محمد فیض الابرار
سینئر رکن
- شمولیت
- جنوری 25، 2012
- پیغامات
- 3,039
- ری ایکشن اسکور
- 1,234
- پوائنٹ
- 402
قنوت نازلہ
اللہ کے حضور خشوع وخضوع کو’’قنوت‘‘ کہتے ہیں اور نازلہ کا معنی مصیبت میں گرفتار ہونا ہے لہٰذا زمانے کے حواد ثات میں پھنسے وقت‘ نماز میں عجز و انکساری کے ساتھ مصائب سے نجات پانے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنا’’قنوت نازلہ‘‘ کہلاتا ہے-
دنیا میں مصائب وآلام کئی طرح کے ہوتے ہیں مثلاً دنیا کے کسی خطہ میں مسلمانوں پر کفار ومشرکین یا یہود و نصاریٰ ظلم ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہوں‘ دن رات ان کو پریشانیوں میں مبتلا کئے ہوئے ہوں‘ ان کو قید وبند کی صعوبتوں میں مبتلا کئے ہوئے ہوں اور کمزور ولاغر مسلمان ان کے ظلم وستم کا تختہ مشق بنے ہوئے ہوںیا کسی علاقے میں قحط سالی اور بد حالی کے ایام ہوں یا وبائوں‘ زلزلوں اور طوفانوں کی زد میں کوئی علاقہ آ چکا ہو تو ان تمام حالات میں قنوت نازلہ کی جاتی ہے- اور یہ نبی کریم ﷺ صحابہ کرام رضی اللّہ عنہم تابعین عظام‘ فقہاء محدثین اور سلف صالحین رحمہم اللّٰہ اجمعین کا طریقہ رہا ہے- عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں قنوت اس لئے کرتا ہوں تا کہ تم اپنے پروردگار کو پکارو اور اس سے اپنی ضروریات کے بارے میں سوال کرو‘‘- (مجمع الزوائد ۲/۱۳۸)
ایک اور حدیث میں ہے کہ
کَانَ لاَ یَقْنُتُ فِیْھَا اِلاّ اِذَا دَعَا لِقَوْمٍ اَوْ دَعَا عَلَی قَوْمٍ۔ نبی کریم ﷺ اس وقت قنوت کرتے جب کسی قوم کے حق میں دعا کرنا ہوتی یا کسی قوم کے خلاف بد دعا کرنا ہوتی-(صحیح ابن خزیمہ - باب القنوت)
نبی کریم ﷺ نے مصیبت‘ پریشانی اور رنج و غم کے پیش نظر کبھی پانچوں نمازوں میں قنوت کی اور کبھی بعض نمازوں میں- ابو ہریرہؓ سے مروی ہے وہ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد صحابہ کرام اور تابعین سے کہتے: وَاللّہِ لَاَقْرِبَنَّ بِکُمْ صَلٰوۃَ رَسُوْلِ اللّہِ صَلّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ ‘ فَکَانَ اَبُوْھُرَیْرَۃَ یَقْنُتُ فِی الظُّہْرِ وَالْعِشَآئِ الْآخِرَۃِ وَصَلوٰۃِ الصُّبْحِ وَیَدْعُوْ لِلْمُوْمِنِیْنَ وَ یَلْعَنُ الْکُفَّارَ.
اللہ کی قسم! میں تمہاری نسبت رسول اللہ ﷺ کی نماز سے زیادہ قریب ہوں‘ پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ظہر‘ عشاء اور فجر کی نماز میں قنوت کرتے اور مومنوں کے لئے دعاء خیر اور کافروں پر لعنت کرتے تھے- (مسلم۱/۲۳۷)
براء بن عازب رضی اللہ عنہ‘ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صبح اور مغرب کی نماز میںقنوت کرتے تھے-‘‘ (مسلم۱/۲۳۷)
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّہُ عَنْہُ قَالَ قَنَتَ رَسُولُ اللّہِ صَلّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ فِیْ صَلاَۃِ الْعَتْمَۃِ شَھْرًا- (الحدیث)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عشاء کی نماز میں ایک ماہ تک قنوت کیا-
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ مختلف حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کبھی ایک نماز میں‘ کبھی دو‘ تین اور کبھی اکٹھی پانچ نمازوں میں قنوت کرتے تھے- تو ہمیں بھی حالات و واقعات کے تقاضے کے مطابق ایسا کرنا چاہئے اور یہ معاملہ اس وقت تک جاری رہے جب تک دشمنوں کی مکمل سرکوبی نہیں ہو جاتی اور مسلمانوں کے مصائب وآلام میں کمی واقعی نہیں ہوتی- مروی ہے کہ: نبی کریم ﷺ نے ایک ماہ تک رکوع کے بعد قنوت کیا- جب آپ ﷺ سَمِعَ اللّہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ کہتے تو اپنی قنوت میں کہتے- ’’ اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے- اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے- اے اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے- اے اللہ! ضعیف مومنوں کو نجات دے- اے اللہ! اپنا عذاب قبیلہ مضر پر سخت کر دے- اے اللہ ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانے جیسے قحط ڈال دے- (مسلم۱/۲۳۷)
ابو ہریرہؓ کہتے ہیں پھر میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے دعا کرنا چھوڑ دی- تو لوگوں نے کہا کہ تم دیکھتے نہیں جن کے لئے رسول اللہ ﷺ دعا کرتے تھے وہ آ گئے ہیں- یعنی کفار کے غلبہ سے انہیں نجات مل گئی ہے-
قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھانا مسنون ہے جیسا کہ انس ر ضی اللہ عنہ‘ سے مروی ہے: فَقَدْ رَأیْتُ رَسُوْلَ اللّہِ صَلّی اللّہٗ عَلَیْہِ وَسَلّمَ فِیْ صَلاَۃِ الْغَدَاۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ فَدَعَا عَلَیْھِمْ.
میں نے رسول اللہ ﷺ کو صبح کی نماز میں دیکھا کہ آپ نے ہاتھ اٹھائے اور دشمنان اسلام پر بددعا کی- (مسند احمد-۳/۱۳۷)
قنوت نازلہ سے مقصود مظلوم و مقہور مسلمانوں کی نصرت و کامیابی اور سفاک و جابر دشمن کی ہلاکت و بربادی ہے اس لئے اس مقصد کو جو دعا بھی پورا کرے وہ مانگی جا سکتی ہے- امام نووی رحمہ اللہ علیہ نے شرح مسلم ۱/۲۳۷ میں لکھا ہے کہ:
وَالصّحِیْحُ اَنّہٗ لاَیَتعَیّنُ فِیْہِ دُعَائٌ مَخْصُوْصٌ بَلْ یَحْصُلُ بِکُلِّ دُعَائٍ وَفِیْہِ وَجْہٌ ‘ اَنَّہٗ لاَ یَحْصُلُ اِلاَّ بِالدُّعَائِ الْمَشْہُورِ اَللّھُمَّ اھْدِنِيْ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ۔۔۔۔الخ وَالصَّحِیْحَ اَنّ ھَذَا مُسْتَحَبٌّ لاَ شَرْطٌ.
صحیح بات یہ ہے کہ اس بارے میں کوئی مخصوص دعا متعین نہیں بلکہ ہر اس دعا کو پڑھا جا سکتا ہے جس سے یہ مقصود حاصل ہوتا ہو اور اللھم اھدنی فیمن ھدیت آخر تک پڑھنا مستحب ہے شرط نہیں- اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ مذکورہ دعا بھی پڑھی جائے اور اس کے بعد وہ دعائیں بھی پڑھی جائیں جو اس معنی کی قرآن مجید اور احادیث نبوی میں موجود ہیں- مختلف دعائیں مانگنا صحابہ کرام اور سلف صالحین سے ثابت ہے جیسا کہ ابی بن کعب ؓ جب رمضان المبارک میں تراویح پڑھاتے تو آخری آدھے ایام میں قنوت (یعنی مخالفین اسلام کے لئے بد دعا‘ پھر نبی کریم ﷺ پر درود اور مسلمانوں کے لئے استغفار) کرتے تھے-
صحیح ابن خزیمہ(۲/۱۵۵-۱۵۶) کے حوالہ سے علامہ البانی رحمتہ اللہ علیہ نے قیام رمضان صفحہ (۳۲ )پر لکھا ہے کہ: وَکانُوا یَلْعنُونَ الْکَفَرۃَ فِی النِّصْفِ: اَللّھُمّ قَاتِلِ الْکَفَرۃَ الّذِیْنَ یَصُدُّونَ عَنْ سَبِیْلِکَ… الی آخرہ
(صحابہ کرام)نصف رمضان میں کافروں پر لعنت کرتے اور کہتے: اے اللہ! ان کافروں کو جو تیرے راستے سے روکتے ہیں اور تیرے رسولوں کی تکذیب کرتے ہیں اور تیرے وعدوں پر ایمان نہیں لاتے انہیں تباہ کر دے‘ ان کے گٹھ جوڑ میں مخالفت ڈال دے‘ ان کے دلوں میں رعب ڈال دے اور ان پر اپنا عذاب نازل فرما- پھر نبی کریم ﷺ پر درود پڑھتے اور اپنی استطاعت کے مطالق مسلمانوں کے لئے بھلائی کی دعائیں کرتے پھر مومنوں کے لئے استغفار کرتے تھے-
اللہ کے حضور خشوع وخضوع کو’’قنوت‘‘ کہتے ہیں اور نازلہ کا معنی مصیبت میں گرفتار ہونا ہے لہٰذا زمانے کے حواد ثات میں پھنسے وقت‘ نماز میں عجز و انکساری کے ساتھ مصائب سے نجات پانے کے لئے اللہ تعالیٰ سے دعائیں مانگنا’’قنوت نازلہ‘‘ کہلاتا ہے-
دنیا میں مصائب وآلام کئی طرح کے ہوتے ہیں مثلاً دنیا کے کسی خطہ میں مسلمانوں پر کفار ومشرکین یا یہود و نصاریٰ ظلم ستم کے پہاڑ توڑ رہے ہوں‘ دن رات ان کو پریشانیوں میں مبتلا کئے ہوئے ہوں‘ ان کو قید وبند کی صعوبتوں میں مبتلا کئے ہوئے ہوں اور کمزور ولاغر مسلمان ان کے ظلم وستم کا تختہ مشق بنے ہوئے ہوںیا کسی علاقے میں قحط سالی اور بد حالی کے ایام ہوں یا وبائوں‘ زلزلوں اور طوفانوں کی زد میں کوئی علاقہ آ چکا ہو تو ان تمام حالات میں قنوت نازلہ کی جاتی ہے- اور یہ نبی کریم ﷺ صحابہ کرام رضی اللّہ عنہم تابعین عظام‘ فقہاء محدثین اور سلف صالحین رحمہم اللّٰہ اجمعین کا طریقہ رہا ہے- عائشہ صدیقہ رضی اللّٰہ عنہا سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں قنوت اس لئے کرتا ہوں تا کہ تم اپنے پروردگار کو پکارو اور اس سے اپنی ضروریات کے بارے میں سوال کرو‘‘- (مجمع الزوائد ۲/۱۳۸)
ایک اور حدیث میں ہے کہ
کَانَ لاَ یَقْنُتُ فِیْھَا اِلاّ اِذَا دَعَا لِقَوْمٍ اَوْ دَعَا عَلَی قَوْمٍ۔ نبی کریم ﷺ اس وقت قنوت کرتے جب کسی قوم کے حق میں دعا کرنا ہوتی یا کسی قوم کے خلاف بد دعا کرنا ہوتی-(صحیح ابن خزیمہ - باب القنوت)
نبی کریم ﷺ نے مصیبت‘ پریشانی اور رنج و غم کے پیش نظر کبھی پانچوں نمازوں میں قنوت کی اور کبھی بعض نمازوں میں- ابو ہریرہؓ سے مروی ہے وہ رسول اللہ ﷺ کے وصال کے بعد صحابہ کرام اور تابعین سے کہتے: وَاللّہِ لَاَقْرِبَنَّ بِکُمْ صَلٰوۃَ رَسُوْلِ اللّہِ صَلّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ ‘ فَکَانَ اَبُوْھُرَیْرَۃَ یَقْنُتُ فِی الظُّہْرِ وَالْعِشَآئِ الْآخِرَۃِ وَصَلوٰۃِ الصُّبْحِ وَیَدْعُوْ لِلْمُوْمِنِیْنَ وَ یَلْعَنُ الْکُفَّارَ.
اللہ کی قسم! میں تمہاری نسبت رسول اللہ ﷺ کی نماز سے زیادہ قریب ہوں‘ پھر ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ ظہر‘ عشاء اور فجر کی نماز میں قنوت کرتے اور مومنوں کے لئے دعاء خیر اور کافروں پر لعنت کرتے تھے- (مسلم۱/۲۳۷)
براء بن عازب رضی اللہ عنہ‘ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ صبح اور مغرب کی نماز میںقنوت کرتے تھے-‘‘ (مسلم۱/۲۳۷)
عَنْ اَبِیْ ھُرَیْرَۃَ رَضِیَ اللّہُ عَنْہُ قَالَ قَنَتَ رَسُولُ اللّہِ صَلّی اللّہُ عَلَیْہِ وَسَلّمَ فِیْ صَلاَۃِ الْعَتْمَۃِ شَھْرًا- (الحدیث)
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عشاء کی نماز میں ایک ماہ تک قنوت کیا-
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ آپ ﷺ مختلف حالات کو مدنظر رکھتے ہوئے کبھی ایک نماز میں‘ کبھی دو‘ تین اور کبھی اکٹھی پانچ نمازوں میں قنوت کرتے تھے- تو ہمیں بھی حالات و واقعات کے تقاضے کے مطابق ایسا کرنا چاہئے اور یہ معاملہ اس وقت تک جاری رہے جب تک دشمنوں کی مکمل سرکوبی نہیں ہو جاتی اور مسلمانوں کے مصائب وآلام میں کمی واقعی نہیں ہوتی- مروی ہے کہ: نبی کریم ﷺ نے ایک ماہ تک رکوع کے بعد قنوت کیا- جب آپ ﷺ سَمِعَ اللّہُ لِمَنْ حَمِدَہٗ کہتے تو اپنی قنوت میں کہتے- ’’ اے اللہ! ولید بن ولید کو نجات دے- اے اللہ! سلمہ بن ہشام کو نجات دے- اے اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات دے- اے اللہ! ضعیف مومنوں کو نجات دے- اے اللہ! اپنا عذاب قبیلہ مضر پر سخت کر دے- اے اللہ ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانے جیسے قحط ڈال دے- (مسلم۱/۲۳۷)
ابو ہریرہؓ کہتے ہیں پھر میں نے نبی کریم ﷺ کو دیکھا کہ آپ نے دعا کرنا چھوڑ دی- تو لوگوں نے کہا کہ تم دیکھتے نہیں جن کے لئے رسول اللہ ﷺ دعا کرتے تھے وہ آ گئے ہیں- یعنی کفار کے غلبہ سے انہیں نجات مل گئی ہے-
قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھانا مسنون ہے جیسا کہ انس ر ضی اللہ عنہ‘ سے مروی ہے: فَقَدْ رَأیْتُ رَسُوْلَ اللّہِ صَلّی اللّہٗ عَلَیْہِ وَسَلّمَ فِیْ صَلاَۃِ الْغَدَاۃِ رَفَعَ یَدَیْہِ فَدَعَا عَلَیْھِمْ.
میں نے رسول اللہ ﷺ کو صبح کی نماز میں دیکھا کہ آپ نے ہاتھ اٹھائے اور دشمنان اسلام پر بددعا کی- (مسند احمد-۳/۱۳۷)
قنوت نازلہ سے مقصود مظلوم و مقہور مسلمانوں کی نصرت و کامیابی اور سفاک و جابر دشمن کی ہلاکت و بربادی ہے اس لئے اس مقصد کو جو دعا بھی پورا کرے وہ مانگی جا سکتی ہے- امام نووی رحمہ اللہ علیہ نے شرح مسلم ۱/۲۳۷ میں لکھا ہے کہ:
وَالصّحِیْحُ اَنّہٗ لاَیَتعَیّنُ فِیْہِ دُعَائٌ مَخْصُوْصٌ بَلْ یَحْصُلُ بِکُلِّ دُعَائٍ وَفِیْہِ وَجْہٌ ‘ اَنَّہٗ لاَ یَحْصُلُ اِلاَّ بِالدُّعَائِ الْمَشْہُورِ اَللّھُمَّ اھْدِنِيْ فِیْمَنْ ھَدَیْتَ۔۔۔۔الخ وَالصَّحِیْحَ اَنّ ھَذَا مُسْتَحَبٌّ لاَ شَرْطٌ.
صحیح بات یہ ہے کہ اس بارے میں کوئی مخصوص دعا متعین نہیں بلکہ ہر اس دعا کو پڑھا جا سکتا ہے جس سے یہ مقصود حاصل ہوتا ہو اور اللھم اھدنی فیمن ھدیت آخر تک پڑھنا مستحب ہے شرط نہیں- اولیٰ اور بہتر یہ ہے کہ مذکورہ دعا بھی پڑھی جائے اور اس کے بعد وہ دعائیں بھی پڑھی جائیں جو اس معنی کی قرآن مجید اور احادیث نبوی میں موجود ہیں- مختلف دعائیں مانگنا صحابہ کرام اور سلف صالحین سے ثابت ہے جیسا کہ ابی بن کعب ؓ جب رمضان المبارک میں تراویح پڑھاتے تو آخری آدھے ایام میں قنوت (یعنی مخالفین اسلام کے لئے بد دعا‘ پھر نبی کریم ﷺ پر درود اور مسلمانوں کے لئے استغفار) کرتے تھے-
صحیح ابن خزیمہ(۲/۱۵۵-۱۵۶) کے حوالہ سے علامہ البانی رحمتہ اللہ علیہ نے قیام رمضان صفحہ (۳۲ )پر لکھا ہے کہ: وَکانُوا یَلْعنُونَ الْکَفَرۃَ فِی النِّصْفِ: اَللّھُمّ قَاتِلِ الْکَفَرۃَ الّذِیْنَ یَصُدُّونَ عَنْ سَبِیْلِکَ… الی آخرہ
(صحابہ کرام)نصف رمضان میں کافروں پر لعنت کرتے اور کہتے: اے اللہ! ان کافروں کو جو تیرے راستے سے روکتے ہیں اور تیرے رسولوں کی تکذیب کرتے ہیں اور تیرے وعدوں پر ایمان نہیں لاتے انہیں تباہ کر دے‘ ان کے گٹھ جوڑ میں مخالفت ڈال دے‘ ان کے دلوں میں رعب ڈال دے اور ان پر اپنا عذاب نازل فرما- پھر نبی کریم ﷺ پر درود پڑھتے اور اپنی استطاعت کے مطالق مسلمانوں کے لئے بھلائی کی دعائیں کرتے پھر مومنوں کے لئے استغفار کرتے تھے-