• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

*عشرہ ذوالحجہ: فضیلت و اہمیت*

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
*عشرہ ذوالحجہ: فضیلت و اہمیت*
️ابو احمد وقاص زبیر
مدرس جامعہ سلفیہ اسلام آباد

*الحمد لله رب العالمين ، حمدا كثيرا طيبا مباركا فيه كما يحب ربُّنا و يرضى ، والصلاة والسلام على رسولنا ونبينا محمد و على آله وصحبه وسلم تسليما مزيدا ، أما بعد

اللہ سبحانہ و تعالی اپنی کمال رحمت سے بندوں کو اپنی رضا و خوشنودی کے بیش بہا مواقع نصیب فرماتا ہے تا کہ بندے ان میں اللہ تعالی کے حضور نیکیاں اور اطاعت کے کام بجا لا کر اپنے گناہوں کی بخشش ، اس کی رحمت و مودت اور بلندی درجات کا انعام پاسکیں ، اب بندوں کو چاہیے کہ ان اوقات کو غنیمت جانتے ہوئے اپنے تعلق کو اللہ مالک الملک سے مضبوط کریں اور سعادت اور کامرانی کا حصول ممکن بنائیں ۔
انہی مواقع میں سے ایک *عشرہ ذوالحجہ* بھی ہے جس کی فضیلت، اہمیت اور قدر و منزلت تمام ایام سے بڑھ کر ہے اس کا سبب بیان کرتے ہوئے حافظ ابن حجر (٨٥٢ ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
*"والذي يظهر أن السبب في إمتیاز عشر ذي الحجة لمكان اجتماع أمهات العبادة فيه وهي الصلاة والصيام والصدقة والحج ولا يأَتَّى ذلك في غيره".*
عشرہ ذی الحجہ کے باقی ایام سے امتیاز کا سبب یہ معلوم ہوتا ہے کہ اس میں بڑی بڑی عبادات جمع ہو جاتی ہیں جیسے نماز ، روزہ ، صدقہ اور حج، عبادات کا یوں جمع ہونا باقی دنوں میں نہیں ہوتا۔
(فتح الباري لابن حجر:۲ /٤٦٠)
1. *الله تعالی کا ان دس راتوں کی قسم کھانا
امام ابن قیم (٧٥١ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
*"وهو سبحانه يقسم بأمور على أمور وإنما يقسم بنفسه الموصوفة بصفاته وآياته المستلزمة لذاته وصفاته وإِقسامه ببعض المخلوقات دليل على أنه من عظيم آياته".*
اللہ سبحانہ وتعالی بہت سے امور کے لیے دوسرے امور کی قسم کھاتا ہے اور کبھی وہ اپنی ذات مبارکہ کی قسم کھاتا ہے جو اس کی صفات عالیہ سے متصف ہے اور کبھی اپنی آیات کی جو اس کی ذات و صفات
سے جڑی ہوئیں ہیں ، اس کا اپنی بعض مخلوقات کی قسم کھانا اس بات پر دلالت کناں ہے کہ وہ مخلوق اس کی عظیم نشانیوں میں سے ہے۔
(التبيان في أقسام القرآن لابن القيم:ص ١)
چنانچہ اللہ سبحانہ و تعالی فرماتا ہے :
﴿ *وَالفَجرِ۝وَلَيالٍ عَشرٍ*﴾
قسم ہے فجر کی اور دس راتوں کی.
[الفجر: ١-٢]
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں :
"إن الليالي العشر اللاتي أقسم الله بهن: هن الليالي الأُوَل من ذي الحجة".
اللہ تعالی نے جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے، یہ ذوالحجہ کی پہلی (دس) راتیں ہیں ۔
( تفسير الطبري:۱۱ /٥۳٠ ، وسنده صحيح )
امام مجاہد بن جبر (۱۰۱ھ) رحمه الله فرماتے ہیں:
اس سے مراد" عشرہ ذوالحجہ" ہے۔
(تفسير الطبري:٥۳۱/۱۱ ، وسنده حسن)
عظیم مفسر امام ابن جریر طبری (۳۱۰ھ) رحمہ الله فرماتے ہیں:
"والصواب من القول في ذلك عندنا: أنها عشر الأضحى لإجماع الحجة من أهل التأويل عليه".
ہمارے نزدیک اس متعلق صحیح بات یہ ہے کہ ان (دس راتوں) سے مراد ذوالحجہ کی دس (راتیں) ہی ہیں کیونکہ تمام مفسرین نے اجماعی طور پر اس سے یہی دلیل لی ہے۔
(تفسير الطبري:۱۱ /٥٣١)
معروف مفسر امام ابن کثیر (٧٧٤ ھ) رحمہ الله فرماتے ہیں :
"والليالي العشر : المراد بها عشر ذي الحجة".
دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کی دس (راتیں ) ہیں ۔
(تفسیر ابن کثیر: ۱٤ /۳۳۸)
امام ابن رجب (٧٩٥ھ) رحمه الله فرماتے ہیں:
"أما الليالي العشر فهي عشر ذي الحجة هذا الصحيح الذي عليه جمهور المفسرين من السلف وغيرهم".
صحيح بات یہی ہے کہ دس راتوں سے مراد ذوالحجہ کی دس راتیں ہیں اور یہی موقف جمہور سلف و خلف کا ہے.
(لطائف المعارف فيما لمواسم العام من الوظائف لابن رجب:ص ۲٦۰)
مزید فرماتے ہیں :
"وقد أقسم الله تعالى بلياليه،..... وهذا يدل على فضيلة لياليه لكن لم يثبت أن لياليه ولا شيئا منها يعدل ليلة القدر".
الله تعالی نے اس ( عشرے ) کی راتوں کی قسم کھائی ہے جو کہ اس کی راتوں کی فضیلت پر دلالت کرتی ہے لیکن یہ بات قطعا ثابت نہیں کہ اس عشرہ کی تمام یا بعض راتیں لیلۃ القدر کے برابر ہیں".
مزید فرماتے ہیں :
"والتحقيق ما قاله بعض أعيان المتأخرين من العلماء أن يقال: مجموع هذا العشر أفضل من مجموع عشر رمضان وإن كان في عشر رمضان ليلة لا يفضل عليها غيرها. والله أعلم".
تحقیق شدہ بات یہی ہے کہ جو متاخرین میں سے کبار علماء نے کہی ہے کہ: یہ عشرہ مجموعی اعتبار سے رمضان کے آخری عشرے کے مجموعی اعتبار سے افضل ہے لیکن رمضان کے آخری عشرے میں ایک رات ایسی ہے جس کی فضیلت میں برابری کسی رات کو حاصل نہیں".
(لطائف المعارف لابن رجب:ص۲٦۷)
محقق علما رحمہم اللہ کی ایک جماعت کا یہی موقف ہے کہ عشرہ ذوالحجہ کے شب و روز پورے سال کے دن و رات سے افضل ہیں جیسا کہ اللہ تعالی نے قرآن کریم میں ان دس *راتوں* ہی کی قسم اٹھائی اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان ایام کو تمام دنوں سے افضل قرار دیا ہے اور جب دن بولا جائے تو اس میں رات بھی شامل ہوتی ہے۔ اسی طرح ان ایام میں نیک اعمال کا یوں جمع ہونا سال کے دوسرے دنوں میں نہیں ہوتا لیکن رمضان المبارک کے آخری عشرے کی خاص *شب قدر* تمام راتوں سے افضل ہے، البتہ شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ اور امام ابن قیم رحمہما اللہ کا موقف ہے کہ عشرہ ذوالحجہ کے ایام باقی تمام دنوں سے اور عشرہ رمضان کی راتیں باقی تمام راتوں سے افضل ہیں۔ حوالہ کے دیکھیے، (مجموع الفتاوى:٢٥/٢٨٧، زاد المعاد:١/ ٣٥، بدائع الفوائد:٣/ ١١٠٢)
والله أعلم بالصواب
2. *نیک اعمال کی ترغیب* :
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
《 *ما العمل في أيام العشر أفضل من العمل في هذه؟ ". قالوا : ولا الجهاد؟ قال : " ولا الجهاد، إلا رجل خرج يُخاطر بنفسه وماله، فلم يرجع بشيء* 》
"کسی دن کا عمل ( اللہ تعالی کے ہاں) ان دس دنوں کے عمل سے افضل نہیں" صحابہ رضی اللہ عنھم نے پوچھا : کیا جہاد بھی نہیں؟ تو آپ نے فرمایا : "جہاد بھی نہیں مگر وہ شخص جو دشمنوں سے لڑتے ہوئے اپنی جان و مال کی بازی لگا دی اور(ان میں سے) کسی چیز کے ساتھ واپس نہ لوٹے"۔
(صحيح البخاري:٩٦٩)
ایک دوسری روایت میں امام سعید بن جبیر تابعی رحمہ اللہ، عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت کرتے ہیں ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
*《ما من عملٍ أزكى عند الله عز وجل ولا أعظم أجرا ؛ من خير يعمله في عشر الأضحى". قيل: ولا الجهاد في سبيل الله عز وجل؟ قال : "ولا الجهاد في سبيل الله عز وجل، إلا رجل خرج بنفسه وماله فلم يرجع من ذلك بشيء》*
قال : وكان سعيد بن جبير إذا دخل أيام العشر اجتهد اجتهادا شديدا حتى ما يكاد يقدر عليه".
"اللہ عزوجل کے نزدیک کوئی عمل اس سے زیادہ پاکیزہ اور اجر کے لحاظ سے بڑا نہیں جو عشرہ ذوالحجہ میں کیا جائے"۔ کہا گیا : اللہ کے راستے میں جہاد بھی نہیں؟ آپ نے فرمایا:" الله عز وجل کے راستے میں جہاد بھی نہیں ، سوائے اس شخص کے جو اپنی جان و مال لے کر نکلے پھر کسی شے کے ساتھ واپس نہ لوٹے ۔
قاسم بن ایوب( راوی ) فرماتے ہیں : جب یہ عشرہ آتا تو سعید بن جبیر رحمہ اللہ اس قدر ( عمل میں) محنت کرتے کہ اپنی طاقت سے بڑھ کر کوشش کرتے ۔
(:سنن الدارمي:١٨١٥ ، وسنده حسن، انظر شرح مشکل الآثار للطحاوي: ٤١٦/٧ ح ۲۹۷۰ )
*گویا عشرہ ذوالحجہ مومن کے لیے تمام تر نیکیوں کا اہم موقع اور ان پر اجرِ عظیم سموئے ہوئے آتا ہے لہذا چاہیے کہ اس عشرے میں معرفت باری تعالی، دعوت توحید و سنت، شرک و بدعات کا رد، نیکی کا حکم اور برائی سے روکنا، تکبیر تحریمہ کا خاص اہتمام، نوافل، تلاوتِ قرآن کریم، اذکار، تکبیرات، دعائیں، نفلی روزے، والدین سے حسن سلوک، صلہ رحمی، پڑوسیوں سے احسان، لوگوں سے تکلیف دور کرنا، کمزور و نادار کی مدد، صدقات و خیرات غرض یہ کہ تمام نیک اعمال کی سعی کی جائے۔*
کبیر تابعی امام ابو عثمان النہدی (٩٥ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
*"کانوا يفضلون ثلاث عشرات: العشر الأول من ذي الحجة، والعشر الأواخر من شهر رمضان، والعشر الأول من المحرم".*
"صحابہ کرام رضی اللہ عنہم تین عشروں کو بڑی فضیلت دیتے تھے: عشرہ ذوالحجہ، رمضان کا آخری عشرہ اور محرم کا پہلا عشرہ "۔
(فضل عشر ذي الحجة لابن أبي الدنيا:٨ وسنده صحيح. مزید دیکھیے، الترغيب والترهيب لقوام السنة:١٨٨٠)
امام ابن ناصر الدین دمشقی (٨٤٢ ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
" والأخبار مشعرة بتفضيل عشر ذي الحجة على العشرين المذكورين؛ لأن فيه يوم التروية، ويوم عرفة، ويوم النحر".
احادیث و آثار سے ظاہر ہے کہ عشرہ ذوالحجہ ذکر کردہ دونوں عشروں سے افضل ہے کیونکہ اس میں ترویہ کا دن (8 ذوالحج جس دن حاجی حج کی ادائیگی کے لیے منی روانہ ہوتے ہیں) عرفات کا دن اور قربانی کا دن ہے۔
(جزء في فضل يوم عرفة لابن ناصر الدين الدمشقي: ص ٢٦)
امام عبد اللہ بن عون رحمہ الله فرماتے ہیں:
"كان محمد يصوم العشر عشر ذي الحجة کله ، فإذا مضى العشر
ومضت أيام التشريق أفطر تسعة أيام مثل ما صام".
معروف تابعی امام محمد بن سیرین(۰ااھ) رحمہ اللہ مکمل عشرہ ذوالحجہ کے روزے رکھتے تو جب عشرہ ذوالحجہ اور ایام تشریق گزر جاتے تو نو دن روزوں کا ناغہ کرتے جیسے پہلے روزے رکھے تھے"۔
(مصنف ابن أبي شيبة: ۲ /۳۰۰، وسنده صحيح)
یہاں مکمل عشرہ سے مراد ٩ دن ہی ہیں کیونکہ اگلے الفاظ سے ظاہر ہے ۔ والله اعلم
شارح صحیح مسلم امام نووی (٦٧٦ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
"ليس في صوم هذه التسعة كراهة بل هي مستحبة استحبابا شديدا لا سيما التاسع منها وهو يوم عرفة".
ان نو دنوں میں روزے رکھنا ناپسندیدہ نہیں بلکہ پسندیدہ اور شدید مستحب ہیں اور خاص طور پر ٩ ذوالحجہ کا روزہ جو کہ یوم عرفہ ہے"۔
(شرح صحيح مسلم: ۷۸/۸)
3. *عرفہ کے دن کی فضیلت*:
يوم عرفہ عشرہ ذوالحجہ کا اہم ترین دن ہے اور اس کے متعدد فضائل ہیں :
• *اللہ تعالی کا یوم عرفہ کی قسم کھانا*:
اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿ *وَشاهِدٍ وَمَشهودٍ*﴾
قسم ہے حاضر ہونے والے کی اور جس کے پاس حاضر ہوا جائے ۔
[البروج: ٣]
اکثر مفسرین کا موقف ہے کہ آیت کریمہ میں *وشاهد* سے مراد 'جمعہ' کا دن اور *مشهود* سے مراد 'عرفات' کا دن ہے جیسا کہ سیدنا علی بن ابی طالب ،ابو ہریرہ رضی اللہ عنہما اور امام قتادہ رحمہ اللہ سے صحیح وحسن اسناد سے مروی ہے.
(دیکھئے تفسير الطبري: ٤۸۱/۱۱ ، ٤۸۲)
• *دین کی تکمیل اور اتمام نعمت کا دن* :
طارق بن شہاب رضی اللہ عنہ ، خلیفہ راشد عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں کہ ایک یہودی نے ان سے کہا: اے امیر المؤمنین! تمہاری کتاب میں ایک آیت ہے جسے تم پڑھتے ہو، اگر ہم یہودیوں پر اترتی تو ہم ضرور اس دن کو بطور عید مناتے ۔ عمر رضی اللہ عنہ نے پوچھا : کونسی آیت ہے؟ وہ کہنے لگا : *﴿اليَومَ أَكمَلتُ لَكُم دينَكُم وَأَتمَمتُ عَلَيكُم نِعمَتي وَرَضيتُ لَكُمُ الإِسلامَ دينًا﴾* [المائدة: ٣]
تو عمر رضی اللہ عنہ فرمانے لگے : ہم اس دن اورجگہ کو جانتے ہیں جس میں یہ نبی ﷺ پر اتری ، اس وقت آپ عرفات کے میدان میں جمعہ کے دن کھڑے تھے"۔
(صحيح البخاري : ٤٥ ، ۷۲٦۸، صحیح مسلم :۳۰۱۷)
ایک دوسری روایت میں عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :
"فإنها نزلت في يوم عيدين؛ في يوم جمعة ويوم عرفة".
بے شک یہ آیت دو عید کے دنوں میں اتری ، جمعہ کا دن اورعرفہ کا دن ۔
دیکھئے : سنن الترمذي :۳۰٤٤ وسنده صحيح.
• *يوم عرفہ عید کا دین* :
عقبہ بن عامر جہنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
*《يوم عرفة ، ويوم النحر وأيام التشريق عيدنا أهلَ الإسلام ،و ھی ایام أكل وشرب》*
"یوم عرفہ، قربانی کا دن اور ایام تشریق ہم اہل اسلام کے لیے عید ہیں اور یہ ایام کھانے پینے کے ہیں ۔
(سنن أبي داود : ۲٤۱۹ ، سنن الترمذي: ۷۷۳ ، سنن النسائی: ۳۰۰۷، وسنده حسن)
• *عرفہ کے دن الله تعالی کا حاجیوں پر فخر کرنا اور عام بخشش فرمانا* :
امی عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
*《ما من يوم أكثر من أن يُعتق الله فيه عبدا من النار ، من يوم عرفة ، وإنه ليدنو، ثم يُباهي بهم الملائكة، فيقول: ما أراد هؤلاء؟》*
"اللہ تعالی عرفہ کے دن سے زیادہ کسی دن بھی اپنے بندوں کو جہنم سے آزادنہیں کرتا اور الله تعالی اپنے بندوں کے قریب ہوتا ہے پھر فرشتوں کے سامنے اپنے بندوں پر فخر کرتے
ہوئے فرماتا ہے کہ ان سب کا کیا ارادہ ہے ؟"۔
(صحیح مسلم :۱۳٤۸)
• *یوم عرفہ کا روزہ* :
ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
*《صيام يوم عرفة، أحتسب على الله أن يكفِّر السنة التي قبله، والسنة التي بعده ...》*
" عرفہ کے دن کے روزے کے بارے میں مجھے اللہ تعالی سے امید ہے کہ یہ گز شتہ اور آئندہ (دو) سالوں کے گناہوں کا کفارہ ہوگا ".
(صحیح مسلم:۱۱٦۲)
*ضروری بات* : یہ روزہ حاجیوں کے لیے نہ رکھنا زیادہ بہتر ہے :
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کی والدہ ام فضل لبابہ بنت حارث رضی اللہ عنہا بیان فرماتی ہیں:
"شك الناس يوم عرفة في صوم النبي صلى الله عليه وسلم، فبعثت إلى النبي صلى الله عليه وسلم بشراب فشربه.
"لوگ عرفات کے دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے روزے کے متعلق شک میں تھے (کہ آج آپ کا روزہ ہے یا نہیں) تو میں نے آپ کی طرف ایک مشروب بھیجا تو آپ نے اسے نوش فرما لیا"۔
(صحيح البخاري : ۱۹۵۸ ، ۱۹۸۸ ، صحیح مسلم : ۱۱۲۳)
امام شافعی(٢٠٤ھ) رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
"فأحب صومها إلا أن يكون حاجًّا فأحب له ترك صوم يوم عرفة لأنه حاجٌّ مضَحٍّ مسافرٌ ولترك النبي ﷺ صومه في الحج وليقوى بذلك على الدعاء ، وأفضل الدعاء يوم عرفة".
"میں (نو ذوالحجہ) کے روزے کو پسند کرتا ہوں سوائے حاجی کے ، اس کے لیے یہ ہے کہ عرفہ کے دن کا روزہ نہ رکھے کیونکہ وہ فریضہ حج ادا کرنے والا، قربانی کرنے والا اور مسافر ہے ( سب سے بڑی بات) نبی کریم ﷺ نے بھی حج میں روزہ نہیں رکھا، تاکہ وہ دعا کے لیے خوب توانا رہے اور عرفہ کے دن کی دعا افضل دعا ہے"۔
(دیکھئے مختصر المزني: ص٥٩، فضائل الأوقات للبيهقي: ص۳٦٤)
4. *عشرہ ذوالحجہ کا سب سے عظیم عمل حج* :
اللہ تعالی فرماتا ہے :
*﴿وَلِله عَلَى النّاسِ حِجُّ البَيتِ مَنِ استَطاعَ إِلَيهِ سَبيلًا﴾*
" اور اللہ کے لیے لوگوں پر اس گھر کاحج (فرض) ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھے"۔
[آل عمران: ٩٧]
اللہ تعالی نے ابراہیم علیہ السلام کو حکم فرمایا :
*﴿وَأَذِّن فِي النّاسِ بِالحَجِّ يَأتوكَ رِجالًا وَعَلى كُلِّ ضامِرٍ يَأتينَ مِن كُلِّ فَجٍّ عَميقٍ﴾*
"اور لوگوں میں حج کا اعلان کر دے ، تمہاری طرف پیدل اور لاغر سواری پر آئیں گے جو دور دراز راستوں سے آئیں گی".
[الحج: ٢٧]
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ، آپ نے فرمایا :
*《من حج لله فلم يرفُثْ ، ولم يفسُقْ رجع كيوم ولدته أُمُّه》*
"جس نے اللہ کے لیے حج کیا نہ کوئی فحش بات کی اور نہ کوئی گناہ کا کام کیا تو وہ اس دن کی طرح واپس لوٹا جس دن اس کی ماں نے جنا تھا"۔
(صحیح البخاري:۱۵۲۱، صحیح مسلم : ۱۳۵٠)
ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول الله ﷺ نے فرمایا :
《 *العمرة إلى العمرة كفَّارة لما بينهما ، والحج المبرور ليس له جزاء إلا الجنة* 》
"ایک عمرہ سے دوسرا عمره درمیانی (وقت) کا کفارہ ہے اور نیکیوں سے بھر پور مقبول حج کی جزا جنت کے سوا کچھ نہیں".
(صحیح البخاري: ۱۷۷۳ ، صحیح مسلم : ۱۳٤۹)

5. *عظیم دن* :
عبداللہ بن قرط رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ، نبی کریم ﷺ نے فرمایا :
*《إن أعظم الأيام عند الله تبارك وتعالى يوم النحر ، ثم يوم القَرّ》*
"الله تبارک و تعالی کے نزدیک سب سے عظیم دن قربانی کا دن ، پھر "یوم القر" ہے"۔
(سنن أبي داود: ۱۷٦۵ ، مسند أحمد ٤ / ۳۵۰ ، وسنده صحيح)
*يوم القر* سے مراد عیدالاضحی کا دوسرا دن ہے اس کا یہ نام اس لیے رکھا گیا کہ حاجی طواف افاضہ، قربانی اور دوسرے اہم اعمال ادا کر کے منی میں آرام کرتے ہیں۔
6. *قربانی* :
قربانی ہمارے باپ ابراہیم علیہ السلام کی عظیم سنت ہے اس کی مشروعیت کی عظمت ہی یہ کہ امام الموحدین سیدنا ابراہیم علیہ السلام نے رب تعالی کے حکم کی پیروی اور خوشنودی کے حصول کے لیے اپنے اس لخت جگر کو جو بڑی دعاؤں کے بعد بڑھاپے میں عطا ہوا، اسے قربان کرنے لیے تیار ہو گئے ﴿ *فلمّا أسلما وتلَّه للجبين*﴾ (الصافات:١٠٣)
باپ و بیٹا دونوں ہی فرماں بردار ہو گئے۔ الله أكبر كبيرا !!!
یہی وہ عظیم سنت تھی جسے الله تعالی نے امت محمدیہ ﷺ کے لیے بھی جاری فرما دیا، جیسا کہ الله تعالی نے فرمایا :
*﴿وَفَدَيناهُ بِذِبحٍ عَظيمٍ﴾*
" اور ہم نے اس کے بدلے میں بڑی قربانی دی"۔
[الصافات: ١٠٧]
یعنی اسماعیل علیہ السلام کی جگہ انہیں ایک مینڈھا دیا جو کہ بطور قربانی تھا.
چنانچہ اللہ تعالی نے فرمایا:
*﴿وَلِكُلِّ أُمَّةٍ جَعَلنا مَنسَكًا لِيَذكُرُوا اسمَ اللهِ عَلى ما رَزَقَهُم مِن بَهيمَةِ الأَنعامِ فَإِلهُكُم إِلهٌ واحِدٌ فَلَهُ أَسلِموا وَبَشِّرِ المُخبِتينَ﴾*
"ہم نے ہر امت کے لئے قربانی مقرر کی ہے تاکہ وہ ان چوپایوں پر اللہ کا نام لیں جو اس نے انہیں دیے ہیں تو تمہارا الہ ایک ہی الہ ہے تو اسی کے فرماں بردار ہو جاؤ اور عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے"۔
[الحج: ٣٤]
اللہ تعالی نے فرمایا:
*﴿قُل إِنَّ صَلاتي وَنُسُكي وَمَحيايَ وَمَماتي لِله رَبِّ العالَمينَ﴾*
"(اے نبی) کہ دیجئے بے شک میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت اللہ کے لیے ہے جو جہانوں کا رب ہے"۔
[الأنعام: ١٦٢]
اللہ تعالی فرماتا ہے :
*﴿لَن يَنالَ الله لُحومُها وَلا دِماؤُها وَلكِن يَنالُهُ التَّقوى مِنكُم كَذلِكَ سَخَّرَها لَكُم لِتُكَبِّرُوا اللهَ عَلى ما هَداكُم وَبَشِّرِ المُحسِنينَ﴾*
"اللہ تعالیٰ کو ہرگز نہ ان کے گوشت پہنچیں گے اور نہ ان کے خون لیکن اسے تمہارا تقوی پہنچے گا اسی طرح اس نے انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تا کہ تم اس کی بڑائی بیان کرو کہ اس نے تمھیں ہدایت دی، اور نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیجئے"۔
[الحج: ٣٧]
7. *تکبیرات* :
عشرہ ذوالحجہ شروع ہوتے ہی اس میں عمومی طور پر ہر جگہ، بازاروں میں اور ہر وقت اللہ تعالی کی بڑائی، تکبیرات، اذکار، تسبیحات اور حمد و تعریف بہت عظیم اعمال ہیں جنہیں علما نے "تکبیرات مطلق" سے تعبیر کیا ہے لیکن یوم عرفہ، یوم النحر اور ایام تشریق (یعنی 9 ذوالحجہ سے 13 ذو الحجہ) کے دنوں میں فرض نمازوں کے بعد خاص طور پر اللہ کا ذکر اور تکبیرات بلند کرنا بہت اہمیت کا حامل ہے جنہیں علما نے "تکبیرات مقید" سے موسوم ہے۔ دیکھیے، المغنی لابن قدامة: ٣/ ٢٥٦.
چنانچہ اللہ تعالی فرماتا ہے:
﴿وَاذكُرُوا اللهَ في أَيّامٍ مَعدوداتٍ﴾
"گنتی کے دنوں میں اللہ کا ذکر کرو"۔
[البقرة: ٢٠٣]
جمہور مفسرین کے نزدیک ان "گنتی کے دنوں" سے مراد "ایام تشریق" (یعنی 13،12،11 ذوالحجہ) ہیں.
(دیکھیے : صحيح البخاری : قبل ح٩٦٩، تفسیر الطبری:٣٣٢-٢/٣٢٧، تفسیر ابن کثیر : ٢/١٢٤)
اس کی تائید اس حدیث سے بھی ہوتی ہے جو کہ نبیشہ بن عبداللہ الھذلی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
《 *أيام التشريق أيام أكل و شرب و ذكر الله* 》
"ایام تشریق کھانے، پینے اور اللہ کے ذکر کے دن ہیں".
(صحیح مسلم : ١١٤١)
سمرہ بن جندب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" *أحب الكلام إلى الله أربع: سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر، لا يضرك بأيهن بدأت* ".
اللہ تعالی کے نزدیک سب سے محبوب ترین کلمات چار ہیں: "سبحان الله، والحمد لله، ولا إله إلا الله، والله أكبر" ان میں سے جس کلمے کو پہلے کہہ لو کوئی حرج نہیں ۔
(صحيح مسلم:٢١٣٧)
*تکبیرات کے الفاظ* :
تکبیرات کے مختلف الفاظ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم اور تابعین عظام رحمہم اللہ سے ثابت ہیں :
١. *سلمان فارسی رضی اللہ عنہ* :
*الله أكبر، الله أكبر، الله أكبر كبيرا*
(السنن الكبرى للبيهقي: ٣/٣١٦، مزيد ديكهيے: مصنف عبد الرزاق: ١١/٢٩٥)
اس روایت کو حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے صحیح ترین قرار دیا ہے.
(دیکھیے: فتح الباری:٢/٤٦٢)
٢. *ابن عباس رضی اللہ عنہما*:
*الله أكبر كبيرا، الله أكبر كبيرا، الله أكبر و أجل، الله أكبر ولله الحمد*( بعض روایات میں *الله أكبر ولله الحمد* کی جگہ " *الله أكبر على ما هدانا* " کے الفاظ بھی مروی ہیں)
آپ رضی اللہ عنہ یہ کلمات یوم عرفہ کی فجر سے لے کر ١٣ ذوالحجہ کی عصر تک پڑھا کرتے تھے.
(دیکھیے : مصنف ابن أبي شيبة: ١/٤٨٩ ح:٥٦٤٥،٥٦٥٥، مسند مسدد بن مسرهد كما في المطالب العالية لابن حجر:٥/ ١٥١، وسنده صحيح)
٣. امام ابراھیم بن یزید النخعی تابعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں لوگ عرفہ کے دن نماز کے بعد قبلہ رخ ہو کر یہ الفاظ پڑھتے تھے:
*الله أكبر، الله أكبر، لا إله إلا الله والله أكبر، الله أكبر ولله الحمد*.
(مصنف ابن أبي شيبة: ١/٤٩٠ و سنده صحيح)
سیدنا عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے بھی تکبیرات کے مذکورہ کلمات مروی ہیں۔ دیکھیے(مصنف ابن أبي شيبة:١/ ٤٨٨)

*الداعي إلى الخير* : مرکزی جمعیت اہل حدیث و اہل حدیث یوتھ فورس راولپنڈی سٹی
 
Top