• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آغاخانی شیعہ میت کو غسل دینے کا حکم

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
آغاخانی شیعہ میت کو غسل دینے کا حکم
سوال: ایک خاتون جو خود اہل توحید ہیں اور وہ آغا خانی مذہب سے revert ہوئی ہے جبکہ انکی والدہ اسی عقیدہ پر فوت ہوگئی ہیں جن کے متعلق کہتی ہیں کہ وہ non muslim declare نہیں ہیں۔ اور وہ اپنی والدہ کو اسلامی شریعت کے مطابق غسل دینا چاہتی ہیں۔ میری ساتھی کی یہ بھابھی ہیں توانکی نند یعنی میری ساتھی نے یہ سوال کیا ہےکہ کیا وہ لوگ انکے ساتھ مل کر غسل میں مدد کرسکتی ہیں ؟ساتھ ہی یہ بھی واضح رہے کہ میت کو آغا خانیوں کے قبرستان میں ہی شاید دفنایا جائیگا۔
سائلہ : بنت اسلام ، کراچی(پاکستان)
جواب : آغاخانی اہل تشیع ہیں ، اس کی وفات پر کسی مسلمان کے لئے جنازہ میں شرکت، کفن ودفن میں شرکت اور استغفار کرنا جائز نہیں ہے ۔ اللہ تعالی نے کافروں کی نمازجنازہ نہ پڑھنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا: وَلَا تُصَلِّ عَلَى أَحَدٍ مِنْهُمْ مَاتَ أَبَدًا وَلَا تَقُمْ عَلَى قَبْرِهِ (التوبة: 84)
ترجمہ: ان میں سے کوئی مر جائے تو آپ اس کے جنازے کی ہرگز نماز نہ پڑھیں اور نہ اس کی قبر پہ کھڑے ہوں۔
اور دفن سے پہلے ہدایت کی دعا کرسکتے ہیں مگر دفن کے بعد مشرکوں کی مغفرت سے بھی اللہ نے روک دیا ہے ، فرمان الہی ہے:
مَا كَانَ لِلنَّبِيِّ وَالَّذِينَ آمَنُوا أَن يَسْتَغْفِرُوا لِلْمُشْرِكِينَ وَلَوْ كَانُوا أُولِي قُرْبَىٰ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُمْ أَنَّهُمْ أَصْحَابُ الْجَحِيمِ (التوبۃ:113)
ترجمہ: پیغمبر کو اور دوسرے مسلمان کو جائز نہیں ہے کہ مشرکین کے لئے مغفرت کی دعا مانگیں اگرچہ وہ رشتہ دار ہی کیوں نہ ہوں اس امر کے ظاہر ہونے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں۔
قرآن کی مذکورہ دونوں آیات سے یہ بات صاف ہوگئی کہ کافر ومشرک کے لئے نماز جنازہ نہیں پڑھی جائے گی اور نہ ہی اس کے حق میں دعائے استغفار کی جائے گی۔
کافر میت کے غسل ، تکفین اور دفن کے متعلق شریعت کے نصوص اور اہل علم کے اقوال کی روشنی میں معلوم ہوتا ہے کہ ایک مسلمان عمومی طور پر کافر کے غسل ، اس کی تکفین اور دفن کے کام میں شریک نہیں ہوگا البتہ کسی مسلمان کا کافررشتہ دار فوت ہوجائے اس حال میں کہ اس کو دفن کرنے والا کوئی دوسرا نہ ہوتو اس کو غسل دےسکتا ہے(اگراس کے یہاں غسل کا رواج ہو) ، غسل دے کر کسی کپڑے میں لپیٹ کر گڈھے میں چھپا دیا جائےگا ۔
متعدد کتب حدیث میں صحیح سند کے ساتھ یہ بات موجود ہے کہ نبی ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو ان کے والد ابوطالب کی وفات پر دفن کرنے کا حکم دیاتھا۔
عَن عليٍّ علَيهِ السَّلام ، قالَ : قُلتُ للنَّبيِّ صلَّى اللَّهُ علَيهِ وسلَّمَ : إنَّ عمَّكَ الشَّيخَ الضَّالَّ قد ماتَ ، قالَ : اذهَب فوارِ أباكَ ، ثمَّ لا تُحْدِثَنَّ شيئًا ، حتَّى تأتيَني فذَهَبتُ فوارَيتُهُ وَجِئْتُهُ فأمرَني فاغتَسلتُ ودَعا لي(صحيح أبي داود:3214)
ترجمہ: سیدنا علی ؓ سے روایت ہے وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی کریم ﷺ کو خبر دی کہ آپ ﷺ کا بوڑھا گمراہ چچا مر گیا ہے ۔ آپ ﷺ نے فرمایا :جاؤ اور اپنے والد کو زمین میں دبا آؤ ، پھر کوئی کام نہ کرنا حتیٰ کہ میرے پاس آ جانا ۔ چنانچہ میں گیا اور اسے زمین میں دبا آیا اور آپ ﷺ کی خدمت میں حاضر ہو گیا آپ ﷺ نے مجھے حکم دیا تو میں نے غسل کیا اور آپ ﷺ نے میرے لیے دعا فرمائی ۔
اس حدیث میں صراحت کے ساتھ یہ ذکر نہیں ہے کہ حضرت علی نے اپنے والد ابوطالب کو غسل بھی دیا تھا تاہم اس حدیث کے الفاظ " فأمرَني فاغتَسلتُ" ( مجھے آپ ﷺ نے حکم دیا تو میں نے غسل کیا)سے معلوم ہوتا ہےکہ غسل میت کی تکفین پہ مشروع نہیں ہے بلکہ میت کو غسل دینے پہ غسل دینے والے کے حق میں مشروع ہے ۔ چنانچہ یہی روایت جو بیہقی میں ہے حافظ ابن حجر عسقلانی رحمہ اللہ اس پہ لکھتے ہیں کہ اس حدیث کے طرق میں اس بات کی صراحت نہیں ہے کہ حضرت علی نے اسے غسل بھی دیا تاہم " فأمرَني فاغتَسلتُ" کے ٹکڑے سے یہ مفہوم نکلتا ہے کیونکہ غسل میت کے غسل سے ہی مشروع ہے اور اس کے دفن کرنے سے مشروع نہیں ہے ۔ بیہقی وغیرہ نے بھی غسل پر استدلال میت کے غسل سے ہی کیا ہے اور ابویعلی میں دوسرے طریق سے آخر میں مذکور ہے " وكان علي إذا غسل ميتا اغتسل" کہ علی میت کو غسل دیتے تو غسل کرتے تھے۔ (تلخيص الحبير:2/114).
بخاری کی شرح عمدۃ القاری میں علامہ عینی حنفی نے ذکر کیا ہے کہ ابن ابی شیبہ میں صحیح سند سے مروی ہے : أن عليا رضي الله تعالى عنه لما غسل أباه أمره النبي صلى الله عليه وسلم أن يغتسل۔(عمدۃ القاری)ترجمہ: جب علی نے اپنے والد کو غسل دیا تو نبی ﷺ نے انہیں غسل دینے کا حکم دیا۔
بیہقی میں یہ الفاظ زیادہ ہیں " اذهب فاغسله وكفنه وجننه(السنن الكبرى للبيهقي:1/305)
ترجمہ: جاؤ (میت) کو غسل دو ، اسے کفن دو اور اسے چھپادو۔
یہ ٹکڑے کی سندا تائید نہیں ملتی مگر دیگر دوسری روایات اور آثار صحابہ سے معنوی طور پر تقویت ملتی ہے۔ بیہقی میں ایک اثر بھی ہے جس میں ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایک شخص کو جن کا باپ نصرانی ہوکر مرا تھا اسے غسل دینے ، کفن دینے اور دفن کرنے کا حکم دیا تھا۔ اس حدیث پہ امام بیہقی نے باب قائم ہے"باب‏:‏ الْمُسْلِمِ يُغَسِّلُ ذَا قَرَابَتِهِ مِنَ الْمُشْرِكِينَ وَيَتْبَعُ جَنَازَتَهُ وَيَدْفِنُهُ وَلاَ يُصَلِّى عَلَيْهِ" مسلمان کا اپنے رشتہ دارمشرک کو غسل دینے، اس کے جنازہ میں جانے اور دفن میں شریک ہونے کا باب لیکن اس پر جنازہ نہیں پڑھی جائے گی۔
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اگر کافر میت کو دفن کرنے والا کوئی نہ ہو تو اسے کسی جگہ گڈھا کھود کر اس میں دفن کردیا جائے گا ، اسے غسل دینے کی ضرورت نہیں ، اور ویسے بھی کافر نجس ہوتا ہے مگرجن کافروں کے یہاں میت کونہلانے کا رواج ہے اور اسے کوئی دفن کرنے والا بھی نہیں ہے تو مسلمان اسے نہلاکر کسی کپڑے میں لپیٹ کر ایک گڈھے میں چھپا دے گا۔ یہاں معلوم رہے کہ غسل ، تکفین اور دفن کا مطلب اسلامی طریقے سےکافوروبیری کے ساتھ غسل دینا، یا تین کپڑوںمیں کفن دینا اورقبرستان میں باقاعدہ قبرکھودکر دفن کرنا نہیں ہے بلکہ نہانے سے مراد بدن پر پانی بہانا، کفن سے مراد کسی کپڑے میں لپیٹ دینا اور دفن سے مراد کسی کھائی میں یا گڈھا کھود کر گاڑ دیناہے ۔ اسی طرح کسی مسلمان کا رشتہ دار کافر ہو تواس کی وفات پہ اسے غسل دے کردفن کرسکتا ہے لیکن اگر دوسرے کافر رشہ دار میت کے غسل اوراسکی تدفین کے لئے موجود ہوتو بہتر ہے مسلمان اس کام سے الگ رہے ۔ سوال میں مذکور ہے کہ ایک توحیدی بہن اپنی شیعہ ماں کا غسل اسلامی شریعت کی روشنی میں کرنا چاہتی ہے تو معلوم رہے کہ وہ اپنی ماں کے غسل میں شریک ہوسکتی ہے مگر اس کے لئے مسلمان میت کی طرح غسل دینا جائز نہیں ہے کیونکہ اسلامی غسل صرف مسلمان میت کے ساتھ خاص ہے۔
واللہ اعلم بالصواب
کتبہ
مقبول احمدسلفی
اسلامک دعوۃ سنٹر، شمالی طائف(مسرہ)- سعودی عرب
 
Top