• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مختلف مذاہب میں آخری رسومات ادا کرنے کے دلچسپ مگر ظالمانہ طریقے !!!

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
مختلف مذاہب میں آخری رسومات ادا کرنے کے دلچسپ مگر ظالمانہ طریقے

خالد اقبال پير 23 فروری 2015


دنیا بھر میں مرنے والوں کی آخری رسومات مختلف مذاہب میں مختلف طریقے سے ادا کی جاتی ہے فوٹو:فائل

موت کا مزہ ہر ذی روح کو چکھنا ہے لیکن مرنے کے بعد انسان کی آخری رسومات کس طرح اداکی جائے اس کا تصور مختلف مذاہب میں مختلف ہے اور لوگ اسے اپنی مذہبی، ثقاتی اور روائتی انداز سے ادا کرتے ہیں اور بہت سے انداز سے تو عام طور پر لوگ واقف ہی ہیں لیکن کچھ طریقے ایسے دلچسپ اور ظالمانہ ہیں کہ جنہیں جان کر آپ نہ صرف حیران بلکہ کچھ پریشان بھی ہوجائیں گے۔

مردہ کو ممیز میں تبدیل کرنا:

آج سے ہزاروں سال قبل قدیم مصر میں امرا اور بادشاہوں کی لاشوں کو محفوظ کرنے کے لیے یہ طریقہ اختیار کیا جاتا تھا۔ اس طریقے میں دل اور دماغ سمیت لاش کے مختلف حصوں کو کو الگ کردیا جاتا تھا جس کے بعد خالی جسم کو کیمیکل لگے لکڑی کے برادے سے بھر دیا جاتا تھا اورپھر پورے جسم کو سوتی کپڑے سے لپیٹ کر محفوظ کردیا جاتا تھا۔ مصریوں کا عقیدہ تھا کہ اس طرح مرنے والی کی روح اگلے سفر تک محفوظ رہتی ہے، دنیا کی قدیم ترین ممی 6 ہزار سال پرانی ہے۔


کریانوکس:

قدیم زمانے میں لوگ مردہ انسان یا جانور کو انتہائی کم درجہ حرارت پر یعنی برف میں دبا کر کافی عرصے تک رکھ دیتے تھے کیونکہ ان کا ماننا تھا کہ ہو سکتا ہے مستقبل کوئی ایسی دوائی مل جائے جس کا استعمال کر کے اپنے پیاروں کو دوبارہ زندہ کیا جاسکے۔


خلیوں کو پلاسٹک میٹریل سے تبدیل کر کے:

زمانہ قدیم میں دنیا کے ان علاقوں میں جہاں سائنس کی ترقی اپنے عروج پر تھی وہاں مردہ انسان کے جسم سے خلیوں کے مرکزہ میں موجود سیال مائع اور چکنائیوں کو نکال کر اس کی جگہ پر پلاسٹک اور سیلی کون کے مصنوعی اعضا لگادیئے جاتے تھے جس سے لاش ایک طویل عرصے تک محفوظ رہتی اور اس میں کسی قسم کی بدبو بھی نہیں آتی تھی۔


بحری جہاز پر آخری رسومات:

دسوی صدی میں یورپی ساحلوں پر راج کرنے والے بحری قزاقوں کے سرداروں کی لاشوں کو ایک بحری جہاز پر رکھ کر اس کے ساتھ سونا، کھانا، اور کبھی کبھار غلاموں کوبٹھا کر سمندر کے بیچ پہنچا کر آگ لگادی جاتی تھی۔ ان کا ماننا تھا کہ اس طرح مرنے والی کی روح پرسکون رہتی ہے۔


درختوں پر رکھ کر:

آسٹریلیا، برطانیہ، کولمبیا اور سربیا میں بھی کچھ قبائل لاش کو درخت کی جڑوں اور شاخوں سے باندھ کر چھوڑ دیتے تھے۔


 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
خاموشی کا مینار:

زمانہ قدیم میں آتش پرست لاش کو اونچے پہاڑ پر بنے خاموشی کے مینار(ٹاور آف سائیلنس) پر لا کر چھوڑ دیتے اور جب کچھ عرصے بعد اس کی ہڈیاں رہ جاتیں تو انہیں جمع کرکے چونے میں ڈال کر گلا دیتے۔ ان کا ماننا تھا کہ اس طرح مرنے والے نے جس جس چیزکوچھو کر گندہ کیا ہوتا ہے وہ اس عمل سے پاک ہوجاتی ہے۔


مردے کے ساتھ اپنی انگلیاں کاٹ کر رکھنا:

مغربی پاپواگنی کے دانی قبیلے لوگ مرنے والے کے ساتھ اپنے دکھ کے اظہار کے لیے ایک عجیب رسم ادا کرتے ہیں اور اس رسم میں مرنے والے کی رشتہ دار خاتون اپنی انگلیاں کاٹ کر مردے کےساتھ دفن کردیتی ہیں جس سے وہ اپنے دکھ اور غم کا اظہار کرتی ہیں۔


اسپرٹ آفرنگ:

ایشیا کے کچھ قبائل مردے کو آبادی سے دور کھیتوں میں دفنا دیتے ہیں اس کے لیے وہ ایک بڑے پتھر کو بیچ میں رکھ کر اوپر جانور کا چارا رکھ دیتے ہیں۔ ویتنام کے لوگ لاش کے ساتھ کچھ رقم بھی رکھ دیتے ہیں کیونکہ ان کا ماننا ہے کہ مرنے والا اپنی ضرورت کے مطابق آئندہ زندگی کے لیے جو چاہے خرید لے۔


ایکوا میشن:

امریکا میں عام طور پر یہ طریقہ اختیار کیا جاتا ہے جس میں لاش کو ایک اسٹیل کی مشین میں رکھ کر اسے ایک خاص درجہ حرارت پر چلایا جاتا ہے جس سے جسم مائع میں تبدیل ہوجاتا ہے جبکہ ہڈیاں محفوظ رہتی ہیں تاہم اسے ہاتھوں سے راکھ میں تبدیل کیا جاسکتا ہے۔ اس راکھ کو متعلقہ رشتے دار کے حوالے کردیا جاتا ہے جو اسے پانی میں بہا دیتا ہے۔


خلا میں:

20 ویں صدی میں شروع ہونے والے اس طریقہ میں مرنے والے کی خواہش کے مطابق اس کے جسم کے جلائے ہوئے اجزا کو خلائی کیپسول میں رکھ کر راکٹ کی مدد سے فضا میں فائر کردیا جاتا ہے، اس طریقے سے اب تک 150 افراد کو آخری رسومات ادا کی گئیں ہیں۔


آسمانی رسومات:

ہزاروں سال کے رائج اس رسم میں تبت کے رہنے والے بدھ بھکشو اپنے مردے کی لاش کو ٹکڑوں میں تقسیم کر کے پرندوں کے سامنے ڈال دیتے ہیں جب کہ اب بھی 80 فیصد بدھ بھکشو یہی طریقہ اختیار کرتے ہیں۔


ٹیکسی ڈرمی:

اس طریقہ میں مرنے والے جانور کو کھال کو کیمیکل لگے بھوسہ بھر کر اس کو دوبارہ زندگی والی شکل دی جاتی ہے لیکن اب کچھ لوگ مرنے کے بعد اپنی ٹیکسی ڈرمی کرنے کی وصیت بھی کر تے ہیں تاکہ وہ ہمیشہ زندہ رہیں۔



http://www.express.pk/story/330184/
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
مردے کے ساتھ اپنی انگلیاں کاٹ کر رکھنا:
ستی
ہندوعقیدے کے مطابق شوہر کے مرنے پر بیوہ کا شوہر کی چتا میں جل کر مرنا ستی کہلاتا ہے۔ جو ہندو مردے کو جلانے کی بجائے دفن کرتے تھے وہ بیوہ کو بھی زندہ دفن کر کے ستی کی رسم ادا کرتے تھے۔ جب شوہر کی موت کہیں اور ہوتی تھی اور لاش موجود نہ ہوتی تھی تو ستی کی رسم ادا کرنے کے لیئے بیوہ کو شوہر کی کسی استعمال شدہ چیز کے ساتھ جلا دیا جاتا تھا۔۔۔ ہندوستان میں ستی کا رواج بنگال میں زیادہ عام تھا۔ ستی ہونے والی خاتون کو ماتمی لباس کی بجائے شادی کے کپڑے پہنائے جاتے تھے اور ستی کی کافی ساری رسمیں شادی کی رسومات سے ملتی جلتی ہوتی تھیں۔ سمجھا جاتا تھا کہ ستی ہونے سے جوڑے کے تمام گناہ دھل جائیں گے انہیں نجات حاصل ہو گی اور وہ موت کے بعد بھی ہمیشہ ایک دوسرے کے ساتھ رہیں گے۔
انا للہ وانا الیہ راجعون!
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,747
پوائنٹ
1,207
سکھ مذہب میں ستی ہونا شروع ہی سے حرام ہے۔

ستی کی رسم ہندو مذہب میں کیسے داخل ہوئی۔
کہا جاتا ہے کہ ستی ہونا بیوہ کی اپنی مرضی ہوتی تھی مگر معاشرتی توقعات اور مذہبی دباو بیوہ کے فیصلوں پر یقیناً اثرانداز ہوتا تھا۔ ایسی بھی مثالیں موجود ہیں جہاں بیوہ کو چتا جلانے سے پہلے ہی چتا پر رسی سے باندھ دیا گیا تھا۔ بعض موقعہ پر بیوہ کو نشہ آور دوا دے کر ستی کیا گیا یا بیوہ کو شعلوں سے دور بھاگنے سے روکنے کے لیئے بانس استعمال کیے گئے۔
ستی کی رسم مذہب میں کیسے داخل ہوئی اسکی غالباً وجہ یہ تھی کہ اس زمانے میں امیر اور بااثر عمر رسیدہ لوگ جوان اور خوبصورت لڑکیوں سے شادی کرنے میں تو کامیاب ہو جاتے تھے مگر انہیں ہمیشہ یہ دھڑکا لگا رہتا تھا کہ انکی جوان بیوی کا کسی ہم عمر مرد سے معاشقہ نہ ہو جائے اور بیوی شوہر کو زہر نہ دے دے۔ ستی کی اس رسم کو مذہبی رنگ دینے سے بیوی اپنے شوہر کو کبھی بھی زہر دینے کی جرات نہیں کرے گی تا کہ خود بھی جل مرنے سے محفوظ رہے۔

1806 میں نیپال کے راجہ کو اسکے بھائی نے قتل کر دیا اور تخت پر قبضہ کرنے کے لیئے راجہ کی بیوہ مہا رانی راج راجیشوری دیوی کو دس دن بعد 5 مئی 1806 کو زبردستی ستی کر دیا۔

انسداد ستی
اکبر بادشاہ نے ستی کی رسم ختم کرنے کے لیئے یہ قانون بنایا تھا کہ سرکاری اجازت حاصل کیے بغیر کسی کو ستی نہیں کیا جا سکتا اور سرکاری حکام کو یہ ہدایت تھی کہ اجازت نامہ دینے میں جتنی دیر ممکن ہو کریں تاکہ بیوہ کا جذباتی فیصلہ سرد پڑجائے۔
ہمایوں نے ستی پر پابندی لگا دی تھی مگر ہندووں کے دباؤ میں آکر واپس لے لی۔
شاہ جہاں نے بچوں کی ماں کے ستی ہونے پر مکمل پابندی لگا رکھی تھی۔
اورنگزیب نے اس معاملے میں سب سے زیادہ سختی برتی۔ 1663 میں اس نے قانون بنایا کہ مغل بادشاہت کی حدود میں ستی کی اجازت کبھی نہیں دی جائے گی۔ لیکن لوگ رشوت دے کر یہ رسم ادا کرتے رہے۔ مغل بادشاہوں نے ستی سے بچانے کے لیے بیوہ کو تحفے،امداد اور پنشن بھی ادا کی۔
1515 میں پرتگالیوں نے گوا میں ستی پر پابندی لگائی۔
انگریزوں نے 1798 میں صرف کلکتہ میں ستی پر پابندی لگائی۔
4 دسمبر 1829 کو لارڈ ولیم بنٹنک نے بنگال میں ستی پر مکمل پابندی کا اعلان کیا جسے ہندووں نے عدالت میں چیلنج کر دیا۔ معاملہ Privy Council انگلستان تک گیا مگر 1832 میں پابندی کی برقراری کے حق میں فیصلہ آ گیا جس کے بعد یہ ہندوستان کے دیگر حصوں میں بھی نافذ العمل ہو گیا۔ کچھ ریاستوں میں ستی کی رسم پھر بھی جاری رہی۔


4 ستمبر 1987 کو ہندوستان میں راجستھان کے ضلع سکر کے دیورالا نامی گاؤں میں ایک 18 سالہ بیوہ روپ کنور نے ہزاروں لوگوں کی موجودگی میں خود کو ستی کر دیا۔ اس جرم میں کچھ گرفتاریاں بھی ہویئں مگر کسی کو بھی سزا نہیں ہوئی۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,472
پوائنٹ
964
انا للہ و انا الیہ رجعون ۔
 

ابن قاسم

مشہور رکن
شمولیت
اگست 07، 2011
پیغامات
253
ری ایکشن اسکور
1,081
پوائنٹ
120
انا للہ و انا الیہ راجعون
جی انڈیا میں ستی کرنا قانونی طور پر جرم ہے۔ شاید ایک دو واقعات ایسے ہوئے ہوں، بہت پہلے اس سے متعلق ایک خبر نظر سے گزری تھی۔
 
Top