• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آخر زمانہ کی پولیس پر اللہ کا غضب

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آخر زمانہ کی پولیس پر اللہ کا غضب

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
(( سَیَکُوْنُ فِيْ آخِرِ الزَّمَانِ شُرْطَۃٌ یَغْدُوْنِ فِيْ غَضَبِ اللّٰہِ وَیَرُوْحُوْنَ فِيْ سَخَطِ اللّٰہِ، فَإِیَّاکَ أَنْ تَکُوْنَ مِنْ بَطَانَتِہِمْ۔ ))1
'' آخر زمانے میں (ملکوں کی) ایسی پولیس ہوگی جس کے لوگ دوپہر بھی اللہ کے غضب و غصہ میں کریں گے اور شام بھی اللہ کی ناراضگی میں کریں گے۔ تم اُن کی مصاحبت و ہم نشینی سے بچ کر رہنا۔ ''
الشُّرْطَہ:
یہ لفظ شُرطی کی جمع ہے۔ ان کا نام شرطہ اس لیے رکھا گیا ہے کہ ان کی ایک نشانی ہے ،جس کے ذریعے وہ پہچانے جاتے ہیں۔ یہ پولیس والے بادشاہوں اور حاکموں کے لوگوں کو سزائیں دینے، ان کی حفاظت کرنے اور لوگوں کے احوال کا پیچھا کرنے کے لیے مددگار ہوتے ہیں۔ یہ پولیس والے وہ لوگ ہوتے ہیں کہ جنھیں حاکم وقت اپنے احکام کی تنفیذ اور اس کے متعلقہ اُمور انجام دینے کے لیے ہوتے ہیں۔ جیسے کہ لوگوں کو پکڑنا، انھیں پیٹنا اور قیدی بنا کر حوالات اور جیلوں میں رکھنا۔
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1صحیح الجامع الصغیر، رقم: ۳۶۶۶۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
آخر زمانہ کی پولیس سے مراد وہ لوگ ہیں کہ جن کے بارے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے خبر دیتے ہوئے فرمایا ہے کہ یہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد ہوں گے۔ چنانچہ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( یُوْشِکُ، إِنْ طَالَتْ بِکَ مُدَّۃٌ، أَنْ تَرَ قَوْمًا فِيْ أَیْدِیْہِمْ مِثْلُ أَدْنَابِ الْبَقَرِ۔یَغْدُوْنَ فِيْ غَضَبِ اللّٰہِ، وَیَرُوْحُوْنَ فِيْ سَخَطِ اللّٰہِ۔))1
'' اگر تو (اے ابوہریرہ!) دیر تک جیسا تو قریب ہے کہ تو دیکھے گا ایسے لوگوں کو جن کے ہاتھوں میں بیلوں کی دُموں کی طرح کوڑے ہوں گے اور صبح بھی اللہ کے غضب کے ساتھ کریں گے اور شام بھی اللہ کے قہر میں کریں گے۔ ''
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی یہ حدیث مبارک بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے معجزات میں سے ایک معجزہ ہے۔ اس لیے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دور میں اس زمانے کی آلائشوں سے پاک ہونے کی وجہ سے پولیس نہیں ہوتی تھی۔ اور یہ پولیس کا محکمہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حیاتِ طیبہ کے بعد وجود میں آیا۔ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا ہے کہ ایک مسلمان آدمی کی مصاحبت و موانست ان لوگوں سے ہو۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ہی روایت کرتے ہیں کہ نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
وَقَالَ صلی اللہ علیہ وسلم : (( صِنْفَانِ مِنْ أَہْلِ النَّارِ لَمْ أَرَہُمَا: قَوْمٌ مَعَہُمْ سِیَاطٌ کَأَذْنَابِ الْبَقَرِ یَضْرِبُوْنَ بِہَا النَّاسَ وَنِسَائٌ کَاسِیَاتٌ عَارِیَاتٌ مُمِیْلَاتٌ، رُئُ وْسُہُنَّ کَأَسْنِمَۃِ الْبُخْتِ الْمَائِلَۃِ، لَا یَدْخُلْنَ الْجَنَّۃَ وَلَا یجِدْنَ رِیْحَہَا، وَإِنَّ رِیْحَہَا لَیُوْجَدُ مِنْ مَسِیْرَہِ کَذَا وَکَذَا۔ ))2
'' جہنمیوں کی دو قسمیں ہیں جنھیں میں نے ابھی تک نہیں دیکھا۔ (یعنی یہ دو قسمیں ابھی تک وجود میں نہیں آئیں۔) ایک تو وہ لوگ کہ جن کے پاس بیلوں کی دُموں کی طرح کوڑے ہوں گے اور وہ لوگوں کو ان سے ماریں گے۔ (ظلم کریں گے) اور دوسری قسم ان عورتوں کی ہے جو کپڑے تو پہنے ہوں گی مگر ننگی ہوں گی۔ (یعنی اتنے باریک اور تنگ کپڑے اُن کے بدن پر ہوں گے۔) لوگوں کو بے حیائی کی طرف مائل کرنے والیاں اور خود بہکنے والیاں ہوں گی۔ (مٹک مٹک کر چلنے والیاں کہ جس سے لوگوں کی نظریں ان کی طرف خواہ مخواہ اُٹھیں۔) ان کے سر گویا ایک طرف کو جھکے ہوئے بختی اُونٹوں کے کوہان ہیں۔ (یعنی موباف لگا کر اپنے سر کے بالوں کا جوڑا بڑا کرنے والیاں) یہ عورتیں جنت میں ہرگز نہیں جائیں گی۔ بلکہ جنت کی خوشبو بھی نہ سونگھ سکیں گی حالانکہ جنت کی خوشبو اتنی اور اتنی دور (چالیس سال کی مسافت) سے آجاتی ہے۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ مسلم في کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا وأہلہا، باب النار یدخلہا الجبابرون ...، رقم: ۷۱۹۵۔
2 أخرجہ مسلم في کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا وأہلہا، باب النار یدخلہا الجبابرون ...، رقم: ۷۱۹۴۔
 

محمد نعیم یونس

خاص رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 27، 2013
پیغامات
26,582
ری ایکشن اسکور
6,748
پوائنٹ
1,207
نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جیسا فرمایا تھا ویسا ہوچکا۔ یہ کوڑوں اور لاٹھیوں والے لوگ پولیس والے ہیں جو لاٹھیاں، ڈنڈے، گنیں اور کوڑے اُٹھائے پھرتے ہیں کہ جن کے ساتھ وہ لوگوں کو مارتے پیٹتے ہیں۔ چنانچہ جس آدمی پر چوری وغیرہ کا الزام ہو تو اسے یہ لوگ خوب مارتے ہیں تاکہ وہ اقرار کرلے کہ اُس نے ہی چوری کی ہے۔ پولیس والوں کی یہ قسم صدرِ اوّل کے بعد ہی وجود میں لائی گئی جو اپنے ہاتھوں میں کوڑے رکھا کرتے تھے۔ یعنی وہ کوڑے کہ حدود میں سزا دینے کے لیے بھی لوگوں کو قصداً مارنے کی خاطر ان سے مارنا جائز نہیں ہے۔ ایسے لوگ پولیس کے آفیسر اعلیٰ کے مددگار ہوتے تھے کہ جو جلادوں کے نام سے معروف تھے۔ جب ان کو مارنے کے لیے کہا جاتا ہے تو وہ مار کی مقدار اور کی صفت (ہلکی یا بھاری) کے لیے مستعد ہوجاتے ہیں۔ بسااوقات ان پر وحشت طاری ہوجاتی ہے اور وہ مظالم ڈھانے کے لیے جب مجبور کردیے جاتے ہیں تو ملزموں کو ہلاک بھی کردیتے ہیں۔ بلکہ آج کل تو پولیس مقابلے کا نام دے کر لوگوں کو مار دیا جاتا ہے۔ امام قرطبی رحمہ اللہ فرماتے ہیں: خلاصہ یہ ہے کہ؛ یہ لوگ سراسر اللہ کی ناراضگی کے موجب ہیں اور اللہ تعالیٰ ان کے ذریعے مخلوق کے اشرار کو بھی سزا دے دیتا ہے۔ ہم اللہ کی ناراضگی سے اس کی پناہ چاہتے ہیں۔ سیّدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
(( إِنْ طَالَتْ بِکَ مُدَّۃٌ، أَوْشَک أَنْ تَرٰی قَوْمًا یَغْدُوْنَ فِيْ سَخَطِ اللّٰہِ، وَیَرُوْحُوْنَ فِيْ لَعْنَتِہِ۔ فِيْ أَیْدِیْہِمْ مِثْلُ أَذْنَابِ الْبَقَرِ۔ ))1
'' اے ابوہریرہ! اگر تو دیر تک زندہ رہا تو قریب ہے کہ تو ایسے لوگوں کو دیکھے جن کے ہاتھوں میں بیل کے دموں کی طرح کوڑے ہوں گے اور وہ صبح کریں گے اللہ کے غصے، غضب میں اور شام کریں گے، اُس کی لعنت کے ساتھ۔ ''
ــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
1 أخرجہ مسلم في کتاب الجنۃ وصفۃ نعیمہا وأہلہا، باب النار یدخلہا الجبابرون ...، رقم: ۷۱۹۶۔

اللہ تعالی کی پسند اور ناپسند
 
Top