• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عباد امثالکم سے کون مراد ہیں؟

شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
کچھ لوگ سورت اعراف کی آیت نمبر ١۹۴ کو دلیل بناتے ہیں کہ من دون اللہ سے فقط بت ہی نہیں بلکہ صالحین بھی مراد ہیں کیوں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (194) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو وہ بھی تمہاری مثل بندے ہیں تو ثابت ہوا یہاں فقط بت نہیں بلکہ صالحین بھی مراد ہیں۔
جوابا عرض ہے کہ یہاں عباد امثالکم سے بت ہی مراد ہیں اور رہ گئی بات ان کو عباد کہنے کی تو ان کو عباد مخلوق مملوک کے معنی میں کہا گیا ہے کہ وہ بھی تمہاری طرح مخلوق ہیں پھر اس سے اگلی آیت بھی اس بات کو واضح کر رہی ہے کہ یہاں بت ہی مراد ہیں۔اللہ فرماتا ہے أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ (195)اس آیت میں کہا گیا کہ کیا ان کے ہاتھ ہیں ؟ِ کیا ان کے پاوں ہیں یا ان کی آنکھیںِ ہیںِ؟یعنی ان سے ان اشیا کی نفی کی گئی ہے اور بتا یا گیا ہے کہ جس طرح تم مخلوق ہو وہ بھی مخلوق ہیں مملوک ہیں بلکہ وہ تو تم سے بھی کم تر ہیں نہ ان کی آنکھیں ہیں نہ ہاتھ۔
تفسیر خازن میں ہے
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمْثالُكُمْ يعني أن الأصنام التي يعبدها هؤلاء المشركون إنما هي مملوكة لله أمثالهم
قاضی بیضاوی فرماتے ہیں
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أي تعبدونهم وتسمونهم آلهة. عِبادٌ أَمْثالُكُمْ من حيث إنها مملوكة مسخرة.(تفسیر بیضاوی)
تفسر قرطبی میں ہے
(إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمْثالُكُمْ) حَاجَّهُمْ فِي عِبَادَةِ الْأَصْنَامِ." تَدْعُونَ" تَعْبُدُونَ. وَقِيلَ: تَدْعُونَهَا آلِهَةً." مِنْ دُونِ اللَّهِ" أَيْ مِنْ غَيْرِ اللَّهِ. وَسُمِّيَتِ الْأَوْثَانُ عباد الأنها مَمْلُوكَةٌ لِلَّهِ مُسَخَّرَةٌ. الْحَسَنُ: الْمَعْنَى أَنَّ الْأَصْنَامَ مخلوقة أمثالكم.
تفسیر مدراک میں ہے
{إِنَّ الذين تَدْعُونَ مِن دُونِ الله} أي تعبدونهم وتسمونهم آلهة {عباد أمثالكم} أى مخلقون مملوكون أمثالكم
ان تمام تفاسیر سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہاں بت مراد ہیں اور ان کو عباد مملوک ہونے کی حثیت سے کہا گیا ہے ۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
کچھ لوگ سورت اعراف کی آیت نمبر ١۹۴ کو دلیل بناتے ہیں کہ من دون اللہ سے فقط بت ہی نہیں بلکہ صالحین بھی مراد ہیں کیوں کہ اللہ تعالی فرماتا ہے إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبَادٌ أَمْثَالُكُمْ فَادْعُوهُمْ فَلْيَسْتَجِيبُوا لَكُمْ إِنْ كُنْتُمْ صَادِقِينَ (194) اس آیت کا ترجمہ ہے کہ جن کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو وہ بھی تمہاری مثل بندے ہیں تو ثابت ہوا یہاں فقط بت نہیں بلکہ صالحین بھی مراد ہیں۔
جوابا عرض ہے کہ یہاں عباد امثالکم سے بت ہی مراد ہیں اور رہ گئی بات ان کو عباد کہنے کی تو ان کو عباد مخلوق مملوک کے معنی میں کہا گیا ہے کہ وہ بھی تمہاری طرح مخلوق ہیں پھر اس سے اگلی آیت بھی اس بات کو واضح کر رہی ہے کہ یہاں بت ہی مراد ہیں۔اللہ فرماتا ہے أَلَهُمْ أَرْجُلٌ يَمْشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَيْدٍ يَبْطِشُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ أَعْيُنٌ يُبْصِرُونَ بِهَا أَمْ لَهُمْ آذَانٌ يَسْمَعُونَ بِهَا قُلِ ادْعُوا شُرَكَاءَكُمْ ثُمَّ كِيدُونِ فَلَا تُنْظِرُونِ (195)اس آیت میں کہا گیا کہ کیا ان کے ہاتھ ہیں ؟ِ کیا ان کے پاوں ہیں یا ان کی آنکھیںِ ہیںِ؟یعنی ان سے ان اشیا کی نفی کی گئی ہے اور بتا یا گیا ہے کہ جس طرح تم مخلوق ہو وہ بھی مخلوق ہیں مملوک ہیں بلکہ وہ تو تم سے بھی کم تر ہیں نہ ان کی آنکھیں ہیں نہ ہاتھ۔
تفسیر خازن میں ہے
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمْثالُكُمْ يعني أن الأصنام التي يعبدها هؤلاء المشركون إنما هي مملوكة لله أمثالهم
قاضی بیضاوی فرماتے ہیں
إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ أي تعبدونهم وتسمونهم آلهة. عِبادٌ أَمْثالُكُمْ من حيث إنها مملوكة مسخرة.(تفسیر بیضاوی)
تفسر قرطبی میں ہے
(إِنَّ الَّذِينَ تَدْعُونَ مِنْ دُونِ اللَّهِ عِبادٌ أَمْثالُكُمْ) حَاجَّهُمْ فِي عِبَادَةِ الْأَصْنَامِ." تَدْعُونَ" تَعْبُدُونَ. وَقِيلَ: تَدْعُونَهَا آلِهَةً." مِنْ دُونِ اللَّهِ" أَيْ مِنْ غَيْرِ اللَّهِ. وَسُمِّيَتِ الْأَوْثَانُ عباد الأنها مَمْلُوكَةٌ لِلَّهِ مُسَخَّرَةٌ. الْحَسَنُ: الْمَعْنَى أَنَّ الْأَصْنَامَ مخلوقة أمثالكم.
تفسیر مدراک میں ہے
{إِنَّ الذين تَدْعُونَ مِن دُونِ الله} أي تعبدونهم وتسمونهم آلهة {عباد أمثالكم} أى مخلقون مملوكون أمثالكم
ان تمام تفاسیر سے یہ بات واضح ہو گئی کہ یہاں بت مراد ہیں اور ان کو عباد مملوک ہونے کی حثیت سے کہا گیا ہے ۔
السلام علیکم:تفسیر در منشور میں ہے {أَيُشْرِكُونَ مَا لا يَخْلُقُ شَيْئاً وَهُمْ يُخْلَقُونَ (191)تو اس کے بارے میں حسن رحمہ اللہ کہتے ہیں ’’یعنی وہ اس کی پیروی کرتے ہیں جو کسی شے کو پیدا نہیں کر سکتا۔اور یہ’’شیاطین‘‘کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے اور یہ خود پیدا کئے گئے ہیں بلکہ وَلا يَسْتَطِيعُونَ لَهُمْ نَصْراً کے بارے کہتے ہیں کہ جس کے لئے وہ وہ انہیں پکارتے ہیں وہ ان کو مدد پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اگر یہ آیت صرف بتوں سے متعلق ہے تویہاں بت کی بجائے شیاطین کیوں کہا گیا؟
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
السلام علیکم:تفسیر در منشور میں ہے {أَيُشْرِكُونَ مَا لا يَخْلُقُ شَيْئاً وَهُمْ يُخْلَقُونَ (191)تو اس کے بارے میں حسن رحمہ اللہ کہتے ہیں ’’یعنی وہ اس کی پیروی کرتے ہیں جو کسی شے کو پیدا نہیں کر سکتا۔اور یہ’’شیاطین‘‘کسی چیز کو پیدا نہیں کر سکتے اور یہ خود پیدا کئے گئے ہیں بلکہ وَلا يَسْتَطِيعُونَ لَهُمْ نَصْراً کے بارے کہتے ہیں کہ جس کے لئے وہ وہ انہیں پکارتے ہیں وہ ان کو مدد پہنچانے کی طاقت نہیں رکھتے۔ اگر یہ آیت صرف بتوں سے متعلق ہے تویہاں بت کی بجائے شیاطین کیوں کہا گیا؟
اور اس سے پہلے کی آیات بھی پڑھیں اس می اس آیت۔۔{فلما آتاهما صالحًا جعلًا له شركاء فيما آتاهما} [الأعراف: 190].کی تفسیر میں حضرت ابن عباسؓ نے فرمایا وہ’’اطاعت و پیروی‘‘میں اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک بناتے ہیں حالانکہ اس کی ’’عبادت ‘‘میں کسی کو شریک نہیں بناتے۔۔۔۔تفسیر در منشور
کیا بت کی اطاعت اور پیروی بھی کی جا سکتی ہے اگر ہاں تو کس طرح؟یہ تو کسی ذی روح کی ہی ہو سکتی ہے نہ کہ بے جان کی۔۔۔اور پھر یہاں انہوں نے یہ بھی بتا دیا کہ وہ عبادت میں شریک نہیں بناتے تھے بلکہ اطاعت اور پیروی میں بناتے تھے۔۔
 
شمولیت
مئی 17، 2015
پیغامات
153
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
60
آپ لوگ میرا سوال سمجھے جب اللہ ہر ایک کی پکار کو سنتا ہے تو پھر حضرت عمر نے خود دعا کیوں نہیں کی؟؟؟کیوں حضرت عباس سے کروائی؟کیا اللہ نے ان کی سننی نہیں تھی؟
اور جہاں تک بات طالب علم بھائی کے جواب کی تو ان کے بقول کہ نیک آدمی سے دعا اس کے نیک اعمال کی وجہ سے کروائی جاتی ہے تو جب کسی کے نیک اعمال دعا کی قبولیت کے چانسس بڑھا سکتے ہیں تو خود وہ اعمال کرنے والا کیوں نہیں؟
اور یہاں میں کم یا زیادہ فضیلت کی بات نہیں نیک اور بد کی بات کی ہے۔
آپ نے طالب علم بھائی ک اس جواب کو نظر انداز کر دیا حالانکہ اس میں آپ کی بات کا جواب ہے اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ اللہ نیک کی سنتا ہے دوسرے کی نہیں تو کیا عمرؓ خود نیک نہیں تھے؟اور اگر آپ یہ کہنا چاہتے ہیں کہ نیک کی زیادہ سنتا ہے تو اس حدیث میں تو خود رسول اللہﷺ نے دعا کرنے کو کہا کیا رسول اللہﷺ سے زیادہ بھی کوئی نیک ہو سکتا ہے!!اصل بات یہ ہے کہ ہمیں جس طرح تعلیم دی گئی ہم ویسے ہی کرنے کے پابند ہیں کسی نیک زندہ بزگ شخص سے دعا کرنے کا طریقہ خود رسول اللہﷺ سے ثابت ہے اور ان کے صحابہ سے تو اس کا انکار کون کرے گا مگر کبھی کسی قبر والے سے یا غائب شخص سے دعا کروانے کی کوئی حدیث نہیں ہے اس لئے اسے جائز بھی نہیں کہا جا سکتا۔۔۔عمرؓ نے تو حجر اسود تک کو مخاطب کر کے کہ دیا تھا کہ تو صرف ایک پتھر ہے نہ نفع دے سکتا ہے نہ نقصان اگر میں نے رسول اللہﷺ کو تجھے بوسہ دیتے نہ دیکھا ہوتا تو کبھی تجھے بوسہ نہ دیا ہوتا اسی طرح آج ہم کہتے ہیں زندہ نیک شخص سے دعا کی تعلیم تو ملتی ہے اس لئے وہ جائز ہے اور مردہ سے کروانے کی کوئی دلیل نہیں اس لئے وہ نا جائز ہے۔۔اور نہ ہی کسی غائب شخص کو پکارنے کی تعلیم کسی آیت یا حدیث سے ملتی ہے۔ جو آپ نے نذر انداز کی وہ حدیث یہ ہے
عمررضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے ادائیگی عمرہ کے لئے اجازت مانگی تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجھے اجازت عطا فرمائی اور فرمایا کہ اے میرے چھوٹے بھائی اپنی دعا میں ہمیں شریک کر لینا اور دعا کے وقت مجھے نہ بھولنا حضرت عمر کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ایسا کلمہ ارشاد فرمایا کہ اگر اس کے بدلہ میں مجھے تمام دنیا بھی دے دی جائے تو مجھے خوشی نہ ہوگی۔
(ابو داؤد،ترمذی )
 

طالب علم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 15، 2011
پیغامات
227
ری ایکشن اسکور
574
پوائنٹ
104
حضرت جو دعوی میں نے کیا تھا میں اسی پر قائم ہوں۔آپ سے اس کا رد ہو سکتا ہے تو کیجئے۔اور جناب طالب علم صاحب اعلی حضرت نے کہاں قرآن میں تبدیلی کی؟اور جہاں تک شطحیات ہیں تو میں پہلے کہہ چکا کہ یہ سب صاحب حال تھے ہم نہ تو ان کی باتوں کو صحیح کہتے ہیں اور نہ ہی ان کی تکفیر کرتے ہیں۔
قرآن کا من مانا ترجمہ کیا، فی الحال چند ثبوت حاضر خدمت ہیں

دعا یعنی پکارنا کا ترجمہ انہوں نے بعض جگہ پر غلط اور بعض جگہ پر صیح کیا، اس کی کیا وجہ ہے، آپ اس کی کیا توضیح کرتے ہیں؟؟؟؟
کہیں خان صاحب عربی سے نابلد عوام سے کچھ چھپانا تو نہیں چاہ رہے؟؟؟؟


adoowrightandwrong.gif
 
Top