• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ماہ رمضان میں ہونے والی عام غلطیاں

شمولیت
جنوری 17، 2018
پیغامات
26
ری ایکشن اسکور
2
پوائنٹ
36
ماہ رمضان میں ہونے والی عام غلطیاں
تحریر : محمود حمید پاکوڑی
_ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _ _
اللہ حکیم نے ایک عظیم مقصد کے تحت ایمان والوں پر روزے فرض کئے ہیں اور وہ مقصد ہے اللہ تعالی کا تقوی حاصل کرنا، دلوں کو برائیوں سے پاک کرنا اور بلند اخلاق کی پابندی کرنا ۔ روزے فرض کرنے کا مقصد بندوں کو نقصان پہنچانا یا انہیں مشقت میں ڈالنا نہیں ہے ۔ لہذا انسان جس قدر شرعی احکام کی پاسداری کرتے ہوئے روزہ رکھے گا اسی قدر اس کے اجر و ثواب میں اضافہ ہوگا اور اس میں کوتاہی کرنے سے اجر و ثواب میں کمی کر دی جائے گی ؛ افسوس کہ بعض مسلمان روزوں کے احکام و آداب کا اہتمام نہیں کرتے جس کی وجہ سے ان سے کچھ ایسی غلطیاں سرزد ہوتی ہیں جو ان کے روزوں پر اثر انداز ہوتی ہیں یا ان کے اجر و ثواب میں کمی کا باعث بنتی ہیں ۔ لہذا اس مضمون میں عوام الناس کے اندر ماہ رمضان میں پائی جانے والی بعض عام غلطیوں کی نشاندہی کی گئی ہے ، اس امید کے ساتھ کہ اللہ تعالی اسے عوام الناس کے لیے فائدہ مند بنائے اور روزے دار اس طرح کی غلطیوں سے باخبر رہ کر ان کے ارتکاب سے اجتناب کرے ۔

(١) صیام کے احکام کو نہ سیکھنا :-
چوں کہ ماہ رمضان کے روزے فرض ہیں اس لئے ایک مسلمان پر لازم ہے کہ اسے صحیح طریقے پر انجام دینے کے لیے روزوں کے ارکان، واجبات، سنن، مکروہات اور مفطرات سے واقف ہو ۔ اگر ماہ رمضان کے تعلق سے کوئی مسئلہ معلوم نہ ہو تو علمائے کرام سے سوال کرے اور اسے حل کرنے کی پوری کوشش کرے ۔ صیام کے احکام سے ناواقفیت ہی کا نتیجہ ہے کہ بعض لوگ اگر بھول چوک اور غلطی سے کھا پی لیتے ہیں تو انہیں شک ہوجاتا ہے اور بالآخر کشمکش کی کیفیت میں روزہ توڑ دیتے ہیں، حالانکہ بھول چوک اور غلطی کی وجہ سے کھانے پینے سے روزہ نہیں ٹوٹتا ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا : إذا نسي أحدكم فأكل أو شرب فليتم صومه فإنما أطعمه الله وسقاه ( صحیح مسلم : ١١٥٥ ) ”جب تم میں سے کوئ شخص بھول کر کچھ کھا پی لے تو وہ اپنا روزہ پورا کرے کیونکہ اسے اللہ تعالی نے کھلایا اور پلایا ہے ۔“

(٢) دوران صیام گناہوں سے اجتناب نہ کرنا :-
بہت سے افراد ماہ رمضان میں کھانے پینے اور جماع جیسے حسی گناہوں سے تو اجتناب کرتے ہیں لیکن غیبت،چغلخوری ، گالی گلوچ اور غیر محرم عورتوں کو دیکھنے سے اجتناب نہیں کرتے اور موبائل کا غلط استعمال کرتے ہیں ؛ حالانکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : من لم يدع قول الزور والعمل به فليس لله حاجة في أن يدع طعامه وشرابه ( صحیح بخاري :١٨٠٤ ) ”اگر کوئی شخص جھوٹ بولنا اور اس پر عمل کرنا نہ چھوڑے تو اللہ تعالیٰ کو کوئی ضرورت نہیں کہ وہ اپنا کھانا پینا چھوڑ دے ۔ “

(٣) بعض سنتوں کو روزے کی حالت میں ناجائز سمجھ کر ترک کردینا :-
بعض افراد یہ سوچ کر کہ دوران صیام فلاں کام جائز نہیں ' اسے چھوڑ دیتے ہیں ؛ مثلاً حلق میں پانی پہنچ جانے کے خوف سے دوران وضو کلی کرنے اور ناک میں پانی چڑھانے سے پرہیز کرتے ہیں ؛ حالانکہ ممانعت صرف مبالغہ کرنے کی ہے کہ کہیں پانی پیٹ میں نہ چلا جائے ۔ چنانچہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "أسبغ الوضوء وخلل بين الأصابع وبالغ في الإستنشاق إلا أن تكون صائما “ (صحیح سننِ أبی داؤد : ١٢٩) ” اچھی طرح وضو کرو ، اپنی انگلیوں کا خلال کرو اور ناک میں پانی چڑھانے میں مبالغہ کرو الا یہ کہ تم روزے دار ہو ۔ “
اسی قبیل سے دوران صيام مسواک نہ کرنا اور تھوک نہ نگلنا بھی ہے یہ سمجھ کر کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے حالانکہ روزے دار کے لئے مسواک کرنا مشروع ہے اور تھوک نگلنا مفطرات صوم میں سے نہیں ہے ۔ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : ” لولا أن أشق على أمتي لأمرتهم بالسواك عند كل صلاة “( صحیح بخاری :٨٨٧) ” اگر مجھے اپنی امت کی تکلیف کا خیال نہ ہوتا تو میں ہر نماز کے وقت ان کو مسواک کا حکم دیتا ۔“ امام بخاري رحمه الله لکھتے ہیں کہ ”ولم يخص النبيﷺ الصائم من غيره “ (فتح الباری: ٤/١٧٨ ) یعنی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے لوگوں سے روزے دار کو خاص نہیں کیا ہے ۔“

(٤) فجر کی اذان کے بعد بھی کھانا پینا جاری رکھنا :-
بعض لوگ جان بوجھ کر صبح کی اذان ہو جانے کے باوجود کھانے پینے میں مشغول رہتے ہیں ، جبکہ ایک مسلم کے لئے اپنے روزے کی حفاظت کرنا، اس کے تعلق سے محتاط رہنا اور اذان سنتے ہی کھانا پینا ترک کر دینا ضروری ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :” إن بلالا يؤذن بليل فكلوا واشربوا حتى تسمعوا أذان ابن أم مكتوم فإنه لا يؤذن حتى يطلع الفجر .“(صحیح بخاری : ١٩١٩) ” بیشک بلال رات کو اذان دیتے ہیں ، پس تم کھاتے پیتے رہو یہاں تک کہ ابن ام مکتوم اذان دیں کیونکہ وہ صبح صادق کے طلوع ہونے سے پہلے اذان نہیں دیتے “
اسی طرح مؤذن کی بھی ذمہ داری ہے کہ وہ صحیح وقت میں اذان دے تاکہ روزے دار غلطیوں میں ملوث نہ ہو جائیں۔

(٥) رمضان کو سونے اور آرام کرنے کا مہینہ بنا لینا:-
خلوص وللہیت کے فقدان کی وجہ سے بعض افراد ماہ رمضان کے دنوں میں آرام کرنے اور سونے کو معمول بنا لیتے ہیں، جس کی وجہ سے بسا اوقات نماز فوت ہو جاتی ہے یا تاخیر سے ادا کرتے ہیں ؛ اور پھر راتوں کو لہو و لعب اور دیگر غیر مفید کاموں میں مشغول ہوجاتے ہیں ۔ اس طرح سے انسان دن کی عبادت سے غافل ہو کر بہترین وقت کو گنوا بیٹھتا ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا : ”فخلف من بعدهم خلف أضاعوا الصلاة واتبعوا الشهوات فسوف يلقون غيًّا .“(مريم : ٥٩) ” پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے کہ انہوں نے نماز ضائع کر دی اور نفسانی خواہشتوں کے پیچھے پڑ گئے ، سو ان کا نقصان ان کے آگے آئے گا ۔ “

(٦) ماہ رمضان کے صرف ابتدائی ایام میں عبادت کا اہتمام کرنا:-
دیکھا جاتا ہے کہ رمضان کے ابتدائی ایام میں مسجدیں مصلیوں سے کھچا کھچ بھر جاتی ہیں، اور ان دنوں میں اکثر و بیشتر مسلمان دعاؤں اور عبادتوں کا خاص اہتمام کرتے ہیں لیکن آہستہ آہستہ یہ شوق مدہم پڑ جاتا ہے اور مصلیوں کی تعداد بالتدریج گھٹ جاتی ہے ،حالانکہ مکمل مہینے عبادتوں میں مشغول رہنا اور خصوصاً آخری عشرے میں عبادتوں کا بکثرت اہتمام کرنا لازمی ہے اور نیکیوں کے اس موسم بہار سے خوب استفادہ کرنا ضروری ہے ۔

(٧) وقت سحر دعا نہ کرنا :-
ماہ رمضان میں اکثر و بیشتر لوگ سحری کے وقت جاگتے ہیں لیکن وہ اس بہترین فرصت کو ضائع کر دیتے ہیں اور اس کا کماحقہ صحیح استعمال نہیں کر پاتے ۔ حالانکہ یہی وہ وقت ہوتا ہے جب اللہ رب العالمین آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے اور بندوں کی پکار پر لبیک کہتا ہے؛ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی حدیث ہے:” ہمارا رب تبارک و تعالی ہر رات کو جب آخری تہائی حصہ باقی رہ جاتا ہے تو آسمانِ دنیا کی طرف نزول فرماتا ہے ، پھر کہتا ہے : کون ہے جو مجھے پکارے اور میں اس کی پکار کو قبول کروں؟ کون ہے جو مجھ سے سوال کرے اور میں اسے عطا کروں ؟ کون ہے جو مجھ سے معافی مانگے اور میں اسے معاف کردوں ؟ “(صحیح بخاری : ١١٤٥ صحیح مسلم : ٧٥٨)

(٨) مزدوری یا امتحان کی وجہ سے روزہ چھوڑ دینا:-
ماہ رمضان میں بعض مزدور روزے دار کام کی سختی اور طلبہ اسکولی امتحانات کی بنا پر روزہ چھوڑ دیتے ہیں ، جبکہ مزدوری اور امتحان کی تیاری یا مذاکرہ کی غرض سے روزہ چھوڑنا غیر شرعی عمل ہے اور شریعت میں اس کا کوئی جواز نہیں ہے ۔ اللہ تعالی نے انسان کو بقدرِ طاقت مکلف بنایا ہے ،اسی لیے اس نے بیماروں پر روزہ فرض نہیں کیا ہے ۔ روزے کی حالت میں امتحان دینے سے اللہ تعالی کی طرف سے مدد بھی مل سکتی ہے ۔ سعودی افتاء کمیٹی سے جب پوچھا گیا کہ کیا امتحان ایسا عذر ہے جس کی بنا پر روزہ چھوڑا جا سکتا ہے ؟ تو کمیٹی نے جواب تحریر کیا کہ اسکولی امتحان کوئی ایسا عذر نہیں جسے بنیاد بنا کر روزہ توڑا جا سکتا ہے اور اس معاملے میں بچوں پر والدین کی اطاعت بھی فرض نہیں ہے ،کیونکہ خالق کی نافرمانی میں مخلوق کی اطاعت جائز نہیں ہے ۔“(فتویٰ لجنہ دائمہ ، فتویٰ نمبر : ٩٦٠٢)

(٩) ماہ رمضان میں نکاح کی حرمت کا عقیدہ رکھنا :-
عوام الناس میں یہ غلط عقیدہ پایا جاتا ہے کہ ماہ رمضان میں نکاح کرنا جائز نہیں ہے ، حالانکہ نکاح کرنا کسی بھی موسم اور مہینے میں جائز ہے سوائے مُحرِم شخص کے کیونکہ وہ حالت احرام میں شادی نہیں کر سکتا ۔ ماہ رمضان میں شادی کے درست ہونے کے لئے یہی کافی ہے کہ اللہ تعالی نے ماہ رمضان میں بھی غروب شمس سے طلوع فجر تک بیوی سے جماع کرنے کی اجازت دی ہے ۔ اللہ تعالی کا فرمان ہے :” أحل لكم ليلة الصيام الرفث إلى نسائكم، هن لباس لكم وأنتم لباس لهن .“(البقرۃ : ١٨٧) ” روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لیے حلال کیا گیا، وہ تمہارے لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو ۔ “

(١٠) کھانے پینے میں اسراف کرنا:-
ضرورت سے زیادہ خرچ کرنے اور حد سے تجاوز کرنےکو اسراف کہتے ہیں ۔ ماہ رمضان میں اکثر مسلمانوں کو دیکھا جاتا ہے کہ وہ مختلف قسم کے پھلوں اور انواع و اقسام کے لذیذ ماکولات و مشروبات کا خوب اہتمام کرتے ہیں،اور بسا اوقات اسراف سے بھی کام لیتے ہیں ؛ اور حد تو اس وقت ہو جاتی ہے جب خواتین پورا دن ڈشوں کی منصوبہ بندی میں گزار دیتی ہیں؛ حالانکہ رمضان محنت و ریاضت ، جفاکشی اور مجاہدے کا مہینہ ہے ۔ اس میں ایک روزے دار کو بھوک و پیاس اور غربت و افلاس کا احساس ہونا چاہیے ؛ لہذا اگر اللہ نے کسی کو مال و دولت سے نوازا ہے تو چاہیے کہ اس مقدس مہینے میں غرباء وفقراء پر اپنا مال خرچ کرے اور بے جا اسراف و فضول خرچی سے اجتناب کرے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا :” وكلوا واشربوا ولا تسرفوا إنه لايحب المسرفين .“ ( الأعراف : ٣١)” اور خوب کھاؤ اور پیو اور حد سے مت نکلو ؛ بے شک اللہ حد سے نکل جانے والوں کو پسند نہیں کرتا ۔ “

(١١) افطار کرانے والے کے حق میں دعا نہ کرنا :-
بعض روزے دار افطار کرانے والوں کے حق میں دعا نہیں کرتے ، حالانکہ سنت یہ ہے کہ اگر کوئی مسلمان کسی قوم کے پاس افطار کرے تو وہ ان کے حق میں دعائے خیر کرے ؛ اس موقع پر یہ دعائیں پڑھی جاسکتی ہیں :(١) أفطر عندكم الصائمون وأكل طعامكم الأبرار وصلت عليكم الملائكة (صحیح سنن ابن ماجة :١٧٤٧) (٢) اللهم أطعم من أطعمني واسق من سقاني ( صحیح مسلم : ٢٠٥٥)(٣) اللهم بارك لهم فيما رزقتهم واغفر لهم وارحمهم (صحیح مسلم :٢٠٤٢ )

(١٢) ماہ رمضان میں بیوی سے ہمبستر ہونے کو حرام خیال کرنا :-
بعض افراد کا خیال ہوتا ہے کہ ماہ رمضان کی راتوں میں بھی بیویوں سے ہمبستر ہونا جائز نہیں ۔ یقیناً یہ ایک غلط فکر ہے جس کا ازالہ کرنا بہت ضروری ہے کیونکہ ہمبستری کی ممانعت صرف دن میں ہے جبکہ رات میں بیوی سے جماع کرنا حلال ہے ۔ اللہ تعالی نے فرمایا :” أحل لكم ليلة الصيام الرفث إلى نسائكم، هن لباس لكم وأنتم لباس لهن .“( البقرة : ١٨٧) ” روزے کی راتوں میں اپنی بیویوں سے ملنا تمہارے لیے حلال کیا گیا، وہ تمہارے لباس ہیں اور تم ان کے لباس ہو ۔ “

(١٣) آخری عشرے میں خرید و فروخت میں مشغول ہو جانا :-
لوگوں میں یہ ایک عام رواج بن گیا ہے کہ وہ ماہ رمضان کے آخری عشرے میں عید کی تیاری میں لگ جاتے ہیں اور کپڑوں اور میٹھی چیزوں کی خرید و فروخت میں اس قدر مصروف ہوجاتے ہیں کہ آخری عشرے کے فضائل سے محروم ہو جاتے ہیں ؛ اور بعض افراد قیام اللیل سے غافل ہوکر راتوں کو دکانوں اور سڑکوں میں گھومتے رہتے ہیں ۔یہ ایک افسوسناک حقیقت ہے ۔ ضروری ہے کہ مسلمان اپنے نبیﷺ کی سنت کی اتباع کرتے ہوئے آخری عشرے میں عبادت کے لیے اپنے آپ کو اور اہل خانہ کو فارغ کرلیں ،شب قدر کی جستجو میں کمر کس لیں اور اس موقع کو یوں ضائع ہونے سے بچائیں ۔ عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا کی حدیث ہے : كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يجتهد في العشر الأواخر ما لا يجتهد في غيره .“( صحيح مسلم: ٢٢٧٥) ” رسول اللہ ﷺ رمضان کے آخری عشرے میں اتنی محنت کرتے جتنی اور دنوں میں نہیں کرتے تھے ۔“

قارئین کرام ! مندرجہ بالا غلطیوں کے علاوہ بھی مزید کچھ غلطیاں ہیں جو روزے داروں سے سرزد ہوتی ہیں ؛ جیسے سحری کھانے کے فوراً بعد فجر کی نماز ادا کئے بغیر سوجانا ، نماز مغرب کی جماعت کھڑی ہو جانے کے بعد بھی افطاری میں لگے رہنا ،دوسروں کو اپنے روزے کا احساس دلانا ،رات ہی کو کھانا کھا لینا اور سحری کے لیے نہ جاگنا اور دعوت افطار میں غرباء وفقراء کو شریک نہ کرنا ۔
دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں اور آپ کو ماہ رمضان کے روزے رکھنے، اس کی برکتوں سے فیض یاب ہونے، اپنے اعمال کی اصلاح کرنے اور غلطیوں سے حتی المقدور اجتناب کرنے کی توفیق عطا فرمائے ، آمین یارب العالمین !
 
Top