• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے دس سوالات اورمقبول احمد سلفی کے جوابات

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
آپ کے دس سوالات اور مقبول احمد سلفی کے جوابات

سوال (1): ایک آدمی اپنی جاب کے سلسلے میں ایک شہر سے دوسرا شہر سفر کرتا ہے ہفتے میں دو دن وہ ایک شہر میں مقیم کی حیثیت سے رہتا ہے اور باقی کے دن دوسرے شہر میں,ایسے ہی سلسلہ چلتا رہتا ہے تو ایسی صورت میں اس آدمی کی نماز کا حکم کیا ہے, قصر کرے گا یا پوری نماز پڑھے گا؟
جواب : دوران سفر نمازیں قصر پڑھنی ہیں خواہ یہ سفر مہینوں یا سال پہ محیط ہو مگرکسی شہر میں نازل ہونے اور قیام کرنےکے متعلق دو مسئلے ہیں ۔ پہلا مسئلہ یہ ہے کہ اگر کہیں چار دن سے زیادہ قیام کرنے کا پہلے سے ارادہ بن گیا تو وہاں مکمل نماز پڑھنی ہے کیونکہ وہ مقیم کے حکم میں ہے لیکن اگر چار دن سے کم ٹھہرنے کا ارادہ ہے یا یہ نہیں معلوم کہ کتنادن ٹھہرنا ہے تو اس صورت میں نمازیں قصر کرکے پڑھے گا۔

سوال (2) : میں نے ایک آدمی سے جھوٹ بولا ہے، اب اس غلطی پہ نادم ہوں، کیا میں توبہ کرلوں تو غلطی معاف ہوجائے گی یا اس آدمی کو بتانا ضروری ہے ، یہ معلوم رہے کہ میں اس کو بتانے میں شرم محسوس کرتا ہوں اور اس قدر شرم ہے کہ اس سے بیان نہیں کرسکتا۔
جواب : انسان خطا کا پتلہ ہے ، غلطی کرسکتا ہے کوئی حیرانی کی بات نہیں ہے اور اچھا انسان وہ ہے جو غلطی کرکے اس سے توبہ کرلے ۔ جھوٹ بولنا کبیرہ گناہ ہے ، اللہ تعالی سے اس بڑے گناہ کی سچے دل سے توبہ کریں ، اللہ بڑا مہربان ، بہت معاف کرنے والا ہے۔ اگر آپ کے جھوٹ بولنے سے اس آدمی کا کوئی نقصان نہیں ہوا یا آپ کے جھوٹ سے بدظنی کا بھی شکار نہیں ہوا تو خیر اسے بتلانے کی ضرورت نہیں ، جھوٹ پہ پشیمانی اور اللہ سے توبہ ہی کافی ہے لیکن اگر کچھ نقصان ہوا ہے تو اس کی تلافی ضروری ہے یا بدظنی کا شکار ہوگیا ہے تو اسے راضی کرنا ہے۔ اس کے کئے طریقے ہوسکتے ہیں ، اگر آپ کے لئے براہ راست نقصان کی تلافی یا ناراضگی دور کرنا مشکل ہے تو اس آدمی کا کوئی قریبی ساتھی منتخب کریں اور اس کے ذریعہ خوش اسلوبی سے اپنا معاملہ حل کرلیں ۔

سوال (3): اگر بلی نے چوہا کھایا اور اس کے منہ میں خون وغیرہ لگا ہے ایسی حالت میں بلی نے برتن سے پانی یا دوھ پی لیا تو کیا وہ پانی یا دودھ پاک رہے گا یا ناپاک ہوجائے گا ؟
جواب : نبی ﷺ نے بلی کا جوٹھا پاک قرار دیا ہے کیونکہ وہ زیادہ گھروں میں آنے جانے والی ہے ، یہ معلوم ہے کہ بلی نجاست کھاتی ہے پھر بھی آپ ﷺ نے مشقت کی وجہ سے اس کے جوٹھے کو پاک کہا ہے ۔ اگر بلی نے چوہا کھالیا ہو اور کچھ وقت گزرگیا ہوپھر کسی برتن سے دودھ یا پانی پی لیا تو وہ پانی یا دودھ پاک ہی رہے گا ۔ شیخ الاسلام ابن تیمیہ ؒ نے کہا کہ اگر بلی چوہا یا اس جیسی چیز کھالے اور جدائی کا وقت لمبا ہوجائے تو تھوک سے اس کا منہ پاک ہوجاتا ہے ضرورت کی وجہ سے ، یہ سب سے قوی قول ہے جسے اختیار کیا ہے امام احمد اور امام ابوحنیفہ کے اصحاب کی ایک جماعت نے (کتاب الاختیارات العلمیۃ، باب ازالۃ النجاسۃ)

سوال (4) ایک آدمی نے وضو کرکے جراب پہنا پھر کسی نمازکے وقت ان جرابوں پر مسح کیااور مسجد میں داخل ہوتے وقت جرابوں کو نکال دیا اور نماز ادا کی کیا اس کی نماز درست ہوگی، جراب نکالنے سے وضو باقی رہتا ہے؟
جواب :صحیح قول کی روشنی میں اگر وضو کرکے جراب پر مسح کیا ہو اور مسجد میں داخل ہوتے وقت جراب اتار دیا ہو تو اس سے وضو باقی رہے گا ، اس لئے نماز درست ہے ،ہاں جراب اترنے کی وجہ سے اب دوبارہ اس پہ مسح نہیں کرسکتا ہے ۔پھر سےوضو کرکے جراب پہنے گا تو اس وقت مسح کرسکتا ہے ۔

سوال (5): سیب کی پیداوار میں کس طرح زکوۃ نکالی جائے گی اور اس کا نصاب کیا ہے ؟
جواب : سیب کی پیداوار میں زکوۃ نہیں ہے لیکن جو سیب کی تجارت کرتا ہوں تو مال تجارت میں نصاب تک پہچنے اور حولان حول پہ زکوۃ دے گا۔ مال میں نصاب ساڑھے باون تولہ (595 گرام) چاندی ہے ۔

سوال (6): میرا بیٹا ایک سال کا ہے بوجوہ اسکا عقیقہ باقی ہے اسکی طبیعت کچھ ٹھیک نہیں رہتی ہمیں خاندان والے کہتے ہیں کہ اس پر عقیقے کا بوجھ ہے اسلیے صحت کے مسائل ہیں بتائیے گا کیا ایسا کچھ شریعت میں موجود ہے یا یہ ایک مفروضہ ہے نیز ساتویں دن عقیقہ نہ کر سکیں تو بعد میں کرنا کیسا ہے؟
جواب : صحت کے مسائل اس لئے نہیں ہیں کہ بچے کا عقیقہ نہیں ہوا ہے بلکہ یہ تقدیر کا حصہ ہے جو اللہ کی طرف سے پہلے سے ہی مرقوم ہے ۔ اس پر مومن کو ایمان لانا چاہئے ۔ جو کہتے ہیں کہ بچہ پر عقیقہ کا بوجھ ہے اس وجہ سے طبیعت ناساز رہتی ہے غلط خیال ہے ،اس خیال سے عقیدہ پر برا اثر پڑسکتا ہے اس لئے ایسی بات کو مردود وباطل سمجھیں ۔ جس بچے کا ساتویں دن کسی وجہ سے عقیقہ نہیں ہوسکا بعد میں بھی اس کا عقیقہ کر سکتے ہیں اکثر علماء کا یہی کہنا ہے ۔

سوال (7): کچھ عرصہ پہلے ایک بہو نے اپنی ساس کا کچھ زیور چرائی تھی ، اس وقت ساس کا انتقال ہو گیااور اب بہو خود بڑھاپے کو پہنچ گئی ہے وہ اس گناہ کی تلافی کرنا چاہتی ہے تو اسکی کیا صورت ہے؟
جواب : بہو کو چاہئے کہ سب سے پہلے مال مسروق میت (حقدار) کے ورثاء کو دیدے اور اس کے بعد اللہ تعالی سے سچی توبہ کرے وہ توبہ قبول کرنے والا ہے۔

سوال (8): مجھے گھریلو کچھ مشکل پیش آتی ہے اس لئے میں نے ایک حافظ کو طے کردیا ہے تاکہ وہ روزانہ میرے گھر سورةالبقرہ کی تلاوت کرے، کیا میرا یہ عمل درست ہےیا پھر قرآن کی رکاڈنگ چلا سکتا ہوں ؟
جواب : گھریلو مشکل سے بچنے کے لئے اولا انسان کو اللہ کی طرف رجوع کرنا چاہئے ، جب اللہ ناراض ہوتا ہے تو اس کی زندگی اور گھر میں آفت بھیج دیتا ہے ، پھراللہ کی رضا کا کام کرنا چاہئے نیز گھر وں میں نوافل، اذکار، دعائیں اور تلاوت کا اہتمام کرنا چاہئے ، ساتھ ہی گھروں کو بری اور گندی چیزوں سے پاک بھی کرنا چاہئے ۔ کسی حافظ کو طے کرنے کی ضرورت نہیں ہے،نہ ہی روزانہ سورہ بقرہ ختم کرنا ضروری ہے خود سے جتنا میسر ہو قرآن پڑھیں یا گھر کے افراد میں سے جوبھی قرآن پڑھنا جانتے ہیں وہ سب مناسب اوقات میں کچھ نہ کچھ تلاوت کیا کریں ، قرآن کی رکاڈنگ ہوتو اس سے بھی فائدہ اٹھاسکتے ہیں ۔

سوال (9) : میرا ایک دوست ہے اس کی منگنی اس کی کزن سے ہوئی ہے ، وہ دونوں اپنے والدین کی رضامندی سے آپس میں بات چیت کرتے ہیں ، کیا یہ گناہ کا کام تو نہیں ؟
جواب : یقینا یہ گناہ کا کام ہے اور اللہ کی سخت ناراضگی کا باعث ہے ، اس کام کے لئے والدین کی رضامندی کوئی معنی نہیں رکھتی ، ان کی رضامندی تو بھلائی کے کاموں میں دیکھی جائے گی ۔ اس لئے لڑکا اور لڑکی دونوں کو فورا بات چیت سے ر ک جانا چاہئے یہاں تک کہ نکاح ہوجائے ۔ نیز انہوں نے آپس میں بات کرکے جو غلطی کی ہے اس سے توبہ کرنا چاہئے ۔

سوال (10): غیر مسلم کی اولاد فوت ہوجائے تو اسے صبر کی تلقین کرنا کیسا ہے ؟
جواب : غیر مسلم کو اس کا بچہ فوت ہو جانے پر صبر دلانے میں کوئی حرج نہیں ہے ، وہ بھی انسان ہے ، دکھ والی باتوں سے اسے بھی دکھ ہوتا ہے اور انسان ہونے کے ناطے اسے دلاسہ دینے کا حق بنتا ہے ۔اس کا فائدہ یہ ہوگا کہ وہ ہمارے اس اخلاق سے متاثر ہوسکتا ہے اور اسلام یا مسلمانوں کے تئیں اس کا دل نرم ہوسکتا ہے ۔ ہمارا دین یہی تو چاہتا ہے کہ اخلاق کی دعوت دیں ، نبی ﷺ اخلاق کی تکمیل کے لئے تو بھیجے گئے تھے ۔ اور اخلاق سے ہی دنیا میں اسلام پھیلا ہے۔
 
شمولیت
ستمبر 16، 2017
پیغامات
12
ری ایکشن اسکور
1
پوائنٹ
9
السلام علیکم

شیخ وقت ملے تو میڈیکل انسورینس کروانے والے سوال کا جواب بھی ارسال کر دیجیئے گا کافی دن سے منتظر ہوں- جزاك الله
 

مقبول احمد سلفی

سینئر رکن
شمولیت
نومبر 30، 2013
پیغامات
1,391
ری ایکشن اسکور
453
پوائنٹ
209
السلام علیکم

شیخ وقت ملے تو میڈیکل انسورینس کروانے والے سوال کا جواب بھی ارسال کر دیجیئے گا کافی دن سے منتظر ہوں- جزاك الله
وعلیکم السلام

کہاں پر سوال ہے مجھے معلوم ہی نہیں ، خیر میں آپ کو یہاں دائمی کمیٹی کا ایک فتوی دیتا ہوں ۔

کمپنیوں کے ملازمین کے لئے طبی [میڈیکل] انشورنس کا حکم
فتوى نمبر:20693س: میں ایک کمپنی میں کام کرتا ہوں، اس کمپنی نے اپنے ملازمین کی بعض ہسپتالوں کے ساتھـ طبی انشورنس کا سمجھوتہ کیا ہے، چنانچہ کمپنی ہسپتالوں کو سالانہ مثلا ایک میلین ریال ادا کرے گی ، اور ہسپتال کمپنی کے ملازمین کا سمجھوتے میں وضاحت کے مطابق ایک سال کے دوران بیماریوں اور زخموں کا علاج کریں گے ، تو کیا ہمارے لئے جائز ہے کہ نظام کے مطابق ان ہسپتالوں سے اپنا علاج کروائیں، یا پھر اس کا جوّا میں شمار ہے؟ج: تجارتی انشورنس
( جلد کا نمبر 11، صفحہ 200)
- طبی انشورنس - تمام اقسام حرام ہیں ؛ کیونکہ اس طرح باطل طریقے سے مال کھانا ہے اور اس میں جہالت اور دھوکہ اور جوا ہے ، اور ایک مسلمان پر واجب ہے کہ وہ اس میں شریک نہ ہو، اور نہ ہی اس کو استعمال کرے اگرچہ ایسی کمپنی میں کام کرتا ہو جو اپنے ملازمین کے لئے اس کو استعمال کرتی ہو، اور اسے چاہیئے کہ اپنے پیشوں سے علاج کروائے، اور حلال میں حرام سے بے نیازی ہے۔وبالله التوفيق۔ وصلى الله على نبينا محمد، وآله وصحبه وسلم۔علمی تحقیقات اور فتاوی جات کی دائمی کمیٹی
مصدر
 

یوسف ثانی

فعال رکن
رکن انتظامیہ
شمولیت
ستمبر 26، 2011
پیغامات
2,767
ری ایکشن اسکور
5,409
پوائنٹ
562
مال تجارت میں نصاب تک پہچنے اور حولان حول پہ زکوۃ دے گا۔ مال میں نصاب ساڑھے باون تولہ (595 گرام) چاندی ہے ۔
شریعت میں زکوۃ کا نصاب الگ الگ ہے۔ سونے کا الگ، چاندی کا الگ، اونٹ کا الگ، گائے کا الگ، بکری کا الگ وغیرہ وغیرہ۔ جن چیزوں کے نصاب کا شریعت میں ذکر نہیں، ان پر زکوۃ نہیں جیسے ہیرا اوردیگر قیمتی پتھر وغیرہ (الا یہ کہ یہ مال تجارت ہو)۔ پہلے سونے چاندی کے سکے مروج تھے تو ان سکوں کی دولت کا نصاب بھی الگ الگ تھا۔ یعنی سونے کے سکوں کا نصاب (بلحاظ وزن) وہی ہوگا جو سونا اور سونے کے زیورات کا ہوگا۔ اسی طرح چاندی کے سکوں کا نصاب (بلحاظ وزن) وہی ہوگا جو چاندی یا چاندی کے زیورات کا ہوگا۔

جب سے سونے چاندی کے سکوں کی بجائے پیپر کرنسی کا رواج ہوا ہے، ایک قلیل گروہ نے پیپر کرنسی کی دولت کو زکوۃ سے مستثنی قرار دیا ہے کہ زکوۃ کے نصاب میں پیپر کرنسی کا کوئی ذکر نہیں۔ تاہم امت کی بھاری اکثریت پیپر کرنسی کی دولت پر زکوۃ کے وجوب کی قائل ہے۔

اب مسئلہ یہ ہے کہ پیپر کرنسی کا نصاب، سونے کے نصاب کی پیپر کرنسی مالیت پر ہوگا یا چاندی کے نصاب کی پیپر کرنسی مالیت پر ۔۔۔ کیونکہ فی زمانہ سونے اور چاندی کی قیمتوں میں فرق بہت وسیع ہے۔ مثلا پاکستان میں ساڑھے سات تولہ سونا کی قیمت تقریبا پونے چار لاکھ روپے ہے جبکہ باون تولہ چاندی کی قیمت چالیس ہزار سے بھی کم ہے۔ چالیس ہزار میں تو پاکستان میں دو مناسب بکریاں بھی نہیں ملتیں۔ حکومت پاکستان نے بھی بنک بیلنس سے زکوۃ کی کٹوتی کا نصاب باون تولے چاندی کی مالیت ہی رکھی ہے جو بہت زیادتی ہے کہ معمولی دو بکریوں کی مالیت پر زکوۃ وصول کی جائے۔

دوسری اور اہم ترین وجہ چاندی کے نصاب کے مساوی پیپرمالیت کو روپے کا نصاب مقرر نہ کرنے کی یہ ٹھوس وجہ ہے کہ دنیا بھر میں پیپر کرنسی کی پیداوار، سونے سے منسلک ہے۔ یعنی جو ادارہ بھی پیپر کرنسی چھاپنے کا ذمہ دار ہے، اس کے پاس پیپر کرنسی چھاپنے کا جواز اور اسول یہ ہے کہ اس کے پاس سونے کا جتنا ذخیرہ موجود ہوگا وہ اسی کی پیپر کرنسی مالیت کے مساوی نوٹ چھاپ سکتا ہے۔ اصل میں پیپر کرنسی نوٹ ایک طرح کی رسید ہے ۔ اسی لئے ہر کرنسی نوٹ پر لکھا ہوتا ہے (جیسے) اسٹیٹ بنک آف پاکستان مطالبہ پر حامل ہذا کو اتنی رقم ادا کرے گا۔

چنانچہ علمائے کرام سے میری گذارش ہے کہ مندرجہ بالا نکات کا بغور مطالعہ فرمائیں اور متفقہ طور پر پیپر کرنسی نوٹ کا نصاب ساڑھے سات تولہ سونے کی قیمت مقرر فرمائیں نہ کہ باون تولہ چاندی کی قیمت۔
 
Top