• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

عرض مؤلف و مقدمہ (تفہیم الفرائض)

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
عرض مؤلف


نوٹ:- پی ڈی ایف میں یہ کتاب ڈاؤنلوڈ کرنے کے لئے یہاں یا یہاں کلک کریں

بسم اللہ الرحمن الرحیم​
تالیف : کفایت اللہ سنابلی​
میراث واحد علم ہے جسے اللہ تعالی قرآن مجید میں بڑی تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ، اس قدر تفصیل سے کسی اور مسئلہ کا بیان قرآن میں نہیں ہے ، نیز اس علم کا تعلق ہرشخص سے ہے لہٰذا ہرایک کے لئے اس کا جاننا انتہائی اہم ہے ، بالخصوص بر صغیر میں تو اس علم کے تعلق سے ذرا بھی غفلت مناسب نہیں کیونکہ زمانہ جاہلیت کی طرح یہاں بھی بیشتر مقامات پر خواتین کو میراث میں حصہ ہی نہیں دیا جاتا حالانکہ قرآن میں اللہ تعالی نے میراث کی تفصیلات سورۃ النساء میں ہی پیش کی ہے۔
اورعجیب بات تو یہ ہے کہ ایک طرف بیٹے باپ کی ساری جائداد ہڑپ کر جاتے ہیں اور بیٹیوں کو شریک ہی نہیں کرتے، دوسری طرف باپ کی صرف بیٹیاں ہوں تو کل جائداد وہی سمیٹ لیتی ہیں اور باپ کے بھائیوں یا بہنوں کو کچھ نہیں دیتیں ، اور باپ کے والدین بھی موجود ہوں تو بیٹے یا بیٹیوں میں سے کوئی بھی ا ن کی طرف دھیان نہیں دیتا۔اس طرح بعض حالات میں مرد ، عورتوں کے حصے ہڑپ کرجاتے ہیں اور بعض حالات میں عورتیں مردوں کے حصے نگل جاتی ہیں۔
یاد رہے کہ میراث کا تعلق حقوق العباد سے ہے ، اور جو شخص کسی کی میراث ہڑپ کرے گا قیامت کے روز اسے ایک ایک پائی کا حساب دینا ہوگا ؛ اللہ رب العالمین نے قرآن مجید میں میراث کی تفصیلات بتلانے کے بعد اس پر عمل کرنے کی صورت میں جنت کی بشارت دی ہے، اور ان سے روگردانی کی صورت میں جہنم کی وعید سنائی ہے۔
لہٰذا ضروی ہے کہ اسلامی نظام میراث کو سیکھا جائے اورہرخاص وعام کو اسے سکھایا جائے ، افسوس ہے کہ ہمارے یہاں اس علم کے حوالے سے بڑی غفلت برتی جارہی ہے اور اس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ اسے مشکل علم سمجھ لیا گیا ہے حالانکہ یہ بہت ہی آسان ہے حتی کہ بعض نے کہا ہے ”هو علم يوم وليلة“ یعنی اس علم کو چوبیس گھنٹے میں سیکھا جاسکتاہے۔
لیکن کوئی چیز گرچہ فی نفسہ آسان ہو لیکن اسے آسان طریقے سے پیش نہ کیا جائے تو وہ چیز مشکل بن جاتی ہے ، اس کے برخلاف کسی مشکل چیز کوآسان طریقہ سے پیش کردینا ، اسے کافی حد آسان بنادیتاہے ، ناچیز کی ہمیشہ سے کوشش رہی ہے کہ جو کچھ بھی لکھا جائے نہایت عام فہم اور آسان لب ولہجے میں لکھا جائے تاکہ ہر قاری بآسانی اسے سمجھ سکے ۔الحمدللہ یہ کوشش کافی حدتک کامیاب رہی ہے جیساکہ بہت سے قارئین نے زبانی یا تحریری طور پر اس کی شہادت دی ہے ۔
جب قارئین کی طرف سے متواتر یہ تبصرے سننے کو ملے کہ ناچیز کی تحریروں میں تسہیل ہوتی ہے اور مشکل سے مشکل مباحث بھی بآسانی سمجھ میں آجاتے ہیں تو خیال آیا کہ علم فرائض پر بھی ایک کتاب لکھنی چاہئے، ممکن ہے یہ علم بھی ناچیز کے ذریعے کچھ لوگوں کے لئے آسان ہوجائے اور ثواب جاریہ کا ذریعہ بھی بن جائے۔اسی ارادے کے تحت اس کتاب کی ترتیب عمل میں آئی والحمد للہ ۔
راقم الحروف کے ناقص تجربے کی روشنی میں اس علم کے مشکل ہونے کی اسباب شاید درج ذیل ہیں:
1۔ عام کتابوں میں مناسب ترتیب پیش کرنے کا اہتمام نہیں کیا گیا ہے جس سے کافی اشتباہ ہوتاہے۔
2۔ آسان اورجدید اصولوں کے بجائے مشکل اور روایتی اصولوں کا سہارا لیا جاتا ہے جو کہ نسبتا مشکل ہیں۔
3۔ضروی اور غیر ضروی مباحث کی تعیین نہیں کی گئی جس سے یہ سمجھ لیا جاتا ہے کہ سارے مباحث کا جاننا ضروری ہے ۔پھرطلب الکل کے نتیجے میں فوت الکل کا انجام سامنے آتا ہے۔
4۔۔ہر بات کو دلیل کے ساتھ سمجھانے کے بجائے ، اصولوں اور شرطوں کو رٹا کر ان کی روشنی میں نتائج سکھلانے کی کوشش کی جاتی ہے ، اس سے نتائج کا علم تو ہوجاتا ہے لیکن دلائل سمجھ میں نہیں آتے ، اور اس طرح علم فرائض سیکھنے والے ہرمسئلہ کا حل تو پیش کردیتے ہیں لیکن کوئی دلیل کا مطالبہ کرلے تو بے بس ہوجاتے ہیں ۔
بلکہ یہ حضرات خود بھی اگر ایک عرصہ تک مشق ترک کردیں تو ان کے ذہن سے سب کچھ محو ہوجاتاہے۔کیونکہ دلائل سے اصولوں کا رشتہ سمجھے بغیراصولوں کو محض رٹ لینا ، عارضی حفظ کے لحاظ سے تو آسان ہے لیکن دیرتک انہیں ذہن میں باقی رکھنا بہت مشکل ہے ، بلکہ فہم و تدبر کے عادی حضرات کے لئے رٹنا بھی مشکل امر ہوتا ہے۔اس طرح یہ چیز بھی اس فن کو مشکل بنادیتی ہے ۔
زیر نظرکتاب میں کوشش کی گئی ہے کہ ان اسباب کو دور کیا جائے اور اس علم کو زیادہ سے زیادہ آسان بنا کرپیش کیاجائے۔نیز رٹانے کے بجائے سمجھانے کی کوشش کی جائے اسی مناسبت سے اس کتاب کا نام ”تفہیم الفرائض“ رکھا گیا ہے۔کتاب کو ایک مقدمہ اور چھ حصوں تقسیم کیا گیاہے۔

مقدمہ:
اس میں علم فرائض کا تعارف ، ترکہ کے مصارف ، وراثت کے ارکان وشروط وغیرہ کا مختصر تذکرۃ ہے ،اس ضمن میں وراثت کے شروط اچھی طرح سمجھ لینا چاہئے تاکہ آگے چل کو مفقود ، حمل اور الموت الجماعی کے مباحث سمجھنے میں آسانی ہو۔

پہلا حصہ: اس میں تین ابواب ہیں
باب اول: وارثین کی فہرست:
● وارثین کی فہرست کو گروپوں(زوجین ، فروع ، اصول ، حواشی) میں تقسیم کیا گیا ہے پھرہرگروپ کو ان کے درجہ کے اعتبار سے بالترتیب ذکر کیا گیا نیز گروپ کے اندر موجود وارثین کو بھی درجات کے لحاظ سے ترتیب وار ذکر کیا گیا ہے۔وارثین کو اس طرح یاد رکھنے میں درج ذیل فوائد ہیں:
1۔ جملہ وارثین کی فہرست یاد رکھنے میں آسانی ہوتی ہے۔
2۔ میت سے وارثین کا تعلق اور ان کا درجہ بھی ذہن میں رہتاہے۔
3۔ جہت ، درجہ اور قوت کے لحاظ سے عصبہ کی ترتیب بھی ساتھ میں یاد ہوجاتی ہے۔
4۔ حجب کے قواعد سمجھنے اورانہیں اپلائی کرنے میں یہ ترتیب بہت معاون ثابت ہوتی ہے۔
5۔ اصحاب الفروض و عصبہ کے حالات یاد رکھنے اور اورانہیں ان کا حصے دینے میں آسانی ہوتی ہے۔
6۔ وارثین کی عدم موجودگی میں ذوی الارحام میں ترکہ تقسیم کرنے کی نوبت آئے تو اس میں بھی آسانی ہوتی ہے۔
● وارثین کا پانچواں گروپ اصحاب الولاء ہے لیکن ہم نے وارثین کی فہرست میں اسے ذکر نہیں کیا ہے بلکہ الگ ذکرکیا ہے، کیونکہ اول تو اس فہرست میں سب میت کے(صہری یانسبی) رشتہ دار ہی ہوتے ہیں، اور جبکہ اصحاب الولاء کا معاملہ اس سے مختلف ہے ،دوم عصرحاضر میں اس گروپ کا کوئی وجود ہی نہیں ہے، اس لئے ان پر بحث کرنا بے فائدہ ہے ۔البتہ چونکہ یہ عصبہ ہی ہوتے ہیں اس لئے عصبہ کی بحث میں ضمنا ان کا تذکرہ کر دیا گیا ہے۔اس بناپر یہ نہ سمجھا جائے کہ اصحاب الولاء کو وارثین کی فہرست کو خارج کردیا گیا ہے بلکہ یہ بات نوٹ کی جائے کہ یہ فہرست رشتہ دار (صہری ونسبی) وارثین کی فہرست ہے ۔
اس بناپر ہماری پیش کردہ فہرست میں مرد وارثین کی تعداد 14 ہے جبکہ دیگر کتابوں میں یہ تعداد 15 ملے گی جس میں ایک صاحب ولاء کا اضافہ ہوگا۔
● ہم نے ہر طرح کی جدہ کو خواہ دادی ہو نانی سب کو ایک ہی شمار کیا ہے ،بعض اہل علم ان دونوں کو ایک ہی شمار کرتے ہیں جیسا کہ فرائض کی متعدد کتابوں میں ہے ، ہمارے نزدیک یہی زیادہ مناسب ہے ۔کیونکہ سب ایک ہی درجے میں ہیں اور ایک ہی حصہ میں سب شریک ہوتی ہیں۔ جبکہ بعض اہل علم دادی اور نانی کو الگ الگ شمار کرتے ہیں اس اعتبار سے ان کے یہاں میں خواتین کی فہرست میں ایک تعداد بڑھ جاتی ہے۔
نیز ہم نے گروپ ولاء کو بھی خارج کیا ہے جس میں ایک خاتون بھی آتی ہے ۔ان دو وجوہات کے سبب خواتین کی فہرست میں ہمارے یہاں صرف 8 کی تعداد ہوگی جب کہ دیگر اہل علم کے یہاں یہ تعداد 10 ہوگی ۔


باب دوم: واثین کی قسمیں :
اس کے تحت وارثین کی پہلی قسم اصحاب الفروض کی مختصر تشریح ہے اور ان کے حصہ پانے کے حالات و شروط پریہاں کوئی بحث نہیں ہے۔
اس کے بعد وارثین کی دوسری قسم عصبہ کی مفصل تشریح ہے ، اوران کے حصہ پانے کے حالات وشروط کی مفصل وضاحت ہے ۔یعنی اصحاب الفروض کے حصوں پر بحث سے پہلے ہم نے عصبہ کے حصوں پر بحث کی ہے اور یہ طریقہ ہم نے فرائض کی عام کتابوں سے ہٹ کر اپنایا ہے ۔
عام کتابوں میں پہلے اصحاب الفروض پر مکمل بحث ہوتی ہے اس کے بعد عصبہ پر بحث ہوتی ہے اور ایسا شاید اس لئے کیونکہ حدیث ہے کہ پہلے اصحاب الفروض کو ان کے حصے دو اور بعد میں جو بچے وہ عصبہ کو دو ، حالانکہ اس حدیث کا مفاد صرف یہ ہے کہ عصبہ اصحاب الفروض سے بچا ہوا حصہ پائیں گے ، لیکن اس بنیاد پر یہ طریقہ تدریس اپنا لینا کہ پہلے اصحاب الفروض پر بحث ہوگی بعد میں عصبہ پر، یہ مناسب نہیں ہے کیونکہ اصحاب الفروض پر بحث مکمل تبھی سمجھ میں آئے گی جب عصبہ کی بحث اچھی طرح سمجھ میں آگئی ہو ، نیز قرآن نے تو مسائل فرائض کی شروعات ہی عصبہ کے ذکر سے کی ہے ۔
یادرہے کہ عصبہ کی بحث بہت ہی آسان ہے ، اور یہ بحث اصحاب الفروض کی بحث کو بھی آسان کردیتی ہے لیکن عصبہ کو بعد میں پڑھنے کے سبب اصحاب الفروض اور عصبہ دونوں کی بحث مشکل ہوجاتی ہے۔کیونکہ ایسی صورت میں مسائل کے حل کا دارو مدار سمجھنے کے بجائے رٹے ہوئے جملوں پر ہوتا ہے۔
عصبہ کے بعد ذوی الارحام کی قسم بتلائی گئی ہے لیکن یہاں کوئی تفصیل ذکر نہیں کی گئی ہے کیونکہ ان کو حصہ دینے کی نوبت شاذ ونادرہی آتی ہے نیز ان کی تفصیل اختلافی ہونے کے ساتھ ساتھ کافی پیچید ہ بھی ہے ، البتہ کتاب کے اختتام کے بعد اخیر میں ان پر مختصر بحث شامل کردی گئی ہے جو کافی ہے ۔
باب سوم: وراثین بحیث استحقاق وحرمان(حجب)
● اس بحث کو فرائض کی عام کتابوں میں نہ صرف اصحاب الفروض بلکہ عصبہ کے بھی بعد ذکر کیا گیا ہے ، جس سے یہ علم بہت مشکل ہوجاتا ہے ، کیونکہ اس کے بعد حصے دینے کی مشق نہیں ہوتی ہے جس کے سبب حجب کے قواعد کی تطبیق پر مشق نہیں ہوپاتی۔اور یہ بات اچھی طرح نوٹ کرلینی چاہئے کہ جس شخص کو حجب کی بحث سمجھ میں نہیں آئی اس کے لئے علم فرائض کبھی بھی آسان نہیں ہوسکتا کیونکہ اس کے بغیر وارثین کو حصہ دینے کا پورا دار و مدار وارثین کے استحقاق کی رٹی ہوئی شرطوں پر ہوتا ہے۔
اس باب میں سب سے پہلے حجب کے قواعد ذکر کردئے گئے ہیں جو حجب کی ساری بحث کا خلاصہ ہیں اس کے بعد ان قواعد کے دلائل بھی ذکر کئے گئے ہیں تاکہ حجب کا فلسفہ پوری طرح سمجھ میں آجائے۔
یادرہے کہ وارثین کو حصے دینے میں جو دشواری پیش آتی ہے اس کی بنیادی وجہ عصبہ اورحجب کی بحث کو نہ سمجھا ہے۔اس دشواری کو دور کرنے کا دو ہی راستہ ہے یا تو وارثین کی قسموں اور ان کو ملنے والے حصوں کے فلسفہ کو اچھی طرح سمجھ لیا جائے یا پھر وارثین کو حصے ملنے کی جو شرطیں ہیں انہیں اچھی طرح رٹ لیا جائے ، پہلا طریقہ فہم و تدبر اور دقت نظرکا متقاضی ہے اور دوسرے طریقے کے لے رٹنے کی صلاحیت درکارہے۔
● قرآن نے بنات اور اخوات کا زیادہ سے زیادہ فرض حصہ ثلثین مقررکیا ہے۔لہٰذا کسی مسئلہ میں اوپر کی بنات مثلا بیٹیوں کو ثلثین مل گیا تو اب نیچے کی بنات یعنی پوتیوں کو فرضا کچھ نہیں مل سکتا البتہ تعصیبا مل سکتاہے۔ یہی حال اخوات کا بھی ہے ۔
ان صورتوں میں اعلی طبقہ کی بنات یا اخوات میں ثلثین ختم ہوجانے کے سبب جب نچلے طبقہ کی بنات یا اخوات کو کچھ نہیں مل پاتا تو وہ محجوب نہیں بلکہ محروم کہلاتی ہیں۔
لیکن اس کتاب میں جہاں کسی وارث کے محجوب ہونے کی اجمالی حالت بتلائی گئی ہے، اس میں یہ محروم والی حالت بھی شامل کرلی گئی ہے۔البتہ تفصیل کے مقام پردونوں کیفیت واضح کردی گئی ہے۔

حصہ دوم: وارثین کے حصے
اس میں اصحاب الفروض کے حصے کی تفصیلات ہیں نیز ساتھ ہی عصبہ کے اصول اورحجب کے قواعد کی بھی مشق ہے ، اگر عصبہ اورحجب کی بحث اچھی طرح سمجھ میں آگئی تو اس مرحلہ میں بڑی آسانی ہوگی ۔
اصحاب الفروض کے حصوں کو ذکر کرنے کا دو طریقہ رائج ہے :
پہلا طریقہ:
کسی فرض مثلا نصف(1/2) کو ذکر کیا جائے پھر یہ بتلایا جائے کہ یہ حصہ کن کن وارثین کو ملے گا اورکن کن شرائط کے ساتھ ملے گا۔ اسی طرح سارے فروض کو ذکر کیا جائے۔
دوسرا طریقہ:
کسی صاحب فرض مثلا أب(باپ) کو ذکر کیا جائے اس کے بعد اس کے حصہ پانے کی ساری حالتیں مع شرائط ذکر کی جائیں گے۔
اس کتاب میں یہ دوسرا طریقہ ہی اپنایا گیا ہے کیونکہ یہ طریقہ سمجھنے کے اعتبار سے زیادہ آسان ہے ،مزید یہ کہ قرآن میں اللہ تعالی نے اسی طریقہ پراصحاب الفروض کے حصے ذکر کئے ہیں ۔
اس ضمن ميں ہر وارث کے حالات کو پہلے اجمالی طور پرایک ساتھ ذکر کردیاگیا ہے ، یہ اجمالی تذکرہ ہی کافی تھا لیکن چونکہ ہمارا مقصود تفہیم ہے جو تسہیل کا پیش خیمہ ہے اس لئے ہروارث کے حصوں کودلائل اور توجیہات کے ساتھ تفصیلا ذکر کیا گیا ہے تاکہ دلائل اور نوعیت کے اعتبار سے وارثین کے حصوں کے حالات ذہن میں بیٹھ جائیں۔حاجب اور عاصب رشتہ دار کو نسبی نام کے بجائے وصفی نام کے ساتھ ذکرکیا گیا ہے البتہ بریکٹ میں یا تفصیلات میں ان کی وضاحت کردی گئی ہے۔

تیسرا حصہ: تاصیل و تصحیح
اس میں تاصیل کا ایک ہی طریقہ ذکر کیاگیاہے اور عام کتابوں کی بنسبت اسے انتہائی آسان اسلوب میں پيش كيا گيا ہے ، اس کے علاوہ فرائض کی کتابوں میں جودیگر روایتی اور جدولی طریقے مذکور ہیں انہیں یکسر نظرانداز کردیا گیا ہے۔بالخصوص اس ضمن میں بین العددین نسبتوں کی بحث لانا بالکل ہی مناسب نہیں ہے بعض حضرات عددی نسبتوں کی بحث یہیں سے اس لئے شروع کردیتے ہیں تاکہ آگے رد ، مناسخہ اور دیگر کئی مباحث میں ان نسبتوں کا سہارا لیتے وقت آسانی ہو لیکن ہماری اس کتاب میں ان نسبتوں کا سہارا لئے بغیر پورا علم فرائض سیکھ سکتے ہیں ۔
ہم نے صرف مناسخہ کے باب میں ان نسبتوں پر بات کی ہے ، وہ بھی پہلے نعم البدل طریقہ پیش کرکے اضافی معلومات کے لئے دوسرا طریقہ پیش کرتے وقت اسے ذکر کیا گیا ہے یعنی یہ طریقہ سیکھنا ضروری نہیں ہے۔
جہاں تک تصحیح کی بات ہے تو اس کا مقصد حساب میں آسانی پیدا کرنا ہے لیکن عصر حاضر میں کیلکو لیٹر کے ہوتے ہوئے حساب میں کوئی دشواری پیش نہیں آسکتی ہے اس لئے محض تسہیل حساب لئے تصحیح کی قطعاکوئی ضرورت نہیں ہے ۔البتہ بعض نادر مسائل جیسے مفقود یا حمل وغیرہ کے مباحث میں ابتدائی مرحلے میں تصحیح کی ضرورت پڑتی ہے اس لئے تصحیح کو بھی سمجھا دیا گیا ہے اور بہت ہی آسان اور عام فہم اسلوب میں اسے پیش کیا گیاہے۔

چوتھاحصہ:مسائل فرائض کی قسمیں( عادلہ ، عائلہ ، ناقصہ)
علم فرائض میں سب سے آسان بحث یہی ہے لیکن افسوس ہے کہ فرائض کی کتابوں میں ناقصہ کے مسئلہ کو زوجین کے سبب کافی پیچیدہ بناکر پیش کیا گیا ہے ، ہم نے مسئلہ زوجیہ کے حل کا بھی دو طریقہ پیش کیا ہے پہلا طریقہ انتہائی آسان اور کافی وشافی ہے۔ اضافی معلومات کے لئے ایک دوسرا طریقہ بھی آسان اسلوب میں پیش کردیا گیاہے ۔

پانچواں حصہ: نادر مسائل
اس میں ان مسائل کا حل پیش کیا گیا ہے جو شاذ و نادر ہی پیش آتے ہیں جیسے مناسخہ ، مفقود ، حمل ، خنثی مشکل اور الموت الجماعی کے مسائل۔
مناسخہ میں ایک ایسا طریقہ بتایا گیا ہے جس کی مدد سے یہ مسئلہ حل کرنے کے لئے کسی نئی معلومات کی ضرورت ہی نہیں ، تاہم اضافی معلومات کے لئے اس کا دوسرا طریقہ بھی آسان سے آسان اسلوب میں پیش کرنے کی کوشش کی گئی ہے، اس دوسرے طریقہ کو سمجھنے میں ذرا بھی دشواری ہو تو اسے نظر انداز کردینا چاہئے کیونکہ پہلا طریقہ ہی کافی وشافی ہے۔دراصل الموت الجماعی کے بعض مسائل میں یہ دوسرا طریقہ اختصار کے پہلو سے آسانی پیداکرتا ہے اس لئے اسے بھی پیش کردیا گیاہے ۔گرچہ الموت الجماعی کے مسائل میں اور ایک آسان طریقہ بھی بتلایا گیا ہے لیکن وہ زیادہ وقت لیتا ہے۔فرائض کو جن مسائل نے مشکل بنا ہے ان میں مناسخہ کا بھی اچھا خاصا دخل ہے ، ان شاء اللہ اس کتاب میں یہ باب کوئی مشکل پیدا نہیں کرسکے گا۔
مفقود ، حمل اور خنثی مشکل کے مسائل کے حل کا طریقہ ایک ہی ہے اس لئے ہم نے ان تینوں کو ایک ساتھ ذکر کیا ہے اور مفقود کو پہلے اس لئے رکھا کیونکہ اس میں کم سے کم وقت میں یہ طریقہ سمجھ میں آجاتا ہے جبکہ حمل میں نسبتا وقت زیادہ لگتا ہے، اور آخر میں خنثی مشکل کے مسئلہ کو رکھا گیا ہے کیونکہ اس میں ایک بہت ہی معمولی چیز کا اضافہ ہے۔
سب سے آخر میں الموت الجماعی کو رکھا گیاہے کیونکہ اس کی نوبت مرجوح قول پر عمل کرنے کے سبب آتی ہے ، اور یہ مسئلہ بھی بعض حالات میں کافی پیچیدہ اور مشکل ہوجاتا ہے ۔تاہم بعض کی نظر میں یہی قول راجح ہے لہٰذا ان کی رعایت میں یہ طریقہ بھی بتلادیا گیاہے۔

چھٹا حصہ: ترکہ کی تقسیم
اس میں ترکہ کو وارثین میں مابین ان کے حصص کے اعتبار سے تقسیم کرنے کا طریقہ بتلایا گیا ہے جو بہت ہی آسان ہے۔

اس کتاب کی بعض اصطلاحات کی وضاحت:
حدیث عصبہ:
اس کتاب میں جہاں بھی اجمالی طورپر حدیث عصبہ لکھا جائے گا اس سے مراد درج ذیل حدیث ہے:
«ألحقوا الفرائض بأهلها، فما بقي فهو لأولى رجل ذكر»
میراث کو اصحاب الفروض میں تقسیم کردو اور جو کچھ باقی بچے وہ سب سے زیادہ قریبی مرد کا حصہ ہے۔(متفق علیہ)
حدیث ابن مسعود رضی اللہ عنہ:
اس کتاب میں جہاں بھی اجمالی طور پر حدیث ابن مسعود لکھا جائے گا اس سے مراد یہ حدیث ہے:

حدثنا آدم، حدثنا شعبة، حدثنا أبو قيس، سمعت هزيل بن شرحبيل، قال: سئل أبو موسى عن بنت وابنة ابن وأخت، فقال: للبنت النصف، وللأخت النصف، وأت ابن مسعود، فسيتابعني، فسئل ابن مسعود، وأخبر بقول أبي موسى فقال: لقد ضللت إذا وما أنا من المهتدين، أقضي فيها بما قضى النبي صلى الله عليه وسلم: «للابنة النصف، ولابنة ابن السدس تكملة الثلثين، وما بقي فللأخت» فأتينا أبا موسى فأخبرناه بقول ابن مسعود، فقال: لا تسألوني ما دام هذا الحبر فيكم
ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے بیٹی، پوتی اور بہن کی میراث کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا کہ بیٹی کو آدھا ملے گا اور بہن کو آدھا ملے گا اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کے یہاں جاؤ، شاید وہ بھی یہی بتائیں گے۔ پھر ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا اور ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی بات بھی پہنچائی گئی تو انہوں نے کہا کہ میں اگر ایسا فتویٰ دوں تو غلطی کربیٹھوں گا۔ میں تو اس میں وہی فیصلہ کروں گا جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کیا تھا کہ بیٹی کو آدھا ملے گا، پوتی کو چھٹا حصہ ملے گا تاکہ خواتین کا حصہ ثلثین مکمل ہوجائے اور پھر جو باقی بچے گا وہ بہن کو ملے گا۔ پھر ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی بات ان تک پہنچائی تو انہوں نے کہا کہ جب تک یہ عالم تم میں موجود ہیں مجھ سے مسائل نہ پوچھا کرو۔(صحیح بخاری رقم6736)

ضمیمہ:
وارثین کی قسمیں بیان کرتے وقت ذوی الارحام پر تفصیل ذکر نہیں کی گئی کیونکہ ان کو ترکہ ملنے کی نوبت بہت ہی کم آتی ہے یہاں اس کے بارے میں کچھ ضروری تفصیلات بتلادی گئی ہے۔
اس پر یہ کتاب ختم ہے ، ہم نے پوری کوشش کی ہے اس کتاب میں پروف کی یا علمی غلطی نہ رہ جائے لیکن تمام کوشش کے باوجود بھی صدفی صد صحت کا دعوی کوئی نہیں کرسکتا لہٰذا قارئین سے گذارش ہے کہ اپنی آراء و استدراکات سے آگاہ فرمائیں تاکہ اصلاح کی جاسکے ۔رب العالمین ناچیز کی اس کوشش کو کامیاب بنائے اور ہرخاص وعام کے لئے اسے مفید بنائے آمین ۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
(مقدمۃ)علم فرائض کا تعارف

لغوی معنی :
فرائض یہ فریضہ کی جمع ہے ، یہ لفظ فرض سے ماخوذ ہے جس کے بہت سے معانی ہیں مثلا نازل کرنا ، واجب کرنا ، مقررکرنا ، متعین کرنا ، بیان کرنا ، ، حلال کرنا ۔
علم فرائض میں یہ تمام معانی شامل ہیں کیونکہ اس علم کو اللہ نے نازل کیا ہے ، اس کے احکام کو بیان کیا ہے،اس پر عمل کو واجب قراردیا ہے ، بعض وارثین کے حصوں کو متعین کیا ہے وغیرہ۔
آیت میراث میں لفظ ”فريضة“ اور ”مفروضا“ وارد ہوا ہے اسی مناسبت سے اس علم کا نام ”علم فرائض“ ہے۔

اصطلاحی معنی:
ہروارث کا وہ حصہ جو خاص مقدار میں متعین ہے۔

علم فرائض کی تعریف:
وہ علم جس کے ذریعہ میت کے غیروارثین اور وارثین اوران کے حصوں کی جانکاری حاصل ہو ۔

علم فرائض کی غرض وغایت:
اس کا علم مقصد میت کی میراث کو وارثین میں ان کے حقوق کے مطابق تقسیم کرنا ہے۔

علم فرائض کا موضوع :
اس کا علم کا موضوع ”ترکہ“ ہے یعنی وہ جائداد جسے میت نے بوقت وفات چھوڑی ہو۔

علم فرائض سیکھنے کا حکم:
اس علم کو جملہ تفصیلات کے ساتھ جاننا فرض کفایہ ہے ، لیکن کم از کم اتنا جاننا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے کہ میت کی جائداد کو کتاب وسنت کی روشنی میں ان کے مستحقین تک پہنانا ضروی ہے ۔

علم فرائض کی اہمیت و فضیلت:
اس علم کی اہمیت وفضیلت کااندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اللہ تعالی نے قرآن مجید میں اس علم کو تفصیل کے ساتھ بیان کیا ہے ، اور اس کے مطابق عمل کرنے پر جنت کا وعدہ کیا ہے اور اس کی خلاف عمل کرنے پر شدید وعید سنائی ہے ۔
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث ہے:
عن أنس بن مالك، أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «أرحم أمتي بأمتي أبو بكر، وأشدهم في دين الله عمر، وأصدقهم حياء عثمان، وأقضاهم علي بن أبي طالب، وأقرؤهم لكتاب الله أبي بن كعب، وأعلمهم بالحلال والحرام معاذ بن جبل، وأفرضهم زيد بن ثابت، ألا وإن لكل أمة أمينا، وأمين هذه الأمة أبو عبيدة بن الجراح»
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری امت میں سب سے زیادہ میری امت پر رحم کرنے والے ابوبکر رضی اللہ عنہ ہیں، اللہ کے دین میں سب سے زیادہ سخت اور مضبوط عمر رضی اللہ عنہ ہیں، حیاء میں سب سے زیادہ حیاء والے عثمان رضی اللہ عنہ ہیں، سب سے بہتر قاضی علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ ہیں، سب سے بہتر قاری ابی بن کعب رضی اللہ عنہ ہیں، سب سے زیادہ حلال و حرام کے جاننے والے معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ ہیں، اور سب سے زیادہ فرائض (میراث تقسیم) کے جاننے والے زید بن ثابت رضی اللہ عنہ ہیں، سنو! ہر امت کا ایک امین ہوا کرتا ہے، اور اس امت کے امین ابوعبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ ہیں“[سنن ابن ماجه 1/ 55 رقم 154 واسنادہ صحیح]
اس حدیث میں میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خلفائے راشدین کے ساتھ بعض صحابہ کرام رضی اللہ عنہ کی چند اہم خصوصیات ذکرکی ہے ، انہیں صحابہ کے ساتھ زید بن ثابت رضی اللہ عنہ کا تذکرہ کیا اور ان کی خصوصیت یہ بیان کی کہ وہ فرائض میں سب سے زیادہ مہارت رکھتے ہیں ۔اس حدیث سے علم فرائض کی اہمیت و فضیلت لگایا جاسکتا ہے ۔

ترکہ

لغوی معنی :
یہ ترک سے ہے جس کے معنی چھوڑنا ۔
اصطلاحی معنی :
میت فوت ہونے کے بعدجو بھی مال جس شکل میں بھی چھوڑے اسے ”ترکہ“ کہتے ہیں۔

ترکہ کے مصارف:
میت کے ترکہ کو درج ذیل ترتیب سے مرحلہ وار صرف کیا جائے گا اگر کسی ابتدائی مرحلہ میں ہی سارا ترکہ ختم ہوگا تواگلے مرحلے کی نوبت نہیں آئے گی ۔
✿ 1۔ تجہیز وتکفین(Funeral)
اگرمیت کی تجہیز وتکفین کا بندوبست کوئی نہ کرسکے تو میت کے ترکہ سے یہ انتظام کیا جائے گا ، اس میں اوسط درجے کی اشیاء کا استعمال ہوگا۔
✿ 2۔قرض کی ادائیگی:
Repayment of his outstanding debt
(الف)اگر ترکہ میں عین وہی چیز ہو جو بطور قرض کسی سے لی گی ہو جیسے رہن تو عین وہ چیز اس کے حقدارکوواپس کردی جائے گا۔
(ب) اور اگر میت کے ذمہ عام قرض ہو تو اگر کسی ایک شخص کا قرض ہو تو اسے مطلوبہ رقم دے دی جائے گی اور ترکہ قرض کی رقم سے کم ہو تو ترکہ جنتا بھی ہو قرض خواہ کے حوالے کردیا جائے گا ۔
اگر میت کئی اشخاص کا قرضدار ہو اور ترکہ اتنا ہو کہ مجموع الدیون یعنی سارے قرض خواہوں کو ان کی مطلوبہ رقم دی جاسکتی ہو تو سب کو ان کا حق دے دیا جائے گا لیکن اگر ترکہ کم ہو اور مجموع الدیون( قرض خواہوں کی رقوم) زیادہ ہو ، تو ہرقرض خواہ کو اس کی رقم کی نسبت سے مال دیا جائے گا ۔
(ج) اگرمیت کے ذمہ اللہ کا قرض ہو مثلا اس نے فی سبیل اللہ کچھ خرچ کرنے کی نذر مانی ہو تو اس کے ترکہ میں سے نذر کی رقم فی سبیل اللہ خرچ کردی جائے گا۔
✿ (3) وصیت کی تنفیذ:(Bequest)(Will)
اگرمیت نے ایک تہائی مال یا اس سے کم کی جائز وصیت کی ہے تو اتنا مال وصیت میں صرف کیا جائے گا۔یاد رہے کہ اگرناجائز کام کے لئے وصیت کی ہے مثلا تو اس کی وصیت نافذ نہیں کی جائے گی اور اگر جائز کام کی وصیت کی ہے مگر ایک تہائی مال سے زائد کی وصیت کی ہے تو صرف ایک تہائی مال ہی سے وصیت کو نافذ کیا جائے گا۔کیونکہ متعدد احادیث میں ایک تہائی مال سے زیادہ کی وصیت ممنوع ہے مثلا ایک حدیث میں اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے:
الثلث والثلث كثير
ثلث مال کی وصیت کرسکتے ہو اور یہ بھی بہت زیادہ ہے ۔(صحيح البخاري، رقم5354)
نیز اگر وارثین میں سے کسی کے لئے وصیت کی ہے تو بھی وصیت نافذ نہیں کی جائے گی کیونکہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
«إن الله قد أعطى كل ذي حق حقه فلا وصية لوارث»
اللہ نے ہر صاحب حق کو اس کا حق دے دیا ہے لہٰذا اب وارث کے لیے کوئی وصیت نہیں(سنن أبي داود، رقم 2870 والحدیث صحیح)
✿ (4) وارثین میں تقسیم وراثت:(Heirs)
اسلامی نظام میراث کے تحت ترکہ کی تقسیم ، یہی آخری عمل ہی علم فرائض کا مقصود ہے۔

علم فرائض کا ایک دوسرا نام ”علم وراثت“ یا ”علم میراث“ یا ”علم مواریث“ ہے۔

لغوی معنی :
وراثت ہی سے ماخوذ میراث کا لفظ ہے جس کی مواریث آتی ہے۔ وراثت کی کئی معانی ہیں جن میں سے ایک معنی یہ ہے کہ کسی شخص کی ایک چیز کو کسی دوسرے شخص کی طرف منتقل کرنا ہے ۔اس علم میں یہی معنی مراد ہے۔

شرعی معنی:
وہ حق جسے ایک وارث اپنے مؤرث کے مال سے پاتا ہے ۔

وراثت کے ارکان:
وراثت کے تین ارکان ہیں :
(1)(Deceased) مؤرث ، (2)(hair) وارث ،(3)( property) مال موروث یعنی ترکہ

اسباب وراثت:
وراثت کے تین اسباب ہیں:
(1) نکاح ، (2) نسب ، (3) ولاء یعنی آزاد کرنا

اگر شوہر نے طلاق رجعی دی ہوگی تو عدت کے دوران اگر شوہر فوت ہوگیا تو عورت کو وراثت کی حقدار ہوگی۔

شروط وراثت:
وراثت کی تین شرطین ہیں:
(1) مؤرث کی وفات کا یقین ہوجائے ، اور یہ تین ذرائع سے ہوسکتا ہے۔
اول: معاینہ یعنی آنکھوں سے مردہ حالت میں دیکھ لیا گیا ۔
دوم: حکما یعنی کسی کے غائب و مفقود ہونے کے سبب قاضی موت کا فیصلہ کردے
سوم: تقدیرا یعنی اندازے سے مثلا کسی حاملہ عورت کو کسی نے مارا جس کے سبب حمل مردۃ حالت میں ساقط ہوگیا تو یہ نہیں کہا جائے گا کہ بچہ پہلے سے پیٹ میں مرچکا تھا بلکہ اندازا یہی مانا جائے گا کہ اس حادثہ کے بعد ہی حمل پر موت طاری ہوئی ہے اور اس سے قبل وہ زندہ تھا ۔
(2) وارث کی حقیقی یا حکمی حیات کا یقین ہو۔(حمل نطفہ کی شکل میں ہو تو حکما اسے باحیات مانا جاتاہے)
(3) وراثت کا سبب موجود ہو ۔

موانع وراثت:
موانع وراثت تین ہیں:
(1) وارث کا اپنے مؤرث کو ظلما قتل کردینا ۔(Homicide)
(2) وارث اور مؤرث میں سے کسی کا غیرمسلم ہونا ۔(Difference of religion)
(3) وارث کا غلام یا لونڈی ہونا
پہلی شرط کی حکمت یہ بھی ہے کہ کوئی شخص قبل از وقت وراثت پانے کی لالچ میں اپنے مؤرث کو قتل نہ کردے ۔


نوٹ:- اگلا حصہ پڑھنے کے لئے کلک کیجئے : (پہلا حصہ:وارثین)
 
Top