• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

قصہ دانشورانہ قبض و بدہضمی کا

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
''قصہ دانشورانہ قبض و بدہضمی کا''


ہم کہ اپنی طینت میں بنی اسرائیل ہیں جنہیں کوئی بھی حالت خوش نہیں آتی. ''من و سلوی'' میسر آئے تو یکسانیت سے اوب جاتے ہیں اور ہفتہ بھر میں قبض کی شکایت ہوجاتی ہے؛ پھر طرح طرح کے مطالبات کے لئے دبلے ہوئے جاتے ہیں اور لگ جاتے ہیں دھرنے دینے....چلو یہاں تک تو بات ٹھیک ہے کہ مطالبہ جائز تھا اور اوپر سے منظور بھی ہوا،مگر جب اپنے ہی پیہم احتجاج کے نتیجے میں دال سبزی اور زمین الاٹ کر کے کہہ دیا جاتا ہے کہ لو بچو جاؤ اب ہل جوتو دال اُگاؤ سبزی بوؤ اور اپنا من چاہا کھاؤ پیو جان بناؤ امید ہے تمھاری دال گَل جائے گی.... تو دال خير کیا گلتی الٹا سبزی ہی گَل جاتی ہے اور ابھی چھکی بھی نہیں ہوتی کہ بدہضمی نچلا بیٹھنے نہیں دیتی.
سبب اس تمہیدِ مدید کا یہ ہے کہ ابھی کل تک ہمارے جملہ بُکی و فیس بکی دانشوران جن کی ساری دانش زبان اور قلم (قلم کا مصقد چابیوں والی تختی، المعروف کی بورڈ) میں سمٹی ہوتی ہے، نہ صرف شد و مد بلکہ زبَر و جزم کے ساتھ بھی مطالبے میں پیش پیش تھے کہ ہم بھلا کیوں زیر رہیں کسی کے؟
ہماری اپنی ثقافت و زبان ہے، اپنا تمدُّن و تاریخ ہے،
اس بدیسی زبان ہی نے ہمیں دستورِ زباں بندی کا پابند کیا ہوا ہے ورنہ یہاں تو بات کرنے کو ترستی ہے زباں میری...... اور ثریا سے بھی آگے ہے اُڑاں میری.... بس سرکار و زبانِ سرکار کو اُردوانے کی دیر ہے پھر دیکھنا ان بستیوں ہم کہ ویراں کر گئے اور چاند پر کمندیں ڈالتے مریخ کی گود میں چڑھ گئے.
ٹھیک ہے بھئی....!!
یہ لو سر کار مان گئی، عدالتِ عالیہ نے حکم نامہ جاری کر دیا، اب کاہے کا خلجان؟؟
میاں دانشور کو مگر ہُن وی ارام نئیں، بلکہ لگے ہیں چائے کی پیالی میں اعتراضات کے طوفان اُٹھانے میں کہ فلاں اصطلاح کی اردو کیا ہوگی؟ فلاں ایجاد کا نام کیا ہوگا...؟؟
او میرے راج دُلارے دانشور...! آپ کیوں اپنے تجسُّس کا زیاں چاہتے ہیں؟
ذرا کان ایدھر کو لائے اور جو آپ اپنے ماتھے پر ہمہ وقت دانشورانہ بَل سجائے رکھتے ہیں نا ان کی جگہ ذرا دیر کے لئے سنجیدانہ و معقولانہ بَل لائے اور سُنئے:
یہ جو ایجادات ہوتی ہیں نا ایجادات؟ یہ اپنے موجد کے بچے اور مخلوق مافک ہوتی ہیں؛ جس طرح آپ اپنے بچے کے کان میں اذان تو مولوی صیب سے ضرور دلواتے ہیں مگر اس كا نام ماموں چاچوں سے لڑ بھِڑ کے بھی اپنا من چاہا رکھتے ہیں کہ بچہ میرا ہے، اسى طرح ایجاد بچہ بھی جس کا ہے وہی بجا طور پر اپنی زبان میں اس کا نام رکھ دیتا ہے پهر باقی انسانی برادری بھی اسے اس کے خاندانی نام سے پکارنے لگتى ہے، اس میں بهلا پھڈا کس بات کا؟
میں اگر سعودی عرب میں زاہد حُسین ہوں تو جہاں اور جس جگہ بھی جاؤں زاہد حسین ہی رہوں گا نا...ایسا نہیں کہ پنجاب میں ''اللہ والیا سوہنیا'' اور یورپ میں pious & pretty (یا فیئر اینڈ لَولی) کہلاؤں. یا امریکی مسٹر براؤن ہمارے ہاں آکر ''میاں بھُورے'' بن جائے.
یہ آج کا قضیہ نہیں، بلکہ تاریخ میں یہی رِیت چلی آرہی ہے؛اگر عربى نے یونانی و عبرانی کے اسماء و الفاظ قبول کئے، یورپ نے قدیم زبانوں کے ساتھ ساتھ عربی اصطلاحات کو جگہ دی، تو آپ کو بھی آری و رندہ لے کر اصطلاحات کے پیچھے پڑنے اور کتر بیونت کرنے کی کوئی جرورت نہیں؛ البتّہ کوئی لفظ بسہولت اردو قالب میں ڈھلتا ہو تو ست بسم اللہ جی آیاں نوں.
الفاظ کے دیگر زبان میں انتقال کا یہی اصول ہے، بھاری بھر کم شتر مرغ اور ہاتھی کو''اونٹ مرغا'' اور ''دَستی'' کرنا کوئی مرغوب کام ہے نہ اس کی ضرورت؛ ہاں چھوٹى موٹى ماؤس جیسی مخلوق اگر عربی میں ''فارّة'' بننا گوارہ کر چکی ہے تو یقیناً چوہا بھی بن جائے گی.

پھر اس میں اہم عُنصُر نفسیاتی ہے، بالعموم انسانی.... بالخصوص برصغیر کی.... اور بِل بالخصوص پاکستانی نفسیات کو دُور کے انگور بھلے کھٹے لگتے ہوں مگر دُور کے سیب بڑے میٹھے لگتے ہیں جیسے اگلے زمانے میں لوگوں کو دُور کے ڈھول سُہانے لگا کرتے تھے...اس کی ناقابلِ تردید مثال یہی ہے کہ ہماری اپنی گلی کا منحوس آوارہ پِلّا اگر کسی مسٹر ڈیوڈ یا مس کیتھی کے من کو بھا جائے اور وہ گود لے کر اس كو ٹونی بنا دے تو ایک دم کتنا کیوٹ کیوٹ لگنے لگتا ہے...!!
مُجھ سے اگر کوئی چاچا بشیرا کہہ دے:
"پُتر اے تیرا موبیل سیباں والا ہے؟" تو میں پَل پڑوں گا کہ : "اوے چاچے یہ آئی فون ہے ایپل کا آئی فون ہاں...پتہ نہیں کدھر سے جاہل اُٹھ آتے ہیں ٹیکنالوجی پر بات کرنے".
یقین کریں اگر بِل گیٹس ماؤس کو بقلمِ خود چوہا نام دیتے تو نالوں میں تیرتے چوہوں پر ہمیں کتنا پیار آتا، لوگ پکڑ پکڑ کے ان کا منہ چومتے، ساتھ سیلفیاں بنا رہے ہوتے.
بعینہٖ اسٹیوو جابز صاحب اگر اپنی کمپنی کا نام ''ایپل'' کے بجائے ''سیب کمپنی'' رکھ دیتے تو ميرى طرح آپ کے ذہنوں میں بھی اس وقت رشید آڑھتى کی دکان ہرگز نہ آرہی ہوتى.

فقط:
میانِ دید و شُنید، زاہد سعید
جامعہ اسلامیہ مدینہ منورہ​
 
Top