• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

*عاشورہ کا روزہ، بعض شبہات واعتراضات، اور اس کے جوابات*

شمولیت
مارچ 11، 2016
پیغامات
87
ری ایکشن اسکور
17
پوائنٹ
58
*عاشورہ کا روزہ، بعض شبہات واعتراضات، اور اس کے جوابات*۔

اعدائے اسلام اور ان کے افکار سے متاثر بعض لوگوں کو جب اسلامی احکام وتعلیمات کی حکمت وگہرائی سمجھ میں نہیں آتی ہے تو فورا اسلامی تعلیمات پر تناقض کا حکم لگا دیتے ہیں، اور اپنی مزعومہ آراء کو عقلی دلائل سے مزین کرتے ہیں، کچھ صحیح احادیث کو نوکِ قلم سے کچل کر اسے بعض لوگوں کی سازش بتا کر ناقابلِ عمل قرار دیتے ہیں، اور پھر اس میں کچھ شبہات کا مصالحہ لگاکر تحقیق کے نام پر لوگوں کے درمیان نشرکرتے ہیں۔
منکرینِ سنت نے صومِ عاشوراء کے متعلق وارد احادیث کی بابت چند اعتراضات اٹھائے ہیں، اور انہی اعتراضات کی بنیاد پر وہ ان احادیث کا انکار کرتے ہیں۔

*پہلا اعتراض*: عاشوراء کا روزہ یہودیوں سے لیا گیا ہے، اور یہودیوں کا دین تو پہلے سے ہی تحریف کا شکار ہے تو ان سے یہ عمل لینا کیسے درست ہے؟.

جواب: سب سے پہلی بات تو یہ کہ یہود مدینے میں موجود تھے، اور مدینہ ہجرت کرنے سے قبل ہی نبی صلی اللہ علیہ وسلم مکہ میں عاشورہ کے روزے کا اہتمام کرتے تھے، اس لئے یہ کہنا بالکل صحیح نہیں کہ عاشوراء کا روزہ یہودیوں سے لیا گیا ہے۔
دوسری بات یہ کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم دینی امور میں جو بھی کہتے یا کرتے وہ اللہ کے حکم سے ہوتا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اپنی ذاتی رائے نہیں ہوتی تھی، کیونکہ "وما ینطق عن الہوی ان ھو الا وحی یوحی"(1). نبی صلی اللہ علیہ وسلم وہی فرماتے تھے جو عرش والا کہتا تھا، چنانچہ جو لوگ یہ کہتے ہیں کہ عاشوراء کا روزہ دینِ یہود سے ماخوذ ہے وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم پر بہتان لگاتے ہیں، کیونکہ یہ کیسے ممکن ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو توریت کا نسخہ پڑھنے سے منع کریں اور پھر وہیں سے اسلامی احکام بھی اخذ کریں؟.
تیسری بات یہ کہ صومِ عاشوراء یہودیوں کا تھا لیکن اسلام نے اسے باقی رکھا، کیونکہ پچھلی شریعتوں کی جو باتیں ہماری شریعت سے منسوخ نہیں ہوئی ہوں اور نہ کسی اسلامی احکام سے متعارض ہو رہی ہوں، اور نہ وہ کذب پر مبنی ہوں تو اس پر عمل کیا جا سکتا ہے، چہ جائیکہ عاشوراء کا روزہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکھا، صحابہ کو رکھنے کا حکم دیا، نیز یہ روزہ رمضان کی فرضیت سے قبل فرض بھی تھا، تو یہ کیسے کہا جا سکتا ہے کہ یہ سب رب کی مرضی کے بنا ہوا ؟؟؟.

خلاصہ کلام یہ کہ عاشوراء کا روزہ یہود رکھا کرتے تھے، لیکن اسلام نے بھی اپنے والوں کیلئے اسے مشروع قرار دیا، تو یہ اسلامی تعلیمات کی پیروی ہوئی نہ کہ یہودی تعلیمات کی۔

*دوسرا اعتراض*: یہودی شمسی مہینے کا اعتبار کرتے ہیں اس لئے وہ روزہ بھی شمسی مہینے کے مطابق ہی رکھتے ہوں گے نہ کہ قمری مہینے کے حساب سے، پھر عاشوراء کے روزے کو قمری مہینے کے اعتبار سے رکھنا اور یہ کہنا کہ آج ہی کے دن موسیٰ علیہ السلام کو اللہ تعالیٰ نے فرعون کے ظلم سے نجات دی تھی کیسے صحیح ہو سکتا ہے؟
جواب: صومِ عاشوراء کے سلسلے میں وارد احادیث اسی بات کی طرف اشارہ کرتی ہیں کہ یہود قمری مہینے کا اعتبار کرتے تھے نہ کہ شمسی مہینے کا، کیوں کہ قرآن نے واضح طور پر بتایا ہے کہ تمام انبیاء کرام علیہم الصلاۃ والسلام کی تقویم (کیلینڈر) کی بنیاد قمری مہینے پر تھی، جیسا کہ اللہ رب العالمین نے فرمایا : "إن عدة الشهور عند الله اثنا عشر شهرا..." الآية(2).
اللہ رب العالمین نے سال کے قمری بارہ مہینوں کی تعیین زمین وآسمان کی خلقت کے دن ہی کیا تھا۔
نیز انبیاء کرام نے حج بھی کیا ہے، اور حج کا اعتبار قمری مہینے سے ہوتا ہے نہ کہ شمسی مہینے سے، اور موسی علیہ الصلاۃ والسلام نے بھی حج کیا ہے، تو یقینا انہوں نے قمری مہینے کا ہی اعتبار کیا ہوگا۔
حافظ ابن حجر فرماتے ہیں کہ: یہود روزہ رکھنے میں قمری مہینے کا اعتبار کیا کرتے تھے، اور ہم نے اس کا مشاہدہ بھی کیاہے(3).
اور بعض مورخین نے ذکر کیا ہے کہ یہود چاند دیکھنے کا اہتمام کیا کرتے تھے(4).
پس ثابت ہوا کہ یہود بھی صومِ عاشوراء میں قمری مہینے کا ہی اعتبار کیا کرتے تھے۔

*تیسرا اعتراض*: اگر ہم مان لیتے ہیں کہ یہود عاشوراء کا روزہ بڑے اہتمام سے رکھتے تھے، لیکن آج کے زمانے میں تو شاید ہی کوئی یہودی اس روزے کو رکھتا ہوگا، تو اس بات پر یقین کرنا کیسے ممکن ہوگا کہ یہود پہلے اس روزہ کو رکھتے تھے، اور پھر بعد میں انہوں نے کیوں چھوڑ دیا، جب وہ اس دن کو خوشی کے طور پر مناتے تھے اور اس دن روزہ بھی رکھتے تھے تو آج کے زمانے میں کیوں نہیں رکھتے ہیں؟

جواب: منکرینِ سنت کے اس اعتراض کی روشنی میں پہلا اعتراض کالمعدوم قرار پاتا ہے کیونکہ جب ان کو یہودیوں کے روزہ رکھنے کا یقین ہی نہیں تو پھر یہ یہ اعتراض کیا معنی رکھتا ہے کہ عاشوراء کا روزہ یہودیوں سے لیا گیا ہے؟
خیر یہ تو ان کے تناقض کی بات تھی، اب اس اعتراض کے جواب کی طرف آتے ہیں۔
سب سے پہلی بات یہ کہ ہم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بات کو مان کر عمل کرنے کے مکلف ہیں نہ کہ یہود کو دیکھ کر۔
دوسری بات یہ کہ یہود کب اپنے اسلاف کے طرزِ عمل کو اپناتے ہیں، جب وہ اپنے نبی کے طرزِ عمل کو اپنانے کے قائل نہیں تو پھر ان کے اسلاف کا عمل تو بہت دور کی بات ہے، اور احادیث مبارکہ صحیحہ ہمیں بتلاتی ہے کہ آج کے یہودیوں کے اسلاف عاشورہ کا روزہ بڑے اہتمام سے رکھتے تھے، اب جنہیں یہودیوں پر اعتبار ہے وہ یہودیوں کو دیکھ روزہ نہ رکھیں، اور جنہیں رحمت للعالمین صلی اللہ علیہ وسلم کی بات پر اعتبار ہے وہ ان کی بات کو مان کر روزہ رکھیں۔
نیز اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں ذکر کیا ہے کہ یہود عزیر علیہ الصلاۃ والسلام کو اللہ کا بیٹا گردانتے تھے، لیکن آج کے زمانے میں شاید ہی کوئی ایسا یہودی ہوگا جو عزیر علیہ الصلاۃ والسلام کو اللہ کا بیٹا ماننے کا عقیدہ رکھتا ہوگا، تو کیا منکرینِ سنت موجودہ یہودیوں کے عمل سے استدلال کرکے قرآن مجید کی آیت کا انکار کریں گے؟۔


ابو احمد کلیم
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
(1) سورۃ النجم (3٬4)
(2) سورۃ التوبہ (36).
(3) فتح الباری (11/527).
(4) تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو التقاویم٬ لمحمد فیاض (97).
 
Top