• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قرآن کی تلاوت کیا کر !

Dua

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 30، 2013
پیغامات
2,579
ری ایکشن اسکور
4,440
پوائنٹ
463
جزاک اللہ خیرا کثیرا
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069

حافظ اختر علی

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 10، 2011
پیغامات
768
ری ایکشن اسکور
732
پوائنٹ
317
جی محترم یہ اصل میں اعزاز ہو گا اس محنت کا جو اس نے دنیا میں قرآن یاد کرنے کی کی تھی۔کیونکہ فرمان نبوی کے مطابق اس کو حکم ہو گا کہ پڑھتا جا اور چڑھتا جا تو یہ اسی صورت ہی ممکن ہے اگر قرآن حفظ کر کے اس کو یاد رکھا ہو گا۔ورنہ تو پوری امت کے لیے یہ حکم بن جاتا کیونکہ غالب حد تک ہر مسلمان قرآن پڑھنا جانتا ہے۔اس لیے یہ عام مسلمان سے امتیاز کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ خاص انعام عطا فرمائیں گے۔امید ہے کہ بات واضح ہو گئی ہو گی۔ان شاء اللہ
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
میں نے جو حدیث پڑھی ہے اس میں حافظ کا بتایا گیا تھا -کیا یہاں صاحب قران سے مراد حافظ ہے؟ اہل علم معاونت فرمائیں-جزاک اللہ خیرا کثیرا
کفایت اللہ
ابوالحسن علوی
پہلے آپ اس حدیث شریف کا متن ملاحظہ فرمائیں :

’’ عن زر عن عبد الله بن عمرو قال:‏‏‏‏ قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:‏‏‏‏ " يقال لصاحب القرآن اقرا وارتق ورتل كما كنت ترتل في الدنيا فإن منزلك عند آخر آية تقرؤها ".
عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”صاحب قرآن (قرآن سے تعلق والے) سے کہا جائے گا:
(قرآن )پڑھتے جاؤ اور (جنت کے درجات ) چڑھتے جاؤ ، اور عمدگی کے ساتھ ٹھہر ٹھہر کر پڑھو جیسا کہ تم دنیا میں عمدگی سے پڑھتے تھے، تمہاری منزل وہاں ہے، جہاں تم آخری آیت پڑھ کر قرآت ختم کرو گے “۔
وضاحت : قواعد تجوید کی رعایت کرتے ہوئے قرآن مجید کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھنے کا نام ترتیل ہے۔ ۲؎ : یعنی ایک آیت پڑھ کر ایک درجہ طے کرو گے پھر دوسری آیت سے دوسرا درجہ، اسی طرح جتنی آیتیں پڑھتے جاؤ گے اتنے درجے اور مراتب اوپر اٹھتے چلے جاؤ گے جہاں آخری آیت پڑھو گے وہیں تمہارا مقام ہو گا۔
سنن ابی داود ، باب استحباب الترتيل في القراءة۔۔باب: قرآت میں ترتیل کے مستحب ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 1464
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/فضائل القرآن ۱۸ (۲۹۱۴)، ن الکبری / فضائل القرآن (۸۰۵۶)، (تحفة الأشراف:۸۶۲۷)، وقد أخرجہ: مسند احمد (۲/۱۹۲) (حسن صحیح)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حدیث کی شرح میں علامہ شمس الحق عظیم آبادی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :
(يقال) أي عند دخول الجنة (لصاحب القرآن) أي من يلازمه بالتلاوة والعمل لا من يقرؤه ولا يعمل به (اقرأ وارتق) أي إلى درجات الجنة أو مراتب القرب ‘‘
یعنی صاحب قرآن سے جنت کے داخلہ کے وقت ایسا کہا جائے گا ۔۔اور یہاں صاحب قرآن ۔۔سے مراد وہ شخص ہے جس نے قرآن ترتیل سے پڑھنے اور اس پر عمل
کو۔۔مستقل معمول ۔۔بنایا ہوا ہو ۔۔یعنی ہمیشہ پڑھتا بھی ہو اور اس پر عمل بھی کرتا ہو ۔صرف پڑھنے والا مرادنہیں ۔۔جو اس پر عمل نہیں کرتا ‘‘


اہم بات یہ ہے کہ قرآن پڑھ کر عقیدہ و عمل قرآن کے مطابق بنانے والا ہی اس شرف کا مستحق بنے گا ؛
اور اس معنی پر کئی احادیث دلالت کرتی ہیں :
صحیح مسلم کی مشہور حدیث جس میں پیارے نبی ﷺ نے واضح الفاظ میں فرمایا :
’’ ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:‏‏‏‏" والقرآن حجة لك او عليك كل الناس ".
’’ اور قرآن یا تو تیرے لئے دلیل و حجت ہے،(جو تجھے حق تک پہنچاتا ہے ) یا تو پھر تیرے خلاف دلیل و حجت ہے(کہ تو نے اسے پڑھنے کے باوجود اس پر عمل نہیں کیا)“۔(صحیح مسلم ،عن ابي مالك الاشعري)
علامہ ابن باز ؒ صحیح مسلم کیاس حدیث کی وضاحت میں لکھتے ہیں :
(القرآن حجة لك أو عليك) ، فهو حجة لمن عمل به ومن أسباب دخوله الجنة ، وحجة على من لم يعمل به ومن أسباب دخوله النار ،‘‘ یعنی قرآن پر عمل کرنے والے کیلئے قرآن جنت میں جانے کی حجت و دلیل ہے ۔
اور عمل نہ کرنے والے کیلئے جہنم میں جانے کی ‘‘
اور نبی اکرم ﷺ نے اس امت میں کچھ لوگوں کے بارے پیشینگوئی فرمائی تھی کہ :
قرآن تو بہت پڑھیں گے ،لیکن اسلام سے نکلے ہوئے ہوں گے ؛
’’ يسير بن عمرو قال قلت لسهل بن حنيف:‏‏‏‏ هل سمعت النبي صلى الله عليه وسلم يقول في الخوارج شيئا؟ قال:‏‏‏‏ سمعته يقول واهوى بيده قبل العراق:‏‏‏‏"يخرج منه قوم يقرءون القرآن لا يجاوز تراقيهم يمرقون من الإسلام مروق السهم من الرمية".
یسیر بن عمرو نے بیان کیا کہ میں نے سہل بن حنیف (بدری صحابی) رضی اللہ عنہ سے پوچھا کیا تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو خوارج کے سلسلے میں کچھ فرماتے ہوئے سنا ہے، انہوں نے بیان کیا کہ میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سنا ہے اور آپ نے عراق کی طرف ہاتھ سے اشارہ فرمایا تھا کہ ادھر سے ایک جماعت نکلے گی یہ لوگ قرآن مجید پڑھیں گے لیکن قرآن مجید ان کے حلقوں سے نیچے نہیں اترے گا۔ وہ اسلام سے اس طرح باہر ہو جائیں گے جیسے تیر شکار کے جانور سے باہر نکل جاتا ہے۔‘‘(صحیح بخاری حدیث نمبر 6934 )
حدیث کا مفہوم واضح ہے کہ قرآن پڑھنا ان کی خاص صفت ہوگی،
تاہم یہ لوگ حد درجہ گمراہ ہونگے؛
 
Last edited:

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
قرآن مجید کے کئی قاری ۔۔۔لذت ایمان سے محروم اور ریاکار بھی ہونگے
؛
امام احمد رحمہ اللہ نے مسند (حدیث نمبر : 6633 )میں روایت کیا ہے کہ :
’’ عَبْدَ اللهِ بْنَ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِي، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: " إِنَّ أَكْثَرَ مُنَافِقِي أُمَّتِي قُرَّاؤُهَا " (1)
عبد اللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ جناب رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میری امت میں اکثر منافق۔۔ قراء ہونگے ،،
یعنی محض دکھلاوے ۔۔اور دنیاوی مفاد کیلئے حافظ و قاری بنے ہونگے ۔ان کا عقیدہ اور عمل قرآن کے خلاف ہوگا؛
حدیث کی تحقیق درج ذیل ہے
__________
(1) حديث صحيح، وهذا اسناد حسن، شراحيل بن يزيد: هو المعافري المصري، روى عنه جمع، وذكره ابن حبان في "الثقات"، ووثقه الذهبي في "الكاشف"، وقال الحافظ في "التقريب": صدوق. ومحمد بن هدية -بالياء المثناة التحتية، وتصحف في غير ما كتاب الى هدْبة، بالموحدة-، ذكره يعقوب بن سفيان في "تاريخه" 2/528 في الثقات من تابعي أهل مصر. وقال ابن حجر في
"التقريب": مقبول، ونقل في "التهذيب" عن ابن يونس قوله: ليس له غير حديث واحد.
قلنا: يعني هذا الحديث، وباقي رجاله ثقات، رجال الصحيح.
وأخرجه ابنُ أبي شيبة في "المصنف" 13/228، ومن طريقه الفريابي في "صفة المنافق" (37) عن زيد بن الحباب، بهذا الإسناد.
وزاد الهيثمي في "المجمع" 6/229-230 نسبته الى الطبراني.
وأخرجه البيهقي في "شعب الإيمان" (6958) من طريق الحسن بن علي بن عفان، عن زيد بن الحباب، به.
وأخرجه الفسوي في "المعرفة والتاريخ" 2/528، والبيهقي في "الشعب" (6959) من طريق ابن وهب، عن عبد الرحمن بن شريح، به.
وأشار إلى متابعة ابن وهب البخاري في "التاريخ الكبير" 1/257.
وسيرد برقم (6634) و (6637) ، وإسناد الأول حسن في الشواهد والمتابعات.
وفي الباب عن عقبة بن عامر، سيرد 4/151 و154-155، وسنده حسن.
قال المناوي في "فيض القدير" 2/80 في معنى قوله عليه الصلاة والسلام: "أكثر منافقي أمتي قراؤها"، أي: الذين يتأولونه على غير وجهه، ويضعونه في غير مواضعه. وقال ابنُ الآثير في "النهاية": أي إنهم يحفظون القرآن نفياً للتهمة عن أنفسهم، وهم معتقدون تضييعه، وكان المنافقون في عصر النبي صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بهذه الصفة.
 
Top