• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

کیا روافض کو الزامی جواب دینا ناصبیت ہے ؟

شمولیت
اپریل 27، 2020
پیغامات
509
ری ایکشن اسکور
167
پوائنٹ
77
کیا روافض کو الزامی جواب دینا ناصبیت ہے ؟

کچھ احباب کا کہنا ہےکہ روافض کو الزامی جواب دینا ناصبیت ہے اس سے مشاجرات صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دروازہ کھلتا ہے لیکن یہ لوگ جب حجر بن عدی کو سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کے مقابل لائیں ۔ مالک اشتر پلید کو صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین پر تریج دیں ۔ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے خلاف بغاوت کرنے والوں کا صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین سے موازنہ کریں اور ان جنگوں میں ایک گروہ کو باطل پر اور دوسرے کو حق پر کہیں تو کوئی فرق نہیں پڑتا ہاں جب کوئی صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کا دفاع کرتے ہوئے بطور الزامی جواب کے اہلبیت رضوان اللہ علیہم اجمعین کے بارے میں روایات نقل کر دے تو ان کے اندر کا غالی عزادار جاگ اٹھتا ہے اور یہ بیوہ عورتوں کی طرح ماتم کرنا شروع کردیتے ہیں۔

حالانکہ الزامی جواب دینا اگر ناصبیت ہے تو پھر یہ فتوی شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ پر کیوں نہیں لگاتے جنہوں نے منھاج السنة کی بنیاد ہی الزامی جواب پر رکھی ہے۔ کیوں منافقت کرتے ہیں کھل کر شیخ الاسلام رحمہ اللہ پر لگائیں فتوی کیونکہ الزامی جواب تو شیخ الاسلام رحمہ اللہ کے علاؤہ کئی محدثین نے بھی دیے ہیں۔ سردست آج کی پوسٹ میں شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ ۔ علامہ ذھبی رحمہ اللہ اور فضیلة الشیخ محمد ارشد کمال حفظہ اللہ کی عبارت پر ہی اکتفاء کرتے ہیں تاکہ مسلہ سمجھنے میں آسانی ہو ۔

شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ رحمہ اللہ روافض کو الزامی جواب دیتے ہوئے لکھتے ہیں :

١ / امام شافعی رحمہ اللہ فرماتے ہیں خلفاء تین ہیں سیدنا ابو بکر صدیق ۔ سیدنا عمر فاروق اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنھم اجمعین ۔

منھاج السنة ( ٤ / ١٨٣ ) طبع دارالحدیث

( حالانکہ بلاشبہ امیرالمؤمنین سیدنا علی رضی اللہ عنہ خلیفہ راشد برحق تھے )

نیز فرماتے ہیں :

٢ / سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے صبر کا مظاہر کیا یہاں تک کہ آپ رضی اللہ عنہ انتہائی مظلومیت کی حالت میں شہید کر دیے گئے ۔ مگر آپ رضی اللہ عنہ نے اپنی جان بچانے کے لیے جنگ نہیں کی ۔ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ سے جنگ کی ابتداء کی جب کہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ جنگ نہیں چاہتے تھے ۔۔۔ الخ ( آگے والی عبارت جان بوجھ کر چھوڑی جا رہی ہے تاکہ کوئی نام نہاد حرکت قلب بند ہونے کی وجہ سے دنیا ہی نہ چھوڑ دے )

منھاج السنة ( ١ / ٥٢١ )

نیز فرماتے ہیں :

٣ / سیدنا ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کی خلافت پر جو اجماع ہوا تھا وہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی خلافت پر نہیں ہوا کیونکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بیعت تو کئیوں نے نہیں کی۔

منھاج السنة ( ٢ / ٥٣٢ )

٤ / علامہ ذھبی رحمہ اللہ لکھتے ہیں :

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے لشکر میں سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین موجود تھے جنھوں نے سراسر ظلم کا ارتکاب کیا اور لڑائی کا آغاز کرنے والے بھی یہی لوگ تھے ۔ یہی وجہ ہےکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے سرگرم معان مالک اشتر نے کہا تھا کہ لوگ ہمارے مخالفین کی مدد کرتے ہیں کیونکہ لڑائی کا آغاز جو ہم نے کیا ہے ۔ اور یہ حقیقت ہےکہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے قاتلین کی سرکوبی سے قاصر تھے.

المنتقی ( ص / ٣٦٢ )

٥ /علامہ ذھبی رحمہ اللہ میزان الاعتدال میں عباد بن یعقوب کے ترجمہ میں اس کی ایک روایت نقل کرتے ہیں کہ :

عباد کہتا ہے جو شخص نماز میں آل رسول ﷺ کے دشمنوں پر تبرا نہیں کرتا اس کا حشر ان دشمنوں کے ساتھ ہوگا۔

اس پر تبصرہ کرتے ہوئے علامہ ذھبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں :

سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی آل کے ساتھ سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کی آل کی دشمنی تھی اور یہ دونوں آل رسول ﷺ ہیں تو پھر ہم کس پر تبرا کریں ؟

میزان الاعتدال ( ٤ / ٤٥ )

شیخ محمد ارشد کمال حفظہ اللہ سیدنا امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کی جنگ صفین والی بحث کو سمیٹتے ہوئے لکھتے ہیں :

٦ / چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کا اپنا بیان ہے ایک رات رسول اللہ ﷺ ان کے اور اپنی صاحب زادی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے پاس تشریف لائے اور فرمایا : تم دونوں ( نماز تہجد) کیوں نہیں پڑھتے ہو ؟ میں ( علی رضی اللہ عنہ) نے عرض کیا : اللہ کے رسول (ﷺ) ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں ۔ جب وہ ہمیں اٹھانا چاہتا ہے اٹھا دیتا ہے ۔ جب میں نے یہ بات کہی تو آپ (ﷺ) واپس چلے گئے اور مجھے کوئی جواب نہ دیا ۔ پھر میں نے دیکھا کہ واپس جاتے ہوئے آپ (ﷺ) اپنی ران پر ہاتھ مار رہے تھے اور فرما رہے تھے : انسان سب سے زیادہ جھگڑالو ہے۔

صحیح بخاری ( ١١٢٧ ) آگے شیخ حفظہ اللہ کا تبصرہ اصل کتاب سے ہی پڑھ لیں تو بہتر ہے۔

صحیح سیرت خلفائے راشدین ( ص ٦٨٠ ؛ حاشیہ نمبر ٣ )

ان چھ عبارات سے امید ہےکہ الزامی جواب کی بونگی کا جواب مل گیا ہوگا اب ذرا ہمت کرتے ہوئے ان پر فتوی ناصبیت کے ساتھ ساتھ بونگی مارنے کا بھی حکم لگائیں۔

تحریر : معاویہ عبداللہ
 
Top