• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن مجید میں حروف جر کی زیادتی کا مسئلہ

شمولیت
فروری 21، 2019
پیغامات
21
ری ایکشن اسکور
5
پوائنٹ
49
✍⁩ ہدایت اللہ فارس
------------------------------------------------------------
قارئین : یہ بات ہمیں اچھی طرح سے معلوم ہے کہ نحوی حضرات جب کوئی قاعدہ بیان کرتے ہیں تو مثال کے طور پر قرآنی آیت یا حدیث و آثار سے کوئی ٹکرا یا عربی شعر وغیرہ جو اس قاعدہ سے متعلق ہو پیش کرتے ہیں۔ تاکہ بات واضح ہوجائے اور اس قاعدہ کو سمجھنے میں دشواری نہ ہو۔ مثلا حروف جر کے باب کو ہی لے لیں۔ حرف جر " با " عموما دس معانی کے لئے آتا ہے ان میں سے ایک زائدہ بھی ہے، اب اس کی وضاحت کے لیے ان جیسے آیتوں کو پیش کرتے ہیں۔ جیسے: وَلَا تُلۡقُوا۟ بِأَیۡدِیكُمۡ إِلَى ٱلتَّهۡلُكَةِ...، وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ شَهِیدࣰا...
اور ترکیب کرتے ہوئے کہتے ہیں یہاں" با "زائد ہے۔۔تو جب پڑھنے والوں کا سامنا پیش کردہ ان جیسی آیتوں سے ہوتا ہے تب ذہن میں یہ اشکال پیدا ہوتا ہے کہ یہاں حرف جر کو زائد کیوں کہا جارہا ہے جبکہ قرآن میں کوئی چیز زائد نہیں۔

جواب : یہ بات بالکل درست ہے کہ قرآن میں کوئی بھی حرف زائد نہیں ہے ، رہی بات اہل لغت کا یہ کہنا کہ فلاں جگہ فلاں حرف زائد ہے تو یہ صرف اعراب کے اعتبار سے ہے ناکہ معنی کے اعتبار سے۔ شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ اس اشکال کا جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں: أنه زائد من حيث الإعراب ، أما من حيث المعنى، فهو مفيد وليس في القرآن شيئ زائد لا فائدة منه، ولهذا نقول : هو زائد؛ زائد بمعنى أنه لا يخل بالإعراب إذا حذف، زائد من حيث المعنى يزيد فيه. ( شرح العقيدة الواسطية ١/ ١٩٩ )
یعنی وہ صرف اعراب کے اعتبار سے زائد ہے،جبکہ معنی کے اعتبار سے مفید ہے۔ قرآن مجید میں ایسی کوئی زائد چیز نہیں ہے جس کا کوئی فائدہ نہ ہو، جب ہم قرآن میں کسی چیز کو زائد کہتے ہیں تو وہ اس معنی میں زائد ہوتی ہے کہ اگر اسے حذف کردیا جائے تو اس سے اعراب میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوگا۔

آئیے اب ہم دیکھتے ہیں کہ جب اعراب کے اعتبار سے زائد ہے تو معنی کے اعتبار سے مفید کیسے۔۔ جیسے آیت کریمہ " وَكَفَىٰ بِٱللَّهِ شَهِیدࣰا..." میں " باء " زائدہ ہے اگر اسے حذف کردیا جائے تو اعراب میں کوئی خلل پیدا نہیں ہوگا۔ لیکن معنی کے اعتبار سے مفید ہے وہ اس طرح کہ یہاں " باء" کو لاکر مقصود کفایت کے معنی میں مبالغہ پیدا کرنا ہے۔

مزید دیکھیں.. وَمَا تَسۡقُطُ مِن وَرَقَةٍ إِلَّا یَعۡلَمُهَا .. میں " من " زائدہ ہے لیکن اسے عظیم فائدہ کے لئے لایا گیا ہے یعنی ورقة سے پہلے من زائدہ لاکر یہ بتلانا مقصود ہے کہ اللہ کو ہر گرنے والے پتے کا علم ہے چاہے وہ جس درخت کا بھی پتہ ہو اور جیسا بھی ہو اس سے گرنے والا ہر پتہ مراد ہے۔( نکرہ تو عموم کا فائدہ دیتا ہی ہے اور " من" داخل کرکے مزید اس میں مبالغہ پیدا کردیا گیا۔)
لہذا اگر" من" حذف کردیا جائے تو یہ فائدہ مفقود ہوجائے گا۔
اسی طرح سے اللہ کا فرمان " مَا ٱتَّخَذَ ٱللَّهُ مِن وَلَدࣲ وَمَا كَانَ مَعَهُۥ مِنۡ إِلَـٰهٍۚ ..."
آیت میں دو جگہ " من " آیا ہوا ہے اور دونوں زائدہ ہے پھر لانے کا فائدہ کیا ہے؟
آیت کے ترجمے پر غور کریں تو جواب مل جائے گا۔ یعنی اللہ تعالیٰ اپنے لیے اولاد بنانے یا اپنے ساتھ کسی اور کے اله ہونے ( چاہے کسی بھی طرح کی اولاد یا الہ ہوں تمام) کی نفی کررہا ہے۔اور اس نفی کی تاکید " ولد" اور " اله" پر حرف جر "من" کے داخل ہونے سے ہورہی ہے ۔
کیوں کہ قاعدہ یہ ہے کہ جب نفی کے سیاق میں حرف جر کی زیادتی ہو تو وہ تاکید کا فائدہ دیتی ہے۔ سو اگر " من" کو حذف کردیا جائے تو یہ عظیم فائدہ مفقود ہوکر رہ جائے گا۔
یہی قاعدہ اس آیت کریمہ بھی ہے (وَلَا تُلۡقُوا۟ بِأَیۡدِیكُمۡ إِلَى ٱلتَّهۡلُكَةِ) یہاں بھی حرف جر " باء" زائد ہے، لیکن یہاں یہ زیادتی تأکید کا فائدہ دے رہی ہے۔
اپنے آپ کو ہرگز ہلاکت میں نہ ڈالو ۔۔۔یعنی ایسا کرنے سے سختی کے ساتھ روکا جارہا ہے
قاعدہ ۔ نفی کے سیاق میں حرف جر کی زیادتی تاکید کا فائدہ دیتی ہے۔
لہذا ہمیں معلوم ہوا کہ قرآن مجید میں کوئی بھی چیز زائد نہیں ہے، صرف ترکیبی اعتبار سے کہ سکتے ہیں کہ فلاں آیت میں فلاں حرف زائد ہے لیکن معنی کے اعتبار سے حروف زیادہ میں سے کوئی بھی حرف ہرگز فائدہ سے خالی نہیں۔ واللہ اعلم بالصواب
اللہ ہمیں قرآن مجید صحیح سے سمجھنے اور اس کے مطابق زندگی گزارنے کی توفیق دے آمین
 
Top