• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آن لائن تجارت کا شرعی حکم

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
آن لائن تجارت کا شرعی حکم

مقبول احمد سلفی



یہ نٹورکنگ کا زمانہ ہے، اس وقت بہت ساری چیزوں کے لئے اس کا استعمال کیا جاتا ہے۔ تجارت بھی انٹرنیٹ پہ خوب خوب ہورہی ہے۔ اس کی مختلف اشکال وانواع ہیں۔ زیادہ سے زیادہ کمانے کے شوق نے تجارت کے میدان میں نت نئے طریقے متعارف کرائے جن میں بہت سارے ذرائع سودکی تجارت، حرام کی تجارت ، مجہول کی تجارت اورمکروفریب کی تجارت پر مشتمل ہیں ۔
انٹرنیٹ کی تجارتی دنیا میں متعدد طریقے سے آن لائن تجارت ہوتی ہے، یہ تجارت انفرادی حیثیت سے بھی ہوتی ہے اور اجتماعی شکل میں یعنی کمپنی کا کمپنی کے درمیان بھی ہوتی ہےبلکہ یہ کہاجائے کہ بروقت انفرادی اور اجتماعی تجارت کا وافر حصہ انٹرنیٹ سے جڑا ہے تو لغو نہ ہوگا۔ ایک مسلمان کے لئے عبادت کی طرح احکام ومعاملات کی بھی معرفت ضروری ہے اس لئے میں نے ضروری سمجھا کہ کتاب وسنت کی روشنی میں آن لائن تجارت کا حکم بیان کردوں تاکہ جو لوگ ان تجارت سے جڑے ہیں وہ شریعت کے احکام جان لیں ۔ اگر اس کی تجارت حلال ہے تو فبہا ورنہ اس سے اجتناب کرے۔
آن لائن تجارت کی وجہ سے بہت ساری سہولیات میسر آئی ہیں ، ایک خریدار شخص گھر بیٹھے کہیں سے بھی اور کوئی بھی سامان منگا سکتا ہے، مختلف آن لائن تجارتوں کے درمیان دنیا بھر میں موجود سستا سے سستا اور معیاری سے معیاری سامان تلاش کرسکتاہے۔اس میں وقت کی بچت کے ساتھ آمدورفت کی تکلیف سے بھی راحت ہے۔ خریدار کے ساتھ فروخت کنندہ کو بھی بڑی آسانی ہے اسے دوکان لگانے، کرایہ دینے اور آمدورفت کے چکر سے نجات مل جاتی ہے وہ انٹرنیٹ پہ ایک ویب سائٹ کے ذریعہ اپنے سامان کا تعارف کراتا ہے ساتھ ہی اس کی تصاویر بھی دیتا ہے اور آڈر پر سامان بھیج دیا جاتا ہے۔ اسی وجہ سے یہ تجارت آج شہرت کے آسمان پر کمندیں ڈال رہی ہے۔
اس تجارت کا شرعی حکم جاننے سے پہلے میں بیع وشراء کا اسلامی اصول بتادیتا ہوں تاکہ بہ آسانی مسئلہ کو سمجھا جاسکے او ر اس اصول کے خلاف جو بھی آن لائن تجارت ہو اس کا عدم جواز واضح ہوجائے۔خریدوفروخت میں تین چیزیں بنیادی حیثیت رکھتی ہیں ۔
(1) دوفریق کا پایا جانا جن کے درمیان خریدوفروخت ہوگی ۔ (2) اس سامان کا وجود جس کی خرید وفروخت مطلوب ہے ۔ (3) سامان کی قیمت ۔
خرید وفروخت کے سلسلے میں اسلام کے چند اہم اصول وقواعد مندرجہ ذیل ہیں۔
(1) بائع اور مشتر ی کے درمیان رضامندی سے خریدوفروحت طے پائے ، نبی ﷺ کا حکم ہے : إنَّما البيعُ عَن تراضٍ(صحيح ابن ماجه:1792)
ترجمہ: بیع صرف باہمی رضامندی سے ہوتی ہے۔
(2) بائع کا مبیع(سامان) پر ملکیت ہو ،یعنی ایسا سامان بیچنا ممنوع ہے جس پر ملکیت نہ ہو۔ حکیم بن حز ام ؓ کہتے ہیں:
أتيتُ رسولَ اللَّهِ صلى الله عليه وسلم فقلتُ: يأتيني الرَّجلُ يسألني منَ البيعِ ما ليسَ عندي أبتاعُ لَهُ منَ السُّوقِ ثمَّ أبيعُهُ قالَ: لاَ تبع ما ليسَ عندَكَ.(صحيح الترمذي:1232)
ترجمہ: میں رسول اللہ ﷺ کے پاس آکر عرض کیا : میرے پاس کچھ لوگ آتے ہیں اور اس چیز کوبیچنے کے لیے کہتے ہیں جو میرے پاس نہیں ہوتی، تو کیا میں اس چیز کو ان کے لیے بازار سے خرید کر لاؤں پھر فروخت کروں؟ آپ نے فرمایا: 'جو چیز تمہارے پاس نہیں ہے اس کی بیع نہ کرو۔
(3) حلال چیزوں کی ہی تجارت کرسکتے ہیں ،نبی ﷺ کا فرمان ہے : إنَّ اللَّهَ إذا حرَّمَ على قومٍ أَكْلَ شيءٍ ، حرَّمَ علَيهِم ثمنَهُ(صحيح أبي داود:3488)
ترجمہ: بلاشبہ اللہ تعالیٰ جب کسی قوم پر کسی چیز کا کھانا حرام کر دیتا ہے ، تو اس کی قیمت بھی حرام کر دیتا ہے ۔
(4) جس سامان کی تجارت مقصود ہے اس کی قیمت معلوم ہو اور اس کے صفات وہی بتلائے جائیں جو اس میں ہیں نیز اگر سامان میں کوئی عیب ہے تو اسے واضح کیا جائے ۔ان تمام باتوں سے مقصود مشتری کو دھوکہ سے بچانا ہےگویا ایسی کوئی بیع جس میں دھوکہ ہے جائز نہیں ہے۔
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:نَهَى رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْحَصَاةِ، وَعَنْ بَيْعِ الْغَرَرِ(صحيح مسلم: 1513)
ترجمہ: حضرت ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: رسول اللہ ﷺ نے کنکر پھینک کر بیع کرنے اور دھوکے والی بیع سے منع فرمایا ہے۔
(5) تجارت سودی آمیزش سے پاک ہو کیونکہ اللہ تعالی نے سود کو حرام قرار دیا ہے ۔ فرمان الہی ہے: وَأَحَلَّ اللَّهُ الْبَيْعَ وَحَرَّمَ الرِّبَا(البقرة:275)
ترجمہ: اللہ تعالی نے تجارت کو حلال کیا اور سود کو حرام کیا ہے ۔
بیع کی چار اقسام بنتی ہیں ۔
پہلی قسم : ایک چیز کے بدلے دوسری چیز دی جائے مثلا زمین کے بدلے مکان ،اسے انگریزی میں بارٹر سیل کہتے اور عربی میں مقایضہ کہتے ہیں ۔ اس بیع کے جواز وعدم جواز میں تفصیل ہے۔
دوسری قسم : رقم/ قیمت کے بدلے کوئی چیز خریدنا ،یہ مطلق بیع ہے اور عموما یہی طریقہ مارکیٹ میں رائج ہے۔
تیسری قسم : نقد کا نقد سے تبادلہ اسے بیع الصرف یا ایکسچینج منی کہتے ہیں۔
چوتھی قسم : ایک طرف محنت دوسری طرف اجرت ،اسے اجارہ یعنی مزدوری کہتے ہیں۔
قیمت کی ادائیگی کے اعتبار سے بھی بیع کے چار اقسام ہیں ۔
پہلی قسم : نقد خریدوفروخت یعنی نقدقیمت چکائیں اور نقد سامان حاصل کریں ۔
دوسری قسم : سامان فوری مل جائے مگر اس کی قیمت آئندہ کسی تاریخ پر طے ہو یہ ادھار بیع ہے ، اس ادھار کو قرض کہیں گے اور یہ جائز ہے۔
تیسری قسم : قیمت پہلے چکادی جائے مگر سامان کی حوالگی میں میعادطے ہوتواسے بیع سلم کہتے ہیں ، یہ بھی جائز ہے۔
چوتھی قسم : سامان کی حوالگی اور اس کی قیمت دونوں ادھار ہوں یعنی دونوں میں میعاد ہو تو یہ ناجائز ہے اسے حدیث میں بیع الکالی بالکالی کہا گیا ہے۔
اب ہم دیکھتے ہیں کہ انٹرنیٹ پر آن لائن تجارت کس طرح کی جاتی ہے پھر اس طریقہ کو اسلام کے تجارتی اصول پر برتتے ہیں ۔
(1)آن لائن تجارت میں فاریکس ٹریڈنگ کافی مشہور ہے اس کا طریقہ یہ ہے کہ مثلاایک ہزار ڈالر جمع کرکے فاریکس کمپنی میں پہلے اپنا اکاؤنٹ کھلوانا پڑتا ہے ، اکاؤنٹ کھلتےہیں اس شخص کوایک لاکھ ڈالر کی قوت خرید مل جاتی ہے ۔ انٹرنیٹ پہ مختلف اشیاء کا قیمتوں کے ساتھ اشتہار آرہا ہوتا ہے ، یہ شخص جو محض ایک ہزار ڈالر میں ایک لاکھ تک کی اشیاء خریدنے کی اہلیت رکھتا ہے وہ سستی قیمت دیکھ کر انٹرنیٹ پر ہی کوئی سامان خریدتا ہے اور جوں ہی اس کی قیمت بڑھتی اسے بیچ دیتا ہے اس طرح بڑھتی قیمت سے فائد ہ اٹھا تا ہے لیکن اشیاء کی قیمت گھٹنے سے نقصان بھی ہوتا ہے ۔ کمپنی ہر تجارت پہ اپنا کمیشن لیتی ہے خواہ نفع ہو یا نقصان اور اسی طرح مقررہ وقت پر سودا نہ ہو تو کمپنی مزید رقم وصول کرتی ہے۔ اس تجارت میں کمپنی بروکر کی حیثیت سے رول کرتی ہے اور اکاؤنٹ ہولڈر براہ راست خریدوفروخت نہیں کرسکتابلکہ خرید وفروخت کی طلب پیش کرتا ہے۔
اس تجارت میں شرعا کئی خرابیاں ہیں ۔ایک شخص ایک ہزار ڈالر کے بدلے جو ایک لاکھ کی قوت خرید حاصل کرتا ہے وہ سود کے زمرے میں آئے گا، اسی طرح اس سودی پیسے سے کوئی منقولی سامان انٹرنیٹ پر خرید کرتا ہے اور اس پہ قبضہ کرنے سے پہلے بیچ دیتا ہے جوکہ ناجائز ہے۔ اسی طرح کمپنی کا ہرتجارت پہ طے شدہ منافع لینا خواہ تجارت میں نفع ہو یا نقصان جائز نہیں ہے ۔ اس میں بیع الکالی بالکالی اور سٹہ بازی بھی پائی جاتی ہے ۔ سٹہ بازی اس طرح کہ یہاں پر ہوا میں تجارت ہوتی ہے زمینی طور پر اس کا کچھ وجود نہیں ہوتا، نہ حقیقی معنی میں کسی کو سامان خریدنا ہوتا ہے اور نہ ہی اس پر قبضہ کیا جاتا ہے بس منافع کا کھیل کھیلا جاتا ہے۔
(2)بعض آن لائن کمپنیاں انٹرنیٹ پر سامان فروخت کرتی ہیں اس کا طریقہ یہ ہوتا ہے کہ خریدار سےقیمت پہلے چکا لیتی ہیں اور سامان بعد میں حوالہ کیا جاتا ہے ۔اگر اس طریقہ تجارت میں معاملات واضح ہوں اور کسی قسم کا فریب نہ ہوتو جائز ہے مگر انٹرنیٹ کی دنیا میں کچھ بھی ہوسکتا ہے ۔ ممکن ہے کمپنی خریدار سے پیسے وصول کرلے اور سامان نہ بھیجے ، یہ بھی ممکن ہے کہ جو سامان خریدار نے جن صفات کے ساتھ طلب کیا تھا اس طرح نہ ملے ۔ ایسا بھی ممکن ہے کہ ہیکروں کی وجہ سے پیسہ کمپنی تک نہ پہنچ سکے یا سامان خریدار کو نہ وصول ہوسکے ۔ ہاں قابل اعتماد کمپنی جو اس میدان میں سالوں سے کام کررہی ہوتو پھر اس سے لین دین کریں ۔
(3)اس میں کوئی حرج نہیں ہے کہ سامان کی قیمت پہلے وصول کرلی جائے اور سامان بعد میں حوالہ کیا جائے یاپہلے محض بیعانہ وصول کرلیا جائے ۔ یا بغیر کسی رقم کے مطلوبہ سامان ڈیلیوری کردینا اور پسند وناپسند کے اختیار کے ساتھ کمپنی کے وکیل کے ساتھ خریدوفروخت کرنا جائز ہے بلکہ یہی صورت سب سے بہتر اورمامون ہے۔
خلاصہ یہ ہوا کہ آن لائن تجارت کرنے کے سلسلے میں یہ ضروری ہے کہ اشیاء کا وجود ہو اور جب خریدار کسی شی کا مطالبہ کرے اورقیمت ادا کرنے کی جو فوری یا حوالگی کا وقت جوبھی طے ہو فروخت کنندہ وہ سامان اس کے نام مطلوبہ صفات والا روانہ کردے اور حوالگی کوپختہ بنائے ۔سامان وصول ہونے پر مطلوبہ صفات نہ پائے جائیں تو خریدارکو واپس کرنے کا اختیارہو۔ اگر بیچنے والے کے پاس محض اشتہار ہے جب کوئی خریدار سامان طلب کرتا ہے تو وہ دوسرے مارکیٹ سے سامان خریدکر دیتا ہے یہ دھوکہ کے ساتھ دوسرے کی ملکیت والا سامان بیچنا ہے۔ اوپرحدیث موجود ہے جس میں حکیم بن حزام رضی اللہ عنہ کورسول اللہ ﷺ نے ایسی بیع سے منع کیا ہے ۔
بہت سی آن لائن تجارت میں عموما دو باتیں زیادہ پائی جاتی ہیں جن سے بچنا پڑے گا۔
پہلی بات یہ ہے کہ ایک شخص انٹرنیٹ پر کوئی سامان خریدتا ہے اور اس پر قبضہ کرنے سے پہلے دوسرے کو بیچ دیتا ہے ۔ یہ تجارت ناجائز ہے ۔
دوسری بات یہ ہے کہ خریدوفروخت کی فرضی کمپنی ہوتی ہے ، اس کے پاس حقیقت میں کوئی سامان نہیں ہوتا بس کمپنی کا نام ہوتا ہے ، اشتہار سے خریداروں کا آڈر لیتا ہے اور دوسری آن لائن کمپنی سے سستا سامان خرید کر خریدار کو بھیجتا ہے ۔ یہ بھی ناجائز ہے ۔ ہاں کوئی یہ کہہ کر تجارت کرے کہ میرے پاس فلاں سامان موجود نہیں ہے دوسری جگہ سے خرید کر آپ کو مہیا کراؤں گا اور اپنی اجرت بھی لوں گا۔
آن لائن تجارت کا سب سے بہترین طریقہ یہ ہے کہ تاجر اپنے سامان کا اس کے صحیح صفات کے ساتھ انٹرنیٹ پر تعارف کرائے تاکہ خریدار کو سامان کی مکمل کیفیت معلوم ہوجائے اور جب خریدار کوئی سامان طلب کرے تو وہ سامان اس تک اپنے وکیل کے ذریعہ پہنچائے ، جب خریدار کو دیکھنے کے بعد سامان پسند آجائے تو اس کی قیمت دے کر بیع مکمل کرلے یا ناپسند ہو تو واپس کردے ۔ سامان کی قیمت حوالگی سے قبل بھی لینا جائز ہے یا کچھ اڈوانس بھی لے سکتا ہے مگر ہیکروں کی وجہ سے خطرہ ہے او ر خریدار کو اس ناحیہ سے بھی خدشہ ہے کہ تاجر قیمت لیکر سامان نہیں بھیجے گا یا سامان اصلی نہیں ہوگاتو واپسی کا اختیار نہیں ہوتا۔ اس وجہ سے خریدار بھی مطمئن اور تاجر بھی لوگوں کے اعتماد کے ساتھ تجارت کر سکتا ہے۔
 
شمولیت
دسمبر 31، 2017
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
23
السلام علیکم
آن لائن تجارت کا شرعی حکم

مقبول احمد سلفی



اس تجارت میں شرعا کئی خرابیاں ہیں ۔ایک شخص ایک ہزار ڈالر کے بدلے جو ایک لاکھ کی قوت خرید حاصل کرتا ہے وہ سود کے زمرے میں آئے گا،
یہ چیز سود کے زمرے میں کیسے آ سکتی ہے؟
 
شمولیت
دسمبر 31، 2017
پیغامات
60
ری ایکشن اسکور
8
پوائنٹ
23
السلام علیکم
آن لائن تجارت کا شرعی حکم

مقبول احمد سلفی



اس تجارت میں شرعا کئی خرابیاں ہیں ۔ایک شخص ایک ہزار ڈالر کے بدلے جو ایک لاکھ کی قوت خرید حاصل کرتا ہے وہ سود کے زمرے میں آئے گا،
یہ چیز سود کے زمرے میں کیسے آ سکتی ہے؟
 
Top