راشد محمود
رکن
- شمولیت
- اکتوبر 24، 2016
- پیغامات
- 216
- ری ایکشن اسکور
- 22
- پوائنٹ
- 35
بسم الله الرحمن الرحیم
تمام تعریفیں الله رب العالمین کے لئے ہیں جس نے بالکل واضح شریعت نازل فرمائی !
اما بعد !
تمام تعریفیں الله رب العالمین کے لئے ہیں جس نے بالکل واضح شریعت نازل فرمائی !
اما بعد !
منافقین اور مشرکین وغیرہ کے لئے مغفرت کی دعا نہیں کی جا سکتی !
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ۭاِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً فَلَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ
تم ان کے لیے استغفار کرو یا ان کے لیے استغفار نہ کرو ۔ اگر تم ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کرو گے تب بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں فرمائے گا یہ اس لیے کہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرچکے ہیں ‘ اور اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا
(التوبہ -80)
تفسیر درج ذیل حدیث میں ملاحظہ کیجیے :۔
سیدنا ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی بن سلول مر گیا تو اس کے بیٹے عبداللہ آپ کے پاس آئے اور درخواست کی کہ اپنا کرتہ عنایت فرمائیے تاکہ میں اپنے باپ کو اس میں کفن دوں۔ آپ نے کرتہ دے دیا۔ پھر اس نے درخواست کی کہ آپ اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ چنانچہ رسول اللہ اس پر نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو سیدنا عمر رضی اللہ نے آپ کا دامن تھام لیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ اس پر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے لوگوں پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ آپ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ نے مجھے (منع نہیں کیا بلکہ) اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے تو ان لوگوں کے لئے دعا کرے یا نہ کرے اگر تو ستر بار بھی ان کے لیے دعا کرے تب بھی اللہ انہیں بخشے گا نہیں۔ میں ایسا کروں گا کہ ستر بار سے زیادہ دفعہ اس کے لیے دعا کروں گا۔'' سیدنا عمر کہنے لگے کہ وہ تو منافق تھا اور اس کی کئی کرتوتیں یاد دلائیں مگر آپ نے (اس کے باوجود) اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ منافقوں میں جب کوئی مر جائے تو نہ اس کی نماز جنازہ پڑھو اور نہ ہی (دعائے خیر کے لیے) اس کی قبر پر کھڑے ہونا (٩ : ٨٤)
(بخاری۔ کتاب التفسیر نیز کتاب الجنائز۔ باب الکفن فی القمیص) (مسلم۔ کتاب فضائل الصحابہ۔ باب من فضائل عمر)
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِهٖ ۭ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَمَاتُوْا وَهُمْ فٰسِقُوْنَ
اور ان میں سے کوئی مرجائے تو اس کی نماز جنازہ کبھی بھی ادا نہ کرو اور اس کی قبر پر بھی کھڑے نہ ہو یقیناً انہوں نے کفر کیا ہے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اور وہ مرے ہیں اسی حال میں کہ وہ نافرمان تھے
(التوبہ -84)
منافقوں کی نماز جنازہ :۔ اس حکم کے بعد الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے منافقوں کی نماز جنازہ پڑھانا یا ان کے حق میں استغفار کرنا چھوڑ دیا تھا۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ
نبی اور اہل ایمان کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ استغفار کریں مشرکین کے لیے خواہ وہ ان کے قرابت دارہی ہوں اس کے بعد جبکہ ان پر واضح ہوچکا کہ وہ لوگ جہنمی ہیں
(التوبہ -١١٣ )
وضاحت :-
قارئین کرام ! مشرک اس بات کا منکر ہوتا ہے کہ ایک اللہ کا وفادار بندہ بن کر رہے۔ اس بنا پر وہ اللہ کا باغی اور اس کا دشمن ہوتا ہے۔ پھر جو شخص مرتے دم تک مشرک رہا اس نے اپنے عمل سے یہ ظاہر کردیا کہ اللہ کا دشمن ہے۔ اور شرک کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ وہ ایک ناقابل معافی جرم ہے اور ایسے مجرمین کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اس کے بعد اہل ایمان کے لیے یہ بات کس طرح روا ہو سکتی ہے کہ وہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں خواہ وہ ان کے اعزاء و اقربا ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ سے دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے دشمن کو اہل ایمان اپنا دشمن سمجھیں۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے !
اِسْتَغْفِرْ لَهُمْ اَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ ۭاِنْ تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِيْنَ مَرَّةً فَلَنْ يَّغْفِرَ اللّٰهُ لَهُمْ ۭ ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ ۭ وَاللّٰهُ لَا يَهْدِي الْقَوْمَ الْفٰسِقِيْنَ
تم ان کے لیے استغفار کرو یا ان کے لیے استغفار نہ کرو ۔ اگر تم ستر مرتبہ بھی ان کے لیے استغفار کرو گے تب بھی اللہ انہیں ہرگز معاف نہیں فرمائے گا یہ اس لیے کہ یہ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرچکے ہیں ‘ اور اللہ ایسے فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا
(التوبہ -80)
تفسیر درج ذیل حدیث میں ملاحظہ کیجیے :۔
سیدنا ابن عمر (رض) فرماتے ہیں کہ جب عبداللہ بن ابی بن سلول مر گیا تو اس کے بیٹے عبداللہ آپ کے پاس آئے اور درخواست کی کہ اپنا کرتہ عنایت فرمائیے تاکہ میں اپنے باپ کو اس میں کفن دوں۔ آپ نے کرتہ دے دیا۔ پھر اس نے درخواست کی کہ آپ اس پر نماز جنازہ پڑھیں۔ چنانچہ رسول اللہ اس پر نماز جنازہ پڑھانے کے لیے کھڑے ہوئے تو سیدنا عمر رضی اللہ نے آپ کا دامن تھام لیا اور عرض کیا : یا رسول اللہ! آپ اس پر نماز پڑھتے ہیں حالانکہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو ایسے لوگوں پر نماز پڑھنے سے منع کیا ہے۔ آپ نے فرمایا ''اللہ تعالیٰ نے مجھے (منع نہیں کیا بلکہ) اختیار دیا ہے اور فرمایا ہے تو ان لوگوں کے لئے دعا کرے یا نہ کرے اگر تو ستر بار بھی ان کے لیے دعا کرے تب بھی اللہ انہیں بخشے گا نہیں۔ میں ایسا کروں گا کہ ستر بار سے زیادہ دفعہ اس کے لیے دعا کروں گا۔'' سیدنا عمر کہنے لگے کہ وہ تو منافق تھا اور اس کی کئی کرتوتیں یاد دلائیں مگر آپ نے (اس کے باوجود) اس پر نماز جنازہ پڑھی۔ اس وقت یہ آیت نازل ہوئی کہ منافقوں میں جب کوئی مر جائے تو نہ اس کی نماز جنازہ پڑھو اور نہ ہی (دعائے خیر کے لیے) اس کی قبر پر کھڑے ہونا (٩ : ٨٤)
(بخاری۔ کتاب التفسیر نیز کتاب الجنائز۔ باب الکفن فی القمیص) (مسلم۔ کتاب فضائل الصحابہ۔ باب من فضائل عمر)
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
وَلَا تُصَلِّ عَلٰٓي اَحَدٍ مِّنْهُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّلَا تَقُمْ عَلٰي قَبْرِهٖ ۭ اِنَّهُمْ كَفَرُوْا بِاللّٰهِ وَرَسُوْلِهٖ وَمَاتُوْا وَهُمْ فٰسِقُوْنَ
اور ان میں سے کوئی مرجائے تو اس کی نماز جنازہ کبھی بھی ادا نہ کرو اور اس کی قبر پر بھی کھڑے نہ ہو یقیناً انہوں نے کفر کیا ہے اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ساتھ اور وہ مرے ہیں اسی حال میں کہ وہ نافرمان تھے
(التوبہ -84)
منافقوں کی نماز جنازہ :۔ اس حکم کے بعد الله کے رسول صلی الله علیہ وسلم نے منافقوں کی نماز جنازہ پڑھانا یا ان کے حق میں استغفار کرنا چھوڑ دیا تھا۔
الله تعالیٰ فرماتا ہے :
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِيْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ يَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِكِيْنَ وَلَوْ كَانُوْٓا اُولِيْ قُرْبٰى مِنْۢ بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِيْمِ
نبی اور اہل ایمان کے لیے یہ روا نہیں کہ وہ استغفار کریں مشرکین کے لیے خواہ وہ ان کے قرابت دارہی ہوں اس کے بعد جبکہ ان پر واضح ہوچکا کہ وہ لوگ جہنمی ہیں
(التوبہ -١١٣ )
وضاحت :-
قارئین کرام ! مشرک اس بات کا منکر ہوتا ہے کہ ایک اللہ کا وفادار بندہ بن کر رہے۔ اس بنا پر وہ اللہ کا باغی اور اس کا دشمن ہوتا ہے۔ پھر جو شخص مرتے دم تک مشرک رہا اس نے اپنے عمل سے یہ ظاہر کردیا کہ اللہ کا دشمن ہے۔ اور شرک کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے واضح فرمایا ہے کہ وہ ایک ناقابل معافی جرم ہے اور ایسے مجرمین کا ٹھکانا جہنم ہے۔ اس کے بعد اہل ایمان کے لیے یہ بات کس طرح روا ہو سکتی ہے کہ وہ مشرکین کے لیے دعائے مغفرت کریں خواہ وہ ان کے اعزاء و اقربا ہی کیوں نہ ہوں۔ اللہ سے دوستی کا تقاضا یہ ہے کہ اس کے دشمن کو اہل ایمان اپنا دشمن سمجھیں۔
الله تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ ہمیں حق بات کو پڑھنے ، سمجھنے ، اسے دل سے قبول کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطاء فرمائے !
آمین یا رب العالمین
والحمد للہ رب العالمین
والحمد للہ رب العالمین