• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

لاک ڈاؤن اور مردوزن کے لئے اعتکاف کا مسئلہ

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
452
پوائنٹ
209
لاک ڈاؤن اور مردوزن کے لئے اعتکاف کا مسئلہ

مقبول احمد سلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(سعودی عرب)

لاک ڈاؤن کی وجہ سے جہاں بہت سارے مسائل پیدا ہوئے انہیں میں سے ایک مسئلہ اعتکاف کا بھی ہے ۔ رمضان المبارک کے افضل اعمال میں سے اعتکاف کے لئے بھی لاک ڈاؤن رکاوٹ بن رہا ہے ، ایسے میں اکثر حلقوں سے یہ سوال آرہا ہےکہ اگر مسجدوں میں اعتکاف کی اجازت نہ دی گئی یا لاک ڈاؤن کی وجہ سےاگر ہم مسجد میں اعتکاف نہ کرسکیں تو مجبوری کے تحت امسال اپنے گھروں میں اعتکاف کرلیں ، ایسا کرنا شریعت کی روشنی میں صحیح ہوگا؟
چنانچہ اس سلسلے میں احناف کے یہاں عورتوں کے اعتکاف میں پہلے سے سہولت موجود ہےکہ ان کے لئے گھروں میں اعتکاف کرنا جائز ہے ، جب ان کے یہاں اعتکاف کے لئے مسجد شرط ہی نہیں تو مرد ہو یا عورت کہیں بھی اعتکاف کرلے کیا فرق پڑتا ہے ؟ کورونا کے سبب مردوں کے لئے بھی (عورت کو پہلے سے آزادی حاصل ہے) گھروں میں اعتکاف کرنے سے متعلق احناف کے فتاوی بھی آچکے ہیں ۔
اہل الحدیث وہ جماعت ہے جو نصوص کے مقابلے میں کسی اہل حدیث عالم کے قول کو بھی حجت نہیں مانتی سوائے جدید اجتہادی مسائل کے جہاں شریعت خاموش ہے اور اجتہاد کےلئے شرعی گنجائش ہے ، اعتکاف کے مسئلے کو بھی ہم دلائل کی روشنی میں حل کریں گے ۔ چنانچہ قرآن وحدیث کے نصوص سے صاف اور واضح طور پر معلوم ہوتا ہے کہ اعتکاف ایسی عبادت ہے جو مسجد کے ساتھ خاص ہے ۔ اس کو مثال سے یوں سمجھیں کہ جس طرح حج وعمرہ مکہ میں ہی ہوگا ، اگر کورونا کی وجہ سے مکہ کا سفر ممکن نہیں ہے تو کوئی اپنے ملک میں حج وعمرہ نہیں کرسکتا ،اسی طرح کورونا یا کسی اورمجبوری کے تحت مساجد بند ہونے پر اعتکاف گھروں میں کرنا جائز نہیں ہوگا ، نہ مردوں کے لئے اور نہ ہی عورتوں کے لئے ۔
اللہ تعالی کا فرمان ہے : وَلا تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنْتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ (البقرة:187)
ترجمہ:اور اگر تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو پھر اپنی بیویوں سے مباشرت نہ کرو۔
یہاں "عاکفون فی المساجد " سے استدلال ہے کہ اعتکاف کے لئے مسجد شرط ہے خواہ مرد ہو یا عورت ، بغیر مسجد کے اعتکاف نہیں ہوگا۔
عائشہ رضي اللہ تعالی عنہا بیان کرتی ہیں کہ :
أنَّ النبيَّ صَلَّى اللهُ عليه وسلَّمَ، كانَ يَعْتَكِفُ العَشْرَ الأوَاخِرَ مِن رَمَضَانَ حتَّى تَوَفَّاهُ اللَّهُ، ثُمَّ اعْتَكَفَ أزْوَاجُهُ مِن بَعْدِهِ(صحيح البخاري:2026،صحيح مسلم:1172)
ترجمہ: نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی زندگي کے آخری لمحے تک رمضان المبارک کے آخری عشرہ کا اعتکاف کرتے رہے پھر ان کے بعد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات بھی اعتکاف کرتی رہیں ۔
امام نووی ؒ صحیح مسلم کی شرح میں اس حدیث کے تحت رقمطراز ہیں کہ اعتکاف مسجد کے علاوہ کہیں بھی صحیح نہیں ہوگااس لئےکہ نبی ﷺ ، آپ کی ازواج مطہرات اور صحابہ کرام مشقت کے باوجود مسجد میں ہی اعتکاف کرتے تھے ۔ اگر گھر میں بھی اعتکاف جائز ہوتا تو گھر میں ضرور اعتکاف کرتےگرچہ ایک مرتبہ ہی کیوں نہ ہوبطور خاص عورتیں کہ ان کی ضرورت اکثر گھروں کی ہی ہے۔(صحیح مسلم بشرح النووی)
ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:
اعتَكفَ رسولُ اللَّهِ صلَّى اللَّهُ عليْهِ وسلَّمَ في المسجدِ فسمِعَهم يجْهَرونَ بالقراءةِ فَكشفَ السِّترَ وقالَ ألا إنَّ كلَّكم مُناجٍ ربَّهُ فلا يؤذِيَنَّ بعضُكم بعضًا ولا يرفعْ بعضُكم على بعضٍ في القراءةِ أو قالَ في الصَّلاةِ(صحيح أبي داود:1332)
ترجمہ: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسجد میں اعتکاف فرمایا، آپ نے لوگوں کو بلند آواز سے قرآت کرتے سنا تو پردہ ہٹایا اور فرمایا: لوگو! سنو، تم میں سے ہر ایک اپنے رب سے سرگوشی کرتا ہے، تو کوئی کسی کو ایذا نہ پہنچائے اور نہ قرآت میں ( یا کہا نماز ) میں اپنی آواز کو دوسرے کی آواز سے بلند کرے ۔
نافع بیان کرتے ہیں : وَقَدْ أَرَانِي عبدُ اللهِ رَضِيَ اللَّهُ عنْه: المَكانَ الذي كانَ يَعْتَكِفُ فيه رَسولُ اللهِ صَلَّى اللَّهُ عليه وسلَّمَ مِنَ المَسْجِدِ(صحيح مسلم:1171) کہ عبداللہ رضی اللہ عنہ نے مجھے وہ جگہ دکھائی جہاں پر مسجد میں نبی ﷺ اعتکاف کیا کرتے تھے ۔
یہ سارے دلائل واضح کرتے ہیں کہ اعتکاف کامحل صرف مسجد ہے یہی کتاب وسنت کی تعلیم ہے جیساکہ آپ ﷺکے اعتکاف سے واضح ہے ۔ عورتوں کے حق میں بھی اعتکاف مسجد میں ہی مشروع ہے ، مسجد سے باہر گھر میں عورتوں کا اعتکاف صحیح نہیں ہے ۔اس سلسلے میں اوپر صحیح مسلم کی حدیث اور امام نووی کی شرح پڑھ چکے ہیں ، اس سے بھی زیادہ واضح صحیح بخاری کی حدیث نمبر(2033)، حدیث نمبر(2034)، حدیث نمبر(2041)اورحدیث نمبر(2045) ہیں جن میں مذکور ہے کہ اعتکاف کی نیت سے بعض ازواج مطہرات نے مسجد نبوی میں اپنے اپنے خیمے نصب کئے تھے ۔
امسال کورونا کی وجہ سے مساجد میں اعتکاف کرنا امر محال لگ رہا ہے اس وجہ سے جو لوگ اعتکاف کی نیت رکھتے ہیں اگر انہیں مسجد میں اعتکاف کی سہولت میسر نہ آسکے تو اپنا اعتکاف چھوڑ دینا چاہئے اور یہ جان لینا چاہئے کہ اعتکاف واجب نہیں ہےجس کے ترک سےگناہ لازم آئے گا بلکہ مسنون عمل ہےاور اللہ انہیں نیت کے مطابق پورا پورا اجر دے گا۔ ازواج مطہرات کے خیمہ سے متعلق صحیح بخاری کی مذکورہ حدیث میں ہے کہ نبی ﷺنے اس سال رمضان کا اعتکاف نہیں کیا تھا۔ جو لوگ کورونا کی وجہ سے مردوں کے لئے گھروں میں اعتکاف کرنا جائز قرار دے رہے ہیں ان کی بات رسول اللہ کی تعلیمات اور عمل صحابہ کے خلاف ہے نیز یہ بات بھی غلط ہے کہ ہربستی میں کم ازکم ایک آدمی اعتکاف کرے ورنہ پوری بستی گنہگار ہوگی اور ساتھ ہی عورتوں کا گھروں میں اعتکاف کرنا بھی سنت کے خلاف ہے ۔ابن عباس رضی اللہ عنہما سے عورتوں کا گھر میں اعتکاف سے متعلق مسئلہ دریافت کیا گیا تو انہوں نے جواب دیا کہ عورتوں کا گھر میں اعتکاف کرنا بدعت ہے ۔ لہذا ہمیں اتباع سنت کو لازم پکڑنا چاہئے اور دین کے نام پر بدعات وخرافات سے بچنا چاہئے ۔
 
Top