• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

مولانا وحید الدین خان : اپنے الفاظ کے آئینے میں

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
ابتدائیہ

یہ مفصل مضمون قسط وار ہے اور ماہنامہ میثاق، مارچ ٢٠١٢ء کے شمارہ میں اس کی پہلی قسط شائع ہو چکی ہے۔ افادہ عام کے لیے فورم پر شیئر کی جا رہی ہے۔ جزاکم اللہ خیرا
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
مولانا وحید الدین خان : اپنے الفاظ کے آئینے میں

قسط اول

پیدائش اور ابتدائی تعلیم
مولانا وحید الدین خان یکم جنوری ١٩٢٥ء کو پیدا ہوئے۔ ان کی پیدائش اتر پردیش، بھارت کے ایک قصبہ 'اعظم گڑھ' میں ہوئی۔ چار یا چھ سال کی عمر میں ہی ان کے والد محترم 'فرید الدین خان' وفات پا گئے اور ان کی والدہ 'زیب النساء خاتون' نے ان کی پرورش کی اور ان کے چچا 'صوفی عبد الحمید خان' نے ان کی تعلیم کی ذمہ داری اٹھائی۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم مدرسة الاصلاح،سرائے میر، اعظم گڑھ سے ہی حاصل کی اور ١٩٣٨ء میں اس مدرسہ کو جوائن کیا۔ ١٩٤٤ء میں چھ سال بعد انہوں نے یہاں سے اپنی مذہبی تعلیم مکمل کر لی۔

جماعت اسلامی اور تبلیغی جماعت میں شمولیت
اسی دوران مولانا مودودی رحمہ اللہ کی تحریروں سے متاثر ہوئے اور ١٩٤٩ء میں جماعت اسلامی ، ہند میں شامل ہوئے۔ کچھ ہی عرصہ میں جماعت اسلامی کی مرکزی 'مجلس شوری' کے بھی رکن بن گئے۔ جماعت اسلامی کے ترجمان رسالہ 'زندگی' میں باقاعدگی سے لکھتے رہے اور ١٩٥٥ء میں ان کی پہلی کتاب 'نئے عہد کے دروازے پر' شائع ہوئی۔ یہی کتاب بعد میں ان کی معروف کتاب 'مذہب اور جدید چیلنج' کے لیے بنیاد بنی اور اس کا عربی ترجمہ 'الاسلام یتحدی' کے نام سے مقبول عام ہوا۔ جماعت اسلامی میں شمولیت کے بعد مولانا وحید الدین خان صاحب نے ١٥ سال کے بعد جماعت اسلامی کو خیر آباد کہا۔ جماعت اسلامی سے علیحدگی کے بعد تبلیغی جماعت کے ساتھ وابستہ ہو گئے لیکن ١٩٧٥ء میں اسے بھی مکمل طور پر چھوڑ دیا۔

ذاتی دعوتی اور علمی کام کا آغاز
١٩٧٠ء میں انہوں نے نئی دہلی میں ایک اسلامک سنٹر کا آغاز کیا اور ١٩٧٦ء میں 'الرسالہ' کے نام سے ایک اردو رسالہ کا اجرا کیا۔ ١٩٨٤ء میں ہندی اور ١٩٩٠ء میں انگریزی میں بھی 'الرسالہ' جاری کیا گیا۔ ٢٠٠١ء میں انہوں نے اپنے نقطہ نظر اور دعوت کے پھیلاؤ کے لیے سی۔پی۔ایس یعنی 'سنٹر فار پیس اینڈ سپرچوئیلٹی' کے نام سے ایک ادارہ قائم کیا۔

مولانا وحید الدین خان تقریبا دو سو کتب کے مصنف ہیں جو اردو ، عربی اور انگریزی زبان میں ہیں۔ ان کی معروف کتب میں تذکیر القرآن، اسلام دور جدید کا خالق، مذہب اور جدید چیلنج، تعبیر کی غلطی، راز حیات، دین کی سیاسی تعبیر، عقلیات اسلام، پیغمبر انقلاب اور اللہ اکبر ہیں۔ انگریزی اور عربی کتابیں اکثر وبیشتر مولانا کی اردو تحریروں ہی کے تراجم ہیں۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
فکری بنیادیں
مولانا وحید الدین خان صاحب کی تحریروں کے بالاستیعاب مطالعہ کے بعد ان کے دعوتی اور علمی کام کو آسانی کی خاطر پانچ حصوں میں تقسیم کیا جا سکتا ہے۔
١۔ تذکیر یعنی خان صاحب کی تحریروں میں تذکیر کا اسلوب نمایاں ہے۔
٢۔ رد عمل کی نفسیات یعنی خان صاحب کی پوری فکر، رد عمل کی نفسیات پر قائم ہے۔
٣۔ تجدد یعنی خان صاحب کے افکار ونظریات میں تجدد پسندی کے میلانات اور رجحانات بہت زیادہ پائے جاتے ہیں۔
٤۔ تنقیص یعنی خان صاحب کی اپنے ماسوا پر تنقید، درحقیقت تنقیص ہے۔
٥۔ اختیال یعنی خان صاحب کے خیالوں میں ان کی اپنی بڑائی رچ بس گئی ہے۔
مولانا وحید الدین خان صاحب کی کسی بھی تحریر کو اٹھا کر دیکھ لیں، اس میں ان میں سے ایک، دو یا تین، چار بنیادیں ضرور مل جائیں گی۔ ہم، ان شاء اللہ،ان عوامل اور عناصر سے پروان چڑھنے والی خان صاحب کی فکر کا، ان کے الفاظ ہی کی روشنی میں، ایک مفصل تجزیاتی مطالعہ پیش کریں گے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
علامات قیامت
کتاب وسنت میں قیامت قائم ہونے کی کچھ نشانیاں بیان کی گئی ہیں جن میں ظہور مہدی، نزول عیسیٰ بن مریم، خروج یاجوج ماجوج، آمد دجال، دابة الارض کا نکلنا، سورج کا مغرب سے طلوع ہونا وغیرہ شامل ہیں۔ خان صاحب ان تمام علامات قیامت سے متعلقہ نصوص کا اثبات کرتے ہیں لیکن ان میں تاویل کرتے ہوئے انہیں حقیقت کی بجائے ایسی تمثیل قرار دیتے ہیں جو خان صاحب کی ذات کے گرد ہی گھومتی رہتی ہے۔

مسیح موعود اور مہدی زمان
مہدی اور مسیح علیہما السلام کے بارے خان صاحب کا موقف یہ ہے کہ دونوں درحقیقت ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
'' تمام مذاہب میں یہ بتایا گیا ہے کہ دنیا کے خاتمے سے پہلے ایک آنے والا آئے گا اور وہ ایک خصوصی رول ادا کرے گا۔ یہی تعلیم اسلام میں بھی ہے...حدیث کی کتابوں میں جو روایات آئی ہیں، ان میں اس سلسلے میں تین لفظ استعمال کیے گئے ہیں۔ رجل مومن، مہدی، مسیح۔ بظاہر یہ تینوں الفاظ ایک ہی شخصیت کے لیے استعمال ہوئے ہیں۔'' (ماہنامہ الرسالة: جولائی ٢٠١٠ء، ص١٣)
ایک اور جگہ اسی کی وضاحت میں لکھتے ہیں:
'' ایک حدیث (سنن ابن ماجہ، کتاب الفتن، باب الصبر علی البلاء) کے مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ مہدی اور مسیح، دونوں ایک ہی شخصیت کے علامتی طور پر دو الگ الگ نام ہیں۔ آخری دور میں ظاہر ہونے والی ایک ہی شخصیت ہے، جس کو کسی روایت میں رجل مومن کہا گیا ہے، اور کسی روایت میں مہدی، اور کسی روایت میں مسیح۔ ایک اعتبار سے ، ظاہر ہونے والا شخص، امت محمدی کا ایک فرد ہو گا، اس اعتبار سے اس کو رجل مومن کہا گیا۔ دوسرے اعتبار سے وہ گم راہی کے عمومی اندھیرے میں ہدایت کی روشنی کی روشنی کو مکمل طور پر دریافت کرے گا، اس اعتبار سے اس کو مہدی کہا گیا ہے، یعنی ہدایت پایا ہوا شخص۔ ایک اور اعتبار سے وہ شخص امت محمد کے آخری زمانے میں وہی رول ادا کرے گا، جو امت یہود کے آخری زمانے میں حضرت مسیح نے انجام دیا تھا۔ گویا کہ یہ تینوں الفاظ ایک ہی شخصیت کے تین پہلوؤں کو بتاتے ہیں، نہ کہ الگ الگ تین مختلف شخصیتوں کو۔(ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص٤١)
ایک اور جگہ مولانا لکھتے ہیں:
'' حدیث کی روایتوں میں قیامت سے پہلے ظاہر ہونے والے شخص کے لیے تین الفاظ استعمال کئے گئے ہیں۔ رجل مومن، مہدی اور مسیح۔ لیکن غور طلب بات یہ ہے کہ تینوں کا رول ایک ہی بتایا گیا ہے، اور وہ دجال کو قتل کرنا۔ اس میں یہ واضح اشارہ موجود ہے کہ تینوں سے مراد ایک ہی شخصیت ہے، ورنہ حدیث میں تینوں کے لیے الگ الگ رول بیان کئے جاتے۔ ''(ماہنامہ الرسالة، جولائی ٢٠١٠ء، ص١٤)
خان صاحب کے نزدیک مسیح سے مراد آسمان سے نازل ہونے والاکوئی نبی نہیں بلکہ امت محمدیہ کا ایک عام فرد ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
'' عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ حضرت مسیح آسمان میں زندہ ہیں اور آخری زمانے میں وہ جسمانی طور پر آسمان سے اتر کر زمین پر آئیں گے اور دجال کو قتل کریں گے۔ یہ تصور اگرچہ لوگوں میں کافی پھیلا ہوا ہے، مگر وہ اپنی موجودہ صورت میں نہ قرآن سے ثابت ہوتا ہے ، اور نہ احادیث سے۔ حدیث کی مختلف کتابوں میں تقریبا دو درجن معتبر روایتیں ہیں جن میںمسیح کے ظہور کا بیان پایا جاتا ہے۔ لیکن قابل غور بات یہ ہے کہ ان میں سے کسی روایت میں صراحتاً یہ الفاظ موجود نہیں کہ مسیح جسمانی طور پر آسمان سے اتر کر زمین پر آئیں گے۔اس سلسلے میں جو بات ہے ، وہ صرف یہ ہے کہ روایتوں میں نزول اور بعث کا لفظ استعمال ہوا ہے۔ مگر صرف اس لفظ سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضرت مسیح آسمان سے اتر کر نیچے زمین پر آئیں گے۔ عربی زبان میں نزول کا لفظ سادہ طور پر آنے کے معنی میں استعمال ہوتا ہے، نہ کہ آسمان سے اترنے کے معنی میں۔ اسی اعتبار سے مہمان کو نزیل کہا جاتا ہے، یعنی آنے والا۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص٤٦)
ایک اور جگہ مسیح کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں:
'' مسیح، امت مسلمہ کے ایک فرد کے مصلحانہ رول کا نام ہے، نہ کہ جسمانی طور پر آسمان سے نازل ہونے والی کسی پراسرار شخصیت کا نام۔ امت مسلمہ کے ایک فرد کا یہ رول عیسی بن مریم کے رول کے مشابہ ہو گا۔ اس لیے اس کو امت مسلمہ کا مسیح کہا گیا ہے۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص٥٠)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
مسیح موعود اور مہدی زمان کی صفات
مولانا وحید الدین خان صاحب نے اپنے تئیں احادیث کی تاویلات کی روشنی میں مسیح اور مہدی علیہما السلام کی کچھ صفات بیان کی ہیں تا کہ ان کی پہچان میں آسانی ہو۔ ہم ذیل میں ان صفات کو بیان کر رہے ہیں:
١۔ مہدی یا مسیح کی خاصیت یہ ہے کہ وہ عام انسانوں جیسا ہو گا۔مصلح ہو گا اور عالمی کمیونکیشن کے دور میں پیدا ہو گا۔ خان صاحب ایک جگہ لکھتے ہیں:
'' المہدی کو ئی انوکھی چیز نہیں ہو گا، وہ عام مصلحین کی طرح ایک مصلح ہو گا۔ فرق صرف یہ ہو گا کہ عام مصلحین اور مجددین عالمی کمیونکیشن سے پہلے پیدا ہوئے، جب کہ المہدی کی امتیازی صفت یہ ہو گی کہ وہ عالمی کمیونکیشن کے زمانے میں پیدا ہو گا۔ اس بناپر اس کی دعوتی اور فکری جدوجہد کا دائرہ عالمی بن جائے گا، جب کہ اس سے پہلے مصلحین اور مجددین کا دائرہ صرف محلی اور مقامی ہوا کرتا تھا۔ '' (ماہنامہ الرسالة: جنوری ٢٠١١ء، ص ٤٢)

٢۔ مہدی یا مسیح کی دوسری خاصیت یہ ہوگی کہ وہ دنیا میں پھیلے ہوئے غلط نظریات کا ابطال کرے گا ، فکری کنفیوژن دور کرے گا اور اسلام کی ایک تعبیر پیش کرے گا جو معاصر غلط نظریات کی استدلالی موت کا باعث ہو گی۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
'' روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ دور آخر میں امت محمدی کے اندر ایک شخص اٹھے گا۔ حدیث میں اس کو المہدی کہا گیا ہے۔ ابو داؤد کی ایک روایت میں المہدی کا رول ان الفاظ میں بتایا گیا ہے : یملأ الأرض قسطا وعدلا کما ملئت جورا وظلما (کتاب المھدی، رقم الحدیث : ٢٤٨٥)یعنی مہدی زمین کو قسط اور عدل سے بھر دے گا، جیسا کہ اس سے پہلے وہ جوروظلم سے بھر دی گئی تھی۔ اس حدیث میں جو بات کہی گئی ہے، وہ سیاسی اقتدار کے معنی میں نہیں ہے، بلکہ وہ نظریاتی توسیع کے معنی میں ہے...اس کا مطلب صرف یہ ہے کہ مہدی سے پہلے دنیا میں غلط نظریے کی عمومی اشاعت ہو جائے گی۔ مہدی اس کے بجائے یہ کرے گا کہ وہ دنیا میں صحیح نظریے کی عمومی اشاعت کرنے میں کامیاب ہو گا۔(ماہنامہ الرسالة : جنوری ٢٠١١ء، ص ٤٢)
غلط نظریے کے ابطال سے مراد فتنہ دہیماء کے بعد پیدا ہونے والے فکری کنفیوژن کو دور کرناہے۔ ایک جگہ خان صاحب لکھتے ہیں:
'' قیامت سے پہلے آخری زمانے میں ایک دور آئے گا جس کو حدیث میں فتنہ دہیماء کہا گیا ہے۔ فتنہ دہیماء سے مراد : الفتنة السوداء المظلمة ہے، یعنی مکمل تاریکی کا فتنہ۔ دوسرے لفظوں میں اس کو فکری تاریکی (intellectual darkness) کہا جا سکتا ہے۔ فتنہ دہیماء سے مراد قیامت سے پہلے کا وہ زمانہ ہے جب کہ اشاعتی ذرائع کی کثرت کے نتیجے میں مختلف قسم سے افکار کا جنگل اتنا زیادہ بڑھ جائے گا کہ لوگ فکری کنفیوژن میں جینے لگیں گے۔ اس نازک دور میں اللہ کی سنت کے مطابق، کسی بندہ خدا کے ذریعے کامل سچائی ظاہر ہو گی۔(ماہنامہ الرسالة: جون ٢٠١٠ء، ص١٠)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
'' روایت کے مطابق، مسیح کی ایک پہچان یہ ہو گی کہ ان کے زمانے میں خدا اسلام کے سوا تمام ملتوں کا ہلاک کر دے گا : (یھلک اللہ فی زمانہ الملل کلھا الا الاسلام۔ سنن ابی دوؤد، کتاب الملاحم، باب خروج الدجال) اس سے مراد بقیہ ملتوں کی جسمانی ہلاکت نہیں ہے، بلکہ ان کی استدلالی ہلاکت ہے...حدیث کے مطابق، استثنائی طور پر یہ کام مسیح انجام دیں گے، جب کہ دوسرے لوگ ایسا کرنے میں اپنے آپ کو پوری طرح عاجز پا رہے ہوں گے۔ یہ واقعہ مسیح کی شخصیت کی ایک پہچان ہو گا۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص٥١۔٥٢)

٣۔ مسیح یا مہدی یارجل مومن، جو در حقیقت ایک ہی شخص ہے، دجال کو قتل کرے گا۔ دجال کے قتل سے مراد اس کا نظریاتی قتل ہے۔ یعنی سائنسی دور میں لوگ سائنس کو بنیاد بناتے ہوئے خدا کا انکار کر دیں گے جبکہ مسیح اور مہدی کی پہچان یہ ہو گی کہ وہ اس الحادی فتنے کا رد سائنسی دلائل ہی کی روشنی میں کریں گے۔ ایک جگہ مولانا اپنے موقف کی وضاحت میں لکھتے ہیں۔
'' حدیثوں کے مطالعے سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ دجال یا دجالیت دراصل سائنسی دور کا فتنہ ہے۔ سائنسی دور میں پہلی بار یہ ہو گاکہ کچھ لوگ دلائل کے نام پر حق کا ابطال کریں گے۔ وہ یہ تاثر دیں گے کہ حق، علمی ترقی کے مقابلے میں ٹھیر نہیں سکتا۔پھر خدا کی توفیق سے ایک شخص اٹھے گا جو خود سائنسی دلائل کے ذریعے اس دجالی فتنے کا خاتمہ کر دے گا۔ وہ دجالی دلائل کو زیادہ برتر دلائل کے ساتھ بے بنیاد ثابت کر دے گا۔ یہ واقعہ، اپنی نوعیت کے اعتبار سے، تاریخ بشری کا پہلا واقعہ ہو گا۔ وہ دعوت حق کی عظیم ترین مثال کے ہم معنی ہو گا۔ اسی لیے اس کی بابت صحیح مسلم میں یہ الفاظ آئے ہیں : ھذا أعظم الناس شھادة عند رب العالمین۔ یہ عظیم دعوتی واقعہ قیامت سے پہلے پیش آئے گا۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص ١٨۔١٩)
ایک اور جگہ خان صاحب اس کی وضاحت میں لکھتے ہیں کہ مہدی اور مسیح استدلال کے ذریعے دجال کے فتنے کو ختم کریں گے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
'' دجال کے قتل سے کیا مراد ہے۔ اس سلسلے کی روایتوں پر غور کرنے کے بعد سمجھ میں آتا ہے کہ اس قتل سے مراد استدلالی قتل ہے، نہ کہ جسمانی قتل۔ صحیح مسلم میں اس سلسلے میں جو لفظ آیا ہے، وہ حجیج ہے۔ حجیج کا مطلب ہے۔ حجت اور دلیل کے ذریعے غالب آنے والا...دجال کا نظریاتی فتنہ تاریخ کا سب سے بڑا فتنہ ہو گا۔ اس لیے استدلال کی سطح پر اس کا خاتمہ کرنا بھی تاریخ کا ایک انتہائی عظیم واقعہ ہو گا۔ اسی بات کو صحیح مسلم، کتاب الفتن کی ایک روایت میں ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے : ھذا أعظم شھادة عند رب العلمین۔ اس حدیث میں واضح طور پر شہادت سے مراد جسمانی قربانی نہیں ہے۔ جسمانی قربانی میں عظیم اور غیر عظیم کا کوئی فرق نہیں ہوتا۔ یہاں شہادت سے مراد گواہی ہے، یعنی دلائل ربانی کے ذریعے دلائل شیطانی کو آخری حد تک باطل ثابت کرنا۔'' (ماہنامہ الرسالة: جولائی ٢٠١٠ء، ص١٤)

٤۔ مہدی یا مسیح صاحب معرفت ہو گا اور اس میں تجزیہ کی صلاحیت کمال درجہ میں ہو گی۔ ایک جگہ خان صاحب فرماتے ہیں:
'' مہدی دراصل اسی قسم کا ایک صاحب معرفت انسان ہو گا۔ اس کے اندر خدا کی خصوصی توفیق سے یہ صلاحیت ہو گی کہ وہ لفظی مغالطے کو سمجھ سکے۔ وہ خوش نما الفاظ اور حقیقی استدلال کے فرق کو جانے۔ وہ ایک گم راہ کن بیان کا تجزیہ کر کے اس کی گم راہی کھول سکے۔ اس کے اندر تجزیہ کی طاقت (power of analysis)کمال درجے میں موجود ہو، وہ محدد تبیین (precise description) کی صلاحیت کا حامل ہو۔ اپنی اسی معرفت کی بنا پر وہ خود الفاظ کے فتنے سے بچے گا اور دوسروں کے لیے الفاظ کے فتنے سے بچنے کا ذریعہ بنے گا۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص ٣٧)

٥۔ مہدی یا مسیح کی ایک پہچان ان کا استثنائی رول ہو گا یعنی وہ عام مصلحین یا اہل علم سے ہٹ کر ایک رول ادا کریں گے۔ ایک جگہ مولانا لکھتے ہیں:
'' حقیقت یہ ہے کہ آنے والے کی پہچان صرف ایک ہو گی، اور وہ اس کا استثنائی رول(exceptional role) ہے۔''(ماہنامہ الرسالة : جولائی ٢٠١٠ء، ص١٣)
مہدی اور مسیح کے استثنائی رول کی مزید وضاحت میں خان صاحب لکھتے ہیں کہ مہدی معرفت وہدایت کا حامل اور امن کا نمائندہ ہو گا:
'' رجل مومن کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ اس کی معرفت استثنائی درجے کی معرفت ہو گی۔ مہدی کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ وقت کے تمام سوالات میں وہ استثنائی طور پر درست رہنمائی دینے کی صلاحیت کا حامل ہو گا۔ مسیح کے لفظ میں یہ اشارہ ہے کہ وہ رافت اور رحمت بالفاظ دیگر امن (peace)کے اصول کا کامل معنوں میں اظہار کرے گا۔'' (ماہنامہ الرسالة : جولائی ٢٠١٠ء، ص١٥)
خان صاحب کے نزدیک مہدی کا استثنائی رول یہ ہو گا کہ وہ سچائی اور معرفت کو پا لے گا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
'' حدیث رسول سے معلوم ہوتا ہے کہ مہدی کا ظہور ، فتنہ دہیماء (تاریک فتنہ) کے زمانے میں ہو گا۔ اس وقت تمام لوگ معرفت حق کے بارے میں اندھیرے میں پڑے ہوئے ہوں گے۔ ایسے تاریک دور میں معرفت حق کی روشنی کسی کو صرف خدا کی خصوصی توفیق سے مل سکتی ہے، یعنی وہبی طور پر، نہ کہ اکتسابی طور پر۔ سیاہ فتنے کے دور میں کوئی شخص نہ بطور خود سچائی کو پاسکے گا اور نہ وہاں دوسرا کوئی شخص موجود ہو گاجو اس کو سچائی کی روشنی دکھائے۔ حقیقت یہ ہے کہ فتنہ دہیماء کے دور میں کسی کو صرف خداوند ذوالجلال کی طرف سے ہدایت مل سکتی ہے۔مہدی کا مہدی ہونا، اپنے آپ بتا رہا ہے کہ مہدی کی پہچان کیا ہے۔ وہ پہچان یہ ہے کہ مہدی اپنے ماحول کے برعکس، استثنائی طور پر ایک ہدایت یاب انسان ہو گا، جب کہ لوگ عمومی طور پر ہدایت حق سے محروم ہو چکے ہوں گے۔ مہدی ایک استثنائی انسان کا نام ہے، اور یہی استثنا وہ چیز ہے جس کے ذریعے پہچاننے والے اس کو پہچانیں گے۔ مہدی نہ خود اپنے مہدی ہونے کا دعوی کرے گا، اور نہ آسمان سے یہ آواز آئے گی کہ فلاں شخص مہدی ہے ، اس کو مانو اور اس کا اتباع کرو۔'' (ماہنامہ الرسالة :مئی ٢٠١٠ء، ص٣٦)

٦۔ مہدی یا مسیح کوئی انقلابی یا سیاسی لیڈر نہیں ہو سکتا بلکہ یہ عارف باللہ ہو گا۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
'' بعض لوگوں نے مہدی کو ہادی کے معنی میں لے لیا۔ اس خود ساختہ تصور کے مطابق، انھوں نے کہا کہ مہدی جدید دور کا ایک انقلابی لیڈر ہو گا، جو عالمی سیاسی نظام قائم کرے گا۔ مہدی کی یہ تعریف سر تا سر بے بنیاد ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مہدی جدید دور کا ایک عارف ہو گا۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص ٣٩)

٧۔ کچھ لوگوں کو مہدی یا مسیح کی نسبت سچے خواب آئیں گے۔ یہ بھی مہدی یا مسیح کی علامات میں سے ایک علامت ہو گی۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
'' اس وقت اللہ تعالیٰ کی خصوصی تائید رؤیائے صادقہ (سچے خواب) کی شکل میں ظاہر ہو گی۔ اللہ تعالیٰ کے علم کے مطابق، جن لوگوں کے اندر سچی تلاش کا جذبہ ہو گا، ان کو مہدی کی نسبت تائیدی خواب دکھائے جائیں گے۔ یہ خواب گویا کہ مہدی کے حق کر لیں گے کہ یہی وہ شخص ہے جس کی پشین گوئی حدیث میں مہدی کے لفظ سے کی گئی ہے، اور پھر وہ دل سے اس کے ساتھی بن جائیں گے۔'' (ماہنامہ الرسالة :جون ٢٠١٠ء، ص١١)

٨۔ مہدی یا مسیح یا دور آخر کے مجدد کی ایک نشانی یہ بھی ہے کہ وہ قرآن اور دین اسلام کی غلط تعبیرات سے گزر کر دین حق کو سامنے لائے گا۔ ایک جگہ خان صاحب لکھتے ہیں:
'' اب یہ سوال ہے کہ دور آخر کے مجدد کی پہچان کیا ہو گی۔ اس کی پہچان بلاشبہ یہ نہیں ہو گی کہ وہ کچھ بر عجوبہ صفات کا مالک ہو گا۔ اس کی پہچان بنیادی طور پر دو ہو گی۔ یہ دونوں چیزیں واضح طور پر قرآن اور حدیث سے معلوم ہوتی ہیں...دور آخر کے مجدد کی سب سے پہلی علامت یہ ہو گی کہ وہ خدا کی خصوصی توفیق سے، دین حق کو دوبارہ اس کی حقیقی صورت میں دریافت کرے گا۔ وہ ظاہری فارم سے گزر کر، اسلام کی اصل سپرٹ کا فہم حاصل کرے گا۔ وہ قرآن کی مغالطہ آمیز تشریح سے گزر کر قرآن کے اصل پیغام کو سمجھے گا۔ وہ دین اجنبی کو اپنے لیے دوبارہ دین معروف بنائے گا۔دوسرے لفظوں میں وہ خدا کے دین کو دوبارہ اس طرح دریافت کرے گا، جس طرح اصحاب رسول نے اس کو دریافت کیا تھا۔ زمانے کے اعتبار سے ، وہ بعد کا انسان ہو گا، لیکن معرفت کے اعتبار سے وہ اصحاب رسول جیسی معرفت کا حامل ہو گا۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص٥٠۔٥١)

٩۔ مہدی یا مسیح کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ وہ عصری اسلوب کلام میں اسلام پیش کرے گا۔ ایک جگہ خان صاحب لکھتے ہیں:
'' اس کی دوسری علامت وہ ہوگی جو قرآن میں پیغمبروں کی نسبت سے ان الفاظ میں بتائی گئی ہے : وما أرسلنا من رسول الا بلسان قومہ (ابراھیم : ٤) ...اس آیت میں لسان سے مراد صرف زبان نہیں ہے، اس میں وہ تمام پہلو شامل ہیں جو ایک کامیاب زبان کا ضروری حصہ سمجھے جاتے ہیں مثلا وضوح ، موثر اسلوب، ایسا کلام جو معاصر ذہن کو پوری طرح ایڈریس کرنے والا ہو، وغیرہ۔ اس قسم کا طاقتور اسلوب کبھی اکتسابی نہیں ہوتا۔ وہ ہمیشہ وہبی طور پر کسی ایسے شخص کو عطا ہوتا ہے جس سے خدا اپنے دین کی تبیین کا کام لینا چاہتا ہے۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص٥٠۔٥١)

١٠۔ مہدی یا مسیح اپنے مہدی یا مسیح ہونے کا اعلان نہیں کریں گے، یہ بھی ان کی علامات میں سے ایک علامت ہے۔ ایک جگہ مولانا لکھتے ہیں:
'' واضح ہو کہ آنے والے کے بارے میں بہت زیادہ روایات آئی ہیں، لیکن ان روایتوں میں یہ نہیں کہا گیا ہے کہ آنے والا اعلان کے ساتھ اپنے کام کا آغاز کرے گا، اور نہ ہی یہ کہا گیا ہے کہ اس کے معاصرین اعلان کے ساتھ اس کا اعتراف کریں۔ اس قسم کے اعلان کا ذکر روایتوں میں موجود نہیں۔'' (ماہنامہ الرسالة: جولائی ٢٠١٠ء، ص١٥)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :
'' اس سلسلے میں غور وفلر کے بعد چند باتیں سمجھ میں آتی ہیں۔ پہلی بات یہ کہ اس آنے والے شخص کی پہچان یہ نہیں ہو گی کہ وہ اپنے بارے میں اعلان کرے گا۔'' (ماہنامہ الرسالة : جولائی ٢٠١٠ء، ص١٣)
اب سوال یہ پیدا ہوا کہ جب آنے والا یہ دعوی نہیں کرے گا کہ وہ مسیح یا مہدی یا مجدد ہے تویقینی طور کیسے معلوم ہو گا کہ کون مسیح یا مہدی یا مجدد تھا؟ اس کے جواب میں خان صاحب فرماتے ہیں کہ اس کا یقینی علم آخرت میں ہی حاصل ہو گا۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
'' یہاں اس معاملے کی وضاحت ضروری ہے کہ مہدی اور مسیح کے مسئلے کو اصولی طور پر بیان کرنا ایک الگ چیز ہے اور خود اپنے بارے میں مہدی اور مسیح ہونے کا دعوی کرنا بالکل دوسری چیز...کون شخص مہدی تھا یا کس نے مسیح کا رول ادا کیا، اس کا تحقق صرف آخرت میں خدا کے اعلان کے ذریعے ہو گا۔ اس لیے دنیا میں اس قسم کا دعوی کرنا اپنے آپ میں ایک بے بنیاد دعوی کی حیثیت رکھتا ہے۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص٤٠۔٤١)

١١۔ مہدی اور مسیح کی ایک پہچان یہ بھی ہو گی کہ معاصر مسلمان ان کا انکار کریں گے۔ ایک جگہ مولانا وحید الدین خان صاحب لکھتے ہیں:
'' قدیم زمانے کے یہود آخر الزمان صلی اللہ علیہ وسلم کے منتظر تھے ، مگر ان کا حال یہ ہوا کہ جب پیغمبر آئے تو وہ ان کا انکار کرنے والے بن گئے۔ یقینی طور پر یہی واقعہ مسلمانوں کے ساتھ ہونے والا ہے۔ مہدی اور مسیح جب ظاہر ہوں گے تو موجودہ مسلمان یقینی طور پر ان کا انکار کرنے والے بن جائیں گے۔'' (ماہنامہ الرسالة: جنوری ٢٠١١ء، ص ٤٣)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
'' اصل یہ ہے کہ مہدی کا زمانہ فتنہ دہیماء کا زمانہ ہو گا۔ اس زمانے میں افکار کی کثرت کے نتیجے میں حقائق مشتبہ ہو جائیں گے۔ تمام لوگ فکری کنفیوژن میں جینے لگیں گے۔ ایسی حالت میں مہدی کے ظہور کے باوجود لوگوں کے لیے مہدی پر یقین کرنا مشکل ہو جائے گا۔ لوگ دیکھیں گے کہ مہدی جو بات کہہ رہا ہے، وہ پوری طرح مبنی برحق ہے۔ لیکن مہدی عام انسان جیسا ایک انسان ہو گا، اس بنا پر لوگوں کے لیے شبہ کا ایک عنصر باقی رہے گا۔'' (ماہنامہ الرسالة :جون ٢٠١٠ء، ص١١)

١٢۔ مہدی یا مسیح کی ایک علامت یہ ہوگی کہ ان کے ساتھ اخوان رسول کی ٹیم ہو گی۔ ایک جگہ خان صاحب لکھتے ہیں:
'' پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمہ طور پر ایک عظیم کارنامہ انجام دیا۔ یہ کارنامہ انجام دینے کے لیے خدا نے آپ کو مضبوط افراد کی ایک ٹیم دی، جس کو اصحاب رسول کہا جاتا ہے۔ اسی طرح مہدی، یا مسیح جو کارنامہ انجام دیں گے، انھیں بھی خدا کی خصوصی مدد کے ذریعے ایک طاقت ور ٹیم حاصل ہو گی۔ غالبا یہی وہ ٹیم ہے جس کو حدیث میں اخوان رسول کہا گیا ہے۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص ٤٣)

ایک اور جگہ لکھتے ہیں کہ اخوان رسول سائنسی دور میں مسیح یا مہدی کے ساتھ مل کر دعوت کا کام کریں گے:
'' غالبا یہ کہنا صحیح ہو گا کہ اخوان رسول وہ اہل ایمان ہیں جو سائنسی دور میں پیدا ہوں گے، اور سائنسی دریافتوں سے ذہنی غذا لے کر اعلی معرفت کا درجہ حاصل کریں گے، نیز یہی و ہ لوگ ہوں گے جو مہدی، یا مسیح کا ساتھ دے کر آخری زمانے میں اعلی دعوتی کارنامہ انجام دیں گے۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص٤٤)

جبکہ خان صاحب کے نزدیک اخوان رسول سے مراد ان کے قائم کردہ ادارے سی پی ایس کی ٹیم ہے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
'' سی پی ایس انٹرنیشنل کے نام سے موجودہ دعوت کام جنوری ٢٠٠١ کو دہلی میں شروع ہوا۔ لیکن اس تنظیم کے صدر نے اس دعوتی کام کو اس سے بہت پہلے ١٩٥٠ میں اعظم گڑھ (یو۔پی) میں ادارہ اشاعت اسلام کے نام سے شروع کیا تھا۔ اس کے بعد یہ کام مسلسل بلاانقطاع جاری رہا۔ ١٩٧٠ میں اسی مقصد کے لیے اسلامی مرکز (نئی دہلی) کا قیا م عمل میں آیا۔ ١٩٧٦میں اس نے الرسالہ مشن کی صورت اختیار کی۔ سی پی ایس انٹرنیشنل (٢٠٠١) اسی کام کی تکمیلی صورت ہے۔ لمبی مدت کے بعد اب خدا کے فضل سے ساری دنیا میں یہ آواز پہنچ چکی ہے۔ اور اسی کے ساتھ اس کی ایک طاقت ور ٹیم بن چکی ہے جس کو ہم سی پی ایس ٹیم کہتے ہیں۔ ماضی اور حال کے تمام قرائن تقریباً یقینی طور پر بتاتے ہیں کہ سی پی ایس کی ٹیم ہی وہ ٹیم ہے جس کی پیشین گوئی کرتے ہوئے پیغمبر اسلام نے اس کو اخوان رسول کا لقب دیا تھا۔'' (ماہنامہ الرسالة : ستمبر ٢٠٠٦ء، ص٤٠)

مولانا وحید الدین خان صاحب کے بقول، سائنسی دور میں مہدی اور مسیح کے ساتھ اخوان رسول کی ٹیم دعوتی کارنامہ سر انجام دے گی اور اخوان رسول سی پی ایس کی ٹیم ہے۔ پس مہدی و مسیح کون ہوا؟ اس کے تعین کی خان صاحب نے اجازت نہیں دی ہے لہٰذا ہم بھی نہیں کر رہے ہیں بلکہ صرف اس کی پہچان اور نصرت پر زور دیا ہے۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
مہدی اور مسیح کی پہچان
قارئین کرام مہدی یا مسیح یا مجدد یا رجل مومن یا دابة الارض کی مذکورہ بالا صفات کی روشنی میں اب تک آپ یہ جان چکے ہوں گے کہ مسیح موعود اور مہدی زمان کون ہیں۔ مولانا وحید الدین خان صاحب کے نزدیک اگر ابھی تک آپ یہ پہیلی نہیں بوجھ سکے ہیں تو آپ اندھا پن میں مبتلا ہیں۔ ایک جگہ خان صاحب لکھتے ہیں:
'' اس استثنائی صفت کے باوجود جو لوگ اس کو نہ پہچانیں، وہ اسی قسم کے اندھے پن میں مبتلا ہیں، جس اندھے پن کی بنا پر لوگوں نے پچھلے پیغمبروں کو نہیں پہچانا اور وہ ان کے منکر بنے رہے۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص ٥١)

خان صاحب کا کہنا یہ بھی ہے کہ آپ سے مطلوب یہ ہے کہ مسیح موعود اور مہدی زمان کو پہچانے کی کوشش کریں اور ان کے مسیحیت یا مہدویت یا مجددیت کے کسی اعلان یا دعوے کا انتظار نہ کریں۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
'' لوگوں سے یہ مطلوب ہو گا کہ وہ اعلان کا انتظار نہ کریں، بلکہ وہ رول کو دیکھ کر خود آنے والے کو پہچانیں اور اس کا ساتھ دیں۔ جو لوگ اس بصیرت کا ثبوت نہ دے سکیں، وہ تاریخ کے اس آخری امتحان میں بلاشبہ ناکام قرار پائیں گے۔'' (ماہنامہ الرسالة : جولائی ٢٠١٠ء، ص١٣)

پس اب جبکہ آپ پہچان چکے ہیں کہ مسیح موعود اور مہدی زمان کون ہے؟ اب آپ پر اس کی نصرت اور اعانت واجب ہے۔ ایک جگہ خان صاحب لکھتے ہیں:
'' حدیث میں، آنے والے کی نسبت سے، یہ الفاظ آئے ہیں : وجب علی کل مؤمن نصرہ واجابتہ (أبوداؤد، کتاب المھدی) یعنی ہر مومن پر یہ واجب ہو گا کہ وہ اس کی آواز پر لبیک کہے اور اس کا ساتھ دے۔'' (ماہنامہ الرسالة، جولائی ٢٠١٠ء، ص١٥)

یہ بھی ذہن میں رہے کہ خان صاحب کے بقول مسیح موعود اور مہدی زمان کو پہچاننے کے بعد آپ کی ذمہ داری صرف اس کے حق میں دعا کرنا اور اس کی نصرت کرنا ہے نہ کہ کوئی ایسا نعرہ لگانا '' مسیح موعود و مہدی زمان: وحید الدین خان، وحید الدین خان'' ۔ خان صاحب کے بقول، انہوں نے اپنے مسیح یا مہدی ہونے کا کہیں بھی دعوی نہیں کیا ہے اور ہمارے نزدیک بھی وہ اپنے اس دعوی میں سچے ہیں۔ کیونکہ انہوں نے تو اصولی بحث کے نتیجے میں مسیح اور مہدی کی علامات، صفات اور پہچان بیان کر دی ہے اور حسن اتفاق سے وہ جمیع صفات خان صاحب میں جمع ہیں جو وہ مسیح اور مہدی اور مجدد آخر کی بیان کرتے ہیں۔ خان صاحب نے معاصرین پر مسیح ومہدی کی پہچان اور نصرت کو واجب قرار دیا ہے۔ خان صاحب لکھتے ہیں:
'' جہاں تک معاصرین کا تعلق ہے، ان کی ذمے داری یہ نہیں ہو گی کہ وہ شخصی تعیین کے ساتھ اپنے اعتراف کا اعلان کریں...البتہ معاصرین کی یہ لازمی ذمے داری ہو گی کہ وہ آنے والے کو پہچانیں، وہ اس کے لیے دعائیں کریں، اور عملی اعتبار سے وہ پوری طرح اس کا ساتھ دیں۔(ماہنامہ الرسالة، جولائی ٢٠١٠ء، ص١٦)

ہمیں یہ یقین ہے کہ مولانا وحید الدین خان صاحب جیسے صاحب بصیرت وفراست، مسیح موعود و مہدی زمان کو یقیناً پہچان چکے ہوں گے ، کیونکہ اگر ایسا نہیں ہے تو خان صاحب کے بقول، وہ اندھے پن میں مبتلا اور تاریخ کے اس آخری امتحان میں بلاشبہ ناکام قرارپائیں گے۔ دعوی اور اعلان غیر ضروری اور لایعنی سہی لیکن مسیح اور مہدی کی پہچان تو ضروری ہے نا۔ ویل ڈین مولانا وحید الدین خان، ویل ڈن۔

مولانا وحید الدین خان صاحب نے کتاب وسنت کی نصوص میں مضحکہ خیز تاویلات کے ذریعے مہدی و مسیح کا جو ایک غلط تصور قائم کیا ہے، اس کا ایک تفصیلی جائزہ کتاب وسنت ہی کی نصوص کی روشنی میں ہم، ان شاء اللہ، اگلی قسط میں لیں گے اور یہ ثابت کریں گے کہ کتاب وسنت کی نصوص اور عربی زبان وادب کے معروف ومسلمہ قواعد و اسالیب، خان صاحب کے تصور مہدی ومسیح کو قبول کرنے سے انکاری ہیں۔ (جاری ہے)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
قسط دوم


سابقہ قسط میں ہم نے مولانا وحید الدین خان صاحب کے تصور مہدی ومسیح پر ان کے الفاظ کی روشنی میں مفصل بحث کی تھی۔ اس کا خلاصہ کلام یہ تھا کہ خان صاحب کے نزدیک مہدی، عیسیٰ ابن مریم، رجل مومن اور مجدد آخر الزمان ایک ہی شخصیت کے مختلف نام ہے اور یہ شخصیت قیامت سے پہلے اخوان رسول کی ایک ٹیم یعنی سی۔پی۔ایس کے ساتھ، امت مسلمہ میں ایک مصلح کی حیثیت سے دعوت وامن کا کام عالمی سطح پر کرے گی۔ دجالی فتنے یعنی الحاد کا دلائل کے ساتھ نظریاتی قتل کرے گی۔ فتنہ دہیما یعنی تحریکی فکرکے سبب سے مسلمانوں میں پیدا ہونے والے نظریاتی کنفیوژن کو دور کرے گی۔عصری یعنی سائنسی اسلوب میں اسلام کی تعلیمات پیش کرے گی اور اس میں تجزیاتی صلاحیت کمال درجہ میں ہو گی۔ انقلابی یا سیاسی لیڈر نہیں ہو گی بلکہ عارف باللہ ہو گی۔ وہ اپنے مجدد یا مہدی یا مسیح ہونے کااعلان نہیں کرے گی لہٰذا معاصرمسلمان اس کا انکار کریں گے ۔ اس کے باوجود اس کو پہچان کر اس کی نصرت کرنا ہر مسلمان کا بنیادی فریضہ ہو گا۔ اس کے ساتھیوں کو اس کے مہدی یا مسیح ہونے کی نسبت سے اچھے خواب آئیں گے۔ اس کے مجدد یا مہدی یا مسیح ہونے کا یقینی علم آخرت میں حاصل ہو گا وغیرہ ذلک۔
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
بدعی تصور مہدی ومسیح کا علمی محاکمہ
اس قسط میں ہم خان صاحب کے اس بدعی تصور مہدی ومسیح کا احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روشنی میں ایک تجزیہ پیش کریں گے اور ان باطنی تاویلات کا بھی علمی محاکمہ کریں گے جنہیں خان صاحب نے الفاظ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا جامہ پہنانے کی آخری حد تک سطحی کوشش کی ہے۔

خان صاحب نے پہلے مہدی ومسیح کا ایک ایسا تصور قائم کیا جو ان کی شخصیت ہی کے گرد گھومتا تھا تو بعد ازاں نے انہوں نے اس تصور کو احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باطنی تاویلات کے ذریعہ ثابت کرنے کی کوشش کی اور اس میں بھی ان کا سلوب تحقیق یہ ہے کہ مہدی ومسیح کے بارے صرف انہی روایات یا ان کے بعض حصوں کو اپنے استدلال کی بنیاد بنایا کہ جن کی تاویلات کی وہ جرات کر سکے اور جن روایات یا ان کے بعض حصوں کی تاویلات انہیں نہ سوجھ سکیں تو انہیں خان صاحب نے یکسر نظر انداز کر دیا۔ پس خان صاحب کا تصور مہدی ومسیح اس بارے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی روایات کے ایک منتخب حصے سے ماخوذ ہے کہ جس میں احادیث کی معتد بہ تعداد اور الفاظ کو نظر انداز کیا گیا ہے۔

علمی انصاف کا تقاضا تو یہ ہے کہ جب آپ نے اپنے تصور مہدی ومسیح کی نسبت اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف کرنی ہے تو پھر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے مہدی ومسیح کے بارے مروی جمیع روایات کو سامنے رکھتے ہوئے ان کی کوئی ایسی تشریح پیش کریں کہ جنہیں الفاظ قبول بھی کرتے ہوں۔ پس خان صاحب کے تصور مہدی مسیح میں دو بنیادی خامیاں ہیں۔ ایک یہ کہ اس کی بنیاد مہدی ومسیح کے بارے مروی روایات کا ایک جز ہے نہ کہ کل روایات اور دوسرا اس جز کی بھی ایسی تاویلات کی گئی ہے کہ اس کے الفاظ ان تاویلات کو اُگل دینے کے لیے ادھار کھائے بیٹھے نظر آتے ہیں۔

١۔ خان صاحب کا دعوی یہ تھا کہ مہدی اورعیسیٰ بن مریم ایک ہی شخصیت کے دو نام ہیں۔ خان صاحب کا یہ دعوی فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف ہے۔ آپ کا فرمان ہے:
'' فینزل عیسی بن مریم صلی اللہ علیہ وسلم، فیقول أمیرھم المھدی تعال صل بنا، فیقول لا، ان بعضھم أمیر بعض، تکرمة اللہ ھذہ الأمة.'' (مسند احمد : ٣٨٤٣، مؤسسة قرطبة، القاھرة)
'' پس عیسیٰ بن مریم علیہ السلام نازل ہوں گے تو مسلمانوں کے امیر مہدی فرمائیں گے۔آئیں! ہمیں نماز پڑھائیں تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام فرمائیں گے: نہیں۔(یعنی تم ہی نماز پڑھاؤ کیونکہ) تم میں سے بعض ، بعض کے امیر ہیں اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام ایسا اس امت کی عزت افزائی کے لیے فرمائیں گے۔''
امام ابن قیم اور علامہ البانی رحمہما اللہ نے اس روایت کی سند کو 'جید' قرار دیا ہے۔(المنار المنیف فی الصحیح والضعیف : ص١١٤؛ السلسلة الصحیحة : ٢٢٣٦)
ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:
'' منا الذی یصلی عیسی ابن مریم خلفہ.'' (کنز العمال : ٢٦٦١٤، مؤسسة الرسالة)
'' وہ ہم میں سے ہو گا جس کے پیچھے عیسیٰ بن مریم نماز ادا کریں گے۔''
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔(السلسلة الصحیحة : ٢٢٩٣)
پس فرمان رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق مہدی امام اور عیسیٰ علیہ السلام مقتدی ہوں گے اور ایسا امت مسلمہ کو شرف بخشنے کے لیے ہو گا تو دونوں ایک ہی شخصیت کیسے ہو گئے؟فیا للعجب!
اسی طرح بیسیوں روایات میں مسیح کا نام عیسیٰ بن مریم علیہ السلام منقول ہے جبکہ مہدی کا نام محمد بن عبد اللہ نقل ہوا ہے۔ پس دونوں ایک ہی شخصیت کیسے ہو سکتے ہیں؟ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
'' یواطیء اسمہ اسمی واسم أبیہ اسم أبی.'' (سنن أبی داؤد، کتاب المھدی)
'' مہدی کا نام میرے نام پرہو گا اور اس کے والد کا نام میرے والد کے نام پر ہو گا۔''
شیخ احمد شاکر اور علامہ البانی رحمہما اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔ (مسند احمد :١٣٩٦؛ صحیح أبی داؤد : ٤٢٨٢)

٢۔ خان صاحب کا کہنا یہ بھی ہے کہ مہدی یا مسیح عام انسانوں جیسا ایک مصلح ہو گا۔ ان کا یہ دعوی بھی فرامین رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے صریحاً خلاف ہے۔ جہاں تک مسیح کا معاملہ ہے تو اس بارے قطعی الدلالة نصوص موجود ہیں کہ نازل ہونے والے مسیح ، عیسیٰ علیہ السلام، اللہ کے نبی ہوں گے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
'' الأنبیاء اخوة لعلات أمھاتھم شتی و دینھم واحد وأنا أولی الناس بعیسی بن مریم لأنہ لم یکن بینی وبینہ نبی و انہ نازل فاذا رأیتموہ فاعرفوہ رجلا مربوعا الی الحمرة والبیاض علیہ ثوبان ممصران کأن رأسہ یقطر ون لم یصبہ بلل.'' (مسند احمد : ٤٠٦٢، مؤسسة قرطبة، القاھرة)
'' انبیاء آپس میں علاتی (یعنی باب شریک) بھائی ہیں۔ ان کی مائیں (یعنی شریعتیں) جدا ہیں جبکہ دین ایک ہے۔ اور میں(محمد صلی اللہ علیہ وسلم)، عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام کے سب سے زیادہ قریب ہوں کیوںکہ میرے اور ان کے درمیان کوئی نبی نہیں ہے اور بے شک وہ نازل ہونے والے ہیں۔ پس جب تم ان کو دیکھو تو ان کو پہچاننے کی کوشش کرو کہ وہ ایک ایسے شخص ہیں جو سرخ وسفید رنگ میں درمیانے قد کے ہوں گے اور ان پر دو ہلکے زرد رنگ کے کپڑے ہوں گے۔گویا کہ ان کے سر سے پانی کے قطرے ٹپک رہے ہوں اگرچہ انہیں پانی نہ پہنچا ہو۔''
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ (السلسلة الصحیحة : ٢١٨٢)۔
جبکہ مہدی کے بارے مستند روایات کے مطابق ہمیں یہ معلوم ہوتا ہے کہ وہ اہل بیت سے ہوگا، ایک رات میں اللہ تعالیٰ اس کی اصلاح فرمائیں گے، ملک عرب کا بادشاہ ہو گا، زمین کو عدل وقسط سے بھر دے گا، عیسیٰ علیہ السلام اس کی اقتدا میں نماز ادا کریں گے وغیرہ ذلک۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
'' المھدی منا أھل البیت یصلحہ اللہ فی لیلة.'' (مسند احمد : ٨٤١، مؤسسة قرطبة، القاھرة)
'' مہدی ہم اہل بیت کے خاندان سے ہو گا اور اللہ تعالیٰ ایک رات میں اس کی اصلاح فرمائیں گے۔''
اس روایت کو شیخ احمد شاکر اور علامہ البانی رحمہما اللہ نے صحیح کہا ہے۔(مسند احمد : ٥٨٢ ؛ السلسلة الصحیحة : ٢٣٧١)

٣۔ خان صاحب کا کہنا یہ بھی ہے کہ مہدی یا مسیح انقلابی یا سیاسی لیڈر نہیں ہو گا بلکہ عارف باللہ ہو گا۔ خان صاحب کا یہ نقطہ نظر بھی مستند روایات کے خلاف ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
'' لاتذھب أو لاتنقضی الدنیا حتی یملک العرب رجل من أھل بیتی یواطیء اسمہ اسمی.'' (سنن أبی داؤد، کتاب المھدی)
'' دنیا ختم نہیں ہو گی یہاں تک کہ ملک عرب کا حکمران ایک ایسا شخص بنے کہ جو اہل بیت میں سے ہو اور اس کا نام میرے نام پر ہو۔''
امام ابن تیمیہ ، شیخ احمدشاکر اور علامہ البانی رحمہم اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔(منھاج السنة :٢٥٥٨؛ مسند احمد : ٧٤٦؛ صحیح أبی داؤد : ٤٢٨٢)
ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:
'' یملأ الأرض قسطا وعدلا کما ملئت جورا وظلما یملک سبع سنین.''(سنن أبی داؤد، کتاب المھدی)
''مہدی زمین کو عدل وقسط سے بھر دے گا جیسا کہ وہ ظلم وجور دے بھر دی گئی تھی اور سات سال بادشاہ رہے گا۔''
امام ابن تیمیہ اور علامہ البانی رحمہما اللہ نے اس روایت کو صحیح کہا ہے۔(منھاج السنة : ٢٥٥٨ ؛ صحیح أبی داؤد:٤٢٨٥)
روایت میں'یملک سبع سنین'کے الفاظ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ عدل وقسط سے مراد نظریاتی عدل نہیں ہے جیسا کہ خان صاحب کی تاویل ہے بلکہ اس سے مراد قضائی عدل ہے جو حکمرانی اور طاقت کا متقاضی ہے۔ پس مہدی ایک انقلابی حکمران ہو گا۔اسی طرح مسیح کے بارے بھی مستند روایات میں منقول ہے کہ وہ ایک عادل حکمران ہوں گے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
'' لیوشکن أن ینزل فیکم ابن مریم حکما عدلا، فیکسر الصلیب، ویقتل الخنزیر ویضع الحرب ویفیض المال حتی لا یقبلہ أحد حتی تکون السجدة الواحدة خیرا من الدنیا و ما فیھا ثم یقول أبو ھریرة واقرؤوا ان شئتم و ان من أھل الکتاب الا لیؤمنن بہ قبل موتہ و یوم القیامة یکون علیھم شھیدا.'' (صحیح بخاری، کتاب أحادیث الأنبیاء، باب نزول عیسی بن مریم)
'' عنقریب تمہارے مابین عیسیٰ بن مریم علیہ السلام ایک عادل حکمران کی صورت میں نازل ہوں گے۔ وہ صلیب کو توڑ دیں گے۔ خنزیر کو قتل کر دیں گے۔ جنگ کو ایک نتیجہ تک پہنچا دیں گے۔ مال کو اس قدر تقسیم کریں گے کہ اسے کوئی قبول کرنے والاباقی نہ رہے گا۔ اور ایک سجدہ اس وقت دنیا و ما فیہا سے بہتر سمجھا جائے گا۔ یہ روایت نقل کرنے کے بعد حضرت ابو ہریرة رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اب تم چاہو تو قرآن کی یہ آیت پڑھ لو۔ اور اہل کتاب میں سے کوئی بھی ایسا نہیں ہے جو ان کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لائے اور وہ قیامت والے دن ان پر گواہ ہوں گے۔''
٤۔ خان صاحب کا دعوی یہ بھی ہے کہ مہدی اور مسیح کا معاصر مسلمان انکار کریں گے۔ خان صاحب کا یہ کہنا بھی درست نہیں ہے کیونکہ ایک ایسے عادل بادشاہ یا حکمران کا انکار کیسے ممکن ہے کہ جو زمین کو عدل و قسط سے بھر دے ، جس کے ہاتھوں مال و دولت کی منصفانہ تقسیم سے کوئی حاجت مند باقی نہ رہے، اور اس قدر دینداری غالب آ جائے کہ ایک سجدہ دنیا و ما فیہا سے بہتر سمجھا جائے جیسا کہ مذکورہ بالا روایات سے یہ واضح ہوتا ہے۔ اسی طرح حضرت ابو ہریرة رضی اللہ عنہ کی تفسیر کے مطابق تو مسلمان تو کجا اہل کتاب میں سے بھی کوئی ایسا باقی نہ رہے گا جو عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام پر ان کی وفات سے پہلے ایمان نہ لے آئے۔

٥۔ خان صاحب کا یہ بھی کہنا ہے کہ مہدی ومسیح کے مہدی یا مسیح ہونے کا یقینی علم آخرت میں ہی حاصل ہو گا اور دنیا میں لوگوں کے لیے قطعی طوریہ معلوم کرنا ممکن نہیں ہے کہ مہدی ومسیح کون ہے؟ خان صاحب کا یہ دعوی بھی روایات کے صریح خلاف ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
'' اذا بعث اللہ المسیح ابن مریم، فینزل عند المنارة البیضاء شرقی دمشق، بین مھرودتین، واضعا کفیہ علی أجنحة ملکین، اذا طأطأ رأسہ قطر، وذا رفعہ تحدر منہ جمان کاللؤلؤ.'' (صحیح مسلم، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب ذکر الدجال وصفتہ وما معہ)
''جب اللہ تعالیٰ، مسیح ابن مریم کو مبعوث فرمائیں گے تو وہ دمشق کے مشرقی جانب سفید منارہ پر دو فرشتوں کے پروں پر اپنی ہتھیلیاں رکھے ہوئے نازل ہوں گے اور ورس و زعفران سے رنگے ہوئے دو کپڑوں میں ملبوس ہوں گے ۔ وہ جب اپنے سر کو نیچے اوپر کریں گے تو اس سے موتیوں کی مانند پانی کے قطرے گریں گے ۔''
حضرت عیسیٰ بن مریم کا فرشتوں کے پروں پر ہاتھ رکھے دمشق کے مشرق میں سفید منارہ پر اترنا، اس حال میں کہ ان کے کپڑوں کا رنگ اوران کی صفات بھی اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کر دی ہیں، تو اس کے بعد بھی کیا ان کے مسیح ہونے میں کوئی شک باقی رہ جائے گا؟
خان صاحب نے اس روایت کے الفاظ 'المنارة البیضاء' کی تاویل یہ ہے کہ اس سے مراد age of aviation ہے اور سفیدمنارہ سے مراد ایئرپورٹ کا سفید ٹاور لیا ہے ۔ قابل توجہ امر یہ ہے کہ حدیث میں صرف سفید منارہ کے الفاظ نہیں ہیں بلکہ 'المنارة البیضاء شرقی دمشق' دمشق کے مشرق میں سفید منارہ کے الفاظ ہیں اور دمشق یا دمشق کے مشرقی حصہ میں موجود سفیدہ منارہ کا age of aviation سے کیا تعلق بنتا ہے؟ معاصر age of aviation میں دمشق یا اس کے مشرقی حصہ کا کیا کردار رہا ہے؟ علاوہ ازیں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے سر سے موتیوں کی مانند پانی کے قطرے گرنے کا age of aviation سے کیاتعلق بنتا ہے؟ درحقیقت خان صاحب نے اپنی اس تاویل کے ذریعے حضرت عیسیٰ بن مریم کے معجزانہ نزول ، جو ان کی پہچان کی مبرہن دلیل تھی، کو مسخ کرنے کی ناکام کوشش کی ہے۔
ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:
'' فیمکث أربعین سنة ثم یتوفی ویصلی علیہ المسلمون.'' (مسند احمد : ٤٠٦٢، مؤسسة قرطبة، القاھرة)
'' پس حضرت عیسیٰ بن مریم علیہ السلام چالیس سال زندہ رہیں گے اور پھر فوت کر دیے جائیں گے اور مسلمان ان کی نماز جنازہ ادا کریں گے۔''
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔ (السلسلة الصحیحة : ٢١٨٢)
اگر مہدی ومسیح کی یقینی پہچان دنیا میں ممکن نہیں ہے تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کی تفصیلی صفات اور احوال نزول اس قدر تفصیل سے متعدد فرامین میں کیوں بیان کیے ہیں؟
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
آمد دجال
مہدی ومسیح کی طرح دجال کے بارے بھی خان صاحب کا نقطہ نظر بہت ہی عجیب ہے۔ ان کے نزدیک دجال سے مراد دھوکے باز ہے جو ذہنی وفکری گمراہی پیدا کرے گا نہ کہ انوکھی صفات کا حامل شخص جو قتل وغارت گری کرے۔ ایک جگہ فرماتے ہیں:
'' دجال کے لفظی معنی بہت دھوکا دینے والا ہے۔ دجال اپنا یہ کام تلوار کے ذریعے نہیں کرے گا۔ دھوکا دینا، دلیل کے ذریعے ہوتا ہے، نہ کہ تلوار کے ذریعے۔ چنانچہ دجال علم اور دلائل کے زور پر لوگوں کو بہکائے گا۔ وہ لوگوں کو ذہنی گمراہی میں مبتلا کرے گا۔دجال کے مقابلے میں جو شخص اس کی کاٹ کے لیے اٹھے گا، اس کے لیے صحیح مسلم میں 'حجیج' کا لفظ آیا ہے۔ لسان العرب میں 'حجیج' کا مفہوم ان الفاظ میں بتایا گیا ہے: محاجة ومغالبة باظھار الحجة علیہ (٢٢٢٨) یعنی دلائل کے ذریعے غالب آنے والا ...حدیث میں آتا ہے کہ دجال کی پیشانی پر ک،ف،ر (کفر) لکھا ہوا ہو گا۔(صحیح مسلم، کتاب الفتن)۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ دجال جس دور میں پیدا ہو گا، وہ خدا سے کفر(انکار) کا دور گا ، یعنی الحاد کا دور۔ ''(ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص ١٨)
خان صاحب کے بقول، لوگ دجال کی آمد کے منتظر ہیں حالانکہ وہ آ چکا ہے اور اب اس کا مقابلہ کرنے کی ضرورت ہے نہ کہ اس کے انتظار کی۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
'' دجال کے بارے میں حدیث کی کتابوں میں بہت سی روایتیں آئی ہیں۔ ان روایتوں میں دجال کی انوکھی صفات بتائی گئی ہیں۔ لوگ ان صفات کو لفظی معنی میں لے لیتے ہیں۔ اس لیے ابھی تک وہ دجال کی شخصی آمد کے منتظر ہیں، حالاں کہ اس معاملے میں اب انتظار کا وقت نہیں، بلکہ دجال کے مقابلے میں اپنا کردار ادا کرنے کا وقت ہے۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص ٢٥)
احادیث رسول صلی اللہ علیہ وسلم اس بارے صریح ہیں کہ دجال کا کام ذہنی وفکری کنفیوژن پیدا کرنا نہیں بلکہ اپنی انوکھی صفات کے ساتھ ربوبیت کا دعوی کرنا اور قتل وغارت گری برپا کرتے ہوئے اہل ایمان کو آزمائش میں مبتلا کرنا ہے۔ ایک روایت میں دجال کے الفاظ یوں نقل ہوئے ہیں:
'' وأوشک أن یؤذن الی فی الخروج فأخرج فأسیر فی الأرض فلا أدع قریة لاھبطتھا فی أربعین لیلة غیر مکة وطیبة فھما محرمتان علی کلتاھما کلما أردت أن أدخل واحدة أو واحدا منھما استقبلنی ملک بیدہ السیف صلتاً یصدنی عنھا وان علی کل نقب منھا ملائکة یحرسونھا.'' (صحیح مسلم، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب قصة الجساسة)
'' قریب ہے کہ مجھے خروج کی اجازت مل جائے پس میں نکلوں گا اور زمین میں چلوں پھروں گا۔ پس چالیس راتوں میں، میں کسی بھی بستی سے نہیں گزروں گا لیکن اس کو نیست ونابود کر دوں گا سوائے مکہ اور مدینہ کے۔ پس ان دونوں بستیوں میں داخلہ مجھ پر حرام ہے۔پس جب بھی میں مکہ اور مدینہ میں سے کسی بستی میں داخل ہونا چاہوں گا تو ایک فرشتہ میرے سامنے تلوار سونتے کھڑا ہو گاجو مجھے اس میں داخل ہونے سے روکے گا اور ان دونوں بستیوں میں داخلے کے ہر رستے پر کچھ فرشتے پہریدار مقرر ہوں گے۔''
اگرفتنہ دجال سے مراد اس کا نظریاتی فتنہ ہے تو مکہ اور مدینہ میں اس نظریہ کے داخل ہونے میں کیا ممانعت ہے؟ اور پھر اس نظریے کو مکہ ومدینہ میں داخل ہونے سے روکنے کے لیے بھی تلوار سونتے فرشتے مقرر کیے گئے ہیں؟ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں کہ جب دجال کا خروج ہو گا اور ایک بندہ مومن اس سے ملاقات کا قصد کرے گا تو اس کے چیلے اس کو روکیں گے اور سوال کریں گے:
'' فیقولون لہ أین تعمد؟ فیقول أعمد لی ھذا الذی خرج قال فیقولون لہ أوما تؤمن بربنا؟ فیقول ما بربنا خفاء فیقولون اقتلوہ فیقول بعضھم لبعض ألیس قد نھاکم ربکم أن تقتلوا أحدا دونہ، قال فینطلقون بہ الی الدجال.'' (صحیح مسلم، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب فی صفة الدجال وتحریم المدینة علیہ)
'' پس دجال کے چیلے اس بندہ مومن سے کہیں گے کہ کہاں کا قصد ہے؟ وہ کہے گا کہ جونکلا ہے، اس کا ارادہ کیا ہے۔ پس وہ کہیں گے کیا تو ہمارے رب (دجال) پر ایمان رکھتا ہے؟ تو بندہ مومن جواب دے گا: میرا رب مجھ پرمخفی نہیں ہے۔ تو وہ کہیں گے کہ اسے قتل کر دو۔ تو ان میں سے ایک دوسرے سے کہے گا : کیا تمہارے رب (دجال) نے تمہیں منع نہیں کیا ہے کہ تم اس کی اجازت کے بغیر کسی کو قتل کرو۔ پس وہ اس شخص کو لے کر دجال کی طرف جائیں گے۔'
'

اس روایت سے بھی واضح ہوتا ہے کہ دجال ربوبیت کا دعویدار شخص ہو گا۔ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:
'' ان مسیح الدجال رجل، قصیر، أفحج، جعد، أعور، مطموس العین، لیس بناتئة ولا جحرا، فان ألبس علیکم فاعلموا أن ربکم لیس بأعور.'' (سنن أبی داؤد، کتاب الملاحم، باب خروج الدجال)
'' بلاشبہ مسیح دجال ایک چھوٹے قدکا شخص ہو گا۔ چوڑی ٹانگوں والا، گھونگھریالے بالوں والا،مٹی ہوئی آنکھ کے ساتھ کانا ہوگا جبکہ اس کی وہ آنکھ نہ تو ابھری ہوئی ہو گی اور نہ ہی گہری ہو گی۔پس اگر تمہیں اس کے بارے شبہ ہو جائے تو جان لو کہ تمہارا رب کانا نہیں ہے۔''
اگر تو دجال کے پاس انوکھی صفات نہیں ہوں گی اور وہ ان کی بنا پر رب ہونے کا دعوی بھی نہیں کرے گا تواللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ کیوں کہا کہ اگر تمہیں اس کے رب ہونے کے بارے شبہ ہو جائے تو جان لو کہ تمہارا رب کانا نہیں ہے؟

جہاں تک اس بات کا معاملہ ہے کہ دجال سے مقابلہ کرنے والے کے لیے 'حجیج' کا لفظ استعمال ہوا ہے تو اس بارے روایات واضح ہیں کہ جب دجال ربوبیت کا دعوی کرے گا تو بندہ مومن اس کی ربوبیت کو چیلنج کرتے ہوئے اس سے مکالمہ کرے گا اور پھر اس بندہ مومن کو تشدد کا نشانہ بناتے ہوئے دجال دوٹکڑے کر کے دوبارہ زندہ کرے گالیکن بندہ مومن اس کے رب ہونے کا دوبارہ انکار کرے گا اور اب دجال کا اس پر بس نہیں چلے گا۔ تو بندہ مومن اور دجال کے مابین یہ جو مکالمہ ہے، اس مکالمہ کے سبب سے 'حجیج' لفظ استعمال ہوا ہے۔اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے دجال کے ہاتھوں بندہ مومن کی اس شہادت کو عظیم شہادت کا نام دیا ہے لیکن خان صاحب نے اس طویل اور مفصل روایت کا بھی صرف آخری جز پکڑتے ہوئے شہادت کے لفظ کو نظریاتی شہادت بنا دیا ہے۔ واللہ المستعان علی ما تصفون۔ (صحیح مسلم، کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب فی صفة الدجال وتحریم المدینة علیہ)
 

ابوالحسن علوی

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
مارچ 08، 2011
پیغامات
2,521
ری ایکشن اسکور
11,551
پوائنٹ
641
قتل دجال
مولانا وحید الدین خان صاحب کے نزدیک مہدی اور مسیح کا سب سے بڑا کارنامہ دجال کا قتل ہے اور دجال کے قتل سے مراد دجالی فتنے کا استدلالی رد ہے۔ ایک جگہ لکھتے ہیں:
'' حقیقت یہ ہے کہ مسیح کی آمد سے مراد مسیح کے رول کی آمد ہے، یعنی دور آخر میں جب کہ دجال ظاہر ہو گا، اس وقت امت محمدی کا کوئی شخص اٹھے گا اور مسیح جیسا رول ادا کرتے ہوئے دجال کے فتنوں کا مقابلہ کرے گا اور اس کو شکست دے گا۔ حدیث میں قتل دجال کا ذکر ہے۔ اس سے مراد دجال کا جسمانی قتل نہیں ہے، بلکہ دجال کے فتنے کو بذریعہ دلائل قتل کرنا ہے۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص٤٦)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں:
'
' قتل دجال کے بارے میں ایک روایت حدیث کی مختلف کتابوں میں آئی ہے۔ ابن ماجہ کے الفاظ یہ ہیں : فاذا نظر الیہ الدجال ذاب کما یذوب الملح فی الماء، وینطلق ھاربا، ویقول عیسی ان لی فیک ضربة لن تسبقنی بھا۔(کتاب الفتن، باب ذکر الدجال) یعنی دجال جب مسیح کو دیکھے گا، تو وہ اس طرح گھلنے لگے گا جیسے کہ نمک پانی میں گھلتا ہے، اور وہاں سے بھاگنا شروع کر دے گا۔ مسیح کہیں گے کہ میرے پاس تیرے لیے ایک ایسی ضرب ہے جس سے بچنا ہر گز تیرے لیے ممکن نہیں۔ اس روایت میں جو بات کہی گئی ہے ، وہ تمثیل کی زبان میں ہے۔ اس پر غور کرنے سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ دجال کے مقابلے میں جو واقعہ پیش آئے گا، وہ یہ ہے کہ مسیح اس کے دجل کا علمی تجزیہ کر کے اس کو ایکسپوز کر دیں گے۔ اس طرح وہ دلائل کے ذریعے دجال کو بے نقاب کر دیں گے۔'' (ماہنامہ الرسالة : مئی ٢٠١٠ء، ص ٥٣)

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی روایات اس بارے واضح ہیں کہ قتل دجال سے مرادکسی نظریہ کا استدلالی قتل نہیں بلکہ ایک شخص کا حقیقی قتل ہے جو رب ہونے کا دعویدار ہو گا۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں:
'' یخرج الدجال فی امتی فیمکث أربعین لا أدری أربعین یوما أو أربعین شھرا أو أربعین عاما فیبعث اللہ عیسی بن مریم کأنہ عروة بن مسعود، فیطلبہ، فیھلکہ.'' (صحیح مسلم،کتاب الفتن وأشراط الساعة، باب فی خروج الدجال ومکثہ فی الارض ونزول عیسی وقتلہ یاہ)
'' دجال کا خروج میری امت میں ہو گا اور وہ چالیس تک رہے گا۔ راوی کہتے ہیں کہ اب میرے علم میں یہ نہیں ہے کہ چالیس سے مراد چالیس دن ہیں یا چالیس ماہ یا چالیس سال۔ پس اللہ تعالیٰ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مبعوث فرمائیں گے گویا کہ وہ عروہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہیں۔ پس وہ دجال کو تلاش کریں گے اور اس کو ہلاک کریں گے۔''
اس روایت میں دجال کو تلاش کر کے ہلاک کرنے کا ذکر ہے جو شخص دجال کے قتل کی صراحت کرتا ہے۔ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:
'' یقتل ابن مریم الدجال بباب لد.'' (سنن الترمذی، کتاب أبواب الفتن، باب ما جاء فی قتل عیسی ابن مریم الدجال)
''عیسیٰ بن مریم علیہ السلام دجال کو 'باب لُد' (اسرائیل میں ایک مقام کا نام) پر قتل کریں گے۔''
علامہ البانی رحمہ اللہ نے اس روایت کو صحیح قرار دیا ہے۔(صحیح الترمذی : ٢٢٤٤)
اس روایت میں دجال کے' باب لُد' پر قتل ہونے کے کیا معنی ہے؟ نظریاتی یا استدلالی قتل کا 'باب لُد' کے ساتھ کیا تعلق بنتا ہے؟ ایک اور روایت کے الفاظ ہیں:
'' کأنی أشبھہ بعبد العزی بن قطن.'' (صحیح مسلم، کتاب الفتن واشراط الساعة، باب ذکر الدجال وصفتہ وما معہ)
'' گویا کہ میں دجال کو عبد العزی بن قطن کے ساتھ مشابہت دے رہا ہوں۔''
اسی طرح بعض روایات میں مذکور ہے کہ مدینہ میں ایک شخص ابن صیاد کے بارے بعض صفات کی بنا پر یہ تاثر بعض صحابہ رضی اللہ عنہم میں پھیل گیا کہ وہ دجال ہے۔ ایک روایت کے الفاظ ہیں کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اللہ سے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اس کے قتل کی اجازت چاہی:
'' فقال عمر رضی اللہ عنہ دعنی یا رسول اللہ أضرب عنقہ فقال النبی صلی اللہ علیہ وسلم ان یکنہ فلن تسلط علیہ وان لم یکنہ فلا خیر لک فی قتلہ.'' (صحیح بخاری،کتاب الجنائز، باب ذا أسلم الصبی فمات ھل یصلی علیہ)
'' حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے کہا : اے اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم! مجھے اجازت دیں میں اس کی گردن اڑا دوں تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر یہ ابن صیاد وہی دجال ہے تو تُو ہر گز اس پر قابو نہ پا سکے گا اور اگر یہ دجال نہیں ہے تو اس کے قتل میں تیرے لیے کوئی خیر کا پہلو نہیں ہے۔''
قابل غور نقطہ یہ ہے کہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے ابن صیاد کو دجال سمجھ کر قتل کرنے کی اجازت کے حوالہ سے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے یہ نہیں فرمایا کہ قتل دجال کا مطلب کسی شخص کو قتل کرنا نہیں ہے بلکہ یہ تو نظریے کا بذریعہ استدلال، ذہنی قتل ہے۔ بلکہ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے اس طرف اشارہ کیا کہ اگر تو یہ وہی دجال ہے جس کا آخری زمانے میں ظہور ہونا ہے تو اس کو قتل کرنا حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا مقدر ہے۔

اس کے علاوہ بھی دسیوں روایات ہیں جو دجال سے ، ربوبیت کے دعویدار شخص دجال اور قتل دجال سے اس کے حقیقی قتل پر صراحتاً دلالت کرتی ہیں لیکن ہم طوالت کے خوف سے انہیں یہاں نقل نہیں کر رہے ہیں۔ امر واقعہ یہ ہے کہ مولانا وحید الدین خان صاحب نے مہدی ومسیح اور دجال کے بارے روایات کے الفاظ کی جو سطحی تاویلات پیش کی ہیں ، ان کے سامنے روافض اور باطنیہ کی تاویلات ہیچ ہیں۔
تاویل کا بھی کوئی قانون اور ضابطہ ہوتا ہے۔ ہر زبان میں تشبیہ وتمثیل اور مجاز واستعارہ موجود ہے لیکن اس کا یہ مطلب ہر گز نہیں ہے کہ مجاز وتمثیل کے نام پر جس کا جو دل چاہے، مفہوم بیان کر دے۔ قرآن کی باطنی تفاسیر بھی مجاز وتمثیل ہی کے قبیل سے ہیں۔ اسماعیلیہ ہوں یا قادیانی، روافض ہوں یا منکرین حدیث، یہ سب حضرات مجاز وتمثیل کے نام پر ہی اپنے باطل افکار قرآن سے ثابت کرتے ہیں۔
تشبیہ وتمثیل اور مجاز واستعارہ کی حدود کیا ہوں گی؟ اس کے قواعد وضوابط کیا ہوں؟ اہل علم نے تو ان کو طے کر دیا ہے۔ علم اصول فقہ میں 'قواعد لغویہ عربیہ 'کی عظیم الشان بحث اور علم بلاغت میں 'علم بیان' کا موضوع یہی ہے۔ ذیل میں ہم حقیقت ومجاز کی بحث کے حوالہ سے تین ضوابط بطور مثال بیان کرنا چاہیں گے کہ جن سے مجاز وتمثیل مراد لینے کی حدود کا کسی قدر تعین ہوتا ہے۔
١۔ کلام میں اصل حقیقت ہے اور یہ ایک یونیورسل اصول ہے یعنی ہر کلام سے مراد اس کا حقیقی معنی ہوتا ہے اور مجاز مراد لینے کے لیے دلیل یا قرینہ چاہیے اور جب تک کوئی دلیل یا ضابطہ یا قرینہ موجود نہ ہو تو مجاز مراد لینا جائز نہیں ہے۔
٢۔کسی لفظ کا حقیقی معنی ایک ہی ہوتا ہے جبکہ مجازی معنی تو کئی ایک ہو سکتے ہیں ۔ پس حقیقت مراد لینے کی صورت میں اختلاف رفع ہو جاتا ہے جبکہ مجاز مراد لینے کی صورت میں اختلاف پیدا ہوتا ہے کیونکہ ہر کسی کا مجازی معنی اپنا ہو گا۔ پس حقیقی معنی کو مجازی معنی پر ترجیح حاصل ہے۔
٣۔ ایمانیات اور امور غیبیہ کے بارے کلام کا اصول یہ ہے کہ اسے حقیقی معنی پر محمول کیا جائے گا کیونکہ اس میں مجاز مراد لینے کی صورت میں یہ متعین نہیں ہو سکے گا کہ کس کے بارے کیا ایمان لانے کا مطالبہ کیا جا رہا ہے اور جب یہی معاملہ مشتبہ ہو کہ کس پر کیا ایمان لانا ہے تو ایمان لانے کا تقاضا بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے۔

(جاری ہے۔)​
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top