• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مسلمان اور کافر کے مال و جان کی حرمت کے درمیان فرق

شمولیت
اگست 16، 2017
پیغامات
112
ری ایکشن اسکور
13
پوائنٹ
55
مسلمان اور کافر کے مال وجان کی حرمت کے درمیان فرق

ترتیب و تدوین: شیخ ابو محمد الیاس المہاجر

بسم اللہ الرحمٰن الرحیم

بلاشبہ شریعت نے مسلمانوں کے خون، ان کی عزتوں کی پامالی اور ان کے اموال کو مباح کرنا یا انہیں کسی بھی قسم کا بالواسطہ یا بلاواسطہ نقصان پہنچانا حرام قرار دیا ہے۔ ماسوائے کسی شرعی سبب کے۔ جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

لَا یَحِلُّ دَمُ امْرِءٍ مُسْلِمٍ یَشْھَدُ أَنْ لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ وَأَنِّی رَسُولُ اللَّہِ اِلَّا بِاِحْدَی ثَلَاثٍ النَّفْسُ بِالنَّفْسِ وَالثَّیِّبُ الزَّانِی وَالْمَارِقُ مِنْ الدِّینِ التَّارِکُ لِلْجَمَاعَة

’’کسی مسلمان آدمی کا خون حلال نہیں ماسوائے تین حالتوں میں سے کسی ایک کے، جان کے بدلے جان، شادی شدہ زانی اور دین (اسلام) کو چھوڑ کر جماعت میں تفرقہ ڈالنے والا (یعنی مرتد)‘‘۔

[صحیح البخاری، ج۲۱، ص۱۷۱، رقم الحدیث:۶۳۷۰]

لہٰذا یہ حالتیں ہیں کہ جن میں کسی مسلمان کا خون بہانا جائز ہوتا ہے مگر فقہاء کے نزدیک حدیث میں یہ حکم صرف انہی تین حالتوں پر منحصر نہیں بلکہ یہاں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے صرف مثال کے طور پر تین حالتوں کا بیان کیا ہے۔ تو اصل بات یہ ہے کہ مسلمانوں کی جان، مال اور عزتوں کے بارے میں اصل حکم ’’حرمت‘‘ کا ہے یعنی وہ ہر صورت حرام ہیں مگر یہ کہ کسی شرعی جواز مثلا ًقصاص یا ارتداد یا حد کے بغیر حلال نہیں ہو سکتیں۔

لیکن کفار کی جان مال اور عزتوں کے بارے میں اصل حکم ’’حلت‘‘ کا ہے یعنی وہ حلال ہیں مگر یہ کہ کسی عہد یا ذمہ یا اَمان کے بغیر حرام نہیں ہوتیں۔ اس کے ساتھ ان کی عورتیں، بچے، بوڑھے، مزدور اور جو لڑ نہیں سکتے اس شرعی حکم سے خارج ہیں کیونکہ ان کے مستثنی ہونے کے دلائل موجود ہیں۔ لیکن کفار کے بوڑھوں بچوں اور عورتوں کے قتل کی حرمت مطلق (عام) نہیں ہے بلکہ چند مخصوص حالات میں انہیں بھی قتل کرنا جائز ہے جس کی تفصیل آگے (اس کے بعد والی پوسٹ میں) آئے گی۔ ان شاء اللہ

مال و جان کے حرمت کی اصل وجہ

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:


أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُولُوا لَا اِلَہَ الَّا اللَّہُ فَمَنْ قَالَ لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ فَقَدْ عَصَمَ مِنِّی نَفْسَہُ وَمَالَہُ اِلَّا بِحَقِّہِ وَحِسَابُہُ عَلَی اللَّہِ


’’مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے قتال کروں یہاں تک کہ وہ لا الہ الا اللہ کہہ دیں۔ پس جس نے لا الہ الا اللہ کہہ دیا تو اس نے اپنے مال اور جان کو مجھ سے بچالیا، مگر یہ کسی حق کے بدلے میں، اور اس کا باقی حساب اللہ پر رہے گا‘‘۔

[صحیح البخاری، ج۱۰، ص:۹۷، رقم الحدیث:۲۷۲۷]

لکُلُّ الْمُسْلِمِ عَلَی الْمُسْلِمِ حَرَامٌ دَمُہُ وَمَالُہُ وَعِرْضُہُ

’’ہر مسلمان کا دوسرے مسلمان کا خون اور مال اور اس کی عزت حرام ہے‘‘۔

[صحیح مسلم ، ج۱۲، ص:۴۲۶، رقم الحدیث:۴۶۵۰]

أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّی یَقُولُوا لَا اِلَہَ اِلَّا اللَّہُ فَاِذَا قَالُوھَا وَصَلَّوْا صَلَاتَنَا وَاسْتَقْبَلُوا قِبْلَتَنَا وَذَبَحُوا ذَبِیحَتَنَا فَقَدْ حَرُمَتْ عَلَیْنَا دِمَاؤُھُمْ وَأَمْوَالُھمْ اِلَّا بِحَقِّھَا وَحِسَابُھُمْ عَلَی اللَّہِ

’’مجھے اس وقت تک لوگوں سے قتال کرنے کا حکم دیا گیا ہے، جب تک وہ لا الہ الا اللہ نہ کہہ دیں پھر جب وہ یہ کہہ دیں اور ہماری جیسی نماز پڑھنے لگیں، اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرنے لگیں اور ہمار ذبیحہ کھا لیں تو یقیناً ان کے خون اور مال حرام ہو گئے، مگر اس حق کی بناء پر جو اسلام نے ان پر مقرر کر دیا ہے، باقی ان کا حساب اللہ کے ذمہ ہے‘‘۔

[صحیح البخاری، ج۲، ص:۱۵۱، رقم الحدیث:۳۷۹]

قَالَ سَأَلَ مَیْمُونُ بْنُ سِیَاہٍ أَنَسَ بْنَ مَالِکٍ قَالَ یَا أَبَا حَمْزَةَ مَا یُحَرِّمُ دَمَ الْعَبْدِ وَمَالَہُ فَقَالَ مَنْ شَھِدَ أَنْ لَا الَہَ اِلَّا اللَّہُ وَاسْتَقْبَلَ قِبْلَتَنَا وَصَلَّی صَلَاتَنَا وَأَکَلَ ذَبِیحَتَنَا فَھُوَ الْمُسْلِمُ لَہُ مَا لِلْمُسْلِمِ وَعَلَیْہِ مَا عَلَی الْمُسْلِمِ

’’میمون بن سیاہ نے انس بن مالک رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے پوچھا کہ اے ابو حمزہ! وہ کون سی چیز ہے، جس سے آدمی کا جان ومال دونوں دست درازی سے محفوظ ہو جاتے ہیں؟ تو انہوں نے کہا جو شخص اس بات کی گواہی دے کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور ہمارے قبلہ کی طرف منہ کرے اور ہماری جیسی نماز پڑھے اور ہمارا ذبیحہ کھا لے تو وہ مسلمان ہے، اس کے وہی حقوق ہیں، جو مسلمان کے ہوتے ہیں اور اس کے ذمہ وہی باتیں واجب ہیں، جو مسلمان کے ذمہ ہوتی ہیں ‘‘۔


[صحیح البخاری، ج۲، ص:۱۵۱، رقم الحدیث:۳۷۹]

درجہ بالا احادیث سے یہ بات واضح ہو جاتی ہے کہ جب ایک شخص اسلام میں داخل ہو جاتا ہے تو اس کے جان و مال اور عزت کو اس وقت تحفظ حاصل ہوجاتا ہے۔ تو فقہی قاعدے ’’مفھوم المخالفة‘‘ کے تحت اس بات کا یہ نتیجہ نکلا کہ اس سے پہلے یعنی اسلام لانے سے پہلے اسکا خون اور ان کا مال کو کوئی تحفظ حاصل نہیں تھا بلکہ حلال تھا۔ کیونکہ اگر اس شخص کے خون اور ان کے مال کو اسلام لانے سے پہلے تحفظ حاصل ہوتا تو مندرجہ بالا احادیث تو مسلمان کے جان اور مال کے تحفظ کے حوالے سے بے فائدہ اور بے معنی ہوکر رہ جاتی ہیں۔
 

difa-e- hadis

رکن
شمولیت
جنوری 20، 2017
پیغامات
294
ری ایکشن اسکور
30
پوائنٹ
71
یعنی اس قاعدے کے حساب سے غیر مسلم کا خون بہاو مال لوٹ لو اور عزتیں ماپال کرو کوئی گناہ کو سزا نہیں ہے واہ کیا اصول ہے
 
Top