• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپﷺ کی شادیوں پر اعتراض کیوں؟

شمولیت
اگست 28، 2019
پیغامات
49
ری ایکشن اسکور
10
پوائنٹ
35
بسم اللہ الرحمن الرحیم

آپﷺ کی شادیوں پر اعتراض کیوں؟​

WHY DID PROPHET MUHAMMAD SAW MARRY WITH 11 WIVES



ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

الحمد للہ رب العالمین والصلاۃ والسلام علی رسولہ الکریم،امابعد:

محترم قارئین!!

ہم سب اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ آپﷺ نے وقتا فوقتاکل گیارہ شادیاں کی جن کے اسمائے مبارک یہ ہیں:

1۔سیدہ خدیجہؓ بنت خویلد 2۔ سیدہ سودہ بنت زمعہؓ 3۔سیدہ عائشہؓ بنت ابوبکرصدیقؓ

4۔ سیدہ حفصہ بنت عمرؓ 5۔ سیدہ زینب بنت خزیمہؓ 6 ۔ سیدہ ام سلمہ ہند بنت ابی امیہؓ

7۔ سیدہ زینب بنت جحشؓ 8۔ سیدہ جویریہ بنت حارثؓ 9۔ سیدہ ام حبیبہ رملہ بنت ابوسفیانؓ

10۔ سیدہ صفیہ بنت حی بن اخطبؓ 11۔ سیدہ میمونہ بنت حارثؓ​

اورہمارا یہ ماننا اور ہمارا عقیدہ ہے کہ آپﷺ نے جتنے بھی شادیاں کی وہ سب اللہ کے حکم وفیصلےسے ہوا،ان سب نکاح کے پیچھے کئی کئی حکمتیں تھیں نیز آپ کی تمام بیویاں امت مسلمہ کی ماں ہیں بلکہ اپنی سگی ماں سے بھی بڑھ کر ہیں کیونکہ یہ ساری ایسی مائیں ہیں جن سے محبت کرنا فرض وواجب ہے اورجن کے حق میں گستاخیاں کرنےاور نازیبا کلمات کہنے سے ایک انسان دائرۂ اسلام سے خارج ہوجاتاہے،فرمان باری تعالی ہے:’’ اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ ‘‘ یعنی کہ محمدﷺ مومنوں پر خود ان سے بھی زیادہ حق رکھنے والےہیں اور محمدﷺ کی تمام بیویاں مومنوں کی مائیں ہیں۔(الاحزاب:6)اور ان کا مقام ومرتبہ بھی دنیا کی عام عورتوں جیسی نہیں ہے اس بات کی شہادت وسرٹیفیکیٹ خود رب ذوالجلال والاکرام نے دی ہے کہ : ’’ يَا نِسَاءَ النَّبِيِّ لَسْتُنَّ كَأَحَدٍ مِّنَ النِّسَاءِ ‘‘ اے نبیﷺ کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو۔(احزاب:32)اب آئیے ہم اس بات کی وضاحت کرتے ہیں کہ آپﷺ کی یہ شادیاں کب اور کیسے ہوئی اور اس کے پیچھے کون کون سی حکمتیں پوشیدہ تھیں:

آپﷺ نے عین شباب 25 سال کی عمر میں ایک ادھیڑ عمر 40 سالہ خاتون سیدہ خدیجہؓ بنت خویلدسے نکاح کیا اور جب تک سیدہ خدیجہؓ باحیات رہیں تب تک آپﷺ نے کوئی دوسری شادی نہیں کی ،50 سال کی عمرتک آپﷺ نےان کے ساتھ زندگی گذاری ، بڑے ہی بدبخت اور رذیل ہیں وہ لوگ جو ہمارے نبیﷺ پر یہ تہمت لگاتے ہیں کہ آپﷺ نے شادیاں اپنی شوق کے لئے کی تھی نعوذ باللہ ،اللہ کی لعنت ہو ایسی سوچ رکھنے والوں پر کوئی ہمیں ذرا یہ تو بتائیں کہ عین شباب میں دنیا کا کوئی بھی انسان ایک بوڑھی عورت سے شادی کرتاہے ؟اگر یہ شادی شوق کے لیے ہوتی تو کیا اس عورت سے شادی کرتے جس کے پہلے ہی دو شادیاں ہوچکی تھیں؟اگر یہ شادی شوق کے لیے ہوتی تو کیا ایک ہی عورت کے ساتھ اتنے لمے عرصے تک زندگی گذارتے؟بڑے ہی نالائق و ملعون ،کم ظرف اور کم عقل ہیں وہ لوگ جو یہ کہتے ہیں کہ آپﷺ کی شادیاں شوق کے لئے تھی، اب ذرا دیکھئے کہ پہلی بیوی کے انتقال ہوتے ہی آپﷺ نے ایک اور بیوہ سودہ بنت زمعہؓ سے نکاح کیا جب کہ سودہؓ بوڑھی تھی اور انہیں حق زوجیت کی بھی ضرورت نہیں تھی یہی وجہ تھی کہ انہوں نے اپنی باری سیدہ عائشہؓ کو سونپ دی تھی، اللہ کی قسم ہمارے نبی کی شادیاں شوق وعیاشی کے لئے نہیں کی تھی !ذرا یاد کیجئے کہ مکہ والوں نے،دشمنان اسلام نے،ابوجہل وابولہب جیسے سرداران قریش نے اپنا ایک نمائندہ آپﷺکے پاس بھیجا اور یہ آفر دیا کہ اے محمدﷺ تم لوگوں کو اسلام کی دعوت دینا چھوڑ دو! ایک اللہ کی طرف بلانا چھوڑ دو ،اے محمدﷺ اگر ان سب کاموں سے تمہارا یہ ٹارگیٹ ہے کہ تمہیں مکہ کی سرداری ملے! تو ہم تمہیں اپنا سردار بنانے اور ماننے کے لئے تیار ہیں،اور اگر ان سب کاموں سے تمہارا مقصد کسی خوبصورت عرب کی دوشیزہ سے شادی کرنا ہے تو بولو ہم عرب کی سب سے خوبصورت دوشیزہ سے تمہاری شادی بھی کرادیں گےاور اگرتمہیں کوئی بیماری ہوگئی ہے ،تو پھر وہ بھی بولو ہم سب تمہارا علاج بھی کرادیں گے،ذرا دیکھئے کہ کس طرح سے مکہ کے کافروں نے آپ ﷺکو عرب کی خوبصورت دوشیزاؤں سے شادی کی پیش کش بھی رکھی مگر نہ تو آپ کی یہ چاہت تھی اور نہ ہی آپﷺ کو اس کی چنداں ضرورت تھی بلکہ آپﷺنے جواب دیا تھاکہ اے لوگو!سن لو نہ تو مجھے سرداری چاہئے اور نہ ہی مجھے کسی خوبصورت دوشیزہ سے شادی کرنے کا ارادہ ہے اور نہ ہی میں دیوانہ ہوں بلکہ میں تو اللہ کا آخری رسول ہوں جو تمہارا بھلا چاہتاہوں،تمہیں اندھکار سے نور کی طرف لاناچاہتاہوں،سن لو!تم لاکھ جتن کرلو،اگر تم میرے ایک ہاتھ میں سورج اور دوسرے ہاتھ میں چاند بھی رکھ دوگے تو بھی میں اسلام کی دعوت دینا نہیں چھوڑوں گا،دیکھا اور سنا آپ نے کہ دشمنوں نے آپ کے سامنے یہ آفر بھی دیا تھا کہ اگر آپ چاہیں تو ہم آپ کی شادی سب سے خوبصورت عورت سے کردیں گےمگر آپ نے انہیں کس طرح سے دوٹوک الفاظ میں اپنے مقصد کو بیان کردیا،پتہ چلا کہ اللہ کی قسم!ہمارے آقائے مدنیﷺ نے کوئی بھی شادی شوق وعیاشی کے لئے نہیں کی تھی کیونکہ آپﷺ نے جتنے بھی عورتوں سے شادیاں کی سوائے ایک کے وہ سب کے سب بیوہ یا پھر طلاق شدہ تھیں،اور ان سب عورتوں سے نکاح کرنے کے پیچھے کچھ نہ کچھ حکمتیں ضرورپوشیدہ تھیں !!اب ذرا دیکھئے کہ جنگ احد میں جب ستر صحابۂ کرامؓ شہید ہوگئے اوران شہیدوں کے بیواؤں اور یتیموں کا کوئی سہارا نہ رہا تو اس مسئلے کو حل کرنے کے لئے نبی کریمﷺ نے اپنے صحابہ ؓ کو بیواؤں سے شادی کرنے کاحکم دیا اور سب سے پہلے خود آپﷺ نےسیدہ ام سلمہ ؓاور اور سیدہ زینب بنت خزیمہؓ سے مختلف اوقات میں نکاح کئے ،جب آپ نے ایسا کیا تو کئی صحابۂ کرامؓ نے بیواؤں سے شادیاں کیں جس کی وجہ سے کئی بے آسرا خواتین کے گھر آباد ہوگئے۔

اسی طرح سے آپﷺ کی کچھ ایسی شادیاں بھی تھیں کہ جس کے انجام پذیر ہوتے ہی کئی قبائل اسلام میں داخل ہوگئے ، اسلام اور مسلمانوں سے دشمنی کا خاتمہ بھی ہوا ایسا ہی کچھ سیدہ جویریہؓ سےنکاح کرنےسے ہوا کہ یہ قبیلہ مصطلق کی سردار کی بیٹی تھی جب آپ نے ان سے نکاح کیا تو ان کے قبیلے کے سوگھرانے اسلام میں داخل ہوگئے۔اسی طرح سے سیدہ میمونہؓ سے نکاح کرنے کی وجہ سے نجد کے علاقے میں اسلام بہت تیزی کے ساتھ پھیلا،ایسا ہی کچھ اس وقت بھی ہوا تھا جب آپﷺ نے ام حبیبہ رملہ بنت ابوسفیان سے نکاح کیا تو اس نکاح کی برکت سے قبیلۂ بنی عبدشمس کی مسلمانوں سے دشمنی کم ہوگئی،آپ یہ بھی جان لیں کہ آپﷺ نے سیدہ ام حبیبہؓ سے جونکاح کیاتھا وہ بھی بطور ہمدردی وخیرخواہی کے بنیاد پر ہی تھا کیونکہ ان کا پہلا شوہر نصرانی ہوکرمرا تھا اور اس وقت وہ حبشہ ملک میں بے یارومددگار تھیں،ساتھ ہی اس نکاح سےخود ان کے والدمحترم ابوسفیانؓ کے اسلام دشمنی میں کمی آگئی تھی۔

اسی طرح سے آپﷺ کی ایک شادی اللہ نے آسمانوں پر صرف اس لئے کرائی تاکہ اس کے ذریعے سماج ومعاشرے کی ایک بری رسم کا خاتمہ کیا جائے واقعہ کچھ یوں ہے کہ عرب کے اندر ایک غلط رسم بہت پہلے سے چلی آرہی تھی کہ اگر کسی نے کسی کو گود لے لیا اور اپنا منہ بولا بیٹا بنا لیا تو اب وہ بچہ اس کا حقیقی بیٹا ہوگیا ،اس کے سارے معاملات ایک خاص بیٹے کی طرح ہوں گے ،اس کی بیوی بھی خاص بہوہوگئی اب اسی بری رسم کو ختم کرنے کے لئے اللہ نے اپنے محبوبﷺ کو یہ حکم دیا کہ وہ سیدہ زینب بنت جحشؓ سے نکاح کرلیں اور یہ وہی سیدہ زینبؓ تھیں جو پہلے آپ کے منہ بولے بیٹے زید بن حارثہؓ کی زوجیت میں رہ چکی تھی،مگر نباہ نہ ہونے کی وجہ سے ان دونوں میں طلاق ہوچکی تھی،اور اس طرح سے آپﷺکی اس نکاح سے عرب کے اندر اس بری رسم کا خاتمہ ہوا،الغرض آپﷺ کی کوئی شادی اور کوئی نکاح ایسا نہ تھا جس کے پیچھے رب کی کوئی نہ کوئی حکمت ہو۔

محترم قارئین!

اب میں آپ کو اس نکاح کے بارے میں کچھ اہم باتیں بتاناچاہتاہوں جس نکاح اور جس رشتے کو لے کرکے آج کل کے کچھ بے شرم لوگ بکواس کرتے ہیں اورآپﷺ کے اوپرطرح طرح کے الزامات لگا کر اپنی گندی ذہنیت کا ثبوت دیتے ہیں کہ آپﷺ نے ایک نوسالہ بچی سیدہؓ عائشہؓ سے نکاح کیا تھا؟

میرے دوستو!سب سے پہلے تو میں ان بدبختوں اورکم ظرفوں سے یہی کہوں گا کہ جس سے شادی ہوئی وہ خوش تھیں تو تمہارے پیٹ میں مروڑ کیوں ہوتاہے؟جن کی بیٹی تھیں ان کو کوئی اعتراض نہیں تو پھر تمہارے پیٹ میں دردکیوں ہوتاہے؟

آج بدباطن لوگ اور جو خود ہوس پرست ہیں وہ کہتے ہیں کہ یہ کیسی شادی تھی ؟ایک چھوٹی بچی سے شادی کرلی؟نو سال کی عمر میں نکاح کرلیا وغیرہ وغیرہ ،سنو!دنیاوالوں یہ کوئی عیب وشرم کی بات نہ تھی، اور یہ چیز عرب میں پہلے سے رائج تھی اور بعد میں بھی رائج رہی کہ کم عمر میں ہی شادیاں کی جاتی تھی،اور لڑکی کے بالغ ہوتے ہی شادیاں کردی جاتی تھی،جیسے کہ دیکھئے مشہور صحابی سیدنا امیر معاویہؓ نے اپنی بیٹی ہندہ کی شادی اس کی نوسال کی عمر میں عبداللہ بن عامر بن کریز سے کردی تھی۔(تاریخ دمشق7/188) اسی طرح سے مشہور صحابی سیدنا عبداللہ بن عمرو بن العاص اپنے والد عمرو بن العاص سے صرف گیارہ سال چھوٹے تھے۔(تذکرۃ الحفاظ للذہبی:1/42 بحوالہ جریدہ ترجمان،اگست2022)

دنیا والو!ذرا یہ بات بھی سنتے جاؤ اور ذرا غور کرو کہ اگر اتنی کم عمر کی بالغہ لڑکی سے نکاح کرنا کوئی عیب ہوتا تو یہ عیب سب سے پہلے اس زمانے کے کفار ومشرکین اور اسلام کے دشمن یہود ونصاری لگاتے مگر جب اس زمانے کے کفار ومشرکین اور یہود ونصاری نے کوئی اعتراض نہیں کیا تو آج کل کے لوگوں کو روگ کیوں ہے؟ اب ذرا دیکھئے کہ اس زمانے کے آپ ﷺ کے دشمنوں نے آپ کے اوپر کیسے کیسے الزامات لگائے،کیسی کیسی بہتان بازیاں کی،کبھی ساحر کہا ،کبھی کاہن کہا تو کبھی مجنوں کہا، کبھی آپ کے اوپر جانی حملے کئے ،تو کبھی آپ کے اوپر پتھر بھی برسائے،کبھی آپ کے پیچھے اوباشوں کو لگا دیا تو کبھی آپ کوجان سے ہی مارنے کی کوشش کی غرضیکہ ہزاروں طرح سے انہوں نے آپ کو تکلیفیں دیں مگر انہوں نے کبھی بھی یہ الزام عائد نہیں کیا کہ محمدﷺ نے ایک کم عمر کی لڑکی سے شادی کرلی !پورے عرب میں کبھی بھی نہ ایسا پہلے کبھی سنا گیا اور نہ ہی بعد میں ایسا کچھ سنا گیا تھا،اور وہ لوگ ایسا عیب لگاتے بھی کیسے جب کہ یہ چیز عرب میں شروع سے ہی رائج رہی ہے اور یہ کوئی شرم وعار اورعیب کی بات ہے بھی نہیں۔

اے کم ظرفوں!کیاگرم علاقوں میں لڑکیاں جلدی بالغ نہیں ہوتی ہیں،آج تو سائنس و ٹکنالوجی کا زمانہ ہے ویسے ہمیں تو کسی سائنس وٹکنالوجی کے انکشافات کی قطعا کوئی حاجت وضرورت نہیں ہے ،ہمارے لئے تو بس ہمارے رب کا حکم اور ہمارے رسولﷺ کا فعل ہی کافی ہے،مگر تم ہماری نہ مانو کم سے کم اپنے خدا سائنس وٹکنالوجی کی ہی مان لو کہ 9 سال میں لڑکیاں بالغ ہوسکتی ہے اور عام مشاہدہ ہے کہ ہوبھی جاتی ہیں اور بسااوقات ماں بھی بن جاتی ہیں۔

برادران اسلام! جیسا کہ ابھی آپ نے سنا اور پڑھا کہ آپﷺ کا سیدہ عائشہؓ سے نکاح ہونا یہ کوئی شرم وعار اور عیب نہیں تھابلکہ یہ تو خود رب کا فیصلہ اور رب کا حکم تھا کہ آپ کو سیدہ عائشہؓ سے شادی کرنی ہے ۔(بخاری:3895) توجب یہ رب کا حکم تھا تو پھر آپ یہ جان لیں کہ اس نکاح کے پیچھے بھی رب کی کئی حکمتیں پوشیدہ تھیں،اور ان تمام حکمتوں میں سب سے اعلی حکمت اس کے سوا کچھ اور نہ تھیں کہ آپﷺ سے وحی الہی قرآن وحدیث کی تعلیم کو سیکھ کر دوسروں تک پہنچانا یہی وہ اہم ذمہ داریاں تھیں جس کی وجہ سے رب نے سیدہ عائشہؓ کا نکاح اپنے محبوبﷺ سے کرایاتھا،اور اماں عائشہؓ نے اس فریضے کو بحسن وخوبی انجام دیا کہ وہ آپﷺ کے وفات کے بعد 48 سال تک زندہ رہیں اور اس دوران شہرمدینہ میں ان سے بڑی کوئی فقیہہ اور عالمہ نہ تھیں بلکہ صحابۂ کرامؓ خود فرمایاکرتے تھے کہ جب ہمیں کسی مسئلے میں شک ہوجاتا تو ہم سب ان کی طرف رجوع کرتے اور انہیں اس کا بخوبی علم ہوتاتھا۔سبحان اللہ۔رب کے علم وعرفان اور وحی الہی کو انہوں نے کس طرح سے یادرکھا اور اس کی نشرواشاعت کس طرح سے کی اس بات کا اندازہ آپ صرف اس بات سے لگاسکتے ہیں کہ تمام خواتین صحابیات میں اور سیدنا ابوہریرہؓ کے بعدسب سے زیادہ حدیثوں کو روایت کرنے والی یہی اماں عائشہؓ ہیں،ان سے کل 2210 احادیث مروی ہیں،صرف اماں عائشہ ہی نہیں بلکہ تمام ازواج مطہرات ام المومنین والمومنات کا دروگھر اسلامی احکام کے تعلیم وتعلم کا محورومرکز تھا اور انہیں اسی بات کا پابندبھی بنایاگیا تھاکہ تم سب اپنے اپنے گھروں میں قرآن وحدیث کے تعلیم وتعلم کا سلسلہ جاری رکھو،فرمان باری تعالی ہے ’’ وَاذْكُرْنَ مَا يُتْلَىٰ فِي بُيُوتِكُنَّ مِنْ آيَاتِ اللَّهِ وَالْحِكْمَةِ ۚ إِنَّ اللَّهَ كَانَ لَطِيفًا خَبِيرًا ‘‘ اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسولﷺ کی جو احادیث پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکرکرتی رہو۔(الاحزاب:34)الغرض ہمارا یہ کہنا اور ماننا ہےاور ہمارا یہ مسلم عقیدہ ہے کہ اماں عائشہؓ کانکاح بحکم الہی ہواتھا اور اس میں کوئی شرم وعار نہیں اور نہ ہی اس میں کوئی عیب والی بات ہے،اب جولوگ اس نکاح پر انگلی اٹھاتے ہیں وہ سب سے پہلے اپنی اوقات اور اپنی حیثیت دیکھے کہ وہ کون ہیں ؟ ان کا مذہب کیا ہے؟

ہائے افسوس ! تعجب ہے اس بات پر کہ یہ عیب وہ لوگ لگاتے ہیں جن کے رشیوں اور منیوں نے خود کم عمر کی لڑکی سے شادی کی تھی اب ذرا دیکھئے کہ رامائن اور پرانوں کے مطابق رام جی کی عمر شادی کے وقت پندرہ برس اور سیتا جی کی عمر محض چھ برس کی تھی۔(رامائن ،ارنیہ کانڈ،سرگ :47،اشلوک:4010،11۔ بحوالہ جریدہ ترجمان،اگست2022)بقول مومن خان مومن:

یہ عذر امتحان جذب دل کیسا نکل آیا

میں الزام اس کو دیتاتھا قصور اپنا نکل آیا​

برادران اسلام!اب ذرا یہ ایک حقیقت بھی سنئے کہ اس دنیا میں اگر کسی کا بے جوڑ رشتہ ہوجائے تو نباہ ہونا مشکل ہوتا ہے،اگر کسی جوڑے میں بہت زیادہ عمر کا فرق ہوتو پھر میاں بیوی کے درمیان وہ پیار ومحبت نہیں رہتی ہے جو رہنی چاہئے بالخصوص لڑکی تو گھٹ گھٹ کے مرتی ہے،مگر ہمارے نبیﷺ وامی عائشہؓ کا رشتہ بھی ذرا دیکھئے کہ عمر میں تفاوت ہونے کے باوجودکیسی الفت ومحبت رچی وبسی ہوئی تھی،زندگی میں کبھی کھٹ پٹ اور ان بن نہیں ہوئی،اللہ کی قسم! جیسی محبت امی عائشہ ؓ اور آپﷺ کے درمیان تھی ویسی محبت پھر کسی جوڑے میں پیدا نہیں ہوسکتی ہے ،آئیے ذرا ان دونوں کی الفت ومحبت کے ایک دو نمونے کو سنتے اور پڑھتےہیں،امی عائشہؓ خود کہتی ہیں کہ میں پانی پیتی اور برتن اپنے محبوبﷺ کو دے دیتی تو آپﷺ برتن سے اسی جگہ منہ رکھ کر پانی پیتے جہاں سے میں نے منہ رکھ کر پیا ہوتا،ہڈی سے گوشت کھاکر نبی اکرمﷺکو دیتی تو آپﷺ اسی جگہ سے کھاتے تھے جہاں سے میں نے کھایا ہوتا۔(مسلم:692)

الفت ومحبت کی ایک اور عدیم المثال کہانی سنئے ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ دوران سفر آپﷺ کے ساتھ سیدہ حفصہؓ اور سیدہ عائشہؓ ساتھ میں تھیں ،باتوں باتوں میں امی حفصہؓ نے امی عائشہؓ سے کہاکہ آج رات تم میرے اونٹ پر سوار ہوجاؤ اور میں تمہارے اونٹ پر سوار ہوجاتی ہوں ذرا تم بھی دیکھواور ہم بھی دیکھتے ہیں کہ ہوتا کیا ہے؟ چنانچہ امی عائشہؓ سیدہ حفصہؓ کے اونٹ پر اور امی حفصہؓ سیدہ عائشہؓ کے اونٹ پر سوار ہوگئیں،جب رات ہوئی تو آپﷺ سیدہ عائشہؓ کے اونٹ کی طرف تشریف لے گئے حالانکہ اس اونٹ پر سیدہ حفصہؓ سوار تھیں،آپﷺ نے سیدہ حفصہؓ کو سلام کیا اورساتھ ہولئےاور منزل کی طرف چل پڑے اور اس طرح سے امی عائشہ اس رات آپﷺ کی رفاقت سے محروم ہوگئیں ،چنانچہ جب منزل پر پڑاؤ کیا تو امی عائشہؓ کی اپنے محبوب سے بے پناہ محبت کے نمونے کو دیکھئے کہ وہ کیا کہنے اور کیا کرنے لگی چنانچہ امی عائشہ ؓاپنے دونوں پاؤں کو اذخرگھاس میں ڈال کر کہنے لگی کہ :’’ یَارَبِّ! سَلِّطْ عَلَیَّ عَقْرَباً أوْحَیَّۃً تَلْدَغُنِیْ ‘‘ اے اللہ توکسی ایسے بچھو یا سانپ کو بھیج دے جو مجھے کاٹ کھائے ،وہ تو تیرے محبوب ہیں میں تو انہیں کچھ نہیں کہہ سکتی۔(بخاری:5211) دیکھئے یہ دونوں میاں بیوی کتنے خوش ہیں اور آج کے لوگوں کو پیٹ میں مروڑ ہوتا ہے۔یہی اماں عائشہؓ ہے جو اپنے محبوب آقا کے بنا ایک پل بھی نہیں رہ سکتی تھیں وہ خودبیان کرتی ہیں کہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے آپﷺ ایک رات میرے پاس موجود تھے کہ آپ ﷺ اچانک چپکے سےدروازے کو آہستہ بندکرتے ہوئےحجرے سے باہر نکل پڑے ،پیچھے پیچھے میں بھی نکل پڑی ،میں نے دیکھا کہ آپ بقیع قبرستان تشریف لے گئے اور وہاں آپ نے ہاتھ اٹھاکردعائیں کی ،جب آپ نے واپسی کا ارادہ کیا تو میں تیز تیز چلتے ہوئے آپ سے پہلے ہی اپنے حجرے میں آکر لیٹ گئی جب آپﷺ نے میری سانس کو پھولتے ہوئے دیکھا تو آپ نے مجھ سے کہا کہ اے عائشہ ’’ أظَنَنْتِ أنْ یَّحِیْفَ اللہُ عَلَیْکِ وَرَسُوْلُہُ ‘‘تمہارا خیال تھا کہ اللہ اور اس کے رسولﷺ تم پر ظلم کریں گے؟(مسلم:974) دیکھا اور سنا آپ نے کہ اماں عائشہ ؓ آپﷺ سے کتنی شدید محبت کرتی تھیں کہ ایک پل بھی آپﷺ کے بغیر نہیں رہ سکتی تھیں! بلکہ اماں عائشہؓ تو ہمیشہ یہ قصیدہ ہی پڑھا کرتی تھیں کہ:

لَنَا شَمْسٌ وَلِلْآفَاقِ شَمْسٌ

وَشَمْسِی خَیْرٌ مِّنْ شَمْسِ السَّمَاءِ

فَاِنَّ الشَّمْسَ تَطْلُعُ بَعْدَ فَجْرٍ

وَ شَمْسِیْ طَالِعٌ بَعْدَ الْعِشَاءِ​

یعنی کہ ایک ہمارا سورج ہے اور ایک آسمانوں کا سورج ہے،اور میرا سورج آسمان کے سورج سے کہیں بہتر وافضل ہے،آسمان کا سورج تو فجر کے بعد نکلتاہے اور میرا سورج عشاء کے بعد طلوع ہوتاہے۔سبحان اللہ کیا کائنات میں کسی جوڑے کے اندر ایسی محبت ہوسکتی ہے؟ہرگز نہیں!

برادران اسلام!آئیے میں آپ کو یہ بھی بتاتا چلوں کہ ہمارے نبیﷺ کی کوئی بھی شادی موج ومستی،عیش وعشرت کے لئے نہیں تھیں اور اس بات کی گواہی خود رب العالمین نے دی ہے، ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ ہماری ماؤں نے آپﷺ کے سامنے میں اپنی غربت وافلاس کا شکوہ کیاتو رب العالمین نے جبرئیل امین کو بھیج کر یہ وحی ہی نازل کردی کہ اے میرے نبیﷺ کی بیویو!سن لو!تمہارا نکاح جب ہمارے محبوب سے جب ہوچکا ہے تو یہ بھی یادرکھ لو کی میرے نبیﷺ کے ساتھ زندگی گذارنے میں غربت وافلاس ہے،فقروفاقے ہیں،تنگی وعسرت ہے،جھونپڑی اور کٹیا ہےاور تمہیں ان کے ساتھ اسی طرح سے رہنا ہے، اور وہ سب کے سب اسی بات پر راضی برضااور خوش رہیں جیسا کہ فرمان باری تعالی ہے کہ ’’ يَا أَيُّهَا النَّبِيُّ قُل لِّأَزْوَاجِكَ إِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ الْحَيَاةَ الدُّنْيَا وَزِينَتَهَا فَتَعَالَيْنَ أُمَتِّعْكُنَّ وَأُسَرِّحْكُنَّ سَرَاحًا جَمِيلًا ، وَإِن كُنتُنَّ تُرِدْنَ اللَّهَ وَرَسُولَهُ وَالدَّارَ الْآخِرَةَ فَإِنَّ اللَّهَ أَعَدَّ لِلْمُحْسِنَاتِ مِنكُنَّ أَجْرًا عَظِيمًا ‘‘اے نبیﷺ! آپ اپنی بیویوں سے کہہ دو کہ اگر تم دنیا کی زیب وزینت چاہتی ہوتو آؤ میں تمہیں کچھ دے دلا کر اچھائی کے ساتھ رخصت کردوں اور اگر تم اللہ اور اس کے رسولﷺ کو چاہتی ہو اور آخرت میں کامیاب ہونا چاہتی ہو تو جان لو کہ تمہارے رب نے تم سب بیویوں کے لئے بہت بڑا اجروثواب تیار کرکے رکھا ہے۔(احزاب:28-29)دیکھا اور سنا آپ نے کہ ہماری مائیں کس طرح سے غربت افلاس کے ساتھ زندگی گذارنے پر راضی برضاتھیں اب ہمیں کوئی یہ بتائے کہ اگر یہ شادیاں موج ومستی ،عیش وعشرت کے لئے ہوتی تو کیاوہ سب کے سب غربت وافلاس،فقروفاقے کی زندگی کیوں گذارتیں؟ہرگز نہیں!ہرگز نہیں! ہے کسی بدباطن کے پاس اس کا جواب؟

میرے دوستو! یہ بیجا اعتراض یوں ہی نہیں ہے بلکہ یہ اعتراض دراصل ان کے دلوں میں چھپا ہوا ایک ایسا روگ ہے جو ان کو ہر وقت ڈر وخوف میں مبتلا رکھتی ہے اور وہ یہ ہے کہ یہ لوگ اسلام کی حقانیت اور اسلام کے سچائی پن اور اسلام کے غلبے سے انہیں ڈر لگتا ہے،یہ ہروقت خوف وہراس میں مبتلا رہتے ہیں کہ کہیں اسلام کا بول بالا نہ ہوجائے اور اسی ڈر وخوف کی وجہ سے وہ اس طرح کی اوچھی ونیچ حرکتیں کرتے نظر آتے ہیں،اور وہ یہ سوچتے ہیں کہ ہماری ان حرکتوں سے لوگ اسلام و محمدﷺ اور مسلمانوں سے نفرت کریں گے اور وہ اسلام کے قریب نہیں جائیں گے مگر انہیں اس بات کی خبر نہیں ہے کہ :

اسلام کی فطرت میں قدرت نے لچک دی ہے

اتنا ہی یہ ابھرے گا جتنا کہ دبادیں گے۔


آخر میں اللہ سےیہی دعاگوہوں کہ اے الہ العالمین تو اپنے محبوب کے دشمنوں کو دنیا وآخرت میں ذلیل ورسواکرکے انہیں اپنے سخت عذاب میں مبتلا کردے۔آمین یارب العالمین۔اللھم انا نجعلک فی نحورھم ونعوذبک من شرورھم۔

کتبہ

ابومعاویہ شارب بن شاکرالسلفی

 
Top