• الحمدللہ محدث فورم کو نئےسافٹ ویئر زین فورو 2.1.7 پر کامیابی سے منتقل کر لیا گیا ہے۔ شکایات و مسائل درج کروانے کے لئے یہاں کلک کریں۔
  • آئیے! مجلس التحقیق الاسلامی کے زیر اہتمام جاری عظیم الشان دعوتی واصلاحی ویب سائٹس کے ساتھ ماہانہ تعاون کریں اور انٹر نیٹ کے میدان میں اسلام کے عالمگیر پیغام کو عام کرنے میں محدث ٹیم کے دست وبازو بنیں ۔تفصیلات جاننے کے لئے یہاں کلک کریں۔

آپ کے مسائل اور ان کا حل

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
آپ کے مسائل اور ان کا حل


فہرست مضامین :
اللہ تعالیٰ کہاں پر مستوی ہے ؟
اﷲ کے سوا کسی دْوسرے سے مدد ما نگنا
مسئلئہ تقدیر
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ
قبر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت
خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا مسئلہ اور جمعرات کو رُوحوں کا گھروں میں آنا
کیا وہابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑے بھائی جتنی عزت کرتے ہیں؟
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اعزاء پر اعمال کا پیش ہونا
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں (رضٰ اللہ عنہُن ) کی تعداد
لولاک لما خلقت الافلاک کی تحقیق
اُمِ کلثوم بنت علی رضی اللہ عنھا کا نکاح سید نا عمر رضی اللہ عنہ سے
کیا سیدنا ابو ہریر ہ رضی اللہ عنہ غیر فقیہ تھے؟
جنات میں توالد و تناسل کا بیان
عہد نبوی( صلی اللہ علیہ وسلم ) میں کونسا فرقہ تھا ؟
ترجمہ پڑھنے کا اجر
قرآن میں لفظ شیعہ؟
نماز میں وضو کا ٹوٹنا
غسل جمعہ کے بعد وضو کرنا ؟
ٹخنوں سے نیچے شلوار لٹکانا
بغیر وضو قرآن کی تلاوت کرنا کیسا ہے؟
حائضہ عورت کا قرآن پڑھنا
حائضہ عورت کا قرآن کو چھونا
حالتِ حیض میں حج اور طواف
ڈاڑھی کا مسئلہ اور مصری علماء
اقامت کا جواب
اذان میں اشھد ان امیر المومنین علی ولی اللہ کا اضافہ
اکیلے آدمی کا اذان اور اقامت کہہ کر نماز ادا کرنا
نماز میں وضو کا ٹوٹنا
زبان سے نیت کرنے کا حکم
بیل بوٹی والی جائے نماز پر پڑھنے کا حکم
مسئلہ رفیع یدین اور آمین بالجہر
مسئلہ رفع الیدین
رفع الیدین کا مسئلہ
رفع الیدین کی روایت کرنے والے سید نا وائل بن حجر رضی اللہ عنہ کے بارے میں بتائیں۔
نماز میں ہاتھوں کا سینے کے اوپر باندھنا
سورہ فاتحہ کے بغیر نماز نہیں ہوتی
قرأت کرتے وقت ہر آیت پر وقف کرنا
جہری نماز میں قرآنی آیات کا جواب دینا
نماز میں قرآن مجید دیکھ کر قرأ ت کرنا
نماز میں سورتوں کی ترتیب
سجدہ میں گھٹنے پہلے رکھیں یا ہاتھ
سجدہ سہو کی صورتیں
سجدہ میں پاؤں کی حالت
پہلے تشہد میں درود
تشہد میں انگلی کو حرکت کس وقت دیں ؟
نماز کے بعد اجتماعی دُعا کا مسئلہ
امام اور مقتدی فرضی نماز کے بعد دعا کرنا
امامت کے احکامات
عورت کی امامت کا مسئلہ
مرد کا عورت کی جماعت کرانا
مشرک امام کی اقتداء کا حکم
امام سے پہل کرنے کی سزا - اور امام کی پیروی کا صحیح طریقہ
مقیم امام کے پیچھے مسافر کی نماز
امام کے پیچھے قنوت نازلہ میں آمین کہی جائے یا دُعا پڑھی جائے ؟
جماعت میں اکیلے کھڑے ہونے کا حکم
ایک مسجد میں دوبارہ جماعت کا حکم
ایک مسجد میں دوسری جماعت
قنوتِ نازلہ کیا اور کیوں ؟
قنوت نازلہ شرعیت اسلامیہ اور فقہ حنفیہ کی نظر میں
دعائے قنوت ، رکوع سے پہلے یا بعد ؟
قنوت نازلہ میں ہاتھ اٹھا کر دعا کرنا
عورت اور مرد کی نماز میں کوئی فرق نہیں
عورت اور مرد کی نماز
تین وتر ادا کرنے کی صورتیں
فجر کی جماعت کے دوران سنتیں
نمازِ فجر کی جماعت کے دوران سنتیں پڑھنا؟
فجر کی سنتوں کے بعد لیٹنا
خطبہ جمعہ کے دوران سنتیں پڑھنا
جمعہ کے بعد کی سنتیں
ظہر کی سنتیں
نماز میں وسوسہ
نماز میں وسو سے
نماز میں کپڑوں اور بالوں سے کھیلنا
حالتِ نماز میں سلام کا جواب دینے کا طریقہ
نمازیوں کو سلام کرنا
فرض نماز گھر میں پڑھنا کیسا ہے ؟
ننگے سر نماز
مسجد میں عورتوں کا پروگرام
قبروں والی مسجد میں نماز
محتلم کا مسجد میں جانا
کلمہ شہادت پڑھنا اور ذکر کرنا
شہید کی نماز جنازہ
شہید کا نماز جنازہ اور جنازۂ غائبانہ
شہید کا جنازہ
نماز جنازہ سری یا جہری ؟
مردہ پیدا ہونے والے بچے کا نماز جنازہ؟
نماز جنازہ میں سلام ایک طرف پھیرا جائے یا دونوں طرف ؟
نماز جنازہ کے بعد دعا کرنا
میت پر دعا مانگنے کا نبوی طریق
قبر پر سورۃ بقرہ وغیرہ پڑھنا
قبرستان میں قرآن پڑھنے کا حکم
قبروں پر مساجد تعمیر کرنا اور انہیں پختہ بنانا
قبر کی اونچائی کی حد
میت کے لئے اظہار غم کی غیر شرعی شکلیں
مرنے کے بعد میت کو کن کاموں سے اجر ملتا ہے ؟
میت کو دیکھ کر کھڑے ہونا ؟
زکوٰة کے احکام
مسجد کے قاری کے لئے صدقہ فطر
روزہ اور بیوی کے حقوق
روزہ میں حقوق زوجیت کی ادائیگی
اعتکاف کے مسائل
اعتکاف کا طریقہ
شوال کے چھ روزے
لیلۃ القدر کی فضیلت اور علامات
مسنون تراویح
کیا تہجد اور تراویح علیحدہ علیحدہ ہیں؟
شبینہ کی شرعی حیثیت
حج پر عورتوں کا بال کٹوانا
عورت کا حقیقی ولی کے بغیر نکاح کرنا
باپ کی موجودگی میں چچا کی ولایت
بغیر ولی کے نکاح
ولی کے بغیر نکاح کی شرعی حیثیت
شادی سے قبل زنا کے مرتکب افراد کا نکاح
نکاح میں ذات پات کی کوئی قید نہیں
بے نمازی کا رشتہ
جہیز کا شرعی حکم
غیر شعوری عمر کا نکاح
شادی میں گانا بجانا
متعہ کیا چیز ہے؟
حلالہ کی شرعی حیثیت
حلالہ کے بارے میں
طلاقِ ثلاثہ کا شرعی حکم
حالتِ حمل میں دی ہوئی طلاق کا حکم
ایک محفل میں غلطی سے تین دفعہ طلاق کہنے کے بعد کیا کرے؟
الگ الگ تین طلاقوں کے بعد؟
سابقہ دی ہوئی طلاقیں رجوع کے بعد مستقل میں شمار ہونگی؟
زبردستی خلع
خلع اور مبارات طلاق ہے کہ فسخ نکاح؟
جی پی فنڈ کا مسئلہ
جی پی فنڈ کی شرعی حیثیت
بیمہ زندگی کی شرعی حیثیت
انعامی بانڈز اور ان کے نمبروں کی فوٹو کاپیوں کا کاروبار
شیو کی کمائی کا حکم
گندم کا اسٹاک (STOCK)کرنا
قرآن پاک کی تعلیم پر معاوضہ لینا
کام کی اُجرت مقرر کرنا
مسئلہ وراثت
علاتی بھائی کا وراثت سے حصہ
پوتا چچا کی موجودگی میں دادا کی وراثت کا حقدار بن سکتا ہے؟
وراثت کا مسئلہ
دَم کا شرعی حکم
تعویذ کی شرعی حیثیت
کیا خرگوش حلال ہے؟
برائلر مرغی کھانا حلال ہے یا حرام ؟
گھوڑا اور جنگلی گدھا
قربانی کے متعلق احادیث کی تحقیق
قربانی کے احکام
نمازِ عید سے قبل قربانی اور گائوں میں عید پڑھنا
مجاہدین کو قربانی کی کھالیں دینا کیسا ہے؟
عقیقہ کرنا کیسا ہے؟
ذکر اور شہادت میں فرق
دائیں ہاتھ کی انگلیوں پر تسبیح شمار کرنا
مکھی کا کھانے میں گرنا
لہسن کھانا کیسا ہے؟
اہل کتاب کے ساتھ کھانا پینا
کھانا کھاتے وقت بسم اللہ یا بسم اللہ الرحمن الرحیم؟
کیا آدمی روزانہ بالوں کو کنگھی کر سکتا ہے؟
جھک کر یا کھڑے ہو کر سلام کرنا اور دونوں ہاتھوں سے مصافحہ کرنا
مصافحہ ایک ہاتھ سے یا دونوں ہاتھوں سے؟
غیر مسلموں سے سلام کا طریقہ
عمامہ کا رنگ
ٹوپی پر عمامہ
نام رکھنا
مرد و زن کا بغیر نکاح کے اکھٹے رہنا
فعل قومِ لوط کے مرتکبین سے سلوک
قسم کا کفارہ
گانا بجانا
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
ماتم اور شبیہوں کی شرعی حیثیت
کتا، شریعت کی نظر میں
کتا رکھنے کی تین صورتیں
کتے کو قتل کرنے کا حکم
سگ مدینہ
صرف ہاتھ یا پائوں کی تصویر کا مسئلہ
قوالی اور عرسوں کا کھانا
عورت کا خوبصورتی کے لئے چہرے کے بال اکھیڑنا
حدیث ِ معاذ رضی اللہ عنہ کی تحقیق
''نصب'' کا معنی آستانے
توبہ کے بعد چوری کا مال نامعلوم مالکوں تک پہنچانے کا مسئلہ
مذہبی جلسوں میں مروجہ نعرہ بازی
ایک نماز کے بدلے اُنچاس کروڑ نماز کا ثواب



اللہ تعالیٰ کہاں پر مستوی ہے ؟
سوال : کیا اللہ ہر جگہ موجود ہے یا عرش پر ؟ وضا حت کریں۔
جواب : اللہ تعالیٰ کے بارے میں محد ژثین و سلف صالحین کا عقیدہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ عرش پر مستویٰ ہے جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے :

﴿اَلرَّحمٰنُ عَلٰی الُعَرُش اسُتَٰوی﴾
’’ رحمٰن عرش پر مستوی ہوا۔‘‘(طہٰ : ۵)

مستو یٰ ہونے کا مفہوم بلند ہونا اور مر تفع ہو نا ہے جیسا کہ بخاری شریف میں آ یا ہے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
( اِنَّ اللَّہَ کَتَبَ کتِاَباً ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔فَھْوَ عِنْدَ ہْ فَوْقَ العَرْشِ)) متفق علیہ(
’’بے شک اﷲتعالیٰ نے ایک کتاب لکھی جو اْس کے پاس عرش کے اْوپر ہے۔‘‘

لیکن اﷲ تعالیٰ کے عرش پر مستو ی ہو نے کی کیفیت ہمیں معلوم نہیں ہے جس طرح اﷲتعالیٰ کی شان کے لا ئق ہے اسی طرح وہ عرش پر مستوی ہے ہماری عقلیں اْس کا ارداک نہیں کر سکیں اور اﷲ تعالیٰ
کے بارے میں یہ نہیں کہنا چا ہیے کہ وہ ہر جگہ میں موجود ہے کیو نکہ وہ مکان سے پاک اور مبرا ہے البتہ اْس کا علمِ اور اس کی قدرت ہر چیز کو محیط ہے ، اْس کی معیت ہر کسی کو حا صل ہے جیسا کہ کتب عقائد میں وضاحت کے سا تھ موجود ہے ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
اﷲ کے سوا کسی دْوسرے سے مدد ما نگنا

سوال : کسی بزرگ کے مزار پر جا کر یہ کہنا کہ اے فلاں بزرگ ہماری یہ حاجت پوری کردو۔ یا بزرگ کی قبر پر جا کر یہ کہہ سکتے ہیں کہ آپ ہمارے لیے یہ دْعا فرمائیں؟ قرآن وسنت کی روشنی میں وضاحت کرکے عند اﷲماجور ہوں۔

جواب : اﷲتعالیٰ کے سوا نہ کوئی کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے اور نہ ہی نقصان ۔ ایسی اشیاء کے حصول کے لیے جو مخلوق کے اِختیار میں نہیں ہیں‘ مخلوق کے کسی فرد کو پکارنا شرک ہے اور پھر مْردے کو جو نہ سْن سکتا ہے اور نہ جواب دے سکتا ہے۔ اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں:
’’ اور اﷲ کے سوا کسی مت پکارو جو نہ تجھے نفع دے سکتا اور نہ نقصان ۔اگر تْونے یہ کام کیا توظالموںمیں شمار ہوگا ۔‘‘(یونس : ۱۰۶)

اِس آیت میں اﷲتعالیٰ نے منع فر ما یا ہے کوئی غیر اﷲ کو اپنی حاجت روائی یا مشکل کشائی کے لیے پکارے اور اﷲتعالیٰ نے یہ بھی بتایا ہے کہ اﷲ کے سوا نہ کوئی کسی کو نفع پہنچا سکتا ہے نہ نقصان۔اﷲفرماتے ہیں:
’’ اگر اﷲ تعا لیٰ تجھ کو کسی مصیبت میں مبتلا کردے تو اْس مصیبت کو دور کرنے والا اﷲ کے سوا کوئی نہیں۔‘‘(یونس : ۱۰۷)

صحیح حدیث ہے ، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ابنِ عباس رضی اللہ عنہہ کو کہا :
’’جان لو کہ اگر ساری اْمت تجھے نفع پہنچانے کے لیے جمع ہو جائے اور اگر اﷲنہ چاہے تو نفع نہیں پہنچا سکتی۔‘‘(متفق علیہ)

قرآ ن میں ایک جگہ ہے :
’’ بے شک جن لوگوں کی تم اﷲ کے سوا عبادت کرتے ہو ‘وہ تمہارے لیے رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے ۔ پس تم اﷲ کے ہاں رزق مانگو اور اْس کی عبادت کرو۔‘‘(العنکبوت : ۱۷)

ایک اور جگہ پر اﷲتعالیٰ فرماتے ہیں :
’’اور ایسے لوگوں سے کون زیادہ گمراہ ہیں جو اﷲتعالیٰ کے سوا ایسے لوگوں کو پکارتے ہیں جو قیامت تک اْن کی دْعا قبول نہ کر سکیں بلکہ اْن کی آواز سے بھی بے خبر ہوں اور جب سب لوگ جمع کیے جائیں گے تو وہ اْن کے دشمن ہو جائیں گے اور اْن کی عبادت سے انکار کر دیں گے۔‘‘(الاحقاف ۵ : ۶)

اِس آیت سے یہ بھی ثابت ہوگیا کہ غیر اﷲ کو حاجت روائی کے لیے پکارنا اْن کی عبادت ہے حالانکہ انسان صرف اﷲ کی عبادت کے لیے پیدا کیا گیا ہے ۔ قرآن میں ایک اور جگہ ارشاد ہے:
’’کہ مضطر (بے بس)شخص کی دْعا قبول کرنے والا اور مشکل کو حل کرنے والا اﷲکے سوا کون ہے۔‘‘(النمل : ۶۲)

یہ چند دلیلیں ہیں ورنہ اِس کے بیان کے لیے قرآن میں کئی ایک نصوص موجود ہیں جن کو پڑھ کر کوئی بھی ذی شعور اور صاحب عقل اﷲ کے سوا کسی کو حاجت روا اورمشکل کشا نہیں سمجھ سکتا۔ یہ تو ایسی کھلی حقیقت ہے کہ مشرکینِ مَکّہ بھی اِس کا اعتراف کیے بغیر نہ رہ سکے۔ قرآنِ مجید میں کئی مقا مات پر اﷲ تعالیٰ نے اْن کے اِس اعتراف کا ذکر کیا ہے ۔ اگر کسی بزرگ کی قبر پر جا کر حاجت روائی کے لیے پکارنا درست ہوتا تو اﷲکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے بڑا بزرگ دْنیا میں کون ہوسکتا تھا؟ حال یہ ہے کہ صحابہ رضی اللہ عنہما میں سے کسی نے بھی امام الانبیاء ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کی قبر جا کر کسی حاجت کے لیے کبھی نہیں پکارا اگر یہ کام جائز ہوتا تو صحابہ خصوصاً خلفائِ راشدینرضی اللہ عنہما کو اپنے دور میں بڑی بڑی ضرورتوں اور مصائب کا سا منا وہ ضرور اﷲکے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آتے۔بالکل اِسی طرح دْعا کا مسئلہ ہے ۔ ان جلیل القدر صحابہ رضی اللہ عنہما میں سے کسی نے بھی اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر پر آکر یہ نہیں کہا کہ آ پؐ ہمارے لیے دْعا کر دیں ۔ ہاں ! زندگی میں جو واقعتا بزرگ ہو اْس سے دْعا کروانی درست ہے اور میں بھی بزرگ سے نہیں مانگا جاتا بلکہ اْس سے عرض کی جاتی ہے کہ وہ اﷲسے ہماری بہتری کے لیے دعْا کرے ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
مسئلئہ تقدیر

سوال : اﷲ تعالیٰ نے جب سب کچھ لکھ دیا ہے کہ انسان دْنیا میں جا کر یہ کام کے گا ۔ نیک بخت ہوگا یا بد بخت ‘جنتی ہوگا یا جہنمی ۔تو ہمار ا کیا قصور ہے جب کوئی کسی کے مقدر میںلکھا ہے تو اْسے پھر سزا کیوں دی جائے گی؟قرآن وسنت کی روشنی میں جواب تحریر فرمائیں۔

جواب : مسئلئہ تقدیر اِن مسائل میں سے ہے جن کے متعلق بحث و تمحیص کرنا شرعاً منع ہے کیو نکہ اِس کے متعلق بحث وتکرار سے اَجر کی محرومی ‘بد عملی اور ضلالت کے سوا کچھ نہیں۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی صحیح حدیث ہے :

’’آپؐ اپنے اصحاب پر اِس حالت میں نکلے کہ وہ مسئلئہ تقدیر پر بحث کر رہے تھے ، آپؐ یہ دیکھ کر اِس قدر غْصّے میں آگئے معلوم ہوتا تھا کہ آپؐ کے چہرے پہ انار کے دانے نچوڑ دیئے گئے ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: کیا تم اِس کا حکم دیئے گئے ہو یا تم اِس کام کے لیے پیدا کیے گئے ہو؟ اﷲکے قرآن کی بعض کے سا تھ ٹکراتے ہو ؟ اِسی وجہ سے پہلی اْمتیں ہلاک ہوگئیں۔‘‘(ابن ماجہ (۸۵) ۱/ ۲۳ مصنف عبدالرزاق (۶۰۳۲۷) ۱۱ / ۲۱۶' مسند احمد ۲ / ۱۷۸'۱۸۵'۱۹۵)

اﷲ تعالیٰ نے قرآنِ مجید کے اندر کئی مقامات پر بیان کیا ہے کہ ہم نے خیر وشر دونوں کا راستہ دکھا دیا ہے اور اسے اختیار دیا ہے کہ جس راستے کو چا ہے اختیار کر لے ۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’ہم نے اْس کو راستہ دکھادیا ہے خواہ وہ شکر گزار بنے یا نا شکرا۔‘‘(الدھر : ۳)

ایک اور مقام پر فرمایا:
’’ہم نے اْسے دونوں راستے دکھا دیئے۔‘‘(البلد : ۱۰)

اِن آیات سے معلوم ہوتا ہے کہ اﷲتعالیٰ نے انسان کو خیر و شر کے دونوں راستے دکھادئیے ہیں اور اْسے عقل و شعور دیا ہے کہ اپنے لیے اِن دونوں راستوں میں سے جو صحیح راستہ ہے اختیار کرلے۔ اگر انسان سیدھے یعنی خیروبرکت والے راستے کو ا ختیار کرے گا جہنم کے درد ناک عزاب سے اپنے آپ کو بچالے گا اور اگر راہِ راست کو ترک کرکے ضلالت و گمراہی اور شیطانی راہ پر گامزن ہوگا تو جہنم کی آگ میں داخل ہوگا ۔ اﷲتعالیٰ نے جو تقدیر لکھی ہے اْس نے اپنے عِلم کی بنیاد پر لتھی کیونکہ اﷲتعالیٰ سے کوئی چیز مخفی نہیں وہ ہر شخص کے متعلق تمام معلومات رکھتا ہے۔ اْس کو معلوم ہے کہ انسان دنیا میں کیسے رہے گا ؟ کیا کرے گا ؟ اْس کا انجام کیا ہوگا ؟ اِس لیے اپنے عِلم کے ذریعے سب کچھ پہلے ہی لکھ دیا ہے کیونکہ اْس کا عِلم و اندازہ کبھی غلط نہیں ہو سکتا اور تقدیر میں لکھی ہوئی اْس کی تمام باتیں ویسے ہی وقوع پذیر ہوں گی جس طرح اْس نے قلمبند کی ہیں۔ دوسروے لفظوں میں یوں سمجھ لیجئے کہ اﷲ کے کمالِ عِلم واحاطئہ کلی کا ذکر ہے۔ اِس میں یہ بات نہیں کہ انسان کو اْس نے اِن لکھی ہوئی باتوں پر مجبور کیا ہے۔
اِس لیے یہ بات کہنا صحیح نہیں ہو گی کہ زانی و شرابی ،چور و ڈاکو وغیرہ جہنم میں کیوں جائیں گے؟ کیونکہ اْن کے مقدر میں ہی زنا کرنا ،شراب پینا ، چوری کرنا اور ڈاکے وغیرہ ڈالنا لکھا ہوا تھا ۔اِس کی مثال یوں سمجھ لیجئے کہ ایک اْستاد جو اپنے شاگردوں کی ذہنی و علمی صلاحیتوں اور اْن کے لکھنے پڑھنے سے دلچسپی و عدم دلچسپی سے اچھّی طرح واقف ہے اپنے عِلم کی بنا پر کسی ذہین و محنتی طالب عِلم کے بارے میں اپنی ڈائری میں لکھ دے کہ یہ طالب عِلم اپنی کلاس میں اوّل پوزیشن حاصل کرے گا اور کسی شریر اور غبی و کند ذہن طالب عِلم کے بارے میں لکھ دے کہ وہ امتحان میں ناکام ہوگا اور کند ذہن و لائق طالب عِلم دونوں کو کلاس میں برابر محنت کرائے اور اکٹھا اْنہیں سمجھائے لیکن جب امتحان ہو اور ذہین و لائق طالب عِلم اچھّے نمبر حاصل کر کے اوّل پوزیشن حاصل کرلے اور کند ذہن طالب عِلم ناکام ہو جائے تو کیا یہ کہنا صحیح ہوگا کہ لائق طالب عِلم اِس لیے کامیاب ہوا کہ استاد نے پہلے ہی اپنی ڈائری میں اْس کے متعلق لکھ دیا تھا کہ وہ اوّل پوزیشن حاصل کرلے گا اور کند ذہن اِس لیے فیل ہوا کہ اْس کے متعلق اْستاد نے پہلے ہی لکھ دیا تھا کہ وہ فیل و ناکام ہوگا ۔ لہٰذا اِس بے چارے کا کیا قصور اور گناہ ہے ؟یقینا سمجھدار انسان یہ نہیں کہے گا کہ اِس میں اْستاد کا قصور ہے ۔اِس لیے کہ اِس میں اْستاد کی غلطی نہیں کیونکہ وہ دونوں کو بر ابر سمجھتا رہا کہ امتحان قریب ہیں ، محنت کرلو و رنہ فیل ہو جاؤ گے ۔ اْستاد کی ہدایت کے مطا بق لائق و ذہین طالب عِلم نے محنت کی اور نا لا ئق و شریر طالب عِلم اپنی بْری عادات میں مشغول رہا اور اپنا وقت کھیل کوداور شرارتوں میں صرف کردیا۔
اِسی طرح اﷲ تعالیٰ جس کا عِلم بلاشبہ پوری کائنات سے ذیادہ اکمل و اتم ہے،اْس سے کوئی چیز مخفی و پوشیدہ نہیں ، اْس نے کامل عِلم کی بنا ء پر ہر انسان کے دنیا میں آنے سے قبل ہی لکھ دیا ہے کہ یہ بدبخت ہوگا یا نیک بخت ؟ جنتی ہوگا یا جہنمی ؟ مگر اِن سے اختیارات اور عقل و شعور سلب نہیں کر تا البتہ اْن کی راہنمائی کر تے ہوئے اچھّے اور بْرے راستوں میں فرق اپنے انبیاء و رْسل ؑ بھیج کر کرتا رہا ہے اور سلسلئہ نبوت ختم ہو جانے کے بعد ورثعۃالانبیاء صالح علماء کے ذریعے کا ئنات میں اْنہیں ایمان و اعتقاد اور اعمالِ صالحہ کی دعوت دیتا ہے ۔کفر و شرک ،معصیت اور گناہ سے منع کر تا ہے۔ جہنم کے عذاب اور حساب و کتا ب اور قیامت کی ہولناکیوں سے ڈرتا ہے۔ اِن تمام احکامات کے باوجود جب کافر اپنے کفر اور طغیان پر اڑا رہتا ہے ، فاسق اپنے فسق و فجور سے تو بہ نہیں کر تا تو اْس کے اِن برْے اعمال پر اگر اﷲتعالیٰ اْس کو سزا دے تو اِس میں اعتراض کی کیا بات ہے ۔یہ تو عین عدل و انصا ف ہے ِس کے بر خلاف نیک و بد اور کافر و مو من سب کے ساتھ ایک جیسا سلوک کرنا عین ظلم و نا انصافی ہے ۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ

سوال : تفصیل سے واضح کریں کہ سیّد الانبیاء محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ مبارک تھایا نہیں ؟
جواب : سیّد الانبیاء محمد رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم اﷲ کے برگزیدہ نبی اور انسان تھے ۔ اﷲ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سلسلہ انسانیت سے پیدا کیا تھا اور انسان ہونے کے اعتبار سے یہ بات عیاں ہے کہ انسان کا سایہ ہوتا ہے۔ قرآن مجید میں اﷲتعالیٰ نے ایک مقام پر فر ما یا ہے کہ :
’’اور جتنی مخلو قا ت آسمانوں اور زمین میں ہیں خوشی اور نا خوشی سے اﷲ تعالیٰ کے آگے سجدہ کر تی ہیں اور اْن کے سائے بھی صْبح و شام سجدہ کرتے ہیں ۔‘‘(رعد :۱۵)

ایک اور مقام پر فرمایا :
’’کیا اْنہوں نے اﷲکی مخلوقات میں سے کسی کو بھی نہیں دیکھا کہ اْس کے سائے دائیں اور بائیں سے لوٹتے ہیں ۔ یعنی اﷲ کے آگے ہو کر سر بسجود ہوتے ہیں۔‘‘(النحل : ۴۸)

اِن ہر دو آیات سے معلوم ہو تا ہے کہ آسمان و زمین میں اﷲ نے جتنی مخلوق پیدا کی ہے اْن کا سایہ بھی ہے اور رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم بھی تو اﷲ کی مخلوق ہیں لہٰذا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی سا یہ تھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سائے کے متعلق کئی احادیث موجود ہیں جیسا کہ :
سیّدنا اَنس رضی اللہ عنہہ فرماتے ہیں کہ ایک رات نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں نماز پڑھائی اور بالکل نماز کی حالت میں اپنا ہاتھ اچانک آگے بڑھایا مگر پھر جلد ہی پیچھے ہٹالیا ہم نے عرض کیا کہ اے اﷲ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم آج آپؐنے خلافِ معمول نماز میں نئے عمل کا اضافہ کیا ہے ۔آپؐ نے فرمایا نہیں ۔بلکہ بات یہ ہے کہ میرے سامنے ابھی ابھی جنت پیش کی گئی میں نے اِس میں بہترین پھیل دیکھے تو جی میں آیا کہ اِس میں سے کچھ اْچک لوں مگر فوراً حکم ملا کہ پیچھے ہٹ جاؤ میں پیچھے ہٹ گیا پھر مجھ پر جہنم پیش کی گئی۔
((حَتّٰی رَأَیْت ظِلِیّ وَظِلِیّ وَظِلَّلکْمْ)) اِس کی روشنی میں میں نے اپنا اور تمہارا سایہ دیکھا ۔ دیکھتے ہی میں نے تمہاری طرف اشارہ کیا کہ پیچھے ہٹ جاؤ۔ (مستدرک حاکم ۴ / ۴۵۶)

امام ذہبیؒ نے تلخیص مستددک میں فرمایا : ھزا حدیث صحیح یہ حدیث صحیح ہے ۔اِسی طرح مسند احمد ۶/۱۳۲‘۶/۳۳۸طبقات الکبریٰ ۸/۱۲۷‘مجمع الزوائد۴/۳۲۳ پر ایک حدیث میں مروی ہے کہ سیدّہ زینب رضی اللہ عنہا اورسیدہ صفیہ رضی اللہ عنہا ایک سفر میں رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھیں‘ صفیہ رضی اللہ عنہا کے پاس ایک اْونٹ تھا اور وہ بیمار ہو گیا جب کہ زینب رضی اللہ عنہا کے پاس دو اونٹ تھے ۔ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم ایک زائد اونٹ صفیہ رضی اللہ عنہا کو دے دو تو اْنہوں نے کہا میں اْس یہودیہ کو کیوں دوں ؟ اِس پر رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم ناراض ہوگئے ۔ تقریباً تین ماہ تک زینب رضی اللہ عنہا کے پاس نہ گئے حتیٰ کہ زینب رضی اللہ عنہا نے مایوس ہو کر اپنا سامان باندھ لیا۔

سیدہ زینب رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ :
’’اچانک دیکھتی ہوں کہ دوپہر کے وقت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا سایہ مبارک آرہا ہے ۔‘‘

عقلی طور پر بھی معلوم ہوتا ہے کہ سایہ مرئیہ فقط اْس جسم کا ہوتا جو ٹھوس اور نگر ہو نیز سورج کی شعاعوں کوروک ہی نہیں سکتا تو اِس کا سایہ بلاشبہ نظر نہیں آتا ۔ مثلاً صاف اور شفاف شیشہ اگر دھوپ میں لایا جائے تو اْس اک سایہ دکھائی نہیں دیتا کیونکہ اِس میں شعاعوں کو روکنے کی صلاحیت ہی نہیں ہوتی ۔ بخلاف اِس کے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا جسد اطہر نہایت ٹھوس اور نگر تھا اْس کی ساخت شیشے کی طرح نہیں تھی کہ جس سے سب کچھ ہی گزر جائے۔
لا محالہ آپؐ کا سایہ تھا ۔ اگر جسم اطہر کا سایہ مبارک نہ تھا تو کیا جب آپؐ لباس پہنتے تو آپؐ کے مبلوسات کا بھی سایہ نہ تھا اگر وہ کپڑے اتنے لطیف تھے کہ اْن کا سایہ نہ تھا تو پھر اِن کے پہننے سے ستر وغیرہ کی حفاظت کیسے ممکن ہوگی؟
منکرینِ سایہ یہ کہتے ہیں کہ آپؐ نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ہوتا اور یہ بھی کہتے ہیں کہ آپؐ کا سایہ اِس لیے نہیں تھا کہ اگر کسی کا اپؐ کے سایہ پر قد م آجا تا تو آپؐ کی توہین ہوتی اِس لیے اﷲ نے آپؐ کا سایہ پیدا ہی نہیں کیا ۔ جہاں تک پہلی بات کا ذکر ہے کہ آپؐ نور تھے اور نور کا سایہ نہیں ‘ سراسر غلط ہے۔ نوریوں کا سایہ صحیح حدیث سے ثابت ہے جب سیّد نا جابر رضی اللہ عنہہ کے والد عبداﷲ رضی اللہ عنہہ غزوئہ اْحد میں شہید ہوگئے تو اْن کے اہل و عیال اْن کے گرد جمع ہوکر رونے لگے تو رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’کہ جب تک تم انہیں یہاں سے اْٹھا نہیں لیتے اْس وقت سے فرشتے اِس پر اپنے پرّوں کا سایہ کیے رکھیں گے۔‘‘(بخاری کتاب الجنائز ۲ / ۱۵)

اور دوسری بات بھی خلافِ واقع ہے کیونکہ سایہ پاؤں کے نیچے آہی نہیں سکتا جب کبھی کوئی شخص سائے پر پاؤںرکھے گا تو سایہ اْس کے پاؤں کے اْوپر ہوجائے گا نہ کہ نیچے ۔ لہٰذا ان عقلی اور نقلی دلائل کہ خلاف یہ بے عقلی کی اور بے سند باتیں حقیقت کے ساتھ کوئی تعلق نہیں رکھتیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
قبر میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت

سوال : میت سے قبر میں جب یہ سوال کیا جاتا ہے کہ ((مَاکُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ھَذَاالرَّجْلِ)) (تو اِس مرَدے کے متعلق کیا کہتا ہے؟) تو کیا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت وہاں میت کو دکھلائی جاتی ہے یا آپ ؐ خود تشریف لاتے ہیں ؟ بعض لوگ کہ اِس حدیث میں ھَذَااِسم اشارہ قریب کے لیے ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ آپؐ وہاں موجود ہوتے ہیں اور فرشتے آپؐ کی طرف اشارہ کرکے کہتے ہیں کہ ))مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ھَذَا الرَّجُلِ)) قرآن و سنت کی روشنی میں صیحح جواب دیں ۔

جواب : جب انسان اِس دارِ فانی سے اپنا وقت مقررہ ختم کرکے قبر کی آغوش میں پہنچتا ہے تو اِس سے منکر نکیر جو سوالات کر تے ہیں اْن میں سے ایک سوال نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق بھی ہوتا ہے ‘ کہا جا تا ہے کہ ((مَاکُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ھَذَا الرَّ جُلِ)) تو اِس مَردے کے متعلق کیا کہتا ہے ؟ اگر آدمی ایمان دار ہو تو وہ اِس کا صحیح حدیث میں یہ مذکور نہیں کہ آپؐ خود تشریف لاتے ہیں یا آپؐ کی صورت وہاں پر پیش کی جاتی ہے جسے دیکھ کر اور اشارہ کرکے فرشتے کہتے ہوں کہ ((مَا کُنْتَ تَقُوْلُ فِیْ ھَذَا الرَّجُلِ))
ملا علی قاری نے مشکوٰۃ کی شرح مر قا ۃ میں لکھا ہے کہ :
کہا گیا ہے کہ میت کے لیے پردہ ہٹا دیا جا تا ہے یہا ں تک کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہے ۔اگر یہ بات صحیح ہو تو مومن کے لیے بڑی عظیم خوشخبری ہے (کہ وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کر لیتا ہے ) لیکن اِس کے متعلق ہمارے علِم کے مطابق کوئی صحیح حدیث مروی نہیں۔(مرقاۃ علی ہامش مشکوۃ ۱ / ۲۴)

امام جلال الدین الیسوطیؒ رقم طراز ہیں:
حافظ ابنِ حجر عسقلانی ؒ سے سوال کیا گیا: کیا میت کے لیے پردہ ہٹا دیا جاتا ہے حتیٰ کہ وہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہے تو اْنہوں نے جواب دیا یہ بات کہ میت کے لیے پردہ ہٹادیا جاتا ہے اور وہ رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہے کسی حدیث میں مروی نہیں ہے بعض لوگوں نے غیر مستند باتوں سے استدلال کیا ہے جو کہ قابل حجت نہیں ۔ سوائے اِس قول ھذاالرجل کے اور اِس کے متعلق کوئی دلیل نہیں ۔ اِس لیے کہ ھذااسم اشارہ سے یہاں ذھن کے لیے ہے ۔
ھذا اِسم اشارہ سے استدلال درست نہیں کیونکہ حضور دو قسم کا ہوتا ہے ایک حضورِ ذہنی (تصوراتی) دوسرا حضورِ شخصی یہاں حضورِ ذہنی مُراد ہے شخصی نہیں۔ ملاحظہ ہو مرقاۃ /۳۴۰۱۔
اِس کے علاوہ قرآنِ مجید اور کتب احادیث میں ایسی کئی مثالیں موجود ہیں کہ حذا اِسم اشارہ کو بعید کے معنوں میں استعمال کیا گیا ہے اور یہ ضروری نہیں کہ جس کی طرف ھذا کا اشارہ ہو وہ پاس ہی موجود ہو قرآنِ مجید میں مذکور ہے کہ ملائکہ جب لوط علیہ السلام کی قوم کو ہلاک کرنے کے لئے تشریف لائے تو پہلے ابرہیم علیہ السلام کے پاس حاضر ہوئے انہوں نے آمد کا سبب پوچھا تو وہاں فرشتوں نے کہا "ہم اس بستی کے باشدوں کو ہلاک کرنے والے ہیں کیونکہ یہ ظالم ہیں۔"(۳۱ – ۲۹) لو ط علیہ السلام سدوم اور ابراہیم علیہ السلام فلسطین میں تھے بستی سدوم پاس موجود نہیں تھی لیکن فرشتے﴿ ھذہ ﴾کا اشارہ کر کے کہتے ہیں کیونکہ سدوم ابراہیم علیہ السلام اور ملائکہ کے ذہن میں تھے۔

اسی طرح صحیح بخاری /۴۱ مسلم /۹۷۲ پر مروی ہے کہ ہر قل روم نے بیت المقدس میں جب سید نا ابو سفیان رضی اللہ عنہ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق پوچھا تو کہا کہ :
تم میں سے اِس آدمی کے نسبی لحاظ سے کون زیادہ قریب ہے؟
اسی طرح اس روایت میں آتا ہے کہ اس نے کہا بیت المقدس میں جب رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق گفتگو ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ((ھذا))کا لفظ استعمال کیا گیا۔
اور بیت المقدس مدینہ سے تقریباً ۸۱۰ میل کے سفر پر موجود ہے تو لا محالہ یہ تسلیم کرنا پڑے گا کہ یہاں پر ((ھَذَا))اسم اشارہ حضورِ شخصی کے لئے بلکہ حضورِ ذہنی کے لئے بولا گیا ہے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم گفتگو کے وقت وہاں موجود نہ تھے۔
اسی طرح صلح حدیبیہ میں بدیل بن ورقاء مشرکینِ مکہ کی طرف سے شرائط صلح نامہ طے کرنے کے لئے سفیر بن کر آیا اور گفتگو کر کے واپس مکّہ پہنچا تو اس نے کہا کہ:
’’ہم تمہارے پاس اس آدمی سے ہو کر آئے ہیں۔‘‘(بخاری ۱/ ۳۷۸)

سیدنا ابو ذر غفاری رضی اللہ عنہ نے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا چرچا سنا تو تحقیق حال کے لئے اپنے بھائی کو بھیجا اور کہا:
’’ تُواُس وادی کی طرف سوار ہو کر مجھے اُس آدمی کے بارے میں معلومات فراہم کر۔‘‘(بخاری ۱ / ۴۴'مسلم ۱ / ۲۹۷)

اِس قسم کی کئی اَمثلہ کتب احادیث میں موجود ہیں کہ ھَذَا اسم اشارہ کو بعید اور حضورِ ذہنی کے لئے استعمال کیا گیا ہے۔
اِسی طرح جو قبر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے متعلق سوال کیا جاتا ہے اور اس میں لفظ ھَذَا مستعمل ہے وہ بھی حضورِ ذہنی کے لئے ہے جیسا کہ اُوپر حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ کے حوالہ سے گزر چکا ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
خواب میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کا مسئلہ اور جمعرات کو رُوحوں کا گھروں میں آنا

سوال نمبر ۱: اکثر لوگ کہتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خواب میں ملتے ہیں۔ کچھ کہتے کہ نمازِ جمعہ کے بعد عصرتک عبادت کریں تو بشارت نصیب ہوتی ہے۔

سوال نمبر ۲: کچھ کہتے ہیں کہ سارا دن یا رات عبادت کریں۔ پھر ایک تھال یا بڑے برتن میں دودھ والے چاول ڈال کر کسی صاف کمرے میں رات بھر رکھ دیں۔ آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کا دست مبارک اگلی صبح چاولوں پر لگا ہوتا ہے۔ آپ یہ بتائیں کہ کیا واقعی آنحضور صلی اللہ علیہ وسلم کی بشارت ہوتی ہے اور کیا دیگر انبیاء کی بشارت بھی ہو سکتی ہے؟

سوال نمبر ۳: کہا جاتا ہے ہر جمعرات کی شب اپنے ورچاء کے گھروں میں مُردوں کی روحیں واپس آجاتی ہیں۔ اِن روحو کے واپس آنے کی کیا حقیقت ہے؟


جواب: خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت ہو سکتی ہے ۔ صحیح بخاری میں انس رضی اللہ عنہ سے مرو ی ہے کہ نبی فرمایا : جس نے مجھے خواب میں دیکھا جس نے مجھے نیند میں دیکھا ، اُس نے یقینامجھ کو دیکھا کیونکہ شیطان میری شکل نہیں بن سکتا۔

اور صحیح بخاری میں ہی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمیا : جس نے مجھے خواب میں دیکھا ، وہ مجھے بیداری میں دیکھے گا اور شیطان میری صورت نہیں بن سکتا۔

امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اِس حدیث کے ساتھ تعبیر کے مشہور تابعی امام محمد بن سیرین کی وضاحت نقل فرمائی ہے کہ یہ اِس وقت ہے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت میں دیکھے۔ فتح الباری میں ہے کہ جب کوئی شخص محمد بن سیرین سے بیان کرتا ہے کہ اس نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے تو وہ فرماتے کہ تم نے جسے دیکھا ہے ، اُس کی شکل بیان کرو۔ اگروہ ایسی صورت بیان کرتا جسے وہ نہ پہنچانتے تو فرماتے ، تم نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو نہیں دیکھا۔
اس لئے خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت صحابہ رضی اللہ عنہم میں سے کسی کو ہو تو اس نے یقینا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو ہی دیکھا کیونکہ شیطان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی صورت اختیار نہیں کر سکتا اور چونکہ صحابی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچانتا بھی ہے ، وہ یقین سے کہہ سکتا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے ۔ جس شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہی نہیں ، وہ یقین کے ساتھ کیسے کہہ سکتا ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے؟ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں اجنبی لوگوں کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پہنچان کے لئے بعض اوقات پوچھنا پڑتا تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں؟
صحیح بخاری کتاب العلم میں اَنس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک دفعہ ہم نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مسجد میں بیٹھے تھے کہ ایک آدمی اونٹ پر آیا۔ اُسے مسجد میں بٹھایا ، اُس نے گھٹنا باندھا ۔ پھر کہنے لگا تم میں محمد( صلی اللہ علیہ وسلم )کون ہیں؟ نبی صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کے درمیان ٹیک لگا کر بیٹھے تھے۔ ہم نے کہا یہ سفید تکیہ لگانے والے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) ہیں۔ پھر اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے مخاطب ہو کر کئی سوالات کئے۔
سنن ابو داؤد کتاب السنہ باب فی القدر میں ابو ذر رضی اللہ عنہ اور ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے صحیح روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے صحابہ کے درمیان بیٹھتے ۔ کوئی اجنبی آتا تو پوچھنے کے بغیر معلوم نہ کرسکتا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان میں سے کون ہیں؟ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے درخواست کی کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے بیٹھنے کی جگہ بنا دیتے ہیں تا کہ کوئی اجنبی آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچان لے تو ہم نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مٹی کا ایک چبوترہ سا بنا دیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس پر بیٹھتے تھے اور ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارد گرد بیٹھتے تھے۔
یہی حدیث سنن نسائی میں بھی صحیح سند کے ساتھ موجود ہے ۔ (دیکھئے کتاب الایمان باب صفۃ الایمان و الاسلام )

سیرت ابنِ ہشام میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب مدینہ کے لئے ہجرت کر کے قبا پہنچے تو بنو عمر بن عوف کے ہاں ٹھہرے ۔ اِس موقع پر انصار کے جن لوگوں نے ابو بکر رضی اللہ عنہ کو نہیں دیکھا تھا،وہ اُن کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سمجھ کر سلام کرتے تھے۔ جب سایہ ہٹ گیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر دھوپ پڑنے لگی تو ابو بکر رضی اللہ عنہ نے اپنی چادر کا آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر سایہ کیا۔ اس وقت لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچانا ۔ ان احادیث سے معلوم ہوا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو نہ پہنچاننے والے کسی دوسرے کے متعلق خیال کرسکتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہیں تو خواب میں بھی اس کا امکان ہے البتہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کے علاوہ کوئی شخص اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس حلیہ میں دیکھے جو صحیح احادیث میں آیا ہے تو اُس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا ہے۔
لیکن اگر وہ کوئی اور صورت دیکھے یا کوئی ایسا شخص دیکھے جو اسے شریعت کے خلاف حکم دے رہا ہو یا ایسا کام کر رہا ہو جو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے شایانِ شان نہیں تو اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت قرار نہیں دیا جا سکتا۔ شیطان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی شکل نہیں بن سکتا مگر یہ بات نہیں کی کہ وہ کسی اور شکل میں آکر جھوٹ بھی نہیں بول سکتا ۔ اس دور کے شیطان مرزا دجال نے دعویٰ کیا تھا۔
منم مسیح و محمد کہ مجتبی باشد
میں مسیح ہوں اور محمد مجتبیٰ ہوں

خواب میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت حاصل کرنے کے لئے لوگوں نے بہت سے وظائف اور طریقے گھڑے ہیں جن کا شریعت میں کوئی ثبوت نہیں ۔ اس کا بہترین طریقہ یہی ہے کہ خلوصِ دل سے اللہ تعالیٰ سے دُعا کی جائے۔ اگر قبولیت کے خاص اوقات میں دُعا کی جائے تو اُمید اور زیادہ ہے۔ دوسرے انبیاء کی زیارت بھی اللہ تعالیٰ جسے کرانا چاہے ، کراسکتا ہے۔
٭ کسی بڑے برتن میں دودھ یا چاول وغیرہ ڈال کر صاف کمرے میں رکھنے سے اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے دست مبارک ہونے کی بات بالکل فضول ہے اور بے دلیل ہے ۔ قرآن و حدیث میں ایسی کوئی بات کہیں موجود نہیں۔
٭ جمعرات کو فوت شدہ لوگوں کی رُوحین اپنے ورثاء کے گھروں میں واپس آنے کی بھی کوئی روایت ثابت نہیں۔ نہ ہی روحیں شب برأت کو واپس آتی ہیں۔ مُردے قیامت کے دن ہی قبروں سے نکلیں گے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
کیا وہابی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بڑے بھائی جتنی عزت کرتے ہیں؟

س: (۱ کیا وہابی گالی ہے؟ اگر نہیں تو بعض لوگ کیوں کہتے ہیں؟
۲) لوگ تو یہاں تک کہتے ہیں کہ توبہ نعوذ باللہ وہابی لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی عزت کرتے ہیں بس جتنی بڑے بھائی کی۔ اس بات کی کیا حقیقت ہے؟
۳) قرآنِ مجید میں کہا آیا ہے کہ تراویح پڑھنی چاہئیں؟


ج: *سرزمین نجد و حجاز میں امام محمد بن عبدالوہاب رحمۃ اللہ علیہ نے جب توحید خالص اور اتباع سنت کی دعوت دی اور اس کے لئے عملی جہاد کیا تو اُس کی تکلیف سب سے زیادہ شرک و بدعت میں گرفتار لوگوں کو ہوئی۔ہندوستان میں جب شاہ اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے ساتھیوں نے دعوت و جہاد کا علم بلند کیا اور سکھوں اور انگریزوں کے خلاف لڑائی شروع کی تو انگریز نے انہیں وہابی کے نام سے بدنام کیا تا کہ لوگ جہاد میں ان کا ساتھ نہ دیں ورنہ فی الحقیقت وہابی نہ کوئی مذہب ہے نہ فرقہ۔ دراصل جہاد کو بدنام کرنے کے لئے غیر مسلموں نے ہر دور میں کوئی نہ کوئی ہتھکنڈہ استعمال کیا ۔ پہلے وہابی کہہ کر جہاد کو بدنام کیا جاتا تھا۔ آج انہی مجاہدین کو بنیاد پرست اور دہشت گرد کہہ کر لوگوں کو جہاد سے متنفر کرنے کی کوشش کی جار ہی ہے۔

(۲) یہ کہنا کہ وہابی لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اتنی عزت کرتے ہیں جتنی بڑے بھائی کی ، سراسر غلط ہے اور اس کی دلیل یہ ہے کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ کا رسول مانتے ہیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت اور اتباع کو فرض سمجھتے ہیں۔ بھلا کوئی اپنے بڑے بھائی کو بھی اللہ کا رسول مانتا ہے؟

(۳) دین کے احکام جس طرح قرآن سے ثابت ہوتے ہیں ، اسی طرح حدیث سے بھی ثابت ہوتے ہیں۔ اس لئے تراویح کا ذکر احادیث میں آنا ہی اس کے ثبوت کے لئے کافی ہے کیونکہ قرآن شریف میں اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت و اتباع کا حکم دیا ہے۔ویسے قرآن مجید میں جہاں رات کے قیام کا ذکر آیا ہے ، تراویح اس میں خود بخود شامل ہیں۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اعزاء پر اعمال کا پیش ہونا

سوال: کیا نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور ہمارے رشتہ دار وں پر ہمارے اعمال پیش کئے جاتے ہیں؟ آپ کو روزنامہ جنگ کراچی/۱۷مئی بروز جمعہ ۱۹۹۲ ء کی فوٹو کاپی بھیج رہا ہوں۔ اس پر اس کے متعلق درج کردہ روایات کے بارے میں واضح کریں۔ کیا یہ صحیح ہیں یا ضعیف۔

ج: عزیز مکرم نے روزنامہ جنگ /۱۷مئی بروز جمعہ ۱۹۹۲ء کی جو فوٹو اسٹیٹ ہمیں روانہ کی ہے اس میں موٹی سرخی بعنوان ’’اعمال پیش ہونا‘‘ کے تحت مفتی صاحب نے ڈاڑھی منڈانے والوں کو نصیحت کرتے ہوئے فرمایا۔ ’’ڈاڑھی منڈانے والوں تمہارے اعمال روزانہ فرشتے حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں پیش کرتے ہیں تو حضور صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ حرکات دیکھ کر کتنا دکھ ہو گا۔‘‘ اس پر مفتی صاحب نے کنز العمال /۳۱۸۵ اور حلیہ الاولیاء / ۱۷۹۶ کا حوالہ دیا پھر مزید عزیز واقارب کے سامنے اعمال پیش کرنے کی دلیل کے طور پر مسند احمد/۱۶۵۳ اور مجمع الزوائد /۲۲۸۲ کا حوالہ ذکر کیا ہے۔
یہ بات درست ہے کہ ڈاڑھی منڈانا دین اسلام میں حرام ہے۔ اللہ تعالیٰ اور اُس کے رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مخالفت اور عذاب الیم کو دعوت ہے لیکن اِس ضمن میں اعمال پیش ہونے کے متعلق جو روایات پیش کی ہیں ، وہ درست نہیں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں ارشاد فرمایا ہے کہ :
’’اللہ تعالیٰ جو کچھ اِ ن کے سامنے ہے اُسے بھی جانتا ہے اور جو کچھ اِ ن سے اوجھل ہے اس سے بھی واقف ہے اور سارے معاملات اسی کی طرف رجوع ہوتے ہیں۔‘‘(الحج : ۲۲)

یعنی کائنات میں کسی چھوٹے یا بڑے معاملے کا مرجع اللہ تعالیٰ ہے۔ کوئی دوسرا نہیں۔ اس مضمون کو اللہ تعالیٰ نے سورہ بقرۃ ۲۱۰، آل عمران ۱۰۹، سورۃ حدید ۵ وغیرہ میں بیان کیا ہے اور صحیح مسلم کتاب البر والصلۃ باب النھی عن الشحناء والتھا جر کے تحت سید نا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ہر جمعرات اور سوموار کو تمام اعمال پیش کئے جاتے ہیں تو اس دن اللہ تعالیٰ ہر اس آدمی کو بخش دیتا ہے جو اللہ تعالیٰ کے ساتھ شرک نہیں کرتا سوائے اس آدمی کہ جس کے درمیان اور اس کے بھائی کے درمیان عداوت ہو۔ کہا جاتا ہے ان دونوں کو چھوڑ دیجئے۔ یہا تک کہ صلح کر لیں۔‘‘(صحیح مسلم ۲/۳۱۷)

سنن نسائی، ابو داؤد اور صحیح ابنِ خزیمہ میں حدیث ہے کہ اُسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے کہا : یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم شعبان کے مہینے میں جس قدر آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزے رکھتے ہیں، میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اس قدر کسی دوسرے مہینے میں روزے رکھتے ہوئے نہیں دیکھا ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یہ رجب اور رمضان کے درمیان ایسا مہینہ ہے جس سے لوگ غافل ہیں۔ یہ ایسا مہینہ ہے جس میں رب العالمین کی طرف اعمال کو اُٹھایا جاتا ہے میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل اس حالت میں اُٹھایا جائے کہ میں روزہ دار ہوں۔‘‘

اسی طرح ایک حدیث میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سوموار اور جمعرات کو روزہ رکھتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اس دن اللہ کے ہاں اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔ میں پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل پیش ہو تو میں روزے کی حالت میں ہوں۔‘‘

صحیحین کی ایک حدیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’رات کا عمل دن کے عمل سے پہلے اُٹھایا جاتا ہے اور دن کا عمل رات کے عمل سے پہلے۔‘‘

ان تمام احادیث میں تطبیق دیتے ہوئے محدث شہیر مولانا عبدالرحمن مبارک پوری تحفۃ الاحوذی ۵۵/۲پر رقم طراز ہین:
(سوموار اور جمعرات کو اعمال کا پیش کیا جانا) نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس حکم کے منافی نہیں جس میں ہے کہ رات کا عمل دن سے قبل اور دن کا عمل رات سے قبل اُٹھایا جاتا ہے۔ اس لئے رفع (یعنی اُٹھانے) اور عرض (یعنی پیش کئے جانے) میں فرق ہے ۔ اس لئے کہ پورے ہفتے میں اعمال جمع کئے جاتے ہیں اور ان دو دنوں (سوموار اور جمعرات) میں پیش کئے جاتے ہیں۔ صحیح مسلم کی حدیث میں ہے کہ ہر جمعہ میں دو مرتبہ سوموار اور جمعرات کو اعمال اللہ کے ہاں پیش کئے جاتے ہیں اللہ تعالیٰ ہر مومن کو بخش دیتا ہے سوائے ان دو آدمیوں کے جن کی آپس میں عداوت ہو۔ کہا جاتا ہے کہ ان دونوں کو مؤخر کر دو یہاں تک کہ وہ آپس میں صلح کر لیں۔ حافظ ابنِ حجر عسقلانی رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: یہ احادیث اس حدیث کے بھی خلاف نہیں جس میں ہے کہ اعمال شعبان کے مہینے میں اُٹھائے جاتے ہیں اور میں اس بات کو پسند کرتا ہوں کہ میرا عمل روزے کی حالت میں اُٹھایا جائے۔ اس لئے کہ جائز ہے ہفتے کے اعمال تفصیلاً اُٹھائے جاتے ہوں اور سال کے اعمال اجمالی طور پر شعبان میں اُٹھائے جاتے ہوں۔
مذکورہ بالا احادیث سے معلوم ہوا کہ ہمارے تمام اعمال اللہ کی طرف اُٹھائے اور پیش کئے جاتے ہیں جو ان کی جزا و سزا کا مالک ہے اور اللہ کے علاوہ کوئی مُتَصَرِّفُ الْاُ مُور نہیں جس کے سامنے ہمارے اعمال پیش کئے جاتے ہوں۔ مسند احمد ۱۶۵/۳کے حوالے سے جو روایت پیش کی گئی کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تمہارے اعمال تمہارے عزیز و اقاربب میں سے مرنے والوں پر پیش کئے جاتے ہیں ۔ اگر اعمال بہتر ہوں تو وہ خوش ہوتے ہیں اور اگر بہتر نہ ہوں تو وہ کہتے ہیں، اے اللہ تو ان کو اتنی دیر تک موت نہ دے جب تک انہیں ہماری طرح ہدایت نہ دے دے۔‘‘
یہ روایت ضعیف ہے اس لئے کہ اس کی سند میں سفیان اور انس بن مالک رضی اللہ عنہ کے درمیان مجہول راوی ہے۔
مفتی صاحب نے مسند احمد کے ساتھ مجمع الزوائد کا بھی حالہ دیا ہے لیکن تعجب ہے کہ مفت صاحب نے مجمع الزوائد کا حوالہ کوڈ کر دیا لیکن امام ہیثمی کی اس روایت پر جرح کو ہضم کر گئے ہیں۔ امام ہیثمی رحمۃ اللہ علیہ مجمع الزوائد ۳۳۱، ۳۳۲ پر یہ روایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:
اس کو احمد نے روایت کیا ہے اور اس سند میں ایک آدمی ہے جس کا نام نہیں لیا گیا۔ اس کے بعد امام ہیثمی نے اس روایت کے مطابق ابو ایوب رضی اللہ عنہ سے مروی ایک روایت کے بارے میں اشارہ کیا ہے اور ابا ایوب کی یہ روایت امام ہیثمی اس بات سے پہلے والے باب میں لائے ہیں اور اس کے بعد فرمایا: رواہ الطبرانی فی الکبیر (۱۹۴/۱ ) والاوسط (۷۲/۱) اس روایت کو امام طبرانی المعجم الکبیر اور المعجم الاوسط میں لائے ہیں۔ اس کی سند میں مسلمہ بن علی ضعیف راوی ہے۔ مسلمہ بن علی کے متعلق امام بخاری ، امام ابنِ حبان اور امام ابو زرعہ رازی رحمۃ اللہ علیہم فرماتے ہیں۔ یہ منکر الحدیث ہے۔ امام ذہبی رحمۃاللہ علیہ میزان الاعتدال ۱/۶ پر راقم ہیں:
ہر وہ شخص جس کے بارے میں، میں یہ کہوں یہ منکر الحدیث ہے اس سے روایت بیان کرنا حلال نہیں۔ امام یعقوب بن سفیان فسوی نے اسے ضعیف الحدیث ، امام جوزجانی ، امام ازدی، امام نسائی ، امام دار قطنی ، امام برقانی نے متروک الحدیث ، امام آجری نے ابو داؤد سے غیر ثقہ و غیر مامون نقل کیا ہے۔ امام حاکم نے کہا:
مسلمہ بن علی امام اوزاعی اور امام زبیدی سے منکر و موضوع روایتیں بیان کرتا تھا۔ تہذیب التھذیب ۴۳۹/۵، ۴۴۰(۷۷۵۸) لہٰذا یہ روایت بھی انتہائی کمزور ہے۔
حلیۃ الاولیاء ۱۷۹/۶ اور کنزل االعمال ۳۱۸/۵ پر مروی روایت:
’’سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہر جمعہ کو مجھ پر میری امت کے اعمال پیش کئے جاتے ہیں۔ زنا کرنے والوں پر اللہ تعالیٰ کا غضب بہت سخت ہوتا ہے۔‘‘
یہ روایت بھی انتہائی ضعیف ہے۔ اس کی سند میں دو راوی مجروح ہیں ۔ احمد بن عیسیٰ بن ماھان الرازی۔ یہ سید نا علی کی فضیلت میں جھوٹی روایتیں بیان کرتا تھا اور عجیب و غریب روایات کو نقل کرتا تھا۔ محدثین نے اس پر کلام کیا ہے۔ ملاحظہ ہو۔ میزان الاعتدال /۱۲۸۱ اور لسان المیزان /۲۴۴۱۔
اِس روایت کا دوسرا راوی عباد بن کثیر بصری بھی متکل فیہ ہے۔ ملاحظہ کیجئے تہذیب التھذیب وغیرہ۔
لہٰذا یہ روایت بھی قابل حجت نہیں ۔ اِسی مضمون کی دو اور روایتیں سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے منسوب ہیں۔ ایک روایت کو امام ابنِ عدی نے ۱۲۴/۲پر نقل کیا ہے۔ اس کی سند میں فراش بن عبداللہ الاعتبار ہے اور دوسری روایت میں محمد بن عبدالملک بن زیاط ابو سلمہ انصاری ہے جو من گھڑت اور جھوٹی روایتیں بیان کرتا ہے جسے امام ابن طاہر نے کذاب کہا ہے۔
تفصیل کے لئے ملاحظہ ہو سلسلۃ الاحادیث الضعیفۃ للالبانی (۹۷۵)۴۰۴/۲۔
۴۰۶ لہٰذا یہ روزنامہ جنگ کے مفتی صاحب کی بیان کردہ روایات ضعیف اور ناقابل حجت ہیں جن سے استدلال کرنا کسی طرح بھی روا نہیں جبکہ قرآنِ مجید اور احادیث صحیحہ مرفوعہ سے یہ بات بالیقین درست ہے کہ تمام اعمال کا مرجع اللہ تعالیٰ کی طرف ہے جو متصرف الامور ، جزا و سزا کا مالک ہے۔ اس کے علاوہ کوئی ہستی اسبابِ عالم سے بالا تر ہو کر متصرف الامور نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ کے علاوہ کسی اور کو متصرف الامور سمجھنا اور اعمال کو اس کی طرف لوٹانے کا عقیدہ رکھنا قطعاً غلط اور باطل ہے ۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں کئی ایک ایسے واقعات ہوئے ہیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اوجھل رہے اور وہ اعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش نہیں کئے گئے جیسا کہ صحیح حدیث میں وارد ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مسجد کا ایک خادم (یا خادمہ) تھا جو وہاں صفائی کا انتظام سرانجام دیتا تھا۔ جب وہ فوت ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بغیر اطلاع کئے اسے دفنا دیا گیا۔ چند روز بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے متعلق دریافت کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو بتایا گیا کہ وہ تو فوت ہو گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے مجھے اس کی اطلاع کیوں نہیں دی۔ مجھے اس کی قبر پر رہنمائی کرو۔ مشکوٰۃ (۱۶۰۹) ۱/۵۲۳۔ اس حدیث صحیح سے معلوم ہوا کہ یہ سارا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ذاتِ گرامی پر مخفی رہا۔ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعمال اُمت کو پیش کرنے والی بات درست ہوتی تو یہ معاملہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر کبھی بھی مخفی نہ رہتا۔ اسی طرح سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کو جب حدیبیہ کے موقع پر سفیر بناکر بھیجا گیا تو ان کا معاملہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے اوجھل رہا۔ لہٰذا جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر اعمال پیش نہیں کئے گئے تو آ پ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد یہ عقیدہ رکھنا کہ ہمارے اعمال آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پیش کئے جاتے ہیں اور اعمالِ صالحہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم خوش ہوتے ہیں اور اعمال سیۂ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دُعا کرتے ہیں اور اسی طرح اعزاء وا قارب کے بارے میں ایسا عقیدہ درست نہیں ہے۔
 

Aamir

خاص رکن
شمولیت
مارچ 16، 2011
پیغامات
13,382
ری ایکشن اسکور
17,097
پوائنٹ
1,033
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں (رضٰ اللہ عنہُن ) کی تعداد


س: کیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہما سے صرف ایک بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہما تھیں یا کہ زینب ، رقیہ ، اُم کلثوم رضی اللہ عنہا بھی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا سے تھیں؟ قرآن و سنت اور شیعہ و سنی ہر دو مکتب فکر کی کتب سے وضاحت کردیں۔

ج : رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ۲۵ برس کی عمر میں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہاسے شادی ہوئی اور بعثت سے قبل سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کے بطن سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین بیٹیاں زینب، رُقیہ، اُم کلثوم رضی اللہ عنہُن پیدا ہوئیں اور بعثت کے بعد سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنھا پیدا ہوئیں۔ سیدہ زینب رضی اللہ عنھا کا نکاح آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو العاص بن ربیع رضی اللہ عنہما سے کیا۔ رقیہ رضی اللہ عنھا اور اُم کلثوم رضٰ اللہ عنھا کا نکاح بالترتیب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے کیا۔ تیسری صدی ہجری تک کسی بھی شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مذکورہ بالا چاروں بیٹیوں میں سے کسی ایک کا بھی انکار نہیں کیا اور فریقین کی معتبر کتب میں اِن بنات کا تذکرہ موجود ہے۔

چوتھی صدی ہجری میں ایک غالی شیعہ ابو القاسم علی بن احمد بن موسیٰ المتوفی ۳۵۲ھ نے اپنی بدنامِ زمانہ کتاب ’’الا ستغا ثۃ فی بدع الثلاثۃ‘‘میں اس بات کا انکار کیا اور کہا کہ یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی حقیقی بیٹیاں نہیں تھیں بلکہ ربیبہ بیٹیاں تھیں۔ حالانکہ سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھاکا پہلا نکاح عتیق بن عائز مخزومی سے ہوا اور اس سے ایک لڑکی ہندہ پیدا ہوئی ۔ پھر اس کے بعد دوسرا نکاح ابو ھالہ تمیمی سے ہوا جس سے ایک لڑکا ہند اور ایک لڑکی ہالہ پیدا ہوئی اور اس کے بعد پھر آپ رضی تعالیٰ عنھا ، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نکاح میں آئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کی چار بیٹیاں زینب ، رُقیہ ، اُم کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہا پیدا ہوئیں۔ نسب کی یہ تفصیل کتاب نسب قریش ص ۳۳، ص۲۲۸کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ‘ عمدۃ الطالب فی انساب آل ابی طالب اور جمھرۃ الانساب وغیرہ میں موجود ہے۔اس سے معلوم ہوا سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کی اپنے پہلے خاندوں سے زنیب ، رُقیہ اور اُم کلثوم (رضی اللہ عنہا ) نامی کوئی بیٹی نہیں ۔ یہ شیعہ کا دجل اور ان کی تلبیس ہے۔
لیکن شیعہ محدثین میں سے مشہور شیعہ عبداللہ مامقانی نے اپنی کتاب ’’تنقیح المقال‘‘ ص ۷۹ پر ابو القاسم کو فی کی اس بات کا رد کیا ہے۔ (تنقیح المقال شیعہ کے رجال پر بڑی معروف کتاب ہے)۔

چنانچہ عبداللہ مامقانی شیعہ نے ۷۹ پر لکھا ہے:
’’ابو القاسم کو فی کا ’’الاستغاثۃ فی بدع الثلاثۃ‘‘ میں یہ قول کہ زینب اور رقیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں نہیں تھیں بلکہ ربیبہ تھیں۔ قولِ بلا دلیل ہے۔ یہ ابو القاسم کی اپنے رائے محض ہے۔ جس کی حیثیت نصوص کے مقابلہ میں مکڑی کے جالے کے برابر بھی نہیں ۔ کتب فریقین میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیوں پر نصوص موجود ہیں اور شیعوں کے پاس اپنے ائمہ کے اقوال موجود ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار بیٹیاں تھیں۔‘‘

یہ بات بھی یاد رہے کہ اکثر علمائے شیعہ نے ابو القاسم شیعہ کی ہفوات پر نقد کیا ہے بلکہ اسے بے دین قرار دیا ہے جیسا کہ معروف شیعہ عالم شیخ عباس قمی نے ’’تتمہ المنتھٰی ص ۲۹ پر لکھا ہے۔‘‘
’’ابو القاسم کو فی علی بن احمد بن موسی وفت یافت و اودر آخر عمر مذھبش فاسد شدہ بود و کتابھا بسیار تالیف کردہ انداز کتابھائے ابوالقاسم کو فی کتاب الاستغاثۃ است‘‘
ابو القام کوفی جب فوت ہوا تو آخری عمر میں اس کا مذہب فاسد ہو گیا تھااور اس نے کئی کتابیں تالیف کی ہیں۔ اس کی کتابوں میں سے ایک کتاب "استغاثہ" بھی ہے۔
اس سے معلوم ہوا کہ ابو القاسم کوفی جو غالی شیعہ تھا اور کئی فساد پر مبنی کتابوں کا مصنف تھا اس نے سب سے پہلے بنات الرسول صلی اللہ علیہ وسلم کا انکار کیا۔ پھر اس کی پیروی میں بعد والے شیعوں نے انکار کیا حالانکہ قرآن مجید ، کتب احادیث اور فریقین کی کتب سے یہ بات تواتر کی حد تک ثابت ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا سے چار بیٹیاں تولد ہوئیں ۔ اب نصوص ملاحظہ کریں:
’’اے نبی ( صلی اللہ علیہ وسلم )اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں اور مومنوں کی عورتوں سے کہہ دیں کہ وہ اپنے اوپر اپنی بڑی چادریں لٹکا لیا کریں۔ یہ قریب تر ہے کہ وہ پہنچانی جائیں۔پس وہ ایذا نہ دی جائیں اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘(الاحزاب : ۵۹)

اِس آیت کریمہ میں لفظ ازواج ، زوجہ کی ، بنات، بنت کی اور نساء ، امراۃ کی جمع ہے اور جمع کا اطلاق کم از کم تین پر ہوتا ہے اور اس آیت سے یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیاں تین سے زائد تھیں اور فریقین کی کتب سے اس بات کا تعین ہو جاتاہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹیوں کی تعداد چار ہے۔
قرآن کی اس آیت میں پردے کے احکام بیان کئے جا رہے ہیں اور احکام شرعیہ کا مُکلف بالغ ہوتا ہے ، اس سے معلوم ہوا کہ نزول آیت کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین سے زائد بالغ بیٹیاں موجود تھیں جنہیں پردے کا حکم دیا گیا ہے۔
اہل سنت کے ہاں تو یہ بات متفقہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی چار صاحبزادیاں سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا کے بطن سے تھیں۔ اس لئے اہل سنت کے حوالے نقل کرنے کی چنداں ضرورت نہیں۔ جو لوگ اس بات کے منکر ہیں ، ہم اُن کی معتبر کتابوں کے حوالوں پر اکتفا کرتے ہیں۔

۱) عبداللہ مامقانی شیعہ اپنی کتاب ’’تنقیح المقال فی احوال الرجال‘‘ ص ۷۷ طبع نجف میں رقمطراز ہے:
بے شک فریقین کی کتب اس بات سے بھری پڑی ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا سے چار بیٹیاں زینب ، اُم کلثوم، فاطمہ اور رقیہ رضی اللہ عنہُن پیدا ہوئیں اور انہوں نے اسلام کو پایا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ہجرت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کی۔
۲) مشہور شیعہ محدث محمد بن یعقوب کلینی نے ’’اصول کافی‘‘ باب التاریخ ص ۲۷۸ پر لکھا ہے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ۲۵ برس کی عمر میں خدیجہ رضی اللہ عنھا سے شادی کی اور خدیجہ رضی اللہ عنھا سے بعثت سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ایک بیٹا قاسم اور تین بیٹیاں رقیہ، زینب اور اُم کلثوم رضی اللہ عنہُن پیدا ہوئیں اور بعثت کے بعد طیب ، طاہر اور فاطمہ پیدا ہوئے۔
۳) شیخ صدوق نے اپنی کتاب ’’خصال ‘‘۲/۱۸۶ پر لکھا ہے:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے حمیرا (عائشہ رضی اللہ عنھا) بے شک اللہ تعالیٰ نے بچے دینے والی میں برکت رکھی ہے ۔ خدیجہ رضی اللہ عنھا نے مجھ سے طاہر کو جنم دیا اور وہ عبداللہ اور مہطر ہے اور اس نے مجھ سے قاسم ، فاطمہ، رقیہ اُمِ کلثوم اور زینب (رضی الہ عنہم) کو جنم دیا۔
اس حوالہ سے یہ بات معلوم ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خود اپنی چار بیٹیوں کا اقرار کر رہے ہیں جو سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا سے ہیں۔
۴) "مناقب" اِبن شہر آشوب ۱/۱۶۱ میں ہے:
آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدیجہ سے اولاد قاسم اور عبداللہ (رضی اللہ عنہما) تھی اور وہ دونوں طاہر و طیب تھے اور چار بیٹیاں زینب ، رقیہ ، اُم کلثوم اور فاطمہ رضی اللہ عنہا تھیں۔
۵) "تذکرۃ المعصومین) ص ۶ میں ہے:
جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر ۲۰ برس سے کچھ زائد تھی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خدیجہ رضی اللہ عنھا سے نکاح کیا اور بعثت سے پہلے خدیجہ رضی اللہ عنھا سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تین بیٹیاں رُقیہ، اُمِ کلثوم اور زینب رضی اللہ عنہُن تھیں۔
۶) شیعہ کی معروف ترین کتاب تحفۃ العوام ۱۱۶ پر ہے۔
اے اللہ اپنے نبی کی بیٹی رُقیہ رضی اللہ عنھا پر رحمت نازل فرما اور جس نے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس بارے میں تکلیف دی ، اُس کو لعنت کر۔ اے اللہ اپنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی اُم کلثوم رضی اللہ عنھا پر رحمت نازل فرما اورجس نے تیرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کو اس کے بارے میں تکلیف دی اس پر لعنت کر۔


اس کے علاوہ شیعہ مذہب کی معتبر کتب حیاۃ القلوب ، جلاء العیون، تھذیب الاحکام ، الاستبصار، مراء ۃ العقول ، فروع کا فی، صافی شرح کافی، کشف الغمۃ، قرب الاسناد، مجالس المومنین ، اعلام الوری، منتخب التواریخ ، مناقب آل ابی طالب ، امالی شیخ طوسی، رجال کشی اور انوار نعمانیۃ وغیرہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنھا سے چار بیٹیوں کا ذکر موجود ہے۔
 
Top