• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

نصیحتیں میرے اسلا ف کی19

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,111
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
طلباء کو قرا ۤن و حدیث کا علم کس لئے پڑھنا چاہئے ؟

امام سفیان ثوری ؒ فرماتے ہیں کہ: لوگو ں کے لئے علم ِ حدیث کے سوا کوئی چیززیادہ نفع پہنچانے والی نہیں ہے ابو اسامہ کہتے ہیں میں نے امام سفیان سے سنا ہے کہ:'' آپ فرماتے تھے کہ آج کل حدیث کا پڑھنا موت کی تیاری کے لئے نہیں ہے بلکہ اس کو دل بہلاوے اور مشغلہ کے طور پر پڑھا جاتا ہے۔

امام ذھبی فرماتے ہیں کہ :'' میں کہتا ہوں با خدا امام سفیان نے صحیح کہا حدیث کا علم حاصل کرنا اور حدیث کو طلب کرنا ،حدیث سے ایک الگ چیز ہے کیونکہ طلب حدیث کا اطلاق کچھ زائد امور پر ہوتا ہے جو نفسِ حدیث سے مختلف ہوتے ہیں ، ان میں سے چند ایک یہ ہیں جن میں حدیث کا علم حاصل کرنے والے خصوصی دلچسپی لیتے ہیں ،عمدہ کلام لکھنا ،عالی سند کے حصول کی کوشش کرنا ، زیادہ سے زیادہ اساتذہ کا تلمذ چاہنا ، مختلف القاب سے لقب ہونے پر خوش ہونا ، عمر طویل کی خواہش تاکہ کثیر تعداد تک احادیث کی روایت کی جاسکے ،اور بعض امور میں منفرد رہنے کی محبت تو یہ تمام چیزیں نفسانی اغراض کا پتہ دیتی ہیں انھیں اعمالِ ربانی سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا اور نہ ان کے نتیجے میں اخلاص پیدا ہوتا ہے ۔ پس جب آثار و احادیث کا علم دنیوی اغراض میں گم ہوکر رہ جاتا ہو تو دوسرے علام مثلاََ منطق ، مناظرہ و حکمت قد ماء کے نتائج کیا کچھ نہ سامنے آئیں گے ۔حالانکہ یہ علوم ، حکمت و فلسفہ ،ایمان کو سلب کرنے والے اور دلوں میں شکوک و شبھات پیدا کرنے والے علوم ہیں اور خدا کی قسم صحابہ و تابعین کو ان علوم سے کوئی سروکار نہ تھا۔۔۔۔۔۔۔۔اس کے بر عکس ان آئمہ کے نزدیک اصل علوم جن کی تحصیل میں انھوں نے زندگیاں صرف کردیں وہ قرآن و حدیث ، فقہ اور نحو وغیرہ پر مشتمل ہیں ۔''
قرآن و حدیث کا احترام نہیں رہا :

طلباء قرآن و احادیث کی کتب کا احترام نہیں کرتے بلکہ جہاں چاہتے ہیں پھینک دیتے ہیں کوئی بھائی لڑپڑے تو ایک دوسرے کو حدیث کی ہی کتاب مار دینا تو میرے سامنے واقعہ پیش ہوا (معاذاللہ)حصولِ علم کے لئے کتب کا احترام ، مدرسہ کا احترام ضروری ہے ورنہ ناکامی ہے ۔
زیادہ اساتذہ سے استفادہ نہ کرنا:

ایک مدرس کا طلباء صرف اسی مدرسے کے اسا تذہ سے ہی استفادہ کرتے ہیں ، کسی دوسرے مدرسے کے شیخ سے استفادہ نہیں کرتے ، ےہ اےک بہت بڑی غفلت ہے


کےونکہ ہر شےخ اےک منفرتد سوچ و فکر کا حامل ہوتا ہے طالب علم کو وقت نکال کر تمام موجودہ کبار شےوخ سے کسی نہ کسی طرح استفادہ ضرور کرنا چاہے ان کا منبع علمی معلوم کرنا چاہئےے ، وغےرہ وغےرہ ۔
ابونعےم کہتے ہےں کہ: '' مےں نے آٹھ سو محدثےن سے علمِ حدےث حاصل کےا ہے۔''
(تذکرہ الحفاظ : ١ / ١٨١)
امام ابو داؤد عباسی ؒ کہتے ہےں :'' مےں نے اےک ہزار اساتذہ سے حدےث لکھی ہے ۔''
( تذکرہ الحفاظ : ١ / ٢٧٠)
امام ہشام بن عبد اللہ رازی ؒ فرماتے ہےں :'' مےں نے سترہ سو مشائخ سے استافدہ کےا اور علم کی تحصےل مےں مےرے سات لاکھ درہم خرچ ہوئے ۔''
( تذکرہ الحفاظ : ١ / ٢٩٤۔٠٠٥)
راقم الحروف اس مذکورہ بات پر ہر وقت عمل کرنے کی کوشش مےں ہوتا ہے ،اللہ تعالیٰ قبول فرمائے ۔
اس سے حاصل ہونے والے فوائد ہےرے جواہرات سے بھی قےمتی ہےں اگر سمجھاجائے۔
علمِ دےن کس سے حاصل کرنا چاہئے؟
امام عبد الرحمٰن بن ےزےد بن جابر اذری دارانی ؒ فرماتے ہےں کہ :'' علمِ دےن صرف اس شخس سے سےکھو جو طلب حدےث مےں مشہور و مصروف ہو۔''
(تذکرہ الحفاظ : ١ / ١٥٨)
اگر ممکن ہو سکے تو زمانہ طالب علمی مےں کاروبار بھی کرنا چاہئے :
امام شعبہ طلباء حدےث کو فرماےا کرتے تھے ،منڈی جا کر کاروبار بھی کےا کرو ،کاروبار نہ جاننے کی وجہ سے دونوں بھائےوں پر بوجھ بنا ہواہوں ۔''
(تذکرہ الحفاظ : ١ / ١٦٧)



طلباء حدےث اکثر غرےب ہی ہوتے ہےں امام شعبہ خود فرماتے ہےں کہ: ''جو طلب حدےث کرے گا وہ مفلس ہی رہے گا ۔مجھے تنگ آکر اےک دفعہ اپنی والدہ کا تھال سات دےنار مےں فروخت کرنا پڑا تھا ۔''
(تذکرہ الحفاظ : ١ / ١٦٦)
 

کلیم حیدر

ناظم خاص
رکن انتظامیہ
شمولیت
فروری 14، 2011
پیغامات
9,748
ری ایکشن اسکور
26,379
پوائنٹ
995
جزاک اللہ خیرا فی الدارین
 

ابن بشیر الحسینوی

رکن مجلس شوریٰ
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
1,111
ری ایکشن اسکور
4,478
پوائنٹ
376
الحمدللہ ہماری یہی کتاب
دو حصوں میں بنام نصیحتیں میرے اسلاف کی مطبوع ہے اور عام دستیاب ہے ۔
 
Top