• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ماہِ رمضان میں خرچ کرنے کی فضیلت سے متعلق ایک روایت کی تحقیق

عامر عدنان

مشہور رکن
شمولیت
جون 22، 2015
پیغامات
921
ری ایکشن اسکور
263
پوائنٹ
142
ماہِ رمضان میں خرچ کرنے کی فضیلت سے متعلق ایک روایت کی تحقیق


از قلم :
حافظ اکبر علی اختر علی سلفی / عفا اللہ عنہ

ناشر :
البلاغ اسلامک سینٹر
=================================
الحمد للہ رب العالمین ، والصلاۃ والسلام علی رسولہ الامین، اما بعد :

محترم قارئین ! ہمارے دوست فروز بھائی نے راقم کو درج ذیل حدیث بھیجی :
”نبی کریم ﷺ نے فرمایا:ماہِ رمضان میں گھر والوں کے خرچ میں کشادگی کرو کیونکہ ماہِ رمضان میں خرچ کرنا ، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی طرح ہے“۔ (الجامع الصغیر ،ص:126، ح:2716)
اور کہا کہ شیخ اِس حدیث کی سند کے تعلق سے کچھ عرض کریں۔

راقم جوابا عرض کرتا ہے کہ یہ روایت ثابت نہیں ہے۔
تفصیل پیش خدمت ہے:
امام ابو بکر عبد اللہ بن محمد ، المعروف بابن ابی الدنیا رحمہ اللہ (المتوفی : 281ھ) فرماتے ہیں:
”حَدَّثَنِي أَبُو جَعْفَرٍ الْأُدْمِيُّ، قَالَ: ثنا أَبُو الْيَمَانِ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، عَنْ ضَمْرَةَ بْنِ حَبِيبٍ وَرَاشِدِ بْنِ سَعْدٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: انْبَسِطُوا فِي النَّفَقَةِ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ، فَإِنَّ النَّفَقَةَ فِيهِ كَالنَّفَقَةِ فِي سَبِيلِ اللہِ“.
*[ترجمہ]* ضمرۃ بن حبیب اور راشد بن سعد رحمہما اللہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:”ماہِ رمضان میں خرچ کرنے میں کشادگی کرو کیونکہ ماہِ رمضان میں خرچ کرنا ، اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کی طرح ہے“۔
[تخریج] فضائل رمضان بتحقیق عبد الله بن حمد المنصور،ص:52، ح:24.
[حکم حدیث] یہ حدیث منکر ہے اور اِس کی سند مرسل ضعیف ہے۔
علامہ البانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
”منكر...وهذا مع إرساله ضعيف“ ” منکر ہے۔۔۔اور یہ مرسل ہونے کے ساتھ ساتھ ضعیف ہے“۔
(الضعیفۃ :14/242، ح:6599)
*[سبب]* روایت ہذا کی سند میں *” ابو بکر بن عبد اللہ بن ابی مریم الغسانی “* ہیں جو کہ ضعیف منکر الحدیث راوی ہیں، کثرت سے غلطی کرتے تھے۔ بعض ائمہ نے انہیں متروک الحدیث بھی قرار دیا ہے۔ نیز آپ اختلاط کا شکار بھی ہو گئے تھے۔
ائمہ کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:
امام ابو عبد اللہ محمد بن سعد البغدادی ،المعروف بابن سعد رحمہ اللہ(المتوفی:230ھ):”كان كثير الحديث ضعيفا“ ”کثیر الحدیث اور ضعیف تھا“۔(الطبقات الكبرى بتحقیق محمد عبد القادر:7/324، ت:3911)
امام ابو عبد اللہ احمد بن محمد بن حنبل رحمہ اللہ (المتوفی :241ھ):”وأبو بكر ضعيف، كان يجمع الرجال فيقول: حدثني فلان، وفلان، وفلان“
”ابو بکر ضعیف ہے ۔ یہ کئی لوگوں کو جمع کر کے کہتا تھا کہ مجھ سے فلاں، فلاں اور فلاں نے حدیث بیان کی ہے“۔
(سؤالات ابن هانىء ، رقم : 2258 بحوالۃ موسوعة أقوال الإمام أحمد بن حنبل في رجال الحديث وعلله :4/191، ت:3640)
امام ابوزرعہ الرازی رحمہ اللہ(المتوفی:264ھ):
”ضعيف الحديث منكر الحديث“ ”ضعیف الحدیث اور منکر الحدیث ہے“۔
(الجرح والتعديل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی :2/405، ت:1590)
امام ابو حاتم محمدبن ادریس الرازی رحمہ اللہ(المتوفی:277ھ):
”ضعيف الحديث طرقته لصوص فأخذوا متاعه فاختلط“
”ضعیف الحدیث ہے، رات میں کچھ چور اِن کے گھر میں گھس گئے تھے اور اِن کے سامان کو چُرا لیا ، اِسی وجہ سے اختلاط کا شکار ہو گئے“۔
(الجرح والتعديل لابن ابی حاتم بتحقیق المعلمی :2/405، ت:1590)
امام ابو حاتم محمد بن حبان البستی ،المعروف بابن حبان رحمہ اللہ (المتوفی:354ھ):
”وقد كان أبو بكر بن أبي مريم من خيار أهل الشام، ولكنه كان رديء الحفظ، يحدث بالشيء ويهم فِيهِ، لم يفحش ذلك منه حتى استحق الترك، ولا سلك سنن الثقات حتى صار يحتج به، فهو عندي ساقط الاحتجاج به إذا انفرد“
”ابو بکر بن ابی مریم اہل شام کے بہترین لوگوں میں سے تھے لیکن ردی الحفظ تھے، وہ ایک چیز بیان کرتے اور اُس کے تعلق سے وہم میں مبتلا ہو جاتے اور یہ چیز اِن کی جانب سے بہت زیادہ نہیں ہوئی کہ یہ ترک کے مستحق ہو جائیں اور نہ ہی ثقات کے طریقے پر چلے کہ یہ احتجاج کے قابل ہو جائیں لہذا یہ میرے نزدیک، جب کسی حدیث کو بیان کرنے میں منفرد ہوں تو ساقط الاحتجاج ہیں“۔
(المجروحين بتحقیق حمدی السلفی :2/500، ت:1253)
امام ابو احمد بن عدي الجرجانی رحمہ اللہ (المتوفی : 365ھ):
”وَلأَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ غَيْرُ مَا ذَكَرْتُ مِنَ الْحَدِيثِ وَالْغَالِبُ عَلَى حَدِيثِهِ الْغَرَائِبُ وَقَلَّ مَا يُوَافِقُهُ عَلَيْهِ الثِّقَاتُ وَأَحَادِيثُهُ صَالِحَةٌ، وَهو مِمَّنْ لا يُحْتَجُّ بِحَدِيثِهِ وَلَكِنْ يُكْتَبُ حَدِيثُهُ“
”میری ذکر کردہ احادیث کے علاوہ ابی بکر بن ابی مریم کی احادیث ہیں اور اِس کی اکثر و بیشتر احادیث غریب ہیں اور ثقات نے بہت کم احادیث میں موافقت کی ہے اور اِس کی حدیث اچھی ہے اور یہ اُن لوگوں میں سے ہے جن سے احتجاج نہیں کیا جائے گا لیکن اِن کی حدیث لکھی جائے گی“۔(الكامل في ضعفاء الرجال بتحقیق عادل أحمد ورفقاءہ :2/213، ت:277)
امام ابو الحسن علی بن عمر البغدادی الدارقطنی رحمہ اللہ (المتوفی:385ھ):
(1) ”حمصي متروك“ ”حمصی متروک ہے“۔
(سؤالات البرقاني للدارقطني بتحقیق عبد الرحيم القشقري ، ص:76، ت:596)
(2) ”وَأَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي مَرْيَمَ ضَعِيفٌ“ ”ابو بکر بن ابی مریم ضعیف ہے“۔
(سنن الدارقطني بتحقیق الارنووط ورفقائہ :1/184، ح:363)
امام ابو الفضل محمد بن طاہر الشیبانی ،المعروف بابن قیسرانی رحمہ اللہ (المتوفی : 507ھ) :
(1) ”ضَعِيفٌ جِدًّا“ ”سخت ضعیف ہے“۔
(تذكرة الحفاظ بتحقیق حمدی السلفی ،ص:87، ح:185)
(2) ”مَتْرُوكُ الْحَدِيثِ“ ”متروک الحدیث ہے“۔
(تذكرة الحفاظ بتحقیق حمدی السلفی ،ص:241، ح:589)
امام شمس الدین محمد بن احمد الذہبی رحمہ اللہ (المتوفی:748ھ):
(1) ”أَبُو بكر ضَعِيف“ ”ابو بکر ضعیف ہے“۔
(تنقيح التحقيق في أحاديث التعليق بتحقیق مصطفى :1/58، المسالۃ :44)
(2) ”أبو بكر واه“ ”ابو بکر سخت ضعیف ہے“۔
(المستدرك على الصحيحين بتحقیق مصطفى عبد القادر عطا :1/125، ح:191)
(3) ”ضعفه أحمد وغيره لكثرة غلطه“
”اِن کو امام احمد وغیرہ نے کثرت سے غلطی کرنے کی وجہ سے ضعیف قرار دیا ہے“۔
(تاريخ الإسلام بتحقیق بشار عواد:4/258، ت:447)
امام حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ (المتوفی : 852ھ):
(1) ”أَبُو بَكْرٍ ضَعِيفٌ جِدًّا“ ”ابو بکر سخت ضعیف ہے“۔
(إتحاف المهرة بالفوائد المبتكرة من أطراف العشرة بتحقیق مركز خدمة السنة والسيرة:6/177)
(2) ”ضعيف وكان قد سرق بيته فاختلط“
”ضعیف ہے اور اِن کے گھر میں چوری ہو گئی تھی جس کی وجہ سے اختلاط کا شکار ہو گئے“۔
(تقريب التهذيب بتحقیق محمد عوامة ،ص:623، ت:7974)
مزید اقوال کے لیے دیکھیں : تہذیب الکمال للمزی بتحقیق بشار عواد :33/108، ت:7241.

زیر بحث روایت سے متعلق علماء کرام کے اقوال :
زیر بحث روایت کی شرح کے تعلق سے دو (2) علماء کرام کے اقوال پیش خدمت ہیں:
علامہ عبد الرؤوف المناوی رحمہ اللہ (المتوفی : 1031ھ) فرماتے ہیں :
”(انبسطوا في النفقة) على الأهل والحاشية وكذا الفقراء إن فضل عن أولئك شيء“
”اہل و عیال اور اقرباء پر خرچ میں کشادگی کرنا اور اِسی طرح فقراء پر خرچ کرنا اگر اہل و عیال اور پڑوسی پر خرچ کرنے سے کچھ بچ جائے“۔
(التيسير بشرح الجامع الصغير :1/378)
فقیہ علی بن احمد بن محمد العزیزی رحمہ اللہ (المتوفی : 1070ھ) فرماتے ہیں :
”(انبسطوا في النفقة) أي أوسعوها على الأهل والجيران والفقراء“
”خرچ کرنے میں کشادگی کرو یعنی اہل و عیال، پڑوسی اور فقراء پر خرچ کرنے میں کشادگی کرو“۔
(السراج المنير شرح الجامع الصغير في حديث البشير النذير:2/188)

[تنبیہ]
امام ابو بکر عبد اللہ بن محمد ، المعروف بابن ابی الدنیا رحمہ اللہ (المتوفی : 281ھ) فرماتے ہیں:
”حَدَّثَنِي الْحَسَنُ بْنُ الصَّبَّاحِ، قثنا إِسْحَاقُ بْنُ حَكِيمٍ، عَنْ عَبْدِ اللہِ بْنِ الْمُبَارَكِ، عَنْ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي مَرْيَمَ، قَالَ: سَمِعْتُ مَشْيَخَتَنَا يَقُولُونَ: إِذَا حَضَرَ شَهْرُ رَمَضَانَ، قَدْ حَضَرَ مُطَهِّرٌ، وَيَقُولُونَ: انْبَسِطُوا بِالنَّفَقَةِ فِيهِ، فَإِنَّهَا تُضَاعَفُ كَالنَّفَقَةِ فِي سَبِيلِ اللہِ عَزَّ وَجَلَّ، وَيَقُولُونَ: التَّسْبِيحَةُ فِيهِ أَفْضَلُ مِنْ أَلْفِ تَسْبِيحَةٍ فِي غَيْرِهِ“. (فضائل رمضان بتحقیق عبد الله بن حمد المنصور،ص:53، ح:25)
مذکورہ سند بھی ناقابلِ احتجاج ہے کیونکہ اِس میں اسحاق بن حکیم مجہول الحال ہے جیساکہ حافظ ابن حجر العسقلانی رحمہ اللہ نے فرمایا ہے۔
دیکھیں :(تقریب التہذیب للحافظ بتحقیق محمد عوامة ،ص:100، ت:349)
نیز ابو بکر بن ابی مریم ، ضعیف منکر الحدیث راوی ہےجیسا کہ گزشتہ سطور میں گزرچکا ہے۔

[ایک صحیح روایت]
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ:
”كَانَ رَسُولُ اللہِ صَلَّى اللہُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَجْوَدَ النَّاسِ بِالْخَيْرِ، وَكَانَ أَجْوَدَ مَا يَكُونُ فِي شَهْرِ رَمَضَانَ“
”رسول اللہ ﷺ بھلائی پہنچانے کے معاملے میں سب لوگوں سے زیادہ سخی تھے اور سب وقتوں سے زیادہ آپ ﷺ کی سخاوت رمضان کے مہینہ میں ہوتی“۔(صحیح البخاری :6 و صحیح مسلم :2308 واللفظ لہ)
اِس حدیث سے یہ بات معلوم ہوتی ہے کہ ماہِ رمضان میں کچھ زیادہ ہی سخاوت کرنی چاہیے، بھلائی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہیے اور ماہِ رمضان میں بکثرت سخاوت کرنے پر ابھارنے کے لیے نبی کریم ﷺ کا عمل ہی کافی ہے۔

[خلاصۃ التحقیق]
ماہِ رمضان میں خرچ کرنے کی جو فضیلت زیر بحث حدیث میں مروی ہے، وہ نبی کریم ﷺ سے ثابت نہیں ہے لیکن آپ ﷺ کا عمل ماہِ رمضان میں بکثرت سخاوت کرنے پر ابھارنے کے لیے کافی ہے۔

وآخر دعوانا ان الحمد للہ رب العالمین.

حافظ اکبر علی اختر علی سلفی/ عفا اللہ عنہ
صدر البلاغ اسلامک سینٹر
1441ھ-رمضان المبارک-13
07-May-2020
 
Top