• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آسیہ مسیح کیس سے متعلق علمائے اہل حدیث کا متفقہ اعلامیہ

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
آسیہ مسیح کیس اور علما اہل حدیث کا متفقہ اعلامیہ

8 اکتوبر 2018ء
ایک وقت تھا، جب کسی مسلمان مرد یا عورت کی توہین کی وجہ سے پوری کی پوری سلطنتیں حرکت میں آجاتی تھیں۔ وقت کے حکمران سب مشغولیات چھوڑ کر ’حرمت مسلم‘ کے تحفظ اور دفاع کے لیے کمر بستہ ہوجاتے تھے۔ اب ایک وقت یہ آیا جب مسلمان کی حرمت وخون تو رائیگاں ٹھہرا ہی ٹھہرا، آگے بڑھ کر مسلمانوں کی عقیدتوں پر حملے ہونا شروع ہوگئے۔ اللہ رب العالمین کی توہین، اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی توہین، قرآن مجید کی توہین ، اب بہت سارے لوگوں کے ہاں معمول کا کیس بن چکا ہے۔ اہل اسلام کی اسی غفلت و سستی سے شہ پاکر جس کا جب جی چاہے، اول فول بکنا شروع کردیتا ہے۔ چند سال پہلے آسیہ بی بی نامی مسیحی خاتون نے توہین رسالت کا ارتکاب کیا۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی شان اقدس میں گستاخانہ کلمات کہے۔ شور مچا، بات تھانے سے ہوتی ہوئی ، عدالت تک پہنچی۔ قانونی کاروائی سے ثابت ہوا کہ اس خاتون نے گستاخی کا ارتکاب کیا تھا۔ اس خاتون نے بھی اس بات کا اقرار کیا۔ عدالت کی طرف سے سزائے موت کا فیصلہ سنایا گیا۔ لیکن عالم کفر جس طرح ہمارے مقدسات کی توہین کرنے میں پیش پیش رہتا ہے، اس جرم کا ارتکاب کرنے والوں کی حوصلہ افزائی میں بھی آگے آگے ہے۔
گستاخ رسول کی سزا میں شریعت کے احکامات واضح ہیں۔ آئین پاکستان میں بھی اس بارے میں کوئی ابہام نہیں۔ پھر فیصلے پر عمل درآمد میں تاخیر کیوں کی جارہی ہے؟ ممتاز قادری کے کیس کو تیزی سے نمٹایا گیا لیکن آسیہ بی بی کا کیس ابھی تک کیوں لٹکایا گیاہے؟
ملک پاکستان جس کے ’ریاست مدینہ‘ ہونے کا دعوی ہے، میں والی مدینہ کی توقیر و حرمت کے تحفظ کی بجائے اس کے گستاخوں کو تحفظ دیا جانا کیا افسوس ناک نہیں؟
کیا ایک بار پھر ثابت کردیا جائے گا کہ اسلام کے نام پر بننے والی ریاست میں اسلامی تعلیمات ہی قابل نفاذ نہیں رہیں؟
ہم وطن عزیز میں رہنے والے تمام شہریوں ، اقلیتوں اور ان کے شرعی حقوق کی قدر کرتے ہیں، ہمیں کسی مرد یا خاتون کو سزا ہونے یا نہ ہونے سے بھی کوئی دلچسپی نہیں۔ لیکن یہاں معاملہ حرمت رسول کا ہے۔ یہ ناموس رسالت کے محافظوں اور ڈاکوؤں کی جنگ ہے۔ پاکستان کے مسلمان محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی حرمت پر آنچ نہ آنے دیں گے۔ (بفضل اللہ تعالیٰ)​
گستاخ رسول آسیہ مسیح کے کیس کی صورت حال کو مد نظر رکھتے ہوئے، علمائے اہل حدیث کا متفقہ اعلامیہ درج ذیل نکات میں پیش کیا جاتا ہے۔
1۔ امت کے تمام علما و ججز کا اتفاق رہا ہے کہ توہین رسالت کے ارتکاب کی سزا موت ہے۔ گستاخ کا تعلق جس مرضی دین و مذہب سے ہو۔
2- توہین رسالت کا ارتکاب کرنے والا توبہ بھی کرے تو یہ اس کا اللہ کے ساتھ معاملہ ہے، دنیا میں اس کی سزا قتل ہی ہے۔
3۔ دنیا میں معافی صرف اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم دے سکتے تھے، ان کے بعد معاف کرنا کسی کے لیے جائز نہیں۔ کسی عام بندے کا حق کوئی دوسرا معاف نہیں کرسکتا، تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا حق تو سب سے اہم ہے۔
کیونکہ توہین رسالت سنگین ترین گناہ ہی نہیں بلکہ حد ہونے کے ناطے بدترین جرم بھی ہے، معاشرے کے خلاف دیگر جرائم مثلا چوری کی طرح اس میں معافی یا توبہ سے دنیا میں سزا ختم نہیں ہوسکتی بلکہ قاضی بھی حدود کا علم ہونے کے بعد معافی کا مجاز نہیں جیساکہ چوری میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے معافی کو جائز نہیں کیا تھا، تو ہمارے قاضی نبی مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عدالت سے بڑا استحقاق کیونکر رکھ سکتے ہیں۔
4۔ توہین رسالت کے الزام کی تحقیق کی جائے گی۔ اگرالزام درست ثابت ہوجائے، جیساکہ آسیہ مسیح کے متعلق ثابت ہوا، اور اس نے خود اعتراف بھی کیا، عدالت نے اس کے مطابق فیصلہ بھی دیا، اس کے باوجود اسے مجرم نہ سمجھنا، اس کے متعلق نرم گوشہ رکھنا، یا کسی دباؤ میں آکر غلط رائے قائم کرنا، یہ کسی مسلمان اور محب رسول کے شایان شان نہیں۔
5۔ ہمارا یہ بھی مطالبہ ہے کہ عالمی برادری کے ساتھ خیر سگالی کے لیے اور کئی میدان ہیں، حرمت رسول یا ختم نبوت جیسے حساس معاملات میں ٹانگ اڑانے والوں کو دو ٹوک جواب دیا جائے، اور کسی بھی قسم کے دباؤ کو قبول نہ کیا جائے۔
6۔ اس کیس کو جلد از جلد مکمل کرکے، اس پر اثر انداز ہونےوالی طاقتوں اور افراد کو بھی بے نقاب کیا جائے، اور انہیں سخت سزا دی جائے۔ تاکہ آئندہ کوئی بھی اس قسم کی حرکت یا اس کی حوصلہ افزائی کرنےکی ہمت نہ کرے۔
7۔ کسی بھی وجہ سے توہین رسالت کے قانون کے نفاذ میں اگر سستی کا مظاہرہ کیا گیا، تو تمام اہل اسلام مل کر ملک گیر احتجاج کریں گے۔ ہر آئینی و قانونی طریقہ بروئے کار لائیں گے اور حرمت رسول کا دفاع کریں گے۔​
اعلامیہ ہذا کی تائید کرنے والے علمائے کرام و مفتیان عظام کے اسمائے گرامی:
1) شیخ الحدیث عبد الستار الحماد حفظہ اللہ ،مرکز الدراسات الاسلامیہ ، میاں چنوں
2)
فضیلۃ الشیخ محمود احمد حسن حفظہ اللہ، شیخ الحدیث جامعہ ستاریہ کراچی
3)
حافظ ابتسام الہی ظہیر مرکز اہل حدیث لارنس روڈ
4)
حافظ ہشام الہی ظہیر قرآن و سنہ اسلامک سنٹر یو ای ٹی
5)
ڈاکٹر حسن مدنی ، مدیر جامعہ لاہور الاسلامیہ ، پروفیسر پنجاب یونیورسٹی ، لاہور
6)
مولانا یعقوب شیخ، مرکزی رہنما فلاح انسانیت فاؤنڈیشن
7)
أبو عبد الله عبدالواجد سلفی
8)
ابو معاذ حنیف،عفی اللّٰہ عنہ اسلامک سنٹر عنیزہ القصیم سعودیہ عرب
9)
پروفیسر اعجاز بن حسن کالم نگار ، بہاولنگر
10)پروفیسر حافظ عثمان خالد شیخوپوری مدیر جامعہ محمدیہ شیخوپورہ
11)
پروفیسر عبد الوکیل فہیم
12)پروفیسر ہاشم یزمانی، ریسرچ اسکالر پیغام ٹی وی لاہور
13)
حافظ ارشد محمود مدیر مجموعہ علمائے اہل حدیث
14)
حافظ اظہار الحق حفظہ اللہ مدرس مرکز الدعوۃ الاسلامیہ، لاہور
15)
حافظ خضر حیات مدنی
16)حافظ سیف اللہ ارشد حفظہ اللہ
17)
حافظ شاهد رفیق ، مدیر ام القری پبلیکیشنز، گوجرانوالہ
18)
حافظ ضياء الحق نعيم حفظہ اللہ
19) حافظ عابد الہی حفظہ اللہ
20)
حافظ عبد الماجد سلفی ، مترجم ،جدہ سعودی عرب
21)حافظ عبد الماجد سلفی مدیر مرکز القدس ٹاؤن شپ، لاہور
22)
حافظ عبد الماجد سلفی، مدیر مرکز القدس ٹاؤن شپ لاہور
23)
حافظ عبد المنان ثاقب، نگران جامعہ ریاض القرآن والحدیث فیصل آباد
24)
حافظ عبدالغفار ریحان رئیس جامعہ حرمین ظفروال ضلع نارووال
25)
حافظ عبدالقيوم سلفى اسلامک سنٹر جدہ
26)
حافظ محسن جاوید
27)
حافظ محمد عرفان اسعد مدیر جامعہ اسلامیہ سلفیہ اڈا جہان خان بھکر
28)
حافظ محمود عبد الرشید اظہر ، ناظم جامعہ سعیدیہ خانیوال
29)
حافظ مسعود عبد الرشید اظہررئیس الجامعة السعیدیة السلفیة خانیوال
30)
حافظ معتصم الہی ظہیر
31)
ڈاکٹر جواد حیدر پروفیسر گورنمنٹ کالج رینالہ خورد
32)
ڈاکٹر حافظ حمزہ مدنی مدیر جامعہ اسلامیہ بیت العتیق لاهور
33)
ڈاکٹر زکریا زاہد پنجاب یونیورسٹی لاہور
34)
ڈاکٹر عبید الرحمن محسن، مدیر دار الحدیث راجوال
35)
ڈاکٹر مطیع اللہ باجوہ چیئر مین اسوہ فاونڈیشن
36)
سید علی ہاشمی ، وائس چانسلر بلال اسلامک یونیورسٹی
37)
شاہ فیض الابرار صدیقی جامعہ ابی بکر الاسلامیہ کراچی
38)
شیخ احسان اللہ امام و خطیب دیجن اسلامک سنٹر جنوبی کوریا
39)
شیخ الحدیث مولانا عبد الصمد رفیقی منڈی واربٹن
40)
شیخ حماد الحق نعیم
41)
شیخ حمیداللہ خان عزیز،ایڈیٹر ماھنامہ”تفہیم الاسلام“ احمدپور شرقیہ
42)
شیخ راشد حسن جامعہ بحرالعلوم السلفیہ میر پور خاص سندھ
43)
شیخ رفیق طاہر حفظہ اللہ
44)
شیخ زبیر بن خالد مرجالوی نائب مدیر: اللجنة العلمية، پاکستان
45)
شیخ شفیق الرحمن دراوی حفظہ اللہ اسلام آباد
46)
شیخ عبد المنان راسخ ادارہ کتاب و حکمت فیصل آباد
47)
عثمان بن خالد مرجالوی مدیر: اللجنة العلمية، پاکستان
48)
قاری اکمل شاہین لاہور
49)
قاری فرخ مہتاب، امام مسجد احمد بن حنبل شارقہ
50)
محمد ابراہیم بن بشیر الحسینوی مہتمم جامعہ امام احمد بن حنبل قصور
51)
محمد احمد صدیق کلیۃ القران الکریم و التربيه الاسلاميه پھول نگر
52)
پروفیسرمحمد صارم اسلامیہ کالج گوجرانوالہ
53)
مولانا یحی عارفی ، مدرس، مناظر، خطیب، مصنف ، لاہور
54)
مولانا ابو القاسم محمد عبد الله منير
55)
مولانا احسان الحق شہباز گوجرانوالہ
56)
مولانا اختر صديق حفظہ اللہ اسلامک سنٹر ریاض
57)
مولانا انور شاہ راشدی جامعہ دار الرشاد پیر آف جھنڈا،سندھ
58)
مولانا جاوید اقبال سیالکوٹی حفظہ اللہ
59)
مولانا حبيب الرحمن اسلامک سنٹر ریاض سعودی عرب
60)
مولانا حفيظ الرحمن ، استاد پھول نگر کالج
61)مولانا خاور رشید بٹ ، اسپیشلسٹ تقابل ادیان و مذاہب
62)
مولانا خبيب احمد فیصل آباد
63)
مولانا شاکر محمود حفظہ اللہ
64)
مولانا شفیق عاجز ، ناظم مدرسہ دار القرآن والحدیث ، سندھ
65)
مولانا صدیق رضا ریاض سعودی عرب
66)
مولانا ضیاء اللہ برنی روپڑی مدیر مرکز اہل حدیث پونچھ روڈ سمن آباد
67)
مولانا طارق جاويد عارفی
68)
مولانا طاہر طیب بھٹوی
69)
مولانا عبد الحفیظ روپڑی کراچی
70)
مولانا عبد الحنان حامد حفظہ اللہ
71)
مولانا عبدالرحمن ثاقب ،مرکزی جامع مسجد اہل حدیث مارچ بازار سکھر
72)
مولانا عبدالستار معراج دين
73)
مولانا عبید اللہ ارشد
74)
مولانا محمد امین محمدی حفظہ اللہ شیخ الحدیث گوجرانوالہ
75)
مولانا محمد رفیق مدنی، ملتان
76)
مولانا محمد سعید طیب بھٹوی حفظہ اللہ ،خطیب جامع مسجد محمدی PWD کالونی اسلام آباد
77)
مولانا محمد عثمان حفظہ اللہ امیر جماعت، ضلع سکھر
78)
مولانا محمد عرفان حفظہ اللہ
79)
مولانا موہب الرحیم
80)
مولانا نديم ظہیر حفظہ اللہ مدیر ماہنامہ الحدیث
81)
مولانا منير قمر، مترجم عدالت،خُبر سعودی عرب،مصنف کتب کثیرہ
82) مولانا طالب الرحمن شاہ، مشہور مقرر و مصنف
وما علينا إلا البلاغ المبين​
 
Last edited:

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
Last edited:

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
اسلام آباد: سپریم کورٹ آف پاکستان نے توہین رسالت کے جرم میں سزائے موت پانے والی مسیحی خاتون آسیہ بی بی کو ناکافی شواہد کی بناء پر بری کردیا۔
چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس میاں ثاقب نثار کی سربراہی میں جسٹس آصف سعید کھوسہ اور جسٹس مظہر عالم میاں خیل پر مشتمل سپریم کورٹ کے تین رکنی خصوصی بینچ نے توہین رسالت کے الزام میں موت کی سزا پانے والی آسیہ بی بی کی درخواست پر فیصلہ سنایا۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں حکم دیا کہ آسیہ بی بی اگر کسی دوسرےکیس میں مطلوب نہیں تو انہیں رہا کردیا جائے۔
57 صفحات پر مشتمل فیصلہ جسٹس ثاقب نثار نے تحریر کیا، جس میں جسٹس آصف سعید کھوسہ کا نوٹ بھی شامل ہے۔
تحریری فیصلے کا آغاز کلمہ شہادت سے کیا گیا جبکہ فیصلے میں کئی قرآنی آیات اور علامہ اقبال کے شعر کا بھی حوالہ دیا گیا۔
عدالت عظمیٰ نے اپنے فیصلے میں باچا خان یونیورسٹی میں توہین کے الزام میں قتل کیے گئے طالب علم مشعال خان سمیت توہین مذہب کے دیگر کیسز کا بھی حوالہ دیا۔
چیف جسٹس نے فیصلے میں لکھا، 'یہ قانون کا ایک مسلمہ اصول ہے کہ جو شخص کوئی کلیم (دعویٰ) کرتا ہے تو اس کو ثابت کرنا بھی اسی کی ذمہ داری ہوتی ہے، پس یہ استغاثہ کی ذمہ داری ہوتی ہے کہ وہ تمام کارروائی میں ملزم کے ارتکاب جرم کو ہر قسم کے شک و شبہ سے بالاتر ثابت کرے، تمام کارروائی مقدمہ میں ملزم کے ساتھ بے گناہی کا قیاس ہمیشہ رہتا ہے، چہ جائیکہ استغاثہ شہادتوں کی بنیاد پر ہر طرح کے شک و شبہ سے بالاتر ہو کر ملزم کے خلاف جرم کا ارتکاب ثابت نہ کردے'۔
عدالتی فیصلے کے مطابق، 'جہاں کہیں بھی استغاثہ کی کہانی میں کوئی جھول ہوتا ہے، اس کا فائدہ ملزم کو دیا جانا چاہیے، جو کہ فوجداری انصاف کی محفوظ فراہمی کے لیے انتہائی ضروری ہے'۔
جسٹس ثاقب نثار نے لکھا، 'شبہ جس قدر بھی مضبوط اور زیادہ ہو، کسی طور پر بھی فوجداری مقدمے میں ضروری بار ثبوت کی جگہ نہیں لے سکتا، ملزم اور گواہان/ شکایت گزار کے مابین عناد کی موجودگی میں عام طور پر گناہ یا بے گناہی کو ثابت کرنے کے لیے اعلیٰ ترین معیارِ ثبوت کی ضرورت ہوتی ہے، اگر استغاثہ کے گواہان ملزم کے لیے عناد رکھتے ہوں تو وہ شک کے فائدے کے اصول کی بناء پر بریت کا حقدار ہوتا ہے'۔
آخر میں چیف جسٹس نے اپنے فیصلے میں لکھا، 'متذکرہ بالا وجوہات کی بناء پر یہ اپیل منظور کی جاتی ہے۔ عدالت عالیہ اور ابتدائی سماعت کی عدالت کے فیصلوں کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے۔نتیجتاً اپیل گزار کو دی گئی سزائے موت کو کالعدم قرار دیا جاتا ہے اور اس کو تمام الزامات سے بری کیا جاتا ہے۔ اگر کسی دیگر فوجداری مقدمے میں اس کو قید رکھنا مقصود نہیں تو اس کو فوری طور پر جیل سے رہا کیا جائے گا'۔
جسٹس آصف سعید کھوسہ کا اضافی نوٹ
جسٹس آصف سعید کھوسہ نے اپنے نوٹ میں تحریر کیا، 'مقدمہ ہذا میں ہر واقعاتی زاویئے کے متعلق استغاثہ کی جانب سے پیش کردہ شہادتوں میں واضح اور یقینی تضادات سے یہ افسوسناک اور ناقابلِ انکار تاثر قائم ہوتا ہے کہ ان تمام افراد، جن کے ذمہ شہادتیں اکٹھی کرنا اور تفتیش کرنے کا کام تھا، نے ملی بھگت سے یہ طے کیا ہوا تھا کہ وہ سچ نہیں بولیں گے یا کم از کم مکمل سچائی کو باہر نہیں آنے دیں گے'۔
انہوں نے مزید لکھا، 'حتیٰ کہ اگر مقدمہ ہذا میں اپیل گزار کے خلاف عائد الزامات میں ذرہ بھر بھی سچائی ہے، تب بھی استغاثہ کی شہادتوں میں بیان کردہ سنگین تضادات واضح طور پر ظاہر کرتے ہیں کہ مقدمہ ہذا میں سچائی کو بہت سی ایسی باتوں سے گذمڈ کیا گیا ہے، جو سچ نہیں ہیں۔'
آخر میں جسٹس کھوسہ نے لکھا، 'جو کچھ بھی اوپر بیان کیا گیا ہے، اس کی روشنی میں یہ نتیجہ اخذ کرنے میں کوئی عار نہیں کہ استغاثہ اپیل گزار کے خلاف اپنا مقدمہ بلا شک و شبہ ثابت کرنے میں ناکام رہی ہے، لہذا اپیل ہذا کو منظور کیا جاتا ہے، ذیلی عدالتوں کی جانب سے اپیل گزار کو دی گئی اور برقرار رکھی گئی سزا ختم کی جاتی ہے اور اس کو شک کا فائدہ دیتے ہوئے الزام سے بری کیا جاتا ہے۔'

حوالہ:https://urdu.geo.tv/latest/192316-
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
میں نے وہ پچاس صفحات پر موجود رپورٹ مکمل دیکھی ہے۔
تمام دلائل و شواہد کو یہ کہہ کر رد کردیا گیا کہ یہ ’ملی بھگت‘ یا ’دباؤ‘کے تحت تھے۔
اس طرح تو کسی بھی دلیل یا ثبوت کو رد کیا جاسکتا ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پہلے یہی عدالتیں اس بنیاد پر فیصلہ سنا چکی ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اس حوالے سے فیس بک و واٹس ایپ پر آنے والی کچھ اہم پوسٹس یہاں کاپی پیسٹ کرتاہوں:
دو گھنٹے سے تمام چینلز پر شہباز شریف کی تقریر چل رہی ہے، کمال کا اتحاد ہے میڈیا کا، وہ اس واقعہ کو کوئی خبر ہی نہیں سمجھتے یا محبان رسول کو انسان نہیں جانتے کہ ان کا موقف بتائیں۔
یہ حب رسول کا مقدمہ ہمیں خود ہی لڑنا ہوگا، ہماری اہل حدیث جماعتوں کو ریگل سے پنجاب اسمبلی یا ناصر باغ کی طرف ریلی نکالنے کا فیصلہ کرنا چاہئیے،
ہم ادارے کی تعلیمی پالیسی کو نظر انداز کرتے ہوئے اس اہم مسئلہ پر پوری طرح اپنے طلبہ کے ساتھ شریک ہوں گے۔ جماعہ الدعوہ یا مرکزی جمعیت یا جماعت اہل حدیث کسی کو فوری اعلان کرنا چاہئیے۔
اور گوجرانوالہ، فیصل آباد، ملتان، کراچی میں بھی اپنا احتجاجی مظاہرہ نکالنا چاہئیے۔
اہل حدیث ہی منصب رسالت کے اصل محافظ ہیں اور اس کا تحفظ ہماری ہی پہلی ذمہ داری ہے۔
(ڈاکٹر حسن مدنی، مدیر التعلیم جامعہ لاہور الاسلامیہ)
آسیہ کیس ، عدالتی رپورٹ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ثبوت جرم کے لئے اعتراف کے ساتھ
معتبر گواہیوں سے بھی جرم ثابت ہوتا ہے، یہ جرم عوام کی اکثریت کے سامنے کیا گیا جن کی گواہی شرعا اور قانونا معتبر ہے۔
کل کلاں کیا عدالت کہے گی کہ چوری اور زنا ہمارے سامنے کرو تو مانیں گے۔
ججوں کے ظلم کی آفت ہے کہ انہوں نے اپنا باطن کھول کے رکھ دیا، یہ فیصلہ ان کے لئے مکافات عمل ہوگا۔ ان شاء اللہ
اصل امتحان ہمارا ہے، رسول اللہ کی ناموس کا ذمہ دار اللہ تعالی ہے اور کچھ قدسی نفوس کو ہی اللہ اپنی ذمہ داری پوری کرنے کے لئے چنتا ہے۔
(ڈاکٹر حسن مدنی)
میں چار گھنٹے سے میڈیا کے طور اطوار دیکھ رہا ہوں
کون پیٹ سے سوچتا ہے؟
اور کون جذبہ ایمانی سے فیصلے کرتا ہے
اف یہ میڈیا کے خود ساختہ محسن، کتنے ارزاں ہیں، اور ان کی قیمت کتنی کم ہے۔
ملک پر بدترین سنسر شپ مسلط ہے۔
ابھی جیسے ہی مولانا اسعد محمود نے قومی اسمبلی میں آسیہ کیس کے بارے میں خطاب شروع کیا تو پورے پاکستانی میڈیا پر تین گھنٹے سے جاری پارلیمنٹ کاروائی کو فوری طور پر بند کر دیا گیا۔
یہ ڈرے ہوئے لوگ حب رسول کی ہر آواز دبانا چاہتے ہیں اور پیسے کے پجاری میڈیا مالکان اپنی دکان بچا کر حرمت رسول کا سودا کر رہے ہیں۔
اللہ کا وعدہ پورا ہو کر رہے گا
انا کفیناک المستہزئین
دیکھیں کون اس فرض الہی کو پورا کرنے سعادت لے گا۔
(ڈاکٹر حسن مدنی صاحب)
کفر کی آلہ کار’عدالت آلیہ‘ تیری توہین ، صاحب حرمت وعظمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ وفاداری کا تقاضا ہے۔(خضرحیات)
مسلکوں سے بالاتر ہو کر ہر ایک کے احتجاج میں حصہ لیں آج مسالک کی عظمت کی جنگ نہیں ۔ ۔ایمان کو باقی رکھنے کا مسئلہ ہے.(ہشام الہی ظہیر)
میرا مسلک
شاتم رسول کو آزاد کروانے والا نام نہاد اہل حدیث بھی ہو تو لعنت.
حرمت رسول کے لیے ہم خادم رضوی صاحب کے بھی ساتھ ہیں.(خضر حیات)
چیف جسٹس نے ہمیں سمجھا دیا کہ گستاخانِ رسول ﷺ کا فیصلہ ممتاز قادری کرتے ہیں، عدالتوں کے بس کی بات نہیں۔
(منقول)
روڈ بلاک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس بندے کے لیے دو منٹ اشارے پر رکنا محال ہوجاتا ہے اس کے لیے روڈ بلاک ہونے کی صورت میں حاصل ہونے والی پریشانی اور کوفت کو سمجھنا مشکل بات نہیں۔ لیکن ہمیں یہ بھی تو سوچنا چاہیے کہ ہمارے نعرے کیا ہوتے ہیں؟
حرمت رسول پر جان بھی قربان ہے.
اگر اس نعرے میں سچے ہیں، تو پھر ڈیوٹی، شادی بیاہ، میٹنگ، سیر سپاٹے اور دیگر کاموں کی قربانی پر ان لوگوں کو گالیاں نہ دیں، جو اپنا سب کام چھوڑ کر حرمت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے روڈ پر آ کر بیٹھے ہیں.
ہاں ایمرجنسی معاملات کو مد نظر رکھتے ہوئے احتجاج والے بھائیوں کو بھی ان کے ساتھ بھرپور تعاون کرنا چاہیے.
بہر صورت اگر مؤثر احتجاج کاروبار زندگی معطل کیے بغیر ہوسکے تو یہ اس سے بھی بہتر ہے۔ (خضرحیات)
اسلام غلبہ چاہتا ہے
جو طاقت کے حصول کے بغیر نا ممکن ہے۔ طاقت ور عافیہ کو اسیر رکھتے ہیں۔ آسیہ کو چھڑا لیتے ہیں۔
کمزور منہ دیکھتے رہ جاتے ہیں۔
(خلیل الرحمٰن چشتی)
احتجاج میں رکاوٹ نہ بنیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
عورت کی طرف سے تمام اعترافات کو ’دباؤ‘ کے تحت کہہ کر رد کیا گیا.
اس کے خلاف گواہیوں کو ’ ملی بھگت‘. کہہ کر.
تو کیا وہ تمہارے سامنے توہین کرے تو تب مانو گے؟
اور کیا پتہ کل کو کوئی دوسرا جج تمہاری بات بھی رد کردے، جس طرح تم نے پہلے ججز اور عدالت کا فیصلہ کالعدم قرار دے دیا.
خیر اپنے بھائیوں سے گزارش ہے کہ فی الوقت ان معاملات میں الجھنے کی بجائے بہتر ہے کہ جس چیز پر کثیر علماء و ججز حضرات کا اتفاق ہے .. ہمیں ان کا ساتھ دینا چاہیے.
یا پھر خاموشی بہتر ہے صرف یہ سوچ کر کہ اگر واقعتا یہ حرمت رسول کا معاملہ ہوا تو میرا کوئی فعل اس کے لیے کسی احتجاج میں رکاوٹ کا ذریعہ نہ بنے.(خضر حیات)
جو بھائی روڈ پر نکلنے والے مجاہدین کا ساتھ نہیں دے سکتے، وہ سوشل میڈیا پر ہی کام جاری رکھیں. یہاں اظہار رائے بھی بہت اہم ہے.(خضرحیات)
احتجاج میں رکاوٹ ڈالنے والوں کی ذرا پرواہ نہ کریں.
مطئمن رہیں کے علماء و قانون دانوں کی کثیر تعداد ہمارے ساتھ ہے. (خضرحیات)
غازی علم الدین کی شہادت اور آسیہ مسیح کے کیس کی تاریخ ایک رکھ کر مسلمانوں کے جذبات سے کھیلا گیا.(خضرحیات)
سیاسی جلسے کے لیے روڈ بلاک ہوتا ہے، شادی بیاہ ، میچوں کے لیے روڈ بلاک ہوتے ہیں. اور وہ مسجدیں اور مراکز بھي جلسےجلوس اور جمعے جماعتوں کے لیے روڈ بلاک کرتے ہیں، جو آج حرمت رسول کے لیے نکلنے والوں کو کہہ رہے ہیں کہ روڈ بلاک کرنا شریعت میں جائز نہیں.
احتجاج کے سامنے روڑے اٹکانے والوں سے گزارش ہے کہ خود ’شرعی احتجاج‘ کریں.. دوسروں کی ٹانگیں نہ کھینچیں.
و لو أرادو الخروج لأعدوا لہ عدۃ ولکن کرہ اللہ انبعاثہم فثبطہم ( خضرحیات)
کافی سال پہلے ہماری مسجد میں ایک صاحب آئے، بتانے لگے کہ کشمیر اور پاکستان کے درمیان کوئی اقتصادی پابندی لگی ہے، کشمیری احتجاج کرر ہے ہیں کہ تیری منڈی میری منڈی راولپنڈی راولپنڈی.... لمبی چوڑی تقریر کرکے چندہ بھی مانگا اور ساتھ احتجاج کے لیے بھی لوگوں کو دعوت دی.
یہ منڈیوں کے لیے احتجاج کرنے والوں میں سے کوئی بھی آپ کو آج حرمت رسول کے احتجاج میں نظر نہ آیا ہوگا.
بلکہ الٹا ان کے کئی مفکرین اپنی خاموشی کے عذر بہانے تراشتے اور دوسروں کو طعنے دیتے نظر آرہے ہوں گے. (خضرحیات)
حرمت رسول کے لیے نکلنے والوں کو ملعون کہنے والوں کے لیے ہماری ہدایت کی دعا ہے. اگر نصیب نہیں تو بدعا ہے کہ اللہ تعالی انہیں ان کی ذات اور گھر میں آزمائے، اور عدالتیں ملزم کو بری کردیں۔ (خضرحیات)
مجھے کئی دفعہ تجربہ ہوا، مختلف مہمان آپ کو ملیں، اور سب کی مہمان نوازی آپ برابری کی سطح پر کریں، تو بعد میں معلوم ہوتا ہے کہ سب اسی سوچ میں رہتے ہیں کہ ’ میرے لیے اس نے کیا کیا تھا؟ کھانا تو سب نے کھایا، وقت بھی سب کے لیے برابر ہی تھا‘‘ وغیرہ وغیرہ.
آج یہ چیز اس لیے ذہن میں آگئی کہ بہت سارے لوگ مشترکہ معاملات میں صرف یہ سوچ کر پیچھے بیٹھے رہتے ہیں کہ تو اس میں ہم اکیلے ہی ذمہ دار تھوڑے ہیں؟
اللہ توہین کرنے والے اور ان کو بری کرنے والوں سے یہ غلطی کروادے کہ ساتھ ساتھ وہ کسی مولانا صاحب، قائد صاحب، یا معزز جماعت کو بھي دو سنادیں، تو قوی امید ہے کہ حرمت رسول پر عدم تعاون والا مسئلہ حل ہوجائے گا. (خضر حیات)
تحریک ختم نبوت اور تحریک نظام مصطفی کے واقعات تاریخ کی کتابوں میں پڑھے تھے.
اکابرین کی جرات و بہادری اور قید وبند کی داستانیں جابجا ملیں گی.
کبھی سوچا نہیں تھا کہ ہم بھی اس آزمائش میں مبتلا ہو جائیں گے.
اللہ سرخرو کرے. (خضر حیات)
 
Last edited:

نسیم احمد

مشہور رکن
شمولیت
اکتوبر 27، 2016
پیغامات
747
ری ایکشن اسکور
128
پوائنٹ
108
میں نے وہ پچاس صفحات پر موجود رپورٹ مکمل دیکھی ہے۔
تمام دلائل و شواہد کو یہ کہہ کر رد کردیا گیا کہ یہ ’ملی بھگت‘ یا ’دباؤ‘کے تحت تھے۔
اس طرح تو کسی بھی دلیل یا ثبوت کو رد کیا جاسکتا ہے۔
افسوس کی بات تو یہ ہے کہ پہلے یہی عدالتیں اس بنیاد پر فیصلہ سنا چکی ہیں۔
محترم شیخ
کیا اس رپورٹ میں اس بات کا کہیں شائبہ ملتا ہے کہ اس کی ساتھی خواتین نے بدلے کے لئے اس کو پھنسانے کی کو شش کی ہے۔
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
محترم شیخ
کیا اس رپورٹ میں اس بات کا کہیں شائبہ ملتا ہے کہ اس کی ساتھی خواتین نے بدلے کے لئے اس کو پھنسانے کی کو شش کی ہے۔
اس الزام کی تردید کی گئی ہے۔
اور جب اس پر کیس کیا گیا تھا، پنچایت بیٹھی ٹھی، پھر عدالت میں سزا سنائی گئی تھی ، تو ان سب چیزوں کی تحقیق کرنے کے بعد ہی اسے سزا سنائی گئی تھی۔
 

عدیل سلفی

مشہور رکن
شمولیت
اپریل 21، 2014
پیغامات
1,718
ری ایکشن اسکور
428
پوائنٹ
197
وفاق المدارس السلفیہ کا عاصیہ (آسیہ) کے بارہ سپریم کورٹ فیصلہ پہ رد عمل!

45081520_2070742373238434_9189968779113660416_n.jpg
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
آسیہ ملعونہ کی بریت کا معاملہ چند پہلووں سے قابل غور ہے
اول: کیا آسیہ ملعونہ فی الواقع گستاخ رسول ہے
دوم: سابقہ عدالتی فیصلوں کے شواھد اور دلائل
سوم: موجودہ عدالتی فیصلہ کی حقیقت کیا ہے ؟ چونکہ زیادہ تر اعتراضات اور تحفظات کا اظہار کیا جا رہا ہے
چہارم: ہمارا اس پر ردعمل کیا ہونا چاہیے
اور حقیقت تو یہ ہے کہ یہی آخری پہلو پر ابھی تک باقاعدہ کوئی لائحہ عمل پر اتفاق نہیں ہو سکا
بھرپور احتجاج کہ تمام اہم راستے بند کر دیے جائیں (یہاں تک کہ اس فیصلہ کو واپس لے لیا جائے ، یہ میرا جملہ ہے ) اس طریقے میں عوام اور ادارے آمنے سامنے حالت جنگ میں ہیں
ایسا احتجاج جو کسی کو نقصان و ضرر نہ پہنچائے یعنی مالی و جانی نقصان نہ ہو ، اس طریقے میں ضرررساں پہلو اور امکانات کم ہیں
قانونی جنگ لڑی جائے
سب سے بڑا نقصان اس فیصلے کا یہ ہوا ہے کہ بین الاقوامی برادری توہین رسالت پر اس فیصلے کی بنیاد پر اسے آزادی اظہار رائے قرار دے سکتی ہے جس پر ان کے میڈیا سے آوازیں اٹھنا شروع ہو چکی ہیں ، یہ ایک ٹیسٹ کیس ہے جس میں ہمارا عدالتی نظام فیل ہو گیا اور المیہ یہ ہے کہ فیصلہ سے قبل آیات و احادیث کا کثرت سے ذکر کیا گیا گویا کہ باور کروایا جا رہا ہے کہ یہ فیصلہ قرآن وسنت کے مطابق ہے اور یہی وجہ ہے کہ عام روٹین کے برخلاف اردو میں بطور خاص لکھوایا گیا جبکہ سرکاری زبان انگلش ہے
 

محمد فیض الابرار

سینئر رکن
شمولیت
جنوری 25، 2012
پیغامات
3,039
ری ایکشن اسکور
1,234
پوائنٹ
402
از قلم: *الشیخ حافظ عثمان صفدر حفظہ اللہ* فاضل مدینہ منورہ یونیورسٹی
میرے خیال میں آسیہ کیس کے دو پہلو ہیں اور دونوں کو الگ رکھنا چاہیے.:
(1): کیا اس کیس کا فیصلہ درست ہوا؟
اس پر ہماری ذاتی رائے کیا ہے. اور اس رائے کو اپنانے سے پہلے ہمیں یہ دیکھنا چاہئے کہ کیا اس کیس میں شرعی و آئینی تقاضے پورے کئے گئے. ساتھ ہی ساتھ اس فیصلہ کے خارجی محرکات اور پھر فیصلہ کے ذریعہ جن مقاصد کی تکمیل ہوئی وہ بھی دیکھنی چاہیے.
(2): دوسرا پہلو یہ ہے کہ اس فیصلہ پر ہمارا ردعمل کیسا ہونا چاہیے؟
اس رد عمل کو ہمیں کتاب وسنت اور منہج سلف کی روشنی میں اختیار کرنا چاہیے.
جہاں تک پہلے امر کا تعلق ہے تو یہ معاملہ اتنا سادہ نہیں جتنا بعض ہمارے سادہ لوح بھائی بیان کر رہے ہیں. اس فیصلہ میں قانونی سقم اور تضادات بیان کئے گئے ہیں جن کی حقیقت کئی وکلاء نے اپنی تحریروں سے عیاں کردی ہے کہ یہ وہ ہتھکنڈے ہیں جن کے ذریعہ کوئی بھی فیصلہ اپنی مرضی کے رخ پر موڑا جاسکتا ہے. اگر شرعی لحاظ سے دیکھا جائے تو یہ اس قدر حساس معاملہ ہے جس میں ایک عادل گواہ کی گواہی کی بنیاد پر بھی فیصلہ ہوجاتا ہے جیسا کہ ایک نابینا صحابی کی گواہی پر اس کی لونڈی جس نے یہ قبیح عمل کیا اور صحابی کے ہاتھوں اپنے انجام کو پہنچی اس کا خون نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ہدر یعنی ضائع قرار دیا تھا. یہاں تو دسیوں گواہیاں موجود تھیں. پھر اس معاملہ میں عالمی تنظیموں کی مداخلت، حاکم وقت سے عیسائی تنظیموں کی ملاقات، اور عالمی میڈیا کی کوریج بہت سی ان کہی باتوں سے پردہ اٹھا رہی ہے. پھر معاملہ صرف یہاں تک رکتا نظر نہیں آتا بلکہ اب عالمی تنظیمیں اس بات کو بنیاد بنائیں گی کہ اگر یہ کیس سپریم کورٹ میں نہ آتا تو بے گناہ کو سزا ہوجاتی لہذا اس قانون کا ازسر نو جائزہ لیا جائے اور پھر جائزہ کے نام پر جو ہوگا وہ ہم سب جانتے ہیں اور یہی اصل مقصد ہے. آسیہ تو محض ایک ذریعہ ہے اس مقصد تک پہنچنے کا.
تعجب ہے کہ توہین عدالت میں شک کی بنیاد پر سزا دینے والے توہین رسالت میں مصنوعی شک کی بنیاد پر بریت کا فیصلہ دے رہے ہیں.
لہذا اپنی ذاتی رائے بناتے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان دل و ذہن میں ہونا چاہیے کہ *"لا يؤمن أحدكم حتى أكون أحب إليه من والده وولده والناس أجمعين"*. نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے محبت ہی ہمارا سرمایہ آخرت ہے اس کی حفاظت کیجئے.
جہاں تک دوسرا پہلو ہے تو کتاب و سنت اور منہج سلف سے ہمیں یہی درس ملتا ہے کہ سزا صرف مجرم کو ملنی چاہئے گردن اس کی تن سے جدا ہو جو ناموس رسالت پر وار کرے. باقی مظاہرے اور احتجاج کے ذریعہ عام مسلمانوں کو تکلیف دے کر کچھ حاصل نہیں ہے. اگر احتجاج کرنا بھی تو ان صاحب اقتدار لوگوں کے راستوں میں ہو جن کو ناموس رسالت سے زیادہ اقتدار اور وطن پیارا ہے. اور اگر ہم بے بس ہوں تو اللہ تعالی قادر مطلق ہے اور اس کا اعلان ہے کہ *"إنا كفيناك المستهزئين"*.
اللہ تعالی سے دعا ہے کہ حرمت رسول پامال کرنے والوں ان کا دفاع کرنے والوں اور ان کی حمایت کرنے والوں کو اپنی قدرت مطلقہ اور جبروت عظمی کے ذریعہ نیست و نابود فرمائے اور نشان عبرت بنادے تاکہ ہمارے کلیجے بھی ٹھنڈے ہوں اور پھر کسی کو یہ ناپاک جسارت کی ہمت نہ ہو.
خطبات جمعہ انہی دو پہلو کو سامنے رکھتے ہوئے حرمت رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے بیان کے ساتھ منہج سلف کی بھی ترویج کی جائے.
بارک اللہ فیکم​
 
Last edited by a moderator:
Top