• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آٹھ رکعات تراویح کی روایت پورے ذخیرہٴ حدیث میں کہیں نہیں ہے، دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند

شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
كیا بخاری میں بیس رکعات تراویح کی کوئی حدیث ہے تو سند کے ساتھ جواب دیجئے ۔

Nov 28,2013
Answer: 49562
Fatwa ID: 32-34/N=1/1435-U

بخاری شریف میں نہ بیس رکعت تراویح کی روایت ہے اور نہ آٹھ رکعت تراویح کی، بلکہ آٹھ رکعات تراویح کی روایت پورے ذخیرہٴ حدیث میں کہیں نہیں ہے، اور غیرمقلدین اپنے زعم میں آٹھ رکعت تراویح کے متعلق جو روایت پیش کرتے ہیں اس میں نماز تہجد کا ذکر ہے نہ کہ نماز تراویح کا کیونکہ غیر رمضان میں تراویح کی نماز نہیں ہے جب کہ اس حدیث میں نماز وتر کو ملاکر گیارہ رکعت تراویح کے متعلق بخاری ومسلم کے علاوہ دیگر کتب احادیث میں متعدد روایات آئی ہیں۔ علماء نے مختلف کتب ورسائل میں وہ روایات تمام فنی ابحاث کے ساتھ جمع کردی ہیں۔ ان میں سے چند کتب ورسائل یہ ہیں:

الرأي النجیح في عدد رکعات التراویح (اردو) موٴلفہ: حضرت مولانا رشید احمد گنگوہی نور اللہ مرقدہ، مصابیح التراویح (فارسی) موٴلفہ: حضرت مولانا محمد قاسم صاحب نانوتوی رحمہ اللہ، رکعات التراویح (اردو) موٴلفہ: حضرت مولانا حبیب الرحمن صاحب اعظمی رحمہ اللہ، تحقیق التراویح (اردو مطبوعہ پاکستان) موٴلفہ: شیخ مقری رعایت اللہ صاحب، تصحیح حدیث صلاة التراویح عشرین رکعة والرد علی الألباني في تضعیفہ (عربی) موٴلفہ: شیخ اسماعیل بن محمد انصاری، الہدي النبوي الصحیح في صلاة التراویح (عربی) موٴلفہ: شیخ محمد علی صابوني، فتاوی رحیمیہ (قدیم ۱:۲۸۲- ۳۴۳)، امداد الاحکام (۱/۵۴۴- ۵۶۱) اور اعلاء السنن (۷:۶۱- ۷۷)۔

اور یہ بات واضح رہے کہ جو حدیث بخاری شریف میں نہ ہو اسے موضوع یا ضعیف سمجھنا اور اس پر عمل نہ کرنا اگرچہ وہ محدثین کے اصول کے مطابق صحیح ہو حد درجہ جہالت وغباوت اور ضلالت ہے کیونکہ خود امام بخاری رحمہ اللہ نے اس بات کی صراحت فرمائی ہے کہ میں نے جو صحیح حدیثیں اپنی اس کتاب (صحیح البخاری) میں ذکر نہیں کی ہیں وہ ان سے زیادہ ہیں جو میں نے ذکر کی ہیں کذا فی شروط الائمہ الخمسة للحازمی (ص ۶۳ مع شروط الائمة الخمسة مطبوعہ دار الکتب العلمیہ، بیروت) اور اہل علم حضرات یہ بات اچھی طرح جانتے ہیں۔

واللہ تعالیٰ اعلم

دارالافتاء، دارالعلوم دیوبند


http://darulifta-deoband.org/showuserview.do?function=answerView&all=ur&id=49562&limit=33&idxpg=0&qry=<c>PAD</c><s>SAL</s><l>ur</l>
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
وَ لَا تَلۡبِسُوا الۡحَقَّ بِالۡبَاطِلِ وَ تَکۡتُمُوا الۡحَقَّ وَ اَنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ

اور حق کو باطل کے ساتھ خلط ملط نہ کرو اور نہ حق کو چھپاؤ، تمہیں تو خود اس کا علم ہے۔

And cover not Truth with falsehood, nor conceal the Truth when ye know (what it is)

﴿سورة البَقَرَة:042)

تفسیر ابن كثیر

بدخو یہودی :

یہودیوں کی اس بدخصلت پر ان کو تنبہہ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ جاننے کے باوجود کبھی تو حق و باطل کو خلط ملط کر دیا کرتے تھے کبھی حق کو چھپا لیا کرتے تھے۔ کبھی باطل کو ظاہر کرتے تھے۔ لہذا انہیں ان ناپاک عادتوں کے چھوڑنے کو کہا گیا ہے اور حق کو ظاہر کرنے اور اسے کھول کھول کر بیان کرنے کی ہدایت کی حق و باطل سچ جھوٹ کو آپس میں نہ ملاؤ اللہ کے بندوں کی خیر خواہی کرو۔ یہودیت و نصرانیت کی بدعات کو اسلام کی تعلیم کے ساتھ نہ ملاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بابت پیشنگوئیاں جو تمہاری کتابوں میں پاتے ہو انہیں عوام الناس سے نہ چھپاؤ تکتموا مجزوم بھی ہو سکتا ہے اور منصوب بھی یعنی اسے اور اسے جمع نہ کرو۔ ابن مسعود کی قرأت میں تکتمون بھی ہے۔ یہ حال ہو گا اور اس کے بعد کا جملہ بھی حال ہے معین یہ ہوئے کہ حق کو حق جانتے ہوئے ایسی بےحیائی نہ کرو۔ اور یہ بھی معنی ہیں کہ علم کے باوجود اسے چھپانے اور ملاوٹ کرنے کا کیسا عذاب ہو گا۔ اس کا علم ہو کر بھی افسوس کہ تم بدکرداری پر آمادہ نظر آتے ہو۔ پھر انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھو زکوٰۃ دو اور امت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رکوع و سجود میں شامل رہا کرو، انہیں میں مل جاؤ اور خود بھی آپ ہی امت بن جاؤ، اطاعت و اخلاص کو بھی زکوٰۃ کہتے ہیں۔ ابن عباس اس آیت کی تفسیر میں یہی فرماتے ہیں زکوٰۃ دو سو درہم پر۔ پھر اس سے زیادہ رقم پر واجب ہوتی ہے نماز و زکوٰۃ و فرض و واجب ہے۔ اس کے بغیر سبھی اعمال غارت ہیں۔ زکوٰۃ سے بعض لوگوں نے فطرہ بھی مراد لیا ہے۔ رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو سے مراد یہ ہے کہ اچھے اعمال میں ایمانداروں کا ساتھ دو اور ان میں بہترین چیز نماز ہے اس آیت سے اکثر علماء نے نماز باجماعت کے فرض ہونے پر بھی استدلال کیا ہے اور یہاں پر امام قرطبی نے مسائل جماعت کو سبط سے بیان فرمایا ہے۔
 
شمولیت
اگست 11، 2013
پیغامات
17,117
ری ایکشن اسکور
6,783
پوائنٹ
1,069
السلام علیکم :

شیخ @اسحاق سلفی بھائی کیا اس فتوی میں حق بیان کیا گیا ہے -

کیا آٹھ رکعات تراویح کی روایت پورے ذخیرہٴ حدیث میں کہیں موجود نہیں ہے ؟؟
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!
محمد عامر یونس بھائی! اب میں اس فتوی کی وجہ سے اپنے اندر پیدا ہونے والے غصہ کا اظہار کسی دوسرے دیوبندی پر کردوں، تو یہ آپ کا قصور ہے، کہ آپ نے یہ یہاں نقل فرمایا ہے!
اب @اشماریہ بھائی سے آپ ہی معذرت کر لیجئے گا! ابتسامہ
 

ابن داود

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
نومبر 08، 2011
پیغامات
3,417
ری ایکشن اسکور
2,730
پوائنٹ
556
السلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ!

عبد الحق بن سيف الدين الدهلوي الحنفي(المتوفى: 1052هـ):

الفصل الاول في تعداد ركعاتها فعندنا هي عشرون ركعة لما روي البيهقي باسناد صحيح انهم كانو يقومون علی عهد عمر رضي الله عنه بعشرين ركعة وفي عهد عثمان رضي الله عنه مثله وروي ابن عباس انه صلّی رسول الله صلی الله عليه وسلم عشرين ركعة في رمضان ثم أوتر بثلث لكن المحدثين قالوا ان هذا الحديث ضعيف والصحيح ما روته عائشة رضي الله عنها صلّی احدي عشرة ركعة كما هوا عادتة في قيام الليل وروي انه كان بعض السلف في عهد عمر بن عبدالعزيز يصلون احدي عشرة ركعة قصدا للتشبه برسول الله صلی الله عليه وسلم والذي استقر عليه الامر واشتهر من الصحابة والتابعين ومن بعد هم هو العشرون وما روي انها ثلث وعشرون فلحساب الوتر معها وقال مالك وروي عن الشافعي ايضا انها ست وثلثون او تسع وثلثون مع الوتر فهو عمل اهل المدينة خاصة وقالوا سبب ذلك ان اهل مكة يطوفون بالبيت اسبوعا ويصلون ركعتي الطواف بين كلّ رويحتين واهل المدينة لما بعد ومن ادراك هذه الفضيلة صلوا بين ذلك اربع ركعات ويسمونها الست عشرية واستمر عادتهم علی ذلك الیٰ الان وقد يروي ذلك عن عمرو علي رضي الله عنهما لكنه غير مشهور عنهما فان صلی غيرهم ايضا لا باس ويستوي فيه الامام وغيره وينبغي ان يصلو افرادي لان التنفيل بالجماعة في غير التراويح مكروه عندنا لكن اهل المدينة يصلونها بالجماعة والتنفيل بالجماعة لا يكره عندهم قال الشيخ قاسم الحنفي من متاخرين علماء مصر التنفيل بالجماعة مكروه لانه لو كان مستحبا كابت افضل كالمكتوبات ولو كانت افضل لكان المتهجدون والقائمون بالليل يجتمعون فيصلون جماعة طلبا للفضيلة ولما لم يرو ذلك عن رسول الله صلی الله عليه وسلم وعن اصحابه رضوان الله عليهم اجمعين علم انه لا فضل في ذلك.

پہلی فصل رکعات کی گنتی میں سو ہمارے نزدیک تراویح بیس رکعت ہیں کیونکہ بیہقی نے صحیح اسناد سے روایت کیا ہے کہ وہ لوگ عمر رضی اللہ عنہ کے عہد میں بیس رکعات پڑھا کرتے تھے اور عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں اتنے ہی پڑھتے تھے اور ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں بیس رکعتیں پڑھیں پھر اس کے بعد تین وتر پڑھے لیکن محدث کہتے ہیں کہ یہ حديث ضعيف ہے اور صحیح وہ ہی ہے جو عائشہ رضی اللہ عنہ روایت کرتی ہیں کہ حضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے گیارہ رکعت پڑھیں جیسے کہ قیام الیل میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی اور روایت ہے کہ بعضےبزرگ عمر بن عبدالعزیر کے عہد میں گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے اس غرض سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت ہو جاوے اور گنتی جو ٹھر گئی ہے صحابی اور تابعین سے اور انکے بعد لوگوں سے مشہور چلا آتا ہے سو بیس رکعت ہیں ۔ یہ جو روایت ہے کہ تراویح تئیس 23 رکعات ہیں سو وتر کو تراویح کے ساتھ ملا لیا ہے اور مالک کہتے ہیں اور شافعی سے بھی روایت ہے کہ تراویح مع وتر چھتیس 36 یا انتالیس 39 ہیں۔ سو یہ خاص مدینہ والوں کا عمل ہے اور کہتے ہیں کہ اسکا یہ سبب ہے کہ مکہ والے کعبہ کے ساتھ طواف کرتے ہیں اور طواف کے دو رکعت ہر دو تراویحوں کے بیچ میں پڑھتے ہیں اور مدینہ والے چونکہ اس فضیلت کے حاصل کرنے سے دور ہیں تو انہوں نے انکے بیچ میں چار رکعت پڑھنی شروع کر دیں اور ان کا نام ست عشریہ کہہ دیا اور انکی عادت آج تک وہی چلی آرہی ہے۔ اور کبھی یہی روایت عمر اور علی رضی اللہ عنہما سے بھی آئی ہے ، پر ان سے مشہور نہیں ہے۔ پس اگر انکے سواء کوئی اور بھی پڑھ لے تو کیا ڈر ہے اور اسمیں امام وغیرہ سب برابر ہیں اور بہتر یہ ہے کہ الگ الگ پڑھہیں اس واسطے کہ سوائے تراویح اور نوافل جماعت سے ہمارے نزدیک مکروہ ہیں، لیکن مدینہ والے انکو جماعت سے پڑھتے ہیں اور نفلیں جماعت سے انکے نزدیک مکروہ نہیں ہیں۔ شیخ قاسم حنفی مصر کے متاخر علماء میں سے کہتا ہے کہ نفلیں جماعت سے مکروہ ہوتی ہیں اسلئے کہ اگر مستحب ہوتیں تو افضل ہوتی جیسے فرائض جماعت سے افضل ہوتی ہیں اور اگر افضل ہوتیں تو تہجد گزار اور اور رات کے قائم رہنے والے جمع ہوا کرتے اور فضیلت کی طلب میں جماعت سے پڑھا کرتے اور چونکہ یہ فضیلت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور انکے اصحاب رضوان اللہ علیہم اجمعین سے مروی نہیں ہے، تو معلوم ہوا کہ اسمیں کچھ فضیلت نہیں ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 217 - 219 ماثبت بالسُّنَّة في أيام السَّنَة مع ترجمة باللغة الأردية - عبد الحق بن سيف الدين الدهلوي - بالمطبع المجتبائي بدهلي سنة 1891
عبد الحق بن سیف الدین دہلوی نے صراحت سے امام مالک اور اہل مدینہ کا عمل بیا ن کر کے اجماع کی نفی کرد ی، اور نہ صرف یہ بلکہ مزید فرمایا کہ :
روایت ہے کہ بعضےبزرگ عمر بن عبدالعزیر کے عہد میں گیارہ رکعت پڑھا کرتے تھے اس غرض سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے مشابہت ہو جاوے
کہاں گیا بیس 20 رکعات تراویح پر صحابہ کا اجماع؟

كمال الدين محمد بن عبد الواحد السيواسي المعروف بابن الهمام (المتوفى: 861هـ):

وَأَمَّا مَا رَوَى ابْنُ أَبِي شَيْبَةَ فِي مُصَنَّفِهِ وَالطَّبَرَانِيُّ وَعِنْدَ الْبَيْهَقِيّ مِنْ حَدِيثِ ابْنِ عَبَّاسٍ «أَنَّهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - كَانَ يُصَلِّي فِي رَمَضَانَ عِشْرِينَ رَكْعَةً سِوَى الْوِتْرِ» فَضَعِيفٌ بِأَبِي شَيْبَةَ إبْرَاهِيمَ بْنِ عُثْمَانَ جَدِّ الْإِمَامِ أَبِي بَكْرِ بْنِ أَبِي شَيْبَةَ مُتَّفَقٌ عَلَى ضَعْفِهِ مَعَ مُخَالِفَتِهِ لِلصَّحِيحِ. نَعَمْ ثَبَتَتْ الْعِشْرُونَ مِنْ زَمَنِ عُمَرَ فِي الْمُوَطَّإِ.
عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ " كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً ". وَرَوَى الْبَيْهَقِيُّ فِي الْمَعْرِفَةِ عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ قَالَ: كُنَّا نَقُومُ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ - رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ - بِعِشْرِينَ رَكْعَةً وَالْوِتْرِ، قَالَ النَّوَوِيُّ فِي الْخُلَاصَةِ إسْنَادُهُ صَحِيحٌ.
وَفِي الْمُوَطَّإِ رِوَايَةٌ بِإِحْدَى عَشْرَةَ. وَجَمَعَ بَيْنَهُمَا بِأَنَّهُ وَقَعَ أَوَّلًا ثُمَّ اسْتَقَرَّ الْأَمْرُ عَلَى الْعِشْرِينَ فَإِنَّهُ الْمُتَوَارِثُ، فَتَحْصُلُ مِنْ هَذَا كُلِّهِ أَنَّ قِيَامَ رَمَضَانَ سُنَّةٌ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ فِي جَمَاعَةٍ فَعَلَهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - ثُمَّ تَرَكَهُ لِعُذْرٍ، أَفَادَ أَنَّهُ لَوْلَا خَشْيَةَ ذَلِكَ لَوَاظَبْت بِكُمْ، وَلَا شَكَّ فِي تَحَقُّقِ الْأَمْنِ مِنْ ذَلِكَ بِوَفَاتِهِ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - فَيَكُونُ سُنَّةً، وَكَوْنُهَا عِشْرِينَ سُنَّةُ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ وَقَوْلُهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - «عَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الرَّاشِدِينَ» نَدْبٌ إلَى سُنَّتِهِمْ، وَلَا يَسْتَلْزِمُ كَوْنَ ذَلِكَ سُنَّتَهُ. إذْ سُنَّتُهُ بِمُوَاظَبَتِهِ بِنَفْسِهِ أَوْ إلَّا لِعُذْرٍ، وَبِتَقْدِيرِ عَدَمِ ذَلِكَ الْعُذْرِ إنَّمَا اسْتَفَدْنَا أَنَّهُ كَانَ يُوَاظِبُ عَلَى مَا وَقَعَ مِنْهُ وَهُوَ مَا ذَكَرْنَا فَتَكُونُ الْعِشْرُونَ مُسْتَحَبًّا وَذَلِكَ الْقَدْرُ مِنْهَا هُوَ السُّنَّةُ كَالْأَرْبَعِ بَعْدَ الْعِشَاءِ مُسْتَحَبَّةٌ وَرَكْعَتَانِ مِنْهَا هِيَ السُّنَّةُ.
وَظَاهِرُ كَلَامِ الْمَشَايِخِ أَنَّ السُّنَّةَ عِشْرُونَ، وَمُقْتَضَى الدَّلِيلِ مَا قُلْنَا، فَالْأَوْلَى حِينَئِذٍ مَا هُوَ عِبَارَةُ الْقُدُورِيِّ مِنْ قَوْلِهِ يُسْتَحَبُّ لَا مَا ذَكَرَهُ الْمُصَنِّفُ فِيهِ.

اور جو ابن عباس رضی اللہ عنہ سے جو ابن ابی شیبہ، طبرانی اور بیہقی رحمہم اللہ نے روایت کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رمضان میں علاوہ ورتر کے بیس 20 رکعات پڑھیں، اس کے راوی ابو بکر بن ابرھیم بن ابی شیبہ کے جد ابراھیم بن عثمان ابی شیبہ بالاتفاق ضعیف ہیں، اور اسے کے ساتھ وہ صحیح حدیث کے خلاف ہے (حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی صحیح حدیث کے مخالف ہے جس میں یہ روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم گیارہ رکعتوں سے زیادہ قیام نہیں کرتے تھے نہ رمضان میں نہ غیر رمضان میں، جیسا صحیح میں ہے۔) ہاں موطا سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں بیس 20 رکعات ثابت ہے، جیسا کہ یزید بن رومان سے روایت ہے کہ انہوں نے کہا: لوگ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانے میں تئیس 23 رکعات قیام کیا کرتے تھے۔ اور بیہقی رحمہ اللہ نے اپنی لتاب المعرفۃ میں سائب بن یزید رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے کہ ہم عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں بیس 20 رکعات اور وتر پڑھتے تھے ۔ امام نووی رحمہ اللہ نے خلاصہ میں اس کی سند کو صحیح کہا۔
اور موطا کی روایت میں گیارہ 11 رکعات ہیں، انہیں جمع کرنے کی تطبیق یہ ہے کہ پہلے گیارہ رکعات پڑھی جاتی تھیں، بعد میں عمل بیس 20 رکعات پر ہوا ، اور یہ جاری ہو گیا۔ یہاں تک کی پوری بحث کا حاصل یہ ہو ا کہ قیام رمضان بمع وتر گیارہ رکعات جماعت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے فعل سے سنت ہے، اور امت پر فرض کا حکم نازل ہونے کو خوف سے آپ نے جماعت سے پڑھانا ترک کردیا، اور بیشک نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد یہ خوف نہ رہا، تو یہ گیارہ رکعات سنت ہوئیں۔ اور بیس رکعات 20 رکعات خلفائے راشدین کی سنت ہے، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے قول تم میرے اور خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑو کی بنا پر خلفائے راشدین کی سنت مندوب ہیں، اور اس سے ان کا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہونا لازم نہیں آتا۔ کیونکہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت وہ ہے جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے خود مواظبت یعنی ہمیشگی کے ساتھ کی ہو، یا سوائے اس کی کہ کوئی عذر ہو، اور اگر یہ عذر نہ ہوتا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی اس پر مواظبت یعنی ہمیشگی ہوتی جو انہوں نے پہلے کیا، جیسا کہ ہم نے ذکر کیا ، لہٰذا بیس 20 رکعات تراویح مستحب ہے اور ان میں سے بالقدر عمل نبی صلی اللہ علیہ وسلم (یعنی آٹھ 8) سنت ہیں۔ جیسا کہ عشاء کے بعد چار 4 رکعات مستحب ہیں اور ان میں سے دو 2 سنت ہیں۔
اور مشائخ کے کلام سے یہ ظاہر ہے کہ پوری 20 رکعتیں سنت ہیں، لیکن دلیل کا تقاضا تو وہی ہے جو میں نے بیان کیاہے، اسی صورت میں قدوری رحمہ اللہ کا یہ قول کہ وہ مستحب ہے زیادہ بہتر ہے۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 485 – 486 جلد 01 شرح فتح القدير على الهداية - كمال الدين السيواسي المعروف بابن الهمام - دار الكتب علميه – بيروت
ابن الھمام نے تو آپ کے اجماع کے دعوی کا بھانڈا ہی نہیں پھوڑ دیا بلکہ آپ کے بیس 20 رکعات تراویح کے سنت ہونے کے مؤقف کی بھی نفی کر دی!!

زين الدين بن إبراهيم بن محمد، المعروف بابن نجيم المصري(المتوفى: 970هـ):

جو محرر مذہب نعمانی اور ابو حنیفہ ثانی کہلائے جاتے ہیں، کو بھی دیکھ لیں کہ یہ بیس 20 رکعات تراویح کے سنت ہونے اور پر صحابی کے اجماع پر مہرلگاتے ہیں یا نہیں!
لِمَا فِي الْمُوَطَّإِ عَنْ يَزِيدَ بْنِ رُومَانَ قَالَ كَانَ النَّاسُ يَقُومُونَ فِي زَمَنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ بِثَلَاثٍ وَعِشْرِينَ رَكْعَةً وَعَلَيْهِ عَمِلَ النَّاسُ شَرْقًا وَغَرْبًا لَكِنْ ذَكَرَ الْمُحَقِّقُ فِي فَتْحِ الْقَدِيرِ مَا حَاصِلُهُ أَنَّ الدَّلِيلَ يَقْتَضِي أَنْ تَكُونَ السُّنَّةُ مِنْ الْعِشْرِينَ مَا فَعَلَهُ - صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ - مِنْهَا ثُمَّ تَرَكَهُ خَشْيَةَ أَنْ تُكْتَبَ عَلَيْنَا وَالْبَاقِي مُسْتَحَبٌّ وَقَدْ ثَبَتَ أَنَّ ذَلِكَ كَانَ إحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً بِالْوِتْرِ كَمَا ثَبَتَ فِي الصَّحِيحَيْنِ مِنْ حَدِيثِ عَائِشَةَ فَإِنْ يَكُونُ الْمَسْنُونُ عَلَى أُصُولِ مَشَايِخِنَا ثَمَانِيَةٌ مِنْهَا وَالْمُسْتَحَبُّ اثْنَا عَشَرَ انْتَهَى.
چونکہ موطا میں یزید بن رومان سے روایت ہے کہ لوگ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے دور میں تئیس 23 رکعات تراویح پڑھا کرتے تھے، اور اس پر مشرق و مغرب میں لوگوں کا عمل ہے۔لیکن محقق ابن الھمام نے فتح القدیر میں جو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ تروایح کی کی بیس رکعات میں سے سنت اتنی ہی رکعات ہیں ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، اور اسے نبی صلی اللہ علیہ نے ہم پر فرض ہو جانے کے خوف سے ترک کردیا تھا، اور باقی رکعات مستحب ہیں۔ اور یہ صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 117 جلد 02 البحر الرائق شرح كنز الدقائق- زين الدين بن إبراهيم ، ابن نجيم المصري - دار الكتب علميه - بيروت
ملاحظہ فرمائیں: صفحه 72 جلد 02 البحر الرائق شرح كنز الدقائق- زين الدين بن إبراهيم ، ابن نجيم المصري - دار الكتب علميه - بيروت

أحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي(المتوفى: 1231هـ):

ذكر في فتح القدير ما حاصله أن الدليل يقتضی أن تكون السنة من العشرين ما فعله صلی الله عليه وسلم منهاثم تركه خشية أن يكتب علينا والباقي مستحبا وقد ثبت أن ذلك كان إحدی عشرة ركعة بالوتر كما ثبت في الصحيحين من عائشة فاذا يكون المسنون علی أصول مشايخنا ثمانی منها والمستحب اثنتی عشرة انتهي بحر.وروي ابن أبي شيبة من حديث ابن عباس كان صلی الله عليه وسلم يصلی في رمضان عشرين ركعة والوتر وسناده ضعيف كما ذكر صاحب المواهب فعلی هذا تكون العشرون ثابتة من فعله صلی الله عليه وسلم اوعترض قوله ثم تركه خشية أن يكتب علينا بأنه كيف يخشي ذلك وهو عليه السلام قد أمن الزيادة بقوله سبحانه بعد فرض الخمس لا يبدل القول لديّ وأجيب بأن الممنوع زيادة الاوقات وبقصانها لازيادة عدد الركعات ونقصانها ألا تری أن الصلاة فرضت ركعتين فأقرت في السفر وزيدت في الحضر أبو السعود عن الشلبيّ وبأن صلاة الليل كانت واجبة عليه صلی الله عليه وسلم ويجب علی الامة الاقتداء به في أفعاله الشرعية فترك الخروج اليهم لئلا يدخل ذلك في الواجب من طريق الامر بالاقتداء به لا من طريق انشاء فرض جديد زائد علی الخمس وهذا كما يوجب المرء علی نفسه صلاة نذر فتجب عليه ولا يلزم من ذلك زيادة فرض في أصل الشرع وبأن الله تعالی قد فرض الصلاة خمسين ثم حط معظمها بشفاعة نبيه صلی الله عليه وسلم فاذا عادت الامّة فيما استوهب لها والترمت ما استعفی لهم نبيهم عليه الصلاة السلام يستنكّر أن يثبت ذلك فرضا عليهم وبأن المخوف افترض قيام الليل علی الكفاية لا علی الاعيان فلا يكون زائدا علی الخمس المفروضة علی الاعيان فتكون نظير الوتر في أنه لم يكر زائدا علی الفرائض وبأن المخوف افتراض قيام رمضان خاصة فيرتفع الاشكال لان قيام رمضان لا يتكّرّر كل يوم بل في السنة فلا يكون قدرا زائد علی الخمس وهناك أجوبة أخری تطلب من المواهب وشرحها (تنبيه) قام صلی الله عليه وسلم في شهر رمضان ليلة ثلاث وعشرين بالصلاة الی ثلث الليل الاوّل وليلة خمس وعشرين الی نصف الليل وليلة سبع وعشرين حتی ظنوا أنهم لا يدركون السحور (قولهلم واظبة الخلفاء الراشدين) أي معظمهم والا فأبوبكر لم يفعلها وهي سنة رسول الله عليه وسلم لقوله عليه الصلاة والسلام ان الله تعالی فرض عليكم صيامه وسنت لكم قيامه كافي واشار في كتاب الكراهية من البزازية الی انه لو قال التراويح سنة عمر كفر لانه استخفاف وهو كلام الروافض وفيه نظر فقد صرّح في كثير من المتداولات المعتبرة بأنها سنة عمر لانّ النبيّ عليه الصلاة والسلام لم يصلها عشرين بل ثماني ولم يوظب علی ذلك وصلاها عمر بعده عشرين ووافقه الصحابة علی ذلك ودعوی الستخفاف في حيزا المنع حمويّ.

ملاحظہ فرمائیں: صفحه 295 جلد 01 حاشية الطحطاوي على الدر المختار - أحمد بن محمد بن إسماعيل الطحطاوي الحنفي - طبعة القديمة في مصر
طحطاوی بحر الرائق سے ابن نجیم کا بیان کردہ خلاصہ بیان کرتے ہیں کہ محقق ابن الھمام نے فتح القدیر میں جو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ تروایح کی کی بیس رکعات میں سے سنت اتنی ہی رکعات ہیں ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، اور اسے نبی صلی اللہ علیہ نے ہم پر فرض ہو جانے کے خوف سے ترک کردیا تھا، اور باقی رکعات مستحب ہیں۔ اور یہ صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔
اور پھر صراحت کے ساتھ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیس 20 رکعات نہیں پڑھیں بلکہ آٹھ 8 پڑھیں ہیں

محمد يوسف کاندھلوی دیوبندی(المتوفى: 1384هـ):

حضرت جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ حضرت ابی بن کعب رضی اللہ نے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہو کر عرض کی یا رسول اللہ! آج رات مجھ سے ایک کام ہو گیا اور یہ واقعہ رمضان کا ہے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اے ابی! کیا ہوا؟ انہوں نے عرض کیا میرے گھر میں چند عورتیں تھیں ان عورتوں نے کہا ہم نے قرآن نہیں پڑھا۔، ہم آپ کے پیچھے تراویح کی نماز پڑھیں گی، چنانچہ میں نے انہیں آٹھ رکعت نماز پڑھائی اور وتر بھی پڑھائے۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر کچھ نہ فرمایا اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی رضا مندی کی بناء پر یہ سنت ہوئی۔
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 165 حیاۃ الصحابہ رضی اللہ عنہ (اردو) ۔ محمد يوسف کاندھلوی ۔ مترجم احسان الحق ۔ مکتبۃ الحسن، لاہور
ملاحظہ فرمائیں: صفحہ 165 حیاۃ الصحابہ رضی اللہ عنہ (اردو) ۔ محمد يوسف کاندھلوی ۔ مترجم احسان الحق ۔ دار الاشاعت،کراچی
 
Last edited:

اشماریہ

سینئر رکن
شمولیت
دسمبر 15، 2013
پیغامات
2,684
ری ایکشن اسکور
751
پوائنٹ
290
مجھے ٹیگ کرنے کی وجہ؟؟؟
دار العلوم دیوبند یہ تفصیل بھیج کر وہیں سے جواب موصول کر لیں۔
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
السلام علیکم :

شیخ @اسحاق سلفی بھائی کیا اس فتوی میں حق بیان کیا گیا ہے -

کیا آٹھ رکعات تراویح کی روایت پورے ذخیرہٴ حدیث میں کہیں موجود نہیں ہے ؟؟
وعلیکم السلام ورحمۃ اللہ ؛
محترم ابن داود بھائی حفظہ اللہ نے بڑی تفصیل سےآپ کے سوال کا جواب دے دیا ،جزاہ اللہ تعالی خیر الجزاء
ہم انہی کے دلائل کے سلسلے کو آگے بڑھاتے ہوئے عرض کرتے ہیں :
حدیث کی مشہور کتاب صحیح ابن خزیمہ ،جو مشہور دیوبندی عالم جناب ڈاکٹر مصطفی اعظمی کی تحقیق اور تعلیق سے شائع ہے اور مارکیٹ میں آسانی سے مل جاتی ہے
اس میں سیدنا جابر رضی اللہ عنہ کی آٹھ رکعت تراویح کی حدیث موجود ہے ،ملاحظہ فرمائیں :
عن جابر بن عبد الله قال:
صلى بنا رسول الله صلى الله عليه وسلم في رمضان ثمان ركعات والوتر، فلما كان من القابلة اجتمعنا في المسجد ورجونا أن يخرج إلينا، فلم نزل في المسجد، حتى أصبحنا فدخلنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقلنا له: يا رسول الله! رجونا أن تخرج إلينا فتصلي بنا، فقال: "كرهت أن يكتب عليكم الوتر"(صحیح ابن خزیمہ ۔ 1070)
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :کہ رمضان میں رسول الله صلى الله عليه وسلم میں ہمیں آٹھ رکعت (تراویح )،اور پھر وتر پڑھائے ۔اگلی رات ہم مسجد میں جمع ہوئے
اور ہمیں امید تھی کہ آپ ﷺ ہمیں پڑھانے تشریف لائیں گے ؛ لیکن صبح تک انتظار کے بعد بھی آپ تشریف نہ لائے،۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ڈاکٹر مصطفی اعظمی دیوبندی فرماتے ہیں : (إسناده حسن. عيسى بن جارية فيه لين. المروزي، كتاب الوتر 196 - 197 من طريق يعقوب)

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اسی ’’ صحیح ابن خزیمہ ‘‘ جو مشہور دیوبندی عالم جناب ڈاکٹر مصطفی اعظمی کی تحقیق اور تعلیق سے شائع ہے،اس میں تراویح کی رکعات کی تعداد کا خصوصی باب درج ذیل الفاظ سے باندھا ہے ‘‘
باب ذكر عدد صلاة النبي - صلى الله عليه وسلم - بالليل في رمضان. والدليل على أنه لم يكن يزيد في رمضان على عدد الركعات في الصلاة بالليل ما كان يصلي من غير رمضان
پیارے نبی ﷺ کی نماز (تراویح ) کی رکعات کے عدد کا بیان ،اور اس بات کی دلیل کہ رمضان کی تراویح کی تعداد،، غیر رمضان میں رات کی نماز کی رکعات کی تعداد سے زیادہ نہ ہوتی تھی ‘‘ پھر اس کے تحت حدیث لاتے ہیں کہ :
2213 - حدثنا أبو هاشم زياد بن أيوب، حدثنا سفيان، عن ابن أبي [لبيد] (1)؛
ح وحدثنا عبد الجبار بن العلاء، حدثنا سفيان، حدثنا عبد الله بن أبي لبيد، سمع أبا سلمة يقول:
سألت عائشة، فقلت: أي أمه، أخبريني عن صلاة رسول الله - صلى الله عليه وسلم - بالليل. فقالت:
كانت صلاته بالليل في شهر رمضان وفيما سوى ذلك ثلاث عشرة ركعة.
هذا حديث عبد الجبار.
وقال أبو هاشم: أتيت عائشة فسألتها عن صلاة رسول الله - صلى الله عليه وسلم -[226 - أ] في شهر رمضان فقالت: كانت صلاته ثلاث عشرة ركعة، منها ركعتا الفجر.

جناب ابوسلمہ فرماتے ہیں کہ میں نے سیدہ عائشہ رضی اللہ سے سوال کیا کہ مجھے رسول اللہ ﷺ کی رات کی نماز کے بارے بتایئے ؛
انہوں نے فرمایا : کہ نبی کریم ﷺ۔رمضان اور اس کے علاوہ رات کو تیرہ ۱۳ رکعت نماز ہی پڑھتے تھے ۔ان تیرہ رکعات میں در رکعت صبح کی سنت ہوتی تھیں؛
اس حدیث کی تعلیق (جو علامہ ناصر الدین الالبانی نے لکھی ہے ) میں لکھا ہے :
(( [2213] (إسناده صحيح. على شرط الشيخين - ناصر) )کہ یہ حدیث بخاری و مسلم کی شرط پر صحیح ہے ؛
اور جناب ڈاکٹر مصطفی اعظمی صاحب دیوبندی نے اس پر کوئی اعتراض نہیں کیا؛
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اوپر دیوبندی فتوی میں تو دعوی کیا گیا ہے کہ ۔
۔آٹھ رکعت تراویح ۔کسی حدیث میں سرے سے موجود ہی نہیں ۔
لیکن اس کے برعکس ۔۔نہ صرف احادیث موجود ہیں ،بلکہ دیوبندی علماء کو ان احادیث کا اقرار بھی ہے ؛
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
یہودیوں کی اس بدخصلت پر ان کو تنبہہ کی جا رہی ہے کیونکہ وہ جاننے کے باوجود کبھی تو حق و باطل کو خلط ملط کر دیا کرتے تھے کبھی حق کو چھپا لیا کرتے تھے۔
اہلِ حق میں یہود کی کوئی خصلت نہیں پائی جاتی۔
”لامذہبوں“ میں یہودیوں کی بدخصلت ”مِنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ ۔۔الآیۃ“ والی آپ لوگوں میں پائی جاتی ہے اسی لئے تہجد والی احادیث کو تراویح کے ضمن میں پیش کرتے ہیں۔

کیا آٹھ رکعات تراویح کی روایت پورے ذخیرہٴ حدیث میں کہیں موجود نہیں ہے ؟؟
اگر ہے تو پیش کریں۔

محمد عامر یونس بھائی! اب میں اس فتوی کی وجہ سے اپنے اندر پیدا ہونے والے غصہ کا اظہار کسی دوسرے دیوبندی پر کردوں، تو یہ آپ کا قصور ہے، کہ آپ نے یہ یہاں نقل فرمایا ہے!
اب @اشماریہ بھائی سے آپ ہی معذرت کر لیجئے گا! ابتسامہ
جناب کے پاس اس کے سوا رکھا ہی کیا ہے ۔۔۔۔۔ ابتسامہ!!!
 

اسحاق سلفی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
اگست 25، 2014
پیغامات
6,372
ری ایکشن اسکور
2,565
پوائنٹ
791
”لامذہبوں“ میں یہودیوں کی بدخصلت ”مِنَ الَّذِينَ هَادُوا يُحَرِّفُونَ الْكَلِمَ عَنْ مَوَاضِعِهِ ۔۔الآیۃ“ والی آپ لوگوں میں پائی جاتی ہے اسی لئے تہجد والی احادیث کو تراویح کے ضمن میں پیش کرتے ہیں۔
یہ پڑھ کر دکھ ہوا ،کہ اہل حدیث دشمنی میں نامور حنفی فقہاء رحمہم اللہ کو یہود کے زمرے میں کھڑا کردیا ،انا للہ و انا الیہ راجعون ؛
دیکھئے مشہور حنفی فقیہ جناب ابن ھمامؒ اور علامہ طحطاوی مصری لکھتے ہیں :
ذكر في فتح القدير ما حاصله أن الدليل يقتضی أن تكون السنة من العشرين ما فعله صلی الله عليه وسلم منهاثم تركه خشية أن يكتب علينا والباقي مستحبا وقد ثبت أن ذلك كان إحدی عشرة ركعة بالوتر كما ثبت في الصحيحين من عائشة فاذا يكون المسنون علی أصول مشايخنا ثمانی منها والمستحب اثنتی عشرة انتهي بحر.
علامہ طحطاوی فتح القدیر سے خلاصہ بیان کرتے ہیں کہ محقق ابن الھمام نے فتح القدیر میں جو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ تروایح کی کی بیس رکعات میں سے سنت اتنی ہی رکعات ہیں ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، اور اسے نبی صلی اللہ علیہ نے ہم پر فرض ہو جانے کے خوف سے ترک کردیا تھا، اور باقی رکعات مستحب ہیں۔ اور یہ صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔ ))
 

عبدالرحمن بھٹی

مشہور رکن
شمولیت
ستمبر 13، 2015
پیغامات
2,435
ری ایکشن اسکور
292
پوائنٹ
165
علامہ طحطاوی فتح القدیر سے خلاصہ بیان کرتے ہیں کہ محقق ابن الھمام نے فتح القدیر میں جو بیان کیا ہے اس کا خلاصہ یہ ہے کہ دلیل کا تقاضا یہ ہے کہ تروایح کی کی بیس رکعات میں سے سنت اتنی ہی رکعات ہیں ، جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل ہے، اور اسے نبی صلی اللہ علیہ نے ہم پر فرض ہو جانے کے خوف سے ترک کردیا تھا، اور باقی رکعات مستحب ہیں۔ اور یہ صحیحین میں عائشہ رضی اللہ عنہا کی حدیث سے ثابت ہے کہ وہ (نبی صلی اللہ علیہ کا عمل) گیارہ رکعات 11 (بشمول وتر) ہیں۔ تو ہمارے مشائخ کے اصول کے مطابق یہ آٹھ 8 رکعات سنت اور باقی بارہ 12 رکعات مستحب ہیں۔ ))
آپ اپنا مؤقف قرآن و حدیث کی روشنی میں لکھیں۔
 
Top