• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صدقہ کا حرام ہونا

بہرام

مشہور رکن
شمولیت
اگست 09، 2011
پیغامات
1,173
ری ایکشن اسکور
439
پوائنٹ
132
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صدقہ کا حرام ہونا

حدثنا آدم،‏‏‏‏ حدثنا شعبة،‏‏‏‏ حدثنا محمد بن زياد،‏‏‏‏ قال سمعت أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال أخذ الحسن بن علي ـ رضى الله عنهما ـ تمرة من تمر الصدقة،‏‏‏‏ فجعلها في فيه،‏‏‏‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ كخ كخ ـ ليطرحها ثم قال ـ أما شعرت أنا لا نأكل الصدقة ‏"‏‏

ہم سے آدم بن ابی ایاس نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے شعبہ نے بیان کیا ‘ انہوں نے کہا کہ ہم سے محمد بن زیاد نے بیان کیا ‘ کہا کہ میں نے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے سنا ‘ انہوں نے بیان کیا کہ حسن بن علی رضی اللہ عنہما نے صدقہ کی کھجوروں کے ڈھیر سے ایک کھجور اٹھا کر اپنے منہ میں ڈال لی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔ چھی چھی! نکالو اسے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تمہیں معلوم نہیں کہ ہم لوگ صدقہ کا مال نہیں کھاتے۔
صحیح بخاری ،کتاب الزکوٰۃ ،باب: نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی آل پر صدقہ کا حرام ہونا،حدیث نمبر : 1491
فقال لها أبو بكر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا نورث ما تركنا صدقة

ابو بکرنے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ" ہمارا ورثہ تقسیم نہیں ہوتا ' ہمارا ترکہ صدقہ ہے"
صحیح بخاری ،کتاب فرض الخمس ،باب: خمس کے فرض ہونے کا بیان ،حدیث نمبر : 3093
فقال أبو بكر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا نورث،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ما تركنا فهو صدقة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إنما يأكل آل محمد من هذا المال

ابوبکر نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماگئے ہیں کہ ہماری میراث نہیں ہوتی۔ ہم (انبیاء ) جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے
اور یہ کہ آل محمد کو ایسی صدقہ کے مال سے کھلایا جائے گا ۔

صحیح بخاری
کتاب فضائل اصحاب النبی
باب: رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے رشتہ داروں کے فضائل اور فاطمہ بنت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے فضائل کا بیان
وقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ فاطمة سيدة نساء أهل الجنة ‏"‏‏.‏
اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا جنت کی عورتوں کی سردار ہیں۔ حدیث نمبر: 3712
ستةٌ لَعَنْتُهم ولعنَهمْ اللهُ وكلُّ نبيٍّ مُجابٌ : الزائدُ في كتابِ اللهِ، والمُكَذِّبُ بقدَرِ اللهِ، والمُتسلطُ بالجبروتِ فيُعِزُّ بذلكِ منَ أَذَلَّ اللهُ ويذلُّ منْ أعزَّ اللهُ، والمستَحِلُّ لحَرِمِ اللهِ، والمستحلُّ منْ عِتْرَتِي ما حَرَّمَ اللهُ، والتاركُ لسنتِي

عائشہ کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا کہ " چھ وہ چیزیں ہیں جن پر میں لعنت بھیجتا ہوں اور اللہ بھی لعنت فرماتا ہے جبکہ ہر نبی کی دعا قبول ہوا کرتی ہے
1۔ اللہ کی تقدیر کو جھٹلانے والا
2۔ اللہ کی کتاب میں ذیادتی کرنے والا
3۔ اللہ کے حکموں کو قابو میں کرنے والا
4۔اللہ کی حرام کی ہوئی چیزوں کو حلال بنائے
5۔ میری عترت (آل محمد(( کے لئے وہ چیز حلال بتائے جس کو اللہ نے حرام کیا ہے
6۔ میری سنت کو چھوڑ دے
الراوي: عائشة وعبدالله بن عمر المحدث: السيوطي - المصدر: الجامع الصغير - الصفحة أو الرقم: 4660
خلاصة حكم المحدث: صحيح
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بہرام صاحب آپ بات ذرا وضاحت سے کرلیں تاکہ کچھ عرض کیا جائے ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
صرف پوچھنا یہ کہ اوپر جو احادیث صحیحہ بیان کی گئی ہیں ان سے کیا نتیجہ برآمد ہوگا کیوں کہ میں جو سمجھا ہوں وہ اگر بیان کروں تو مجھ پر بین لگا دیا جائے گا اس لئے بہتر ہے کہ آپ ہی ان احادیث سے جو نتیجہ نکل رہا ہے بیان فرمادیں شکریہ
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
بسم اللہ الرحمٰن الرحیم
آل محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم پر صدقہ کا حرام ہونا

حدثنا آدم،‏‏‏‏ حدثنا شعبة،‏‏‏‏ حدثنا محمد بن زياد،‏‏‏‏ قال سمعت أبا هريرة ـ رضى الله عنه ـ قال أخذ الحسن بن علي ـ رضى الله عنهما ـ تمرة من تمر الصدقة،‏‏‏‏ فجعلها في فيه،‏‏‏‏ فقال النبي صلى الله عليه وسلم ‏"‏ كخ كخ ـ ليطرحها ثم قال ـ أما شعرت أنا لا نأكل الصدقة ‏"‏‏


فقال لها أبو بكر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا نورث ما تركنا صدقة


فقال أبو بكر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا نورث،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ما تركنا فهو صدقة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إنما يأكل آل محمد من هذا المال



ستةٌ لَعَنْتُهم ولعنَهمْ اللهُ وكلُّ نبيٍّ مُجابٌ : الزائدُ في كتابِ اللهِ، والمُكَذِّبُ بقدَرِ اللهِ، والمُتسلطُ بالجبروتِ فيُعِزُّ بذلكِ منَ أَذَلَّ اللهُ ويذلُّ منْ أعزَّ اللهُ، والمستَحِلُّ لحَرِمِ اللهِ، والمستحلُّ منْ عِتْرَتِي ما حَرَّمَ اللهُ، والتاركُ لسنتِي
ان احادیث کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ :
1۔ انبیاءکی مالی وراثت نہیں ہوتی ۔ جو وہ چھوڑ کرجائیں وہ ان کے رشتہ داروں میں تقسیم ہونے کی بجائے بیت المال میں بطور صدقہ کے شامل ہوجائے گا ۔
2۔ صدقہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرحرام ہے ۔
3۔ آپ کے اہل بیت کو تکلیف دینا یا ان کی شان میں گستاخی کرنا حرام ہے ۔
آپ کا یہ ترجمہ :
5۔ میری عترت (آل محمد(( کے لئے وہ چیز حلال بتائے جس کو اللہ نے حرام کیا ہے
درست نہیں ہے ۔
شارحین حدیث نے اس جملے کا معنی یوں واضح کیا ہے :
(والمستحل من عترتي ما حرم الله) أي من فعل بأقاربي ما لا يجوز من إيذاء وترك تعظيم وتخصيص ذكر الحرم والعترة لشرفهما وأن أحدهما منسوب إلى الله والآخر إلى رسوله وعليه فمن ابتدائية متعلقة بالفعل ويجوز كونها بيانية وأن يراد بالمستحل من يستحل من أقاربه شيئا محرما ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
ان احادیث کا نتیجہ یہ نکلتاہے کہ :
1۔ انبیاءکی مالی وراثت نہیں ہوتی ۔ جو وہ چھوڑ کرجائیں وہ ان کے رشتہ داروں میں تقسیم ہونے کی بجائے بیت المال میں بطور صدقہ کے شامل ہوجائے گا ۔
2۔ صدقہ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم پرحرام ہے ۔
3۔ آپ کے اہل بیت کو تکلیف دینا یا ان کی شان میں گستاخی کرنا حرام ہے ۔
ان پوائنٹ میں اگر درج ذیل پوائنٹ پر بھی کچھ ارشاد فرمادیتے تو بات واضح ہوجاتی
فقال أبو بكر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا نورث،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ما تركنا فهو صدقة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إنما يأكل آل محمد من هذا المال
ابوبکر نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماگئے ہیں کہ ہماری میراث نہیں ہوتی۔ ہم (انبیاء ) جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے
اور یہ کہ آل محمد کو ایسی صدقہ کے مال سے کھلایا جائے گا ۔


آپ کا یہ ترجمہ :
والمستحلُّ منْ عِتْرَتِي ما حَرَّمَ اللهُ،
میری عترت (آل محمد) کے لئے وہ چیز حلال بتائے جس کو اللہ نے حرام کیا ہے
درست نہیں ہے ۔
درست ترجمہ کیا ہوگا یہ بھی بیان فرمادیتے تو مجھ ناقص علم کے علم میں اضافہ ہوجاتا میں نے یہ ترجمہ المستدرک الحاکم کے اردو ترجمہ سے نقل کیا ہے کیونکہ اس حدیث کو امام حاکم نے بھی بیان کیا ہے
ویسے سنن الترمذی کا جو اردو ترجمہ محدث فورم پر یونی کوڈ میں موجود ہے اس میں اس کا ترجمہ کچھ یوں کیا گیا ہے
میرے کنبہ میں سے اللہ کی محرمات کو حلال سمجھنے والا
اگر اس ترجمہ کی تھوڑی وضاحت فرمادیں تو نوازش ہوگی
شارحین حدیث نے اس جملے کا معنی یوں واضح کیا ہے :
(والمستحل من عترتي ما حرم الله) أي من فعل بأقاربي ما لا يجوز من إيذاء وترك تعظيم وتخصيص ذكر الحرم والعترة لشرفهما وأن أحدهما منسوب إلى الله والآخر إلى رسوله وعليه فمن ابتدائية متعلقة بالفعل ويجوز كونها بيانية وأن يراد بالمستحل من يستحل من أقاربه شيئا محرما ۔
بہت معذرت کے شارحین حدیث کا موقف جانے کے لئے جب میں سنن الترمذی کا اردو ترجمہ تلاش کیا تو مجھ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے کیونکہ محدث لائبریری میں دستیاب سنن الترمذی کا اردو ترجمہ جوکہ آپ کے یگانہ زمانہ علامہ دوراں بدیع الزمان صاحب نے کیا ہے اور ساتھ میں مختصر تشریح بھی پیش کی ہے اس میں سنن الترمذی کی مذکورہ با لا حدیث کو غائب کردیا ہے یعنی تحریف کی ایک بہت ہی بھونڈی مثال قائم کی ہے
اس کتاب میں آپ کو سنن الترمذی ، کتاب القدر کی مذکورہ بالا حدیث نہیں ملے گی لنک حاضر ہے
http://www.kitabosunnat.com/kutub-library/article/urdu-islami-kutub/hadees-aur-uloom-ul-hadees/34-kutub-e-hadees/2682-jamia-tirmazi-urdu-1.html
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
المستدرک علی الصحیحین کا اردو ترجمہ جو کہ محدث لائبریری سے لیا گیا جس کے بارے محدث لائبریری کی انتظامیہ فرماتی ہے کہ اس لائبریری میں کتابوں کو مجلس التحقیق السلامی کے علماء کی باقاعدہ تصدیق وہ اجازت سے اپ لوڈ کیا جاتا ہے
اگر یہ ترجمہ صحیح نہیں تو اس کی ذمہ داری مجلس التحقیق السلامی کے علماء پر عائد ہوتی ہے
ًمذکورہ حدیث کے ترجمہ کے صفحے کا عکس
 

خضر حیات

علمی نگران
رکن انتظامیہ
شمولیت
اپریل 14، 2011
پیغامات
8,773
ری ایکشن اسکور
8,473
پوائنٹ
964
ان پوائنٹ میں اگر درج ذیل پوائنٹ پر بھی کچھ ارشاد فرمادیتے تو بات واضح ہوجاتی
فقال أبو بكر إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قال ‏"‏ لا نورث،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ ما تركنا فهو صدقة،‏‏‏‏ ‏‏‏‏ إنما يأكل آل محمد من هذا المال
ابوبکر نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود فرماگئے ہیں کہ ہماری میراث نہیں ہوتی۔ ہم (انبیاء ) جو کچھ چھوڑ جاتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے
اور یہ کہ آل محمد کو ایسی صدقہ کے مال سے کھلایا جائے گا ۔
مکمل حدیث پڑھیں تو یہ نکتہ بھی سمجھ آجائے گا :
عن عائشه۔ أن فاطمة والعباس علیهما السلام أتیا أبابکر یلتمسان میراثھا من رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم وھما یطلبان أرضیھما من فدک و سھمھما من خیبر فقال لھما ابوبکر سمعت رسو لاللہ صلی اللہ علیه وسلم یقول لا نورث ماترکنا صدقة انما یأکل آل محمد من ھذا المال قال ابوبکر واللہ لا أدع أمرا رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم يصنعه فیه إلا صنعته» (صحیح بخاری کتاب الفرائض بابقول النبی لا نورث ماترکنا صدقه)
''اُم المؤمنین عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہؓ اور حضرت عباسؓ دونوں ( رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد) ابوبکر صدیقؓ کے پاس آئے آپؐ کا ترکہ مانگتے تھے یعنی جو زمین آپؐ کی فدک میں تھی او رجوحصہ خیبر کی اراضی میں تھا طلب کررہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپؐ نے فرمایا ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے البتہ بات یہ ہے کہ محمد کی آل اس میں سے کھاتی پیتی رہے گی۔ ابوبکرؓ نے یہ فرمایاکہ اللہ کی قسم جس نے رسول اللہ ﷺ کوجو کام کرتے دیکھا میں اسے ضرور کروں گا اسے کبھی چھوڑنے کا نہیں۔''
مزید تفصیل کے لیے یہاں دیکھ لیں :
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1108/227/

درست ترجمہ کیا ہوگا یہ بھی بیان فرمادیتے تو مجھ ناقص علم کے علم میں اضافہ ہوجاتا میں نے یہ ترجمہ المستدرک الحاکم کے اردو ترجمہ سے نقل کیا ہے کیونکہ اس حدیث کو امام حاکم نے بھی بیان کیا ہے
ویسے سنن الترمذی کا جو اردو ترجمہ محدث فورم پر یونی کوڈ میں موجود ہے اس میں اس کا ترجمہ کچھ یوں کیا گیا ہے
میرے کنبہ میں سے اللہ کی محرمات کو حلال سمجھنے والا
اگر اس ترجمہ کی تھوڑی وضاحت فرمادیں تو نوازش ہوگی
یہ مترجم سنن ترمذی والا ترجمہ بھی ٹھیک ہے ۔ میرے نزدیک جو درست ترجمہ تھا کی طرف اشارہ نتائج کے اندر ہی موجود تھا میں نےلکھا تھا :
آپ کے اہل بیت کو تکلیف دینا یا ان کی شان میں گستاخی کرنا حرام ہے ۔
لیکن یہ بہر صورت ایک مفہوم تھا جو اپنے الفاظ میں بیان کیاگیا ۔ اگر ترجمہ مقصود ہو تو اوپر والا یہ جملہ :
میرے کنبہ میں سے اللہ کی محرمات کو حلال سمجھنے والا
بہترین ترجمہ ہے ۔

بہت معذرت کے شارحین حدیث کا موقف جانے کے لئے جب میں سنن الترمذی کا اردو ترجمہ تلاش کیا تو مجھ پر حیرت کے پہاڑ ٹوٹ پڑے کیونکہ محدث لائبریری میں دستیاب سنن الترمذی کا اردو ترجمہ جوکہ آپ کے یگانہ زمانہ علامہ دوراں بدیع الزمان صاحب نے کیا ہے اور ساتھ میں مختصر تشریح بھی پیش کی ہے اس میں سنن الترمذی کی مذکورہ با لا حدیث کو غائب کردیا ہے یعنی تحریف کی ایک بہت ہی بھونڈی مثال قائم کی ہے
ایک ہی فورم پر آپ نے ایک جگہ حدیث تلاش کی نہیں ملی دوسری جگہ مل گئی ۔ دریں صورت اتنا تکلف کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ کسی جگہ تحریف ہوئی ہے کہ نہیں ؟
نسخ میں اختلاف ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ۔ ہاں البتہ ایسی جگہوں پر جہالت کا علاج ( سوال ) کرنےکی بجائے تحریف کا حکم لگادینا یقینا ایک نیا حادثہ ہے ۔

المستدرک علی الصحیحین کا اردو ترجمہ جو کہ محدث لائبریری سے لیا گیا جس کے بارے محدث لائبریری کی انتظامیہ فرماتی ہے کہ اس لائبریری میں کتابوں کو مجلس التحقیق السلامی کے علماء کی باقاعدہ تصدیق وہ اجازت سے اپ لوڈ کیا جاتا ہے
اگر یہ ترجمہ صحیح نہیں تو اس کی ذمہ داری مجلس التحقیق السلامی کے علماء پر عائد ہوتی ہے
ًمذکورہ حدیث کے ترجمہ کے صفحے کا عکس
جو بھی ہےمجھے تو یہ ترجمہ درست محسوس نہیں ہوتا ۔
اتنے وسیع پیمانے پر کام ہو تو یہ چھوٹی موٹی خامیاں تو نظر انداز ہوہی جاتی ہیں یا کرنا پڑتی ہیں ۔
یہ بھی عین ممکن ہے کہ ان کے نزدیک یہ ترجمہ ہی درست ہو ۔
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
مکمل حدیث پڑھیں تو یہ نکتہ بھی سمجھ آجائے گا :
عن عائشه۔ أن فاطمة والعباس علیهما السلام أتیا أبابکر یلتمسان میراثھا من رسول اللہ صلی اللہ علیه وآله وسلم وھما یطلبان أرضیھما من فدک و سھمھما من خیبر فقال لھما ابوبکر سمعت رسو لاللہ صلی اللہ علیه وسلم یقول لا نورث ماترکنا صدقة انما یأکل آل محمد من ھذا المال قال ابوبکر واللہ لا أدع أمرا رأیت رسول اللہ صلی اللہ علیه وسلم يصنعه فیه إلا صنعته» (صحیح بخاری کتاب الفرائض بابقول النبی لا نورث ماترکنا صدقه)
''اُم المؤمنین عائشہ صدیقہؓ فرماتی ہیں کہ حضرت فاطمہؓ اور حضرت عباسؓ دونوں ( رسول اللہﷺ کی وفات کے بعد) ابوبکر صدیقؓ کے پاس آئے آپؐ کا ترکہ مانگتے تھے یعنی جو زمین آپؐ کی فدک میں تھی او رجوحصہ خیبر کی اراضی میں تھا طلب کررہے تھے۔ حضرت ابوبکرؓ نے جواب دیا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے آپؐ نے فرمایا ہم (انبیاء) جو کچھ چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے البتہ بات یہ ہے کہ محمد کی آل اس میں سے کھاتی پیتی رہے گی۔ ابوبکرؓ نے یہ فرمایاکہ اللہ کی قسم جس نے رسول اللہ ﷺ کوجو کام کرتے دیکھا میں اسے ضرور کروں گا اسے کبھی چھوڑنے کا نہیں۔''
مزید تفصیل کے لیے یہاں دیکھ لیں :
http://www.urdufatwa.com/index.php?/Knowledgebase/Article/View/1108/227/
حضرت ابو بکر کے قول کے مطابق انبیاء جو چھوڑ جائیں وہ صدقہ ہے یعنی انبیاء علیہم السلام کے پاس جو بھی دنیاوی مال ہوتا ہے وہ انبیاء علیہم السلام کے وصال کے بعد صدقہ میں تبدیل ہوجاتا ہے اور صدقہ آل محمدﷺ پر حرام ہے
رسول اللہﷺ کی حیات ظاہری میں اگر آل محمدﷺ اس مال سے کھاتی تھیں تو یہ صدقہ نہیں تھا لیکن آپ ﷺ کے وصال کے بعد یہ مال صدقہ ہوگیا حضرت ابو بکر کے قول کے مطابق اب اس مال سے آل محمدﷺ کو کھلانے کی ترغیب دینا کیا ایسا نہیں کہ جو چیز اللہ اور اس کے رسول ﷺ نے آل محمدﷺ پر حرام کی اس کو جائز سمجھا جارہا ہے؟؟
ایک ہی فورم پر آپ نے ایک جگہ حدیث تلاش کی نہیں ملی دوسری جگہ مل گئی ۔ دریں صورت اتنا تکلف کرنے کی ضرورت نہیں تھی کہ کسی جگہ تحریف ہوئی ہے کہ نہیں ؟
نسخ میں اختلاف ہونا کوئی اچھنبے کی بات نہیں ۔ ہاں البتہ ایسی جگہوں پر جہالت کا علاج ( سوال ) کرنےکی بجائے تحریف کا حکم لگادینا یقینا ایک نیا حادثہ ہے ۔
پہلے تو آپ نے مجھے جو اتنے پیارے پیارے القاب سے نوازہ اس کے لئے شکریہ
یہ ایک ہی فورم کی بات نہیں بلکہ سنن ترمذی کے ترجمے کی بات ہے ترجمہ کا جو مطبوعہ نسخہ ہے اس میں مذکورہ حدیث کو سرے سے بیان ہی نہیں کیا گیا چلیں اب میں سوال کئے لیتا ہوں کہ کیا سنن ترمذی کے مترجم بدیع زمان صاحب کو یہ الہام ہوا کہ سنن ترمذی کی مذکورہ حدیث اب بیان نہیں کی جائے ؟؟؟
پھر تحریف کرنا کس چیز کا نام ہے ؟؟؟
 

علی بہرام

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 18، 2013
پیغامات
1,216
ری ایکشن اسکور
162
پوائنٹ
105
یہ بھی عین ممکن ہے کہ ان کے نزدیک یہ ترجمہ ہی درست ہو ۔
محدث لائبریری کی انتظامیہ کے قول کے مطابق اس لائبریری میں کتاب کو مجلس التحقیق السلامی کے علماء کی تصدیق و اجازت سے اپ لوڈ کیا جاتا ہے اگر اس بات کو مدنظر رکھا جائے تو معلوم ہوگا کہ یہی بات درست ہے کہ ترجمہ بلکل صحیح ہے ہےکیونکہ یہ ترجمہ جس نے کیا وہ بھی عالم ہیں اور پھر اس کی تصدق کسی ایک عالم نے نہیں بلکہ بہت سے علماءمجلس التحقیق السلامی نے کی ہے نتیجہ یہ ہوا کہ یہ ترجمہ بلکل صحیح ہے !!!
 
Top