• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

صلوۃ حا جت کا طریقہ؟

شمولیت
جولائی 24، 2012
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
150
پوائنٹ
66
السلام علیکم.
محترم اقوان..
میرا سوال ہے کہ، صلوۃ حاجت (حاجت کی نماز) کا مکمل طریقہ جو قرآن و احادیث صحیہ ثابت ہو، بتایں. کیوں کہ میں نے اس سے مطالق کئی باتیں سونی ہیں. جیسے کہ،پہلی رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد فلاں سورۃ سو ١٠٠ دفعہ، اور دوسری رکعت میں سورۃ فاتحہ کے بعد فلاں سورۃ سو ١٠٠ دفعہ وغیرہ وغیرہ.....
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
صلاۃ حاجت سے متعلق کوئی متعین روایت ثابت نہیں ہے بلکہ موضوع اور ضعیف روایات میں اس کی فضیلت بیان ہوئی لہذا اس کا کوئی خاص طریقہ مشروع نہیں ہے۔
البتہ اگر کسی کو کوئی حاجت پیش آئے تو دو رکعت نفل نماز پڑھ کر دعا مانگنا جائز ہے اور اس نفل نماز کا کوئی خاص طریقہ مشروع نہیں ہے۔ ارشاد باری تعالی ہے:
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اسْتَعِينُوا بِالصَّبْرِ‌ وَالصَّلَاةِ ۚ إِنَّ اللَّـهَ مَعَ الصَّابِرِ‌ينَ ﴿١٥٣﴾
اے ایمان والو صبر اور نماز سے مدد لیا کرو بےشک خدا صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔

صلاۃ حاجت کے مروجہ طریقوں کا رد کرتے ہوئے شیخ صالح المنجد لکھتے ہیں:

سوال : كيا نماز حاجت مشروع ہے اور اس كا تجربہ فائدہ مند ہو گا ؟ - 70295

نماز حاجت بارہ ركعت پڑھى جاتى ہے اور ہر دو ركعت كے درميان تشھد اور آخرى تشھد ميں ہم اللہ كى حمد و ثنا بيان كرتے اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھ كر پھر سجدہ كرے ہيں سات بار سورۃ الفاتحہ اور سات بار آيۃ الكرسى اور دس بار " لا إله إلا الله وحده لا شريك له له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير " پڑھتے پھر يہ كہتے ہيں:
" اللهم إني أسألك بمعاقد العز من عرشك ومنتهى الرحمة من كتابك واسمك الأعظم وجدك الأعلى وكلماتك التامة "
پھر ہم اپنى ضرورت طلب كرتے اور سر سے اپنا سر اٹھا كر دائيں بائيں سلام پھير ديتے ہيں.
ميرا سوال يہ ہے كہ:
مجھے يہ بتايا گيا ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے سجدہ ميں قرآن مجيد پڑھنے سے منع كيا ہے، ميں نے دوران تعليم اس نماز حاجت كا تجربہ بھى كيا تھا تو اللہ تعالى نے ميرى دعا قبول فرمائى اب مجھے پھر ايك ضرورت پيش آئى ہے جو ميں اللہ سے طلب كرنى چاہتى ہوں اس كے ليے نماز حاجت ادا كروں يا نہ كروں آپ مجھے كيا نصيحت فرماتے ہيں ؟

الحمد للہ:

نماز حاجت كا ذكر چار احاديث ميں ملتا ہے، جن ميں سے دو احاديث تو موضوع اور من گھڑت ہيں، اور ان دو حديثوں ميں سے ايك ميں بارہ اور دوسرى حديث ميں دو ركعت كا ذكر ملتا ہے، اور تيسرى حديث بھى بہت زيادہ ضعيف ہے، اور چوتھى حديث بھى ضعيف ہے اور ان دونوں حديثوں ميں دو ركعت كا ذكر ہوا ہے.

پہلى حديث:

وہ ہے جس كا سوال ميں ذكر كيا گيا ہے اور يہ حديث عبد اللہ بن مسعود رضى اللہ تعالى عنہما سے روايت كى جاتى ہے كہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم كا فرمان ہے:

" تم بارہ ركعتيں دن ميں يا رات ميں كسى وقت ادا كروا ور ہر دو ركعت ميں تشھد پڑھو جب تم اپنى نماز كى آخرى تشھد پڑھو تو اس ميں اللہ كى حمد و ثنا بيان كرو اور نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھو، اور سجدہ ميں سات بار سورۃ الفاتحہ پڑھو اور دس بار

" لا إله إلا الله وحده لا شريك له ، له الملك وله الحمد وهو على كل شيء قدير "

پھر يہ كلمات كہو:

" اللهم إني أسألك بمعاقد العز من عرشك ومنتهى الرحمة من كتابك واسمك الأعظم وجدك الأعلى وكلماتك التامة "

اور اس كے بعد اپنى حاجت طلب كروا ور سجدہ سے سر اٹھا كر دائيں بائيں سلام پھير دو، اور يہ بےوقوفوں كو مت سكھاؤ كيوكہ وہ اس سے مانگيں گے تو ان كى دعا قبول كر لى جائيگى "

اسے ابن جوزى نے الموضوعات ( 2 / 63 ) ميں عامر بن خداش عن عمرو بن ھارون البلخى كے طريق سے روايت كيا ہے.

اور ابن جوزى رحمہ اللہ نے عمرو البلخى كى ابن معين سے تكذيب نقل كى ہے، اور كہا ہے: سجدہ ميں قرآن كى ممانعت صحيح ثابت ہے .

ديكھيں: الموضوعات ( 2 / 63 ) اور ترتيب الموضوعات للذھبى ( 167 ).

اور اس دعاء " معاقد العز من عرش اللہ " سے مقصود ميں علماء كرام كے ہاں اختلاف پايا جاتا ہے جو شرع ميں وارد نہيں بلكہ بعض اہل علم جن ميں امام ابو حنيفہ رحمہ اللہ شامل ہيں نے يہ دعا كرنے سے منع كيا ہے؛ كيونكہ يہ بدعتى وسيلہ ميں سے ہے، اور كچھ دوسرے علماء نے اسے جائز قرار ديا ہے ان كا اعتقاد ہے كہ اللہ كى صفات ميں سے كسى بھى صفت كا وسيلہ جائز ہے اس ليے نہيں كہ ان كے ہاں مخلوق كا وسيلہ جائز ہے.

شيخ البانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" ميں كہتا ہوں: ليكن جس اثر اور روايت كى طرف اشارہ كيا گيا ہے وہ باطل ہے صحيح نہيں، اسے ابن جوزى نے " الموضوعات " ميں روايت كيا ہے اور كہا ہے: يہ حديث بلاشك و شبہ موضوع ہے، اور حافظ زيلعى رحمہ اللہ نے نصب الرايۃ ( 273 ) ميں ان كے اس فيصلے كو برقرار ركھا ہے.

اس ليے اس سے حجت پكڑنا صحيح نہيں، اگرچہ قائل كا قول ہى ہو " أسألك بمعاقد العز من عرشك " جو اللہ كى صفات ميں سے ايك صفت كے ساتھ وسيلہ ہے، اور دوسرے دلائل كے ساتھ يہ توسل مشروع ہے جو اس موضوع احاديث سے غنى كر ديتى ہيں.

ابن اثير رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" أسألك بمعاقد العز من عرشك " يعنى ان خصلتوں كے ساتھ جن كا عرش عزت مستحق ہے، يا ان كے منعقد ہونے كى جگہوں كے ساتھ، اور اس كے معنى كى حقيقت يہ ہے كہ: تيرے عرش كى عزت كے ساتھ، ليكن ابو حنيفہ رحمہ اللہ كے اصحاب اس لفظ كے ساتھ دعا كرنا مكروہ سمجھتے ہيں.

اس شرح كى پہلى وجہ پر وہ خصلتيں ہوئيں جن كا عرش عزت مستحق ہے، تو يہ اللہ كى صفات ميں سے ايك صفت سے توسل ہوا لہذا جائز ہو گا.

ليكن دوسرى وجہ كى بنا پر جو كہ عرش سے عزت كے حصول كى جگہيں معنى ہے تو يہ مخلوق سے توسل ہے اس ليے جائز نہيں، بہر حال يہ حديث كسى بحث و تمحيث كى مستحق نہيں اور نہ ہى تاويل كى؛ كيونكہ يہ حديث جب ثابت ہى نہيں اس ليے اوپر جو بيان ہوا ہے اس پر اكتفاء كرتے ہيں. علامہ البانى رحمہ اللہ كى كلام ختم ہوئى.

ديكھيں: التوسل انوعہ و حكامہ ( 48 - 49 ).

اور شيخ صالح فوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" اس حديث ميں غرابت پائى جاتى ہے جيسا كہ كہ سائل نے بيان كيا ہے كہ قيام كے علاوہ ركوع يا سجدہ ميں سورۃ الفاتحہ مشروع ہے، اور يہ تكرار كے ساتھ ہے، اور پھر سوال ميں يہ بھى ہے كہ " أسألك بمعاقد العز من عرشك " جيسے اور كلمات بھى ہيں اور يہ سب امور غريب اور اچھنبے ہيں، اس ليے سائل كو چاہيے كہ وہ اس حديث پر عمل مت كرے.

اور پھر نبى كريمص لى اللہ عليہ وسلم سے جو صحيح احاديث ثابت ہيں جن ميں كوئى اشكال بھى نہيں جن ميں نوافل اور عبادات نماز و اطاعت كا بيان ملتا ہے ان احاديث ميں ہى ان شاء اللہ كفائت ہے " انتہى

ديكھيں: المنتقى من فتاوى الشيخ الفوزان ( 1 / 46 ).

نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے صحيح حديث ميں ثابت ہے كہ آپ صلى اللہ عليہ وسلم نے ركوع اور سجدہ ميں قرآن مجيد كى تلاوت سے منع فرمايا ہے.

على بن ابى طالب رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيں كہ:

" مجھے رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے ركوع اور سجدہ ميں قرآت كرنے سے منع فرمايا "

صحيح مسلم حديث نمبر ( 480 ).

سوال نمبر ( 34692 ) كے جواب ميں مستقل فتوى كميٹى كے علماء كرام كى جانب سے حديث كے متن اور سند كے ضعف كا بيان ہو چكا ہے آپ اس كا مطالعہ ضرور كريں.

نماز حاجت كے متعلق دوسرى حديث درج ذيل ہے:

ابن عباس رضى اللہ تعالى عنہما بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" ميرے پاس جبريل عليہ السلام كچھ دعائيں لے كر آئے اور كہا: اگر آپ كو كوئى دنياوى پريشانى ہو تو آپ يہ دعائيں پڑھ كر اپنى ضرورت مانگيں:

" يا بديع السموات والأرض ، يا ذا الجلال والإكرام ، يا صريخ المستصرخين ، يا غياث المستغيثين ، يا كاشف السوء ، يا أرحم الراحمين ، يا مجيب دعوة المضطرين ، يا إله العالمين ، بك أنزل حاجتي وأنت أعلم بها فاقضها "

اے آسمان و زمين كے پيدا كرنے والے، يا ذالجلال و اكرام، اے لوگوں كى پكار سننے والے، اے مدد طلب كرنے والوں كى مدد كرنے والے، اے برائى اور شر كو دور كرنے والے، اے ارحم الراحمين، اے مجبور و لاچار كى دعا قبول كرنے والے، يا الہ العالمين، مجھے ضرورت اور حاجت ہے اور تو اسے زيادہ جانتا ہے ميرى اس حاجت كو پورا فرما "

اسے اصبھانى نے روايت كيا ہے ديكھيں الترغيب و الترھيب ( 1 / 275 ) اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف الترغيب حديث نمبر ( 419 ) اور السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ حديث نمبر ( 5298 ) ميں اسے موضوع قرار ديا ہے.

اور تيسرى حديث درج ذيل ہے:

عبد اللہ بن ابى اوفى بيان كرتے ہيں كہ رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" جس كسى كو بھى اللہ سبحانہ و تعالى كى جانب يا پھر كسى بنى آدم كى طرف كوئى حاجت ہو تو وہ اچھى طرح وضوء كرے اور دو ركعت ادا كر كے اللہ كى حمد و ثنا بيان كر كے نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھے اور پھر يہ كلمات كہے:

" لا إله إلا الله الحليم الكريم ، سبحان الله رب العرش العظيم ، الحمد لله رب العالمين ، أسألك موجبات رحمتك ، وعزائم مغفرتك ، والغنيمة من كل بر ، والسلامة من كل إثم ، لا تدع لي ذنبا إلا غفرته ، ولا هما إلا فرجته ، ولا حاجة هي لك رضا إلا قضيتها يا أرحم الراحمين "

اللہ حليم و كريم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، رب عرش عظيم كا مالك اللہ سبحانہ و تعالى پاك ہے، سب تعريفات و حمد اللہ رب العالمين كے ليے ہيں، اے اللہ ميں تجھ سے تيرى رحمت واجب ہونے والے امور طلب كرتا ہوں، اور تيرے بخشش كا طلبگار ہوں، اور ہر نيكى كى غنيمت چاہتا ہوں، اور ہر گناہ سے سلامتى طلب كرتا ہوں، ميرے سب گناہ معاف كر دے، اور ميرے سارے غم و پريشانياں دور فرما، اور تيرى رضا و خوشنودى كى جو بھى حاجت و ضرورت ہے وہ پورى فرما اے ارحم الراحمين "

سنن ترمذى حديث نمبر ( 479 ) سنن ابن ماجہ حديث نمبر ( 1384 ).

امام ترمذى اس حديث كے متعلق كہتے ہيں: يہ حديث غريب ہے، اور اس كى سند ميں كلام كى گئى ہے.

اور علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف الترغيب حديث نمبر ( 416 ) ميں ذكر كيا اور اسے ضعيف جدا يعنى بہت زيادہ ضعيف قرار ديا ہے.

اس حديث كا ضعف سوال نمبر ( 10387 ) كے جواب ميں بيان ہو چكا ہے آپ اس كا مطالعہ كريں.

چوتھى حديث درج ذيل ہے:

انس رضى اللہ تعالى عنہ بيان كرتے ہيںكہ نبى كريم صلى اللہ عليہ وسلم نے فرمايا:

" اے على كيا ميں تجھے ايك دعا نہ سكھاؤں جب تجھے كوئى غم و پريشانى ہو تو اپنے رب سے دعا كرو تو اللہ كے حكم سے يہ دعاء قبول ہو اور تيرى پريشانى و غم دور ہو جائے ؟

وضوء كر كے دو ركعت ادا كرو اور اللہ كى حمد و ثنا بيان كرنے كے بعد اپنے نبى صلى اللہ عليہ وسلم پر درود پڑھو اور اپنے ليے اور مومن مردوں اور مومن عورتوں كے ليے بخشش كى دعا كر كے يہ كلمات ادا كرو:

" اللهم أنت تحكم بين عبادك فيما كانوا فيه يختلفون ، لا إله إلا الله العلي العظيم ، لا إله إلا الله الحليم الكريم ، سبحان الله رب السموات السبع ورب العرش العظيم ، الحمد لله رب العالمين ، اللهم كاشف الغم ، مفرج الهم ، مجيب دعوة المضطرين إذا دعوك ، رحمن الدنيا والآخرة ورحيمهما ، فارحمني في حاجتي هذه بقضائها ونجاحها رحمة تغنيني بها عن رحمة من سواك "

اے اللہ تو اپنے بندوں كے مابين فيصلہ كرنے والا ہے جس ميں وہ اختلاف كرتے ہيں، اللہ على العظيم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، اللہ حليم و كريم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہيں، آسمان و زمين اور عرش عظيم كا مالك اللہ سبحانہ و تعالى پاك ہے، سب تعريفات اللہ رب العالمين كے ليے ہيں، اے غموں كو دور كرنے والے اللہ، اور پريشانيوں كو دور كرنے والے، مجبور و لاچار كى دعا كو قبول كرنے والے، دنيا و آخرت كے رحمن اور دونوں كے رحيم، ميرى اس حاجت و ضرورت ميں مجھ پر رحم فرما كر اس ضرورت كو پورا كر اور مجھ پر ايسى رحمت فرما جو مجھے تيرى رحمت كے علاوہ باقى سب سے مستغنى كر دے "

اسے اصبھانى نے روايت كيا ہے ديكھيں: الترغيب و الترھيب ( 1 / 275 ).

علامہ البانى رحمہ اللہ نے اسے ضعيف الترغيب ( 417 ) ميں ضعيف قرار ديا اور كہا ہے: اس كى سند مظلم يعنى اندھيرى ہے اس ميں ايسے روات ہيں جو معروف نہيں. اور السلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ ( 5287 ) بھى ديكھيں.

خلاصہ يہ ہوا كہ:

اس نماز كے متعلق كوئى حديث صحيح نہيں، اس ليے مسلمان شخص كے ليے يہ نماز ادا كرنا مشروع نہيں، بلكہ اس كے مقابلہ ميں جو صحيح احاديث ميں نمازيں اور دعائيں اور اذكار ثابت ہيں وہى كافى ہيں.

دوم:

سوال كرنے والى كا يہ كہنا كہ:

ميں نے اس كا تجربہ كيا ہے اور اسے فائدہ مند پايا ہے"

اس كے علاوہ بھى كئى لوگ ايسى بات كر چكے ہيں، اور پھر اس طرح كے اقوال سے شريعت ثابت نہيں ہوتى اور كوئى امر مشروع نہيں ہو جاتا.

شوكانى رحمہ اللہ كہتے ہيں:

" صرف تجربہ كى بنا پر ہى سنت ثابت نہيں ہو جاتى اور نہ ہى دعاء كى قبوليت اس پر دلالت كرتى ہے كہ قبول كا سبب رسول كريم صلى اللہ عليہ وسلم سے ثابت ہے، بعض اوقات اللہ تعالى تو سنت كے علاوہ كسى اور چيز كے توسل سے بھى دعا قبول فر ليتا ہے، كيونكہ اللہ ارحم الراحمين ہے، اور بعض اوقات دعا كى قبوليت بتدريج ہوتى ہے " انتہى مختصرا

ديكھيں: تحفۃ الذاكرين ( 140 ).

اور شيخ صالح الفوزان حفظہ اللہ كہتے ہيں:

" اور جو يہ ذكر كيا گيا ہے كہ فلان شخص نے اس كا تجربہ كيا تو اسے صحيح پايا، اور فلان نے بھى تجربہ كيا تو اسے صحيح پايا؛ يہ سب اس حديث كے صحيح ہونے پر دلالت نہيں كرتا، بعض اوقات انسان كوئى تجربہ كرتا ہے اور اسے اس كا مقصود حاصل ہو جاتا ہے تو يہ اس كے متعلق جو كچھ كہا گيا يا جو وارد ہوا ہے اس كے صحيح ہونے پر دلالت نہيں كرتا، كيونكہ ہو سكتا ہے اس كا حصول قضاء و قدر سے ہوا ہو، يا پھر فاعل كے ليے ابتلاء و امتحان ہو، تو كسى چيز كا ہو جانا اس كے متعلق وارد ہونے كے صحيح ہونے پر دلالت نہيں كرتا " انتہى

ديكھيں: المنتقى فتاوى الشيخ الفوزان ( 1 / 46 ).
واللہ اعلم.
الاسلام سوال و جواب
 
شمولیت
جولائی 24، 2012
پیغامات
37
ری ایکشن اسکور
150
پوائنٹ
66
السلام علیکم.
محترم شیخ ابوالحسن علوی صاحب...
جزاک اللہ خیراً ..
آپ کے تفصیلی جواب کے لیے میں آپ کا بہت مشکور ہوں.
اللہ آپ پر اپنی خاص نگاہ کرم کرے.
آمین... ثمہ آمین...
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
نمازِ حاجت

نمازِ حاجت كا ذكر چار احادیث میں ملتا ہے، جن میں سے دو احادیث تو موضوع اور من گھڑت ہیں۔ اور ان دو حدیثوں میں سے ایك میں بارہ اور دوسرى حدیث میں دو ركعت كا ذكر ملتا ہے، اور تیسرى حدیث بھى بہت زیادہ ضعیف ہے، اور چوتھى حدیث بھى ضعیف ہے اور ان دونوں حدیثوں میں دو ركعت كا ذكر ہوا ہے۔
ان چار احادیث میں دو تو سرے سے موضوع ، منگھڑت ہیں ،اسلئے ان کا ذکر ہی نہیں کرتے ،
تیسری اور چوتھی جو ضعیف ہیں وہ درج ذیل ہیں ؛

سیدنا عبد اللّٰہ بن ابواوفى بیان كرتے ہیں كہ رسولِ كریم ﷺ نے فرمایا:

''جس كسى كو بھى اللّٰہ سبحانہ و تعالىٰ كى جانب یا پھر كسى بنى آدم كى طرف كوئى حاجت ہو تو وہ اچھى طرح وضوكرے اور دو ركعت ادا كر كے اللّٰہ كى حمد و ثنا بیان كر كے نبى ﷺ پر درود پڑھے اور پھر یہ كلمات كہے:
لاَ إِلَهَ إِلاَّ الله الْحَلِیمُ الْكَرِیمُ سُبْحَانَ الله رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ الْحَمْدُ لله رَبِّ الْعَالَمِینَ أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ وَالْغَنِیمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ وَالسَّلاَمَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ لاَ تَدَعْ لِى ذَنْبًا إِلاَّ غَفَرْتَهُ وَلاَ هَمًّا إِلاَّ فَرَّجْتَهُ وَلاَ حَاجَةً هِىَ لَكَ رِضًا إِلاَّ قَضَیتَهَا یا أَرْحَمَ الرَّاحِمِینَ ‘‘
(جامع ترمذى :479قال الالباني: ضعيف جدا ؛ سنن ابن ماجہ :1384)

''اللّٰہ حلیم و كریم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہیں، اللّٰہ پاک ہےجوعرش عظیم كا پروردگارہے، سب تعریفات و حمد اللّٰہ رب العالمین كے لیے ہیں، اے اللّٰہ میں تجھ سے تیرى رحمت واجب کرنے والے اُمور طلب كرتا ہوں، اور تیری بخشش كا طلبگار ہوں، اور ہر نیكى كى غنیمت چاہتا ہوں، اور ہر گناہ سے سلامتى طلب كرتا ہوں، میرے سب گناہ معاف كر دے، اور میرے سارے غم و پریشانیاں دور فرما، اور تیرى رضا وخوشنودى كا ،جو بھى حاجت و ضرورت ہے ،وہ پورى فرما اے ارحم الراحمین!''

امام ترمذى ﷫اس حدیث كے متعلق كہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اور اس كى سند پر كلام كیا گیا ہے۔اور علامہ البانى ﷫ نے اسے ضعیف الترغیب : 416 میں ذكر كیا اور اسے ضعیف جدّاً قرار دیا ہے۔

4. چوتھى حدیث یہ ہےکہ حضرت انس بیان كرتے ہیں كہ نبى كریم ﷺ نے فرمایا:
(يا علي! ألا أعلمك دعاءً إذا أصابك غم أو هم تدعو به ربك؛ فيستجاب لك بإذن الله، ويفرج عنك؛ توضأ وصل ركعتين، [واحمد الله، وأثن عليه، وصل على نبيك، واستغفر لنفسك وللمؤمنين والمؤمنات، ثم قل:
اللهم! أنت تحكم بين عبادك فيما كانوا فيه يختلفون، لا إله إلا الله العلي العظيم، لا إله إلا الله الحليم الكريم، سبحان الله رب السماوات السبع ورب العرش العظيم، الحمد لله رب العالمين، اللهم! كاشف الغم، مفرج الهم، مجيب دعوة المضطرين إذا دعوك، رحمن الدنيا والآخرة ورحيمهما! فارحمني في حاجتي هذه بقضائها ونجاحها، رحمةً تغنيني بها عن رحمة من سواك] )

((سلسلۃ الاحاديث الضعيفۃ : 5287)
ترجمہ :
''اے على! كیا میں تجھے ایك دعا نہ سكھاؤں جب تجھے كوئى غم و پریشانى ہو تو اپنے ربّ سے دعا كرو تو اللّٰہ كے حكم سے یہ دعا قبول ہو اور تیرى پریشانى و غم دور ہو جائے ؟
وضو كر كے دو ركعت ادا كرو اور اللّٰہ كى حمد و ثنا بیان كرنے كے بعد اپنے نبى ﷺ پر درود پڑھو اور اپنے لیے اور مؤمن مردوں اور مؤمن عورتوں كے لیے بخشش كى دعا كر كے یہ كلمات ادا كرو:

اللهم أنت تحكم بین عبادك فیما كانوا فیه یختلفون لا إله إلا الله العلي العظیم لا إله إلا الله الحلیم الكریم سبحان الله ربّ السماوات السبع وربّ العرش العظیم الحمد لله رب العالمین اللهم كاشف الغم مفرج الهمّ مجیب دعوة المضطرین إذا دعوك رحمن الدنیا والآخرة ورحیمهما فارحمنی في حاجتی هذه بقضائها ونجاحها رحمة تغنینی بها عن رحمة من سواك7

''اے اللّٰہ تو اپنے بندوں كے مابین فیصلہ كرنے والا ہے جس میں وہ اختلاف كرتے ہیں، اللّٰہ على وعظیم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہیں، اللّٰہ حلیم و كریم كے علاوہ كوئى معبود برحق نہیں، آسمان و زمین اور عرش عظیم كا مالك اللّٰہ سبحانہ و تعالىٰ پاك ہے، سب تعریفات اللّٰہ رب العالمین كے لیے ہیں، اے غموں كو دور كرنے والے، اور پریشانیوں كو دور كرنے والے، مجبور و لاچار كى دعا كو قبول كرنے والے، دنیا و آخرت كے رحمن اور دونوں كے رحیم، میرى اس حاجت و ضرورت میں مجھ پر رحم فرما كر اس ضرورت كو پورا كر اور مجھ پر ایسى رحمت فرما جو مجھے تیرى رحمت كے علاوہ باقى سب سے مستغنى كر دے۔''

علامہ البانى ﷫ نے اسے الترغیب : 417 میں ضعیف قرار دیا اور كہا ہےکہ اس كى سند مُظلم یعنی اندھیرى ہے، نیز اس میں ایسے رُواۃ ہیں جو معروف نہیں ۔

خلاصہ یہ ہوا كہ اس نماز كے متعلق كوئى حدیث صحیح نہیں، اس لیے مسلمان شخص كے لیے یہ نماز ادا كرنا مشروع نہیں، بلكہ اس كے مقابلہ میں جو صحیح احادیث میں نمازیں اور دعائیں اور اذكار ثابت ہیں وہى كافى ہیں۔

دوم:سوال كرنے والى محترمہ كا یہ كہنا كہ میں نے اس كا تجربہ كیا ہے اور اسے فائدہ مند پایا ہے۔ اس كے علاوہ بھى كئى لوگ ایسى بات كر چكے ہیں۔ لیکن واضح رہے کہ اس طرح كے اقوال اور تجربات سے شریعت ثابت نہیں ہوتى اور كوئى امر مشروع نہیں ہو جاتا۔

علامہ شوكانى ﷫ كہتے ہیں:
وَأَقُول السّنة لَا تثبت بِمُجَرَّد التجربة وَلَا يخرج بهَا الْفَاعِل للشَّيْء مُعْتَقدًا أَنه سنة عَن كَونه مبتدعا وَقبُول الدُّعَاء لَا يدل على أَن سَبَب الْقبُول ثَابت عَن رَسُول الله صلى الله عَلَيْهِ وَسلم فقد يُجيب الله الدُّعَاء من غير توسل بِسنة وَهُوَ أرْحم الرَّاحِمِينَ وَقد تكون الإستجابة استدراجا
''صرف تجربہ كى بنا پر ہى سنت ثابت نہيں ہو جاتى اور نہ ہى دعا كى قبوليت اس پر دلالت كرتى ہے كہ قبوليّت كا سبب رسولِ كريم ?سے ثابت ہے? بعض اوقات اللّ?ہ تعالى? تو سنّت كے علاوہ كسى اور چيز كے عمل سے بھى دعا قبول فر ليتا ہے، كيونكہ اللّہ ارحم الراحمين ہے، اور بعض اوقات دعا كى قبوليت استدراج ہوتى ہے ''
يعني غلطي کے باوجود اللہ جل شانہ عطا کرتا ہے تاکہ بدعتي کي رسي دراز کرے( تحفۃ الذاكرين )

اور شیخ صالح الفوزان ﷾ كہتے ہیں:

'' اور جو یہ ذكر كیا گیا ہے كہ فلان شخص نے اس كا تجربہ كیا تو اسے صحیح پایا، اور فلان نے بھى تجربہ كیا تو اسے صحیح پایا، یہ سب اس حدیث كے صحیح ہونے پر دلالت نہیں كرتا، بعض اوقات انسان كوئى تجربہ كرتا ہے اور اسے اس كا مقصود حاصل ہو جاتا ہے تو یہ اس كے متعلق جو كچھ كہا گیا یا جو وارد ہوا ہے اس كے صحیح ہونے پر دلالت نہیں كرتا، كیونكہ ہو سكتا ہے اس كا حصول قضا و قدر سے ہوا ہو، یا پھر فاعل كے لیے ابتلا و امتحان ہو، تو كسى چیز كا ہو جانا اس كے صحیح ہونے پر دلالت نہیں كرتا۔''9

نمازِ حاجت کے متعلق ایک اور فتویٰ

سوال: میرا سوال نماز حاجت كے متعلق ہے۔ یہ كتنى بار ادا كرنى چاہیے، اور اس كى ادائیگی كب ممكن ہے؟ كیا نمازِ حاجت اس وقت ادا كى جائے جس میں دعا كى قبولیت متوقع ہو ؟

جواب: مسلمان كے لیے مشروع یہ ہے كہ وہ اللّٰہ تعالى كى عبادت اس طرح كرے جو اللّٰہ تعالى نے كتاب اللّٰہ میں مشروع كى ہے، اور نبى كریم ﷺ سے ثابت ہے، اور اس لیے بھى كہ عبادت توقیفی ہوتى ہے، جس میں كوئى كمى و بیشى نہیں ہو سكتى۔ اور اس لیے كسى بھى عبادت كے متعلق نہیں كہا جا سكتا كہ یہ عبادت مشروع ہے، لیكن جب صحیح دلیل ہو تو مشروع كہا جا سكتا ہے۔جسے نماز حاجت كے نام سے موسوم كیا جاتا ہے، ہمارے علم كے مطابق یہ ضعیف اور منكر قسم كى احادیث میں وارد ہے، جن احادیث سے كوئى حجت اور دلیل نہیں لى جا سكتى، اور نہ ہى عمل كرنے كے لیے ان احادیث كو دلیل بنایا جا سكتا ہے۔10

نماز حاجت كے متعلق حدیث یہ ہے جوعبد اللّٰہ بن ابى اوفى اسلمى بیان كرتے ہیں:

''ہمارے پاس رسول ﷺ آئے اور فرمانے لگے:جس كسى كو اللّٰہ تعالىٰ یا كسى مخلوق كے سامنے ضرورت اور حاجت ہو تو وہ شخص وضو كر كے دو ركعت ادا كرے اور پھر یہ كہے: لا إِلَهَ إِلا الله الْحَلِیمُ الْكَرِیمُ سُبْحَانَ الله رَبِّ الْعَرْشِ الْعَظِیمِ الْحَمْدُ لِله رَبِّ الْعَالَمِینَ اللَّهُمَّ إِنِّي أَسْأَلُكَ مُوجِبَاتِ رَحْمَتِكَ وَعَزَائِمَ مَغْفِرَتِكَ وَالْغَنِیمَةَ مِنْ كُلِّ بِرٍّ وَالسَّلامَةَ مِنْ كُلِّ إِثْمٍ أَسْأَلُكَ أَلا تَدَعَ لِي ذَنْبًا إِلا غَفَرْتَهُ وَلا هَمًّا إِلا فَرَّجْتَهُ وَلا حَاجَةً هِی لَكَ رِضًا إِلا قَضَیتَهَا لِي11

''اللّٰہ تعالىٰ كے علاوہ كوئى معبود برحق نہیں، وہ حلیم و كریم ہے، اللّٰہ تعالىٰ پاك ہے، جو عرشِ عظیم كا رب ہے۔ سب تعریفات اللّٰہ ربّ العالمین كے لیے ہیں، اے اللّٰہ میں تیرى رحمت كو واجب کرنے والى اشیا كا طالب ہوں اور تیرى مغفرت كا، اور ہر نیكى كى غنیمت چاہتا ہوں، اور ہر گناہ سے سلامتى۔ اے اللّٰہ میں تجھ سے سوال كرتا ہوں كہ میرے سارے گناہ معاف كر دے، اور سارے غم اور پریشانیاں دور كر دے، اور جس حاجت میں تیرى رضا ہے وہ میرے لیے پورى كر دے۔پھر دنیاوى اور آخرت كے معاملات سے جو چاہے سوال كرے، اسے دیا جائے گا۔''

امام ترمذى ﷫ كہتے ہیں: یہ حدیث غریب ہے، اس كى سند میں كلام ہے کیونکہ فائد بن عبد الرحمٰن کی حدیث میں ضعف بیان كیا جاتا ہے اور علامہ البانى ﷫ كہتے ہیں کہ یہ ضعیف جدا ہے۔امام حاكم كہتے ہیں: فائد بن عبد الرحمٰن نے ابو اَوفى سے موضوع احادیث روایت كى ہیں۔12

صاحب 'السنن و المبتدعات' نے فائد بن عبد الرحمٰن كے متعلق امام ترمذى ﷫ كا كلام نقل كرنے كے بعد كہا ہے:

''اور امام احمد﷫ كا كہنا ہے كہ یہ متروك ہے اور ابن العربى نے اسے ضعیف كہا ہے۔اور اُن كا كہنا ہے:آپ كو اس حدیث میں جو گفتگوہے ،اس كا علم ہو چكا ہے، اس لیے آپ كے لیے افضل ، بہتر اور سلیم یہى ہے كہ آپ رات كے آخرى پہر اور اذان اور اقامت كے درمیان اور نمازوں میں سلام سے قبل اور جمعہ كے روز دعا كریں كیونكہ یہ دعا كى قبولیت كے اوقات ہیں، اور اسى طرح روزہ افطار كرنے كے وقت۔اور پھر آپ كے پروردگار جل شانہ كا فرمان ہے:''تم مجھ سے دعا كرو میں تمہارى دعا قبول كروں گا۔'' اور ایك دوسرے مقام پر ارشاد بارى تعالىٰ ہے:

''اور جب میرے بندے تجھ سے میرے بارے میں سوال كریں تو اُنہیں كہہ دیں یقیناً میں قریب ہوں، دعا كرنے والے كى دعا كو قبول كرتا ہوں جب وہ مجھے پكارتا ہے۔''

اور ایك مقام پر اس طرح فرمایا:

''اور اللّٰہ كے لیے اچھے اچھے نام ہیں، تم اسے ان ناموں سے پكارو۔''13

حوالہ جات
6.
جامع ترمذى :479قال الالبانی: ضعیف جدا ؛ سنن ابن ماجہ :1384

7. سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ : 5287

8. تحفۃ الذاكرین :140

9. المنتقى من فتاوى شیخ فوزان :1؍46

10. فتاوى اللجنة الدائمة للبحوث العلمیة والافتاء :8؍162

11. سنن ابن ماجہ :1384

12. مشكوٰۃ المصابیح :1؍417

13. كتاب السنن والمبتدعات ازشقیرى :124
 
Top