• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

ناحق دولت حاصل کی اب واپس بھی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ کہیں اور چلا گیا ہے

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
ناحق دولت حاصل کی اب واپس بھی نہیں کر سکتا کیونکہ وہ کہیں اور چلا گیا ہے

سوال :

میں نے کسی خلیجی ملک میں بطور قانونی مشیر ملازمت کی، میں اپنے کام کا کمیشن بھی لیتا تھا، لیکن اب مسئلہ یہ ہے کہ میری دولت میں ایسا مال بھی شامل ہو گیا ہے جو کہ مشکوک ہے، میں نے یہ رقوم مختلف بیوپاریوں سے ناحق وصول کی تھیں اور یہ میرے حلال پیسے میں شامل ہو گئیں ہیں، مجھے اب ان کی مقدار کا بھی علم نہیں ہے؛ نہ ہی میں اب یہ رقم اس کے اصل مالکوں تک پہنچا سکتا ہوں؛ کیونکہ میں خلیجی ملک چھوڑ کر مصر میں زندگی گزار رہا ہوں، میں نے ان تمام دھندوں سے توبہ کر لی ہے، میں ان پیسوں کو فی سبیل اللہ خرچ کرنے کی کوشش کر رہا ہوں تا کہ میرا حقیقی مال حرام سے پاک ہو جائے، تو اب ایسا کون سا حل ہو گا جس سے اللہ تعالی راضی ہو جائے اور مجھے معاف بھی فرما دے۔


جواب کا متن

الحمد للہ:


اول:

کسی کا مال بنا حق کے ہتھیانے والے پر لازمی ہے اسے واپس کرے، اس کی توبہ اس کے بغیر مکمل نہیں ہو گی، جیسے کہ امام بخاری: (2449) نے سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا: (جس کسی نے دوسرے کی عزت آبرو یا کسی اور چیز پر ظلم کیا ہو وہ اس سے آج ہی معاف کروا لے قبل ازیں کہ ایسا دن آئے جس میں درہم اور دینار نہیں ہوں گے، [تو اس دن تصفیہ کا طریقہ یہ ہو گا کہ] اگر ظالم کا کوئی نیک عمل ہوگا تو اس کے ظلم کی مقدار اس سے لے لیا جائے گا۔ اگر اس کی نیکیاں نہ ہوئیں تو مظلوم کے گناہ ظالم کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے۔)

امام نووی رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"علمائے کرام کے مطابق: کسی بھی گناہ سے توبہ کرنا واجب ہے؛ چنانچہ اگر کسی گناہ کا تعلق اللہ تعالی اور بندے کے درمیان ہے؛ حقوق العباد کا اس میں کوئی عمل دخل نہیں تو پھر اس گناہ سے توبہ کی تین شرائط ہیں:

پہلی شرط: گناہ کو چھوڑ دے
دوسری شرط: گناہ کرنے پر ندامت کرے۔
تیسری شرط: ہمیشہ کے لئے گناہ دوبارہ نہ کرنے کا عزم کرے۔

اگر ان تینوں میں سے کوئی ایک شرط بھی مفقود ہوئی تو اس کی توبہ صحیح نہ ہو گی۔ اور اگر اس گناہ کا تعلق حقوق العباد سے ہے تو پھر ایک چوتھی شرط بھی ہے کہ: متعلقہ شخص سے معافی مانگ لے ، معافی کے لئے اگر مال وغیرہ چوری کیا تھا تو پھر یہ مال اسے واپس کرے، اور اگر کوئی تہمت وغیرہ لگائی تھی تو اپنے آپ کو اس آدمی کے سامنے بدلہ دینے کے لئے پیش کرے یا اس سے معافی مانگ لے، اور اگر اس کی غیبت کی ہوئی ہو تو تب بھی اس سے معافی مانگے" ختم شد
"ریاض الصالحین" صفحہ: 33

دوم:

اگر آپ کو اس مال کے اصل مالک کا علم نہ ہو سکے اور اس تک مال پہچانا ممکن نہ ہو اس لیے کہ آپ کو اس کا نام بھول گیا ہے یا کسی اور سبب کے باعث اس تک مال نہیں پہنچا سکتے ، حالانکہ آپ نے اس کی بھر پور کوشش بھی کی ہے تو پھر آپ یہ مال اس کی طرف سے صدقہ کر دیں، اس شرط پر کہ اگر آپ کو بعد میں اس شخص تک رسائی حاصل ہو گئی تو آپ اسے اختیار دیں گے کہ اس کی طرف سے کیا ہوا صدقہ قبول کر لے یا اپنا حق پورا لے لے۔

جیسے کہ ایک فوجی کے متعلق دائمی فتوی کمیٹی کے فتاوی میں ہے کہ اس نے کسی آدمی کا مال چوری کر لیا تھا:

"اگر وہ اس آدمی کو جانتا ہے، یا کسی ایسے شخص کو جانتا ہے جو متعلقہ آدمی تک رسائی رکھتا ہے تو اس فوجی پر اس آدمی کو تلاش کرنا ضروری ہے، تا کہ اس کے چاندی کے سکّے ، یا چاندی کے مساوی رقم یا جس پر بھی دونوں کا اتفاق ہو جائے ؛ اسے واپس لوٹا سکے۔ اور اگر اس آدمی کو نہیں جانتا، اور اس کے ملنے کی امید بھی نہیں ہے تو ایسی صورت میں ان چاندی کے سکوں یا ان کے مساوی نقدی کو اس کی طرف سے صدقہ کر دے، اس شرط پر کہ اگر اسے بعد میں وہ آدمی کہیں مل گیا تو اسے اپنے اِس عمل کی اطلاع دے دے گا، اگر تو وہ اپنی طرف سے کیے گئے صدقہ کو قبول کر لے تو یہ اچھا ہے، لیکن اگر وہ اپنی طرف سے کیے گئے صدقے کو قبول نہ کرے، اور اپنے سکے واپس مانگے تو فوجی اس کا ضامن اور دیندار ہو گا، اور یہ صدقہ فوجی کی طرف سے ہو جائے گا، اس فوجی پر لازم ہے کہ اللہ تعالی سے اپنے کیے کی معافی مانگے اور اس آدمی کے لئے دعا بھی کرے۔" ختم شد
" فتاوى إسلاميَّة " (4 /165)

شیخ ابن عثیمین رحمہ اللہ کہتے ہیں:

"۔۔۔اگر آپ نے کسی شخص کی یا کسی ادارے کی چوری کی ہے تو آپ کی ذمہ داری بنتی ہے کہ ان سے رابطہ کریں اور انہیں بتلائیں کہ میں نے آپ کی چوری کی تھی اور اس کی مقدار اتنی ہے، پھر آپ آپس میں اپنا معاملہ طے کر لیں، لیکن کبھی ایسا بھی ہو سکتا ہے کہ انسان کے لئے ایسا کرنا مشکل ہو، اور اس کے لئے وہاں جا کر یہ کہنا گراں گزرے کہ میں نے تمہاری اتنی چوری کی تھی ، یا اتنا مال میں نے ہتھیایا تھا، تو ایسی صورت میں یہ رقم بالواسطہ طریقے سے بھی پہنچائی جا سکتی ہے، مثلاً: آپ یہ رقم اس کے کسی دوست کو دے دیں اور اسے اپنا معاملہ بتلا دیں کہ میں نے اب اپنی غلطی سے توبہ کر لی ہے تو میں تمہارے تعاون سے یہ رقم اصل مالک تک پہچانا چاہتا ہوں۔ اگر وہ ایسے کر دے تو اللہ تعالی کا فرمان ہے:
وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مَخْرَجاً ترجمہ: اور جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لئے نکلنے کا راستہ بنا دیتا ہے [الطلاق:2]

ایسے ہی ایک اور مقام پر اللہ تعالی کا فرمان ہے: وَمَنْ يَتَّقِ اللَّهَ يَجْعَلْ لَهُ مِنْ أَمْرِهِ يُسْراً ترجمہ: اور جو اللہ سے ڈرتا ہے، اللہ اس کے لئے اس کے معاملات آسان فرما دیتا ہے۔[الطلاق: 4]

تاہم اگر آپ نے کسی ایسے شخص کی چوری کر لی ہے کہ اب آپ کو اس کا اتا پتا معلوم نہیں ، آپ نہیں جانتے کہ وہ کون تھا اور کہاں ہے، تو اس صورت میں قدرے آسانی ہے؛ کیونکہ یہاں آپ اس کی طرف سے نیت کر کے صدقہ کر سکتے ہیں، اس طرح آپ بری الذمہ ہو جائیں گے۔

سائل نے جو واقعہ ذکر کیا ہے اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ایسی حرکتوں سے باز رہنا چاہیے؛ کیونکہ ممکن ہے کہ انسان طیش، اور غصے میں آ کر بیوقوفی کرے اور چوری کر لے، اور پھر جب اللہ تعالی اسے توبہ کی توفیق دے تو پھر انسان پری الذمہ ہونے کے لئے مارا مارا پھرتا رہے!" ختم شد
" فتاوى إسلاميَّة " ( 4 / 162)

ہم اللہ تعالی سے دعا گو ہیں کہ اللہ تعالی ہم سے اور آپ سے در گزر فرمائے۔

واللہ اعلم
 
Top