• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نبیﷺ کا فرمان کہ میری طرف سے کچھ اختلافی حدیثیں آئیں گی، کی تحقیق

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
دار قطنی نے بغیر کسی دلیل کے انقطاع کا کہا ہے۔ ابو بکر بن عیاش بخاری کے راوی ہیں۔ اگر ان سے اس روایت میں اختلاط ہوا ہے تو اس کی کوئی دلیل (مثلاً کسی اور مضبوط راوی نے ان کے شیخ سے یہ روایت منقطع ذکر کی ہو وغیرہ) ہونی چاہیے۔
ورنہ صرف اختلاط اور بھول تو بہت سے رواۃ کو ہوتی ہے۔ انہی کے ترجمے میں ابن حبانؒ فرماتے ہیں:
وكان يحيى القطان وعلي بن المديني يسيئان الرأي فيه وذلك أنه لما كبر سنه ساء حفظه فكان يهم إذا روى والخطأ والوهم شيئان لا ينفك عنهما البشر فلو كثر خطاءه حتى كان الغالب على صوابه لا يستحق مجانبة رواياته فأما عند الوهم يهم أو الخطأ يخطىء لا يستحق ترك حديثه بعد تقدم عدالته وصحة سماعه
(الثقات لابن حبان)

ابن حبان كو بے شك متساہل کہا گیا ہے لیکن یہ تو ایک عام فہم بات ہے جس کی طرف انہوں نے اشارہ کیا ہے اور اس بات کا خیال نہ رکھنا تو بذات خود تشدد ہے۔
دلیل یہی ہے کہ عاصم جو اس حدیث میں ابو بکر کے استاد ہیں ان سے یہ روایت مرسلا بیان کی گئی ہے:
امام داراقطنی کے الفاظ ہیں: "هَذَا وَهْمٌ وَالصَّوَابُ عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زَيْدٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، مُرْسَلا، عَنِ النَّبِيِّ"
یہی قول امام جورقانی کا بھی ہے۔
حافظ ابن حجر اور حافظ عراقی وغیرہ نے بھی دارقطنی کی موافقت کی ہے۔
جبارہ کا اس شذوذ سے کوئی تعلق نہیں۔
واللہ اعلم۔
 

رضا میاں

سینئر رکن
شمولیت
مارچ 11، 2011
پیغامات
1,557
ری ایکشن اسکور
3,580
پوائنٹ
384
اور جبارہ کا ہی سہارا لینا ہوتا تو امام دارقطنی اسے ضعیف بتاتے، وہم نہیں۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
ال

السلام علیکم ! تمام افراد کا شکریہ کہ نہایت سنجیدگی سے اس موضوع پر انی معلومات کا تبادلہ کیا جا رہا ہے۔۔اللہ آپ سب کو صحت مند صاف ستھری زندگی عطا کرے۔امین
ایک عرض ہے کہ۔اس روایت کا مفہوم بہت اہم ہے اور اس کی صحت و عدم صحت کی بنیاد پر مزید بہت ساری روایات متاثر ہوتی ہیں۔۔اس کے جتنے بھی طرق موجود ہیں ان میں سے کوئی صحت کے بلند ترین درجے پر نہیں ہے اور نہ ہی یہ روایت جمہور و اکابر محدثین و فقیہین نے استعمال کی ہے وگرنہ اس کا استعمال ان سب کے ہاں عام ہوتا۔۔
اس روایت کا مفہوم اہم تو ہے لیکن اس کا مفہوم محتمل قابل تاویل ہے۔ یعنی اس ميں جو حکم ہے "فدعوھا" کا یعنی "اس کو چھوڑ دو" اس کا مطلب اہل سنت کے نزدیک اس روایت کو مطلقاً چھوڑنا نہیں بلکہ تاویل کرنا ہے۔
اس کی ایک مثال تو میں دے چکا ہوں کہ حضرت عمر رض نے قرآن كريم كے مقابلے ميں حضرت فاطمہ بنت قیس رض کی روایت کو ترک کر دیا۔ اس کے الفاظ یہ ہیں:
حدثنا نصر بن علي، أخبرني أبو أحمد، حدثنا عمار بن رزيق
عن أبي إسحاق، قال: كنت في المسجد الجامع مع الأسود، فقال: أتت فاطمة بنت قيس عمر بن الخطاب رضي الله عنه، فقال: ما كنا لندع كتاب ربنا وسنة نبينا -صلى الله عليه وسلم- لقول امرأة لا ندري أحفظت أم لا۔
حدثنا سليمان بن داود، حدثنا ابن وهب، أخبرنى عبد الرحمن ابن أبي الزناد، عن هشام بن عروة، عن أبيه، قال: لقد عابت ذلك عائشة رضي الله عنها أشد العيب -يعني حديث فاطمة بنت قيس- وقالت: إن فاطمة كانت في مكان وحش، فخيف على ناحيتها، فلذلك أرخص لها رسول الله -صلى الله عليه وسلم-
حدثنا هارون بن زيد، حدثنا أبي، عن سفيان، عن يحيى بن سعيد عن سليمان بن يسار، في خروج فاطمة، قال: إنما كان ذلك من سوء الخلق.
حدثنا أحمد بن عبد الله. بن يونس، حدثنا زهير، حدثنا جعفر بن برقان حدثنا ميمون بن مهران، قال: قدمت المدينة فدفعت إلى سعيد ابن المسيب، فقلت: فاطمة بنت قيس طلقت فخرجت من بيتها، فقال سعيد: تلك امرأة فتنت الناس؛ إنها كانت لسنة فوضعت على يدي ابن أم مكتوم الأعمى .

یہ سب سنن ابی داؤد کی روایات ہیں اور جو حصے ہائیلائٹ کیے ہیں یہ تاویلات ہیں۔ ان کے ایک جیسے نہ ہونے سے ہی یہ پتا چل رہا ہے کہ کوئی بھی بات حتمی نہیں ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
دلیل یہی ہے کہ عاصم جو اس حدیث میں ابو بکر کے استاد ہیں ان سے یہ روایت مرسلا بیان کی گئی ہے:
امام داراقطنی کے الفاظ ہیں: "هَذَا وَهْمٌ وَالصَّوَابُ عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ زَيْدٍ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ، مُرْسَلا، عَنِ النَّبِيِّ"
یہی قول امام جورقانی کا بھی ہے۔
حافظ ابن حجر اور حافظ عراقی وغیرہ نے بھی دارقطنی کی موافقت کی ہے۔
جبارہ کا اس شذوذ سے کوئی تعلق نہیں۔
واللہ اعلم۔
اور جبارہ کا ہی سہارا لینا ہوتا تو امام دارقطنی اسے ضعیف بتاتے، وہم نہیں۔
یہ مرسل روایت کہاں ہے؟ خود دارقطنیؒ نے بھی ذکر نہیں کی۔ صرف یہ کہا کہ صواب یہ ہے۔ حالانکہ عاصم زر بن حبیش کے کثیر اللقاء شاگرد ہیں اور زر مخضرم ہیں اور حضرت علی رض كے اصحاب ميں سے ہیں۔ اس لیے بلاوجہ اس روایت پر وہم کا الزام لگانا کیسے درست ہو سکتا ہے؟
پھر مزید یہ کہ عاصم بن بہدلہ قراءت کے امام اور اتھارٹی ہیں۔ قراءت ان کا فن تھا۔ اور یہ روایت بھی قرآن کریم سے متعلق ہے اور فضائل قرآن میں سے ہے۔ تو عاصم کو یہ بھلا کیوں صحیح یاد نہیں رہے گی؟ عاصم کا اختلاط ایک تو اپنے اساتذہ میں ہوا ہے اسانید میں نہیں، اور دوسرا عام احادیث میں ہوا ہے قرآن کریم میں نہیں۔ فضائل قرآن کی احادیث تو قرآن کریم سے متعلق ہیں تو ان کا یاد رہنا اقرب الی الصواب ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
خود دارقطنیؒ نے العلل میں عاصم کے ثابت شدہ اختلاط کی تاویل کی ہے اور تین مقامات پر کہا ہے کہ عاصم نے دونوں اساتذہ سے سنا ہوگا۔ تو یہاں غیر ثابت شدہ اختلاط پر وہم کا الزام کیوں لگایا ہے؟
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
رہی بات ابوبکر بن عیاش کے اختلاط کی تو وہ بھی یہاں ثابت نہیں ہے۔ کیوں کہ عاصم کے کسی اور شاگرد کی صحیح سند سے مرسل روایت کم از کم ہمارے علم میں موجود نہیں ہے۔
 

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
دارقطنی کی ہی اس سے قبل یہ روایت ہے:
نا أبو محمد بن صاعد , والحسين بن إسماعيل , قالا: نا الفضل بن سهل , نا يحيى بن آدم , نا ابن أبي ذئب , عن سعيد المقبري , عن أبيه , عن أبي هريرة , عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: «إذا حدثتم عني بحديث تعرفونه ولا تنكرونه فصدقوا به , وما تنكرونه فكذبوا به».

اس کی سند (سرسری طور پر دیکھنے سے) صحیح ہے۔ اس میں یہ مذکور ہے کہ (مفہوم:) جب تمہیں میری طرف سے کوئی ایسی حدیث ملے جسے تم پہچانو اور عجیب نہ سمجھو تو اس کی تصدیق کرو اور اگر عجیب سمجھو تو اس کی تکذیب کرو۔
اب دیکھیے کہ اگر یہ حدیث صحیح ہے تو صرف طبعی معرفت و نکارت پر یہ حکم ہے حدیث مبارکہ کے بارے میں۔ تو جو حدیث قرآن اور سنت متواترہ کے خلاف ہوگی تو کیا اس سے علم حدیث کی معرفت رکھنے والے کو طبعی نکارت نہیں ہوگی؟ پھر طبعی نکارت تو ایک بہت عام معاملہ ہے۔ جب اس پر رد حدیث کا حکم ہے تو قرآن و حدیث کی عدم موافقت پر تو بطریق اولی ہونا چاہیے۔
 

saeedimranx2

رکن
شمولیت
مارچ 07، 2017
پیغامات
176
ری ایکشن اسکور
16
پوائنٹ
71
یہ مرسل روایت کہاں ہے؟ خود دارقطنیؒ نے بھی ذکر نہیں کی۔ صرف یہ کہا کہ صواب یہ ہے۔ حالانکہ عاصم زر بن حبیش کے کثیر اللقاء شاگرد ہیں اور زر مخضرم ہیں اور حضرت علی رض كے اصحاب ميں سے ہیں۔ اس لیے بلاوجہ اس روایت پر وہم کا الزام لگانا کیسے درست ہو سکتا ہے؟
پھر مزید یہ کہ عاصم بن بہدلہ قراءت کے امام اور اتھارٹی ہیں۔ قراءت ان کا فن تھا۔ اور یہ روایت بھی قرآن کریم سے متعلق ہے اور فضائل قرآن میں سے ہے۔ تو عاصم کو یہ بھلا کیوں صحیح یاد نہیں رہے گی؟ عاصم کا اختلاط ایک تو اپنے اساتذہ میں ہوا ہے اسانید میں نہیں، اور دوسرا عام احادیث میں ہوا ہے قرآن کریم میں نہیں۔ فضائل قرآن کی احادیث تو قرآن کریم سے متعلق ہیں تو ان کا یاد رہنا اقرب الی الصواب ہے۔
یہ اہم معلومات ہیں جزاک اللہ۔ نہات مضبوط نقطہ ہے۔۔
 
Top