• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

غیر مسلم کو کندھا دینے کی شرعی حیثیت -

شمولیت
جون 21، 2019
پیغامات
97
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
41
سوال: آج کل کورونا سے مرنے والے بعض غیر مسلموں کو ان کے گھر والے کندھا تک نہیں دے رہے ہیں. کیا مسلمان مثالی کردار ادا کرتے ہوئے یہ کام کر سکتے ہیں؟
ــــــــ ـــــــ ـــــــ ـــــــــ ــــــــ ــــــــــ ــــــــــ ـــــــــ

جواب - [emoji421] محمد عبد الرحمن کاشفی

الحمد لله، والصلاة والسلام على رسول الله، وعلى آله وصحبه، أما بعد: الجواب بعون الملك الوهاب.
کافر کے جنازے کے پیچھے چلنے(اتباع الجنازة) کے متعلق کتاب و سنت میں کوئی قطعی دليل موجود نہیں ہے.

البتہ کافر میت کے لیے نماز جنازہ اور دعاء وغیرہ کرنے کی حرمت دلیل قطعی سے ثابت ہے. یہاں تک کہ امام نووی رحمہ اللہ نے کتاب مجموع کے اندر اس پر اجماع کا قول نقل کیا ہے؛

فقد قال الله تعالى: وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ إِنَّهُمْ كَفَرُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَمَاتُوا وَهُمْ فَاسِقُونَ {التوبة:84}،

وقال تعالى: مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَنْ يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَى مِنْ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ {التوبة:113}،

دليل القائلين بالحرمة
جنہوں نے کافر کے جنازے کے پیچھے چلنے سے منع کیا ہے انکی دلیل:
یہ عمل نماز جنازہ کے مشابہ ہے اور ہمیں یہ معلوم ہو چکا ہے کہ كفار کے لیے نماز جنازہ پڑھنا مطلقا حرام ہے.

جاء في الإقناع للبهوتي: وإنما منع المسلم من اتباع جنازة الكافر .. لما فيه من التعظيم له، والتطهير، فأشبه الصلاة عليه، وهي محرمة بنص القرآن الكريم. اهـ

دلیل القائلين بالجواز
قائلین جواز کی دلیل وہ اثر ہے جو چند صحابہ اور تابعین کے حوالے سے منقول ہے کہ وہ حضرات أم الحارث بن أبي ربيعة کے جنازے کے پیچھے گئے تھے اور وہ نصرانیہ تھی.

عند ابن أبي شيبة، وعبد الرزاق، عن الثَّوْرِيّ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنِ الشَّعْبِيِّ قَالَ: مَاتَتَ أُمُّ الْحَارِثِ بْنِ أَبِي رَبِيعَةَ، وَكَانَتْ نَصْرَانِيَّةً، فَشَيَّعَهَا أَصْحَابُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.

؛ فقد روى الإمام محمد بن الحسن الشيباني في كتاب الآثار :
قَالَ: أَخْبَرَنَا أَبُو حَنِيفَةَ، عَنْ حَمَّادٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، أَنَّ الْحَارِثَ بْنَ أَبِي رَبِيعَةَ مَاتَتْ أُمُّهُ النَّصْرَانِيَّةُ، فَتَبِعَ جَنَازَتَهَا فِي رَهْطٍ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ مُحَمَّدٌ: لَا نَرَى بِاتِّبَاعِهَا بَأْسًا، إِلَّا أَنَّهُ يَتَنَحَّى نَاحِيَةً عَنِ الْجَنَازَةِ، وَهُوَ قَوْلُ أَبِي حَنِيفَةَ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ -

(آخری عبارت)امام محمد رحمہ اللہ سے جو قول مروی ہے اس کا یہ مطلب ہے کہ جنازے سے کچھ فاصلہ قائم کرتے ہوئے اس کے پیچھے چلنا چاہیے.

سنن ابو داود میں سیدنا علی ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو خبر دی کہ آپ ﷺ کا بوڑھا گمراہ چچا مر گیا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا ” جاؤ اور اپنے والد کو زمین میں دبا آؤ ‘ پھر کوئی کام نہ کرنا حتیٰ کہ میرے پاس آ جانا ۔ ” چنانچہ میں گیا اور اسے زمین میں دبا آیا اور آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گیا آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا تو میں نے غسل کیا اور آپ ﷺ نے میرے لیے دعا فرمائی ۔‘

جمع و توفیق
اس صحیح حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کافر میت کو کندھا دینے کی گنجائش شریعت میں موجود ہے.

اگر کوئی غیر مسلم کندھا دینے کے لیے تیار نہ ہو یا موجود نہ ہو، تو ایسی صورت میں چند مسلمان اس میت کو کسی جگہہ دفنا دیں. نہ میت کے لیے جنازے کی نماز پڑھی جائیگی اور نہ ہی اس کے حق میں دعاء کی جائیگی.

اس عمل کو انجام دینے کے دوران ہر طرح کے مشرکانہ رسم و رواج سے اجتناب کرنا واجب ہوگا. میت کو شرعی طور سے کفن، دفن و غسل دئے بغیر زمین میں دبا دیا جائیگا.

والله أعلم بالصواب.


Sent from my BKL-L09 using Tapatalk
 
Top