• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

یزید کی مدح وثناء اور بیعت من جانب ابن عباس رضی اللہ عنہ، بسندحسن۔

سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
امام أحمد بن يحيى، البَلَاذُري (المتوفى 279)اپنے استاذ امام مدائنی سے نقل کرتے ہیں:
الْمَدَائِنِيّ عَنْ عبد الرحمن بْن مُعَاوِيَة قَالَ، قَالَ عامر بْن مسعود الجمحي: إنا لبمكة إذ مر بنا بريد ينعى مُعَاوِيَة، فنهضنا إلى ابن عباس وهو بمكة وعنده جماعة وقد وضعت المائدة ولم يؤت بالطعام فقلنا له: يا أبا العباس، جاء البريد بموت معاوية فوجم طويلًا ثم قَالَ: اللَّهم أوسع لِمُعَاوِيَةَ، أما واللَّه ما كان مثل من قبله ولا يأتي بعده مثله وإن ابنه يزيد لمن صالحي أهله فالزموا مجالسكم وأعطوا طاعتكم وبيعتكم، هات طعامك يا غلام، قَالَ: فبينا نحن كذلك إذ جاء رسول خالد بْن العاص وهو على مَكَّة يدعوه للبيعة فَقَالَ: قل له اقض حاجتك فيما بينك وبين من حضرك فإذا أمسينا جئتك، فرجع الرسول فَقَالَ: لا بدّ من حضورك فمضى فبايع.[أنساب الأشراف للبلاذري: 5/ 290 واسنادہ حسن لذاتہ]۔
عامربن مسعودرضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم مکہ میں تھے کہ امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبردیتے والا ہمارے پاس سے گذرا تو ہم عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کے پاس پہونچے وہ بھی مکہ ہی میں تھے ، وہ کچھ لوگوں کے ساتھ بیٹھے ہوئے تھے اوردسترخوان لگایا جاچکاتھا لیکن ابھی کھانا نہیں آیاتھا ، تو ہم نے ان سے کہا: اے ابوالعباس ! ایک قاصد امیرمعاویہ رضی اللہ عنہ کی وفات کی خبرلایا ہے ، یہ سن کر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کچھ دیرتک خاموش رہے پھرفرمایا: اے اللہ! معاویہ رضی اللہ عنہ پراپنی رحمت وسیع فرما، یقینا آپ ان لوگوں کے مثل تو نہ تھے جو آپ سے پہلے گذرچکے لیکن آپ کے بعدبھی آپ جیساکوئی نہ دیکھنے کوملے گا اورآپ کے صاحبزادے یزیدبن معاویہ رحمہ اللہ آپ کے خاندان کے نیک وصالح ترین شخص ہیں،اس لئے اے لوگو! اپنی اپنی جگہوں پر رہو اوران کی مکمل اطاعت کرکے ان کی بیعت کرلو ، (اس کے بعد غلام سے کہا) اے غلام کھانا لیکرآؤ ، عامربن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم اسی حالت میں تھے کہ خالد بن العاص المخزومی رضی اللہ عنہ کا قاصد آیا وہ اس وقت مکہ کے عامل تھے ، اس نے عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کو بیعت کے لئے بلایا ، عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ نے کہا : اس سے کہہ دو کہ پہلے دوسرے لوگوں کے ساتھ اپنا کام ختم کرلے اورشام ہوگی توہم اس کے پاس آجائیں گے ، (یہ سن کرقاصد چلاگیا ) اور پھرواپس آیا اورکہا ، آپ کا حاضرہونا ضروی ہے ، پھر آپ گئے اور(یزیدکی) بیعت کرلی۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
عامر بن مسعود بن أمية بن خلف بن وهب الجمحى۔


آپ کے صحابی وتابعی ہونے میں اختلاف ہے ۔

امام دارقطني رحمه الله (المتوفى385)نے کہا:
وقَد أَدرك النَّبي صَلى الله عَليه وسَلم.[العلل للدارقطني 3/ 128]۔

امام ابن عساكر رحمه الله (المتوفى571)نے کہا:
عامر بن مسعود أبو سعد ويقال أبو سعيد الزرقي صاحب رسول الله صلى الله عليه وسلم ويقال لا صحبة له سكن دمشق وروى عن النبي صلى الله عليه وسلم وعن عائشة[تاريخ دمشق لابن عساكر: 26/ 108]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748):
عَامِرُ بْنُ مَسْعُودٍ أَبُو سَعْدٍ، وَقِيلَ: أَبُو سَعِيدٍ الزُّرَقِيُّ الْأَنْمَارِيُّ، مُختَلَفٌ فِي صُحْبَتِهِ [تاريخ الإسلام للذهبي: 5/ 143]

امام هيثمي رحمه الله (المتوفى807)نے کہا:
رَوَاهُ الطَّبَرَانِيُّ فِي الْكَبِيرِ وَرِجَالُهُ ثِقَاتٌ، إِلَّا أَنَّ عَامِرَ بْنَ مَسْعُودٍ اخْتُلِفَ فِي صُحْبَتِهِ.[مجمع الزوائد ومنبع الفوائد 2/ 92]۔


بعض محدثین کے اصول کے مطابق جس راوی کے صحابی اورتابعی ہونے میں اختلاف ہو ایسا راوی کم ازکم حسن الحدیث ضرورہوتاہے۔

حافظ زبیرعلی حفظہ اللہ لکھتے ہیں:
جس کے صحابی ہونے میں اختلاف ہو اورجرح مفسرثابت نہ ہو تو وہ حسن الحدیث راوی ہوتا ہے ، دیکھئے التلخیص الحبیر(ج1ص74ح 70) وغیرہ [فتاوی علمیہ:ج1ص484]۔
عرض ہے کہ عامربن مسعود پر جرح مفسر تو دور کی بات سرے سے کوئی جرح ہی ثابت نہیں ۔

بہرحال اگریہ صحابی ہیں تو ان کی توثیق پیش کرنے کی ضرورت نہیں اوراگرتابعی ہیں تو اختلاف صحبت کے سبب کم از کم حسن الحدیث ضرور ہیں ۔

تاہم اگرآپ اختلاف صحبت سے بھی قطع نظرکرلیا جائے تو بھی آپ ثقہ ہیں کیونکہ:

امام ابن حبان رحمه الله (المتوفى354)نے انہیں ثقات میں ذکر کیا:
عامر بن مسعود[الثقات لابن حبان: 5/ 190]۔

اوران سے کئی ثقات نے روایت لی ہے ، علامہ البانی رحمہ اللہ کا اصول ہے کہ جسے ابن حبان ثقہ کہہ دیں اورمتعددثٖقات اس سے روایت لے لیں (اوراس کی مرویات میں نکارت نہ ملے) تو وہ ثقہ ہوتا ہے۔

علاوہ ازیں:

امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311) نے آپ کی حدیث کو صحیح کہا ، ملاحظہ ہو [صحيح ابن خزيمة 3/ 309 رقم2145 ]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
الثقة: من وثَّقَه كثيرٌ ولم يُضعَّف. ودُونَه: من لم يُوثق ولا ضُعِّف. فإن حُرِّج حديثُ هذا في ((الصحيحين))، فهو مُوَثَّق بذلك، وإن صَحَّح له مثلُ الترمذيِّ وابنِ خزيمة فجيِّدُ أيضاً، وإن صَحَّحَ له كالدارقطنيِّ والحاكم، فأقلُّ أحوالهِ: حُسْنُ حديثه. [الموقظة في علم مصطلح الحديث للذهبي: ص: 17].

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
قلت صحح ابن خزيمة حديثه ومقتضاه أن يكون عنده من الثقات [تعجيل المنفعة ص: 248]۔

امام ضياء المقدسي رحمه الله (المتوفى643) نے بھی الأحاديث المختارة میں ان کی روایت لی ، دیکھئے :[ المستخرج من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما 8/ 208 رقم وقال المحقق اسنادہ حسن]۔

فائدہ : کسی بھی ناقد نے ان پرکوئی جرح نہیں کی ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
عبد الرحمن بن معاویة. أبو الحویرث


جمہورمحدثین نے انہیں ثقہ قرردیا ہے تفصیل ملاحظہ ہو:

پہلی توثیق:ازامام شعبة بن الحجاج (المتوفى 160)رحمه الله:
امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
عبد الرحمن بن معاوية الزرقي أبو الحويرث المديني روى عن ابن عباس وعلي بن الحسين ونافع بن جبير بن مطعم ومحمد بن عمار المؤذن، روى عنه الثوري وشعبة سمعت أبي يقول ذلك. [الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 5/ 284]۔

اورامام شعبہ رحمہ اللہ صرف ثقہ سے روایت کرتے ہیں ،چنانچہ امام ذہبی رحمہ اللہ نے کہا:
شیوخ شعبة جیاد.[میزان الاعتدال للذہبی:4504]۔
حافظ ابن حجررحمہ اللہ نے کہا:
أن یکون الرجل قد عرف من حالہ أنہ لا یروی لا عن ثقة, فننی أذکر جمیع شیوخہ أو أکثرہم, کشعبة ومالک وغیرہما[تہذیب التہذیب لابن حجر:51]۔
''ابوصدقہ ،توبہ بن عبداللہ'' کوامام ازدی نے ''لایحتج بہ'' کہا تو امام ذہبی رحمہ اللہ نے اس کی تردیدکرتے ہوئے کہا:
قلت: ثقة، روی عنہ شعبة [میزان الاعتدال للذہبی: 3611]۔
یعنی: یہ راوی ثقہ ہے کیونکہ امام شعبہ نے اس سے روایت کیا ہے۔
حافظ ابن حجر امام ذہبی رحمہ اللہ کی اس عبارت کے بارے میں لکھتے ہیں:
وقرأت بخط الذہبی: بل ہو ثقة روی عنہ شعبة یعنی وروایتہ عنہ توثیق لہ .[تہذیب التہذیب لابن حجر:5161]۔
یعنی :میں نے امام ذہبی کی تحریرپڑھی جس میں امام ذہبی نے مذکورہ راوی کے بارے میں کہا کہ وہ ثقہ ہے کیونکہ امام شعبہ نے اس سے روایت کیا ہے ، یعنی امام شعبہ کا ان سے روایت کرنا ان کی توثیق ہے [تہذیب التہذیب لابن حجر:5161]۔


دوسری توثیق: از امام ابن معين (المتوفى233) رحمه الله :
آپ کے تین شاگردوں نے زیرتذکرہ راوی سے متعلق آپ کی توثیق نقل کی ہے:

أحمد بن سعد بن أبي مريم رحمه الله (المتوفى253):
عن يحيى بن معين قال أبو الحويرث ثقة واسمه عبد الرحمن بن معاوية.[الكامل لابن عدي: 5/ 502 واسنادہ صحیح]
امام ابن أبي خيثمة رحمه الله (المتوفى279)نے کہا:
سَأَلْتُ يَحْيَى بن مَعِيْن : عن أبي الحويرث ؟ فقال : اسمه عَبْد الرَّحْمَن بن مُعَاوِيَة ، روى عنه ابن عُيَيْنَة ، مدنيٌّ ثقة[تاريخ ابن أبي خيثمة 4/ 270]۔
امام عثمان الدارمي رحمه الله (المتوفى280)نے کہا:
سألته عن عبد الرحمن بن معاوية الذي يروي عن بن أبي ذباب فقال هو أبو الحويرث ثقة [تاريخ ابن معين - رواية الدارمي: ص: 168]۔

تیسری توثیق:از امام علي بن المديني (المتوفى234)رحمه الله :
محمد بن عثمان بن أبي شيبة نے کہا:
سَأَلت عليا عَن أبي الْحُوَيْرِث فَقَالَ كَانَ عندنَا ثقه قد روى عَنهُ الثَّوْريّ وَشعْبَة وسُفْيَان بن عيينه وَكَانَ شُعْبَة يَقُول أَبُو الحويرثه[سؤالات ابن أبي شيبة لابن المديني: ص: 92]۔

چوتھی توثیق: ازامام أحمد بن حنبل (المتوفى241)رحمه الله :
امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نےکہا:
أنا عبد الله بن أحمد بن محمد ابن حنبل فيما كتب إلى قال قال أبي: أبو الحويرث روى عنه سفيان الثوري وشعبة، فقلت إن بشر بن عمر زعم أنه سأل مالك بن أنس عنه فقال: ليس بثقة، فأنكره فقال: لا وقد حدث عنه شعبة.[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 5/ 284 وسندہ صحیح]۔
امام عقيلي رحمه الله (المتوفى322)نے کہا:
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيلَ قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، ح وَحَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَحْمَدَ قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّاسُ بْنُ عَبْدِ الْعَظِيمِ، ح وَحَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ يَحْيَى قَالَ: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى قَالُوا: حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ عُمَرَ قَالَ: سَأَلْتُ مَالِكًا عَنْ أَبِي الْحُوَيْرِثِ، فَقَالَ: لَيْسَ بِثِقَةٍ، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ: قَالَ أَبِي: رَوَى عَنْهُ سُفْيَانُ وَشُعْبَةُ، وَأَنْكَرَ أَبِي هَذَا مِنْ قَوْلِ مَالِكٍ[الضعفاء الكبير للعقيلي: 2/ 344 وسندہ صحیح]۔

پانچویں توثیق:از امام ابن خزيمة(المتوفى311) رحمه الله :
امام ابن خزيمة رحمه الله (المتوفى311) نے آپ کی حدیث کو صحیح کہا ، ملاحظہ ہو [صحيح ابن خزيمة 2/ 351 رقم 1450]۔
اورکسی روای کی روایت کی تصحیح یا تحسین اس راوی کی توثیق ہوتی ہے۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
الثقة: من وثَّقَه كثيرٌ ولم يُضعَّف. ودُونَه: من لم يُوثق ولا ضُعِّف. فإن حُرِّج حديثُ هذا في ((الصحيحين))، فهو مُوَثَّق بذلك، وإن صَحَّح له مثلُ الترمذيِّ وابنِ خزيمة فجيِّدُ أيضاً، وإن صَحَّحَ له كالدارقطنيِّ والحاكم، فأقلُّ أحوالهِ: حُسْنُ حديثه. [الموقظة في علم مصطلح الحديث للذهبي: ص: 17].

حافظ ابن حجر رحمه الله (المتوفى852)نے کہا:
قلت صحح ابن خزيمة حديثه ومقتضاه أن يكون عنده من الثقات [تعجيل المنفعة ص: 248]۔

چھٹی توثیق از :امام ابن حبان (المتوفى354)رحمه الله :
آپ نے اس راوی کو ثقات میں ذکرکیا:
أبو الحويرث اسمه عبد الرحمن بن معاوية[الثقات لابن حبان: 5/ 104]۔

ساتویں توثیق از :امام ابن شاهين (المتوفى385) رحمه الله:
آپ نے اس راوی کو ثقات میں ذکرکیا:
عبد الرَّحْمَن بن مُعَاوِيَة أَبُو الْحُوَيْرِث روى عَنهُ بن عُيَيْنَة مديني ثِقَة[تاريخ أسماء الثقات لابن ابن شاهين: ص: 145]۔

آٹھویں توثیق: ازامام حاكم (المتوفى405)رحمه الله:
امام حاكم (المتوفى405)رحمه الله نے آپ کی حدیث کو صحیح کہا ، ملاحظہ ہو [المستدرك على الصحيحين للحاكم: 1/ 718 رقم1964 ]
اورکسی روای کی روایت کی تصحیح یا تحسین اس راوی کی توثیق ہوتی ہے۔

امام ابن الملقن فرماتے ہیں:
وَقَالَ غَيره: فِيهِ جَهَالَة، مَا رَوَى عَنهُ سُوَى ابْن خُنَيْس. وَجزم بِهَذَا الذَّهَبِيّ فِي «الْمُغنِي» فَقَالَ: لَا يعرف لَكِن صحّح الْحَاكِم حَدِيثه - كَمَا ترَى - وَكَذَا ابْن حبَان، وَهُوَ مُؤذن بمعرفته وثقته.[البدر المنير لابن الملقن: 4/ 269]۔

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)فرماتے ہیں:
الثقة: من وثَّقَه كثيرٌ ولم يُضعَّف. ودُونَه: من لم يُوثق ولا ضُعِّف. فإن حُرِّج حديثُ هذا في ((الصحيحين))، فهو مُوَثَّق بذلك، وإن صَحَّح له مثلُ الترمذيِّ وابنِ خزيمة فجيِّدُ أيضاً، وإن صَحَّحَ له كالدارقطنيِّ والحاكم، فأقلُّ أحوالهِ: حُسْنُ حديثه. [الموقظة في علم مصطلح الحديث للذهبي: ص: 17،]۔

نویں توثیق: ازامام ضياء المقدسي رحمه الله (المتوفى643) رحمه الله:

امام ضياء المقدسي رحمه الله (المتوفى643) نے بھی الأحاديث المختارة میں ان کی روایت لی ، دیکھئے :[ المستخرج من الأحاديث المختارة مما لم يخرجه البخاري ومسلم في صحيحيهما 3/ 129 رقم 931 وقال المحقق اسنادہ حسن]۔

جمہورسے راوی مذکورکی توثیق پیش کرنے کے بعدبعض جارحین کے اقوال کاجائزہ پیش خدمت ہے:

رافضی تنقیدکاجواب:
محمد مهدي الخرسان رافضی مذکورہ روایت کو ضعیف ثابت کرنے کے لئے زیرتذکرہ راوی سے متعلق کہتاہے:
والراوي عنه عبد الرحمن بن معاوية هو ابن الحويرث الانصاري الزرقي أبو الحويرث المدني الّذي قال فيه مالك: ليس بثقة، قال ابن عدي: ليس له كثير حديث ومالك أعلم به لأنّه مدني ولم يرو عنه شيئاً. وقال أبو حاتم: ليس بقوي يكتب حديثه ولا يحتج به، وعن ابن معين: ليس يحتج بحديثه. وقال مالك: قدم علينا سفيان فكتب عن قوم يذمون بالتخنيث يعني أبا الحويرث منهم، قال أبو داود: وكان يخضب رجليه وكان من مرجيء أهل المدينة، وقال النسائي: ليس بذاك[موسوعة عبد الله بن عباس ـ ج 05 ص 211…]۔

اب بالتفصیل اس جرح کا جواب ملاحظہ ہو:

امام مالک رحمہ اللہ۔
امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نےکہا:
أنا عبد الله بن أحمد بن محمد ابن حنبل فيما كتب إلى قال قال أبي: أبو الحويرث روى عنه سفيان الثوري وشعبة، فقلت إن بشر بن عمر زعم أنه سأل مالك بن أنس عنه فقال: ليس بثقة، فأنكره فقال: لا وقد حدث عنه شعبة.[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم 5/ 284 وسندہ صحیح]۔

امام مالک رحمہ اللہ کی توثیق جمہورمحدثین کے خلاف ہے لہٰذا غیرمسموع ہے اسی لئے امام احمدرحمہ اللہ نے اسے ردکردیاہے۔

امام ابوحاتم رحمہ اللہ:
امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
سألت أبي عن أبي الحويرث فقال: ليس بقوي يكتب حديثه ولا يحتج به[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 5/ 284]۔

اول تو یہ جرح جمہورکے خلاف ہے، دوم ثابت شدہ توثیق کے باالمقابل ابوحاتم کے یہ جملہ غیرمسموع ہے کیونکہ وہ متشدد ہیں اورثٖقات کے بارے میں بھی یہ جملہ عام طورپربولتے ہیں:

امام ذهبي رحمه الله (المتوفى748)نے کہا:
إِذَا وَثَّقَ أَبُو حَاتِمٍ رَجُلاً فَتَمَسَّكْ بِقَولِهِ، فَإِنَّهُ لاَ يُوَثِّقُ إِلاَّ رَجُلاً صَحِيْحَ الحَدِيْثِ، وَإِذَا لَيَّنَ رَجُلاً، أَوْ قَالَ فِيْهِ: لاَ يُحْتَجُّ بِهِ، فَتَوَقَّفْ حَتَّى تَرَى مَا قَالَ غَيْرُهُ فِيْهِ، فَإِنْ وَثَّقَهُ أَحَدٌ، فَلاَ تَبْنِ عَلَى تَجْرِيْحِ أَبِي حَاتِمٍ، فَإِنَّهُ مُتَعَنِّتٌ فِي الرِّجَالِ ، قَدْ قَالَ فِي طَائِفَةٍ مِنْ رِجَالِ (الصِّحَاحِ): لَيْسَ بِحُجَّةٍ، لَيْسَ بِقَوِيٍّ، أَوْ نَحْو ذَلِكَ.[سير أعلام النبلاء للذهبي: 13/ 260]۔

امام زيلعي رحمه الله (المتوفى762)نے کہا:
قَوْلُ أَبِي حَاتِمٍ: لَا يُحْتَجُّ بِهِ، غَيْرُ قَادِحٍ أَيْضًا، فَإِنَّهُ لَمْ يَذْكُرْ السَّبَبَ، وَقَدْ تَكَرَّرَتْ هَذِهِ اللَّفْظَةُ مِنْهُ فِي رِجَالٍ كَثِيرِينَ مِنْ أصحاب الثِّقَاتِ الْأَثْبَاتِ مِنْ غَيْرِ بَيَانِ السَّبَبِ، كَخَالِدٍ الْحَذَّاءِ، وَغَيْرِهِ، وَاَللَّهُ أَعْلَمُ.[نصب الراية للزيلعي: 2/ 439]۔

امام نسائی رحمہ اللہ :

آپ نے کہا:
عبد الرَّحْمَن بن مُعَاوِيَة أَبُو الْحُوَيْرِث لَيْسَ بِثِقَة[الضعفاء والمتروكون للنسائي: ص: 68]۔
امام نسائی بھی متشددین میں سے ہیں نیز ان کی جرح جمہورکے خلاف ہے لہٰذا غیرمسموع ہے۔

تنبیہ: درج ذیل اقوال کالعدم ہیں:
امام ابن أبي حاتم رحمه الله (المتوفى327)نے کہا:
قرئ على العباس بن محمد الدوري عن يحيى بن معين أنه قال: أبو الحويرث ليس يحتج بحديثه[الجرح والتعديل لابن أبي حاتم: 5/ 284]۔
ابن معین کے صرف ایک شاگردنے جرح نقل کی ہے بکہ ان کے تین شاگردوں نے توثیق نقل کی ہے کما مضی لہٰذآ ان کی توثیق ہی راجح ہے۔

امام ابن عدي رحمه الله (المتوفى365)نے کہا:
وأبو الحويرث هذا ليس له كثير حديث ومالك أعلم به لأنه مدني ولم يرو عنه شيئا[الكامل في ضعفاء الرجال لابن عدي: 5/ 502]۔
ان کی جرح کی بنیاد امام مالک کی جرح ہے ان کو اس راوی کی مرویات زیادہ ملی ہی نہیں لہٰذا ان کی یہ کوئی اپنی تحقیق نہیں ہے اس لئے غیرمسموع ہے۔

اوررہا امام ابوداؤد رحمہ اللہ کا اسے مرجیہ قرار دینا تو اول تو یہ مضر ہی ہی نہیں دوم یہ بات بھی امام ابوداؤد سے ثابت نہیں کیونکہ اس کا ناقل ابوعبیدآجری ہے کمافی التھذیب اوریہ مجہول ہے۔

اس تفصیل کی روشنی میں راجح یہی ہے کہ عبدالرحمن بن معاویۃ ثقہ ہیں کیونکہ جمہورنے ان کی توثیق کی ہے نیز ان جمہور مین امام شعبہ ، امام علی ابن المدینی، امام احمدبن حنبل اور امام ابن معین جیسے کبار ائمہ فن ہیں ، اس کے برخلاف صرف چندلوگوں نے ان پرغیرمفسرجرح کی ہے نیز ان میں سے کئی ایک متشددین میں سے بھی ہیں لہٰذا جمہور اورکبار ائمہ فن کی توثیق کی ہی راجح ہے۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
علي بن محمد بن عبد الله بن أبي سيف ، القرشي،المدائني


امام ابن معين رحمه الله (المتوفى233)نے کہا:
ثقة ثقة ثقة[تاريخ مدينة السلام للخطيب البغدادي 13/ 517 واسنادہ حسن]۔

امام ابن الجوزي رحمه الله (المتوفى597)نے کہا:
وَكَانَ من الثقات، أهل الخير[المنتظم لابن الجوزي: 11/ 95]۔
 

کفایت اللہ

عام رکن
شمولیت
مارچ 14، 2011
پیغامات
4,998
ری ایکشن اسکور
9,798
پوائنٹ
722
اس روایت کے صحت پر عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا طرزعمل بھی شاہد ہے کیونکہ عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ کا نام یزید کے مخالفین میں نہیں ملتا نیزیہ بھی نہیں ملتا کہ اپ نے حرہ وغیرہ کے موقع پر بھی بیعت شکنی کی ہو۔

فائدہ:
دکتور محمدبن ہادی الشیبانی نے بھی اس روایت کو حسن قراردیا ہے ، دیکھئے : [مواقف المعارضة في عهد يزيد بن معاوية :ص 164 ]۔
 
سٹیٹس
مزید جوابات پوسٹ نہیں کیے جا سکتے ہیں۔
Top