• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وبا میں اذان : غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری صاحب کا رد بقلم اسد الطحاوی

شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
54
وبا میں اذان
کی حسن لغیرہ روایت پر غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری صاحب کی طرف سے کیے گئے باطل اعتراضات کا مدلل رد
(بقلم:اسد الطحاوی الحنفی البریلوی )


کسی کی طرف سے ہم کو غیر مقلد غلام مصطفیٰ ظہیر امن پوری صاحب کی تحریر موصول ہوئی ہے اور کہا گیا ہے کہ اسکا رد کر دیں تو ان تک میری تحریر بھیج دی جائے گی تو ہم امن پوری صاحب کے روایات پر ناقص نقد اور خطاوں کو ظاہر کرتے ہوئے انکے محققین کے منہج پر اس روایت کو حسن لغیرہ ثابت کرینگے جن میں البانی صاحب اور اثری صاحب پیش پیش ہیں
اختصار کے لیے ہم اثری صاحب کا یہ حصہ نقل کرتے ہیں:

محدثین نے راویان کی ثقاہت اور دیگر قرائن کے پیش نظر مقبول حدیث کے چار درجات بنائے ہیں ۔ جنہیں درج ذیل صورتوں میں منقسم کیا جاتا ہے

1) صحیح لذاتہ
2) حسن لذاتہ
3) صحیح لغیرہ
4) حسن لغیرہ

حسن لغیرہ کی دوصورتیں ہیں :
ضیعف حدیث کی ایک سے زائد سندیں ہو ، ان میں سبب ضعف راوی کا سوءحفظ ، مستور ، اختلاط ، ارسال وغیرہ ہو اور وجہ ضعف راوی کا فسق یا جھوٹ کا الزام نہ ہو ، بشرط کہ اس کی دوسری سندیں ضعف میں اس جیسی یا اس سے مستحکم ہوں
یا کوئی ضعیف شاہد یا شواہد اسکے مئوید ہوں

کچھ صفحات آگے جا کر اثری صاحب لکھتے ہیں :
بعض انتہائی غیر محتاط لوگ یہ رویہ اپناتے ہیں کہ ان کے نزدیک ضعیف حدیث + ضعیف حدیث کی مطلق طور پر کوئی حیثیت نہیں ، خواہ اس حدیث کے ضعف کا احتمال بھی رفع ہو جائے ۔ بزعم خویش حدیث اور اسکے علوم کے بارے میں ان کی معلومات امام ترمذی، امام بیھقی ، حافظ عراقی ، حافظ ابن حجر وغیرہم سے زیادہ ہے

اس مضمون کی تفصیل کے لیے دیکھیے
(مقالات اثریہ ص 57 حسن لغیرہ )


اب ہم اپنے مضمون کا آغاذ کرتے ہیں اور دیکھتے ہیں جوشرائط انکے گھر سے ثابت ہیں حسن لغیرہ کی کیا اس منہج پر اس باب کی روایات ثابت ہوتی ہیں یا نہیں
اللہ ہم سب کو حق اور سچ پر رہتے ہوئے انصاف کے میزان کو مدنظر رکھتے ہوئے تحقیق کرنے کی توفیق عطاء فرمائے
سب سے پہلے جناب اپنے مضمون کی سرخی لگاتے ہیں :
وبا کی صورت میں اجتماعی اذان کا کوئی ثبوت نہیں ۔ صحابہ ، تابعین ، تابع تابعین اور ائمہ مسلمین کی زندگیوں میں اس کا ذکر نہیں لہٰذایہ بدعت ہے

الجواب :
جناب کو یہ ظلم اعظیم کرنے سے پہلے کم از کم تحقیق تو کر لینی چاہیے تھے ایک تو غیر مقلدین کو جس کام سے چڑ ہو اسکو ایک لمحے میں بدعت کہنے سے نہیں چوکتے ہیں یہی حال ان موصوف کا ہے
بغیر تحقیق لکھ مارا جناب نے کہ تابعین ، تابع تابعین و سلف سے اجتماعی اذان دینے کا ثبوت نہیں یہ بدعت ہے
یہ رد کر رہے ہیں وبا میں اذان دینے کا تو بدعت یہ کہہ رہے ہیں اجماعی اذان کو یہ کیا بات ہے ؟ جی اسکا مطلب یہ ہے کہ کوئی جب انکو صحیح مسلم سے تابعی کی گواہی پیش کریگا کہ نماز کے علاوہ بھی اذان کہنا جائز ہے تو یہ بہانہ بنا سکیں کہ اس میں اجماعی اذان کا ذکر کہا ں ہے ؟
جبکہ آپ اکیلے اکیلے اپنے گھروں میں اذان دے دیں چلیں یہی تو کریں لیکن کہتے ہیں
"پیڑاں ہور تے پھکیاں ہور" یہی حال ادھر ہے انکا ۔ انکو مسلہ یہ ہے کہ آذان سوائے نماز کے علاوہ دینا ثابت نہیں اور ہم انکا رد صحیح مسلم سے ایک تابعی کے اثر سے کر دیتے ہیں تاکہ انکو بدعت کہنے کی غلطی دوبارہ نہ ہو
جی محترم اثر صحابہ تو ہیں کہ نماز کے علاوہ آفت کے لیے خوف سے بچنے کے لیے آذان کا حکم ہے پیش کرتا ہوں تھوڑی دیر میں

صحیح مسلم
کتاب: نماز کا بیان
باب: اذان کی فضیلت اور اذان سن کر شیطان کے بھاگنے کے بیان میں

ترجمہ:
امیہ بن بسطام، یزید بن زریع، روح، سہیل سے روایت ہے کہ مجھے میرے والد نے بنی حارثہ کی طرف بھیجا میرے ساتھ ایک لڑکا یا نوجوان تھا تو اس کو ایک پکارنے والے نے اس کا نام لے کر پکارا اور میرے ساتھی نے دیوار پر دیکھا تو کوئی چیز نہ تھی میں نے یہ بات اپنے باپ کو ذکر کی تو انہوں نے کہا اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تمہارے ساتھ یہ واقعہ پیش آنے والا ہے تو میں تجھے نہ بھیجتا لیکن جب تو ایسی آواز سنے تو اذان دیا کرو میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سنا وہ نبی کریم ﷺ سے حدیث بیان کرتے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیرتا ہے اور اس کے لئے گوز ہوتا ہے۔


اس روایت میں یہ الفاظ قابل غور ہیں کہ تابعی فرما رہے ہیں :
۔۔۔۔۔اگر مجھے معلوم ہوتا کہ تمہارے ساتھ یہ واقعہ پیش آنے والا ہے تو میں تجھے نہ بھیجتا لیکن جب تو ایسی آواز سنے تو اذان دیا کرو۔۔۔۔ میں نے حضرت ابوہریرہ (رض) سے سنا وہ نبی کریم ﷺ سے حدیث بیان کرتے تھے کہ آپ ﷺ نے فرمایا جب اذان دی جاتی ہے تو شیطان پیٹھ پھیرتا ہے اور اس کے لئے گوز ہوتا ہے۔

اس سے یہ معلوم ہوا کہ اذان کی مطلق فضیلت کی حدیث سے بھی وبا کے وقت مصیبت اور پریشانی اور قلبی سکونی کے لیے اذان دینے کے لیے فقط یہ ایک حدیث ہی کافی تھی

لیکن غیر مقلدین فقہ اور فہم سے بالکل پیدل ہوتے ہیں انکو سند سند کھیلنے کا شوق ہوتا ہے نہ انکو معلوم ہے کہ ایک امر مستحب ہے اس کے لیے کس درجے کی حدیث یا دلیل چاہیے ہوتی ہے بس انکا ایک رٹہ ہے کہ یہ سند ضعیف ہے یہ سند ضعیف ہے ۔۔

تو ان جیسے محقق جو اپنے گھر میں محقق بنے ہوئے ہیں انکو ہم سیکھاتے ہیں رجال کا علم کیا ہوتا ہے اور حدیث کو اپنی کم علمی اور ناقص تحقیق کی بنیاد پر ضعیف سےشدید ضعیف بنانا انکی ناقص تحقیق ہے

تو تابعی وہ بھی اتنے کبیر جو حضرت عمر کے دور میں پیدا ہونے والے اور بڑے فقیہ انکا استدلال آگیا تو اب اس امر کو بدعت کہنا غیر مقلدین کا جماعتی تعصب اور ہڈ دھرمی ہے

اب آتے ہیں انکی طرف سے کیے گئے روایات کی اسناد پر باطل اعتراضات جس میں انہون نے یہ کوشش کی ہے جتنا ہو سکے اسناد میں اپنی طرف سے ایسا شدید ضعف بیان کیا جا سکے کہ کوئی روایت بھی حسن لغیرہ بننے کے قابل نہ رہے

لیکن ہم انکے محققین جیسا کہ ناصر البانی اور اثری صاحب کے منہج پر اس باب میں یہ دو روایات کو حسن لغیرہ کی شرط پر ثابت کرینگے ایک دوسرے سے تقویت حاصل کرنے کے بعد


امن پوری صاحب کی طرف سے پہلی روایت پر جرح درج ذیل ہے ۔

v ۔ سیدنا انس بن مالکؓ سے منسوب ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا :
إِذَا أُذِّنَ فِي قَرْيَةٍ أَمَّنَهَا اللَّهُ مِنْ عَذَابِهِ ذَلِكَ الْيَوْمَ
"جب کسی بستی میں اذان کہی جاتی ہے ، تو اللہ تعالیٰ اس روز اسے اپنے عذاب سے محفوظ رکھتا ہے ۔"
ّ
(المعجم اللکبیر للطبرانی : 257/1)

سند سخت ضعیف ہے (یعنی بقول انکے اس روایت کی سند ضعیف جدا ہے )
1) عبدالرحمٰن بن سعد بن عمار ضعیف ہے ۔

· امام بخاری ؒ فرماتے ہیں :
لم یصح حدیثه : اسکی بیان کردہ حدیث ثابت نہیں (التاریخ الکبیر )
· امام یحییٰ بن معین ؒ نے اسکو ضعیف کہا ہے (الجرح والتعدیل لابن ابی حاتم و سند صحیح)
· حافظ ذھبیؒ (دیون الضعفاء:2447) نے منکر الحدیث کہا ہے
· حافظ ابن حجر ؒ نے( التقریب برقم:3873) نے ضعیف کہاہے

2) بکر بن محمد قرشی کے حالات زندگی نہیں معلوم
3) صالح بن شعیب کی معتبر توثیق نہیں ہو سکی


الجواب
امن پوری صاحب کی تحقیق میں چند نقائص:

۱۔پہلی غلطی یا خیانت : سند کو ضعیف جدا کہا جب کہ سند میں کوئی متروک ، یا متہم بلکذب روی موجود نہیں ہے

۲۔ سند میں اپنی ناقص تحقیق کی وجہ سے یہ دعویٰ کر دیا کہ صالح بن شعیب البصری کی معتبر توثیق نہیں ہو سکی
جبکہ انکو کہنا چاہیے تھا انکو نہیں ملی کیونکہ انکی تحقیق ناقص ہو سکتی ہے لیکن ضروری نہیں انکے علاوہ سب ان جیسے ہوں

۳۔بکر بن محمد بن قرشی کے حالات معلوم نہیں

اب ہم انکے ان اعتراضات کا بلترتیب تحقیقی جائزہ لیتے ہیں :

سب سے پہلی بات یہ ہے کہ عبدالرحمن بن سعد بن عمار ضعیف ہے جیسا کہ انہوں نے تقریب سے امام ابن حجر عسقلانیؒ کا حوالہ دیا کہ یہ روای ضعیف ہے اس سے ہم کو بھی اختلاف نہیں کہ یہ سند میں ضعیف ہے
لیکن ایسے ضعیف راوی سے سند ضعیف جدا کیسے بنتی یہ ہے راز ہم کو یہ بیان کرینگے
البتہ ہم انکو انکے محقق اثری صاحب سے آئینہ دکھا دیتے ہیں کہ کونسی روایت شدید ضعیف ہوتی ہیں اور حسن لغیرہ کے لیے تقویت دینے کے قابل نہیں ہوتی انکی شرط درج ذیل ہیں
1. راوی پر جھوٹ کا الزام ہو
2. حدیث شاذ ہو
3. راوی متروک ہو
(مقالات اثریہ ص 69)

اب دیکھتے ہیں انہون نے جو شروع میں حدیث کے سخت ضعیف ہونے کا دعویٰ کیا وہ اوپر انکے اثری صاحب کی طرف سے بیان کردہ شرائط میں سے کوئی شرط پائی جاتی ہے یا نہیں

v محمد بن بکر القرشی کا تعین اور توثیق :

بات یہ کہ بکر بن محمد القرشی کا ترجمہ آپکو نہیں ملا
توعرض ہے کہ ضروری نہیں کہ ہر راوی کے شیوخ کا ذکر محدثین کریں یا ہر راوی کے تلامذہ میں سب کا نام لکھا جائے ایسا ممکن نہیں ہوتا ہے تبھی محدثین کسی راوی کے شیوخ میں نام لکھ کر آخر میں و جماعتہ یا خلق کثیر لکھ دیتے ہیں

تو راوی کے تعین کے لیے طبقہ بھی دیکھنا پڑتا ہے تو اس سے بھی قررائن واضح ہو جاتے ہیں
ہم اللہ اور اسکے رسولﷺ کے فضل سے آپکو جواب پیش کرتے ہیں

امام طبرانی اپنے جس شیخ سے یہ روایت پیش کرتے ہیں اسکی سند یوں ہے :

حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ شُعَيْبٍ الْبَصْرِيُّ قَالَ: نا بَكْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ
اس میں یہ بات قابل غور ہے کہ امام طبرانی کا یہ شیخ بصری ہے اور انہوں نے اپنے شیخ بکر بن محمد القرشی کا نام لیا ہے
اور اس طبقے میں ایک راوی موجود ہیں جنکا نام ہے :
بكر بن محمد بن عبد الوهاب أبي عمرو القزاز بالبصرة

یہ بصری راوی ہیں اور ثقہ راوی ہیں
جیسا کہ امام دارقطنی سے انکے بارے پوچھا گیا تو وہ انکی توثیق کرتے ہیں :


213 - وسألته عن بكر بن محمد بن عبد الوهاب أبي عمرو القزاز بالبصرة فقال ثقة
(سؤالات حمزة بن يوسف السهمي)

اور یہ قرشی ہی تھے جیسا کہ امام خطیب بغدادی ایک روایت نقل کرتے ہیں تاریخ میں جسکی سند یوں ہے :

أخبرنا بشرى، قال: حدثنا عبد الله بن إسحاق بن يونس بن إسماعيل المعروف بابن دقيش في سنة اثنتين وستين وثلاث مائة، وحضر ذلك محمد بن إسماعيل الوراق، قال "حدثنا بكر بن محمد بن عبد الوهاب القزاز القرشي، بالبصرة"، ـ ـ قال: بلخ۔۔۔۔۔۔
(تاریخ بغداد ، برقم:4980)

اور اس پر دوسرا قرینہ یہ ہے کہ یہ بھی امام طبرانی کے شیوخ میں بھی ہیں امام طبرانی نے ان سے ڈریکٹ بھی روایات بیان کی ہیں اور کچھ روایات شیخ الشیخ سے بیان کی ہیں

انکی کنیت کافی ساری ہیں کچھ محدثین انکو بکر بن محمد العدل کے نام سے لکھتے ہیں
کچھ انکو بکر بن محمد ابو عمرو کے نام سے
کچھ بکر بن محمد البصری
اور کچھ بکر بن محمد البصری الرقشی القزاز کے ساتھ لکھتے ہیں یہی وجہ ہے کہ البانی صاحب کو بھی اسکا ترجمہ نہ مل سکا جیسا کہ آپ کو نہیں ملا

بر حال بکر بن محمد القرشی البصری القزاز یہی ایک راوی ہی اس طبقے کا ہے اور ثقہ راوی ہے اور اس سند میں بھی یہی راوی ہے
اور ان سے امام صالح بن شعیب البصری بھی روایت کرتے ہیں جو کہ امام طبرانی کے شیخ ہیں اور خود امام طبرانی بھی انہی سے روایت کرتے ہیں
امام ابن حبان اور دوسرے دیگر محدثین بھی انکے شاگردوں میں آتے ہیں

ہمارے قرائن کو رد کرنے کے لیے آپ کوشش کرینگے تو کوئی مضبوط دلیل دیجیے گا
ورنہ اہل علم اور رجال کے محققین کے لیے یہ بات کافی ہے کہ تعین بالکل ٹھیک ہے ان شاءالل

تو جناب کا اسکو مجہول کہنا باطل ہے اور یہ راوی ثقہ ہے

۳۔ اعتراض جو انکا تھا کہ صالح بن شعیب کی کوئی معتبر توثیق نہیں ہو سکی یہ بات انکی جہالت پر مبنی ہے اور انکی ناقص تحقیق کہ اس پر انہوں نے دعویٰ کر دیا جبکہ یہ اگر اتنا کہتے کہ انکو نہیں ملی توثیق تو بات اور تھی لیکن اگر یہ دعوے اس طرح سے کرینگے تو ہم پھر انکا رد بھی اسی زبان میں کرینگے کیونکہ انکو بڑا شوق ہے رجال رجال کھیلنے کا اور اپنی من مرضی سے احادیث کو ضعیف سے ضعیف جدا بنانے کا تو انکو سیکھائیں گے کہ رجال کا علم اصل ہوتا کیا ہے اور یہ ایسا علم نہیں جہاں کوئی شریر گھوڑا اپنی مرضی سے پھرتا رہے بلکہ اس علم میں اپنے نفس اور چاہت کو ایک طرف رکھ کے انصاف کے میزان پر بات کرنی ہوتی ہے کیونکہ بات حدیث رسول ﷺ کی ہے اور اور جو اس میں من مانی کریگا تو اسکا رد بھی اسی زبان اور شد میں ہوگا جتنی غلطی بڑی ہوگی

v خیر صالح بن شعیب البصری کی توثیق درج ذیل ہے :

امام عینی انکا ترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :
1056 - صالح بن شعيب بن أبان الزاهد البصرى: يكنى أبا شعيب، أحد مشايخ أبى جعفر الطحاوى الذين روى عنهم وكتب وحدث، روى عن محمد بن المثنى وغيره، وذكره ابن يونس فى تاريخ الغرباء الذين قدموا مصر، وقال: قدم إلى مصر، وكُتب عنه، وخرج إلى مكة، وتوفى بها فى صفر سنة ست وثمانين ومائتين.

صالح بن شعیب بن ابان الزاھد البصری انکی کنیت ابو شعیب تھی یہ امام طحاوی کے مشایخ میں سے ایک تھے ان سے لکھا اور بیان کیا گیا ہے اور ان سے محمد بن المثنی وغیرہ نے روایت کیا ہے
امام ابن یونس نے اپنی تاریخ الغرباء میں ذکرکیا کہ یہ مصرف اائے اور جب یہ مصر آئے تو میں نے ان سے لکھا ہے پھر یہ مکہ چلے گئے یہ ۲۸۶ھ میں فوت ہوئے
(مغاني الأخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار، امام عینی )


امام ابن عبدالبر سے ضمنی توثیق :
امام ابن عبدالبر التمہید میں امام مالک بن انس سے ایک روایت نقل کرتے ہیں :

"مالك عن الزهري عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك الفضل"
اسکو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :
"لم يقله غير الحنفي عن مالك والله أعلم ولم يتابع عليه وهو أبو علي عبيد الله بن عبد المجيد الحنفي"
کہ امام مالک سے زھری کے حوالے سے یہ راویت اس متن ادرک الفضل کو بیان کرنے میں ابو علی عبیداللہ الحنفی کی کوئی متابعت نہیں کرتا ہے
پھر امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں :

"وسنذكر ما للفقهاء في هذا المعنى بعون الله إن شاء الله وقد روى هذا الحديث عن مالك حماد بن زيد"
ہم فقھا سے اسکا معنی بھی اللہ کی مدد سے بیان کرینگے اور یہ بھی کہ یہ راویت مالک سے حماد بن زید بیان کرتے ہیں

پھر اسکی دلیل دیتے ہوئے امام ابن عبدالبر صالح بن شعیب (شیخ طبرانی) سےسند بیان کرتے ہیں :

حدثنا أحمد بن فتح قال حدثنا أحمد بن الحسن الرازي قال حدثنا"أبو شعيب صالح بن شعيب بن! زياد البصري" قال حدثنا إبرهيم بن الحجاج الشامي حدثنا حماد بن زيد عن مالك عن ابن شهاب عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من أدرك ركعة من الصلاة فقد *أدرك الصلاة**
امام ابن عبدالبر یہ روایت مالک کی جو بیان کرتے ہیں اس میں فقط ادرک الصلاتہ لفظ ہے نہ کہ ادراک الفضل
پھر امام ابن عبدالبر یہی روایت اپنے دوسرے شیخ سے صالح بن شعیب (شیخ طبرانی) سے بیان کرتے ہیں اس میں بھی وہی لفظ ہے جو اوپر حماد بن زید نے امام مالک سے بیان کیا ہے جسکو صالح بن شعیب روایت کرتے ہیں


وحدثنا خلف بن قاسم حدثنا أبو العباس أحمد بن الحسن بن إسحاق بن عتبة حدثنا "أبو شعيب صالح بن شعيب بن أبان الزاهد" في شوال سنة إحدى وثمانين ومائتين قال حدثنا إبرهيم بن الحجاج الشام حدثنا حماد بن زيد عن مالك بن أنس عن ابن شهاب عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك الصلاة هذا هو الصحيح عن حماد بن زيد عن مالك
ومن قال فيه عن حماد عن مالك بهذا الإسناد من أدرك ركعة من الصبح الحديث فقد أخطأ

امام ابن عبدالبر ابو صالح شعیب بن ابان بن زاھد سے روایت بیان کر کے کہتے ہیں یہی صحیح ہے جسکو حماد بن زید نے نقل کیا ہےامام مالک سے اور جنہوں نے حماد سے مالک سے اسی سند سے ادرک رکعت صبح کی حدیث بیان کی ہے ان سے خطاء ہوئی ہے

(التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد، جلد 7۔ ص 64)

امام ابن عبدالبر کا ابو صالح شعیب کی روایت کو باقی تمام صدوق راویان پر مقدم کرنا انکی ثقاہت کے لیے کافی ہے


نیز اس پر بھی انکو مسلہ ہو یا معلوم نہیں ضمنی توثیق کے بھی منکر بن جائیں تو انکے سلفی محقق سے بھی توثیق پیش کر دیتے ہیں :

سلفیوں کے محقق نے امام الطبرانی کے شیوخ پر ایک کتاب لکھی ہے اس میں ابو صالح شعیب کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے :

[496] صالح بن شعيب أبو شعيب الزاهد البصري.
حدث عن: بكر بن محمد القرشي، وداود بن شبيب، وعبد الرحمن بن سعد بن عمار بن سعد، ونافع بن خالد الطاحي.
وعنه: أبو القاسم الطبراني بمصر في " معاجمه " ووصفه بالزاهد.
مات في صفر سنة ست وثمانين ومائتين.
- تاريخ الإسلام (21/ 191).
• قلت: (صدوق إن شاء الله)
(إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني ، المؤلف: أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري)
اس کتاب کو ابن تیمیہ مکتب والوں نے چھاپا ہے : الناشر: دار الكيان - الرياض، مكتبة ابن تيمية – الإمارات)


اتنے دلائل کے بعد بھی کوئی کہے کہ امام طبرانی کا شیخ مجہول بنانا اور یہ دعویٰ کرنا کہ اسکی معتبر توثیق نہیں ہو سکی یہ سطحی تحقیق کرنے والے بندے کی یہ بات ہو سکتی ہے

خلاصہ تحقیق:
اس روایت میں فقط ایک راوی ضعیف ہے عبدالرحمٰن بن سعد بن عمار اور باقی اس سند میں سارے ثقہ و صدوق راوی ہیں
اور یہ روایت فقط معمولی ضعیف ہے اور حسن لغیرہ بننے کے بالکل قابل ہے اب ایک اور اس قسم کی روایت اگر ثابت ہو جائے جس میں اس جیسا ضعیف راوی ہو ، یا مجہول یا یخطئ راوی ہو تو اس سے تقویت پا کر اس باب میں یہ روایت حسن لغیرہ بن جائے گی

******************

تیسرے نمبر پر انہوں نے حلیة الاولیا ء لابی نعیم اور تاریخ دمشق کے طریق سے روایت لکھی ہے :
امن پوری صاحب کا اس روایت کی سند پر نقد درج ذیل ہے ۔
حضرت سیدنا ابوہریرہؓ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

نزل ادم بالهند واستوحش فنزل جبريل فنادى بالأذان الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله مرتين أشهد أن محمدا رسول الله مرتين قال ادم من محمد قال اخر ولدك من الأنبياء
(حلیةالاولیاء لابی نعیم 107/5، وتاریخ دمشق ، 437/7)

1) روایت ضعیف ہے
· حافظ ابن حجر فرماتے ہیں :
· فیه ةتشاهیل : اس مین کئی مجہول ہیں (فتح الباری)

2) علی بن بہرام بن یزید کوفی کی توثیق نہیں مل سکی
· حافظ ہیثمی ؒ لکھتے ہیں لم اعرفه :
میں اسے نہیں پہچانتا

*************************
الجواب :
تو جناب نے اس روایت میں صرف ایک علت بیان کی ہے کہ اس روایت کی سند میں ایک مجہول راوی ہے اور ہماری تحقیق میں اس کا ترجمہ امام خطیب بغدادی وغیرہ نے بیان کیا ہے لیکن بغیر جرح و تعدیل سے معلوم ہوا اس راوی کی عدالت پر کوئی جرح نہیں ہے اور یہ راوی متابعت اور شواہد میں قابل قبول ہے

تو انکے اثری اور انکے البانی کے منہج کے مطابق یہ روایت حسن لغیرہ ثابت ہو چکی ہے پچھلی راویت سے تقویت حاصل کر کے اور پچھلی روایت اس حدیث سے تقویت حاحصل کر کے

اب اسکے علاوہ جن روایات پر انہوں نے جروحات کی ہیں اگر کسی میں متروک یا متہم بلکذب رراوی نہ ہوں اور ضعیف ہوں تو وہ سب ان روایات کو تقویت دینگی اور کوئی بھی ثابت نہ ہو ان دو روایات کے علاوہ بھی تو یہ دو ورایات کافی ہو چکی ہیں

امید ہے اس تحریر پر مطلع ہونے پر اپنی تحقیق میں فاحش خطاوں سے رجوع کرینگے اور بہت مشکل ہے کہ غیر مقلدین اپنی غلطی تسلیم کر لیں بلکہ خود کوصحیح ثابت کرنے کے چکر میں علم رجال سے کھلواڑ کرنے سے بھی نہیں چوکتے

تو معلوم ہوا نماز کے علاوہ اذان دینے پر تابعی کا اثر مسلم سے ثابت ہے اور ان روایات کی روشنی میں مصیبت اور پریشانی اور قلبی سکون کے لیے اذان دینا ثابت ہے اور اس امر کو بدعت کہنا والا علم اور علوم حدیث اور فقہ سے جاہل ہے


تحقیق : اسد الطحاوی الحنفی البریلوی ۲۳مارچ ۲۰۲۰

 
شمولیت
جون 05، 2018
پیغامات
277
ری ایکشن اسکور
15
پوائنٹ
79
.

کیا نا گہانی مصیبت کے وقت اذان دینے پر دلالت کرنے والی روایت حسن لغیرہ ہے؟
===اسد الطحاوی الحنفی صاحب کے مضمون کا تحقیقی جائزہ===

از قلم
حافظ اکبر علی اختر علی سلفی عفا اللہ عنہ

نظر ثانی
فضیلۃ الشيخ عبد الشکور عبد الحق مدنی حفظہ اللہ

ناشر :
البلاغ اسلامک سینٹر

قسط ۱.
https://drive.google.com/file/d/1K0d4-p87JX4DM7q-9QpkSD_PEuZWg7R7/view?usp=drivesdk

قسط ۲.
https://drive.google.com/file/d/1KlFkMYxZ73TQakrNwlnDCkeYKIwVtKR3/view?usp=drivesdk

قسط ۳.
https://drive.google.com/file/d/1NRaR1dfp2ELpAaXcFeiVsMqGUWyYkYT7/view?usp=drivesdk

.
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
54
نا گہانی مصیبت کے وقت اذان دینے کی روایات پر اکبر اختر علی سلفی صاحب کے اعتراضات کا علمی تعاقب
بقلم : اسد الطحاوی الحنفی البریلوی
بسم الله الرحمن الرحيم
(وضاحت):
ہمارے وٹس ایپ گروپ کے ایک دوست جنکا نام زین العابدین ہے ہم نے انکو اپنی ایک تحریر پیش کی تھی جو کہ البانی صاحب کے رد پر لکھی تھی اور ثابت کیا تھا میں نے البانی صاحب نے اپنی نفس کی تائید میں ایک روایت کو ذبردستی ضعیف سے ضعیف تر بنانے اور اسکے شواہد کو نظر انداز کرنے کی کوشش کی ہمارے محترم دوست نے اس تحریر کو اپنے ایک ساتھی کو شئیر کی اور ہمیں بتایا گیا ہمارے دوست زین صاحب کی طرف سے کہ انکے ایک بہت ہی علم رجال کے مضبوط پائے کے محقق صاحب ہیں جنکی علم رجال اور اصول حدیث پر بہت مضبوط گرفت ہے تو انکی طرف سے جواب کی تحریر پھر زین صاحب کی طرف سے مجھے موصول ہوئی ۔۔۔
زین صاحب شاید اپنے دوست جنکا نام حافظ اکبر علی سلفی صاحب ہے لگتا ہے ان سے کافی حسن ظن رکھتے ہیں وگرنہ جب ہم نے انکی تحریر پڑھی تو ہمیں اختر صاحب منہج میں کمزور معلوم ہوئے اور دلائل میں ان سے نہ چاہتے ہوئے بھی اپنی جماعت کی تائید میں اپنی تحقیق کا رخ موڑ دیا جیسا کہ عمومی طور پر اہل حدیث جماعت کے لوگوں میں عام ہے اس چیز کا گلہ کرتے ہوئے جناب راشدی صاحب اپنے مکالے میں اس بات کو قبول کرتے ہوئے لکھتے ہیں
یہ ایک المناک حقیقت ہے کہ آج کل ہمارا حال یہ ہوگیا ہے کہ کوئی حدیث ہمارے مذاج کے موافق نہیں ہوتی یا اس پر عمل پیرا ہونے میں قدرے دشواری پیش آتی ہے تو اس کو کسی نہ کسی طریقے سے ضعیف بنا کر رکھ دیتے ہیں خواہ اس میں ہمیں کتنے ہی پاپڑ بیلنے کیوں نہ پڑیں

(مقالات راشدیہ جلد اول ، ص 269)

یہی حال کو جناب اختر صاحب کا معلوم ہوا ہے کہ دو معمولی ضعیف روایات میں زبرستی ایسے شدید ضعف پیدا کرنے کی ناکام کوشش کی گئی ہر ممکن دلائل سے جتنا ان سے بن سکتا تھا لیکن ہم ان شاءاللہ دلائل اور منہج محدثین کے مطابق انکا علمی تعاقب کرینگے اور امید کرینگے کہ بھی اپنی اصلاح کریں البتہ جہاں ہم کو اپنی غلطی محسوس ہوئی ہوگی تو اس مضمون میں ہم اسکا اعلان ضرور کرینگے اور رجوع بھی لیکن کیا یہ امید ہم اپنے مخالف سے بھی رکھ سکتے ہیں یا نہیں تو بعد میں معلوم ہوگا۔
اب ہم اللہ اور رسول کے فضل سے انکے مضمون کا رد بلترتیب پیش کرتے ہیں :
اختر صاحب نے اپنی تحریر کا جواب تین اقساط میں لکھ کر وقفے سے پیش کیا ان شاءاللہ ہم انکے تمام مضمون کا جواب مکمل ایک ہی بار میں پیش کرینگے اور انکے تمام وارد اعتراضات کا جواب اصول حدیث اور منہج محدثین کے مطابق دینگے

اختر سلفی صاحب نے اپنے مضمون کی دو سرخیاں لکھی تھیں جو درج ذیل ہیں :

(نوٹ : ہم انکے تمام اعتراض فقط وہ نقل کرینگے جو انہوں نے روایات کی اسناد پر کیے متن پر کیے گئے اعتراضات کا جواب آخر میں ہوگا)
۱۔ پہلی قسط میں بتایا جائے گا کہ جن دو احادیث کو جمع کر کے انہوں (اسد اطلحاوی) نے حسن لغیرہ کا دعویٰ کیا ہے وہ دعویٰ صحیح ہے یا نہیں ؟
۲۔ دوسری قسط میں ان کی مذکورہ تحریر کا مفصل جواب پیش کیا جائے گا اور اس میں خیانت کے الزام کی حقیقت پیش کی جائے گی

اس کے بعد اختر سلفی صاحب ہمارے دلائل میں سے پہلی روایت جو طبرانی شریف کی ہے اسکو نقل کرتے ہیں

حَدَّثَنَا صَالِحُ بْنُ شُعَيْبٍ الْبَصْرِيُّ قَالَ: نا بَكْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْقُرَشِيُّ قَالَ: نا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدِ بْنِ عَمَّارَِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «إِذَا أُذِّنَ فِي قَرْيَةٍ أَمَّنَهَا اللَّهُ مِنْ عَذَابِهِ ذَلِكَ الْيَوْمَ»
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، إِلَّا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ، تَفَرَّدَ بِهِ: بَكْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ
"

حضرت انس بن مالک رضی اللہ تعالی عنہ سے رویت ہے کہ حضور سیّدِ عالَم صلی اللہ تعالی علیہ وسلم نے فرمایا: جب کسی بستی میں اذان دی جائے تو اللہ تعالی اس دن اسے اپنے عذاب سے امن دے دیتا ہےـ

اس روایت کو صفوان سے سوائے عبدالرحممن بن سعد کے کوئی بیان نہیں کرتا اور بکر بن محمد کا تفرد ہے
(برقم: 3671، معجم الاوسط ، برقم : 746 المجم الکبیر ، برقم:7 جزء أبي القاسم الطبراني)
اسکو نقل کرنے کے بعد اختر سلفی صاحب پہلے اپنا تبصرہ پیش کرتے ہوئے لکھتے ہیں
اسکی سند ضعیف جدا یعنی سخت ضعیف ہے
اسکے بعد مختلف محدثین نے عبدالرحمن بن سعد بن عمار پر ضعیف اور منکر الحدیث کی جروحات نقل کر کے آخری میں امام ابن حجر عسقلانی سے فقط ضعیف کا حکم پیش کیا

اب یہ تو انکو بھی معلوم ہے کہ عبد الرحمن بن سعد کوئی متروک درجے کا راوی تو نہیں اور متابعت و شواہد میں قبول ہے
تو اپنے دعوے کے مطابق انہوں نے اس روایت کو ذبردستی "سخت ضعیف" بنانے کے لیے یہ اعتراض جڑ دیا کہ اسکی سند میں
ابو شعیب صالح بن شعیب البصری مجہول الحال ہے اور ہمارے بارے میں یہ کہا گیا کہ ہم نے البانی صاحب کی عبارت کو صحیح نہیں سمجھا
اور قسط دوم سے اسکے مجہول ہونے پر ہمارے پیش کردہ دلائل کا رد کرتے ہیں ہم پہلے اپنے مضمون کا وہ حصہ نقل کرتے ہیں جس میں البانی صاحب کا موقف بیان کیا تھا :

البانی صاحب یہ روایت اپنی تصنیف سلسلہ الضیعفہ میں لائے ہیں :
پہلے البانی صاحب کا کلام پیش کرتے
ہیں :
2207 - " إذا أذن في قرية آمنها الله من عذابه ذلك اليوم ".

ضعيف
رواه الطبراني (رقم 746) ، وفي الصغير (رقم 499) ، وفي " الأوسط " (54/2
) ، وأبو موسى المديني في " اللطائف " (40/2) عن بكر بن محمد القرشي: حدثنا
عبد الرحمن بن سعد بن عمار بن سعد عن صفوان بن سليم عن أنس بن مالك مرفوعا
. وقال الطبراني:
" لم يروه عن صفوان إلا عبد الرحمن، تفرد به بكر أبو همام ".
قلت: ولم أجد من ترجمه، وشيخه عبد الرحمن بن سعد ضعيف، كما في " التقريب "
، وبه أعله الهيثمي (1/328) ، ومع ذلك سكت عن الحديث في " التلخيص "
(1/208) .


یعنی البانی صاحب کہتے ہیں کہ میں انکا ترجمہ نہیں جان پایا یعنی (شیخ الطبرانی ) کا
اور عبدالرحمن بن سعد ضعیف ہے جیسا کہ حافظ نے تقریب میں کہا ہے اور مجمع الزوائد ہیثمی نے کہا ہے
اور التلخیص الجبیر میں امام ابن حجر عسقلانی نے سکوت کیا ہے اس روایت پر

نوٹ:
(یہاں البانی صاحب یہ کہنا چاہتے ہیں کہ جب امام ابن حجر عسقلانی نے تقریب میں راوی عبدالرحمن پر ضعف کی جرح کی ہوئی ہے تو اس راوی کی روایت پر سکوت کیون کیا ہے التلخیص الجبیر میں
یعنی یہ اشارہ ہے کہ امام ابن حجر عسقلانی اس روایت کو قبولیت کے درجے میں مانتے تھے تبھی کوئی جرح نہیں کی ہے اور اسکی وجہ البانی صاحب کو نہ ملی البتہ ہم آگے پیش کرینگے )
اسکو نقل کرنے کے بعد اخترسلفی صاحب ہمارا رد کرتے ہوئے لکھتے ہیں :
۱۔ آپکو عربی عبارت سمجھ نہین آئی ۔ علامہ البانی صاحب نے امام طبرانی کے شیخ کے بارے میں یہ نہیں کہا کہ مجھے اسکا ترجمہ نہیں مل سکا بلکہ بکر بن محمد القرشی کے بارے کہا ہے
۲۔ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ نے عبدالرحمٰن کو فقط تقریب میں ضعیف نہیں کہا بلکہ تلخیص الجبیر میں بھی ضعیف قرار دیا ہے متعد د جگہ



ہم کو غلطی نہیں لگی بلکہ غلطی البانی صاحب کو لگی یا جس نے نسخے میں عبارت میں گڑ بڑ ہے لیکن اختر سلفی صاحب پر افسوس کے انہوں نے بھی البانی صاحب کی عبارت کو من و عن مکمل نہ لکھا اگر لکھ دیتے تو البانی صاحب کی خطاء واضح دیکھ لیتے
جو روایت مذکورہ الطبرانی کی ہے اس پر جو تبصرہ امام طبرانی نے کیا اور جو البانی صاحب نے منسوب کیا امام طبرانی کی طرف اس میں فاحش خطاء ہے
جو بات آپ نے لکھی ہے البانی کے حوالے سے کیا امام طبرانی سے یہ بات ثابت ہے؟
میں بتاتا ہوں البانی صاحب نے کیا گڑبڑ کی ہے یا تسامح ہوا ہے جو بھی
امام طبرانی کا تبصرہ اس مذکورہ روایت پر یہ تھا :
لَمْ يَرْوِ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، إِلَّا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَعْدٍ، تَفَرَّدَ بِهِ: بَكْرُ بْنُ مُحَمَّدٍ
اس روایت کو صفوان بن سلیم سے کوئی بیان نہیں کرتا سوائے عبدالرحمن بن سعد کے اور تفرد ہے :::بکر بن محمد::: کا

البانی صاحب کیا لکھتے ہیں : وہ نقل کرتے ہیں


. وقال الطبراني:
" لم يروه عن صفوان إلا عبد الرحمن، تفرد به بكر أبو همام ".
قلت: ولم أجد من ترجمه، وشيخه عبد الرحمن بن سعد ضعيف، كما في " التقريب "
، وبه أعله الهيثمي (1/328) ، ومع ذلك سكت عن الحديث في " التلخيص "
(1/208) .
(السلسلہ الضعیفہ)

یہ بکر بن محمد سے تبدیل ہو کر یہ بکر ابو ھمام کہاں سے بن گیا ؟؟؟؟؟؟
میرے ذہن میں یہ تو تھا کہ یہ راوی ابو ھمام تو سند میں نہیں تو یہ تبھی میں نے سوچا کہ ولم اجد من ترجمہ وشیخہ ہوگا اور کومہ غلطی سے بعد میں لگ گیا اور یہ وہ طبرانی کے شیخ کی بات کر رہے ہیں ورنہ مجھے کیا ضرورت پڑی تھی امام طبرانی کے شیخ کی اتنی توثیق پیش کرنے کی جبکہ بکر بن محمد ثقہ راوی صدوق راوی ہیں

خیر اب ہم وہ دلائل دوبارہ پیش کرتے ہیں جو ہم نے الشیخ طبرانی کی ضمنی توثیق پیش کی تھی اصول محدثین کے مطابق اور بعد میں اس پر سلفی صاحب کا تبصرہ پیش کرکے انکا علمی تعاقب پیش کرینگے:
۱۔البانی صاحب کا پہلا اعتراض :امام طبرانی کا شیخ مجہول ہے

امام طبرانی کا شیخ مجہول نہیں بلکہ صدوق درجے کے ہیں
امام عینی انکا ترجمہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں :

1056 - صالح بن شعيب بن أبان الزاهد البصرى: يكنى أبا شعيب، أحد مشايخ أبى جعفر الطحاوى الذين روى عنهم وكتب وحدث، روى عن محمد بن المثنى وغيره، وذكره ابن يونس فى تاريخ الغرباء الذين قدموا مصر، وقال: قدم إلى مصر، وكُتب عنه، وخرج إلى مكة، وتوفى بها فى صفر سنة ست وثمانين ومائتين.

صالح بن شعیب بن ابان الزاھد البصری انکی کنیت ابو شعیب تھی یہ امام طحاوی کے مشایخ میں سے ایک تھے ان سے لکھا اور بیان کیا گیا ہے اور ان سے محمد بن المثنی وغیرہ نے روایت کیا ہے
امام ابن یونس نے اپنی تاریخ الغرباء میں ذکرکیا کہ یہ مصرف اائے اور جب یہ مصر آئے تو میں نے ان سے لکھا ہے پھر یہ مکہ چلے گئے یہ ۲۸۶ھ میں فوت ہوئے
(مغاني الأخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار، امام عینی )

امام ابن عبدالبر سے ضمنی توثیق :

امام ابن عبدالبر التمہید میں امام مالک بن انس سے ایک روایت نقل کرتے ہیں :

مالك عن الزهري عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك الفضل
اسکو نقل کرنے کے بعد کہتے ہیں :
لم يقله غير الحنفي عن مالك والله أعلم ولم يتابع عليه وهو أبو علي عبيد الله بن عبد المجيد الحنفي
کہ امام مالک سے زھری کے حوالے سے یہ راویت اس متن ادرک الفضل کو بیان کرنے میں ابو علی عبیداللہ الحنفی کی کوئی متابعت نہیں کرتا ہے
پھر امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں :

وسنذكر ما للفقهاء في هذا المعنى بعون الله إن شاء الله وقد روى هذا الحديث عن مالك حماد بن زيد
ہم فقھا سے اسکا معنی بھی اللہ کی مدد سے بیان کرینگے اور یہ بھی کہ یہ راویت مالک سے حماد بن زید بیان کرتے ہیں

پھر اسکی دلیل دیتے ہوئے امام ابن عبدالبر صالح بن شعیب (شیخ طبرانی) سےسند بیان کرتے ہیں :

حدثنا أحمد بن فتح قال حدثنا أحمد بن الحسن الرازي قال حدثنا** أبو شعيب صالح بن شعيب بن! زياد البصري** قال حدثنا إبرهيم بن الحجاج الشامي حدثنا حماد بن زيد عن مالك عن ابن شهاب عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من أدرك ركعة من الصلاة فقد *أدرك الصلاة**
امام ابن عبدالبر یہ روایت مالک کی جو بیان کرتے ہیں اس میں فقط ادرک الصلاتہ لفظ ہے نہ کہ ادراک الفضل
پھر امام ابن عبدالبر یہی روایت اپنے دوسرے شیخ سے صالح بن شعیب (شیخ طبرانی) سے بیان کرتے ہیں اس میں بھی وہی لفظ ہے جو اوپر حماد بن زید نے امام مالک سے بیان کیا ہے جسکو صالح بن شعیب روایت کرتے ہیں


وحدثنا خلف بن قاسم حدثنا أبو العباس أحمد بن الحسن بن إسحاق بن عتبة حدثنا
**أبو شعيب صالح بن شعيب بن أبان الزاهد** في شوال سنة إحدى وثمانين ومائتين قال حدثنا إبرهيم بن الحجاج الشام حدثنا حماد بن زيد عن مالك بن أنس عن ابن شهاب عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك الصلاة هذا هو الصحيح عن حماد بن زيد عن مالك
ومن قال فيه عن حماد عن مالك بهذا الإسناد من أدرك ركعة من الصبح الحديث فقد أخطأ


امام ابن عبدالبر ابو صالح شعیب بن ابان بن زاھد سے روایت بیان کر کے کہتے ہیں یہی صحیح ہے جسکو حماد بن زید نے نقل کیا ہےامام مالک سے اور جنہوں نے حماد سے مالک سے اسی سند سے ادرک رکعت صبح کی حدیث بیان کی ہے ان سے خطاء ہوئی ہے
(التمهيد لما في الموطأ من المعاني والأسانيد، جلد 7۔ ص 64)

امام ابن عبدالبر کا ابو صالح شعیب کی روایت کو باقی تمام صدوق راویان پر مقدم کرنا انکی ثقاہت کے لیے کافی ہے

اسکے بعد سلفیوں کے محقق نے امام الطبرانی کے شیوخ پر ایک کتاب لکھی ہے اس میں ابو صالح شعیب کا ترجمہ بیان کرتے ہوئے لکھتا ہے :
[496]
صالح بن شعيب أبو شعيب الزاهد البصري.
حدث عن: بكر بن محمد القرشي، وداود بن شبيب، وعبد الرحمن بن سعد بن عمار بن سعد، ونافع بن خالد الطاحي.
وعنه: أبو القاسم الطبراني بمصر في " معاجمه " ووصفه بالزاهد.
مات في صفر سنة ست وثمانين ومائتين.
- تاريخ الإسلام (21/ 191).
• قلت: (صدوق إن شاء الله(

(إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني ، المؤلف: أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري)
اس کتاب کو ابن تیمیہ مکتب والوں نے چھاپا ہے : الناشر: دار الكيان - الرياض، مكتبة ابن تيمية – الإمارات)
اتنے دلائل کے بعد بھی کوئی کہے کہ امام طبرانی کا شیخ مجہول ہے تو ایسے اپنے مولویوں کے مقلدین سے ہمارا کلام نہیں ہے

ہمارے ان دلائل جو کہ ہم نے أبو شعيب صالح بن شعيب بن أبان الزاهد کی ضمنی توثیق پر پیش کیے تھے انکو رد کرتے ہوئے
اختر سلفی صاحب زبردستی اس راوی کو مجہول الحال ثابت کرنے کے لیے جو دلائل پیش کیے وہ درج ذیل ہیں :

۱۔ آپ نے " ابو صالح شعیب" لکھا ہے جبکہ صحیح " ابو شعیب صالح" ہے
۲۔ آپ نے کہا کہ : امام ابن عبدالبر کا ابو صالح شعیب کی روایت روایت کو باقی تمام صدوق راویان پر مقدم کرنا انکی ثقاہت کے لیے کافی ہے
محترم: جیسا کہ آنے سمجھا ہے معاملہ ویسا نہیں ہے ۔ یہاں اما م ابن عبدالبر نے صالح بن شعیب کی روایت کو کسی بھی صدوق راوی پر مقدم نہیں کیا ہے اگر پھر بھی آپ کو لگتا ہے کہ مقدم کیا ہے تو آپ مجھے بتائیں کہ باقی تمام صدوق راویان کون ہیں جن کی روایت پر صالح بصری کی روایت کو مقدم کیا گیا ہے؟ ان میں صرف دو کا نام بتائیں آپ کا شکریہ
۳۔ کئی ائمہ کرام ضمنی توثیق کے قائل ہیں ، ان میں سے کسی ایک امام کا نام بتائیں جنہوں نے آپکی طرح سے کسی راوی کی ثچقاہت ثابت کی ہو ؟

پہلی بات جناب کی مہربانی ہے کہ ہم کو مطلع کیا ہے راوی ابو صالح شعیب نہیں بلکہ ابو شعیب صالح ہے
اور
ہمیں بہت ہی افسوس ہوا جناب اختر صاحب نے ہمارے دلائل کا رد کسی اصول سے کیا ہی نہیں بلکہ یہ لکھا دیا کہ ہم نے جو امام ابن عبدالبر سے توثیق ضمنی کی دلیل پیش کی ہے وہ غلط ہے اور معامہ ویسا نہیں جیسا ہم نے سمجھا ہے

لیکن عرض یہ ہے کہ معاملہ پھر کیسا تھا آپ ہی بیان کر کے ہماری خطاء ثابت کرتے لیکن یہ کام بھی آپ نے نہیں کیا یا پھر آپکو ہماری بات سرے سے سمجھ ہی نہیں آئی ہے کہ ضمنی توثیق پیش کی ہے تو کیسے کی ہے تبھی آپ نے ہم سے ہمار ے پیش کردہ طریقہ کی مثال پوچھی ہے جو کہ آپکی خواہش کے مطابق پوری کرینگے لیکن چلیں ہم آپکو پیش کرتے ہیں کہ امام ابن عبدالبر سے ابو صالح شعیب کی ضمنی توثیق کیسے ثابت ہے

جو روایت امام ابن عبدالبر نے امام مالک کے طریق سے زہری سے نقل کی تھی ہم انکی خواہش کے مطابق دو راویان کے نام پیش کرتے ہیں

پہلی روایت جو امام ابن عبدالبر نے لکھی تھی اسکی سند درج ذیل تھی !


وقد روى نافع بن زيد عن ابن الهاد عن عبد الوهاب بن أبي بكر عن ابن شهاب عن أبي سلمة بن عبد الرحمن عن أبي هريرة أن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك الصلاة وفضلها وهذه لفظة لم يقلها أحد عن ابن شهاب غير عبد الوهاب هذا وليس بحجة على من خالفه فيها من أصحاب ابن شهاب

امام ابن عبدالبر پہلے عبد الوھاب بن ابی بکر کی ابن شہاب سے روایت بیان کی اور کہا کہ یہ حجت نہیں جب امام زہری کے اصحاب اسکے مخالف بیان کرتے ہوں
یاد رہے عبد الوھاب بن ابی بکر ثقہ راوی ہیں جیسا کہ امام ذھبی انکے بارے فرماتے ہیں :
3514
- عبد الوهاب بن أبي بكر رفيع عن الزهري وعنه الدراوردي وغيره وثقه أبو حاتم د س
(الكاشف في معرفة من له رواية في الكتب الستة، امام ذھبی)


اسکے بعد امام ابن عبدالبر اس روایت کو ایک اور سند سے بیان کرتے ہیں جسکو امام لیث بیان کرتے ہیں

أن الليث بن سعد قد روى هذا الحديث عن ابن الهاد عن ابن شهاب لم يذكر في إسناده عبد الوهاب ولا جاء بهذه اللفظة أعني قوله وفضلها
پھر امام ابن عبدالبر فرماتے ہیں کہ اس میں وہ لفظ بیان نہیں ہیں جو عبدالوھاب بیان کیا ہے فضلھا

اسکے بعد اس روایت کی ایک اور سند بیان کرتے ہیں بن عبدالبر :

وقد روى عمار بن مطر عن مالك عن الزهري عن أبي سلمة عن أبي هريرة قال قال رسول الله صلى الله عليه وسلم من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك الصلاة ووقتها وهذا لم يقله عن ملك أحد غير عمار بن مطر وليس ممن يحتج به فيما خولف فيه
اور عمار بن مطر نے بھی امام مالک سے زہری کےطریق سے روایت بیان کی ہے جس میں وقتھا کے الفاظ ہیں امام ابن عبد البر کہتے ہیں امام مالک سے یہ کسی نے بیان نہیں کیا ہے سوائے عمار بن مطر کے اور یہ ایسے نہیں کہ جن سے احتجاج کیا جا سکے جبکہ یہ مخالفت کرتے ہیں
(نوٹ :عمار بن مطر مختلف فیہ ہے لیکن جمہور کے نزدیک ضعیف ہے )

اس کے بعد اس روایت کو ایک اور سند سے بیان کرتے ہیں ابن عبدالبر جو کہ یہ ہے ؛

وقد أخبرنا محمد بن عمروس ثنا علي بن عمر الحافظ حدثنا إبرهم بن حماد حدثنا يعقوب بن إسحاق القلزمي حدثنا أبو علي الحنفي حدثنا مالك عن الزهري عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك الفضل لم يقله غير الحنفي عن مالك والله أعلم ولم يتابع عليه وهو أبو علي عبيد الله بن عبد المجيد الحنفي

امام زہری کی روایت ابو علی عبیداللہ بن عبدالمجید الحنفی کے طریق سے نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں امام ابن عبدالبر :
کہ امام مالک سے یہ الفاظ نقل کرنے میں ابو علی الحنفی کی کوئی متابعت نہیں کرتا ہے

(نوٹ: ابو علی الحنفی صدوق درجے کے امام ہیں جیسا کہ امام ذھبی سیر میں فرماتے ہیں :
أبو علي الحنفي ( ع)
عبيد الله بن عبد المجيد ، الإمام الصدوق ، أخو أبي بكر الحنفي ،
(سیر اعلام النبلاء)


امام زہری کی ایک ہی روایت کو جس میں کچھ الفاظ میں تبدیلی آئی ہے اس میں امام زہری اور امام مالک کے اصحاب میں جن سے روایت بیان کرنے میں خطاْء ہوئی انکے طریق لکھے ہیں جن میں ثقہ و صدوق راویا ن ہیں جن میں دو کی تصریح ہم نے پیش کی ہے اب ان دو ثقات راوی کے برعکس جو صحیح روایت امام مالک سے مروی جسکو امام ابن عبدالبر نے صحیح قرار دیا ہے اسکی سند بیان کرتے ہیں امام ابن عبدالبر

وسنذكر ما للفقهاء في هذا المعنى بعون الله إن شاء الله وقد روى هذا الحديث عن مالك حماد بن زيد حدثنا أحمد بن فتح قال حدثنا أحمد بن الحسن الرازي قال حدثنا أبو شعيب صالح بن شعيب بن! زياد البصري قال حدثنا إبرهيم بن الحجاج الشامي حدثنا حماد بن زيد عن مالك عن ابن شهاب عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك الصلاة
وحدثنا خلف بن قاسم حدثنا أبو العباس أحمد بن الحسن بن إسحاق بن عتبة حدثنا أبو شعيب صالح بن شعيب بن أبان الزاهد في شوال سنة إحدى وثمانين ومائتين قال حدثنا إبرهيم بن الحجاج الشام حدثنا حماد بن زيد عن مالك بن أنس عن ابن شهاب عن أبي سلمة عن أبي هريرة عن النبي صلى الله عليه وسلم قال من أدرك ركعة من الصلاة فقد أدرك الصلاة

هذا هو الصحيح عن حماد بن زيد عن مالك ومن قال فيه عن حماد عن مالك بهذا الإسناد من أدرك ركعة من الصبح الحديث فقد أخطأ
(التمہید )
یہ علل کی بحث ہے اور اس میں امام ابن عبدالبر نے ابو علی الحنفی ، مطر اور عبدالوھاب کی روایتوں میں خطاء بیان کی ہے متن میں اور ان سب کے مقابلے میں جو جو روایت صحیح بیان کی ہے وہ حماد بن زید نے بیان کی ہے جسکو امام ابن عبدالبر نے مقدم کیا ہے
اور حماد بن زید کی روایت کی دونوں شیخ جس سے امام ابن عبدالبر نے ابو شعیب صالح بن شعیب بن ابن الزاھد کے طریق سے لکھ کر پھر روایت پر حکم بھی لگایا ہے کہ یہی صحیح ہے
اگر ابو شعیب صالح امام ابن عبد البر کے نزدیک غیر موثق راوی ہوتا تو امام ابن عبدالبر اس سے مروی روایت جو کہ حماد بن زید کی ہے اسکو کیسے مقدم کرتے دوسرے صدوق و ثقہ راویان کی روایت پر ؟

اگر اختر سلفی صاحب علل کی کتب کا مطالعہ رکھتے ہیں تو انکو یہ ہماری دلیل بہت پہلے ہی سمجھ آجانی چاہیے تھی اور اگر نہیں آئی تو بغیر اعتراض کیے ہماری دلیل کو رد کر دینا جس پر ہماری تحقیق کا مدار تھا تو جب اسکا رد ہی نہیں کیا تو ہمارے خلاف تین اقساط لکھنے کا کیا فائدہ تھا ؟؟؟

اب انکی ایک اور خواہش بھی پوری کر دیتے ہیں کہ جیسے ہم نے امام ابن عبدالبر نے ضمنی توثیق پیش کی ہے ایسی مثال ہم انکے گھر سے انکے ہی محققین کی کتاب سے پیش کر دیتے ہیں اور وہ بھی ابن عبدالبر کی طرف سے ضمنی توثیق کی دلیل پیش کرتے ہیں

اہل حدیث جماعت کے محقق العصر کہلانے والے سنابلی ہندی صاحب ہیں جنہوں نے سینے پر ہاتھ باندھنے پر ایک کتاب لکھی ہے اور اس کتاب کا مقدمہ اثری صاحب نے لکھا ہے اور اہل حدیث حضرات کے نزدیک اثری صاحب محدث العصر ہیں تو
سنابلی صاحب کی کتاب سے ضمنی توثیق کا نمونہ پیش خدمت ہے ؛
امام ابن عبدالبر نے انکی ایک سند سے ایک روایت نقل کر کے کہا ہے :

: ما ثبت عنہ من نقل الاحاد الاعدول فی زالک
ترجمہ: امام ابن عبدالبر کہتے ہیں اللہ کے نبی سے آپ کا یہ قول عادل راویوں کی روایت سے ثابت ہے
امام ابن عبدالبر نے مذکورہ بالا حوالے میں جس سند کے راویوں کی توثیق کی ہے اس میں ابو یعقوب الصیدلانی بھی موجود ہیں
اس سے ثابت ہوا کہ الصیدالانی بھی ثقہ راوی ہے

(انوار البدر ۳۳۴)

جناب کو معلوم ہو گیا ہوگا کہ ایک راوی کی روایت کی تصحیح تمام رجال کی توثیق ہوتی ہے اور انکے گھر سےثابت کیا ہے کہ ابن عبدالبر ایک روایت کی تصحیح کی ہے اور قول کو ثابت مانا ہے
جبکہ ہم نے اس سے بھی زیادہ مضبوط دلیل پیش کی ہے کہ امام ابن عبدالبر نے ابو صالح شعیب سے مروی حماد بن زید کی روایت کو دیگر ثقات پر مقدم کیا ہے اگر حماد بن زید کا طریق ہی غیر ثابت ہوتا تو مقدم کرنا کیسا ؟


اسکے بعد جناب نےسلفی محقق نایف اللہ کی کتاب سے جو ہم توثیق کے کلمات پیش کیے اسکو غلط قرار دے دیا اور مقدمہ سے المبی چوڑی عبارتیں نقل کرنے لگ گئے جن دلائل کو ہم نے پیش کیا ہے اسکا رد کیے بغیر جو ہم نے پیش ہی نہیں کیا اسکو بیان کرنا اور صفحے کالے کرنے سے کیا فائدہ ہونا ہے ؟
جبکہ ہم نے اوپر پیش کیا ہے ابو شعیب صالح جس سے امام ابو جعفر الطحاوی نے حدیث لی ہے اور امام ابن یونس ناقد نے بھی ان سے لکھا ہے
اور امام ابن عبدالبر نے ان سے مری مروایات کو مقدم کیا ہے اور اسکی بیان کردہ روایت کو دوسروں کے مقابلے صحیح قرار دیا ہے
ان دلائل کو چھوڑ کر الزامی حوالے کے گرد بات گھمانا کونسی عقلمندی ہے جناب

تو ہمارے دلائل آج بھی ثابت ہیں اور اس پر ہمارے مخالف نے تین اقساط پر مبنی تحریر میں ضمنی توثیق کے دلائل پر کوئی رد نہیں کیا فقط سفید انکار کرنے کے ورنہ انکا حق بنتا کہ ہم کو بتاتے کہ ہم نے ضمنی توثیق پیش کرنے میں کونسے اصول کی خلاف ورزی کی تھی ؟
پس ثابت ہوا بو شعیب صالح ثقہ راوی ہیں اور اس روایت میں فقط ایک ہی ضعف ہے کہ عبدالرحمن بن سعد ضعیف راوی ہے
لیکن
آگے چل کر جناب اختر سلفی صاحب لکھتے ہیں :

۱۔ سعد بن عبدالرحمن الموزن یہ ضعیف منکر الحدیث راوی ہے جیسا کہ ائمہ کرام نے کہا ہے
۲۔ اس سند میں ایک نہین متعدد علتیں ہیں

جناب ہماری تحریر سے راوی کے نام آگے پیچھے ہونے پر آپ نے سرخی لگا کر ہم کو مطلع کیا تھا لیکن آپ خود اسی خطاء میں پھنس گئے
راوی کا نام عبد الرحمن بن سعد ہے نہ کہ سعد بن عبدالرحمن خیر تحریر میں اتنی چھوٹی موٹی بھول چوک تو ہو ہی جاتی ہے
لیکن ہم نے آپکا تعاقب اصول اور منہج پر کرنا ہے نہ کہ عربی عبارات اور لفظی اغلاط پر
تو عبدالرحمن بن سعد کے بارے آپ نے کہا کہ یہ منکر الحدیث ضعیف راوی ہے جبکہ یہ جرح ذھبی نے لکھی ہے لیکن یہ راوی تو ضعیف ہے
جیسا کہ آپ نے خود تقریب کا حوالہ دیا ہے جو کہ ابن حجر کا ہے اور وہ امام ذھبی کے بعد کے امام ہیں جب انہوں نے اس راوی کو فقط ضعیف لکھا ہے تو آپکا دعویٰ کرنا کہ یہ منکر الحدیث ضعیف ہے تو متابعت و شواہد کے قابل نہیں تو یہ بات آپکی اصول اور منہج سے نا واقفیت کی دلیل ہے
ہم کچھ انکے گھر سے پھر محدثین سے ثبوت پیش کرتے ہیں کہ عبد الرحمن بن سعد فقط ضعیف راوی ہے جیسا کہ ابن حجر کا فیصلہ ہے
انکے مبارکپوری لکھتے ہیں ایک روایت کے بارے :

وفي الباب عن عبد الرحمن بن سعد بن عمار بن سعد مؤذن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال حدثني أبي عن أبيه عن جده أن رسول الله صلى الله عليه وسلم أمر بلالا أن يجعل إصبعيه في أذنيه قال إنه أرفع لصوتك أخرجه بن ماجه وهو حديث ضعيف

مبارکپوری صاحب نے روایت کو عبد الرحمن بن سعد کی وجہ سے حدیث کو فقط ضعیف کہا ہے نہ کہ ضعیف جدا یا منکر جدا
(تحفة الأحوذي بشرح جامع الترمذي ص 504)

انکے علامہ شوکانی صاحب امام عراقی کے حوالے سے نقل کرتے ہیں :

دِيثُ سَعْدٍ الْمُؤَذِّنِ وَهُوَ سَعْدُ الْقَرَظِ أَخْرَجَهُ ابْنُ مَاجَهْ عَنْ هِشَامِ بْنِ عَمَّارٍ عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ عَمَّارِ بْنِ سَعْدٍ مُؤَذِّنِ رَسُولِ اللَّهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ «أَنَّ رَسُولَ اللَّه - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يُكَبِّرُ فِي الْعِيدَيْنِ فِي الْأُولَى سَبْعًا قَبْلَ الْقِرَاءَةِ، وَفِي الْآخِرَةِ خَمْسًا قَبْلَ الْقِرَاءَةِ» قَالَ الْعِرَاقِيُّ: وَفِي إسْنَادِهِ ضَعْفٌ
عبد الرحمن بن سعد سے مروی روایت کے بارے امام عراقی فرماتے ہیں کہ سند میں کمزوری ہے
(نيل الأوطار علامہ شوکانی ، جلد 3 ص 354)

اور امام ہیثمی نے بھی اسکی تضعیف ہی لکھی ہے جیسا کہ ایک روایت کے حکم کے بارے فرماتے ہیں :

، وفيه عبد الرحمن بن سعد بن عمار وهو ضعيف.
(مجمع الزوائد برقم: 1898)

بلکہ خود انکے محدث اعظم البانی صاحب بھی عبدالرحمن بن سعد کو فقط ضعیف ہی مانتے ہیں
جیسا کہ ہو ایک جگہ ایک روایت کے بارے کہتے ہیں :

4 - عن سعد القرظ المؤذن " أن رسول الله صلى الله عليه وسلم كان إذا خطب في الحرب خطب على قوس، وإذا خطب في الجمعة خطب على عصا ". أخرجه البيهقي (3 / 206) ، وفيه عبد الرحمن بن سعد بن عمار وهو ضعيف.
( سلسلة الأحاديث الضعيفة)

تو امام ابن حجر کے تقریب کے حکم کے مطابق عبدالرحمن بن سعد فقط ضعیف راوی ہی ہے اور ضعیف راوی متابعت و شواہد میں قبول ہوتا ہے لہذا آپ کا روایت کو بار بار سخت ضعیف کہنا باطل اور منہج محدثین کے خلاف ہے
اور دوسری ابن عساکر کی روایت جو ہم نے پیش کی تھی جسکی سند و متن یہ تھی
أخبرنا أبو الحسن الفقيه نا عبد العزيز الكتاني أنا أبو بكر أحمد بن طلحة بن هارون المعروف بابن المنقي الواعظ نا أحمد بن سلمان النجاد نا محمد بن عبد الله بن سليمان نا علي بن بهرام الكوفي نا عبد الملك بن أبي كريمة عن عمرو بن قيس عن عطاء عن أبي هريرة قال قال رسول الله (صلى الله عليه وسلم) نزل ادم بالهند واستوحش فنزل جبريل فنادى بالأذان الله أكبر الله أكبر أشهد أن لا إله إلا الله مرتين أشهد أن محمدا رسول الله مرتين قال ادم من محمد قال اخر ولدك من الأنبياء

اس روایت کی سند میں ہم نے کہا تھا کہ فقط ایک راوای مجہول الحال ہے
اور اس بات سے ہمارے ساتھ اتفاق بھی کیا اختر سلفی صاحب جیسا کہ لکھتے ہیں :
۱۔ سند کے تعلق سے اسد الطحاوی کی بات بالکل ٹھیک ہے

تو ہم نے البانی صاحب کے منہج پر ثابت کر دیا کہ یہ روایت بالکل حسن لغیرہ درجے کی ہے
چونکہ ایک روایت میں عبدالرحمن بن سعد ضعیف اور دوسری روایت میں علی بن بھرام مجہول الحال ہے
باقی انکا یہ بہانہ کہ اس روایت کا متن علیحدہ ہے یا اور باب کا ہے اس پر آخر میں مدلل جواب دیا جائے گا

پھر ہم نے اپنی تحریر میں یہ ثابت کیا تھا کہ البانی صاحب نے احمد بن سلمان ابو بکر النجاد کے مشہور شیخ محمد بن عبداللہ مطین کی بجائے کسی مجہولیے کو میزان سے ترجمہ نکال کر سند میں گھسیڑ دیا جو کہ البانی صاحب کی علمی خیانت تھی
جسکا دفاع کرتے ہوئے اختر سلفی صاحب لکھتے ہیں :
آپ نے مھإد بن عبداللہ بن سلیمان کا جو تعین کیا ہے ہو بلاشبہ صحیح ہے
لیکن البانی صاحب نے اس روایت کے متعلق نہ ہی خیانت کی ہے نہ ہی بہانا بنایا ہے آپ کی غلط فہمی ہے
خیانت تو اس وقت ہوتی جب البانی صاحب جان بوجھ کرعلم رکھتے ہوئے ایسا کیا ہوتا ۔
کیا آپ یہ بات ثابت کر سکتے ہیں کہ علامہ البانی محمد بن عبداللہ بن سلیمان کی بابت جانتے تھے کہ یہ مطعین ہیں پھر بھی انکو دوسراراوی بتایا ہے ؟اگر آپ نے ثابت کر دیا تو آپ انے دعوے میں سچے مانے جائیں گے ، ورنہ یہ دیاد رکھیں! آپ کی بد زبانی کی ہے آپ نے البانی کی شان میں گستاخی کی ہے ۔ اللہ کے واسطے اس طرح کی حرکت نہ کریں ۔
اور رہی بات تعین شدہ کی تو اس کی بابت عرض ہے کہ تعین شدہ تو اس وقت ہوتا جب علامہ البانی کو احلیتہ الولیا کا حوالہ ملا ہوتا کیونکہ وہاں محمد بن عبداللہ کے ساتھ انکی نسبت بھی لکھی ہوئی ہے لیکن تاریخ دمسق میں نہیں لکھی ہوئی ہے
میں علی وجہ البصیرہ یہ بات کہہ سکتا ہوں کہ اگر امام البانی حلیہ اولیاء والے حوالے کا علم رکھتے تو آپ ابن سلیمان کو مطین ہی مانتے

الجواب (اسد الطحاوی)

ہم سب سے پہلے البانی صاحب النجاد کا تعارف پیش کرتے ہیں تاکہ جناب کو پتہ چلے کہ البانی صاحب النجاد کے حالات زندگی پر مکمل دسترس رکھتے تھے چناچہ البانی صاحب اپنی تصنیف میں ابو ابکر النجاد کا مکمل تعارف بیان کرتے ہوئے لکھتے ہیں ؛

(فائدة) : النجاد الذى عزا إليه الحديث مؤلف الكتاب هو أحمد بن سلمان بن الحسن أبو بكر الفقيه الحنبلى , يعرف بالنجاد , وهو حافظ صدوق جمع المسند , وصنف فى السنن كتاباً كبيراً , روى عنه الدارقطنى وغيره من المتقدمين , ولد سنة (253) فيما قيل , وتوفى سنة (348) .
ولعل هذا الحديث فى مسنده أو سننه المشار إليهما. ولكن من المؤسف أننى لم أقف عليهما حتى أراجع إسناده فيهما , نعم قد حفظت لنا المكتبة الظاهرية فى جملة ما حفظته لنا من كنوز السلف الثمينة عدة أجزاء صغيرة من حديث أبى بكر النجاد وأماليه تبلغ العشرة , وقد كنت استخرجت أحاديثها وسجلتها عندى فى " معجم الحديث " , فلما رجعت إليه لم أر الحديث فيه.


النجاد یہ صاحب کتاب ہے جو کہ احمد بن سلیمان بن الھسن ابو بکر الفقیہ الحنبلی ہہے جو کہ النجاد کے نام سے معروف ہے یہ صدوق ہے
اس نے المسند جمع کی اور سنن پر بڑی کتب مرتب کی ہیں اور ان سے امام دارقطنی اور متقدمین وغیرہ نے روایت کیا ہے
یہ 253ھ میں پیدا ہوئے اوار 348ھ میں وفات پائی
اور شاید یہ حدیث جو ہے یہ اسکی مسند یا سنن میں اشارہ کیا ہے ان دونوں میں سے کسی ایک میں ہوگی لیکن افسوس ہے مجھے اسکی سند کے بارے میں پتہ نہیں چلا لیکن مکتبہ ظاہریہ نے سلف کے قیمتی خزانوں کو جمع کر دیا چھوٹے چھوٹے اجزاءابو بکر النجاد کی احادیث اور الامالی کو جسکی تعداد تقریبا ۱۰ ہے اور مین نے انکی احادیث کی تخریج کر دی اور جمع کر دیا معجم الحدیث میں لیکن مجھے یہ حدیث نہیں ملی ہے
(إرواء الغليل في تخريج أحاديث منار السبيل البانی ، جلد ۳ ص ۴۰)

تو جناب کو یہ معلوم ہو گیا کہ البانی صاحب نہ کہ النجاد کے بارے مکمل تحقیق رکھتے تھے بلکہ انکی تمام کتب احادیث کو بھی جانتے تھے

اب البانی صاحب سے مطین محمد بن عبداللہ الحرضمی کے بارے تعارف پیش کرتے ہیں ؛
اپنی تصنیف میں ایک روایت کی سند بیان کرتے ہیں :
فقال الطبراني في "معجمه " (1/ رقم 844) : حدثنا محمد بن عبد الله الحضرمي: ثنا مَعمَرُ بنُ بكَّار السَّعدي: ثنا إبراهيم بن سعد عن الزهري عن عبد الرحمن بن أبي بكرة به نحوه.
قلت: وهذا إسناد رجاله ثقات؛ غير معمر بن بكار السعدي، قال العقيلي
في "الضعفاء" (4/207) :
"في حديثه وهم، ولايتابع على أكثره ".
وذكره ابن أبي حاتم (4/ 1/259) دون تجريح أو تعديل.
وأما ابن حبان؛ فذكره في "الثقات " (9/196
الحاكم صحح له هذا الحديث؛ فإنه رواه (3/615) من طريق الحضرمي - وهو (مطين) - عنه، وقال عقبه:
البانی صاحب امام طبرانی کے طریق سے محمد بن عبداللہ الحرضمی کی روایت بیان کرتے ہیں اور آخر میں الحضرمی کے بارے تصریح کرتے ہیں کہ یہ مطین ہے
(سلسلہ الصحیحیہ برقم : 1739)

اور دوسری جگہ لکھتے ہیں :
" محمد بن يوسف الأنباري؛ حدث عن أبي النضر هاشم بن القاسم، روى عنه محمد بن عبد الله مُطَيّن الكوفي".
(سلسلہ الصحیحیہ )

یعنی البانی صاحب کو یہ مکمل معلوم تھا کہ محمد بن عبداللہ الحرضمی مطین الکوفی ہے
اور اسکے طبقے کو بھی جانتے پہچانتے تھے

ایک جگہ البانی صاحب النجاد کی کتاب کا ذکر کرتے ہوئے لکھتے ہیں :


1746 - " أتاني جبريل، فقال: إن ربي وربك يقول لك: تدري كيف رفعت لك ذكرك؟ قلت: الله أعلم، قال: لا أذكر، إلا ذكرت معي ".
ضعيف.
أخرجه أبو يعلى في " مسنده " وابن حبان (1772) وابن جرير في " تفسيره " (30 / 235) وأبو بكر النجاد الفقيه في " الرد على من يقول: القرآن مخلوق " (ق 96 / 1)

ایک روایت کی تخریج کرتے ہوئے البانی صاحب لکھتے ہیں اسکو ابو بکر النجاد الفقیہ نے اپنی تصنیف الرد علی من یقول القرآن مخلوق میں درج کیا ہے

اب ہم پیش کرتے ہیں اس تصنیف میں امام النجاد نے محمد بن عبداللہ بن سلیمان الحرضمی سے متعدد روایات لی ہیں
44 - ثَنَا أَحْمَدَ قَالَ ثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَان بلخ۔۔۔۔
اور متعدد روایات لی ہیں نمونے کےطور پر ایک پیش کر دی

اور امالی جسکا ذکر البانی صاحب سے پہلے پیش کیا ہے اس میں بھی النجاد نے مطین کی تصریح کے ساتھ روایت لی ہے
18 - حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ الْكُهَيْلِيُّ، بِالْكُوفَةِ، نَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ مُطَيَّنٌ،
حَدَّثَنَا أَحْمَدُ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سُلَيْمَانَ , ثنا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلاءِ
(امالی النجاد)


تو اتنے واضح دلائل کے بعد آنکھیں بند کرنا کہ البانی صاحب کو معلوم نہیں تھا یہ بات دلائل کے سامنے باطل ہے بلکہ النجاد اور مطین دونوں کے طبقات کو جانتے تھے لیکن حدیث کو فقط سخت ضعیف ثابت کرنے کے لیے میزان سے ایک راوی اٹھا لیا گیا
پارٹ ۱
 
شمولیت
ستمبر 15، 2018
پیغامات
164
ری ایکشن اسکور
43
پوائنٹ
54
اسکے بعد جناب سلفی صاحب کے نہایت حیران کردینے والی عبارات دیکھیں ہمیں معلوم ایسے ہوتا ہے کہ فقط ہمارے رد میں زبردستی کوشش کرنے کی وجہ سے انکی باتوں میں ایسے تضاد پید اہو گئے کہ پہلے ہمیں سمجھ نہ آئی کہ سلفی صاحب کا موقف کونسا ہے اور کونسا نہیں ہے جیسا کہ یہاں ثبوت ذکر کرتے ہیں

پھر تیسری روایت کو البانی صاحب نے عبدالرزاق اور طبرانی کے حوالے سے نقل کی تھی جس پر ہم نے تحقیق اور تبصرہ پیش کی تھا وہ عبارت یہ تھی :
اسکے بعد البانی صاحب اس باب میں شاہد کے طور پر ایک اور روایت اسی کے نیچے لاتے ہیں :

وخالفه عبد الرزاق، فقال في " المصنف " (1/481/1873) : عن صفوان بن سليم عن
محمد بن يوسف بن عبد الله بن سلام عن عبد الله بن سلام قال:
" ما أذن في قوم بليل إلا أمنوا العذاب حتى يصبحوا، ولا نهارا إلا أمنوا
العذاب حتى يمسوا ".
قلت: وهذا موقوف ضعيف؛ محمد بن يوسف لا يتابع على حديثه؛ كما قال البخاري،
وليس له رواية عن جده.

اس روایت میں یہ علت پیش کرتے ہیں کہ ایک تو یہ موقوف ہے اور سند بھی ضعیف ہے
کیونکہ محمد بن یوسف اسکی حدیث مین کوئی متابعت نہیں کرتا ، اور امام بخاری کہتےہیں کہ اسکی اپنے دادا سے کوئی روایت نہیں ہے (یعنی دادا سے سماع کی نفی کی ہے امام بخاری نے )


پھر اسی روایت کے مرفوع سند بھی ذکر کرتے ہیں مصنف عبدالرزاق (یہاں طبرانی کی بجائے عبدالرزاق کا نام غلطی سے لکھا تھا )سے :

ورفعه حبان بن أغلب بن تميم عن أبيه بسنده عن معقل بن يسار مرفوعا.
أخرجه الطبراني (20/215/498) .
وحبان بن أغلب ضعيف، وأبو هـ أشد ضعفا. قال البخاري:
" منكر الحديث ".

امام طبرانی اس روایت کو رفعہ بن حبان بن اغلب کے طریق سے اپنے والد سے باسند معقل بن یسارسے مرفوع بیان کرتے ہیں

پھر اس روایت میں علت بیان کرتے ہیں :
حبان بن اغلب یہ ضعیف راوی ہے اور اسکا والد یہ شدید ضعیف ہے

البانی صاحب کی تحقیق کا خلاصہ :

البانی صاحب نے ایک مرفوع روایت امام طبرانی سے پیش کی جس میں ایک سے ذائد علتیں ہیں انکے نزدیک کہ امام طبرانی کا شیخ مجہول ہے انکے نزدیک اور عبد الرحمن بن سعد ضعیف ہے
اور
اسی باب میں دوسری روایت جو عبدالرزاق کے حوالے سے ہے وہ موقوف ہے اور سند منقطع ہے
لیکن اس روایت میں بھی اختلاف ہے
ایک طریق امام طبرانی سے اس روایت کو بیان کرتے ہیں جو کہ مرفوع ہے لیکن اس میں متروک درجے کا ایک راوی ہے اور دوسری علت اسکا پوتا بھی ضعیف ہے

اب البانی صاحب کا منہج جمہور محدثین کے موافق ہے کہ وہ حسن لغیرہ کے قائل ہیں یعنی ضعیف + ضعیف = حسن لغیرہ

لیکن اس روایت کو حسن لغیرہ اس لیے قرار نہیں دیا کہ
ایک راویت مرفوع ہے جس میں ۲ علتیں ہیں لیکن اسکے باوجود اس جیسی کوئی مرفوع روایت نہیں جو شاہد کے طور پر اس روایت کو تقویت دے (البانی صاحب کے نزدیک)
دوسری موقوف ہے لیکن اس میں سند منقطع ہے
اور اسی روایت میں بھی اختلاف ہے کچھ مرفوع اور کچھ موقووف بیان کرتے ہیں مختلف اسناد سے جس سے روایت میں ضعف میں اضافہ مزید ہوجاتا ہے اور یہ ضعف خفیف سے شدید میں تبدیل ہو جاتا ہے البانی کے نزدیک
(سلسلة الأحاديث الضعيفة والموضوعة وأثرها السيئ في الأمة، البانی ، برقیم : 2207)

ہمارے اس کلام پر اختر سلفی صاحب ہمارا تعاقب کرنے کی کوشش میں لکھتے ہیں :

آپ پھرعبارت نہیں سمجھے ہیں اور لکھ دیا کہ :
امام بخاری کہتے ہیں کہ اسکی اپنے دادا سے کوئی روایت نہیں ہے
محترم! امام بخاری نے اپنی کسی کتاب میں محمد بن یوسف کی بابت یہ بات نہیں کہی ۔
بلکہ امام بخاری نے تاریخ الکبیر میں محمد بن یوسف کے ترجمہ میں ان کی ایک روایت ذکر کر نے کے بعد فرمایا
یہ حدیث میں نزید صحیح نہیں ہے
(تاریخ الکبیر )
اور باقی رہی یہ بات کہ محمد بن یوسف کی اپنے دادا سے روایت نہیں یہ البانی صاحب کا قول ہے جسکو طھاوی صاحب نے امام بخاری کا قول بنا دیا
اور جو طحاوی صاحب نے لکھا کہ : اس روایت کی مرفوع سند بھی ذک کرتے ہیں مصنف عبدالزاق سے سے
تو محترم عبداللہ ب سلام کی موقوف رواتی کی وکئی مرفوع سند مصنف عبدالرزاق میں نہیں ہے


سب سے پہلی بات یہ ہے جو میں نے عبارت لکھی اور نیچے البانی صاحب کا حوالہ طبرانی سے دیا تو اس سے پہلے سرخی میں طبرانی کی بجائے عبدالرزاق کا نام لکھ دیا جو کہ لفظی غلطی ہے جیسا کہ دیکھ سکتے ہیں :

طبرانی کی بجائے عبدالرزاق کا نام لکھا دیا تو یہ لفظی غلطی ہے جسکی تصحیح کرنے پر انکی مہربانی لیکن مسلہ یہ ہے سلفی صاحب عبارات اور لفظیوں غلطیوں سے نقل کر منہج اور اصول پر رد لکھنے میں نام کام رہے جسکا ہم کو افسوس ہے

جیسا کہ میں نے لکھا تھا کہ طبرانی کی روایت جو مرفوع ہے اس میں متروک درجے کا راوی ہے
جس پر آپ نے میری بات کا رد کرتے ہوئے لکھا کہ :
محترم: امام طبرانی والی مرفوع سند میں کوئی متروک راوی نہیں ہے

سب سے پہلے امام طبرانی جو مرفوع روایت کی تخریج کرتے ہیں اسکی سند پیش کرتے ہیں ہم:
498 - حدثنا عبدان بن أحمد، وأبو عبيدة عبد الوراث بن إبراهيم، قالا: ثنا داود بن بكر التستري، ثنا حبان بن أغلب بن تميم، عن أبيه، عن المعلى بن زياد، عن معاوية بن قرة، عن معقل بن يسار، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «أيما قوم نودي فيهم بالأذان صباحا إلا كانوا في أمان الله حتى يمسوا، وأيما قوم نودي عليهم بالأذان مساء إلا كانوا في أمان الله حتى يصبحوا»

اب اس مرفوع روایت کی سند پر البانی صاحب نے کیا جرح لکھی تھی ؟
وہ بھی نقل کردیتے ہیں :
ورفعه حبان بن أغلب بن تميم عن أبيه بسنده عن معقل بن يسار مرفوعا.
أخرجه الطبراني (20/215/498) .
وحبان بن أغلب ضعيف، وأبو هـ أشد ضعفا. قال البخاري:
" منكر الحديث ".

آپکے البانی صاحب لکھتے ہیں کہ حبان بن اغلب ضعیف ہے اور انکا والد شدید ضعیف(متروک) ہے
امام بخاری نے انکے بارے منکر الحدیث کہا ہے
نوٹ: امام بخاری کی طرف سے منکر الحدیث جرح سخت ہوتی ہے

تو جب مرفوع روایت جو طبرانی کی ہے اسکی سند میں متروک راوی ہے تو متروک راوی کی وجہ سے دوسری سند سے جو موقوف روایت ہے جس میں کوئی متروک راوی بھی نہیں تو وہ روایت کیسے شدید ضعیف بن سکتی ہے
؟؟؟؟
تبھی میں نے کہا تھا کہ مرفوع روایت کی سند میں ایک متروک راوی ہے جسکی وجہ سے حدیث میں اضطراب پیدا نہیں کیا جا سکتا جیسا کہ البانی صاحب یا آپ نے روایت میں شدید ضعف پیدا کرنے کی کوشش کی ہے
تو ہم سے یہ غلطی ہوئی کہ ہم نے پچھلی تحریر میں البانی صاحب کی جروحات پر یقین کر بیٹھے اور امام بخاری کی طرف اصل کتب کی طرف رجوع نہ کیا وہ اس وجہ سے کہ
اصل میں امام طبرانی کی حضرت انس سے مروی اور دوسری ابن عساکر کی روایت حسن لغیرہ بننے کی سبب کی وجہ سے ہم نے عبدالرزاق کی روایت پر کوئی خاص مدلل تحقیق کرنے کی ضرورت نہیں سمجھی تھی لیکن خیر سے یہ کام بھی اب پور کر دیتے ہیں :؎

اور جو موقوف روایت ہے عبدالرزاق کی وہ یہ ہے ؛

1873 - عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ صَفْوَانَ بْنِ سُلَيْمٍ، عَنْ مُحَمَّدِ بْنِ يُوسُفَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ سَلَامٍ قَالَ: مَا أُذِّنَ فِي قَوْمٍ بِلَيْلٍ إِلَّا أُمِنُوا الْعَذَابَ حَتَّى يُصْبِحُوا، وَلَا نَهَارًا إِلَّا أُمِنُوا الْعَذَابَ حَتَّى يُمْسُوا
(مصنف عبدالرزاق برقم :1873)

محمد بن یوسف کے بارے البانی صاحب نے لکھا ہے کہ امام بخاری نے کہا اسکی کوئی متابعت نہیں کرتا اور اسکی روایت صحیح نہیں
جبکہ یہ بات مطلق نہیں ایک خاص روایت کے تحت لکھی ہے امام بخاری نے جیسا کہ انکا کلام یوں ہے :
وَقَالَ لِي الحِزامِيُّ: حدَّثنا مُحَمد بْنُ صَدَقَة، سَمِعَ عُثمان بْنُ الضَّحّاك بْنِ عُثمان، أَخبرني مُحَمد بْن يُوسُف بْن عَبد اللهِِ بْن سَلاَم، عن أَبيه، عن جَدِّهِ: لَيُدفَنَنَّ عِيسَى بن مَريَم مَعَ النَّبيِّ صَلى اللَّهُ عَلَيه وسَلم فِي بَيْتِهِ.
قَالَ مُحَمد: هذا لا يصح عِنْدِي، ولا يُتابَعُ عليه.
قال يحيى عن ابن عجلان: حدثني محمد بن يوسف بن عبد الله بن سلام عن أبيه أنه سمع عبد الله بن الزبير قوله في " الصلاة "
امام بخاری نے یہ ایک خاص روایت کےتحت یہ بات لکھی اور اس سے یہ بھی واضح ہوا کہ امام بخاری نے محمد بن یوسف کا انکے دادا سے سماع کی نفی بھی نہیں کی ہے بلکہ یہ خاص اس روایت کے تحت ہے
پھر اس روایت کے بارے ابن عجلان کے طریقے سے امام بخاری نقل کرتے ہیں محمد بن یوسف اپنے والد ابن زبیر کےطریق سے سنا ہے
جس میں لفظ فی صلاتہ ہے مخصوص جرح ہے یہ روایت کی نہ کہ مطلق دادا سے سماع کی نفی کی ہے

جبکہ محمد بن یوسف اپنے دادا سے روایت کرتے تھے اور محدثین نے انکے شیوخ میں انکے دادا کا ذکر کیا ہے جیسا کہ امام ابن حبان انکو الثقات میں درج کرتے ہوئے لکھتے ہیں :

5240 - محمد بن يوسف بن عبد الله بن سلام يروي عن أبيه عن جده روى عنه الضحاك بن عثمان وليوسف صحبة

محمد بن یوسف بن عبداللہ بن سلام یہ اپنے والد اور دادا سے روایت کرتے ہیں
(الثقات ابن حبان )
تو ہم نے البانی صاحب کے کلام سے دھوکا کھایا جبکہ موقوف روایت میں کوئی انقطاع بھی نہیں ہے

حاصل کلام یہ ہے کہ یہ روایت موقوف ہے اور اسکی سند میں مقبول راوی ہے جو کہ لین ہوتا ہے متابعت و شواہد میں اسکی روایت مقبول ہوتی ہے اور یہ روایت حضرت انس سے مروی روایت کی شاہد ہے
خلاصہ :

عبدالرحمن بن سعد فقط ضعیف راوی ہے جیسا کہ جمہور نے بیان کیا ہے اور یہ خود بھی ابن حجر سے یہی مانتے ہیں اور البانی صاحب بھی
اور امام طبرانی کے شیخ ثقہ ہیں جیسا کہ ضمنی توثیق اور انکے سلفی محقق سے گواہی پیش کی
اور ابن عساکر کی روایت میں فقط علی بن بھرام مجہول الحال راوی ہے اور کوئی ضعف نہیں ہے اس پر انکا بھی اتفاق ہے
تو یہ روایت معمولی ضعف کی وجہ سے تقویت پا کر حسن لغیرہ البانی صاحب کے منہج پر ثابت گئی ہیں
اور عبدالرزاق کے حوالے سے موقوف روایت بھی تقویت دیتی ہے جس میں فقط مقبول درجے کا ایک راوی ہے یعنی مجہول الحال

اسکے بعد جناب نے تیسری قسط میں بکر بن محمد القرشی کا تعین اور توثیق کا ذکر کیا ہے
سلفی صاحب جو اعتراضات کیے انکو مختصر نقل کرتے ہیں :
۱۔ آپ نے کہا اسی طبقے میں یہ ایک ہے تو پہلے اس راوی کا طبقہ متعین کریں

۲۔ بکر بن محمد القرشی کا نام متعدد کتب میں بغیر کمی زیادتی کے لیا گیا ہے
جبکہ بکر بن محمد القزاز البصری کے نام میں کمی زیادتی کی گئی ہے

۳۔ کسی نے بھی صالح بن شعیب کے شیوخ میں بکر بن محمد القزاز نام نہیں لکھا وغیرہ وغیرہ


سب سے پہلی دلیل جو دی کہ امام طبرانی نے نام کےساتھ کمی زیادتی نہیں کی یہ کوئی دلیل نہیں ہے اور نہ ہی کوئی اصول ہے تعین کو رد کرنے کا تو اس اعتراض کو آپ سنبھال کر رکھ لیں شاید کام آئے

باقی رہا کہ آپکا یہ مطالبہ کہ کس نے بھی بکر بن محمد القزاز کے ساتھ القرشی نہیں لکھا وغیرہ تو یہ ناقص تحقیق ہے میں نے خطیب بغدادی سے ایک حوالہ پیش کرتا ہوں جہاں انہوں نے مکمل نام لیا ہے راوی کا

امام خطیب بغدادی ایک روایت نقل کرتے ہیں تاریخ میں جسکی سند یوں ہے :

أخبرنا بشرى، قال: حدثنا عبد الله بن إسحاق بن يونس بن إسماعيل المعروف بابن دقيش في سنة اثنتين وستين وثلاث مائة، وحضر ذلك محمد بن إسماعيل الوراق، قال: ؟ََِِِِِِِْـ ـ حدثنا بكر بن محمد بن عبد الوهاب القزاز القرشي، بالبصرة، ـ ـ قال: بلخ۔۔۔۔۔۔
(تاریخ بغداد ، برقم:4980)
جناب غور سے پڑھ لیں بکر بن محمد بھی ہے القزاز بھی موجود ہے القرشی بھی اور یہ ہیں بھی بصرہ کے
تو جناب کے جتبے قیاس تھے سب زمین بوس ہو گئے

لیکن جناب نے ہم سے بار بار طبقے کی فرمائش کی ہے تو جناب کو بتا دیتے ہیں کہ طبقے سے مراد کیا ہے ہماری

امام الطبراني، أبو القاسم (260 ھ تا360ه)
امام طبرانی کی عمر 100 سال کے لگ بھگ تھی
اور امام طبرانی امام ابو جعفر الطحاوی کے بھی شاگرد ہیں اور اور امام طحاوی کی عمر 82 سال کی تھی
جیسا کہ انکی پیدائش اور وفات یہ ہے : (239ھ تا 321ھ)

لیکن امام طبرانی اور انکے شیخ امام طحاوی دونوں شاگرد ہیں صالح بن شعیب البصری کے :

امام عینی صالح بن شعیب کے ترجمہ میں لکھا :
1056 - صالح بن شعيب بن أبان الزاهد البصرى: يكنى أبا شعيب، أحد مشايخ أبى جعفر الطحاوى الذين روى عنهم وكتب وحدث، ****روى عن محمد بن المثنى ****وغيره، وذكره ابن يونس فى تاريخ الغرباء الذين قدموا مصر، وقال: قدم إلى مصر، وكُتب عنه، وخرج إلى مكة، وتوفى بها فى صفر سنة ست وثمانين ومائتين.
(مغاني الأخيار في شرح أسامي رجال معاني الآثار)
صالح بن شعیب بصری تھے انکی کنیت ابو شعیب تھے یہ امام طحاوی کے مشائخ میں سے تھے ان سے لکھا اور بیان بھی کیا امام طحاوی نے
صالح بن شعیب کے شاگردوں میں محمد بن المثنی ہیں یہ نوٹ کریں :

اب چونکہ صالح بن شعیب بکر بن محمد سے بیان کرتے ہیں جنکا تعین میں نے کیا کہ بکر بن محمد القزاز بصری ہیں
اب عرب کے آپکے ہی سلفی محقق نے امام طبرانی کے شیوخ پر کتا ب لکھی ہے بکر بن محمد القزاز کے شاگردوں میں انہوں نے بھی محمد بن المثنی کا نام لکھا ہے


[305] بكر بن محمد بن عبد الوهاب أبو عمرو، ويقال: أبو محمد القزاز البصري.
حدث عن: عبد الله بن معاوية الجمحي، وأحمد بن عبدة الضبي، ***ومحمد بن المثنى****، وابن أبي الشوارب، وبشر العقدي، ومحمد بن عبد الأعلى، وغيرهم.
وعنه أبو القاسم الطبراني في " معاجمه " ووصفة بالمعدل، وابن حبان في " صحيحة "، وأبو بكر الإسماعيلي في " معجمه "، وسكت عنه.
قال أبو محمد الحسن بن علي البصري: ما سمعت فيه إلا خيرًا. وقال الدارقطني: صالح ما علمت منه إلا خيرًا إن شاء الله، ولكن ربما أخطأ في الحديث. وقال مرة: ثقة.
- معجم الإسماعيلي (2/ 584)، أسئلة حمزة (210)، (213)، زوائد رجال صحيح ابن حبان (2/ 651 - 652).
* قلت: (صدوق ربما أخطأ) فالأصل أن حديثة حسن، إلا أن تظهر قرينة تدل على خطئه
(الكتاب: إرشاد القاصي والداني إلى تراجم شيوخ الطبراني
المؤلف: أبو الطيب نايف بن صلاح بن علي المنصوري)

جیسے امام طبرانی اور انکا شیخ امام طحاوی شاگرد ہیں شیخ صالح بن شعیب کے

ویسے امام طبرانی اور انکے شیخ صالح بن شعیب شاگرد ہیں بکر بن محمد القزاز القرشی کے

اس میں کونسی بات پریشانی والی ہے ؟ طبقہ ایک ہے بالکل
طبقہ سے مراد کہ راویان کے شیوخ اور تلامذہ میں کس زمانے کے راویان ہیں اور میں نے راویان اور زمانہ ایک ثابت کیا ہے
اور بکر بن محمد القزاز کے نام کے ساتھ بصری اور القرشی کی کی تصریح بھی ثابت کی ہے تبھی کہا تھا کہ ہمارے دلائل کے مقابل آپ مضبوط دلائل لائیے گا نہ کہ قیاس جنکو آپ قرینے کہتے ہیں اکثر

باقی جناب کا رہا مسلہ کہ روایتیں شاہد نہیں بن سکتی کیونکہ یہ اور متن ہے اس میں وبا میں اذان دینے کا ذکر ہے لیکن دوسری شواہد کی روایات میں مصیبت یا گھبراہت کی وجہ سے اذان دینے کا ذکر ہے تو یہ کیسے تقویت دیگی ؟

ہم کو یہ بھی معلوم تھا اہل حدیث بنام حضرات کو جب روایات کی اسناد پر جواب دے دیا جائے تو پھر متن پر اعتراضات بلاوجہ شروع کر دیتے ہیں

پہلے آپ خود ثابت کرنے میں لگے ہیں کہ اذان صر ف نماز کے ساتھ مشروع ہے
جیسا کہ آپ نے ایک متاخر امام سے ایک قول بھی نقل کیا :
پھر آپ نے یہ بھی تسلیم کیا ہے کہ صحیح مسلم کے اثر سے کبیر تابعی کا نماز کے علاوہ خوف کے سبب بھی آذان دی ہے
جبکہ تابعی کی دلیل جو روایت ہے وہ اذان کی مطلق فضیلت کے حوالے سے ہے
تو جب متقمدین میں نماز و عبادات کے علاوہ اذان دینا ثابت ہو گیا تو آپکا یہ دعویٰ باطل ہو گیا کہ سوائے نماز کے اذان دینا بدعت ہے وغیرہ وغیرہ


اب آپ کو ایک اصول بیان کرتے ہیں کہ شاہد میں روایتوں کے لیے لفظوں کا ایک ہونا لازم نہیں بلکہ متن میں مشابہت کا ہونا پایا جانا ہے

اسکی مثال یہ ہے

کہ مجمع الزوائد اور دوسری کتب حدیث میں یہ روایت موجود ہے
حضرت ابن عباس سے مروی ہے کہ نبی کریم نے فرمایا کہ جب تم جنگل میں اکیلے ہو اور پاوں میں موچ آجائے تو یہ دعا کرو اے اللہ کے بندوں میری مدد کرو
(سند حسن بحکم ابن حجر عسقلانی )

اب اس روایت سے معلوم ہوا کہ پاوں میں موچ آنا مصیبت ہے تو مصیبت میں یہ دعا پڑھنا ثابت ہے نہ کہ فقط پاوں میں ہی موچ آئے گی تو پڑھی جائے گی
اب اسکا ثبوت متقدمین و متاخرین سے پیش کرتے ہیں

امام بیھقی شعب الایمان میں سند صحیح سے اس روایت کے تحت امام احمد بن حنبل کا اثر نقل کرتے ہیں
کہ جب وہ حج کے لیے گئے اور راستہ بھول گئے تو انہوں نے یہی دعا پڑھی اے اللہ کے بندوں میں میری مدد کرو تو وہ صحیح راستے پر آگئے
(شعب الایمان برقم : 7698 وسند صحیح )

اور امام النووی الاذکار میں فرماتے ہیں ؛
کہ ایک دفعہ میں ایک جماعت کے ساتھ تھا سوار کا جانور بدک گیا اور وہ لوگ اسکو پکرنے سے عاجز ہوئے تو میں یہی دعا پڑھی اے اللہ کے بندوں میری مدد کرو تو وہ جانور بغیر اور کسی وجہ کے رک گیا
(الاذکار ص 196)

اب کیا یہ جو فاسدقیاس کر رہے ہیں جی ابن عساکر میں فلاں وجہ ہے مصیبت ہے اور طبرانی کی راویت میں وبا ہے اور صحیح مسلم میں خوف کی وجہ ہے تو چونکہ چناکے کرتے کرتے آپ نے صفحے کالے کیے کیا ایسے ہی آپ امام احمد اور امام نووی پر اعتراض کرینگے کہ روایت تو پاوں کو موچ آنے کے باب پر تھی اور انہوں نے جانور بدک جانے اور رستہ بھول جانے پر وہی دعا پڑھ دی ؟؟؟؟؟؟؟

معلوم ہوا جیسا کہ امام مسلم نے اذان کی فضیلت میں جو حدیث بیان کی پھر خوف کے وقت اسی حدیث سے تابعی کبیر کا خوف میں اذان پڑھنے کا اثر پیش کیا ہے تو یہی کافی تھا کہ وبا اور مصیبت میں بھی اذان دی جائے
نہ کہ اسکو حسب عادت بدعت بدعت کے رٹے مارنے شروع کر دیے جائیں
اور آپ جیسے لوگوں کا حال ہے جو معمولی ضعیف روایات کو شدید ضعیف ثابت کرنے کے چکر میں اتنے پاپڑ بیلتے رہے ہیں لیکن منہج اور اصول میں آپ لوگ بہت کمزور ہیں
ایک ہی روایت پر ہر ممکن وہ اعتراض کر دیتے ہیں اور بھول جاتے ہیں کہ ان اعتراضات کی وجہ سے حدیث کا کثیر حصہ ضائع ہو جائے
تبھی اثری صاحب نے صحیح کہا کہ آپ لوگوں کا حال یہی ہے ضعیف ثابت کرنے کے چکر میں پاپڑ ہی بیلنے پڑ گئے

لیکن حق یہ ہے کہ نہ ہی آپ میرا تعین غلط ثابت کر سکے بکر بن محمد کا
نہ ہی حضرت انس سے مروی روایت کو ضعیف جدا ثابت کر سکے جیسا کہ آپ کا دعویٰ باطل تھا
اور نہ ہی روایات کے متن کے بہانے آپکے کام آسکے جو کہ متقدمین ااور متاخر محدثین کے اصول سے ناواقفیت ہے
باقی آخر میں رہا یہ کہ نہ ہی آپ ابو شعیب صالح کی ضمنی توثیق کو رد کرسکے بلکہ آپ کو ضمنی توثیق کی دلیل ہی جہاں تک مجھے خیال ہے سمجھ نہ آسکی جسکی وجہ سے مجھے تفصیل لکھنی پڑ گئی

امید ہے ضد میں آکر پھر سے مجھے اتنی لمبی تحریر کے لیے مجبور نہیں کرینگے آپ نے جو لکھنا تھا بہت دن لگا کرلکھ لیا اور اقساط بھی بنا لیں لیکن حاصل کچھ نہ ہوا منہج میں اور اصول میں آپ بہت کمزور ہیں آپکو ابھی مزید مطالعے کی ضرورت ہے علم رجال کے لیے جزاک اللہ

تحقیق : اسد الطحاوی الحنفی البریلوی
 
Top