• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

وقت کی اہمیت ،،، نیکیوں کیلئے چھٹیاں غنیمت

محمد ارسلان

خاص رکن
شمولیت
مارچ 09، 2011
پیغامات
17,861
ری ایکشن اسکور
41,093
پوائنٹ
1,155
ترجمہ: شفقت الرحمن​
فضیلۃ الشیخ ڈاکٹر جسٹس عبد المحسن بن محمد القاسم حفظہ اللہ نے15-شعبان-1435 کا خطبہ جمعہ " وقت کی اہمیت ،،، نیکیوں کیلئے چھٹیاں غنیمت " کے عنوان پر ارشاد فرمایا، جس میں انہوں نے وقت کی اہمیت اجاگر کرتے ہوئے ، چھٹیوں میں وقت کی قدر کرتے ہوئے ، ان میں مختلف سماجی، اور معاشرتی نیکیاں کرنے کی ترغیب دلائی، اور ساتھ میں یہ بھی بتلایا کہ وقت ضائع کرنا موت سے بھی ابتر ہے۔
پہلا خطبہ:
یقینا تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں، ہم اسکی تعریف بیان کرتے ہوئے اسی سے مدد کے طلبگار ہیں اور اپنے گناہوں کی بخشش بھی مانگتے ہیں، اور نفسانی و بُرے اعمال کے شرسے اُسی کی پناہ چاہتے ہیں، جسے اللہ ہدایت عنائت کردے اسے کوئی بھی گمراہ نہیں کر سکتا، اور جسے وہ گمراہ کر دے اسکا کوئی بھی راہنما نہیں بن سکتا، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی بھی معبودِ برحق نہیں ، وہ یکتا ہے اسکا کوئی بھی شریک نہیں، اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -صلی اللہ علیہ وسلم-اللہ کےبندے اور اسکے رسول ہیں، اللہ تعالی کی جانب سے آپ پر ، آپکی آل ، اور صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں، اور سلامتی ہو۔
حمد و صلاۃ کے بعد:
اللہ سے ایسے ڈرو جیسے کہ ڈرنے کا حق ہے، تقوی الہی راہِ ہدایت ہے، اور اسکی مخالفت بد بختی کا راستہ ہے۔
مسلمانو!
"وقت " اخروی ترقی و خوشحالی ، یا ابدی بد بختی، اور بربادی کا لمحہ ہے، وقت کی اہمیت کے پیشِ نظر اللہ تعالی نے کچھ اوقات کی قسم اٹھائی ، بلکہ اس سے بڑھ کر لیل ونہار پر مشتمل پورے زمانے کی قسم اٹھائی ، اور فرمایا: {وَاللَّيْلِ إِذَا يَغْشَى (1) وَالنَّهَارِ إِذَا تَجَلَّى (2)} رات کی قسم جب وہ چھا جائے [2] اور دن کی قسم جب وہ چمک اٹھے[الليل : 1 - 2] دن ورات کے آنے جانے میں متقین کیلئے وعظ ونصیحت ہے، اسی لئے فرمایا: {وَهُوَ الَّذِي جَعَلَ اللَّيْلَ وَالنَّهَارَ خِلْفَةً لِمَنْ أَرَادَ أَنْ يَذَّكَّرَ أَوْ أَرَادَ شُكُورًا} اور وہی ہے جس نے رات اور دن کو بار بار ایک دوسرے کے بعد آنے والا بنایا۔ ان لوگوں کیلئے جو اس سے سبق حاصل کرے یا شکرگزار بننا چاہے[الفرقان : 62]
ہمارے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری زندگی اللہ کیلئے تھی، اللہ تعالی نے اُنہیں فرمایا : {قُلْ إِنَّ صَلَاتِي وَنُسُكِي وَمَحْيَايَ وَمَمَاتِي لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ} کہہ دو:میری نماز، میری قربانی، میری زندگی اور میری موت سب کچھ رب العالمین کے لیے ہے [الأنعام : 162]، اسی طرح صحابہ کرام کے کچھ اعمال بیان کرتے ہوئے فرمایا: {تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِمْ مِنْ أَثَرِ السُّجُودِ} آپ انہیں رکوع و سجود کرتے ہوئے اور اللہ کے فضل اور اس کی رضا مندی کی تلاش کرتے ہوئے دیکھو گے (کثرت) سجدہ کی وجہ سے ان کی پیشانیوں پر نشان موجود ہیں [الفتح : 29]
ابو بکر رضی اللہ عنہ کی عمر رضی اللہ عنہ کو کی ہوئی نصیحتوں میں سے ہے کہ: "دن کے وقت اللہ کی کچھ عبادات ہیں جو رات کو قبول نہیں ہوتیں، اور کچھ عبادتیں رات کی ہیں جو دن کو قبول نہیں ہوتیں"
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "اس دن سے زیادہ مجھے کسی دن پر افسوس نہیں ہوا کہ جس دن میں سورج غروب ہونے سے میری عمر تو کم ہوگئی لیکن اس میں میرا عمل زیادہ نہ ہوسکا"
سلف رحمہم اللہ اپنی عمر کے لمحات کو غنیمت سمجھتے تھے، چنانچہ انہوں نے اپنی زندگی رضائے الہی کا باعث بننے والے اعمال سے بھر دی۔
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "میں نے ایسے لوگوں کو پایا ہے جو تمہارے درہم ودینا ر کی نسبت اپنے اوقات کا زیادہ خیال رکھتے تھے"
قیامت کے دن انسان کے قدم اس وقت تک حرکت نہیں کرسکیں گے، جب تک اس سے چار سوال نہ کئے جائیں، انہی میں سے ہے کہ "عمر کہاں گزاری؟" ترمذی
نیک اعمال کے ساتھ لمبی عمر اللہ کا بہت بڑا احسان ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بہترین وہ ہے جسکی عمر لمبی، اور عمل اچھے ہوں)ترمذی
زندگی محدود ہے، ایک دن گزر جانے سے عمر ایک دن کم ہوجاتی ہے، اور زندگی کا کچھ حصہ گزرنا مکمل زندگی ختم ہونے کی علامت ہے، انسان نے جس وقت سے اس دنیا میں قدم رکھا اُسی وقت سے اللہ کی طرف چلتا جارہا ہے، اور یہ سفر اسکی مقررہ زندگی تک جاری رہے گا۔
وہی شخص کامیاب ہے جس نے نفع بخش اعمال کئے، اور خسارے میں وہی ہے جو کاہلی کا شکار رہا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (دو نعمتوں کے بارے میں بہت سے لوگ دھوکے کا شکار ہیں، صحت اور فراغت)بخاری
ابن قیم رحمہ اللہ کہتے ہیں: "وقت کیا ضیاع موت سے بھی بد تر ہے؛ کیونکہ وقت کا ضیاع اللہ اور آخرت سے دور کر دیتا ہے، جبکہ موت صرف دنیا اور اہل دنیا سے دور کرتی ہے"
جو شخص وقت ضائع کر بیٹھے، اسے ضائع شدہ ہر لمحے پر افسوس ہوگا، اور جسکا ایک دن بھی حقوق کی ادائیگی، فرائض کی تکمیل، تعلیم و تعلّم کے بغیر گزرا تو اس دن نافرمانی کی، اور زندگی کا ایک دن ضائع کردیا۔
عقلمند وہی ہے جو اپنے اوقات رضائے الہی میں صرف کرتا ہے، اور ایک کام ختم ہونے پر دوسرا شروع کر لیتا ہے، اسی لئے فرمایا: {فَإِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ} لہذا جب تم فارغ ہو تو (عبادت کی )مشقت میں لگ جاؤ [الشرح : 7]
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "اسکا مطلب ہے: دنیاوی امور اور تعلقات سے فراغت کے بعد اللہ کی عبادت کیلئے ، چستی، ذہنی توجہ ، خالص نیت، و رغبت کیساتھ کھڑے ہو جاؤ"
سب سے بڑی عبادت کیلئے اللہ کی وحدانیت کا اقرار ، اور اسلام کے تمام ارکان کو مکمل طور پر ادا کریں
حفظ قرآن، قرآن کی دہرائی، اور تدبّرِ قرآن کیلئے وقت صرف کرنا بہترین عمل ہے، جو درجات کی بلندی کا باعث بھی بنتا ہے، کیونکہ یہ عمل قیمتی خزانہ، اور نفع بخش تجارت ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (صبح کے وقت کوئی مسجد میں جاکر علم حاصل کیوں نہیں کرتا!؟ یا دو آیات ہی قرآن کی سیکھ لے یا پڑھ لے، جو دو اونٹنیوں سے بہتر ہیں، اور تین آیات تین سے بہتر ، اور چار آیات چار سے بہتر، جتنی آیات سیکھے اتنی ہی اونٹنیوں سے بہتر ہیں)مسلم
حافظ قرآن صاحب شرف ہے، قاری قرآن صاحب عزت ہے، جو بھی قرآن کے قریب ہو عظیم بن جاتا ہے، اور جنت میں انسان کا مقام وہی ہوگا جہاں اسکی آخری آیت ختم ہوگی، فتنوں ، شکوک وشبہات ، اور خواہشات کے دور میں قرآن کریم کو مضبوطی سے تھامنا نہایت ضروری اور لازمی ہوگا۔
محفل ذکرمیں حاضر ہوکر شرعی علم حاصل کرنا، حدیث نبوی ، اور علومِ شرعیہ میں لکھے گئے مختصر متن یاد کرنا، مسلمان کیلئے بلندی کا باعث ہیں، فرمانِ باری تعالی ہے: {يَرْفَعِ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا مِنْكُمْ وَالَّذِينَ أُوتُوا الْعِلْمَ دَرَجَاتٍ} اللہ تعالی تم میں سے ایمان والوں اور اہل علم کے درجات بلند فرماتا ہے[المجادلۃ : 11]
امام مالک رحمہ اللہ کہتے ہیں: "افضل ترین نفلی عبادت: تعلیم و تعلّم ہے" علم ہی کی وجہ سے انسان کی نیک نامی باقی رہتی ہے چاہے خود نہ بھی رہے۔
دین کی حکمت کیساتھ نشر واشاعت انبیاء و صالحین کا شیوا ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {قُلْ هَذِهِ سَبِيلِي أَدْعُو إِلَى اللَّهِ عَلَى بَصِيرَةٍ أَنَا وَمَنِ اتَّبَعَنِي } آپ کہہ دیں: میرا یہی راستہ ہے، میں اور میرے پیرو کار علی وجہ البصیرت اللہ کی طرف دعوت دیتے ہیں [يوسف : 108] دین کی نشر واشاعت خیر وبرکات کا باعث ہے، کیونکہ (اگر ایک آدمی کو بھی اللہ تعالی تمہاری وجہ سے ہدایت دے دے، تو تمہارے لئے سرخ اونٹوں سے بھی بہتر ہے)متفق علیہ
والدین کیساتھ حسن سلوک اطاعت ، انکا ساتھ دینا سعادت مندی، انکا قرب انس و محبت اور کامیابی ہے، اسی لئے اللہ تعالی نے عیسی علیہ السلام کے بارے میں فرمایا: {وَبَرًّا بِوَالِدَتِي وَلَمْ يَجْعَلْنِي جَبَّارًا شَقِيًّا} اپنی والدہ کے ساتھ نیک سلوک کرنے والا (بنایا ہے) اور اس نے مجھے سرکش و بدبخت نہیں بنایا [مريم : 32]
ابن کثیر رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جو کوئی اپنے والدین کیساتھ اچھا سلوک کرے وہ منکسر المزاج اور خوشحال ہوگا"
ذہین فطین اولاد چھٹیوں کو والدین کیساتھ اچھے سلوک ، اور انہیں خوش رکھنے کیلئے غنیمت سمجھتی ہے، والدین کو اپنی اولاد کے دیندار ہونے پر خوشی محسوس ہوتی ہے، اور انکے ساتھ حسن سلوک میں یہ بھی شامل ہے کہ والدین کے دوست احباب سے ملاقات، اور والدین کی وفات کے بعد انکی عزت و احترام کرے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (سب سے بڑی نیکی یہ ہے کہ: والد کے دوستوں کیساتھ تعلقات قائم رکھے جائیں)مسلم
صلہ رحمی رضائے الہی ، عمر میں درازی ،مال میں اضافہ ، وقت میں برکت ، آپس میں الفت، حسن اخلاق اور حسن مروّت کا باعث ہے، فرمانِ نبوی ہے: (جو شخص اپنے رزق و عمر میں فراخی و درازی کا خواہشمند ہے وہ صلہ رحمی کرے)متفق علیہ
اہل علم، اور نیک لوگوں سے ملاقات نفس کو مہذب بناتی ہے، اس سے خیالات بلند، اور پختہ عزائم ملتے ہیں، اصلاح حال ، اور آخرت کی یاد ملتی ہے، اہل علم سے ملنے والے کو علم و معرفت حاصل ہوتی ہے؛ کیونکہ یہی لوگ انبیاء کے وارث ، اور ہدایت کے داعی ہیں۔
اچھے اور نیکی کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لینا اہل جنت کی صفات میں سے ہے، فرمانِ الہی ہے: { وَفِي ذَلِكَ فَلْيَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُونَ} [نیکیوں کیلئے]مقابلہ کرنے والوں کو بڑھ چڑھ کر حصہ لینا چاہئے۔ [المطففين : 26]
حسن بصری رحمہ اللہ کہتے ہیں: "جب لوگوں کو اچھے کام کرتے دیکھو، تو خود بھی ان سے بڑھ چڑھ کر حصہ لو"
اچھے دوست احباب نیک کاموں کیلئے بہترین معاون ثابت ہوتے ہیں، یہی لوگ نیکی کی طرف لیجاتے ، اور برائی سے دور کرتے ہیں، اللہ کیلئے لئے محبت کرنے والے نور کے ایسے منبروں پر ہونگے، کہ انبیاء اور شہدا ءبھی رشک کر اٹھیں گے۔
برے دوست احباب برائی کی دعوت دیتے ہیں اور نیکی سے روکتے ہیں، انکی رفاقت سراسر حسرت و ندامت ہے، فرمانِ باری تعالی ہے: {وَيَوْمَ يَعَضُّ الظَّالِمُ عَلَى يَدَيْهِ يَقُولُ يَا لَيْتَنِي اتَّخَذْتُ مَعَ الرَّسُولِ سَبِيلًا [27] يَا وَيْلَتَى لَيْتَنِي لَمْ أَتَّخِذْ فُلَانًا خَلِيلًا} اس دن ظالم اپنے ہاتھ پر کاٹتے ہوئے کہے گا: کاش میں رسول کا راستہ اپنا لیتا، [27] ہائے میری بربادی!، کاش میں فلاں شخص کو اپنا دوست مت بناتا[الفرقان : 27- 28]
ابن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: "اگر کسی کو جانچنا ہے تو اسکے دوستوں کی طرف دیکھو، کیونکہ انسان اپنے جیسے لوگوں کو ہی دوست بناتا ہے"
چینلز وغیرہ پر فتنوں سے بھر پور ویڈیوز مسلسل
دیکھنے کی وجہ سے ناشکری، اور دلوں کی سیاہی میں اضافہ ہوتا ہے۔
چھٹیوں کے دوران والد کو اپنے بیٹوں کے مزید قریب ہونے کا موقع ملتا ہے، والد دلوں کے خلا کو پر کرے، انکی تربیت ، اور مکمل راہنمائی کا اہتمام کرے، بیٹوں کے معاملے میں والد کی ذمہ داری بہت بڑی ہے، جبکہ بیٹیوں کے بارے میں یہ ذمہ داری ماں کی بنتی ہے، ماں بیٹیوں کا مکمل خیال کرے، شرعی حجاب، عفت و پاکدامنی کا حکم دے۔
ابن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ: "اپنے بیٹے کی تربیت کرو، کیونکہ تم سے پوچھا جائے گا: تعلیم و تربیت میں کیا کردار اد اکیا؟ اور بیٹے سے پوچھا جائے گا کہ اس نے تمہارے ساتھ حسن سلوک اور فرمانبرداری کیلئے کیا کیا؟"
اولاد اپنے والد کیساتھ رہتے ہوئے بہت خوشی اور مسرت محسوس کرتی ہے، والد سے حسن خلق اور اچھی صفات حاصل کرتی ہے۔
ابن عقیل رحمہ اللہ کہتے ہیں: "دانشور انسان بیوی ، اور اپنے نفس کو پورا حق دیتا ہے، اگر بچوں کیساتھ ہو تو بچہ بن کر کچھ دیر کیلئے سنجیدگی چھوڑ دیتا ہے"
بچوں کی اچھے کاموں کیلئے حوصلہ افزائی بھی اچھی تربیت میں شامل ہے، چنانچہ ابراہیم بن ادہم کہتے ہیں: "مجھے میرے والد صاحب نے کہا: احادیث یاد کرو، جتنی احادیث یاد کروگے، تمہیں اتنے ہی درہم ملیں گے، ابراہیم کہتے ہیں: میں نے اس طرح بہت سی احادیث یاد کیں"
اگر والد اپنی اولاد سے غافل اور دور رہے تو یہ انکی تربیت میں کمی کا باعث ہے، ایسی صورت میں برے لوگ اِن تک رسائی کرسکتے ہیں، جسکی بنا پر والد کو ندامت و حسرت اٹھانی پڑتی ہے۔
اچھے مقاصد کیلئے سفر اولاد کو والدین کے مزید قریب ، اور تعلقات میں سردمہری ختم کردیتا ہے۔
عمرے کا سفر گناہوں کے جھڑنے ، اور بلندئ درجات کا ذریعہ ہے، اور مسجد نبوی میں ایک نماز دیگر مساجد میں نماز ادا کرنے سے ہزار درجے سے بھی افضل ہے۔
جبکہ حرام کاموں کیلئے سفر کرنا، ضیاعِ اموال، فتنوں میں ملوث ہونا، اور بہت سے شبہات و خواہشات کا باعث بنتا ہے، مزید برآں کہ انسان پہلے سے بھی بری حالت میں واپس لوٹتا ہے۔
چھٹیوں میں شادی کے ذریعے نئے خاندانوں کی بنیاد رکھی جاتی ہے، شادی کی نعمت کا شکر ادا کرنے کیلئے ولیمے میں فضول خرچی، عریانی، موسیقی، فوٹو گرافی، کسی قسم کا حرام کام نہ ہو۔
اللہ تعالی نے اس امت کیلئے صبح کے وقت میں برکت ڈالی ، رات کو سکون ، اور دن کو ذریعہ معاش بنایا، نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ تھا کہ رات کو جلدی سو جاتے، اور آخری حصہ میں اٹھ کر تہجد پڑھتے۔
چنانچہ ابو برزہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ: "آپ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز سے پہلے سونا، اور عشاء کے بعد باتیں کرنا اچھا نہیں سمجھتے تھے" متفق علیہ
اور اگر عشاء کے بعد باتیں کرنا با جماعت فجر کی نماز سے پیچھے رہنے کا باعث بنے تو یہ حرام ہے۔
ایک مسلمان ہر وقت ہر جگہ اللہ کو نگہبان سمجھتا ہے، اسے یقین ہوتا ہے کہ اللہ تعالی اسکی ایک ایک حرکت کو دیکھ رہا ہے، باتوں کو سن رہا ہے، اور دلوں کے بھید جانتا ہے، فرمان باری تعالی ہے: {وَلَا تَعْمَلُونَ مِنْ عَمَلٍ إِلَّا كُنَّا عَلَيْكُمْ شُهُودًا إِذْ تُفِيضُونَ فِيهِ} جب تم کسی کام میں مشغول ہوتے ہو تو اس وقت بھی ہم تم پر گواہ اور شاہد ہوتے ہیں[يونس : 61]
ہر وقت اللہ تعالی کو اپنے ساتھ جاننا افضل ترین ایمان ہے، امت کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے وصیت کی تھی: (جہاں بھی رہو، اللہ سے ڈرو) ترمذی
سفر ہو یا اقامت جب بھی اللہ کی حدود کو پامال کیا جائے تو اللہ تعالی کی غیرت جوش میں آتی ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یقینا اللہ تعالی غیرت کرتا ہے اور اللہ کی غیر ت یہ ہے کہ انسان حرام کاموں کا ارتکاب کرے) متفق علیہ
مسلمانو!
برائیوں سے دو ہوجاؤ، نیک اعمال کرو، اگرچہ نیک عمل مشقت طلب ہے، لیکن فارغ وقت گزار دینا اس سے بڑا نقصان ہے، اگر تم اپنے آپکو اچھائی میں مصروف نہیں رکھو گے، یہ تمہیں برائی میں ڈالدے گا، انسان کا ہر حال خوشحالی و فراخی ، عافیت و آزمائش، سفر وحضر میں امتحان ہوتا رہتا ہے، کامیاب وہی ہوگا جو تقوی کو اپنا اوڑھنا و بچھونا بنا لے، اور جنت الہی کی طرف دوڑتا چلا جائے۔
أعوذ بالله من الشيطان الرجيم: { مَنْ عَمِلَ صَالِحًا فَلِنَفْسِهِ وَمَنْ أَسَاءَ فَعَلَيْهَا وَمَا رَبُّكَ بِظَلَّامٍ لِلْعَبِيدِ} جو شخص نیک عمل کریگا وہ اپنے لئے ہی کریگا، اور جو برائی کا ارتکاب کریگا وہ اپنا ہی نقصان کریگا، اور آپکا رب بندوں پر ظلم نہیں کرتا [فصلت : 46]
اللہ تعالی میرے اور آپ سب کیلئے قرآن مجید کو خیر و برکت والا بنائے، مجھے اور آپ سب کو اِس ذکرِ حکیم سے مستفید ہونیکی توفیق دے، میں اپنی بات کو اسی پر ختم کرتے ہوئے اللہ سے اپنے اور تمام مسلمانوں کے گناہوں کی بخشش چاہتا ہوں۔
دوسرا خطبہ
تمام تعریفیں اللہ کیلئے ہیں کہ اُس نے ہم پر احسان کیا ، اسی کے شکر گزار بھی ہیں جس نے ہمیں نیکی کی توفیق دی، میں اسکی عظمت اور شان کا اقرار کرتے ہوئے گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبودِ برحق نہیں وہ یکتا اور اکیلا ہے ، اور یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد - صلی اللہ علیہ وسلم -اللہ کے بندے اور اسکے رسول ہیں ، اللہ تعالی اُن پر ، آل و صحابہ کرام پر ڈھیروں رحمتیں و سلامتی نازل فرمائے۔
مسلمانو!
دنیا کی زندگی مختصر ، دنیاوی ساز و سامان فانی ہونے والا ہے، اس لئے دنیا کے ساتھ اتنا ہی دل لگاؤ جتنا ایک مسافر اجنبی علاقے سے لگاتا ہے، دنیا داری میں اتنا ہی مصروف رہو، جتنا ایک مسافر واپسی کیلئے تیاری میں مصروف ہوتا ہے۔
مؤمن کو دو اندیشے لاحق رہتے ہیں، ایک گذشتہ گناہوں کے بارے میں ، معلوم نہیں اللہ تعالی انکا کیا کریگا، اور دوسرا موت کے بارے میں پتا نہیں وہ کب آجائے گی۔
دانشور انسان فارغ وقت میں اپنے رب کی عبادت کرتا ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم شعبان میں کثرت کے ساتھ روزے رکھا کرتے تھے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے شعبان میں روزوں کے علاوہ کوئی بات بھی ثابت نہیں ہے، چنانچہ نصف شعبان کی رات یا اس مہینے کی کسی بھی رات کے بارے میں کوئی فضیلت پایا ثبوت تک نہیں پہنچتی، اور اعمال وہی قبول ہوتے ہیں جن کے بارے میں صحیح شرعی دلائل موجود ہوں۔
یہ بات جان لو کہ ، اللہ تعالی نے تمہیں اپنے نبی پر درود و سلام پڑھنے کا حکم دیا اور فرمایا: إِنَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا اللہ اور اس کے فرشتے نبی پر درود بھیجتے ہیں۔ اے ایمان والو! تم بھی ان پر درود و سلام بھیجا کرو۔ [الأحزاب: 56]
اللهم صل وسلم على نبينا محمد، یا اللہ! خلفائے راشدین جنہوں نے حق اور انصاف کے ساتھ فیصلے کئے یعنی ابو بکر ، عمر، عثمان، علی اور بقیہ تمام صحابہ سے راضی ہو جا؛ یا اللہ !اپنے رحم و کرم کے صدقے ہم سے بھی راضی ہو جا۔
یا اللہ !اسلام اور مسلمانوں کو عزت عطا فرما،شرک اور مشرکوں کو ذلیل فرما، یا اللہ !دین کے دشمنوں کو نیست و نابود فرما، یااللہ !اس ملک کو اور مسلمانوں کے تمام ممالک کو امن کا گہوارہ بنا دے۔
یا اللہ! ہم تجھ سے دنیا اور آخرت میں کامیابی اور خوشحالی کا سوال کرتے ہیں، یا اللہ! ہماری سیدھے راستے کیلئے راہنمائی فرما، یا اللہ! ہمیں حق بات کی توفیق دے، اور ہمیں ہمہ قسم کے فتنوں سے محفوظ فرما، یا اللہ! ہمیں اپنے خاص بندوں اور اولیاء میں شامل فرمالے، یا ذالجلال و الاکرام!
یا اللہ! مسلمانوں کے ہر جگہ پر حالات درست فرما، اور انکے خون کی حفاظت فرما، یا اللہ! توحید ، تقوی، اور ہدایت پر سب مسلمانوں کو جمع فرما دے، یا قوی ! یا عزیز!
یا اللہ! مسلمانوں کو اچھے حکمران نصیب فرما، یا اللہ!ہمارے حکمران کو اپنی چاہت کے مطابق توفیق دے، اس کے تمام کام اپنی رضا کیلئے بنا لے، یا اللہ !تمام مسلم حکمرانوں کو تیری کتاب پر عمل اور شریعتِ اسلامیہ کو نافذ کرنے کی توفیق عطا فرما۔
اللہ کے بندو!
إِنَّ اللَّهَ يَأْمُرُ بِالْعَدْلِ وَالْإِحْسَانِ وَإِيتَاءِ ذِي الْقُرْبَى وَيَنْهَى عَنِ الْفَحْشَاءِ وَالْمُنْكَرِ وَالْبَغْيِ يَعِظُكُمْ لَعَلَّكُمْ تَذَكَّرُونَ اللہ تعالیٰ تمہیں عدل، احسان اور قرابت داروں کو (امداد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی، برے کام اور سرکشی سے منع کرتا ہے۔ وہ تمہیں اس لئے نصیحت کرتا ہے کہ تم اسے (قبول کرو) اور یاد رکھو۔ [النحل: 90]
تم اللہ کو یاد رکھو جو صاحبِ عظمت و جلالت ہے وہ تمہیں یاد رکھے گا۔ اللہ کی نعمتوں کا شکر ادا کرو تو وہ اور زیادہ دے گا ،یقینا اللہ کا ذکر بہت بڑی عبادت ہے ، اللہ جانتا ہے جو بھی تم کرتے ہو۔

لنک
 
Top