بھی مطلق حدیث ہے اسے ان مقید احادیث کی روشنی میں ہی سمجھا جائے گا۔

رابعاً:

شوال کے روزے قضا سے پہلے رکھنے کی دلیل کے طور پر ام المؤمنين عائشة رضي الله عنہا کی حدیث پیش کی جاتی ہے کہ وہ رمضان کے قضا روزے اگلے سال شعبان میں رکھتی تھیں۔ پچھلی پوسٹ میں آپ نے بھی ایسا ہی کیا۔

عرض ہے کہ اس حدیث کو شوال کے چھ روزوں کے معاملے میں دلیل کے طور پر تب پیش کیا جا سکتا ہے جب کسی صحیح روایت میں صراحتاً یہ بات موجود ہو کہ عائشة رضي الله عنہا شوال کے چھ روزے نبی ﷺ کی زندگی میں رکھا کرتی تھیں۔ جبکہ ایسی کوئی روایت موجود نہیں ہے۔ محض احتمال ہے کہ ”ایسا تو نہیں ہو سکتا، ضرور ایسا ہی ہوا ہوگا“۔ اور شرعی معاملات کی بنیاد احتمالات پر نہیں بلکہ صریح نصوص پر مبنی ہے۔ اور صریح نص موجود ہے ”من صام رمضان ثم أتبعه ستاً من شوال“ اس نص صریح کی موجودگی میں احتمالات کی کوئی گنجائش نہیں۔ بہت زیادہ ہی ان روایات سے آپ یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ رمضان کی قضا سے پہلے نفلی روزے رکھ سکتے ہیں، لیکن شوال کے چھ روزوں کا معاملہ الگ ہے، کیونکہ شوال کے چھ روزوں کے لیے حدیث میں ”ثم أتبعه“ کی قید موجود ہے۔

خلاصہ یہ ہے: کہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ رمضان کے روزوں کی قضا سے پہلے شوال کے چھ روزے نہیں رکھ سکتے اور اگر رکھ لیے تو مطلوب ثواب نہیں ملے گا، ان کے پاس اس کی ٹھوس دلیل موجود ہے: ”من صام رمضان ثم أتبعه ستاً من شوال“ اور یہی قول راجح ہے، اس کے برعکس جن لوگوں کا یہ دعوہ ہے کہ رمضان کے روزوں کی قضا سے پہلے شوال کے چھ روزے رکھ سکتے ہیں، ان کے پاس اس کی کوئی ایک بھی پختہ دلیل موجود نہیں ہے۔ اگر ہے تو ہمیں بھی دکھائیں۔ واللہ اعلم۔

آپ کے جواب کا منتظر رہوں گا، بس ایک گزارش ہے کہ اگر آپ جواب پوسٹ کی صورت میں دیں گے تو مجھے اطلاع ضرور دیجیے گا۔ جزاک اللہ خیرا“ انتهى.

اس مسئلہ پر شیخ فہد بن يحيى العماری نے ایک بہترین کتابچہ تحریر کیا ہے جس کا نام ہے: بلوغ المنال في أحكام صيام الست من شوال، اس کتابچہ میں تمام فقہی اصولوں کو مد نظر رکھتے ہوئے دلائل کے ساتھ یہ ثابت کیا ہے مطلوبہ اجر کے لیے رمضان کے قضا روزے شوال کے چھ روزوں سے پہلے رکھے جائیں گے۔ تنبیہ: یہ کتاب پی ڈی ایف میں موجود نہیں ہے، اگر مستقبل میں کسی بھائی کو ملے تو مجھے ضرور ارسال کریں۔ شکریہ۔
 
Top