• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

(قسط:3)سرور کونین ﷺ کا سراپا اقدس ( (رسول اللہ ﷺ کی رنگت ))

شمولیت
نومبر 14، 2018
پیغامات
305
ری ایکشن اسکور
48
پوائنٹ
79
((سرور کونین ﷺ کا سراپا اقدس))

(( حافظ محمد فیاض الیاس الأثری ، ریسرچ فیلو: دارالمعارف لاہور ))

رسول اللہ ﷺ کی رنگت

♻ رسول اللہﷺ کا رنگ سرخی مائل گورا اور چمکدار تھا۔ پیشانی سے پیسنے کے قطرے گرتے یوں محسوس ہوتے تھے جیسے موتی ٹپک رہے ہوں۔

♻ رسول اللہ ﷺ کی رنگت کے بارے میں عمومی طور پر تین طرح کے الفاظ مذکور ہیں: اَزْھر، اَبْیض اور مُشرَبٌ بالحُمرۃ۔ پہلے کے معنی گورے اور چمکدار کے کیے جاتے ہیں۔ دوسرا بھی سفید چمکدار کے معنی میں ہے، جبکہ تیسرا سرخی مائل کا مفہوم ادا کرتا ہے۔

♻ ان کے متعلق روایات ذیل میں دی جاتی ہیں:حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ آپ کی رنگت کے بارے میں بیان کرتے ہیں:''أَزْھَرَ اللَّوْنِ لَیْسَ بِأَبْیَضَ أَمْھَقَ وَلَا آدَمَ''(صحیح البخاری:٣٥٤٧) آپﷺ کا رنگ گورا چمکدار تھا، نہ تو زیادہ سفید تھا اور نہ بالکل گندمی۔

♻ حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی کی روایت میں آپ ﷺ کی گوری رنگت کو یوں اُجاگر کیا گیا ہے:''کَأَنَّ عَرَقَہُ اللُّؤْ لُؤُ'' آپ کا پسینہ لعل و جوہر کی مثل تھا۔
(صحیح مسلم:٢٣٣٠)

♻ حضرت علی رضی اللہ عنہ آپ ﷺ کی خوبصورتی بیان کرتے ہیں: ''أَبْیَضَ مُشْرَبًا حُمْرَۃً'' آپ ﷺ سرخی مائل گورے تھے۔
(ابن حبان، الصحیح:٦٣١١ و أحمد بن حنبل، المسند:٩٤٤)

♻ بعض روایات میں سرخی مائل کی بجائے صرف سفید اور چمکدار ہونے کا تذکرہ ہے۔ حضرت ابو جُحیفہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں: میں نے رسول اللہ ﷺ کو دیکھا آپ کا رنگ سفید تھا۔(صحیح مسلم:٢٣٤٣)صحیح بخاری میں یہی لفظ رسول اللہ ﷺ کے چچا ابو طالب کے قصیدے میں بھی مذکور ہے جسے وہ آپ ﷺ کی مدح میں کہا کرتے تھے۔(صحیح البخاری:١٠٠٨،١٠٠٩)

♻ باقی جسم مبارک کی رنگت کے برعکس آپ کے چہرہ پُرانوار کی رنگت سفید سرخی مائل تھی، جس کی تصریح حضرت علی رضی اللہ عنہ ہی کی حدیث میں ہے کہ آپ ﷺ کا چہرہ مبارک سفید سرخی مائل تھا۔(أحمد بن حنبل، المسند:٧٤٦ و أبو ٰیعلی، المسند:٣٧٠)

♻ آپ کا تمام جسم مبارک سرخی مائل نہ تھا اور نہ یہ حسن شمار کیا جاتا ہے۔ اسی طرح چہرے کا بالکل سفید ہونا بھی حسن نہیں گردانا جاتا۔ یہ الگ بات ہے کہ گورے سرخی مائل چہرے اور سفید چمکدار جسم کی حامل شخصیت کو عمومی طور پر گورا کہہ دیا جاتا ہے۔ اسی مناسبت سے آپ کے لیے ''ابیض'' اور ''ازھر'' کے الفاظ استعمال ہوئے ہیں۔

♻ ان روایات کے برعکس ایک ایسی روایت بھی ملتی ہے جس میں آپ ﷺ کی رنگت ''گندمی'' مذکور ہے۔ یہ روایت بھی حضرت انس رضی اللہ عنہ کی ہے۔ اس میں ''أَسْمَرَ اللَّوْنِ'' اور ''سُمْرَۃ''٥؎ کے الفاظ ہیں، جس کے معنی گندمی رنگ کے ہیں۔ ( سنن الترمذی:١٧٥٤ و البیہقی، دلائل النبوۃ:204/1)

♻ اس کی توجیہ کئی اعتبار سے کی جا سکتی ہے: یہ آپ کی عمومی رنگت کے بارے میں نہیں ، بلکہ دھوپ اور کثرت سفر کی وجہ سے گوری رنگت میں گندمی رنگ کی کبھی ہلکی سی جھلک کا نمودار ہونا ہے اور ایسا ممکن بھی ہے۔

♻ حضرت انس رضی اللہ عنہ ہی کی ایک روایت میں ''اَزھَر اللَّون'' کے الفاظ مذکور ہیں۔ یہ روایت ہے بھی صحیح البخاری اور صحیح مسلم کی۔ ( صحیح البخاری:٣٥٤٧ و صحیح مسلم:٢٣٣٩)اس لیے ''اسمر'' والی روایت مرجوح اور ''ازھر'' والی راجح قرار پاتی ہے۔

♻ گندمی رنگ والی روایت کے برعکس گورے اور سفید رنگ والی روایات اس لیے بھی مقدم اور راجح ہیں کیونکہ انھیں حسب ذیل متعدد صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین نے روایت کیا ہے: حضرت ابوبکر، عمر، علی، ابو جُحیفہ، ابن عمر، ابن عباس، ہند بن ابی ہالہ، حسن بن علی، ابو الطفیل، مخرش کعبی، ابن مسعود، براء بن عازب، سعد بن ابی وقاص، سیدہ عائشہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنھم۔ ان کے برعکس روایت مبنی بر خطا ہے۔ ( الصالحی، سبل الہدیٰ:12/5)

♻ ان دو طرح کی مختلف روایات میں یوں بھی تطبیق دی گئی ہے کہ ''اسمر'' سے مراد گندمی ہی نہیں ، بلکہ عرب سرخی مائل سفید رنگ کے لیے بھی ''سمرہ'' اور ''اسمر'' کا لفظ استعمال کرلیتے ہیں۔
(ابن حجر، فتح الباری:569/6)

""""""""''''''"""""""""""'''''''''''''''"""""""""""""
عصر حاضر میں سیرت طیبہ سے ہمہ گیر رہنمائی اور سیرت النبی سے فکری وعملی مضبوط وابستگی بہت اہمیت وافادیت کی حامل ہے
 
Top