• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آذان سن کر تلاوت روک دینا

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,562
پوائنٹ
791
ذاتی پیغام محترم بھائی @محمد عامر یونس نے سوال کیا ہے :

السلام علیکم ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
میں نے یہ سنا ہے کہ جب آذان ہوتی ہے تو سارے کام چھوڑ دے یہاں تک کہ قرآن کی تلاوت ہی کیوں نہ ہو۔
ـــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــــ
جواب :
وعلیکم السلام ورحمتہ اللہ وبرکاتہ
نبی اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ :

عَنْ عَبْدِ اللهِ بْنِ عَمْرِو بْنِ الْعَاصِ، أَنَّهُ سَمِعَ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «إِذَا سَمِعْتُمُ الْمُؤَذِّنَ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ثُمَّ صَلُّوا عَلَيَّ، فَإِنَّهُ مَنْ صَلَّى عَلَيَّ صَلَاةً صَلَّى الله عَلَيْهِ بِهَا عَشْرًا، ثُمَّ سَلُوا اللهَ لِيَ الْوَسِيلَةَ، فَإِنَّهَا مَنْزِلَةٌ فِي الْجَنَّةِ، لَا تَنْبَغِي إِلَّا لِعَبْدٍ مِنْ عِبَادِ اللهِ، وَأَرْجُو أَنْ أَكُونَ أَنَا هُوَ، فَمَنْ سَأَلَ لِي الْوَسِيلَةَ حَلَّتْ لَهُ الشَّفَاعَةُ»
(صحیح مسلم ، سنن ابوداود 523)
ترجمہ :
سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص ؓ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم ﷺ کو فرماتے سنا : ” جب تم مؤذن کی آواز سنو تو تم بھی وہی کہو جو وہ کہتا ہے ، پھر میرے اوپر درود بھیجو ، اس لیے کہ جو شخص میرے اوپر ایک بار درود بھیجے گا اللہ تعالیٰ اس پر دس بار اپنی رحمت نازل فرمائے گا ، اس کے بعد اللہ تعالیٰ سے میرے لیے وسیلہ طلب کرو ، وسیلہ جنت میں ایک ایسا مقام ہے جو اللہ تعالیٰ کے ایک بندے کے علاوہ کسی اور کو نہیں ملے گا ، مجھے امید ہے کہ وہ بندہ میں ہی ہوں گا ، جس شخص نے میرے لیے اللہ تعالیٰ سے وسیلہ طلب کیا اس کے لیے میری شفاعت واجب ہو گئی “

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حدیث شریف کی بنا پر اہل علم کا کہنا ہے کہ اگر آدمی تلاوت کر رہا ہو اور موذن دے تو تلاوت روک کر پہلے اذان کا جواب دے ؛
علامہ صالح المنجد فرماتے ہیں :
إذا كان الإنسان يقرأ القرآن ، فأذن المؤذن ، فالأفضل في حقه أن يترك القراءة ، ويشتغل بمتابعة المؤذن ؛ وذلك امتثالاً لعموم قوله عليه الصلاة والسلام : ( إِذَا سَمِعْتُمْ الْمُؤَذِّنَ ، فَقُولُوا مِثْلَ مَا يَقُولُ ) روى مسلم (384) ، ولأن الأذان يفوت وقته

یعنی اگر آدمی تلاوت کر رہا ہو اور موذن دے تو افضل یہ ہے کہ تلاوت روک کر پہلے اذان کا جواب دے ؛
کیونکہ اسی میں پیغمبر اکرم ﷺ کی پیروی ہے ان کا حکم ہے کہ جب مؤذن کو اذان دیتے سنو تو تم بھی جواب میں وہی کہو جو مؤذن کہتا ہے ؛

قال الإمام النووي رحمه الله :
" ولو سمع المؤذن قطع القراءة وأجابه بمتابعته في ألفاظ الأذان والإقامة ثم يعود إلى قراءته وهذا متفق عليه عند أصحابنا " انتهى . من "التبيان في آداب حملة القرآن" (126) .
علامہ نوویؒ فرماتے ہیں : قراءت کرنے والا جب مؤذن کو اذان دیتا سنے تو تلاوت روک کر پہلے اذان کا جواب دے ، پھر تلاوت کرنا شروع کردے ، ہمارے علماء کے یہ بات متفق علیہ ہے ( التبیان فی اداب حملۃ القرآن )

اور علامہ عبدالعزیز بن باز ؒ کا بھی یہی فتوی ہے ، جو درج ذیل ہے :

سئل الشيخ عبد العزيز بن باز رحمه الله : إذا أذن المؤذن والإنسان يقرأ القرآن ، فهل الأفضل له أن يرجع معه فيقول مثل ما يقول ، أم إن اشتغاله بالقرآن يعتبر أفضل باعتبار تقديم الفاضل على المفضول ؟

فأجاب : " السنة إذا كان يقرأ وسمع الأذان : أن يجيب المؤذن ؛ امتثالا لقول النبي صلى الله عليه وسلم : ( إذا سمعتم المؤذن فقولوا مثل ما يقول ثم صلوا علي فإنه من صلى علي صلاة صلى الله عليه بها عشرا ثم سلوا الله لي الوسيلة فإنها منزلة في الجنة لا تنبغي إلا لعبد من عباد الله ، وأرجو أن أكون أنا هو فمن سأل الله لي الوسيلة حلت له الشفاعة ) رواه مسلم في صحيحه ، من حديث عبد الله بن عمرو بن العاص رضي الله عنهما

(https://islamqa.info/ar/149053 )
 
Top