• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

علم عقیدہ کی چند اہم مصطلحات

شمولیت
مئی 14، 2018
پیغامات
19
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
46
* علم عقیدہ کی چند اہم مصطلحات*
.....................................
عبيد الله الباقي أسلم
......................................
*عقیدہ کے باب میں مصطلح "عقیدہ"*
*عقیدہ کا لغوی معنی*
مادہ "عقد" کا مدار مندرجہ ذیل معانی پر ہوتا ہے .
ألف - الربط والشد
ب - العهد
ج- الملازمة،
د - التأكيد.
(الصحاح للجوهري: 2/510، و القاموس المحيط للفيروز آبادي ص: 383، و لسان العرب لابن منظور: 3/ 295- 300).
•الربط والشد : مضبوطی سے باندھنا، جیسے: کہاجاتا ہے:"عقد الحبل، يعقد عقدا، إذا ربطه وشده بقوة" اس نے رسی کو مضبوطی سے باندھ دیا.
• العهد : عہد وپیمان نبھانا، جیسے:کہا جاتا ہے:"بين هذه القبيلة وتلك عقد" اِس قبيلہ اور اُس قبیلہ کے درمیان عہد وپیمان ہے.
• الملازمة : لازم پکڑنا، استمرار برتنا، "عقد قلبه على الشيء إذا لزمه" اس نے اپنے دل کو اس چیز پر لگا رکھا ہے.
• التأكيد : تاكيد کرنا، جیسے: کہا جاتا ہے :"عقد البيع، إذا أكده" اس نے عقد فروخت کی تاکید کی.
* عقيدہ کا اصطلاحی معنی*
1 - اللہ عزوجل کے لئے جن امور کو ثابت کرنا ضروری ہے ان پر پختہ یقین رکھنا، جیسے: اس کی وحدانیت، ربوبیت، عبادت میں ایک ماننا، اس کے اسماء حسنی، وصفات علیا پر ایمان رکھنا ( الأسئلة والأجوبة في العقيدة للشيخ صالح الأطرم ص:7).
2 - ايسا پختہ یقین جس کے اندر مطالب إلهيہ، نبوت، امور معاد وغيرها واجب الإیمان چیزوں میں کسی طرح کا کوئی شک وشبہ نہ ہو(العقيدة الإسلامية وتاريخها للدكتور أمان الجامي ص:5).
3- جس پر انسان اپنا دل لگائے رکھے، اور اس کے ساتھ اللہ کے سامنے جھک جائے (الأسئلة والأجوبة الأصولية للسلمان ص : 23).

* مصطلح عقیدہ کا استعمال*
¤ غور کرنے سے پتا چلتا ہے کہ لفظ "عقیدہ" کتاب وسنت میں وارد نہیں ہوا ہے، البتہ اس کے مادہ کا ذکر ضرور آیا ہے، جیسا کہ اللہ سبحانه وتعالی کا ارشاد گرامی ہے{ لَا يُؤَاخِذُكُمُ اللَّهُ بِاللَّغْوِ فِي أَيْمَانِكُمْ وَلَٰكِن يُؤَاخِذُكُم بِمَا عَقَّدتُّمُ الْأَيْمَانَ}[المائدة :89] اللہ تعالٰی تمہارے یمین لغو کی وجہ سے تمہاری پکڑ نہیں کرے گا، اور البتہ تمہاری موکد قسم کی بنا پر تمہاری پکڑ کرے گا.
اسی طرح نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم کی یہ حديث "الخيل معقود في نواصيها الخير إلى يوم القيامة"(صحيح بخاری[2850] صحيح مسلم[1873]) گھوڑے کی پیشانی پر قیامت تک خیر و بھلائی برقرار رہے گی.
¤ اسی طرح قرون مفضلہ میں علمائے کرام نے مصطلح "عقیدہ " کا استعمال نہیں کیا، بلکہ انہوں نے دوسری مصطلحات کا استعمال کیا ہے .
¤ سب سے پہلے جس نے اپنی کتاب میں اس مصطلح "عقیدہ" کا استعمال کیا - میرے علم کے مطابق -
• وہ مام ابو حاتم الرازي (ت 327 ھ) ہیں، انہوں نے اپنی کتاب کا نام رکھا "أصل السنة واعتقاد الدين"، اس كے بعد امام ابوبکر الإسماعيلي (ت371 ھ) نے اپنی کتاب " اعتقاد أئمة الحديث " میں، پھر اس کے بعد بہت سارے أئمہ کرام نے اس مصطلح کو اپنی اپنی کتابوں میں استعمال کیا ہے، جیسے ابو القاسم اللالكائي ( ت 418 ھ) كی کتاب " شرح أصول اعتقاد أهل السنة والجماعة " ، أبو عثمان الصابوني (ت 449 ھ ) كی کتاب " عقیدة السلف أصحاب الحديث " ، أبو بكر
خج٠ البيهقي (ت 458 ھ) كی کتاب " الاعتقاد على مذهب أهل السنة والجماعة " ، قوام السنة الأصبهاني(ت 535 ھ) کی کتاب " الحجة في بيان المحجة وشرح عقيدة أهل السنة " وغيره - سلف صالحین کی قابل ذکر کتابیں ہیں -
*رابعا: علم عقیدہ کے چند نام* :
* التوحيد
* أصول الدين
* السنة
* الفقه الأكبر
*الشريعة
*الإيمان
" علم عقيدہ کے ان ناموں کی واقفیت کا ایک بڑا نتیجہ : اس کے اصلی مصادر کی معرفت حاصل ہوتی ہے " ( أصول الدين عند الأئمة الأربعة للدكتور ناصر القفاري ص:14).

*عقيدہ کے باب میں "مصطلح توحید"*
* توحيد کا لغوی معنی*
" توحید " یہ : - وحد يوحد توحيداً - كا مصدر ہے، - إذا أفرده وجعله واحدا- یعنی اس نے اسے ایک مان لیا.
اور یہ مقصد صرف نفی و إثبات ہی سے پورا ہو سکتا ہے، جسے ایک مانا جائے اس کے علاوہ دوسروں سے حکم ( خاص) کی نفی جائے، اور (صرف) اسی کے لئے اس حکم کو ثابت کیا جائے.
مثلا ہم توحید الوہیت کے بارے میں کہتے ہیں :" انسان کے لئے توحید (کا مفہوم) اس وقت تک پورا نہیں ہو سکتا ہے جب تک کہ وہ اس بات کی گواہی نہ دے کہ اللہ کے سوا کوئی حقیقی معبود نہیں، لہذا وہ اللہ کے علاوہ دوسرے ( تمام) معبودان باطلہ کے حق میں " الوہیت" کی نفی کرتا ہے ، اور صرف اللہ ہی کے لئے ثابت کرتا ہے ( لسان العرب لابن منظور : 3/448).
ابن فارس کہتے ہیں:" وحد: الواو والحاء والدال:أصل واحد يدل على الانفراد، من ذلك: الوحدة: وهو واحد قبيلته، إذا لم يكن فيهم مثله"وحد: واو، حاء، اور دال: ایک ایسی اصل ہے جو انفرادیت پر دلالت کرتی ہے، اسی سے ( کہا جاتا) ہے " الوحدة" یعنی وہ قبیلہ کا اکیلا ہے، جب ان میں اس جیسا کوئی نہ ہو( معجم مقاييس اللغة لابن فارس:6/ 190 - 192) .
* توحيد كا اصطلاحی معنی*
اصطلاح میں " توحید " کہا جاتا ہے: جن امور میں اللہ متفرد ہے، اور جن چیزوں کے ساتھ ایک ماننے کا حکم دیا ہے؛ ان تمام امور ( الہیہ) میں اللہ کو ایک مان لینا.
لہذا ہم اللہ کو اس کی ملکیت میں، اس کے کاموں میں اکیلا مانتے ہیں، اس کے علاوہ کوئی رب نہیں، اور نہ ہی اس کا شریک ہے، اور ہم اللہ کو اس کی الوہیت میں یکتا مانتے ہیں، لہذا صرف وہی عبادت لائق ومستحق ہے، اور ہم اسے اس کے نام و صفات میں منفرد مانتے ہیں،لہذا اس کے کمال میں اس کا نہ تو کوئی مثیل ہے اورنہ ہی کوئی نظیر ہے(الدين الخالص لصديق حسن خان:1/56).
* توحید اور عقیدہ کے درمیان مطابقت*
"عقیدہ" اور "توحید" کے درمیان باعتبار مصطلح ایک خاص مطابقت ہے، چنانچہ ان پر غور کرنے سے پتہ چلتا ہے کہ " عقیدہ" صرف اللہ کی وحدانیت پر مقصور نہیں ہے، بلکہ " توحید" کے علاوہ بہت سارے مسائل عقدیہ کو شامل ہے، لہذا مصطلح " عقیدہ " کے مفہوم میں رسل - علیہم السلام - اور ان کی رسالت، فرشتے اور ان کے اعمال، کتب سماویہ، مسائل قضا و قدر، مسائل امامت (و خلافت) و صحابہ - رضی اللہ عنہم، بلکہ فرق ضالہ سے متعلق مسلمانوں کا موقف جیسے مباحث عقدیہ داخل ہوتے ہیں.
علم عقیدہ اتنا وسیع ہے کہ وہ بہت سارے مباحث عقدیہ کو متضمن ہے، اور اس کی جزئیات میں سے " توحید " سب سے اہم جزو ہے، اسی لئے علماء مسلمین نے علم عقیدہ کا نام ہی " توحید " رکھ دیا ہے.
اور غور کر نے سے مزید یہ بات بھی آشکارا ہو جاتی ہے کہ " توحید " اور " عقیدہ" کے درمیان ایک جزوی مطابقت ہے.
اسی سے سوال اٹھتا ہے کہ اگر " توحید " اور " عقیدہ" کے درمیان صرف ایک جزوی مطابقت ہے، " تو پھر کیوں علم عقیدہ کا نام توحید رکھا گیا؟" اور " کیوں قرون ماضیہ کے علماء نے اپنی کتب عقیدہ کا نام - توحید - رکھا؟
*الجواب* : عقیدہ کا نام توحید رکھنا در اصل " تسمية الشيء بأشرف أجزائه" كے باب میں سے ہے، یعنی کسی چیز کا نام اس کے سب سے بہترین جزو کے ساتھ رکھ دیا جائے، اور چونکہ اللہ کی وحدانیت ہی علم عقیدہ کا سب سے بہترین مبحث ہے ( اس لئے علم عقیدہ کا نام توحید رکھا گیا ہے)، رہی بات دوسرے مباحث عقدیہ کی؛ جیسے فرشتے، کتب سماویہ، یوم آخرت، قضا و قدر پر ایمان لانا، مباحث امامت (و خلافت) اور صحابہ کرام - رضی اللہ عنہم - وغیرھا مسائل تو یہ سب اسی " توحید" کی طرف لوٹتے ہیں، کیونکہ وہی ان کی اساس وجوہر ہے، لہذا اس طرح کے عقدی مسائل مصطلح توحید کے اندر استلزاماً داخل ہوجاتے ہیں.
*توحید اور عقیدہ کے درمیان فرق*
توحید اور عقیدہ کے معانی کے درمیان کیا فرق ہے ؟
*الجواب* : عقیدہ اپنے موضوع کے اعتبار سے زیادہ عام ہے، کیونکہ یہ توحید اور دوسرے مباحث عقدیہ کو بھی شامل ہے، لہذا اس کے مفہوم میں ایمان کے چھ ارکان، دوسرے ادیان، فرق، اور عصری انقلابات پر علمائے کرام کے ردود جیسے مسائل بھی داخل ہو جاتے ہیں.
اس کے بر عکس توحید ہے، جو صرف اللہ کی وحدانیت پر ہی مقصور ہے، اور یہ "عقیدہ" کا سب عمدہ جزو ہے.
ملاحظہ کرنے سے یہ بات بھی عیاں ہو جاتی کہ کتب سماویہ، رسل - علیہم السلام - یوم آخرت، قضا و قدر کے مباحث إیمانیہ عقيدہ کے مفہوم میں مطابقا داخل ہوتے ہیں ، جبکہ توحید کے مفہوم میں استلزاما داخل ہوتے ہیں، لہذا آپ اللہ عزوجل إيمان پر رکھتے ہیں تو لازمی طور پر آپ کو اللہ کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، اور ان تمام امور غیبیات پر إيمان رکھنا ہے؛ جن کی خبر اللہ اور اس کے رسول صلى الله عليه وسلم نے دی ہے، اور ساتھ ہی ساتھ اس تقدیر پر بھی إيمان رکھنا ضروری ہے؛ جسے اللہ اپنی مشیئت و ارادے کے مطابق اپنے بندوں پر نافذ کرتا ہے.
*: توحید کے نام پر علم "عقيده" کی چند مؤلفات*
1 - امام محمد بن إسماعيل بخاري (ت 256 ھ) - رحمہ اللہ - نے اپنی کتاب "الجامع الصحیح " کے اندر اس مصطلح کا استعمال کیا ہے، انہوں جس کتاب کے اندر احادیث "عقیدہ "کی تخریج کی ہے؛ اس کا نام " کتاب التوحید " رکھا ہے.
2- أبوالعباس أحمد بن عمر بن سريج البغدادي(ت 306 ھ ) - رحمہ اللہ - نے جب عقیدہ پر تصنیف کی؛ تو اس کتاب کا نام "کتاب التوحید" رکھا.
3- أبو بكر محمد بن إسحاق بن خزيمة النيسابوري (ت 311ھ) - رحمہ اللہ - نے جب عقیدہ پر تالیف کی؛ تو اس کا نام "كتاب التوحيد وإثبات صفات الرب عزوجل" رکھا.
4- أبو عبد الله محمد بن إسحاق بن مندة ( ت 395ھ) - رحمہ اللہ - نے " کتاب التوحید ومعرفة أسماء الله عزوجل وصفاته على الاتفاق والتفرد " نامی کتاب " عقیدہ" پر تالیف کی.
پھر اس کے بعد " توحید " کے نام سے بہت ساری کتابیں لکھی گئیں.

*عقيدہ کے باب میں مصطلح "أصول الدين"*
*أصول الدين سے مراد* :
الجواب:مصطلح "أصول الدين" یہ مضاف (أصول) اور مضاف إليہ (الدين) سے مرکب ہے، اور کسی بھی مرکب کا معنی سمجھنے کے لئے اس کے أجزاء کی تحلیل کی ضرورت ہوتی ہے. لہذا "أصول" : تو اس کا مفرد أصل ہے، اور اس کا لغوی معنی ہے : کسی چیز کی بنیاد،(معجم مقاييس اللغة لابن فارس:1/109)، یا جس پر دوسرے کی بنا ہو، جیسے: گھر کی بنیاد، درخت کی جڑ وغیرہ.(كشاف اصطلاحات الفنون للتهانوي:1/122-123).
أصل کا اصطلاحی معنی:
جس کا کوئی فرع ہو، کیونکہ فرع کے لئے أصل کا ہونا ضروری ہے.( شرح الكوكب المنير لابن النجار :1/38).
• دين كا لغوی معنی : جھک جانا، اور تواضع وخاکساری ہوتا ہے.
• دن کا اصطلاحی معنی: دین سے مراد "دین اسلام" ، اللہ کی طاعت وعبادت، اس کی وحدانیت، أوامر کی بجاآوری، نواہی سے اجتناب، اور ہر وہ چیز جس سے اللہ عزوجل عبادت کی جاتی ہے( القاموس المحيط للفيروزآبادي، ص:1546).
• اس اعتبار سے "أصول الدين " سے مراد: وہ قواعد و بنیاد ہیں؛ جن کے ذریعے عبادت صحیح ہوتی ہے، مامورات کی بجاآوری و نواھی سے دوری اختیار کر کے اللہ و رسول صلى الله عليہ وسلم کی اطاعت متحقق ہوتی ہے، کیونکہ "اعتقاد" ہی وہ اصل ہے؛ جس پر قبول و صحتِ اعمال کا مدار ہوتا ہے.
• بنا بریں "أصول الدين" وہ قواعد و أسس ہیں جن پر دین کا دار و مدار ہے، اور دین اسلام - در اصل - "عقیدہ توحید" پر ہی قائم ہے، اسی لئے علم توحید یا علم عقیدہ کا نام "أصول الدين " ركھا گیا ہے.
*أصول الدين کی شرعی حقیقت*
مصطلح "أصول الدين" کا صحیح مفہوم در اصل إيمان كے چھ ارکان ہے؛ جن کا ذکر اللہ سبحانہ وتعالی کی اس آیت کریمہ میں آیا ہے {لَيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ}[البقرة:177]، نیکی کا مطلب یہ نہیں کہ اپنے چہرے کو مشرق و مغرب کی طرف پھیر لیں، بلکہ اصل نیکی تو یہ ہے جنہوں نے اللہ، اور یوم آخرت، اور فرشتوں، اور کتابوں، اور نبیوں پر ایمان لایا " ، اور اللہ کا ارشاد گرامی ہے :{إنا كل شيء خلقناه بقدر}[القمر:49]، ہم نے ہر چیز کو ایک اندازے سے پیدا کیا ہے.
اور جب حضرت جبریل - علیہ السلام -نے رسول اللہ - صلى الله علیہ وسلم - كو ایمان کے بارے میں سوال کیا؛ تو اس وقت انہوں نے ان چھ چیزوں سے ہی جواب دیا تھا:"أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكِتَابِهِ، وَلِقَائِهِ، وَرُسُلِهِ، وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ كُلِّهِ" (صحيح مسلم[١٠])، ايمان یہ ہے کہ آپ اللہ، اور اس کے فرشتوں، اوراس کی کتابوں، اور یوم آخرت پر ایمان رکھیں، اور بھلی بری تقدیر پر ایمان رکھیں.
حدیث جبریل میں ایسے چھ اصول بیان کئے گئے ہیں جن پر بندے کا ایمان قائم ہوتا ہے، اور ان ہی کے ذریعے عبادت صحیح ہوتی ہے.
* أصول الدين کے نام پر عقیدہ کی چند کتابیں*
امام شافعي (ت 204ھ) رحمہ اللہ نے شاید سب سے پہلے علم عقیدہ کے لئے اس مصطلح کو اپنی کتاب "الفقه الأكبر" میں استعمال کیا ہے، کتاب کے مقدمہ میں فرماتے ہیں: "هذا كتاب ذكرنا فيه ظواهر المسائل في أصول الدين؛ التي لا بد للمكلف من معرفتها، والوقوف عليها" یہ ایک ایسی کتاب ہے جس کے اندر ہم نے اصول دین کے ظاہری مسائل کو ذکر کیا ہے؛ جن کی معرفت و جانکاری ہر مکلف کے لئے ضروری ہے".
1- امام ابو الحسن الأشعري (ت 329ھ) - رحمہ اللہ - نے اپنی کتاب " الإبانة عن أصول الديانة " میں اس مصطلح کا استعمال کیا ہے، اس کتاب کے اندر انہوں نے اهل السنہ والجماعہ کے عقیدے کو بیان کیا ہے.
2- اسی طرح امام ابو حاتم الرازي (ت327ھ) - رحمہ للہ - نے اپنی کتاب "أصل السنة والاعتقاد الدين" میں اس تسمیہ کا استعمال کیا ہے.
3- اور ان دونوں کے بعد اس مصطلح کا استعمال امام عبيد الله بن محمد بن بطة العكبري ( ت 387 ھ) - رحمہ اللہ - نے اپنی کتاب "الشرح والإبانة عن أصول الديانة"میں کیا ہے، جو "الإبانة الكبرى " کے نام سے مشہور ہے.
4- اور عبد القاهر البغدادي (ت 429ھ)- رحمہ اللہ- نے بھی اپنی کتاب " أصول الدين" میں اس مصطلح کا استعمال کیا ہے.
پھر اس کے بعد اس نام پر عقیدے کی بہت ساری کتابیں لکھی گئیں.
*تنبيہ* :
اس بات کو ہمیشہ ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ - یہاں- فروع سے تمییز کی غرض سے عقیدہ کو "أصول الدين" کہا گیا ہے، ورنہ فروع سے استغنا ممکن نہیں، اگر کوئی یہ سمجھے کہ صرف "أصول" ہی پر عمل کیا جائے گا تو یہ غلط ہے، کیونکہ دین سے متعلق ایک قاعدہ ہے " الدين كل لا يتجزأ " دین مکمل ہو چکا ہے، وہ بالکل پورا ہے، لہذا ایک حکم کو چھوڑ کر دوسرے پر عمل کرنا خلاف شریعت ہے، اس سے بچنا چاہئے، اہل کتاب میں سے جن لوگوں نے اپنی کتاب کے بعض احکامات کو تو مان لیا، لیکن بعض کو پس پشت ڈال دیا، ان پر اللہ نے سخت عتاب کیا ہے:{أَفَتُؤْمِنُونَ بِبَعْضِ الْكِتَابِ وَتَكْفُرُونَ بِبَعْضٍ ۚ فَمَا جَزَاءُ مَن يَفْعَلُ ذَٰلِكَ مِنكُمْ إِلَّا خِزْيٌ فِي الْحَيَاةِ الدُّنْيَا ۖ وَيَوْمَ الْقِيَامَةِ يُرَدُّونَ إِلَىٰ أَشَدِّ الْعَذَابِ ۗ وَمَا اللَّهُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُونَ}[ البقرة: 8] کیا تم کتاب کے بعض (احکامات) پر ایمان لاتے ہو، اور بعض کا انکار کرتے ہو، تم میں سے جو یہ کرتے ہیں ان کی سزا دنیاوی زندگی میں ذلت ہے، اور بروز قیامت انہیں سخت ترین عذاب کی طرف گھسیٹا جائے گا، اور تمہارے کرتوتوں سے اللہ بے خبر نہیں ہے.

* عقیدہ کے باب میں مصطلح سنت*
• *سنت کا لغوی معنی*
"السنة" سن یسن سنا،فهو مسنون. سے مأخوذ ہے، "سن الأمر: بينه. اس نے معاملہ کی وضاحت کی.
سنت کا استعمال کئی معانی پر ہوتا ہے، ان میں سے چند یہ ہیں:
ألف - الطريقة المسلوكة
ب - السيرة
ج - العادة
(الصحاح للجوهري : 5/1238-1240، ومعجم مقاييس اللغة لابن فارس: 3/60-61، و لسان العرب لابن منظور :13/220-228).
• *الطريقة المسلوكة* : ایسا طریقہ جس کی پیروی کی جا ئے، خواہ وہ طریقہ اچھا ہو یا مذموم، اور اسی سے نبی صلى الله عليه وسلم کا یہ قول ہے" من سن في الإسلام سنة حسنة فله أجرها وأجر من عمل بها بعده،من غير أن ينقص من أجورهم شيء، ومن سن في الإسلام سنة سيئة كان عليه وزرها ووزر من عمل بها، من غير أن ينقص من أوزارهم شيء "(صحيح مسلم[1017])، جس نے اسلام کے اندر کسی سنت کو زندہ کیا، اور لوگوں کو اس کی طرف دعوت دی؛ تو وہ اس کار خیر کے ثواب سے سرفراز ہوگا، اور اس کے بعد جو اس پر عمل پیرا ہوں گے ان کا بھی اجر اسے ملے گا، حالانکہ ان کے اجر میں کسی طرح کوئی کمی نہیں آئے گی، اور جس نے اسلام کے اندر کسے مذموم طریقے (بدعت ) کی ایجاد کی، تو اس کا گناہ گار وہی ہے، اور اس کے بعد جو اس پر عمل کریں گے ان کا گناہ بھی اسی پر ہے ، جبکہ ان کے گناہ میں کوئی کمی نہیں آئے گی.
• *السيرة* : اور "سنة الرسول صلى الله عليه وسلم " سے مراد: ان كا وہ طریقہ ہے؛ جن پر وہ گامزن تھے، لہذا ان سے جو بھی قول، یا فعل، یا تقریر ثابت ہے، اسے سنت کہا جاتا ہے.
ابن اثیر - رحمہ اللہ - فرماتے ہیں :" حدیث میں سنت اور اس کے متصرفات کا ذکر بارہا آیا ہے، اور ان کی اصل "سیرت اور طریقہ" ہے( النهاية في غريب الحديث: 2/409).
• *العادة* : اور اسی سے اللہ کا یہ قول ہے :{سُنَّةَ مَن قَدْ أَرْسَلْنَا قَبْلَكَ مِن رُّسُلِنَا ۖ وَلَا تَجِدُ لِسُنَّتِنَا تَحْوِيلًا}[الإسراء:77] ہم نے تم سے پہلے جتنے بھی رسول بھیجے ان کے سلسلے میں یہی طریقہ رہا ہے، اور ہمارے طریقے میں کو تبدیلی نہیں پاؤ گے.
• *اصولیین کے نزدیک سنت کی تعریف*
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قول، یا فعل، یا تقریر کو " سنت " کہا جاتا ہے.( مذكرة في أصول الفقه للشيخ الشنقيطي ص:95).
• *"سنت" اور " عقیدہ" کے درمیان مناسبت*
مسائل اعتقاد ہی دین کی اصل ہیں،جن پر اسلام کے دوسرے اعمال کا مدار ہے، لہذا ان کی اہمیت کے پیش نظر علمائےکرام نے لفظ"سنت" کا اطلاق ان قضایا عقدیہ پر کیا ہے، جو کتاب وسنت کے عین موافق ہوں.
چنانچہ شعیب بن حرب - رحمہ اللہ - نے امام سفیان ثوری - رحمہ اللہ- سے کہا کہ :"حدثني بحديث من السنة" مجھے سنت سے متعلق ایک حدیث سنائیں، تو انہوں نے ان کے سامنے اہل سنت کے مجمل اعتقاد کو بیان فرمایا(ص:شرح اعتقاد أهل السنة والجماعة للإمام اللالكائي :1/153).
امام سفیان بن عینہ - رحمہ اللہ - فرماتے ہیں:" السنة عشرة فمن كن فيه فقد استكمل السنة، ومن ترك منها شئاً فقد ترك السنة" سنت کی تعداد دس ہے، جس کے اندر وہ موجود ہوں؛ اس نے سنت کو مکل کر لیا، اور جس نے ان میں سے کسی ایک کو بھی چھوڑ دیا ؛ تو اس نے سنت کو چھوڑ دیا(شرح اعتقاد أهل السنة والجماعة للإمام اللالكائي:1/155).
اس کے بعد انہوں نے چند ایسے جملوں کو ذکر کیا ہے؛ جو عقیدہ اہل السنہ والجماعہ پر مشتمل ہیں.
اس ضمن میں شیخ الاسلام ابن تیمیہ - رحمہ اللہ- فرماتے ہیں کہ:" سلف کے کلام میں لفظ " سنت" عبادت اور اعتقادات کے معنی میں مستعمل ہے، اور ( یہی وجہ ہے کہ ) بہت سارے - علمائے کرام - نے سنت کے نام پر کتب عقیدہ تصنیف کی ہے.( الأمر بالمعروف والنهي عن المنكر، لابن تيمية ص:77).
• اور جب سنت ہی مصادر عقیدہ کا سب سے اہم مصدر ہے، اور عقیدہ صحیحہ کو ثابت کرنے کے لئے سب سے بہترین طریقہ ہے، تو علمائے کرام نے " سنت" کا معنی" اتباع عقیدہ صحیحہ " لیا ہے، اور عقیدہ سلف پر بھی سنت کا اطلاق کیا ہے، کیونکہ وہ لوگ رسول اللہ صلى الله عليه وسلم اور صحابہ کرام - رضی اللہ عنہم- کے طریقے کی اتباع کرتے تھے.
ابن رجب حنبلی - رحمہ اللہ - فرماتے ہیں :" سنت: نبی صلى الله عليه وسلم كا وہ طریقہ ہے جس پر وہ خود اور ان کے صحابہ - رضی اللہ عنہم - قائم تھے، جو شبہات وشہوات سے محفوظ ہے، پھر اس کے بعد بہت سارے علمائے اھل حدیث وغیرہم کے یہاں "سنت" ایک اصطلاح بن گئی کہ(سنت): اعتقادات میں شبہات سے بچنے کا نام ہے، اور خاص طور سے اللہ، اور اسکے فرشتوں، اور اس کے رسولوں، اور یوم آخرت پر ایمان لانے میں، اور مسائل تقدیر، اور فضائل صحابہ ( جیسے اہم مسائل میں شک کی گنجائش نہیں)، اور انہوں نے اس علم ( عقیدہ) میں بہت ساری کتابیں تصنیف کیں، جن کا نام " کتب السنة " رکھا.( کشف الكرب في حال في وصف حال الغربة ص: 11-12)، السنة لابن عاصم :2/645-647).
• مباحث اعتقاد پر " سنت" کے اطلاق سے عقیدہ کی اھمیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے، کیونکہ وہی دین کی اصل ہے، اور اس کی مخالفت کرنے والا عظیم خطرے پر ہے.( جامع العلوم والحكم لابن رجب ص:249، الوصية الكبرى لابن تيمية ص:60).
چنانچہ جب تیسری صدی ہجری میں بطور اصطلاح "سنت" عام ہوئی، اور امام احمد بن حنبل - رحمہ اللہ - کے زمانے میں فرقوں کا ظہور ہوا، اور عقائد مبتدعہ رائج ہو ئے، تو علمائے کرام نے اصول دین اور مسائل عقیدہ پر "سنت " کا اطلاق کرنا شروع کیا، تاکہ اصول و فروع کے درمیان فرق کیا جاسکے.
• *سنت کے نام پر علم "عقیدہ" کی چند کتابیں*
1- امام ابن أبي شيبه ( ت235ھ) - رحمہ اللہ- کی "السنة ".
2- امام احمد بن حنبل(ت 241ھ) - رحمہ اللہ - کی کتاب "السنة".
3- امام ابوبکر أحمد بن محمد بن هاني البغدادي (273ھ) - رحمہ اللہ - کی کتاب "السنة".
4- أبوعلي حنبل بن إسحاق بن هلال (ت273 ھ ) - رحمہ اللہ - کی کتاب "السنة".
5- ابو داؤد سليمان بن الأشعث السجستاني (ت 275ھ) كی کتاب"السنة".
ان کے علاوہ سنت کے نام پر عقیدہ کی اور بھی کتابیں ہیں.

*عقیدہ کے باب میں مصطلح الفقہ الأكبر*
*فقہ کی تعریف*
• *"فقہ" کا لغوی معنی* : فہم و سمجھ ہوتا ہے.
ابن فارس فرماتے ہیں:" فقه : الفاء والقاف، والهاء أصل واحد صحيح يدل على إدراك الشيء والعلم به"( معجم مقاييس اللغة لابن فارس :4/242). فقہ: فاء، قاف، اور هاء ایک ایسی صحیح اصل ہے جو کسی چیز کے ادراک، اور اس کی جانکاری پر دلالت کرتی ہے.
• قرون اولی میں " فقہ" کا اطلاق تمام احکام شرعیہ کے علم پر ہوتا تھا، اور اسی سے نبی کریم صلى الله عليه وسلم کا یہ قول ہے:" من يرد الله به خيرا يفقهه في الدين"( صحيح البخاري) جس کے ساتھ اللہ خیر کا ارادہ کر لے اسے دین کی سمجھ عطا کرتا ہے، اور اسی طرح اللہ کے نبی -صلى الله عليه وسلم - نے اپنے چچا زاد بھائی عبد اللہ بن عباس -رضي الله عنهما- کے لئے یہ دعا فرمائی تھی " اللہم فقهه في الدين ، وعلمه التأويل " ( الإصابة لابن حجر:2/331). ائے اللہ ! تو اسے دین کی سمجھ عطا فرما، اور اسے علم تأويل( تفسیر ) سے سرفراز کر.
یہ دعا صرف حلال وحرام کے مسائل کے لئے نہیں تھی، بلکہ دین کے سارے مسائل کے لئے عام تھی.
اسی سے معلوم ہوتا ہے کہ متأخرين نے مصطلح " فقہ" کو حلال وحرام وغیرہ مسائل کے ساتھ خاص کیا ہے.
• *عقیدہ کا نام " فقہ اکبر " کیوں رکھا گیا* ؟
علمائے کرام نے عقیدہ کا نام " فقہ اکبر " رکھا ہے، تاکہ " فقہ اصول" اور " فقہ فروع" کے درمیان مقارنہ کیا جا سکے.
لہذا "فقہ اکبر" اس بات پر غماز ہے کہ کوئی اور فقہ ہے جو " اکبر" کے علاوہ ہے، اور یہ وہ " فقہ " ہے؛ جس پر " فروع" کا اطلاق ہوتاہے.

• *"فقہ اکبر" کے نام پر عقیدہ کی چند کتابیں* .
سب سے پہلے جس نے مصطلح " فقہ اکبر" کا استعمال کیا ہے ، وہ ہیں امام ابو حنیفہ النعمان بن ثابت (ت 150 ھ ) - رحمہ اللہ - ، ان کے تعلق سے روایت کی جاتی ہے کہ انہوں نے "الفقه الأكبر " نامی کتاب تصنيف کی تھی، جو کہ حلقہ احناف میں مشہور ہے، اس کتاب میں امام صاحب - رحمہ اللہ - نے بعض اعتقادی مسائل کو بیان کیا ہے.
*تنبیہ* :
"الفقہ الأکبر" دو طریقوں سے مروی ہے:
1- طریق حماد بن أبي حنيفة
2- طريق أبي مطيع البلخي
پہلے طریق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ امام ابو حنیفہ - رحمہ اللہ - کی تأليف ہے، مگر یہ بات درست نہیں ہے، کیونکہ اس کے اندر چند ایسے قرائن موجود ہیں؛ جو اس بات دلالت کرتے ہیں کہ اس کی نسبت امام صاحب کی طرف صحیح نہیں ہے:
1- اس کی اسناد ضعیف ہے، کیونکہ اس کے اندر بعض رجال مجہول ہیں.
2- اس کی کتاب کے اندر چند ایسے قضایا ہیں جو امام ابو حنیفہ - رحمہ اللہ - کے زمانے میں موجود نہ تھے، اور کچھ ایسی مصطلحات کلامیہ ہیں؛ جو اس زمانے معروف نہ تھیں، اور ساتھ چند ایسے فرقوں، رجال، اور ایسے مسائل (مذکور) ہیں؛ جو امام ابو حنیفہ - رحمہ اللہ - کے زمانے در پیش ہی نہیں ہوئے، تو کیسے امام صاحب ان کے بارے میں بات کر سکتے ہیں؟!
خلاصہ یہ ہے کہ "فقہ اکبر" کا موجودہ نسخہ امام ابو حنیفہ - علیہ الرحمہ- کی تالیف نہیں ہے، مگر اس کی سند صحیح ثابت ہوجائے تو یہ مانع نہیں ہے کہ اصل کتاب ان ہی کی تأليف ہے.
رہی بات دوسری کتاب کی تو یہ ابو مطیع البلخي کی روایت ہے، اور اس روایت کی بناء پر یہ امام ابو حنیفہ - رحمہ اللہ - کی کتاب نہیں ہو سکتی ہے؛ کیونکہ یہ چند سؤالوں کا مجموعہ ہے؛ جنہیں ابو مطیع نے امام صاحب کے سامنے پیش کیا تھا؛ اور ان ہی سوالات کے جوابات کو انہوں نے لکھا ہے.
لہذا اس سے اس کتاب کی نسبت ابو مطیع کی طرف ثابت ہوتی ہے، اور اسی چیز کو مد نظر رکھتے ہوئے بہت سارے علماء کرام نے "فقہ اکبر" کو ابو مطیع کے طریق سے امام ابو حنیفہ - رحمہ اللہ- کی تأليف شمار کیا ہے(دیکھیں: التقريرات المفيدة في التعريف بعلم العقيدة:60-61).
• اسی طرح امام شافعی محمد بن إدريس (ت 204 ھ ) - رحمہ اللہ - کی طرف " الفقه الأكبر " نامی کتاب منسوب کی جاتی ہے، جس کے اندر انہوں نے اعتقادی مسائل کو بالتفصیل پیش کیا ہے.
*تنبیہ* :
اس کتاب کی نسبت امام شافعی - رحمہ اللہ - کی طرف کرنا صحیح نہیں ہے، اور اس سلسلے میں کافی سارے ایسے دلائل ہیں؛ جو اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ یہ کتاب امام شافعی - رحمہ اللہ - کی نہیں ہے(تفصیل کے لئے رجوع کریں:براءة الأئمة الأربعة مما نسب إليهم من المسائل المبتدعة،ص:88]).
*تنبیہ* :
مصطلح " الفقه الأكبر " کے بارے میں وہی کہا جائے گا جو مصطلح" أصول الدين " کے بارے میں کہا گیا ہے، چونکہ عقیدہ کا نام "فقہ اکبر " رکھا گیا ہے، اس لئے بعض لوگ یہ سمجھتے ہیں کہ دوسری فقہ جیسے احکام، حلال و حرام کے مسائل میں اھمال کیا جا سکتا ہے، جو کہ قطعا صحیح نہیں ہے، بلکہ اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ عقیدہ کا نام "فقہ اکبر" صرف اس لئے رکھا گیا ہے تاکہ اس کا اہتمام کیا جائے، اور اعمال کی ادائیگی سے قبل عقیدے کی تصحیح کر لی جا ئے، ورنہ اعمال کی ادائیگی اور اسکے تفصیلی دلائل کی معرفت حاصل کرنے میں کوتاہی و غفلت کسی بھی صورت میں درست نہیں، اس لئے کہ دین مکمل ہو چکا ہے، ہر حکم شرعی کے پیچھے کوئی نہ کوئی مقصد کار فرما ہے، لہذا ایک حکم کو چھوڑ کر دوسرے پر عمل کرنا جائز نہیں، کیونکہ نہ تو بعض احکام سے منہ موڑا جا سکتا ہے ، اور نہ ہی بعض پر اکتفا کیا جا سکتا ہے.

* عقيدہ کے باب میں مصطلح الشريعة*
مصطلح سنت ہی کی طرح مصطلح شریعہ بھی ہے،‌ کبھی اس سے عقائد مراد ہوتے ہیں، تو کبھی اعمال، اور بسا اوقات ایک ساتھ دونوں مراد ہوتے ہیں، شیخ الاسلام ابن تیمیہ -رحمہ اللہ- اس ضمن میں فرماتے ہیں:" شریعت، شرع، اور شرعة ایک ایسا نام ہے؛ جو ان تمام عقائد و اعمال کو شامل ہے جن کو اللہ نے نافذ ہے، اور (اس سلسلے میں) شیخ ابوبکر آجری نے کتاب *الشریعة* تالیف کی ہے، اور ابو عبد اللہ بن بطہ نے *الإبانة عن شريعة الفرقة الناجية* نامی کتاب تالیف کی ہے، اور ان کے علاوہ دیگر لوگوں نے بھی تالیف ہے، اسم شریعہ سے ان ائمہ السنہ کی مراد وہ تمام عقائد ہیں: جن کا اہل السنہ اعتقاد رکھتے ہیں، اور یہی وہ عقائد ہیں جن کا نام انہوں نے شریعہ رکھا ہے؛ جن کے عام(مسائل کو) دوسرے لوگوں نے عقلیات اور علم الکلام سے موسوم کیا ہے....(مجموع الفتاوى:19/307-309).
• شریعہ کے نام پر بعض علماء کرام نے عقیدہ کی کتابیں تصنیف کی ہیں؛ جن میں سے چند مندرجہ ذیل ہیں:
1- الشريعة لأبي بكر الآجري
2- الإبانة عن شريعة الناجية ومجانية الفرق المذمومة لابن بطة.

*عقیدہ ‌‌کے باب میں مصطلح الإيمان*
مصطلح ایمان کا اطلاق بھی عقیدہ پر ہوتا ہے، كیونکہ یہ ہر قسم کی طاعات سے متعلق ہے، اور عقیدہ ہی سب سے اشرف علوم، اور سب سے اول واجب ہے، اور سب سے پہلے نبی کریم -صلی اللہ علیہ وسلم- نے ہی حدیث جبریل -علیہ السلام- میں ایمان کہہ کر عقائد کو بیان فرمایا ہے، اسی سے بہت سے علماء کرام نے ایمان کے نام پر کتابیں لکھی ہیں، مگر اس باب میں علماء متقدمین کی کتابیں دو نوعیت کی ہیں:
أ- جن میں عقیدہ کے عام مسائل مذکور ہیں؛ جیسے
1- امام أحمد کی کتاب الإيمان
2-امام ابن مندہ کی کتاب الإيمان
ب- جن میں ایمان کے مسائل مذکور ہیں؛ جیسے:
1- امام ابوعبیدہ القاسم بن سلام کی کتاب الإيمان
2- شیخ الاسلام ابن تیمیہ کی کتاب الإيمان
[ *نوٹ* : اس مضمون کا بیشتر حصہ میرے استاذ محترم دکتور عبد القادر بن محمد عطا صوفی/ حفظہ اللہ کی کتاب"المفيد في مهمات التوحيد" سے ماخوذ ہے].
 
Top